pajal20
Super Paid Member
Offline
- Thread Author
- #1
اس کہانی کا اغاز پنجاب کے ایک شہرجھنگ کے قریب ایک گاؤں میں کافی سال پہلے اس وقت ہوا تھا جب اس گاوں میں بجلی بھی نہی ای تھی
اس گاوں کے لوگ بہت ہی غریب، ان پڑھ تھے اور ان کا زریعہ معاش کھیتی باڑی تھا۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ رات کو لالٹین، موم بتی یا مٹی کے دیوے جلا کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔
اس گاؤں میں دو بھائی فیض احمد اور اکمل خان اپنے بچوں کے ساتھ ایک ہی حویلی میں اکٹھے رہتے تھے۔
بڑے بھائی فیض احمد کے 5 بچے تھے۔ جن میں سے بڑے تین تو شادی شدہ تھے اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ اسی گاؤں میں لیکن الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔
فیض احمد کا سب سے چھوٹا بیٹا گل نواز احمد اور اس کی بیٹی نزہت بی بی ابھی کنوارے تھے۔
فیض احمد کے چھوٹے اکمل خان کے چار بچے تھے۔ جن میں سے دو بڑے بیٹے شادی شدہ تھے اور وہ گاؤں سے باہر دوسرے شہروں میں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔
اکمل خان کے بھی دو چھوٹے بچے ابھی تک کنوارے تھے۔ اس کے بیٹے کا نام سلطان احمد اور بیٹی کا نام رخسانہ بی بی ہے۔
چونکہ یہ سٹوری رخسانہ بی بی کی آپ بیتی ہے۔
اس لئے میں اب یہ سٹوری رخسانہ بی بی کی زبانی ہی بیان کرتا ہوں۔
میرا بھائی سلطان اور میرا تایا زاد گل نواز دونوں اب جوان تھے اور وہ سارا دن کاٹتے ہوئے اپنے والد اور چچا کے ساتھ کام کر کے ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
جب کے میں اور نزہت گھر میں اپنی امیوں کے کام کاج میں ان کی مدد کرتی تھیں۔
ایک تو چچا اور تایا زاد بھائی ہونے اور پھر اوپر سے ہم عمر ہونے کے ناطےگل نوازاور سلطان دونوں میں بہت اچھی دوستی تھی۔
اسی طرح نزہت اور مجھ میں بھی بہنوں کی طرح پیار تھا۔ اور ہم دونوں بھی ایک دوسرے کی بہت اچھی سیلیاںتھیں۔
ہمارے گاؤں میں ان دنوں دیسی شراب کی لعنت اپنے ڈیرے ڈال چکی تھی۔ گاؤں کے بڑے بزرگوں نے پہلے پہل اس برائی کو رکنے کی کوشش کی
مگر شراب کا دھندا کرنے والا مافیا بہت طاقتور تھا۔ جس نے اپنے پیسے اور اسرو رسکوک سے سب کے منہ بند کروا دے۔
اور پھر رفتہ رفتہ گاؤں کے جوان تو جوان بھوڑے لوگ بھی دیسی شراب کے سواد سے فیضیاب ہونے لگے۔
شادی سے پہلے گل نواز اور سلطان دونوں رات کے وقت اکثر گاؤں کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر دیسی شراب پیتے اور کبھی کبھار ساتھ والے شہر جا کر کسی گشتی کو بھی چودلیتے تھے۔
ان کی ان حرکتوں کا ہم سب گھر والوں کو بھی پتہ تھا۔ مگر ہمارے ماں باپ ان کو "منڈے کنڈے" سمجھ کر کبھی بھی ان حرکتوں سے منع نہیں کرتے تھے۔
گھر کے لڑکوں کے برعکس میں اور نزہت شریف اور گرہلوں لڑکیاں تھیں جو شادی سے پہلے بالکل کنواری تھیں۔
بچپن ہی میں میری منگنی گل نواز کے ساتھ اور نزہت کی منگنی میرے بھائی سلطان کے ساتھ تہ پا چکی تھی۔
اس لئے جب گل نواز اور میرا بھائی سلطان دونوں کام کاج میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے تو پھر ایک دن گل نواز کی شادی مجھ سے اور میرے بڑے بھائی سلطان کی شادی گل نواز کی بہن نزہت سے کر دی گئی۔
یہ "وٹے ستے" کی شادی تھی۔ جس کی بنا پر میں نزہت کی اور وہ میری بھابھی بن گئیں۔
