Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Family بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان

Dom bess

Well-known member
Joined
Jan 28, 2023
Messages
111
Reaction score
8,452
Points
93
Location
Multan
Offline
میرا نام ساجد ہے میں شہر کے ساتھ ہی ملے ایک قصبے کا رہائشی ہوں جو پہلے تو شہر سے الگ تھا پر ابادی بڑھنے سے اب شہر کا حصہ بن چکا ہے میرا وہیں قصبے میں جنرل سٹور ہے میری عمر 50 سال کے قریب ہے لیکن اچھی خوراک اور اچھی روٹین سے میری عمر 40 سے زیادہ نہیں لگتی میں شادی شدہ ہوں میری بیوی کا نام عارفہ ہے میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے سب سے بڑی بیٹی کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال ہے نصرت سے چھوٹی جویریہ کی عمر 27 سال ہے اس سے چھوٹی مدیحہ کی عمر 24 سال ہے سب سے چھوٹا میرا بیٹا کامران ہے کامی کی عمر 22 سال ہے نصرت اور جویریہ کی عمر میں ایک سال کا فرق ہے لیکن دونوں ایک جیسی لگتی ہیں نصرت اور جویریہ دونوں ماسٹر کر چکی ہیں اور قصبے میں ایک پرائیویٹ سکول پڑھاتی ہیں دونوں بہت ہی با حیا اور با پردہ ہیں کبھی گھر میں بھی ان کا دوپٹہ نہیں اترا تھا مدیحہ کالج میں بی اے کر رہی ہے جبکہ کامی میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر آوارہ گرد ہو گیا میں نے بعد میں اسے ساتھ دکان پر ہی رکھ لیا اس کا محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزرتا تھا میں بھی کوئی شریف تو نا تھا عارفہ میری بیوی چار بچے پیدا کرکے میرے قابل تو نا رہی تھی اس لیے میں ادھر ادھر منہ مارنے لگا جس کی مجھے پر پڑ گئی اور میں اس کام میں بہت ہی زیادہ پڑ گیا روز میں نئی نئی جوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتا کیونکہ میری آگ اب جوان لڑکی ہی بجھا سکتی تھی جس کی وجہ سے میری دکان جو پہلے بہت چلتی تھی اب اس سے آمدن کم ہو گئی جو نکلتا میں نئی نئی مشوقوں کو کھلا دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ گھر کی طرف میرا دھیان کم ہو گیا میں اپنی زندگی میں مست رہا اور پتا ہی نا چلا وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ میری بیٹیاں بھرپور جوان ہو گئیں اور شادی کی عمر کو پہنچ گئیں تھیں میری عیاشی کی وجہ سے جانی بھی میرے نقش قدم پر تھا پر عارفہ نے بیٹیوں کو سنبھال کر ان کی تربیت سہی بڑے اچھے انداز میں کی تھی جس سے تینوں بیٹیاں بہت باحیا اور پردہ دار تھیں لیکن شادی کی عمر کو پہنچ کر بھی غیر شادی شدہ تھیں اس کی وجہ میری عیاشی کی وجہ سے گھر کے حالات اتنے اچھے نا تھے جس سے جو بھی رشتہ آتا ان کی ڈیمانڈ پوری کرنا بس میں نا ہوتا تو انکار ہوتا اس کے باوجود بھی میری بیٹیاں اپنی حد سے باہر نا نکلیں کبھی انہوں نے گھر کی حد پھلانگنے کا سوچا بھی نہیں تھا نصرت اور جویریہ گھر کا خرچ چلانے کےلیے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں ایک طرح سے گھر کو چلا ہی نصرت اور جویریہ رہی تھیں نصرت سب سے بڑی تھی اس لیے اس نے گھر کا سارا نظام سنبھالا ہوا تھا نصرت بہت سمجھدار اور رکھ رکھاؤ والی لڑکی تھی گھر کا سارا نظام اور سارے انتظامات اس کے ذمے ہی تھے ایک طرح سے وہ گھر کی بڑی بن گئی تھی گھر میں اس کا ہی حکم چلتا تھا دن گزر رہے تھے عارفہ ان کی شادیوں کو کے کر پریشان تھی کہ عمر گزری جا رہی ہے جلد سے جلد شادی ہو جائے پر ابھی تک کوئی امید نہیں لگی تھی نصرت اور جویریہ تو اب کافی بڑی لگتی تھیں شادی کی امید نا ہونے کے باوجود بھی کبھی حد سے نہیں گزریں نا کبھی ان کے بارے میں کوئی غلط بات سنی میری بیٹیوں نے اپنی عزت کو بچا کر رکھا ہوا تھا خیر دن گزر رہے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے اور سکول سے چھٹیاں تھیں جس کی وجہ سے نصرت اور جویریہ بھی اب گھر ہی ہوتی تھیں گھر میں ہی بچوں کو پڑھاتی تھیں گرمیوں کی وجہ سے دکان پر کسی عورت کے ساتھ چدائی کا بھی موقع کم ملتا تھا اس لیے کافی دن ہوگئے ہوئی شکار نہیں ملا تھا اس لیے شہوت عروج پر تھی بڑی کوشش کے بعد بھی کوئی عورت قابو نا آئی عجیب صورتحال تھی پر میں بھی خود کو قابو کر کے گزارہ کر رہا تھا دوپہر کا کھانا اکثر گھر ہی کھانے آتا تھا ایک دن دوپہر کو گھر آیا عارفہ صحن میں ہی بیٹھی تھی میں واشروم چلا گیا واشروم سے نکلا تو سامنے برآمدے میں میری نظر پڑی تو میں چونک گیا سامنے برآمدے میں میری بڑی بیٹی نصرت فرج کا دروازہ کھول کر کھڑی تھی نصرت سائیڈ سے مجھے نظر آرہی تھی میں تو اسے دیکھ کر چونک ہی گیا آج پہلی بار میں نے اپنی بیٹی کو بغیر دوپٹے کے دیکھا تھا میں تو دیکھتا ہی رہ گیا میری بیٹی نصرت کا جسم تو قیامت خیز تھا نصرت نے ایک کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جس نے میر بیٹی نصرت کا جسم کا کر دبا رکھا تھا نصرت کا انگ انگ نظر آرہا تھا نصرت کے ممے تو کافی موٹے اور تن کر ہوا میں اکڑے ہوئے تھے ہوا میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے میں نے نصرت کے پورے جسم پر نظر گھما کر نصرت کے جسم کا جائزہ لیا تو نصرت کا جسم بہت ہی سیکسی تھا میرے ذہن پر تو شہوت سوار تھی مجھے کچھ نا سمجھ تھی کہ میں اپنی بیٹی کو ہی شہوت بھری نظروں سے غور رہا ہوں میری نظر نیچے پڑی تو نصرت کی موٹی باہر کو