Urdu Story World No.1 Urdu Story Forum
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Sex Story حسرت نا تمام

Joined
Dec 24, 2022
Messages
444
Reaction score
11,583
Location
Lahore
Offline
حسرت ناتمام۔
اپڈیٹ۔
۔دوستو! میری جب شادی ہوئی تو میری بیوی کی ایک بڑی بہن کی بھی شادی ہمارے ساتھ ہی ہوئی۔ میری بیوی سات بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ بھائی سب سے چھوٹا تھا اور ہماری شادی کے وقت اس کی عمر 4 سال تھی۔ میری بیوی اٹھارہ اور میری بڑی سالی 19 سال کی تھی۔ دونوں جڑواں لگتی تھیں۔ میری سالی کا خاوند ایک اچھا انسان تھا اور میری اس کے ساتھ شادی پر ہی ملاقات ہوئی اور دوستی ہو گئی۔
ہم زلف ہونے کے ناطے وہ ایک اچھا انسان تھا اور میں نے بھی اسے بڑے بھائی کا درجہ دیا اس نے بھی مجھے چھوٹا بھائی بنا لیا۔ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہو گیا۔
ایک سال بھی ابھی نہیں گزرا تھا کہ میری بیوی نے بیٹا پیدا گیا اور میری سالی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ میں اورمیرا ہم زلف اس موقع پر بہت خوش تھے۔ گھر والے بھی بہت خوش تھے۔
سارا سال بہت خوشیاں منائی گئیں اور پھر ایک سال کے بعد ہم نے دوبارہ بچہ پلان کیا اور پھر میری بیوی امید سے ہو گئی ادھر میری سالی بھی امید سے ہو گئی۔ ہمیں اوپر والےنے دوسرے بیٹے سے نوازا اور میری سالی کو پھر بیٹی ہوئی۔
ہم نے بہت خوشیاں منائیں۔شادی کو پانچ سال گزر گئے اس دوران میری بیوی نے تین بیٹے پیدا کیے اور میری سالی کے گھر چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
اسی دوران میرے ہم زلف کو اپنی تجارت میں کچھ خسارہ ہونا شروع ہوا تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ میرے بزنس میں انسویسٹ منٹ کر لیں اور میرے پاس ہی شفٹ ہو جائیں۔ انہیں میری یہ تجویز اچھی لگی اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے اور میری بیوی نے ان کے لیے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن خالی کر دیا اور وہ وہاں شفٹ ہو گئے۔
تین دن تک انہوں نے کھانا ہمارے ساتھ کھایا۔ ان کی بیٹیاں بہت پیاری تھیں اور مجھے ماموں کہتی تھیں اور میرے تینوں بیٹے میرے ہم زلف کو ماموں کہتے تھے۔ میری سالی فرح بہت ہی خوب صورت اور باوجود چار بیٹیاں پیدا کرنے کے وہ بہت سمارٹ تھی اور چونکہ قد بھی میری بیوی سے چھوٹا تھا اس لیے بالکل گڑیا سی لگتی تھی۔
اسکی آنکھیں بھی بہت ہی خوب صورت بلوریں تھیں اور اس کی بیٹیاں تو چھوٹی چھوٹی پریاں لگتی تھیں۔ میری بیوی اپنی بہن سے بھی زیادہ حسین تھی۔ اب جب سے میں نے فرح کو اس حالت میں دیکھا میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
وہ مجھے بھائی جان کہتی اور میں بھی اسے پیاری بہن کہتا تھا۔ میری بیوی بھی اپنے بہنوئی کو بھائی جان وہ بھی اسے میری بہن میری بہن کہتا تھا۔ ہمارے درمیان بہت ہی عزت والا رشتہ تھا۔
میری والدہ اور والد بھی دونوں میاں بیوی اور ان کے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔
دن گزرنے لگے اور ہمارا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ ایک بار ہفتہ بھر کے لیے میرے ہم زلف ایک بزنس میٹنگ کے لیے کراچی گئے ۔ میں جب گھر آیا تو میری بھانجیاں بھی وہیں کھیل رہی تھیں ۔
مجھے دیکھتے ہی میرے تینوں بیٹے اور چاروں بھانجیاں مجھے چمٹ گئے میں بھی سب سےپیار کرنے لگا۔ میری بیوی اور سالی فرح مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں اور یکدم فرح نے کہا کہ کاش ان میں میرا بھی ایک بیٹا کھیل رہا ہوتا۔ میری بیوی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ باجی امید رکھیں ہو جائےگا بیٹا بھی۔
فرح کہنے لگی کہ نہیں ہم نے ٹسٹ کروائے ہیں تمہارے بھائی صاحب بیٹا پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں وائی جرثومے نہیں ہیں۔ یہ بات اچانک ہوئی اور میں نے بھی سن لی اور میں حیرت سے ان دونوں بہنوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر بات آئی گی ہو گئی ۔ میں نے کپڑے بدلے اور کھانے کے لیے میز پر آ گیا۔