جس وقت ہماری شادی ہوئی اس وقت ہم سب کی عمریں کچھ یوں تھیں۔
گل نواز احمد (عمر 24 سال)
نزہت بی بی (گل نواز کی بہن عمر 23 سال)
سلطان احمد (میرا بھائی عمر 25 سال)
میں: رخسانہ بی بی (عمر 23 سال)
ایک ہی حویلی میں ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم دونوں نئے شادی شدہ جوڑوں کو جو کمرے دیے گئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے
سہاگ رات کو میں اور نزہت دونوں دلہن بن کر اپنے اپنے کمرے میں سہاگ کی سیج پر بیٹھی ہوئی اپنے شہوروں کا انتظار کر رہی تھیں
تقریباً ادھی رات سے کچھ وقت پہلے گل نواز اور سلطان دونوں دیسی شراب پی کر اپنے اپنے کمرے میں داخل ہوئے۔
کمرے میں آتے ہی میرے شوہر گل نواز نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
گل نواز آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے پاس پلنگ پر آ کر بیٹھ گیا۔
پلنگ پر بیٹھے ساتھ ہی بنے مجھ سے کوئی بات کی گل نواز نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔
کمرے میں ایک لالٹین بالکل مدھم لو میں جل رہی تھی۔ جس کی وجہ سے کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔
گل نواز کے اس طرح مجھے اپنی طرف کیچنے پر مجھے بہت شرم آ رہی تھی۔
گل نواز نے اپنے منہ کو میرے منہ کے نزدیک کیا تو اس کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بدبو نے مجھے پریشان کر دیا۔
میں نے اپنا منہ گل نواز کے منہ سے ہٹنے کی کوشش کی۔ مگر میں اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے گل نواز کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آ کر جم گئے۔
گل نواز نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں کستے ہوئے چوما۔ جس کی وجہ سے میرا منہ بےاختیار کھلتا چلا گیا اور میری زبان بھی تھوڑی باہرنکل آئی۔
میرے شوہر نے میری زبان کو اپنے منہ میں لیا اور پھر میرے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ میری زبان کو بھی چوسنے لگا۔
میں جو ایک لمحہ پہلے تک گل نواز کے منہ سے آتی شراب کی بدبو سے پریشان ہو کر اس کے نزدیک آنے سے کترا رہی تھی۔
اب دوسرے ہی لمحے میں میری یہ حالت ہو گئی کہ میں اپنے شوہر کے لبوں کے لمس کے مزے سے ایک دم پاگل سی ہونے لگی تھی۔
اپنے ہونٹوں کو پہلی بار کسی مرد کے ہونٹوں کے ساتھ ٹکرانے کا یہ تجربہ میرے لیے بالکل نیا تھا۔ اور اس مزے کو محسوس کرتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہونٹوں کی چومہ چاٹی کرنے میں بھی اتنا مزہ آئے گا۔
میں سوچنے لگی کہ اگر ہونٹوں کی چومہ چاٹی کرنے میں اتنا مزہ آ رہا ہے تو چدوانے میں کتنا مزہ آتا ہوگا۔
گل نواز میری زبان کو چوسے جا رہا تھا اور اس کے ہاتھ میری پیٹھ پر چل رہے تھے۔ اس نے مجھے اپنے ہاتھوں میں کس لیا جس کی وجہ سے میں اس کے ساتھ ایک دم چپک سی گئی۔
میں گل نواز کا چمٹی ہوئی اس کا گرم بدن اور گرم سانسیں اپنے جسم اور گردن پر محسوس کر رہی تھی۔
اسی دوران میرے بدن پر پھرتے پھرتے گل نواز کا بایاں ہاتھ اچانک میرے بائیں ممے پر آ کر رک گیا۔
اپنے شوہر کا ہاتھ پہلی بار اپنی گداز چھاتی پر محسوس کرتے ہی میری تو سانس ہی جیسے رکنے لگی۔
میں پوری طرح سے کانپ گئی اور کسمسا کر میں نے گل نواز سے پرے ہٹنے کی ایک ناکام سی کوشش کی، پر گل نواز نے مجھے کس کر دبوچا ہوا تھا۔
