Hmayu
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
بیوی شوہر اور وہ
امریکی ریاست لاس ویگاس کے مضافات میں ایک چھوٹا سا لیکن نہایت خوشحال ٹاؤن جانسن ولیج تھا یہاں کے لوگ نہایت وجیہہ اور لمبے قد کاٹھ کے مالک تھے زیادہ تر آبادیوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا لیکن چند ایک خاندان فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ تھے انہیں میں ایک متناسب قد کا لیکن سنہرے بالوں والا لیری بھی رہتا تھا اور فرنیچر کی ایک چھوٹی سی فرم میں ملازم تھی
اس کی بیوی جس کا نام ڈی تھا وہ قریبی شہر بوگارڈو ٹاؤن میں ایک امپورٹ ایکسپورٹ کے مرکز میں برانچ مینجر کی پرسنل سیکرٹری کے طور پر کام کرتی تھی ڈی کا فگر بہت کمال کا تھا سرخی مائل گورے گورے گال،باریک اور پتلے پتلے ہونٹ جو کہ ڈی کے حسن کے مترجم لگتے تھے34 سائز کے ممے اور بھرے بھرے جسم کے ساتھ وہ بہت گریس فل لگتی تھی ہر وقت اپنے باس کے ملحقہ کیبن میں موجود رہتی تھی اور تمام ملاقاتوں اور فون کالز کو اٹینڈ کرتی تھی اور باس کا سارا پیپر ورک بھی سنبھالتی تھی اس کا باس جس کا نام وکٹر تھا ایک نہایت کالا حبشی تھا جو کہ ڈی کی سہیلی بوبی کا بوائے فرینڈ بھی تھا اور ڈی کو بوبی نے ہی یہاں جاب دلوائی تھی ڈی اور لیری ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ایک چیز جس کی وجہ سے ڈی ہمیشہ پریشان رہتی تھی کہ لیری کا لنڈ جو کہ بہت بڑا نہیں تھا لیکن ڈی کی آگ نہیں بجھا پاتا تھا جب بھی لیری کا موڈ ہوتا وہ تھوڑا کسنگ کرنے کے بعد ڈی کی پھدی میں ڈال کر 3 منٹ جھٹکے مارتا اور اپنا پانی نکال کر سائیڈ پر ہو کر سو جاتا اور ڈی اپنی ہی آگ میں جلتی ہوئی اٹھ کر واش روم میں چلی جاتی اور اپنی پھدی کو شاور کے ساتھ دھوتے وقت فنگرز کے ساتھ مسلنا شروع کر دیتی اور تھوڑی دیر میں فارغ ہو کر کچھ شانت ہو جاتی لیکن سیکس کی پیاس نا بجھتی ہر دفعہ یہی ہوتا تھا اور ڈی بے چین رہنے لگی ہر وقت پریشانی اس کے چہرے سے جھلکنے لگی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے کیسے اس آگ کو سرد کرے۔۔
وہ سنیچر کی شام تھی لیری بہت موڈ میں تھا دونوں نے مل کر اپنے گھر کے لان میں باربی کیو لگانے شروع کر دیے اتنے میں بوبی اچانک گھر میں داخل ہوتی ہے اور ہوا میں پھیلی ہوئی باربی کیو کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے زور سے نعرہ مارتی ہے کہ مجھے بتایا بھی نہیں اور اکیلے اکیلے پارٹی کی جا رہی ہے۔۔ ڈی اور لیری بوبی کو ویلکم کرتے ہوئے گلے لگاتے ہیں بوبی کو گلے لگاتے ہی لیری کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں کیونکہ بوبی اپنے 36 سائز کے ممے لیری کے سینے پر مسلتی ہے لیری بہت حیران ہوتا ہے اور ڈی کی طرف دیکھتا ہے لیکن ڈی کو باربی کیو کی طرف متوجہ پا کر دوبارہ بوبی کو دیکھتا ہے تو بوبی جو کہ اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے اور ساتھ پڑی ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہےاور ڈی کا حال احوال پوچھنے لگتی ہے ادھر لیری کا برا حال ہوتا ہے اور وہ دل میں کہتا ہے کہ کتے کی بچی میرے اندر آگ لگا گئی ہے آج لیری پہلی دفعہ بوبی کو نہایت غور سے اور ایک الگ نظر سے دیکھنا شروع کرتا ہے بوبی کے ممے اس کی جسامت کے لحاظ سے کافی بڑے محسوس ہو رہے تھے کیونکہ بوبی خود تو دھان پان سی لگتی ہے لیکن اس کے ممےقیامت تھے قیامت لیری کا