نکلی گانڈ قیامت ڈھا رہی تھی نصرت کی شلوار پنڈلیوں سے اوپر تھی اور نصرت کی گوری پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں میں نے نظر گھما کر نصرت کے پورے بدن کا جائزہ لے رہا تھا عارفہ باہر بیٹھی تھی اس نے مجھے کیچن سے نکلتا دیکھا اور بولی ساجی فریج وچو برف پٹ دے جمی پئی اے میں اسے دیکھ کر چونکا اور اپنے حواس میں آیا میرا دل تو اپنی سگی بیٹی کا اتنا شاندار سیکسی جسم دیکھ کر مچل کر دھک دھک کر رہا تھا میں اسے دیکھا اور بولا ہلا اور اندر برآمدے میں چلا گیا نصرت شاید برف نکالنے میں مگن تھی اسے پتا نہیں چلا میں جیسے ہی اندر برآمدے میں داخل ہوا تو نصرت برف والے برتن پر زور زور سے مکے مار کر اسے اکھڑنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں تن کر اکڑ کر کھڑے موٹے ممے ہل رہے تھے مموں کو ہلتا دیکھ کر میں مچل گیا اور میں گہر نظروں سے نصرت کے موٹے مموں کو غور رہا تھا میری نظر نصرت کے جسم کو ٹٹول رہی تھی اسی لمحے میری دوسری بیٹی جویریہ اندر کمرے سے نکلی اور سامنے مجھے نصرت کے بدن کو صورت دیکھ کر رک گئی میں نصرت کے تنے مموں کو ہلتا دیکھ کر بڑے انہماک سے دیکھتا ہوا نصرت کی طرف بڑھ رہا تھا اس لمحے نصرت کو بھی کوئی اپنی طرف آتا محسوس ہوا تو وہ مڑی اور سامنے مجھے اپنے قمیض میں کسے ہوئے ہوا میں تن کر کھڑے مموں کو غورتا دیکھ کر چونک گئی اور منہ نیچے کرکے اپنے مموں کو دیکھا نصرت کے میری طرف مڑنے سے نصرت کی تنی ہوئی چھاتیوں میرے سامنے ہو گئیں جس سے نصرت کے تنے ہوئے مموں کی ہلکی سی لکیر نظر آرہی تھی میں نصرت کا گورا چمکتا سینہ دیکھ کر مچل گیا نصرت کبھی بھی میرے سامنے دوپٹے کے بغیر نہیں آئہ تھی آج یوں سرعام اپنے باپ کے سامنے اپنے بدن کے نظر آتے انگ انگ کو واضع ہونے پر شرما سی گئی دروازے میں کھڑی جویریہ بھی مجھے نصرت کے ممے غورتا دیکھ کر چونک گئی تھی وہ بھی حیران تھی کہ میں ان کا سگا باپ ہوکر اپنی بیٹی کو گندی سے تاڑ رہا ہوں میرے ہن پر تو اسوقت شہوت سوار تھی اور ویسے بھی بازار عورتوں کو چود چود کر میرا ذہن بہت ہی گندہ ہو چکا تھا میرے لیے تو بس اس میں مزہ تھا رشتوں کا تقدس میں تو اسوقت بھول چکا تھا نصرت کا چہرہ اپنے مموں کو میرے گھورنے پر لال سا ہوگیا نصرت گھبرا سی گئی خود کو میرے سامنے بغیر دوپٹے کے لیکن وہ شرم کے مارے ہٹ بھی نہیں سکتی تھی میں نصرت کے مموں کو تاڑتا ہوا قریب پہنچ گیا تھا میری نظر دروازے میں کھڑی جویریہ پر پڑی جو حیرت سے پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی کہ ابو کو کیا ہوا ہے اپنی بیٹیوں کا لحاظ ہی بھوک گیا ہے جو یوں اپنی بیٹی نصرت کے جسم کو توڑ رہا ہے میں جویریہ کے دیکھنے پر چونک کر نظر ہٹا لی اور نصرت کی طرف دیکھا تو وہ منہ جھکائے لال ٹماٹر کی طرح کھڑی تھی میں بھی سمجھ گیا کہ اس نے مجھے اپنے ممے تاڑتے ہوئے دیکھ لیا ہے میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوگیا اور خود کو کوستا کہ ساجی توں بھی بے غیرت ہی ہوگیا ہے اگر باہر پھدی نہیں ملے گی تو اپنی بیٹیوں پر ہی گندی نظریں ڈالے گا میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوگیا میرا منہ لال ہوگیا اتنے میں باہر سے عارفہ اندر آئی اور بولی ساجی برف پٹ وی دے چھویر نوں میں چونکا اور شرمندگی سے اپنا ہاتھ اٹھا کر برف کے کولے پرڈالا میرا ہاتھ کانپ رہا تھا میں شرمندگی اور بیٹی کے جسم کو دیکھ کر کانپ گیا تھا نصرت ابھی بھی پاس ہی کھڑی تھی میں نے زور لگانا چاہا پر مجھ سے زور نہیں لگا پتا نہیں میرا سارا زور ہی نکل گیا تھا میری بیٹی نصرت پاس ہی کھڑی لال منہ سے مجھے برف نکالتا دیکھ رہی تھی میں برف نکالنے کی کوشش کر رہا تھا پر مجھ سے زور نہیں لگایا جا رہا تھا اتنے میں عارفہ بولی لگدا برف ڈھیر ہی جم گئی ہے اور نصرت سے بولی نصرت توں وی اگاں ہوکے پیو نوں زور مروا کے بعد پٹوا لگدا کولا جم گیا ہے نصرت چونکی اور بولا ہلا امی اور میرے تھوڑا سا قریب ہوئی اور بولی ابو مینوں وی ہتھ رکھن دیو میں نے مڑ کر نصرت کے چہرے کو دیکھا نصرت کی نظر نہ ی تھی اور چہرے پر شرمندگی ابھی بھی تھی میری نظر بے اختیار میری بیٹی نصرت کے تنے ہوئے موٹے ہوا میں تن کر اکھڑے کھڑے اور قمیض میں کسے مموں پر پڑی نصرت کے موٹے مموں کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی میں نے ایک لمحے کےلیے اس کے مموں کی گوری لکیر کو دیکھا تو میری آنکھیں چمک سی گئی تھی میری آنکھوں کی چمک دور کھڑی میری بیوی نے بھی دیکھ کی تھی وہ سب سمجھ گئی کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں میں نے ایک نظر اپنی بیٹی کے مموں کا نظارہ کیا اور دروازہ کھول کر سائڈ ہوکر اپنا ایک ہاتھ برف والے کولے پر رکھ دیا اتنے میں نصرت آگے ہوئی اور مجھے دور ہی کھڑی ہوکر اپنا بایاں ہاتھ آگے کرکے کوکے پر رکھ دیا نصرت میرے اتنے قریب آگئی کہ نصرت کے جسم سے نکلتی جوانی کی گرم آگ مجھے صاف محسوس ہو رہی تھی نصرت کے جسم سے نکلتی جوانی کی اور پسینے کی بھینی بھینی خوشبو میرے ناک کو چڑھ کر مجھے بتا قابو کرنے لگی نصرت نے ہاتھ رکھ جھسا مارا جس سے نصرت ممے تیزی سے ہل گئے میں نے مڑ کر اپنی بیٹی نصرت کے مموں کو دیکھا تو نصرت اپنے مموں کو ہلتا دیکھ کر رک گئی میں نے اپنی بیٹی کے مموں کو دیکھ کر زور لگا دیا نصرت