Story Lover
VIP+
Offline
- Thread Author
- #1
دلہن! کل مہمان آ رہے ہیں، بریانی تم بنانا۔ سالن بڑی دلہن پکائے گی۔جی ! کہہ کر منزہ دل ہی دل میں اُن لمحوں کو کوسنے لگی جب وہ سسرال آ کر مزے مزے کی دیگ جیسی بریانی سب کو پکا کر کھلاتی اور خوب تعریفیں سمیٹتی۔اب تو بریانی اس کے گلے پڑ گئی تھی۔ جب بھی گھر میں کوئی دعوت ہوتی، ساس بریانی پکانے کا کام منزہ کو سونپ دیتیں۔ بڑی بھابھی تو بس اپنا سالن پکاتیں اور فارغ ہو جاتیں، جبکہ منزہ کو تاکید کی جاتی کہ بریانی مہمانوں کے آنے کے قریب وقت میں دم پر رکھنا تاکہ گرم رہے۔سلاد کاٹنا، راستہ صاف کرنا، اور کباب فرائی کرنا — سب کچھ منزہ کے حصے میں آتا۔پانچ بجے کے قریب، شوہر کو آفس بھیج کر وہ ذرا لیٹی تو آپا کو فون کرنے کا خیال آیا۔ فون ملایا اور دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی۔
ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ آپا کی آواز آئی:نیٹ کا مسئلہ ہے، وائس میسیج پر بات کرو۔منزہ نے فوراً وائس میسیج بھیجا:بریانی تو گلے کو آ گئی ہے!ادھر سے آپی کا میسیج آ گیا:عقل مندی سے کام لو، اگر جان چھڑانی ہے بریانی سے تو اس بار مرچیں تیز کر دو، پھر دیکھنا ساس کبھی نہیں کہیں گی تم بریانی بناؤ۔منزہ بولی:ارے آپی! یہ کام اتنا آسان تھوڑی ہے۔ ساس کو میری بریانی اس لیے پسند ہے کہ میں ہلکے مصالحے میں بناتی ہوں، اگر مرچیں تیز کر دیں تو خوب سنائیں گی۔ عجیب مشورہ ہے آپ کا۔مگر آپا بھی کہاں ہار ماننے والی تھی۔ چھوٹی بہن کی پریشانی دل پر لے لی اور اصرار کرنے لگی۔ آخرکار منزہ نے ہامی بھر لی، میسیج کا جواب دیا، اور اللہ حافظ کہہ کر کپڑے استری کرنے چلی گئی۔مہمانوں کی آمد کی وجہ سے آج کام کچھ زیادہ ہی تھا۔ باسی سے برتن نکلوا کر دھلوائے، کچھ صفائی کروائی، اور آدھا دن یوں ہی گزر گیا۔دوپہر کے کھانے کے ساتھ ہی منزہ نے بریانی کا مصالحہ بھی بنا لیا۔ آج گھر میں جو بریانی مصالحہ آنا تھا، وہ کمپنی کا نہیں ملا جو منزہ استعمال کرتی تھی۔ سسر دوسری کمپنی کا لے آئے۔ منزہ نے اعتراض کیا تو سسر بولے:بیٹا، نئی چیزیں بھی ٹرائی کرنی چاہئیں۔ کیا پتا یہ پہلے سے بہتر ہو!منزہ مسکرا دی۔مصالحہ بناتے ہوئے وہ آپی کا مشورہ بھول ہی گئی، اور ہمیشہ کی طرح ہلکے مصالحے کی بریانی کا مصالحہ تیار کیا۔ چاول صاف کر کے رکھے، ہرا مصالحہ کاٹ کر رکھا اور کچن صاف کر کے باہر نکل آئی۔بھابھی بھی جلدی جلدی گوشت بھون کر فارغ ہو رہی تھیں۔ دونوں بہوؤں کا کام مکمل ہوا تو ساس بھی نمازِ ظہر سے فارغ ہوئیں، کھانا کھایا، اور منزہ آرام کی غرض سے کمرے میں آ گئی۔
لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی اور اسد کے فون سے جاگی۔ اسد آفس سے نکل رہا تھا، پوچھ رہا تھا کچھ لاؤں؟ آیا نے صبح ہی کہہ دیا تھا کہ میٹھا نہ بنانا، اسد واپسی میں چھوٹے گلاب جامن لیتا آئے گا۔ منزہ نے یاد دہانی کروائی اور موبائل چارج پر لگا دیا۔ٹائم کم تھا، عصر کی نماز پڑھی، کپڑے بدلے، تیار ہوئی اور باہر آ گئی۔ بھابھی چائے چڑھا چکی تھیں۔ منزہ نے ٹرالی سیٹ کی، اتنے میں اسد بھی آ گیا۔ سب نے مل کر چائے پی۔ ساس نے بتایا:مہمان ساڑھے سات بجے تک آ جائیں گے۔