دل کیا کہ ابھی ان مموں کو اپنے منہ میں لیکر ان کا سارا دودھ پی جائے لیکن ڈی کا خیال دل میں رکھتے ہوئے وہ فوراً گھر کے اندر چلا گیا اور سیدھا واش روم میں جا کر اپنا لن باہر نکالا اور جلدی جلدی ہاتھ سے مسلنے لگا اور کچھ ہی دیر میں منی کی دھاریں نکلنے لگیں اور لیری پر سکون ہوتا چلا گیا فریش ہو کر وہ باہر آتا ہے تو بوبی کو نا پا کر ڈی سے بوبی کے متعلق پوچھتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ اپنے گھر چلی گئی ہے لیری کہتا ہے کہ اس کو کھانے پر ہی روک لیتی تو ڈی نے بتایا کہ آج اس کے مام ڈیڈ کسی کو ملنے فلاڈلفیا گئے ہوئے ہیں تو گھر کو زیادہ دیر خالی نہیں چھوڑ سکتی تھی اس لیے وہ چلی گئی لیری کے دماغ میں اچانک ایک خیال آتا ہے کہ آج بوبی گھر میں اکیلی ہے اور آج ہی اس کا یوں میرے ساتھ اپنے ممے رگڑنا کہیں کوئی اشارہ تو نہیں تھا میرے لیے
آخر کار وہ دل میں ایک فیصلہ کر لیتا ہے کچھ ہی دیر بعد وہ کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کھانا کھا کر لیری ڈی کو بولتا ہے ڈی مجھے ایک ضروری کام سے بوگارڈو ٹاؤن جانا ہے میں دو سے تین گھنٹے میں واپس آؤں گا تم اتنی دیر تھوڑا ریسٹ کر لو پھر کہیں باہر گھومنے چلیں گے اور گھر سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چل پڑتا ہے اور 30 منٹ میں وہ بوگارڈو ٹاؤن میں بوبی کے دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجا رہا ہوتا ہے بوبی دروازہ کھولتی ہے اور لیری کو موجود پا کر معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اندر آنے کو کہتی ہے اندر جا کر وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہیں اور بوبی ڈرنکس بنا کر لے آتی ہے اور چسکیاں لیتے ہوئے
امریکی ریاست لاس ویگاس کے مضافات میں ایک چھوٹا سا لیکن نہایت خوشحال ٹاؤن جانسن ولیج تھا یہاں کے لوگ نہایت وجیہہ اور لمبے قد کاٹھ کے مالک تھے زیادہ تر آبادیوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا لیکن چند ایک خاندان فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ تھے انہیں میں ایک متناسب قد کا لیکن سنہرے بالوں والا لیری بھی رہتا تھا اور فرنیچر کی ایک چھوٹی سی فرم میں ملازم تھی
اس کی بیوی جس کا نام ڈی تھا وہ قریبی شہر بوگارڈو ٹاؤن میں ایک امپورٹ ایکسپورٹ کے مرکز میں برانچ مینجر کی پرسنل سیکرٹری کے طور پر کام کرتی تھی ڈی کا فگر بہت کمال کا تھا سرخی مائل گورے گورے گال،باریک اور پتلے پتلے ہونٹ جو کہ ڈی کے حسن کے مترجم لگتے تھے34 سائز کے ممے اور بھرے بھرے جسم کے ساتھ وہ بہت گریس فل لگتی تھی ہر وقت اپنے باس کے ملحقہ کیبن میں موجود رہتی تھی اور تمام ملاقاتوں اور فون کالز کو اٹینڈ کرتی تھی اور باس کا سارا پیپر ورک بھی سنبھالتی تھی اس کا باس جس کا نام وکٹر تھا ایک نہایت کالا حبشی تھا جو کہ ڈی کی سہیلی بوبی کا بوائے فرینڈ بھی تھا اور ڈی کو بوبی نے ہی یہاں جاب دلوائی تھی ڈی اور لیری ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ایک چیز جس کی وجہ سے ڈی ہمیشہ پریشان رہتی تھی کہ لیری کا لنڈ جو کہ بہت بڑا نہیں تھا لیکن ڈی کی آگ نہیں بجھا پاتا تھا جب بھی لیری کا موڈ ہوتا وہ تھوڑا کسنگ کرنے کے بعد ڈی کی پھدی میں ڈال کر 3 منٹ جھٹکے مارتا اور اپنا پانی نکال کر سائیڈ پر ہو کر سو جاتا اور ڈی اپنی ہی آگ میں جلتی ہوئی اٹھ کر واش روم میں چلی جاتی اور اپنی پھدی کو شاور کے ساتھ دھوتے وقت فنگرز کے ساتھ مسلنا شروع کر دیتی اور تھوڑی دیر میں فارغ ہو کر کچھ شانت ہو جاتی لیکن سیکس کی پیاس نا بجھتی ہر دفعہ یہی ہوتا تھا اور ڈی بے چین رہنے لگی ہر وقت پریشانی اس کے چہرے سے جھلکنے لگی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے کیسے اس آگ کو سرد کرے۔۔
وہ سنیچر کی شام تھی لیری بہت موڈ میں تھا دونوں نے مل کر اپنے گھر کے لان میں باربی کیو لگانے شروع کر دیے اتنے میں بوبی اچانک گھر میں داخل ہوتی ہے اور ہوا میں پھیلی ہوئی باربی کیو کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے زور سے نعرہ مارتی ہے کہ مجھے بتایا بھی نہیں اور اکیلے اکیلے پارٹی کی جا رہی ہے۔۔ ڈی اور لیری بوبی کو ویلکم کرتے ہوئے گلے لگاتے ہیں بوبی کو گلے لگاتے ہی لیری کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں کیونکہ بوبی اپنے 36 سائز کے ممے لیری کے سینے پر مسلتی ہے لیری بہت حیران ہوتا ہے اور ڈی کی طرف دیکھتا ہے لیکن ڈی کو باربی کیو کی طرف متوجہ پا کر دوبارہ بوبی کو دیکھتا ہے تو بوبی جو کہ اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے اور ساتھ پڑی ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہےاور ڈی کا حال احوال پوچھنے لگتی ہے ادھر لیری کا برا حال ہوتا ہے اور وہ دل میں کہتا ہے کہ کتے کی بچی میرے اندر آگ لگا گئی ہے آج لیری پہلی دفعہ بوبی کو نہایت غور سے اور ایک الگ نظر سے دیکھنا شروع کرتا ہے بوبی کے ممے اس کی جسامت کے لحاظ سے کافی بڑے محسوس ہو رہے تھے کیونکہ بوبی خود تو دھان پان سی لگتی ہے لیکن اس کے ممےقیامت تھے قیامت لیری کا دل کیا کہ ابھی ان مموں کو اپنے منہ میں لیکر ان کا سارا دودھ پی جائے لیکن ڈی کا خیال دل میں رکھتے ہوئے وہ فوراً گھر کے اندر چلا گیا اور سیدھا واش روم میں جا کر اپنا لن باہر نکالا اور جلدی جلدی ہاتھ سے مسلنے لگا اور کچھ ہی دیر میں منی کی دھاریں نکلنے لگیں اور لیری پر سکون ہوتا چلا گیا فریش ہو کر وہ باہر آتا ہے تو بوبی کو نا پا کر ڈی سے بوبی کے متعلق پوچھتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ اپنے گھر چلی گئی ہے لیری کہتا ہے کہ اس کو کھانے پر ہی روک لیتی تو ڈی نے بتایا کہ آج اس کے مام ڈیڈ کسی کو ملنے فلاڈلفیا گئے ہوئے ہیں تو گھر کو زیادہ دیر خالی نہیں چھوڑ سکتی تھی اس لیے وہ چلی گئی لیری کے دماغ میں اچانک ایک خیال آتا ہے کہ آج بوبی گھر میں اکیلی ہے اور آج ہی اس کا یوں میرے ساتھ اپنے ممے رگڑنا کہیں کوئی اشارہ تو نہیں تھا میرے لیے
آخر کار وہ دل میں ایک فیصلہ کر لیتا ہے کچھ ہی دیر بعد وہ کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کھانا کھا کر لیری ڈی کو بولتا ہے ڈی مجھے ایک ضروری کام سے بوگارڈو ٹاؤن جانا ہے میں دو سے تین گھنٹے میں واپس آؤں گا تم اتنی دیر تھوڑا ریسٹ کر لو پھر کہیں باہر گھومنے چلیں گے اور گھر سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چل پڑتا ہے اور 30 منٹ میں وہ بوگارڈو ٹاؤن میں بوبی کے دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجا رہا ہوتا ہے بوبی دروازہ کھولتی ہے اور لیری کو موجود پا کر معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اندر آنے کو کہتی ہے اندر جا کر وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہیں اور بوبی ڈرنکس بنا کر لے آتی ہے اور چسکیاں لیتے ہوئے