نے بھی آگے ہوکر زور لگا دیا فریج کا دروازہ اتنا تنگ تھا کہ ہم دونوں زور لگاتے قریب ہوگئے جس سے نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے اکڑے ہوئے ممے میرے بازو میں دب سے گئے جس سے میں اپنی بیٹی نصرت کے نرم ملائم مموں کا گرم لمس محسوس کرکے مچل سا گیا نصرت اپنے مموں پر میرے جسم کا لمس محسوس کرکے مچل کر کانپ گئی میرا کاندھے نے نصرت کے ممے کو کافی دبا سا دیا تھا جس سے نصرت کانپنے لگی اسی اثنا میں برف نکل آئی اور نصرت کی سسک بھی ساتھ ہی نکل گئی میں نے مڑ کر نصرت کو دیکھا تو وہ ہلکی ہلکی ہانپتی ہوئی برف پکڑ کر نظریں جھکائے جلدی سے مڑ گئی نصرت کا منہ رنگ اڑ سا گیا اور وہ جلدی سے برف کے کر کیچن کی طرف چل دی میں اس اپنی بیٹی نصرت کی لچکتی ہوئی باہر کو نکلی گانڈ کو دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اپنی بیوی عارفہ پر پڑی وہ مجھے دیکھ رہی تھی اس کی نظر مجھ سے ملی تو میں گھبرا گیا عارفہ گہری آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی میرے سے نظر ملنے پر وہ ہلکا سا مسکرا دی اور مڑ کر برآمدے سے نکل کر باہر چارپائی کی طرف چل دی اس کے جانے کے بعد میں نے خود کو سنبھالا تو میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اپنی بیٹی نصرت کی آگ سے بھری جوانی ک ہنس ابھی تک مجھے محسوس ہورہا تگا نصرت کے جسم سے نکلتی گرم بھاپ مجھے مدہوش کر رہی تھی میں ابھی اپنی بیٹی نصرت کے جسم کے خمار میں ڈوبا ہوا تھا کہ اتنے میں اندر سے میری تیسی بیٹی مدیحہ نکلی جو ابھی سو کر اٹھی تھی مدیحہ کے ہاتھ میں دوپٹہ تھا مجھے دیکھ کر اس نے جلدی سے دوپٹہ لے لیا مدیحہ کا جسم بھی کچھ کم ن تھ میں نے ایک نظارہ مدیحہ کے جسم کا بھی لے لیا مدیحہ جلدی سے باہر واشروم کی طرف چل دی میں بھی نصرت کے خمار سے نکل آیا تھا کیونکہ میری بیوی نے مجھے اپنی بیٹی کو یوں تاڑتے دیکھ لیا تھا میں تھوڑا سا گھبرایا کہ پتا نہیں عارفہ کیا کہے گی میں یہ سوچ کر باہر نکلا تو اتنے میں اندر سے جویریہ نکلی جوریہ کی نظر مجھ سے ملی تو اس نے نظر چرا لی جویریہ کے ہاتھ میں کھانا تھا میں عارفہ کے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گیا جویریہ نے کھانا رکھا اور بیٹھ کر مجھے ڈال دیا جوریہ اس وقت فل چادر میں لپٹی تھی میں بھی نظر جھکا کر بیٹھا تھا میں اور عارفہ کھانا کھانے لگے جبکہ نصرت جویریہ اور مدیحہ مل کر کھانا کھانے لگیں سب آج خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے میں بھی چپ تھا میری بیٹیوں کو میرے کردار کا پتا تھا انہیں یہ بھی پتا تھا کہ میں قصبے کی کس کس عورت اور لڑکی کو چودتا ہوں۔ لیکن پھر بھی کبھی انہوں نے مجھے جتایا نہیں نا میرے کردار پر کبھی بات کی ہمیشہ مجھے باپ کی جگہ رکھا اور سمجھا اور باپ کی طرح عزت بھی دیتی کبھی انہوں نے مجھ سے کبھی گلہ یا شکوہ نہیں کیا کہ مجھے ان کا خیال رکھنا چاہئیے حالانکہ دکان کی اکثر آمدن تو میں انہی عورتوں اور لڑکیوں کو ہی کھلا دیتا تھا لیکن پھر بھی کبھی انہوں نے شکوہ نہیں کیا وہ اس قابل تھیں کہ خود کما کر کھا رہی تھیں۔ میرے ساتھ تینوں بڑی اٹیچ تھیں نصرت تو میرے ساتھ بہت ہی فرینک تھی اکثر میرے ساتھ بہت مذاق کرتی تھی مجھے تنگ بھی بہت کرتی تھی جویریہ اور مدیحہ سے بھی زیادہ نصرت میرے ساتھ اٹیچ تھی نصرت مجھے پیار بھی بہت کرتی تھی نصرت کھانے پر بھی اکثر مجھے تنگ کرتی رہتی تھی نصرت اکثر میرے کردار پر بات کرتی تھی وہ کہتی تھی کہ ابو یوں ہر کسی کے ساتھ نا یہ کام کیا کرو وہ کافی سمجھدار اور ذہین تھی وہ اکثر کھل کر بات کرلیتی تھی نصرت مجھے کہتی تھی ابو توں اے زنا نا کیتا کر ابو تینوں جو سب تو زیادہ پسند لڑکی ہے توں اس نال نکاہ کر لئے میں اس کی۔ بات پر شرمندہ ہو جاتا کہ میری بیٹی مجھے کہ رہی ہے پر مجھ پر اثر نہیں ہوتا تھا نصرت تو مجھے کہتی تھی کہ ابو تم نکاہ کر لو ہماری فکر نا کرو ہم تو اپنا کما کر کھا رہی ہیں۔ ہمارہ گزارہ ہو جائے گا میں کبھی کبھی سوچتا کہ اس کی بات مان لوں پر جو مزہ زنا میں آتا تھا وہ کہیں نا تھا نصرت کو تو میرا سب پتا تھا نصرت میری بیٹی سے زیادہ میری دوست تھی اس نے آج تک اپنی کوئی بات مجھے نہیں بتائی پر مری ساری باتیں اسے پتا تھیں کون کون میرے ساتھ کب رنگ رلیاں مناتی یہ سب اس نے مجھ سے پوچھ لیا ہوا تھا پتا نہیں اس میں کیا جدو تھا کہ وہ ہر بات پوچھ لیتی تھی خیر میں نے کھانا کھایا اتنے میں کامی بھی آگیا آوارہ گردی کرکے قصبے کے تمام اوباشوں کے ساتھ اس کی دوستیاں تھیں اکثر کبھی کبھار گھر سے غائب بھی رہتا تھا اوباشوں کے ساتھ ہی رہتا تھا پتا نہیں کیا کرتا تھا کبھی کبھار دکان پر میرے ساتھ بیٹھ جاتا تھا کامی کی بہنیں بھی اسے چاہتی تھیں ان کا اکلوتا بھائی تھا بھائی تو پھر بہنوں کو پیارے ہوتے ہیں نصرت نے شروع میں اسے بڑا سمجھایا پر وہ نہیں سمجھا تو اس نے اس کے حال پر چھوڑ دیا لیکن اسے کبھی کہا کچھ نہیں شاید بہنوں کے لاڈ پیار نے ہی بگاڑا ہوا تھا کامی کا بھی اس کی بہنوں کو سب پتا تھا نصرت اس کے ساتھ بھی کافی آتی۔ تھی پر اس نے کبھی اسے روکا نہیں تھا برے کاموں سے ہر کسی کو اپنے بہن بھائی عزیز ہوتے ہیں کامی جیسا بھی تھا میری بیٹیوں کو اپنا بھائی بہت عزیز تھا ویسے بھی کامی اور کامی کے اوباش دوست انہیں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ مل کر زنا وغیرہ کرتے جو ان جیسی ہوتی تھیں کامی اور اس کے دوستوں نے کبھی کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا تھا اس لیے محلے والوں کو ان سے کوئی اعتراض نہیں تھا کامی آیا تو نصرت نے اسے کھانا دیا باقی سب لوگ کھانے کھا کر جا چکے تھے اسوقت وہاں کوئی نہیں تھا میں نے کامی کو دکان پر جانے کو کہا کامی اور میں اٹھ کر اندر بیٹھک میں آکر لیٹ گیا میرے ذہن میں نصرت کا جسم گھوم رہا تھا نصرت کے جسم کا لمس میرے ذہن پر سوار تھا میرے زہن میں ساری فلم گھوم رہی تھی جس سے میرا کہنی جتنا لن تن کر پھنکارنے لگا میرا ضمیر مجھے روکنے کی کوشش کرتا کہ نصرت میری سگی بیٹی ہے پر کئی دنوں سے ذہن پر چھائی شہوت بھی سکون نہیں آنے دے رہی تھی آخر ضمیر اور شہوت کی جنگ میں شہوت جیت گئی اور میں نے نالا کھول کر پانا کہنی جتنا تنا ہوا لن باہر نکال لیا میں نے اپنا لن مسل کر نصرت کے جسم کا تصور آنکھوں میں لے آیا اپنی بیٹی کو اپنے سامنے لیٹا پاکر میں کانپ گیا میں نے کراہ کر تیزی سے ہاتھ چلا کر لن کو مسلنے لگا اپنی سگی بیٹی کو اپنے تصور میں میں نے ننگا کردیا میرے تصور میں میری سگی بیٹی کے تن کر کھڑے ننگے موٹے ممے اور ننگا بدن میری جان لے گیا میں کراہ کر تیز ہاتھ چلاتا ہوا نڈھال ہوگیا اپنی سگی بیٹی نصرت کو اپنے سامنے ننگا سوچ کر میں ہمت جواب دے گئی مجھے ایسا لگا کہ یہ احساس میرا ندر سے ساری گرمی کھینچ کا رہا ہے جس سے میں کانپتی ایسا تڑپنے لگا اسی لمحے میری بیٹی نصرت بھی دروازہ کھول کر اندر آگئی وہ میرے لیے چائے لائی تھی اسے لگا کہ شاید کامی بھی اندر ہوگا جیسے ہی وہ اندر آئی تو سامنے مجھے اپنا کہنی جتنا لن ننگا کرکے ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے مسلتے ہوئے کراہ کر ہانپتا دیکھ کر گھبرا کر چونک گئی نصرت کی ہلکی سی چیخ نکلنے لگی جو نصرت نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبا لی اپنے باپ کو یوں ننگا ہوکر مٹھ مارتا دیکھ کر نصرت کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ چونک کر پٹھی آنکھوں سے اپنے باپ کو کا موٹا کہنی جتنا لن دیکھ کر پٹھی آنکھوں سے حیرت سے کھڑی منہ پر ہتھ رکھے کونے میں چلی گئی تھی نصرت کی نظر اپنے باپ کے کہنی جتنے موٹے لن پر تھی میں اپنی بیٹی نصرت کو اپنے تصور میں ننگا دیکھ کر نڈھال ہوکر اسی لمحے کراہ گیا اور ایک لمبی منی کی دھار مار کر کرلاتا ہوا فارغ ہوگیا نصرت میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی دھار ہوا میں بلد ہوکر نیچے گرتی دیکھ کر گھبرا گئی نصرت حیرت سے آنکھیں پھاڑے میرے کہنی جیسے لن کو منی ابلتا دیکھ کر ہوش کھو چکی تھی میں کراہ کر اپنا لن اپنی بیٹی کے سامنے ننگا کیے لمبی لمبی پچکاریاں مارتا نڈھال ہوچکا تھا نصرت حیرت سے اپنے باپ کے کہنی جتنے لمبے موٹے لن کو منی ابلتا دیکھ کر بے بنی کھڑی تھی اتنا بڑا اور آنکھوں کے سامنے ننگا لن شاہد میری بیٹی نے پہلی بار دیکھا تھا جس سے وہ ہوش کھو چکی تھی میری آنکھ کھلی تو سامنے اپنی بیٹی نصرت کو منہ پر ہاتھ رکھے پٹھی آنکھوں سے اپنے لن غورتے دیکھا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی میں ہڑبڑا کر اوپر ہوا تو نصرت مجھے دیکھ کر ڈر کر ہلکی سی کر بولی اوئے ہالیوئے ابو اور جلدی سے چائے کے دو کپ وہیں رکھے اور میرے سیدھے ہونے سے پہلے مڑی اور بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئی میں ہڑبڑا کر سیدھا ہوا تو نصرت جا چکی تھی میں ایک منٹ میں ہوش میں آکر سمجھ گیا کہ سب کچھ برباد ہوچکا ہے میں اپنی بیٹی کے سامنے مٹھ لگا رہا تھا وہ کیا سوچے گی کہ اس کا باپ کہیں وہ یہ نا سوچے کہ میں اس پر مٹھ لگا رہا تھا یہ سوچ کر میرے اندر کا ضمیر مجھے کہنے طعن کرنے لگا کہ میں نے یہ کیا کر دیا اپنی ہی سگی بیٹی پر مٹھ لگا دی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو کوسنے لگا مجھے خود پر بہر غصہ آیا نصرت مجھے بہت چاہتی تھی میں اسکا باپ تھا وہ تو مجھے اپنا سہارا سمجھتی تھی میں نے اس کے ساتھ کیا کیا یہ سوچ کر میرا ندامت سے سر پھٹا جا رہا تھا میرا دل کسی کام کو نا کیا میں نے خود کو سنبھالا اور خود کو لعن طعن کرتا لیٹ کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا
میں عصر کے وقت اٹھا میرے ذہن میں وہی فلم دوڑنے لگی تھی میں اس پر کافی شرمندہ ہوا اور خود کو لعن طعن کی کہ تو اپنی سگی بیٹی نصرت کا سوچ کر مٹھ لگا رہا تھا تجھے ذرا بھی شرم نہیں آئی بیٹیوں کے بارے میں بھی بھلا کوئی ایسا سوچتا ہے میں یہ سوچتا ہوا کچھ دیر پڑا رہا میں کافی شرمندہ ہو رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں نصرت میرے بارے میں کیا سوچے گی کہ اس کا باپ اس کے بارے سوچ کر مٹھ لگا رہا تھا میرا ندامت سے برا حال تھا میں کچھ دیر پڑا رہا اتنے میں دروازہ کھلا اور میری چھوٹی بیٹی مدیحہ اندر آئی میں اسوقت قمیض کے بغیر ہی لیٹا ہوا تھا کیونکہ جب مٹھ لگا رہا تھا تو میں قمیض اتار دیا تھا اس لیے اب قمیض نہیں پہنا تھا مدیحہ اندر آئی اور میں آنکھیں بند کرکے لیٹا اپنی سوچ میں مگن تھا مدیحہ نے مجھے آواز دی ابو میں اپنی سوچ میں گم تھا میں نے نہیں سنی تو چلتی ہوئی قریب آئی اور میرے ننگے بدن پر ہاتھ لگا کر مجھے