Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story تمہارے بعد بھی

Joined
Nov 24, 2024
Messages
492
Reaction score
34,545
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
شمار ہمارے گھرانے کو کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا تھا۔ ابو اور تایا اکٹھے کاروبار کرتے تھے، پھر تایا کو اسپانسر ملا اور وہ انگلینڈ چلے گئے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا، سلیم احمد، جو مجھ سے ایک سال بڑا تھا۔ تایا ابو، اسے اور تائی کو میرے والد صاحب کے سپرد کر گئے۔ تایا کا وہاں کاروبار جلدی جم گیا، تو وہ باقاعدگی سے رقم بھی بھیجتے رہے، لیکن وہیں کے ہو کر رہ گئے، پلٹ کر واپس نہ آئے، یہاں تک کہ سات برس گزر گئے۔ جب وہ انگلینڈ گئے تھے، سلیم سات برس کا تھا اور اب چودہ برس کا ہو چکا تھا۔ تایا اور ہمارا گھر ایک ہی احاطے میں تھا۔ سلیم میرے والد صاحب کو “ابو” کہتا تھا اور باپ کا پیار ان ہی میں ڈھونڈنے لگا تھا۔ اپنی اصل شناخت کو وہ بھولتا جا رہا تھا۔ والد صاحب بھی سلیم کو اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ خدا کی قدرت کہ اچانک تائی بیمار ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ابو نے تایا ابو کو اطلاع بھجوائی تو وہ فوراً انگلینڈ سے آ پہنچے۔ سلیم کو گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ پہلی بار ہم نے ان کی اپنے بیٹے سے محبت دیکھی۔ وہ بار بار بازوؤں میں بھینچتے اور اسے چومتے تھے۔ چند دنوں کی ملاقات میں اتنا پیار دیا کہ سلیم پچھلی ساری جدائی کو بھول گیا۔ تایا ابو مجھ سے بھی بہت محبت کرتے تھے، میرے سامنے برملا کہتے کہ شاہین میری ہونے والی بہو ہے۔

ایک سال بعد وہ دوبارہ انگلینڈ چلے گئے۔ انہوں نے سلیم کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اس دوران کچھ بزرگوں نے دباؤ ڈالا کہ دوسری شادی کر لو۔ یوں رشتے داروں کے کہنے پر انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ ان کا ارادہ سلیم کے پاس ہی رہنے کا تھا، لیکن دوسری شادی کے چند برس بعد بیوی سے تین بچے ہو گئے تو واپس انگلینڈ بلا لینے کے لیے پر تولنے لگے۔ اب سلیم خوبصورت جوان بن چکا تھا۔ تایا ابو اسے شہزادوں کی طرح رکھتے تھے۔ وہ ہر وقت بن سنور کر، صاف ستھرے اور شاندار لباس میں رہتا۔ جب بھی وہ میرے سامنے آتا، اسے دیکھ کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ آخر وہ میرا منگیتر جو تھا۔ میں سلیم کے خواب دیکھتی تھی، جن کی تعبیر مجھے جلد ملنے والی تھی۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر کھل اٹھتا۔ میں سلیم کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی اور مجھے اس کے کام کر کے خوشی ہوتی تھی۔ ہم دونوں بے چینی سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب ہم ایک دوسرے کے محرم بن جائیں گے۔ گھر میں سوتیلی ماں آ چکی تھی، مگر باپ کی موجودگی کی وجہ سے سلیم کی حیثیت متاثر نہ ہوئی۔ وہ تایا ابو کا بیٹا تھا، ان کا ولی عہد۔ سارا خاندان اسے چاہتا تھا۔ جب تایا ابو واپس انگلینڈ جا رہے تھے، تو اس بار پھر انہوں نے اپنے خاندان کو میرے والد صاحب کے حوالے کر دیا اور خود پردیس چلے گئے۔ کچھ عرصے تک وہاں سے رقم آتی رہی، مگر پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ اور ایسا رکا کہ دوبارہ کبھی بحال نہ ہو سکا۔ چار سال تک والد صاحب نے بھائی ہونے کا حق نبھایا۔ ہر طرح سے تایا ابو کے کہنے پر ان کے اہلِ خانہ کی پرورش کرتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ تایا ابو کے گھرانے کی مالی حالت بدتر ہوتی گئی۔