بھابھی کا سالن تو تیار تھا، مگر منزہ کے کئی کام باقی تھے — چاول بھگونا، تہہ لگانا۔مغرب کی نماز پڑھ کر وہ کچن میں آ گئی۔ جلدی جلدی چاول بھگوئے۔ شکر ہے، بھابھی چائے کے برتن دھو کر کچن سمیٹ چکی تھیں۔ چولہے پر چاولوں کا پانی چڑھایا ہی تھا کہ مہمانوں کے آنے کی آوازیں آنے لگیں۔سلام دعا کے بعد منزہ کچن میں واپس آئی تو بھابھی شربت پیش کرنے کے لیے ٹرے سیٹ کر رہی تھیں۔بھابھی نے کہا:تم بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھو، میں جوس سرو کر دیتی ہوں۔ سلاد بھی کاٹ لو، کچھ تو کام آسان ہوا!منزہ نے جلدی جلدی چاول ابالے، بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھی، پھر کباب نکالے اور بھابھی سے کہنے لگی:میں فریش ہو کر آتی ہوں، پھر کباب فرائی کروں گی تاکہ گرم بھی رہیں۔ہاں ہاں، آ جاؤ! ابھی تو وقت ہے۔ میں بھی مہمانوں کے پاس بیٹھنے جا رہی ہوں، تم بھی آ جانا۔منزہ پسینے میں شرابور تھی۔ جلدی سے فریش ہونے کے لیے کمرے میں آئی تو دیکھا، اسد وہیں موجود تھے۔ منزہ کو اسد کا موڈ کچھ بوجھل لگا، اس نے پوچھا:کیا ہوا؟ آفس کی کوئی ٹینشن ہے؟اسد نے منزہ کو بہت غور سے دیکھا، پھر ایک طرف رکھا ہوا منزہ کا موبائل اٹھایا اور آپا کی وائس میسیج آن کر دی۔ میسج میں صبح آپا کی وہ بات سنائی دی جس میں وہ کہہ رہی تھیں:بریانی میں مرچیں تیز کر دینا۔اس کے فوراً بعد منزہ کی ہامی بھرنے والی آواز بھی سنائی دی۔ منزہ شرمندگی سے پانی پانی ہو گئی۔ دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ شادی کے ان چار مہینوں میں منزہ نے اسد کی آنکھوں میں ہمیشہ محبت اور پیار دیکھا تھا، اور آج انہی آنکھوں میں اپنے لیے غصہ دیکھنا اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔منزہ کی تو نظریں اٹھانا بھی دشوار ہو گئی تھیں۔ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، سب کچھ واضح ہو چکا تھا۔ اسد نے کہا:بہت افسوس ہوا منزہ! میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ میرے گھر کی باتیں تم اس طرح ڈسکس کرتی ہو؟ اگر کوئی مسئلہ تھا، تو مجھ سے کہتیں۔منزہ کو اپنا آپ مجرم محسوس ہونے لگا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
نکلے ہوئے الفاظ اور چلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے۔ اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ وہ ابھی اسی احساسِ ندامت میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔چھوٹا عزیز دروازے پر کھڑا تھا۔ بولا:چاچی! امی کہہ رہی ہیں، جلدی آ جائیں، کھانا لگانا ہے۔ دادی بھی بلا رہی ہیں۔منزہ نے جواب دیا:آ رہی ہوں!اور پلٹنے لگی تو اسد کہنے لگے:تمہارا موبائل چارج پر لگا تھا۔ آیا کا میسج آیا تھا، تم مصروف تھیں، میں نے سوچا شاید کوئی ضروری بات ہو۔ جب وائس میسج سنا، تو اندازہ ہوا کہ تم کچھ پریشان ہو۔ اسی لیے پھر ساری چیٹ سن لی۔ کاش نہ سنتا..یہ کہہ کر اسد کمرے سے باہر چلے گئے۔منزہ ان لمحوں کو کوسنے لگی جب محبت میں آ کر شادی کے شروع دنوں میں اس نے اسد سے کہا تھا:نہ آپ فون پر لاک لگائیں گے، نہ میں۔ آپ میرا فون چیک کر سکتے ہیں، اور میں آپ کا۔اسد نے اسی وقت اپنے فون کا لاک ہٹا دیا تھا، منزہ تو ویسے بھی لاک لگاتی ہی نہیں تھی۔ اب تو منزہ کا جی چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ اپنے محبوب کی نظروں میں گر جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کچن میں جا کر بھابھی کے ساتھ کھانے کی تیاری میں لگ گئی۔بھابھی نے چھیڑا:منزہ! تمہیں دیر ہو گئی، تو میں نے کباب فرائی کر دیے۔ لگتا ہے دیور جی نے روک لیا تھا، منزہ نے پھیکی سی ہنسی ہنسی اور دل میں سوچنے لگی:کاش! کمرے میں نہ گئی ہوتی…کھانا لگایا گیا۔ اسد بھی آ کر دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ منزہ اور بھابھی کھانے کی سروس میں لگیں۔ مہمانوں نے زیادہ تر روٹیاں کھائیں۔ بریانی کچھ زیادہ تیز مرچوں والی بن گئی تھی۔ ساس نے مہمانوں کو بتایا:چھوٹی دلہن کی بریانی تو ہلکے مصالحے کی ہوتی ہے، آج مصالحہ کچھ تیز ہو گیا ہے۔ دراصل آج دوسری کمپنی کا مصالحہ استعمال کیا ہے، شاید اسی وجہ سے۔مہمان “ہوں، ہاں” میں سر ہلا رہے تھے کہ اسد نے منزہ کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:امی! آپ تو بہت سیدھی ہیں۔ اپنی دانست میں تو اس نے بالکل پرفیکٹ بریانی بنائی ہے، کیوں منزہ؟منزہ کے جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی۔ زمین میں گِر جانا اور بات ہے، لیکن شوہر کی نظروں میں گِر جانا پوری زندگی کی شکست ہے۔ منزہ بس یہ سوچ کر رہ گئی کہ اب صفائی میں کچھ بھی کہوں، بے کار ہوگا۔ اسد تو کبھی یقین نہیں کریں گے۔ اُن کی نظروں میں اپنے لیے نفرت اور بے توقیری کیسے برداشت کروں گی؟اور تب ہی اس نے دل ہی دل میں خود کو سمجھایا:بغیر سوچے سمجھے لڑکیاں سسرال میں بیٹھ کر میکے میں سب کچھ رپورٹ کر دیتی ہیں، اور میکے والے بھی بس بیٹی کی پریشانی دیکھ کر مشورے دے دیتے ہیں۔ مگر اُنہیں کیا خبر سسرال کی پیچیدگیاں؟ بیٹی کی سمجھداری یہ ہونی چاہیے کہ وہ سسرال کے مسئلے سسرال میں ہی حل کرنے کی کوشش کرے…
ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ آپا کی آواز آئی:نیٹ کا مسئلہ ہے، وائس میسیج پر بات کرو۔منزہ نے فوراً وائس میسیج بھیجا:بریانی تو گلے کو آ گئی ہے!ادھر سے آپی کا میسیج آ گیا:عقل مندی سے کام لو، اگر جان چھڑانی ہے بریانی سے تو اس بار مرچیں تیز کر دو، پھر دیکھنا ساس کبھی نہیں کہیں گی تم بریانی بناؤ۔منزہ بولی:ارے آپی! یہ کام اتنا آسان تھوڑی ہے۔ ساس کو میری بریانی اس لیے پسند ہے کہ میں ہلکے مصالحے میں بناتی ہوں، اگر مرچیں تیز کر دیں تو خوب سنائیں گی۔ عجیب مشورہ ہے آپ کا۔مگر آپا بھی کہاں ہار ماننے والی تھی۔ چھوٹی بہن کی پریشانی دل پر لے لی اور اصرار کرنے لگی۔ آخرکار منزہ نے ہامی بھر لی، میسیج کا جواب دیا، اور اللہ حافظ کہہ کر کپڑے استری کرنے چلی گئی۔مہمانوں کی آمد کی وجہ سے آج کام کچھ زیادہ ہی تھا۔ باسی سے برتن نکلوا کر دھلوائے، کچھ صفائی کروائی، اور آدھا دن یوں ہی گزر گیا۔دوپہر کے کھانے کے ساتھ ہی منزہ نے بریانی کا مصالحہ بھی بنا لیا۔ آج گھر میں جو بریانی مصالحہ آنا تھا، وہ کمپنی کا نہیں ملا جو منزہ استعمال کرتی تھی۔ سسر دوسری کمپنی کا لے آئے۔ منزہ نے اعتراض کیا تو سسر بولے:بیٹا، نئی چیزیں بھی ٹرائی کرنی چاہئیں۔ کیا پتا یہ پہلے سے بہتر ہو!منزہ مسکرا دی۔مصالحہ بناتے ہوئے وہ آپی کا مشورہ بھول ہی گئی، اور ہمیشہ کی طرح ہلکے مصالحے کی بریانی کا مصالحہ تیار کیا۔ چاول صاف کر کے رکھے، ہرا مصالحہ کاٹ کر رکھا اور کچن صاف کر کے باہر نکل آئی۔بھابھی بھی جلدی جلدی گوشت بھون کر فارغ ہو رہی تھیں۔ دونوں بہوؤں کا کام مکمل ہوا تو ساس بھی نمازِ ظہر سے فارغ ہوئیں، کھانا کھایا، اور منزہ آرام کی غرض سے کمرے میں آ گئی۔
لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی اور اسد کے فون سے جاگی۔ اسد آفس سے نکل رہا تھا، پوچھ رہا تھا کچھ لاؤں؟ آیا نے صبح ہی کہہ دیا تھا کہ میٹھا نہ بنانا، اسد واپسی میں چھوٹے گلاب جامن لیتا آئے گا۔ منزہ نے یاد دہانی کروائی اور موبائل چارج پر لگا دیا۔ٹائم کم تھا، عصر کی نماز پڑھی، کپڑے بدلے، تیار ہوئی اور باہر آ گئی۔ بھابھی چائے چڑھا چکی تھیں۔ منزہ نے ٹرالی سیٹ کی، اتنے میں اسد بھی آ گیا۔ سب نے مل کر چائے پی۔ ساس نے بتایا:مہمان ساڑھے سات بجے تک آ جائیں گے۔بھابھی کا سالن تو تیار تھا، مگر منزہ کے کئی کام باقی تھے — چاول بھگونا، تہہ لگانا۔مغرب کی نماز پڑھ کر وہ کچن میں آ گئی۔ جلدی جلدی چاول بھگوئے۔ شکر ہے، بھابھی چائے کے برتن دھو کر کچن سمیٹ چکی تھیں۔ چولہے پر چاولوں کا پانی چڑھایا ہی تھا کہ مہمانوں کے آنے کی آوازیں آنے لگیں۔سلام دعا کے بعد منزہ کچن میں واپس آئی تو بھابھی شربت پیش کرنے کے لیے ٹرے سیٹ کر رہی تھیں۔بھابھی نے کہا:تم بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھو، میں جوس سرو کر دیتی ہوں۔ سلاد بھی کاٹ لو، کچھ تو کام آسان ہوا!منزہ نے جلدی جلدی چاول ابالے، بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھی، پھر کباب نکالے اور بھابھی سے کہنے لگی:میں فریش ہو کر آتی ہوں، پھر کباب فرائی کروں گی تاکہ گرم بھی رہیں۔ہاں ہاں، آ جاؤ! ابھی تو وقت ہے۔ میں بھی مہمانوں کے پاس بیٹھنے جا رہی ہوں، تم بھی آ جانا۔منزہ پسینے میں شرابور تھی۔ جلدی سے فریش ہونے کے لیے کمرے میں آئی تو دیکھا، اسد وہیں موجود تھے۔ منزہ کو اسد کا موڈ کچھ بوجھل لگا، اس نے پوچھا:کیا ہوا؟ آفس کی کوئی ٹینشن ہے؟اسد نے منزہ کو بہت غور سے دیکھا، پھر ایک طرف رکھا ہوا منزہ کا موبائل اٹھایا اور آپا کی وائس میسیج آن کر دی۔ میسج میں صبح آپا کی وہ بات سنائی دی جس میں وہ کہہ رہی تھیں:بریانی میں مرچیں تیز کر دینا۔اس کے فوراً بعد منزہ کی ہامی بھرنے والی آواز بھی سنائی دی۔ منزہ شرمندگی سے پانی پانی ہو گئی۔ دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ شادی کے ان چار مہینوں میں منزہ نے اسد کی آنکھوں میں ہمیشہ محبت اور پیار دیکھا تھا، اور آج انہی آنکھوں میں اپنے لیے غصہ دیکھنا اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔منزہ کی تو نظریں اٹھانا بھی دشوار ہو گئی تھیں۔ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، سب کچھ واضح ہو چکا تھا۔ اسد نے کہا:بہت افسوس ہوا منزہ! میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ میرے گھر کی باتیں تم اس طرح ڈسکس کرتی ہو؟ اگر کوئی مسئلہ تھا، تو مجھ سے کہتیں۔منزہ کو اپنا آپ مجرم محسوس ہونے لگا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
