What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

Novel تراس۔۔۔شاہ جی

Novel تراس۔۔۔شاہ جی
صنم ساقی Çevrimdışı
Dec 24, 2022
405
11,282
93
Lahore
coopied
​​​​​ترَاس ۔
میرا نام ہما نواز ہے اور اس وقت میری عمر 32 سال ہے اور میرا تعلق لاہور کی ایک خوشحال لیکن روایتی قسم کی فیملی سے ہے ۔ میں چار بھائیوں کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن ہوں ۔
اکلوتی ہونے کے جہاں پر بہت سے فائدے ہوتے ہیں وہاں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ سارے بھائی اپنی اکلوتی بہن پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور بے چاری پر بچپن سے ہی بے جا پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ کرو وہ نہ کرو ۔ فلاں گھر جانا ہے اور فلاں گھر کی لڑکیاں سے بلکل دوستی نہیں کرنی کہ ان کا چال چلن درست نہ ہے (خود اپنے چال چلن پر کبھی توجہ نہیں کرتے )۔۔ کبھی کہتے ہیں کہ ۔۔چلتے ہوئے ادھر ادھر نہیں دیکھنا اور ۔کبھی حکم ہوتا ہے کہیں آتے جاتے ہوئے سر سے دوپٹےکو اترنے نہیں دینا وغیرہ وغیرہ ۔لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہونے والی بات ہو کر رہتی ہے۔۔
ہونی والی بات سے یہاں میری مراد سیکس ہے ۔۔ یہاں میں آپ کو عجیب بات بتاؤں کہ میں وقت سے بہت پہلے ہی جوان ہو گئی تھی اوربہت شروع میں ہی مجھے سیکس کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر میں ایک تو سب مرد ہی تھے اور جو ایک عورت تھی بھی۔۔۔ وہ میرے سب سے بڑے بھائی فیض کی بیوی تھی جو ظاہر ہے اپنے خاوند کے ساتھ سوتی تھی اس لیئے میرا ان کے ساتھ سونا بہت مشکل تھا ۔
اور مسلہ یہ تھا کہ مجھے اکیلے سوتے ہوئے بہت ڈر لگتا تھا اس لیئے چار و ناچار میرے والدین مجھے اپنے ساتھ سلاتے تھے ۔۔۔ لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ پلنگ پر نہیں سلاتے تھے بلکہ انہوں نے میرے سونے کے لیئے ایک چھوٹی سی چارپائی بنوائی ہوئی تھی ۔۔ جہاں پر میں سوتی تھی ۔
جبکہ پلنگ پر میرے والدین سوتے تھے ۔۔۔ ۔ہر چند کے میرے والدین مجھے ساتھ سلاتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے ہوں گے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں وہ بے احتیاطی بھی کر لیتےتھے ۔۔اس سلسلہ میں ایک واقعہ عرض ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ اس وقت میری عمر کیا تھی لیکن اس عمرمیں دیکھا گیا ایک ایک سین میرے زہن پر ا یسا نقش ہے کہ آج بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ابھی بھی میرے سامنے ہو رہا ہو۔یہ نیم سردیوں کے دن تھے مطلب یہ کہ ابھی سردیاں پوری طرح سے آئی نہیں تھیں۔۔
دن کو موسم ٹھیک ، لیکن رات کو بڑی ٹھنڈ ہو جاتی تھی اور آپ ہلکاکمبل یا کھیس لیئے بغیر نہیں سو سکتے تھے یہ انہی راتوں میں سے ایک رات کی بات ہے کہ میں حسبِ معمول ابا اماں کے پلنگ کےساتھ بچھی ایک چھوٹی سی چارپائی پر سوئی ہوئی تھی ۔ رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ اچانک کچھ آوازوں کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی کمرے میں زیرو کا بلب لگا ہوا تھا اور اس زیرو واٹ کے بلب سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔ ۔ ابھی میں ان آوازوں پر غور ہی کر رہی تھی کہ کمرہ ایک بار پھر ۔۔آہوں اور سسکیوں سے گونج اُٹھا ۔
اس دفعہ ان سسکیوں کی آواز پہلے کی نسبت تھوڑی اونچی تھی ۔۔ اور اسی اثنا میں ایک بار پھر مجھے زنانہ آواز میں ایک تیز سسکی کی آواز سنائی دی ۔ اور میں نے ڈرتے ڈرتے آواز کی سمت دیکھا تو ۔۔وہاں کا منظر دیکھ کر ۔میرا دل دھک رہ گیا۔۔۔کیا دیکھتی ہوں کہ پلنگ پر میری اماں سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور ان کی دونوں ٹانگیں ہوا میں معلق تھیں اور اماں کے عین اوپر اس وقت میرے ابا چڑھے ہوئے تھے ۔