روٹی تو ان کو ہمارے گھر سے مل جاتی تھی، مگر زندگی گزارنے کے اور بھی کئی تقاضے ہوتے ہیں۔ تایا ابو نے اس بار خط و کتابت سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ سلیم جو کبھی اجلے کپڑے پہنتا تھا، اب اس کے کپڑے میلے رہنے لگے۔ پھر وہ ننگے پاؤں پھرتا، پاؤں کی چپل بھی ٹوٹ چکی تھی۔ اس کے بال مٹی سے اٹے ہوتے، کپڑے گندے اور بدن بدبودار۔ میرے ابو کا بھینسوں ایک ڈیری فارم تھا، جس کی دیکھ بھال انہوں نے سلیم کے ذمے لگا دی۔ وہ سارا دن بھینسوں کو کھولتا، باندھتا، کبھی دھوپ میں، کبھی چھاؤں میں کام کرتا۔ چارہ ڈالتا، پانی پلاتا، ان کے لیے نیا چارہ لاتا، ان کی جگہ صاف کرتا اور گوبر سمیٹتا۔ اس کے ہاتھ پاؤں گوبر سے لت پت رہتے۔ جسم میل اور پسینے شرابور ہوتا اور جب وہ قریب آتا، اس سے ایک خاص قسم کی باندھ آتی تھی، جس سے کراہت سی محسوس ہوتی تھی۔ میرے سارے خواب، حالات نے چکنا چور کر ڈالے۔ خوابوں کا اجلا شہزادہ، بو میں بسا ہوا جا کر بن گیا۔ اس طرح وہ میرے خیالوں کے محلات سے نکل گیا، بلکہ میں نے از خود اس کو نکال دیا اور اس سے نفرت آمیز سلوک کرنے لگی، کیونکہ اب اس کا مجھے پیار سے بلانا اور محبت سے دیکھنا بھی گراں گزرتا تھا۔

پھر وہ وقت بھی آ گیا، جب ابو اس کنبے کی پرورش سے تھک گئے اور انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ اب میرے بس کی بات نہیں رہی۔ سلیم جوان ہے، اپنے باپ کا کنبہ خود سنبھالے۔ سلیم نے صرف آٹھویں جماعت تک پڑھا تھا، وہ بیچارا کیا ملازمت کرتا، کہاں نوکری ملتی؟ آٹھویں پاس کو تو کوئی چپراسی بھی نہیں رکھتا۔ تنگ آ کر اس نے محنت مزدوری شروع کر دی۔ وہ صبح پانچ بجے اٹھ کر ابو کے باڑے میں گھس جاتا۔ بھینسوں کو چارہ ڈالتا، صفائی کرتا، پھر کھانے کے لیے شہر کی راہ لیتا۔ وہ زیر تعمیر مکانات کے لیے سیمنٹ، مٹی ڈھونے لگا اور اس مزدوری سے سوتیلی ماں اور سوتیلے بہن بھائیوں کو پالنے لگا۔ شام کو پھر وہ بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے آ جاتا، کیونکہ ابو کی بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے والا اُس کے سوا کوئی نہ تھا۔ ابو اس کام کے عوض سال بھر کے لیے چھے بوری گندم اور روز کا ڈیڑھ کلو دودھ دیتے تھے۔