نکلے ہوئے الفاظ اور چلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے۔ اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ وہ ابھی اسی احساسِ ندامت میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔چھوٹا عزیز دروازے پر کھڑا تھا۔ بولا:چاچی! امی کہہ رہی ہیں، جلدی آ جائیں، کھانا لگانا ہے۔ دادی بھی بلا رہی ہیں۔منزہ نے جواب دیا:آ رہی ہوں!اور پلٹنے لگی تو اسد کہنے لگے:تمہارا موبائل چارج پر لگا تھا۔ آیا کا میسج آیا تھا، تم مصروف تھیں، میں نے سوچا شاید کوئی ضروری بات ہو۔ جب وائس میسج سنا، تو اندازہ ہوا کہ تم کچھ پریشان ہو۔ اسی لیے پھر ساری چیٹ سن لی۔ کاش نہ سنتا..یہ کہہ کر اسد کمرے سے باہر چلے گئے۔منزہ ان لمحوں کو کوسنے لگی جب محبت میں آ کر شادی کے شروع دنوں میں اس نے اسد سے کہا تھا:نہ آپ فون پر لاک لگائیں گے، نہ میں۔ آپ میرا فون چیک کر سکتے ہیں، اور میں آپ کا۔اسد نے اسی وقت اپنے فون کا لاک ہٹا دیا تھا، منزہ تو ویسے بھی لاک لگاتی ہی نہیں تھی۔ اب تو منزہ کا جی چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ اپنے محبوب کی نظروں میں گر جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کچن میں جا کر بھابھی کے ساتھ کھانے کی تیاری میں لگ گئی۔بھابھی نے چھیڑا:منزہ! تمہیں دیر ہو گئی، تو میں نے کباب فرائی کر دیے۔ لگتا ہے دیور جی نے روک لیا تھا، منزہ نے پھیکی سی ہنسی ہنسی اور دل میں سوچنے لگی:کاش! کمرے میں نہ گئی ہوتی…کھانا لگایا گیا۔ اسد بھی آ کر دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ منزہ اور بھابھی کھانے کی سروس میں لگیں۔ مہمانوں نے زیادہ تر روٹیاں کھائیں۔ بریانی کچھ زیادہ تیز مرچوں والی بن گئی تھی۔ ساس نے مہمانوں کو بتایا:چھوٹی دلہن کی بریانی تو ہلکے مصالحے کی ہوتی ہے، آج مصالحہ کچھ تیز ہو گیا ہے۔ دراصل آج دوسری کمپنی کا مصالحہ استعمال کیا ہے، شاید اسی وجہ سے۔مہمان “ہوں، ہاں” میں سر ہلا رہے تھے کہ اسد نے منزہ کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:امی! آپ تو بہت سیدھی ہیں۔ اپنی دانست میں تو اس نے بالکل پرفیکٹ بریانی بنائی ہے، کیوں منزہ؟منزہ کے جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی۔ زمین میں گِر جانا اور بات ہے، لیکن شوہر کی نظروں میں گِر جانا پوری زندگی کی شکست ہے۔ منزہ بس یہ سوچ کر رہ گئی کہ اب صفائی میں کچھ بھی کہوں، بے کار ہوگا۔ اسد تو کبھی یقین نہیں کریں گے۔ اُن کی نظروں میں اپنے لیے نفرت اور بے توقیری کیسے برداشت کروں گی؟اور تب ہی اس نے دل ہی دل میں خود کو سمجھایا:بغیر سوچے سمجھے لڑکیاں سسرال میں بیٹھ کر میکے میں سب کچھ رپورٹ کر دیتی ہیں، اور میکے والے بھی بس بیٹی کی پریشانی دیکھ کر مشورے دے دیتے ہیں۔ مگر اُنہیں کیا خبر سسرال کی پیچیدگیاں؟ بیٹی کی سمجھداری یہ ہونی چاہیے کہ وہ سسرال کے مسئلے سسرال میں ہی حل کرنے کی کوشش کرے…