سب نے کھانا کھایا۔ آئس کریم کھائی اور پھر چہل قدمی کرنے کے لیے چھت پر چلے گئے۔ چہل قدمی کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ فرح میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جبکہ میری بیوی بچوں کے ساتھ مصروف تھی۔ اچانک میری سالی فرح نے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگی۔
بھائی جان! کبھی آپ کی با ت نہیں ہوئی آپ کے بھائی صاحب سے؟ ۔
میں نے کہا کہ کس موضوع پر؟
کہنے لگیں کہ بچوں کے موضوع پر؟
میں نے کہا کہ نہیں۔ کہنے لگی کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیٹا پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ یہ تو قدرت کی مرضی ہوتی ہے۔ کہتی کہ نہیں اس میں مرد کے سپرمز کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔
میں جھجک گیا۔ وہ بولی کہ جھجکنے کی بات نہیں ہم دونو شادی شدہ ہیں اور بچوں والے ہیں اس لیے ہمیں کھل کر ایسی بات کر لینی چاہیے اور میں تو کافی عرصے سے اس تاک میں تھی کہ آپ کے ساتھ با ت کر سکوں۔ اب میں آزادی سے بات کر سکتی ہوں کیونکہ آپ کے بھائی یہاں نہیں۔
میں نے کہا کہ باجی آپ کی بہن بھی تو ہے نا؟
تو فرح کہنے لگی کہ اسی نے تو مجھے کہا ہے کہ تم اپنے بھائی سے بات کرو۔ میں حیران ہوا لیکن دل میں بہت خوش ہوا کہ چلو سیکسی باتیں کرنے کی اجازت میری بیوی کی طرف سے مل گئی۔ میں پہلی بار اپنی بیوی کے علاوہ کسی لڑکی سے سیکس پر بات کر رہا تھا۔
میں نے کہا کہ فرح یہاں تو مناسب نہیں بچے ہیں اور ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں گی تو مناسب نہیں لگتا ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو سلا دیں پھر ہم تینوں بیٹھ کر باتیں کر لیں گے۔۔
اگر برہ (میری بیوی) کو علم ہے تو پھر اس کے سامنے ہی ساری بات کر لیں گے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور یوں ہم نیچے آ گئے تا کہ بچوں کو سلا دیا جائے۔
چونکہ عامر(فرح کا میاں) گھر پر نہیں تھا اس لیے سب بچوں کو میری بیوی نیچے لے گئی اور ہمیں کہہ دیا کہ آپ لوگ یہیں رکیں میں بچوں کو امی جان کے سپرد کر کے آتی ہوں کیونکہ میرے بچے اپنی دادی کے پاس سوتے ہیں اس لیے میں ان کے سپرد کر کے آتی ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
وہ چلی گئی تو میں اور فرح باتیں کرتے کرتے نیچے فرح او ر عامر کے بیڈ روم میں آ گئے۔ وہاں میں کرسی پر بیٹھ گیااور فرح اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد میری بیوی برہ آئی اور ہمیں الگ الگ بیٹھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔
برہ جا کر اپنی باجی فرح کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد برہ بولی کہ باجی آپ نے اپنے بھائی سے بات مکمل کر لی؟
تو فرح کہنے لگی کہ نہیں ابھی تو شروع ہی نہیں کی۔ اب تم آ گئی ہو تو تمہارے سامنے کی کر لیتی ہوں کیونکہ تم نے ہی مجھے حوصلہ دیا تھا کہ ذوہیب سے بات کر لوں تو اب تماہرے سامنے ہی کر لیتی ہوں۔
اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
میں بھی ہمہ تن گوش ہو گیا۔ پھر فرح نے بتایا کہ عامر میں بیٹا پیدا کرنے والے یعنی ایکس سپرم نہیں ہیں جو میرے ایکس سپرم سے مل کر بیٹا پیدا کر سکیں مشورہ یہ کرنا تھا کہ اس کا کچھ ہو سکتا ہے؟
کیونکہ مجھے بیٹے کی خواہش ہے اور عامر بھی کہتے ہیں کہ ایک بیٹا تو ہونا ہی چاہیے۔ میری بیوی بولی کہ باجی مجھے بیٹی کی خواہش ہے۔
میں نے کہا کہ اس کے لیے تو کسی گائینا کولوجسٹ سے رابطہ کرنا ہوگا جس پر فرح نے کہا کہ ہم نے یہ کر کے دیکھا ہے ۔
گائناکولوجسٹ کے پاس جو ممکنہ علاج تھا انہوں نے کیا لیکن اس کے بعد بھی لڑکی پیدا ہوئی اور انہی تجربات کی وجہ سے ہماری چار بیٹاں پانچ سال میں پیدا ہو چکی ہیں اور اب ہم مزید رسک نہیں لینا چاہتے۔
میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ برہ کہنے لگی کہ آپ دور کیوں بیٹھے ہیں یہاں بیڈ پر ہی آ جائیں۔ تو میں کرسی سے اٹھ کر بیڈ پر چلا گیا۔ اب بیڈ پر برہ درمیان میں اور اس کے ایک طرف میں اور ایک طرف فرح بیٹھی تھی۔ میں اور برہ تو اتنے گرم تھے کہ پاس بیٹھتے ہی ہم چدائی کے لیے تیار ہو جایا کرتے تھے اور یہی ہوا جیسے ہی میرا جسم برہ کو ٹچ ہوا اسے جھٹکا لگا اور وہ تیار ہو گئی ادھر سے میرا لوڑا بھی کھڑا ہو گیا اور میں تو سونے والے ٹراؤزر کے نیچے انڈرویئر بھی نہیں پہنتا تھا اس لیے میں نے اپنی رانوں میں اپنے نو انچ لمبے اور ساڑھے تین انچ موٹے لوڑے کو دبا لیا۔ لیکن لوڑا صاحب تو ٹنا ٹن بج رہے تھے۔ ادھر برہ کو گرمی چڑھی ہوئی تھی اور اس نے میری ران پر ہاتھ رکھ کر ہلکا ہلکا مساج شروع کیا تو میرا لوڑا صاحب تو جیسے پھٹنے پر آگیا۔
میں نے اچانک برہ سے کہا کہ چلو اب رات کافی ہو گئی ہے چلتے ہیں جا کر سوتے ہیں عامر بھائی آئیں گے تو میں ان سے بات کرتا ہوں کہ کسی اور ڈاکٹر سے بات کی جائے۔
میں اسی بے خیالی اور جلدبازی میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے نیچے انڈرویئر نہیں پہنا ہوا تو میری پری کم یعنی مذی نے میرے ٹراؤزر کو گیلا کیا ہوا تھا اور لوڑا تن کے کھڑا تھا۔
فرح کی نظر سیدھی میرے لوڑے پر گئی اور میں بھی عین اس وقت اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں
​​​​​ایک بہت ھی انوکھی سی چمک لہرائی۔
اور برہ کی آنکھوں میں بھی خمار اترا ہوا تھا۔ اس نے مجھے
پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا میں تو اب برہ کے اوپر تھا اور برہ مجھے بے ساختہ چوم رہی تھی اور اس کی 38 کی چھاتیاں میرے چوڑے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔
فرح نے فورا بڑی لائٹ بند کی اور باتھ کی لائٹ جلا کر تھوڑا سا دروازہ کھول دیا اور کمرے میں ہم تینوں کے ہیولے رہ گئے ہم تو کب کے آپے سے باہر ہو چکے تھے۔برہ نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا اور مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب فرح نے میرا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
اب مجھے علم نہیں تھا کہ برہ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا وہ جذبات سے مغلوب ہو گئی تھی بہرحال مجھے معلوم ہو گیا کہ میری قسمت میں اب دونوں بہنوں کی پھدی اسی رات میں لکھ دی گئی ہے۔
فرح باجی میرے ہاتھ کو پیار سے سہلاتے سہلاتے اب اس کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ چکی تھیں اور پھر بے تحاشہ چومتے چومتے میرے گالوں پر آ گئیں اور پھر میرے کان کی لو پر پیار کرتے کرتے سرگوشی سے کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ میرا بھائی مجھے بیٹا دے سکتا ہے۔
میں مست تو تھا ہی لیکن یہ بات سنتے ہیں میں نے اپنا ہاتھ ان کے 34 کے مموں پر رکھ دیا ادھر برہ میرے منہ میں منہ ڈالے مجھے چوس رہی تھی ادھر فرح باجی کے ممے میرے ہاتھ میں تھے اور فرح باجی کے ہونٹ میرے گالوں اور کانوں پر مجھے نم کر رہے تھے اور ادھر میرا لوڑا ٹرازر کے اندر ہی پھنکار رہا تھا
اچانک فرح باجی کا بایاں ہاتھ میرے چوتڑوں پر چلا گیا۔ برہ نے مجھے اپنی چھاتی پر کسا ہوا تھا اور میرا لوڑا برہ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے فرح باجی نے اب میرے چوتڑوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
میں نے اب برہ سے اپنا منہ چھڑوا کر فرح باجی کو پکڑا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ گاڑ دیئے اور بے تحاشہ چومنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کے کان میں کہا کہ اگر برہ کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے خوشی ہو گی کہ میں آپ کے پیٹ میں اپنا بچہ پیدا کر دوں۔
فرح باجی کے بولنے سے پہلے ہی برہ بولی کہ ہاں میں چاہتی ہوں کہ کسی بھی قیمت پر میری باجی کو بیٹا پیدا ہو جائے اور مین بیٹی پیدا کروں۔۔۔۔
مجھے برہ کا ارادہ صاف نظر آ گیا کہ وہ عامر بھائی سے پریگننٹ ہونا چاہتی ہے جبکہ فرح کو مجھ سے پریگننٹ کروانا چاہتی ہے اور یہ سکیم دونوں بہنوں کی باہمی بن چکی ہوئی ہے۔
جا رہی ھے ۔
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top