سلیم سوتیلے بھائی بہن سے بے حد محبت کرتا تھا اور ان کی پڑھائی کی خاطر ہی محنت مزدوری کر رہا تھا۔ اس کی سوتیلی ماں ایک بے مروت عورت تھی۔ کسی دن سلیم کو بخار ہو جاتا اور وہ کام سے چھٹی کر لیتا تو یہ عورت اس سے جھگڑنے لگتی کہ آج تم کو کھانا نہیں ملے گا۔ اگر وہ دو دن کام پر نہ جا پاتا، تو یہ عورت دو دن اس کو کھانا دیتی، یہاں تک کہ سردیوں کی راتوں میں سونے کے لیے جگہ بھی نہ دیتی تھی۔ جس کے ماں باپ سر پر نہ ہوں، ان کا حال زمانہ برا کر دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ سلیم کے ساتھ ہو رہا تھا۔ وہ ہمدردی کا مستحق تھا، مگر سبھی کو بُرا لگتا تھا۔ اس کا وجود ہر کسی کی نظروں میں کھٹکتا تھا۔ وہ ایک مزدور بن گیا تھا، جس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی اور ہاتھ کھردرے ہو چکے تھے۔ جس کو لباس پہننے کا یارانہ نہ تھا۔ وہ تو خود اپنی نظروں میں بھی بے قیمت ہو چکا تھا، میری تو اور بات ہے۔سچ ہے کہ جہاں محبت انسان کو قدر و قیمت عطا کرتی ہے، وہاں غریبی اس کو بے قیمت بنا دیتی ہے۔ میری ماں کو کبھی کبھی اس پر ترس آ جاتا تھا۔ وہ سوتیلی والدہ سے چوری چھپے اس کو کھانا کھلا دیتی اور سونے کے لیے بیٹھک کھول دیا کرتی تھیں۔ میں اب جوان ہو چکی تھی اور میرے والدین کو میری شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔

وہ بیچارا سبھی سے ڈرتا تھا، سب کے حکم کا غلام تھا، لیکن کبھی اس کو یہ خیال نہ آیا کہ میرے والد اس کو یوں تہی دامن کر دیں گے۔ وہ تو دن رات ان کی خدمت اور تابعداری میں لگا رہتا تھا۔ شاید یہ سوچ کر کے وہ ان کا ہونے والا داماد تھا۔ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے میرے والد سے فریاد کی کہ آپ میری منگیتر کسی اور کو سونپ رہے ہیں۔ اس پر ابا نے کہا۔ کسی اور کو کیا مطلب؟ کیا صحاب کوئی غیر ہے ؟ وہ میرا بھتیجا نہیں ہے کیا؟ خبردار اب شاہین کا نام بھی اپنے منہ پر نہ لانا، کیونکہ وہ صحاب کی ہو چکی ہے۔