گل نواز کے ہاتھ میری چھاتی سے کھیلنے لگے۔ جس سے میں بھی شرم و حیا کے پردے سے تھوڑا باہر نکلی اور جوانی کے سرور میں آتے ہوئے اپنی چوت کی گرمی کے ہاتھوں مجبور ہو کر جیسے بہکنے ہی لگی۔
تھوڑی دیر کے بعد گل نواز کا ہاتھ میرے بدن سے کھیلتے کھیلتے میری شلوار کے ناڑے پر آ گیا۔ اور اس نے میرے لبوں کو چومتے چاٹتے ایک جھٹکے میں ہی میری شلوار کے ناڑے کو کھول دیا۔ ناڑا کھلتے ہی میری شلوار جسم سےسرک کر بستر پر گر گئی۔
اس سے پہلے کہ میں تھوڑا سنبھلتی، دوسرے ہی لمحے گل نواز نے میری قمیض بھی اتار دی۔
قمیض اتارنے کی دیر تھی کہ گل نواز نے اپنے ہاتھوں کو میری کمر کے پیچھے لے جا کر پیچھے سے میری برا کا ہک کھول دیا اور ایک جھٹکے سے میری برا کو بھی اتار کر پھینک دیا۔
زندگی میں پہلی بار یوں آنن فانن کسی مرد کے ہاتھوں اپنے آپ کو اپنے کپڑوں کی قید سے آزاد ہوتے دیکھ کر میں تو شرم سے لال ہو گئی۔
مگر اس شرم کے ساتھ ساتھ ہی مجھے نہ جانے کیوں اتنا مزہ بھی آیا کہ اس مزے اور جوش میں مجھے اپنی چوت سے پانی بھی نکلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
مجھے مکمل ننگا کرتے ہی گل نواز نے اپنے کپڑے بھی اتار دیے۔ گل نواز کو ننگا ہوتے دیکھ کر، میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہاتھ رکھ لیا۔
مگر گل نواز نے میری آنکھوں سے میرے ہاتھ ہٹا کر مجھے اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
اس رات زندگی میں پہلی بار میں نے ایک مرد کا لن دیکھا اور جس کو دیکھ کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
میں سوچنے لگی کہ میری چوت کا چھید تو بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک انگلی تو اس میں جا نہیں پاتی یہ اتنا بڑا لن کیسے میرے اندر جا پائے گا۔
یہی سوچ کر مجھے بہت گھبراہٹ ہونے لگی اور ماتھے پر پسینہ آ گیا
تھوڑی دیر تک لالٹین کی مدھم روشنی میں میرے ننگے جسم کا جائزہ لینے کے بعد گل نواز نے آگے بڑھ کر میرے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اتنی زور سے مسلا کہ میرے منہ سے "آہ" نکل گئی۔
گل نواز کے ہاتھوں کی یہ گرمجوشی مجھے بھی گرم کر گئی۔ آج پہلی بار کوی مرد میرے بدن سے کوئی کھیل رہا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میرا جسم گرم ہونے لگا۔
گل نواز اپنی انگلی اور انگوٹھے سے میرے نپلز کو بے دردی سے مسلنے لگا۔ میں جوش میں ایک دم پاگل سی ہو رہی تھی۔ میری چوت لگا تار پانی چھوڑے جا رہی تھی۔
گل نواز نے اپنا منہ نیچے میری ننگی چھاتیوں کی طرف بڑھا اور اپنے منہ میں میرا دایاں مما لے لیا اور بائیں ممے کو اپنی مٹھی سے کس کر دبانے لگا۔
کیا سخت اور مزے دار ممے ہیں تمہارے، میری رانی۔" گل نواز نے یہ کہتے ہوئے میرے دونوں مموں کو کس کر آپس میں جوڑا اور پھر بے خودی میں جذبات سے بے قابو ہوتے ہوئے میرے دونوں مموں کے درمیان میں اپنی زبان کو پھیرنے لگا۔
میں نے بھی مستی میں آتے ہوئے اپنی بانہوں سے گل نواز کے سر کو پکڑ لیا اور اپنی چھاتیوں کو اوپر کی طرف کرنے لگی۔
میری چوت پانی چھوڑے جا رہی تھی... میری چوت سے ٹپک ٹپک پانی بہ کر بستر کی چادر پر جا کر جذب ہونے لگا
گل نواز کے ہاتھ میرے جسم سے کھیلتے کھیلتے میری کنواری چوت پر آ چکے تھے۔