اور ابا کا نچلا جسم بار بار اماں کے نچلے جسم سے ٹکرا رہاتھا۔۔۔اور جیسے ہی اماں کے جسم کے ساتھ ابا کا جسم ٹکراتا ۔۔۔۔ اماں کے منہ سے ایک کراہ نکل جاتی تھی۔۔ہائے ئے ئے ۔۔ ۔۔۔کراہنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اماں ابا کے ساتھ باتیں بھی کر رہی تھی میں نے کان لگا کر سنا تو وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ زور دی مار۔۔ (زور سے مارو) ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ابا اور طاقت کے ساتھ اماں کو مارتے تو ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اماں کے منہ سے ایک دلکش سی کراہ نکلتی ۔۔ہائے ےےے ے ے۔۔۔اور پھر وہ اسی آواز میں ابا سے دوبارہ کہتی ۔۔۔زور دی مار ۔۔ہور زور دی ۔۔۔۔۔ ۔۔ اور میں اس بات پر حیران تھی کہ ابا اماں کو بار بار کیوں مارتے جا رہے ہیں اور میری ماں کیوں کراہ رہی ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں اماں کا خاصہ ہولڈ تھا اور عام حالت میں ابا اماں سے خاصے ڈرتے تھے ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ابا اماں پر چڑھے ان کو ماری جا رہے تھے اور اماں بجائے ان کو منع کرنے کے آگے سے ان کو ہلا شیری دے رہی تھیں کہ وہ ان کو اور ماریں ۔۔۔۔یہ چیز میرے لیئے بڑی حیرانگی کا باعث تھی ۔۔ خیر میں بستر میں دبکی چپ چاپ ابا اماں کی یہ لڑائی دیکھتی رہی جس میں کہ اب شدت آتی جا رہی تھی اور ابا اماں کی فرمائیش پران کو مزید تیزی کے ساتھ دھکے مار رہے تھے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اماں کے چلانے کی آواز تیز سے تیز تر ہو گئی جسے سُن کر ابا نے تھوڑے کرخت لہجے میں اماں سے کہا ۔۔۔ ہولی رولا ۔۔پا ۔۔۔ کتھے کُڑی نہ اُٹھ جاوے ( آہستہ بولو کہیں لڑکی نہ جاگ جائے) اماں ابا کی بات سُن کربولی۔۔۔ کُڑی نوں گولا مار ۔۔ تو کس کے میری مار۔ اوہ گھوک سُتی پئی اے ( لڑکی کی بات چھوڑو تم مجھے زور کے دھکے مارو کہ لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی ہے) اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا کہ جیسے کمرے میں طوفان آ گیا ہو ۔۔۔ ان کا پلنگ بری طرح سے ہلنے لگا اور پھر اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں ابا کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
نیلو۔!!!!!!!!!! میں گیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ابا نے ایک بڑی سے چیخ ماری اور وہ اماں کو مزید تیز تیز مارنے لگے اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ انہوں نے اماں کو مارنا بند کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔اماں کے ساتھ والی جگہ پر لیٹ گئے اور گہرے گہرے سانس لینے لگےوہ اتنے زور زور سے سانس لے رہے تھے کہ ان کے سانویں کی آواز میری چارپائی تک صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ میں ابا اماں کا یہ تماشہ دیکھ رہی تھی اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا میری سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ۔
لیکن فطرتاً چونکہ میں کافی بزدل اور خاموش طبع واقع ہوں اس لیئے صبع اُٹھ کر میں نے اس بات کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا ۔۔۔ اور کرتی بھی کس سے؟ گھر میں سب ہی مجھ سے بڑے تھے اور سکول میں کوئی ایسی خاص سہیلی نہ تھی کہ جس سے میں یہ راز شئیر کر سکتی ۔۔۔اس کے بعد میں مجھے ہفتے میں ایک آدھ بار ابا اماں کا یہ ڈرامہ ضرور دیکھنے کو مل جاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ مجھے ان کی اس لڑئی کی بھی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔
پھر جب میں تھوڑی اور بڑی ہوئی تو ابا اماں کی لڑائی ساری کی ساری سمجھ میں آ گئی تھی ۔۔۔اور میں ان کی چودائی کے منظر بڑے شوق سے دیکھنے لگی ۔۔ پھر شاید ان کو کوئی شک ہو گیا یا جانے کیا بات تھی کہ کچھ عرصہ بعد میرے والدین نے مجھے ایک علحٰیدہ کمرہ دے دیا ۔۔
علحٰیدہ کمرہ ملتے ہی میں نے ان کی چودائی کے منظر یاد کر کر کے ترسنا شروع کر دیا ۔۔ اس دوران مجھے اور تو کچھ نہ سوجھتا بس میں اپنے سینے پر اگنے والے ابھاروں کو ہی دباتی رہتی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرے سینے کے ابھار بڑھنا شروع ہو گئے اور جب سے میرے سینے کی یہ گولائیاں بڑھتے بڑھتے ٹینس کے گیند کے برابر ہوگئیں تو ایک دن میری سب سے بڑی بھابھی جو کہ فیض بھائی کی بیوی اور رشتے میں میری کزن بھی لگتی تھی نے مجھے اپنے پاس بلا یا اور میرے سینے کے ابھاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے ایک چھوٹا سا لیکچر دیا جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ اب میں بڑی ہو رہی ہوں اور میرے سینے پر اگنے والے اس گوشت کو مجھےاچھی طرح سے ڈھانپ کر رکھنا ہے اور آج کے بعد میں نے کسی بھی صورت دوپٹے کو اپنے سینے سے نہیں ہٹانا اور اس ابھرے ہوئے گوشت کو جسے وہ بریسٹ کہہ کر بلا رہی تھی کو ڈھانپنے کے لیئے مجھے ایک کپڑے کی برا بھی دی گئی اور سختی سے تاکید کی کہ آج کے بعد میں نے ہر وقت اپنے بریسٹ پر یہ برا پہننا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی میرا گھر سے باہر نکلنا بند ہو گیا ورنہ اس سے پہلے میں محلے میں بغیر روک ٹوک پھرا کرتی تھی پھر اس کے بعد جلد ہی مجھے پیریڈز بھی آنا شروع ہو گئے ۔پیریڈز کے آنے کی دیر تھی کہ میرے اندر ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہونا شروع ہو گئی اور خاص طور پر میری دونوں ٹانگوں کے بیچ والی جگہ پر مجھے اتنی زیادہ بے چینی ہوتی کہ میں بتا نہیں سکتی ۔
پھر ایک د ن کی بات ہے کہ میں پیریڈز کے بعد نہاکر اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اپنی دو رانوں کے بیچ کھجلی سی شروع ہو گئی ۔۔ پہلے تو میں نے اس کھجلی کو اگنور کیا پھر جب کھجلی نے شدت اختیار کر لی تو میں نےاس جگہ کو کھجانا شروع کر دیا ۔۔لیکن میری ۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو میں نے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اُٹھا کر اس سے اس کو کُھجانا شروع کر دیا ۔۔۔ حیرانگی کی بات ہے کہ میں جتنا اس جگہ کو کھجاتی جاتی تھی مجھے اس کام میں اتنا ہی زیادہ مزہ آتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی میری اس جگہ پر کہ جسے چوت یا یونی کہتے ہیں پر خارش تیز ہو گئی تھی اور میں اسے اور بھی تیز تیز کھجا نی لگی ۔۔۔۔ اپنی یونی کھجاتے کھجاتے اچانک میری زہن میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نےفوراً ہی اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ ۔۔فیصلہ کرتے ہی میں نے اپنی چوت کو کھجانا بند کیا اور جلدی سے جا کر اپنے دروازے کو جو کہ پہلے ہی بند تھا اس کو لاک کیا ۔۔ اور اس کے بعد میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی اور ۔۔۔ اور پھر میں نے اپنی شلوار اُتار دی اور قمیض کو بھی اتار لیا اور پھر میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور شیشے کے بلکل قریب جا کر کھڑی ہو گئی اور اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ والی جگہ کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔تو دیکھا کہ میری ٹانگوں کے بیچ والی جگہ پر کافی مقدار میں گوشت ابھرا ہوا ہے ۔۔اور اس ابھرے ہوئے گوشت کے درمیان ایک پتلی سی لکیر تھی اور اس لکیر کے اوپر والے حصےپر یہ بھاری گوشت کو ۔۔۔ میں نے ہاتھ لگا کر چیک کیا تو یہ خاصہ نرم اور تسکین بخش تھا ۔۔ اپنے اس تسکین بخش گوشت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے میں شیشے کے اور قریب ہو گئی اور پاس پڑے سٹول پر ایک پاؤں رکھا اور شیشے میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ سٹول پر ایک پاؤں رکھنے سے میری چوت کی لکیرتھوڑی اور نمایاں ہو گئی ۔۔۔ اور میں نے بڑے غور سے اپنی چوت کو دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔ دیکھا تو اس وقت میری یونی کے نرم گوشت پر سنہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تھے اور ۔۔ میری دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ایریا ۔خاص کر لیکر کے اوپر والا حصہ ۔ پر پنک کلر کا ایک چھوٹا سا دانہ تھا ۔۔۔۔ اور میری چوت کا کہ یہ دانہ ۔ میرے بار بار کھجانے کی وجہ سے اچھا خاصہ سُرخ ہو رہا تھا اب میں نے اپنی دو انگلیوں کی مدد سے اس لکیر کو تھوڑا اور کھولا تو مجھے اپنی چوت کا اندرونی حصہ نظر آیا ۔۔۔۔
۔ اندر سے میری یونی گلابی رنگ کی تھی اور اس میں سے دودھیا رنگ کا پانی سا نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور میں نے انگلی سے اس پانی کو چیک کیا تو یہ چپ چپا سا تھا اوراس وقت چوت سے یہ پانی رِس رِس کر میری ٹانگوں سے نیچے کی طرف جا رہا تھا اسی اثنا میں ایک بار پھر مجھے اپنی یونی پر خارش محسوس ہوئی تو میں نے اپنی چوت کے اوپر لگے اس سُرخ سے دانے کو مسلنا شروع کر دیا جوں جوں میں اس کو مسلتی جاتی تھی تو ں توں میری چوت سے ِچپ چپے پانی کا رسنا تیز ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس سرخی مائل دانے کو مسلتے مسلتے میں نڈھال سی ہو گئی اور میرے منہ سے خود بخود لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور اپنی ان لزت بھری سسکیوں کو سُن سُن کر میرے اندر جنسی خواہش جاگنے کا عمل اور بھی تیز ہو تا گیا ۔۔۔ یہاں تک کہ میری سسکیاں اب ہلکی ہلکی چیخوں میں بدل رہیں تھی اور میری انگلیاں تیزی کےساتھ میری چوت کے ساتھ جُڑے دانے کو کھجا رہیں تھیں ۔۔۔۔ جیسے جیسے میری دو انگلیاں میرے چھوٹے سے دانے پر رگڑ کھاتیں اور اسی تیزی سے میری رانیں اس چپ چپے پانی سے بھیگی جا رہیں تھیں ۔
میں ایک انوکھی لزت سے آشنا ہوتی جا رہی تھی ۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے اس دانے کو مسلنا بند کردیا ۔۔۔۔اور شیشے میں دیکھا تو میرا وہ چھوٹا سا دانہ مسلسل مسلے جانے کی وجہ سے لال سُرخ ہو کر کافی بڑا ہو چکا تھا ۔اور میں نے ایک بار پھر اس دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔۔۔ اور پھررررررر ۔۔کچھ ہی دیر کے بعد ۔۔۔ میرے بدن کو جھٹکے لگنے شروع ہو گئے اور پھر میں نے دیکھا کہ پتلا پتلا دودھیا سا پانی میری ٹانگوں سے ہوتا ہوا ۔۔۔ نیچے کی جانب بہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں بند ہو گئیں اور میں مزے کے سمندر میں غوطے کھانے لگی اور میں بے سدھ ہو کر بیڈ پر گر پڑی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔ یہ میری زندگی کی پہلی خود لذتی تھی جو میں نے اپنے آپ سے حاصل کی تھی گو کہ اس کام میں مجھے تسلی تو ہر گز نہ ملی تھی لیکن اس عمل سے میں ایک لزت سے بھر پور فعل سے ضرور ۔۔متعارف ہو گئی تھی۔
جارھی ھے۔
 
Back
Top