چھوٹے چچا کے بیٹے میرے ہم عمر تھے اور جوان ہو چکے تھے۔ چچا اکبر کے بڑے لڑکے کا نام صحاب تھا اور والد صاحب کی اس پر نظر تھی۔ وہ میرا رشتہ اسی کو دینا چاہتے تھے جو شہر میں پڑھ رہا تھا اور اس کا مستقبل روشن تھا۔ میں نے بھی اُسی کو دل میں بالیا، کیونکہ جو حالات سلیم کے تھے ان حالات میں اس غریب کو دل میں بسانے کی گنجائش نہ تھی۔ سلیم کو حالات نے نہ بدلا تھا۔ اس کی سوچیں وہی تھیں، میرے لیے اس کے دل میں محبت بھی ویسی ہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے والد آج نہیں تو کل پہلے کی طرح بہت سارا روپیہ لے کر انگلینڈ سے آجائیں گے۔ انسان بیچارا بڑا خوش فہم ہوتا ہے۔ اپنی صورت آئینے میں دیکھنے کی بجائے، وہ خوابوں میں دیکھتا ہے۔ صحاب شہر سے پڑھ کر آ گیا۔ وہ وکالت کا کورس پاس کر کے آیا تھا۔ ابو اور چچا میں صلاح ہوئی اور پھر میری منگنی اس کے ساتھ ہو گئی۔ منگنی سے ایک دن پہلے اس بات کی خبر سلیم کو ہوئی، تو وہ مرجھا کر رہ گیا، جیسے کسی نے اس کی جان نکال لی ہو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ دونوں چچا کیوں اس کی محبت اس سے چھین کر کسی اور کی جھولی میں ڈال رہے ہیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے اس کو منہ ہی نہ لگایا، تو وہ احتجاج پر اتر آیا، تب میں نے اس کو بری طرح ڈانٹ دیا کہ تم ہو کس خیال میں؟ میں نے اپنی شکل اور حلیہ دیکھا ہے۔تم نے؟ کیا میں ایک ان پڑھ مزدور سے شادی کروں گی؟ میری منگنی ہوئی ہے تم سے، بچپن سے تم نے مجھ سے پیار کا اقرار کیا تھا، وعدے کیے تھے۔ کیا ہوئے وہ وعدے؟ بھاڑ میں گئے وہ وعدے۔ اور پیار کے اقرار کو تمہاری غربت کا سیلاب بہا کر لے گیا، آئی سمجھ؟ اور آئندہ مجھے منگیتر مت کہنا۔ میں اب تمہاری نہیں، کسی اور کی منگیتر ہوں۔ میں نے ٹکا سا جواب دیا۔ لیکن تبھی اس کا وہ بیچارا سب سے ڈرتا ڈرتا، سب کے حکم کا غلام تھا، لیکن تبھی بھی اسے یہ خیال نہ آیا کہ میرے والد اس کو یوں تہی دامن کر دیں گے۔ وہ تو دن رات ان کی خدمت اور تابعداری میں لگا رہتا تھا۔ شاید یہ سوچ کر کہ وہ ان کا ہونے والا داماد تھا۔ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے میرے والد سے فریاد کی کہ آپ میری منگیتر کسی اور کو سونپ رہے ہیں۔ اس پر ابو نے کہا، کسی اور کو کیا مطلب؟ کیا صحاب کوئی غیر ہے؟ وہ میرا بھتیجا نہیں ہے کیا؟ خبردار اب شاہین کا نام بھی اپنے منہ پر نہ لانا، کیونکہ وہ صحاب کی ہو چکی ہے۔

جس روز وہ کام سے واپس آیا، تو میری منگنی کی مٹھائی بٹ چکی تھی۔ اس کے سوتیلے بہن بھائیوں نے مٹھائی لے جا کر اس کو بھی دی۔ مٹھائی وہ کیا کھاتا، وہ تو اس کے لئے زہر تھی۔ سلیم کے دل کو اس روز بڑی ٹھیس لگی، جسے وہ برداشت نہ کر سکا اور اسی دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھوپھی کے پاس چلا گیا۔ خدا جانے اس نے پھوپھی سے کیا فریاد کی کہ انہوں نے تایا ابو کا کھوج نکال ہی لیا۔ ان کو فون کیا، ٹیلی گرام کیے تو وہ انگلینڈ سے کراچی میں پھوپھی کے گھر آگئے اور جب انہوں نے سلیم کا حال دیکھا، تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ چند دن بعد وہ ہمارے گھر آگئے، مگر میری شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔تایا ابو سب سے ناراض تھے، مگر کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ غلطی خود اُن کی تھی۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی کو فراموش کر کے کیوں لندن جا بیٹھے تھے۔ خیر، وہ چند دن رہ کر واپس چلے گئے۔ اُنہوں نے میری شادی میں بھی شرکت نہ کی۔ واپسی پر انہوں نے بیٹے کے کاغذات سفارت خانے میں جمع کر دیے اور کچھ عرصے بعد سلیم کو اپنے پاس بلوالیا۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک سلیم اور تایا کی خبر نہ ملی، البتہ اب وہ کبھی کبھی تائی کو رقم بھیجوا دیتے تھے۔میں صحاب سے شادی کر کے شہر چلی گئی۔ میں بہت خوش تھی۔ مجھے شہری زندگی بہت اچھی لگی، لیکن یہ خوشی پائیدار نہ تھی۔ صحاب شادی کے صرف چار سال تک ٹھیک رہے۔ اللہ نے ہمیں ایک بیٹا عطا کیا۔ میں اس کی پرورش میں لگی ہوئی تھی کہ صحاب کے پاس ایک لڑکی وکالت پاس کر کے آگئی اور بطور جونیئر کام سیکھنے لگی، اس کا نام انجم تھا۔ بہت جلد ان دونوں میں رومانس شروع ہو گیا، جس کا انجام شادی پر ختم ہوا۔