گل نواز نے میری چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر اپنے ہاتھ کی درمیانی انگلی میری چوت میں گھسا دی۔ "اُففففففف...." تومیں تڑپ اٹھی۔
گل نواز نے اپنی انگلی میری چوت میں ڈال کر اس کو آہستہ آہستہ میری پھدی کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔
مجھے بھی مزہ آنے لگا اور میں آہیں بھرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد گل نواز اٹھا اور اس نے میرے دونوں پیر اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیے۔
اب گل نواز کا تنا ہوا لنڈ میری چوت سے بس ایک انچ کی ہی دوری پر تھا۔
میرے شوہر گل نواز نے میری ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر پھیلایا اور اپنے لن کا ٹوپا میری چوت کے اوپر رکھ دیا۔
گل نواز کے لن کو اپنی چوت سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے میرے سارے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ اور مزے کے مارے میرا بدن جیسے جھرجھری سی لینے لگا۔
تبھی گل نواز نے ایک جھٹکا مارا اور اس کا لن میری کنواری چوت کا پردہ پھاڑتا ہوا اندر گھس گیا۔
میں درد سے چلا اٹھی، اُئیییی...... آہستہ ۔
مگر اب گل نواز کب رکنے والا تھا۔ اسے مجھ پر کوئی ترس نہ آیا اور وہ ایک بھوکے کتے کی طرح میری بوٹی بوٹی نوچنے لگا۔
چونکہ میرے اور گل نواز کے کمرے کی دیوار نزہت اور سلطان بھائی کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ اس لیے رات کے سناٹے میں ساتھ والے میرے بھائی کے کمرے سے آتی ہوئی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازوں سے پتہ چل رہا تھا کہ دوسرے کمرے میں بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو ہمارے کمرے میں زور و شور سے جاری تھا۔
اس رات گل نواز اور سلطان، دونوں کزنز نے ایک دوسرے کی بہن کی چوت کے کنوارے پن کو اپنے اپنے لن سے پھاڑ کر مجھے اور نزہت کو ایک لڑکی سے عورت بنا دیا۔
نزہت کی طرح میرے لیے چدائی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ مجھے نزہت کا تو پتہ نہیں مگر چدائی کے اس کھیل میں پہلے پہلے تو مجھے بہت درد ہوا۔
لیکن پھر جب کچھ دیر چدائی کے بعد درد کم ہونے لگا تو میں نے اپنے شوہر گل نواز کی بانہوں میں اپنی سہاگ رات کا خوب مزہ لیا۔
اس دن کے بعد اکثر رات کو گل نواز اور سلطان دونوں پی کر گھر آتے اور کمرے میں آتے ہی نشے کی حالت میں اپنی اپنی بیویوں پر چڑھ دوڑتے
ایک تو دن بھر کھیتوں میں کام کرنے کی تھکن اور دوسرا شراب کے اثر کی وجہ سے چدائی سے فارغ ہوتے ہی گل نواز تھک کر میرے پہلو میں گر جاتا اور دوسرے ہی لمحے اس کے خراٹے میرے کانوں میں گونجنے لگتے تھے۔
شادی کے ٹھیک 9 مہینے بعد نزہت نے ایک بیٹے کو جنم دیا جبکہ میری کوکھ ابھی تک خالی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ میں اور گل نواز بچہ نہیں چاہتے تھے یا بچہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔
گل نواز تو صرف اور صرف ان دنوں ہی میرے ساتھ چدائی کا ناغہ کرتا جب میری ماہواری چل رہی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ تو وہ ہر رات دل بھر کے مجھے چودتا تھا۔
اس دوران دو سال مزید گزر گئے اور نزہت نے ایک اور لڑکی کو جنم دے دیا۔
مگر لگتا تھا کہ بچوں کی خوشی ابھی میرے نصیب میں نہیں تھی۔