ہلا کر جگایا اپنی بیٹی مدیحہ کے نرم ہاتھ کا لمس اپنے جسم پر محسوس کرکے میں مچل سا گیا مجھے کرنٹ سا لگا اور میں سیدھا ہو کر جاگ چونک کر آنکھیں کھول کر دیکھا تو مدیحہ تھی مدیحہ میری تیسری بیٹی تھی لیکن وہ نصرت اور جویریہ سے الگ ہی تھی اکثر گھر میں دوپٹے کے بغیر رہتی تھوڑی سی شوخ اور آزاد خیال لڑکی تھی مدیحہ اس وقت بھی دوپٹے کے بغیر تھی مدیحہ کا جسم تھوڑا پتلا تھا لیکن اس کے جسم کے ابھار اپنی بہنوں کی طرح شاندار تھے میں نے ایک نظر اپنی بیٹی کی اٹھی چھاتیوں پر ڈالی اگلے لمحے مجھے خیال آگیا کہ یہ تو میری بیٹی ہے میں نے نظر چرا کر اسے دیکھا تو وہ مجھے ہی غور رہی تھی اس نے مجھے اپنی چھاتیوں کو تاڑتا دیکھ لیا تھا اس کی آنکھیں میں ہلکی سی لالی اتری ہوئی تھی میں یہ دیکھ کر شرمندہ سا ہو گیا اور نظر نیچے کر لی مدیحہ بولی ابو اٹھ جاؤ کافی ٹائم دے ستے پئے ہو دکان تے نہیں جانا میں نے ٹائم دیکھا تو کافی ٹائم ہوگیا تھا میں بولا بس ایویں آکھ لگ گئی پتا ہی نہیں لگا مدیحہ تھوڑی شریر تھی اس کو بھی میرے کردار کا پتا تھا کہ میں باہر عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ زنا کرتا ہوں مجھے چھیڑتے ہوئے بولی اچھا جی فر کسے نویں نال اکھ لگ گئی آگے تجوریاں پینٹ میں اسکی اس بات پر چونک گیا اور نظر اٹھا کر مدیحہ کو دیکھا تو مدیحہ شرارتی انداز میں مجھے دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی میں بھی اس کی بات سے مسکرا دیا اور بولا میری ماں کسے نال اکھ نہیں لگی بس نیندر آگئی وہ بولی اووو اچھا مطلب نیندر اچ اکھ لگ گئی مجھے سمجھ نہیں آئی میں بولا ہاں وہ ہنس کر بولی اچھا جی نیندر اچ کس نال اکھ مٹکا کر رہے سی میں اس کی بات پر ہنس دیا اور بولا بس کر میری ماں تنگ نا کر آج موڈ نہیں وہ میرے قریب ہوئی اور بولی ابو خیر تے ہے موڈ کیوں نہیں۔ کسے نال لڑائی ہو گئی میں ہنس دیا اور بولا ہنڑ ساریاں گلاں تینوں دسنڑ آلیاں نہیں مدیحہ کو بھی سمجھ آگئی وہ مسکرا سی گئی اور پھر کچھ نا بولی اور میرے بدن کو غور کر ایک نظر دیکھا اور مڑ کر باہر نکل گئی میں نے نظر اٹھا کر مدیحہ کے جسم پر ایک نظر ڈالی تو مدیحہ کے کسے ہوئے لباس میں سے باہر کو نکلی گانڈ تک رہی تھی مدیحہ کی لمبی گت گانڈ پر پڑی ہلتی ہوئی کیا نظارہ دے رہی تھی مدیحہ چلتی ہوئی دروازے پر پہنچ کر باہر نکلتے ہوئے مڑ کر مجھے گہری نظروں سے دیکھا میں اس کی گانڈ کو غور رہا تھا مدیحہ کے مڑنے پر میں نے نظر گھما کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ مجھے گہری آنکھوں سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی مدیحہ مجھے اپنی گانڈ کا نظارہ کرتے دیکھ چکی تھی میں یہ دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا اور خود کو کوسنے لگا کہ مجھے ہوا کیا ہے میری گرمی اب میری بیٹیوں پر نظر ڈالنے کو مجبور کر رہی تھی میں نے سوچا کہ کچھ کرنا پڑے گا کوئی عورت ڈھونڈنی پڑے گی میں یہ سوچ کر اٹھا اور واشروم چلا گیا نہا کر میں نکلا تو مجھے سامنے نصرت کیچن میں جاتی ہوئی نظر آئی نصرت کی نظر مجھ سے ملی تو نصرت نے ایک لمحے تک مجھے دیکھا اور پھر نظر چرا لی نصرت کے چہرے پر لالی اتری ہوئی تھی میں نصرت کو شرمندہ دیکھ کر خود بھی شرمندہ ہوگیا میں نکل کر دکان پر چلا گیا کامی مجھ دکان پربٹھا کر خود بھی چلا گیا میں شام تک دکان پر رہا دکان پر کچھ مصروفیت رہتی تھی جس سے میرے ذہن سے بات نکل گئی دکان پر میں نے ملازم بھی رکھا ہوا تھا میں شام کو آجاتا تھا دکان کامی کے حوالے کرکے کیونکہ وہ بھی شام کو آوارہ گردی کرکے آجاتا تھا اور دکان رات گئے تک چلاتا تھا کیوںکہ شام کو وہ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ آتا تھا اور رات گئے تک وہاں محفل لگتی تھی اس لیے وہ خریدو فروخت بھی کرتے تھے جس سے دکان کی گاہکی ہو جاتی تھی شانی آوارہ تو تھا پر کاروبار کا خیال رکھنے والا تھا میں گھر آنے لگا تو میرے ذہن میں بات آئی میرے ذہن نے کہا کہ نصرت گھر کی بڑی بیٹی اور سمجھدار ہے یہ نا ہو وہ کچھ غلط سمجھے میرے ساتھ تو سب بیٹیوں کا تعلق اچھا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک زنائی اور برے کردار والا آدمی ہوں پھر بھی انہوں نے مجھے باپ کی عزت دی ہوئی ہے کبھی مجھ سے شکوہ نہیں کیا میں نے سوچا کہ مجھے خود ہی بات کلئیر کر دینی چاہئیے نا کہ نصرت خود کوئی نتیجہ نکلے میں گھر آیا شام ہو چکی تھی میں دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے جویریہ صحن میں بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی جویریہ نے اپنے سینے پر دوپٹہ لے رکھا تھا لیکن سر پر نہیں تھا جویریہ کی گت نظر آ رہی تھی جویریہ نے یک بلو۔کلر کا سوٹ پہن رکھا تھا جو اس کو تھوڑا تنگ تھا جویریہ اکثر کھلے کپڑے ڈالتی تھی پر آج اس کو ہلکا سا تنگ لباس پہنا دیکھ کر میں بھی سوچ میں پڑگیا تھا تنگ لباس اسکے بدن کو واضع کر رہا تھا جوریہ کے بیٹھنے سے اس کے موٹے چوتڑ باہر کو نکلے نظر آ رہے تھے اس کے کسے ہوئے پیٹ کے بل بھی نظر آرہے تھے جویریہ کا جسم تھوڑا بھرا ہوا تھا جس سے اس کے جسم کا انگ انگ واضح ہو رہا تھا میں نے ایک نظر اسے دیکھا تو اسکی نظر مجھ سے ملی اس نے جلدی سے نظر چرا لی جویریہ ہلتی ہوئی آٹا گوندھ رہی تھی میں کچھ سامان بھی لایا تھا میں اندر گیا تو سامنے چولہے پر بیٹھ کر نصرت ہانڈی بنا رہی تھی نصرت پہلے بھی تنگ لباس ہی ڈالتی تھی وہ تھوڑی سی آزاد خیال لڑکی تھی گھر میں تو وہ مرضی کرتی تھی پر گھر سے باہر وہ پردے کا خاص خیال رکھتی تھی میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت کے تنگ لباس سے نصرت کے جسم کا انگ انگ نظر آرہا تھا نصرت کے موٹے چوتڑ اور پٹ باہر کو نکل کر نظارہ کروا رہے تھے دوپٹے سے اسنے اپنا باہر کو نکلا سینہ ڈھانپ رکھا تھا میں نصرت کو ایک نظر دیکھا نصرت کے لمبی گت اسکے چتڑوں تک آرہی تھی مجھے دیکھ کر نصرت سنبھلی اور اپنا دوپٹہ سر پر کر لیا میں نے بھی نظر ہٹا لی اور سامان سنک پر رکھ کر پانی کا گلاس کولر سے بھرا اور پاس ہی پڑی پیڑھی پر بیٹھ کر پی گیا نصرت آج چپ چپ تھی پہلے جب میں آتا تھا تو نصرت ایک باپ کی طرح مذاق مذاق میں میری کبھی کلاس لیتی کبھی کوئی مذاق کرتی وہ ایک بیٹی کی طرح مجھ سے اپنے پیار کا اظہار کرتی آج وہ چپ تھی اور آنے کام میں مگن تھی میں سمجھ گیا کہ وہ کیوں چپ ہے جتنا اسے برا لگا تھا اتنا مجھے بھی برا لگا تھا میں نے اسے بات کرنے کےلیے پوچھا نصرت عارفہ کدے ہے نصرت نے مجھے دیکھے بغیر ہی جواب دیا امی تے مدیحہ ماموں اوراں آل گئیاں ہینڑ نصرت کے دو ماموں تھے دونوں ہی میری طرح عورتوں کے شیدائی تھے ان ک گھر قصبے کے ساتھ والے ٹاؤں میں تھا جو شہر سے ملحقہ تھا اتنا دور نہیں تھا پیدل آیا جایا جا سکتا تھا میں نے تھوڑا توقف کیا اور بولا نصرت توں ناراض ہیں میرے نال نصرت چونک گئی اور بولی نہیں ابو میں تے کوئی نہیں آسکی نظر جھکی ہوئی تھی اس نے اپنا جسم آب ڈھانپ لیا تھا وہ پہلے بھی ڈھانپ کے رکھتی تھی گھر میں بھی میں بولا جی نہیں توں ناراض ہیں وہ بولی نہیں ابو اور اپنی انگلیوں سے کھیلتی ہوئی نظر نیچے کرکے بولی بس ابو تھوڑی جئی شرمندہ ہاں میں چونک گیا اور بولا نصرت مینوں پتا اے میرے توں غلطی ہو گئی اے نصرت مسکرا دی میں بولا نصرت مینوں پتا اے توں میری سکی دھی ہیں تے دھیاں دے بارے اے کوئی کرنا تے دور سوچ وی نہیں سگدا۔ نصرت بولی پر ابو توں تے سوچیا ہے نا میں بولا نصرت میں اپنی غلطی من تے رہیا آں تے تیرے کولو معافی وی منگ رہیا آں پتا نہیں مینوں کی ہویا سمجھ ہی نہیں آئی بس آج کل ذہن تے ہر ویلے اے گند ہی سوار رہندا اے نصرت بھی مجھے شرمندہ دیکھ کر نرم پڑ گئی اور مجھے دیکھ کر بولی ابو مینوں پتا اے اے زنا سارے مرد کردے ہینڑ مرد تاں ہی کردے ہینڑ جے عورتاں وی اوہناں دا ساتھ دیونڑ تے ابو مرد ہی تے صرف قصور وار نہیں ہینڑ ناں میں بولا میری دھی گل تے سہی اے پر اپنے وس وس دی گل اے نصرت بولی ابو کوئی گل نہیں جے عورتاں کر رہیاں ہینڑ تے تھوانوں وی کرن دا اتنا ہی حق ہے میں تے اج تک تھواڈے تے اعتراض نہیں کیتا نا تھوانوں منع کیتا ہے۔ اس دی وجہ اے ہی ہے کہ تسی اس نوں گھر تو باہر ہی رکھتے ہو میں نصرت کی باتوں سے شرمندہ ہو رہا تھا نصرت سمجھداری کی باتیں کرتی تھی وہ بہت سمجھدار اور دانا لڑکی تھی میں بولا میری دھی بس کی کراں اگاں خیال رکھساں گیا نالے کوشش کردا آں کہ ہنڑ اس نوں چھوڑ دیواں نصرت میری اس بات پر مسکرا دی اور بولی ابو اے تے نہیں ہو سگدا میں شرمسار سا ہوکر بولا کیوں نہیں ہو سگدا نصرت بولی ابو اے تے ہنڑ عادت ہے تھواڈی تے عادت چھوڑنا مشکل ہوندا میں ہنس کر بولا کوشش تے کرنی چاہی دی نصرت بولی ابو ہک گل دساں میں بولا دس میں اس حق اچ نہیں آں کہ تسی زنا چھڈو۔ میں نصرت کی اس بات پر چونک گیا اور بولا کیوں نصرت بولی ابو اے تسی بڑے عرصے تو کر رہے ہو تے اے تھواڈے جسم اچ رچ گیا اے ہنڑ تسی چھوڑسو تے اے تھواڈی صحت واسطے ٹھیک نا ہوسی میں بولا او تے ہے پر ہنڑ کجھ ڈھیر ہی ہو رہیا اے گل گھر تک ا رہی اے نصرت مسکرا کر شرارتی انداز میں مسکرائی اور بولی ابو تسی ذہن اچ سانوں بیٹیاں ہی رکھو ناکہ بازار عورتاں اور کھلکھلا کر ہنس دی میں بھی ہنس دیا نصرت پہلے بھی ایسے مذاق کرتی تھی پر حد میں ہی رہتی تھی میں بولا او تے گل ٹھیک ہے پر ہنڑ تھواڈے بارے وی کجھ سوچنا اے تسی وی جوان ہو گئیاں ہو تھواڈی ہنڑ شادی دی عمر اے نصرت ہنس کر بولی ویسے ابو بڑا ٹائم نال یاد آیا کہ اسی جوان ہو گئیاں آں میں مسکرا دیا اور بولا یاد تے آگیا ہے نا نصرت ہنس دی اور بولی ویسے ابو تھواڈی اس نظر نال ویکھنڑ دا اے فایدہ تے ہوگیا کہ ساڈا خیال وی تھوانوں آگیا میں ہنس دیا نصرت خاموش ہوکر کام کرنے لگی اور پھر ایک لمحے بعد بولی ویسے ابو ہک گل تے دسو میں بولا پچھو وہ بولا ابو ویسے اے تھواڈے ذہن اچ گل آئی کدو مینوں انج ویکھنڑ الی میں ہنس دی اور بولا بس آگے آپ ہی آکھ رہی ہائیں ناں کہ اے جسم اچ رچ گیا اے تے اج کل گرمی ہے تے ملاقات گھٹ ہوندی ہے سہیلیاں نال اس توں کافی دن ہو گئے ہانڑ تے گرمی عقل دی مت مار دیتی نصرت ہنس دی اور بولی ابو او تے گل ٹھیک ہے پر اپنے آپ نوں ٹھنڈ پاونڑ لگیاں دروازے نوں کنڈی لا لئی کرو اور کھلکھلا کر ہنس دی میں نصرت کی اس بات شرم سے پانی ہوگیا اور مجھے یاد آگیا کہ آج میری بیٹی نصرت نے مٹھ لگاتے ہوئے مجھے پکڑ لیا تھا میں شرمندہ سا ہوکر کچھ نا بولا تو نصرت بھی سمجھ گئی اور بولی کوئی گل نہیں ابو اے ہو جاندا اے پریشان نا ہووو میںرے مذاق کیتا میں بولا اچھا جی وہ پھر ہنس کر بولی بس کنڈی لالینا ہنڑ۔ میں اس کی اس بات پر چڑھ سا گیا اور اسکے آگے ہاتھ جوڑ کر بولا اچھا معاف کردے میری ماں غلطی ہو گئی میرے توں نصرت میرے ہاتھ جڑے دیکھ کر ہنس دی اتنے میں جویریہ آٹا اندر لے کر آئی اور مجھے معافی مانگتا دیکھ کر بولی نصرت آج ابو نوں معافی نا دیویں آج چنگا تنگ کر اس نوں اے سانوں تنگ کردا اے جویریہ بھی میرے ساتھ کافی فرینک تھی نصرت ہنس کر بولی جی نہیں بس آج واسطے اتنا کافی اے ابو فر آکھسی کہ بڑا تنگ کردیاں اسدیاں دھیاں میں ہنس دیا اور بولا جویرو توں رہ گئی ہاں توں وی آجا جویریہ ہنس کر آٹا رکھ دیا اور ہاتھ دھونے لگی اتنے میں دروازہ کھلا اور عارفہ اور مدیحہ بھی آگئیں نصرت پھر روٹی بنانے لگی سب نے کھانا کھایا میں اندر ٹی وی دیکھنے لگا ٹی وی دیکھنے کے دوران نصرت۔ آئے لائی کچھ دیر ٹی وی دیکھتے ہے پھر سونے کا ٹائم ہو گیا میں اور عارفہ سونے چلے گئے بیٹیاں اپنے کمرے میں تھیں میں نے جاتے ہی عارفہ کو قابو کر لیا اور اسے چومنے لگا عارفہ کی عمر 45 سال تھی لیکن اتنی بھی بیکار نہیں تھی کبھی کبھار ساتھ دیتی تھی میں عارفہ کو چومتا ہوا ننگا کر دیا اور خود بھی ننگا ہو گیا عارفہ مجھے چومتی ہوئی میرا لن مسلنے لگی میرا لن کہنی سے بھی بڑا اور موٹا تھا عارفہ سسک کر کراہ کر بولی افففف ساجوووو کیڈا لما لن ہے تیرا اور منہ نیچے کرکے لن کو چوتی ہوئی چاٹنے لگی میں سسک کر کراہ رہا تھا کئی دنوں سے پھدی مل نہیں رہی تھی اس لیے میرے اندر بھی آگ لگی تھی میں سسکتا ہوا عارفہ ہے اوپر ہوا اور عارفہ کی ٹانگیں آٹھ کر کاندھوں سے لگا کر اوپر ہوا تو عارفہ بولی وے ساجو سارا دن باہر ہی منہ ماردا رہندا ایں کجھ دھیاں دا وی سوچ لئے اس وقت عارفہ کو یہ باتیں کرتا دیکھ کر میں مچل سا گیا جھٹ سے میرے ذہن میں میری بیٹی نصرت آئی میں سسک گیا اور عارفہ کے اوپر ہوکر بولا ہنڑ اس ٹائم تینوں دھیاں دا کی خیال آ رہیا اے عارفہ مسکرا دی اور بولی وے ہنڑ اے وڈیاں ساریاں ہو گئیاں ہینڑ ہنڑ اوہنا دی شادی دی عمر لنگھی جا رہی تے توں کجھ سوچ ہی نہیں رہیا میں بولا میں کی کراں وہ بولی تینوں پتا کی کرنا میں کچھ نا سمجھا وہ بولی وے ہک گل تے دس آج جدو نصرت فریج ابو برف کڈھ رہی ہا توں اس آلو کیویں ویکھ رہیا ہائیں میں چونک گیا اور بولا دھی یاوی آ بس ذہن کے خراب ہا تے پتا ہی نہیں لگا عارفہ ہنس دی اور بولی تینوں نصرت چنگی لگدی اے میں بولا دھی یاویے کی آکھ رہی ہیں دھی ہے او میری وہ بولی ہلا اس ویلے دھی کوئہ نا میں بولا بس ذہن اچ گرمی سوار ہا پتا ہی نہیں لگا وہ ہنس دی اور بولی ویسے ہک گل دساں نصرت تے جویریہ دی عمر ہنڑ کافی ہوو گئی اے تے ہنڑ رشتے آلے وی نخرے کردے ہینڑ ہک سال ہور لنگھیا تے رشتے آنے ہی کوئی نہیں ددواں دی عمر پکی ہوندی پئی تے پکی عمر دیاں چھوریں دیاں شادیاں رہ ویندیاں ہینڑ پر نصرت تے جویریہ ہنڑ مسیں ودیاں ہینڑ اپنے آپ نوں بڑی ہمت نال قابو کیتا ہویا ہینڑے مینوں پتا میں جیویں اوہناں نوں سنبھالی ودی آں توں تے باہر چسکے چیندا رہندا ایں میں بولا نصرت تے جویریہ لگدیاں تے نہیں پکی عمر دیاں ہلے تے ٹھیک ٹھیک ہینڑ عارفہ بولی تینوں لگدا اے لوگ تے کیڑے کڈھدے ہینڑ میں بولا وت ہنڑ کی کرئیے وہ بولی جے نصرت یا جویریہ باہر منہ مار لیا تے بڑی بدنامی ہوسی میں اس کے اوپر جھکا تھا باتوں سے میرا لن مرجھا رہا تھا میں بولا ہنڑ فر کی کرئیے وہ بولی میرے کول ہک حل ہے جس نال شادیاں دھیاں دی آگ وی بجھ جاسی تے عزت وی گھر اچ محفوظ رہسی میں چونک کر بولا اوہ کی عارفہ بولی ساجو جے توں اپنی دھیاں دا کیڑہ مار چھڈیں تے ساڈی دھیاں دا کم وی ہو جاسی تے عزت وی بچ جاسی میں اس کی بات سن کر ایک بار تو پیچھے جا پڑا اور بولا توں پاگل تے نہوں ہو گئی او میریاں دھیاں ہینڑ میں دھیاں نال اے کیویں کرساں عارفہ بولی انج ہی کریں جیویں اکھیں پاڑ کے نصرت دیاں چھاتیاں ویکھ رہیا ہائیں میں بولا ویکھنڑ تے ہور ہے پر دھیان نال زنا کرنا ہور گل اے مجھے پتا ہی نہیں چلا تھا میرا لن عارفہ کی بات سے تن کر کھڑا ہو چکا تھا میں بولا میں اے کنج کرساں گیا عرفہ میرے لن کو تنا ہوا دیکھ کر بولی توں کیویں کرسیں پر تیرا لن تے تیار اے میں اسے دیکھ کر شرما گیا مجھ سے کوئی بات نا ہوئی میں بولا میرے کولو ہو وی جاوے تے میری دھیاں جے نہیں مننڑا عارفہ بولی او میں منا لیساں اوہنا دی جو حالت ہے اوہنا نوں تے اس ٹائم مرد چاہی دا بھاویں باہر دس ہووے یا گھر دا میں بولا اے توں کی اکھ رہی ہیں وہ بولی وے تینوں نہیں پتا تیریاں دھیاں مسیں ودیاں ہینڑ اس ٹام توں تے اپنی آگ میرے تے کڈھ رہیاں ایں پر او وی تے ہینڑ جپڑیاں پکی دوئی دی آگ آپ کڈھدیاں ہینڑ میں بولا کی مطلب۔ وہ بولی جا کے ویکھ لئے تینے فل ننگیاں ہوکے ہکو دوئی نوں چنڑیاں ہونیاں تے اپنی آگ مٹا رہیاں ہونیاں کیڈی زیادتی اے سادی دھیاں نال گل تیار جوانیاں تے اوہناں واسطے مرد کوئی نہیں میں سوچ کر مچل سا گیا تھا میرا لن فل تن چکا تھا میرے ذہن میں صبح کی طرح نصرت گھومنے لگی مجھ سے رہا نہیں گیا عارفہ میری حالت سمجھ گئی اور بولی توں فکر نا کر میں صبح نصرت نوں منا لیساں گیا اوہ ڈھیر کاہلی ہے مرد واسطے میں اس نوں گل کرساں گئی کہ پیو نال سئیں کے اپنی گرمی لاہ لئے یہ سن کر میرے لن نے جھٹکا مارا اور تن کر کھڑا ہوگیا عارفہ بولی ویکھ تے سہی دھی واسطے کیڈا بے قرار ہیں اس سے پہلے کہ کوئی اور بات کرتی میں نے لن عارفہ کی پھدی پر رکھ کر دھکا مارا اور پورا لن جڑ تک اس کی پھدی ہے پار کردیا عارفہ کرلا کر تڑپ گئی میں رکے بغیر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا عارفہ کہ پھڈی میں پن پوری شدت سے گھمانے لگا عارفہ میرے دھکوں سے تڑپ گئی میرے ذہن میں میری بیٹی نصرت ننگی گھومنے لگی جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا اور ہٹ ہٹ کر دھکے مارتا پوری شدت سے لن عارفہ کی پھدی میں گھمانے لگا جس سے عارفہ تڑپ کر بکانے لگی پہلے میرے اندر اتنی طاقت کبھی نہیں اور نا کسی کو اتنی شدت سے چودا تھا بیٹی کو چودنے کا ذہن میں کا کر میں مچل کر بے قابو ہو چکا تھا میرا ندر سے آگ نکل رہی تھی میں دو تین منٹ میں ہی میری ہمت ٹوٹ گئی اور۔ میں کرلاتا ہوا لن جڑ تک عارفہ کی پھدی میں پار کرکے نڈھال ہوکر فارغ ہوگیا میرے اندر سے ساری جان نکل چکی تھی میں نڈھال ہوکر عارفہ کے اوپر گر کر ہانپنے لگا عارفہ تڑپتی ہوئی کراہ رہی تھی میں اپنی بیٹی نصرت کا چودنے کا سوچ کر بے قابو پایا تھا میرے سانس بھی یہ سوچ کر بے ترتیب تھی عارفہ بھی میری جنونیت سے مسلی گئی تھی کچھ دیر بعد وہ کرا ہ کر تڑپتی ہوئی سنبھل کر بولی ہالنی اماں میں مر گئی ساجو ہلے تے میں صرف تیری دھی دی تیرے نال گل کیتی ہے۔ جے تیرے ہیٹھ تیری دھی نصرت آگئی تے توں تے اس نوں پاڑ دیسیں گیا میں سسک کر کراہ کر بولا دھی یاویے میرے کولو کی کراؤ ہیں عارفہ ہنس کر بولی جیویں تیرا دل کوئی نہیںاے کرن تے میں چپ ہو کر اس سے الگ ہوکر لیٹ گیا عارفہ کراہ کر اپنی کمر مسل کر بولی آج تے رگڑ کے رکھ دتی ہئی ٹھہو ہی تیری دھی نوں تیرے تھلے لئے آندی آں توں اوہنا دے سہی قابل ہیں تیریاں دھیاں نوں تیرے جئے مرد دی لوڑ ہے توں ہی اپنی دھیاں دی آگ سہی طرح بجھیسیں گیا میں ہانپتاہوا آنکھیں بند کیے پڑا تھا عارفہ میرے سینے سے لگ کر مجھے چومنے لگی نصرت کا سوچ کر میرا لن پھر سے تیار تھا عارفہ ہنس کر بولی آگے تے توں آکھ رہیا ہائیں کہ توں دھیاں نال نہیں کر سگیدا ہنڑ تے تیرا لن نصرت تے ہڑیا کھلا میں سسک کر بولا اففف عارفو پتا نہیں کی ہویا اے میں تے باہر دیاں زنانیاں نوں یہ یہ کے درندہ ہو گیا ہاں بازاری عورتوں تے اپنی دھیاں اب کوئی فرق نہیں لگ رہیا عارفہ ہنس کر بولی اے چنگا ہے انج ہی سوچ توں ہی توں دھیاں دے اتے چڑھسیں گیا میں ہانپتا ہوا بولا عارفہ پر مینوں لگدا نصرت نہیں مننڑا وہ بولی اے۔ توں میرے تے چھڈ دے تینوں نہیں پتا نصرت اب کیڈی آگ اے میں جانڑدی آں جیوں میں اس نوں قابو کیتا ہویا اے نہیں تے نصرت ہنڑ تک کسے مرد نال نس گیا ہونا ہا میں چونک کر بولا سچی دس نصرت تے بڑی سمجھدار تے سلجھی ہوئی اے وہ بولی بندہ جیڈا وی سمجھدار تے سلجھایا ہووے ہک حد تک اپنے آپ نوں قابو کر سگدا اے جدو اے پھدی دی آگ مچھردی وت کجھ سمجھ نہیں آندا بس دل کردا کہ پھدی اچ لن ہی جاوے تے تیریاں دھیاں دی آگ تیرے تے گئی اے توں ہی بجھانی اے میں نصرت کے بارے میں بات سن کر حیران رہ گیا تھا وہ تو بہت شریف اور پردہ دار تھی اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی پر وہ سچی ہی تھی کب تک اپنی آگ کو قابو میں رکھتی میں بولا تینوں پتا او کون ہے جس نال نصرت سیٹ اے وہ بولی ہا مینوں پتا اے میں بولا کون وہ بولی قاسو مصلی نال سیٹ اے میں یہ سن کر چونک گیا ہمرے گھر سے دو گھر چھوڑ کر اس کا گھر تھا کالا کلوٹا بھدا سا لیکن جسامت اور مردانی وجاہت اچھی تھی میں چونک کر بولا اس اچو نصرت نوں کی لبھا عارفہ بولی عورت جدو مشکی ہوئی ہوندی او مرد دی طاقت ویکھدی مرد دی شکل صورت نال اس نوں غرض نہیں میں بولا وت وہ بولی مینوں پتا لگ گیا ہا اے راتی اس نوں ملنڑ جاندی ہا پر فکر نا کر میں قابو کر کئی اے کیتا کجھ نسو سادی عزت محفوظ اے بس دو چار دن میں چوک جاندی تے نصرت نس جانا ہا اس نال نکاہ دا بندوبست کر لیا ہا اہنا۔ میں حیرانی سے بولا باقیوں دا وی پتا ہئی وہ بولی جویریہ تے مدیحہ وی چھوراں نال رابطے اچ ہینڑ پر فکر نا کر انج محفوظ ہینڑ بس گلاں ہی کردیاں ہینڑ اس دی خیر اے دھیاںے ہی لگیاں ہویاں ہینڑ اپنی بیٹیوں کی حالت کا سن کر مجھے ان پر ترس آگیا تھا میرا لن بیٹھ چکا تھا عارفہ میرے ساتھ لگ کر بولی ساجو اس تو پہلے کوئی چن چڑھے توں اپنی دھیاں نوں آپ ہی نتھ پا دے میں نے اسے دیکھا اور بولا توں نصرت نال گل کر میں تیار ہاں عارفہ مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی میں دھمی ہی اس نل گال ٹوردی ہاں گھر دی گل گھر اچ ہی رہوے تے چنگی ہے عارفہ میرے کندھے پر رکھ کر مطمئن ہوکر سونے لگی میں لیٹ کر چھت کو دیکھتا ہوا کچھ سوچنے لگا تھا اتنا کچھ مجھ سے چھپا ہوا تھا میں باہر کی عورتوں کو ٹھنڈا کرنے میں مگن تھا جبکہ میری بیٹیاں گھر میں جوانی کی آگ میں تڑپ کر مرد کےلیے ترس رہی تھیں میں نے سوچ لیا کہ اب میں اپنی بیٹیوں کی محرومیاں دور کروں گا انہیں ہر سکھ دوں گا پر پتا نہیں نصرت مانے گی کہ نہیں یہ سوچ کر میں گھوم کر عارفہ کو باہوں میں بھر کر سینے سے لگا لیا عارفہ سو چکی تھی میرا دل تو تھا پر اس کے ساتھ ہی پہلے ہی زبردستی کر دی تھی شدت سے دھکے مار کر مجھے اس پر پیار آگیا اور میں اس کو چوم کر اسے باہوں میں لپیٹ کر سو گیا
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top