مجھے سوکن کا پتا اس وقت چلا، جب میں ایک اور بچی کی ماں بن گئی۔ میرے شوہر کو انجم نے ایسا اپنی زلفوں کا اسیر کیا کہ وہ اسی کے ہو کر رہ گئے اور مجھے بہانے سے واپس گاؤں بھیجوا دیا۔ انہی دنوں ابو کا انتقال ہو گیا اور میں بے آسرا ہو گئی۔ میرا سارا عزم ٹوٹ گیا۔ بچوں کی پرورش بھی ایک مسئلہ تھا۔ چچا اور بھائی اتنی مدد نہیں کرتے تھے اور صحاب تو جیسے ہمیں گاؤں بھیج کر بھول گئے تھے۔ میرا حال، میری تائی جیسا ہوا اور میرے بیٹے کا سلیم جیسا۔ وہ بیچارہ ہوش سنبھالتے ہی محنت مزدوری میں لگ گیا۔ صحاب نے مجھ بے قصور کو طلاق بھجوادی اور اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ ہو گئے۔ وقت گزرتا رہا، میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرتی رہی، یہاں تک کہ سترہ برس بیت گئے اور پتا بھی نہ چلا۔ ایک دن گاؤں میں شور مچ گیا کہ سلیم صاحب آئے ہیں۔ میں پہلے تو کچھ نہ سمجھی، لیکن جب کسی نے کہا کہ انگلینڈ سے سلیم صاحب آئے ہیں، تو سبھی انہیں دیکھنے گھر سے نکلے۔ سلیم صاحب تو واقعی صاحب بن کر آئے تھے۔ کوئی ان کو پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ وہی مزدور سلیم ہے۔ وہ تو خوب سوٹڈ بوٹڈ اور مالدار ہو کر آیا تھا۔

جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ بجھ کر رہ گیا اور حیرت سے پوچھا، “تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اتنی جلدی بوڑھی ہو گئی ہو، کیا بیمار ہو؟” سلیم سوتیلی ماں اور بھائیوں کے لیے بہت کچھ لایا تھا۔ بہن بیاہی جا چکی تھی، اس کے لیے بھی کافی تحفے لایا تھا۔ جب اس کو پتا چلا کہ صحاب نے مجھے طلاق دے دی ہے اور میرا بیٹا بھی بھینسوں کے باڑے میں کام کرتا ہے، تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ میرے بیٹے کو بلوا کر گلے لگایا اور دس ہزار روپے دے کر کہا، جا کر اپنے لیے اچھا سا سوٹ اور جوتے لے لو۔چھ ماہ سلیم گھر پر رہا۔ جاتے ہوئے اس نے میری والدہ کو ایک معقول رقم دی اور کہا، شاہین اور اس کے بچوں کا خرچ والد صاحب نے بھیجا ہے۔ حالانکہ یہ بات میں خوب جانتی تھی کہ رقم وہ خود دے گیا تھا۔

اس کے بعد سے آج تک سلیم اپنی سوتیلی والدہ کو علیحدہ اور میری امی کو علیحدہ رقم بھجواتا ہے تاکہ مجھے کسی قسم کی مالی تنگی محسوس نہ ہو۔ اور اب میں سوچتی ہوں کہ واقعی محبت کرنے والوں کی قدر کرنا چاہیے۔ سکون قیمتی کپڑوں میں نہیں، دلوں میں ہوتا ہے۔
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat