Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
اگلی صبح میں دیر سے اٹھا تھا ۔ کھڑکی سے دھوپ چمک رہی تھی ،کمرے میں ہر طرف گلاب کی خوشبو بسی تھی ۔۔۔۔ ثناء میرے برابر میں بے سدھ لیٹی تھی اور رات کی تکان اور درد اس کے چہرے پر نمایا ں تھا ۔۔۔میں بے اختیار اس کے چہرے پر جھک گیا اور چومنے لگا ۔ کچھ ہی دیر میں وہ کسمسانے لگی اور آنکھیں کھول دیں ،مجھے اپنے اوپر جھکا دیکھ کر مسکرا دی ۔۔۔ میں کچھ دیر بعد اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا ۔۔۔ باتھ روم میں سے نکلنے ہی والاتھا کہ دروازے پر دستک کی آواز ہوئی ۔ اور کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا ۔ اتنے میں میں تولیہ لپیٹے باہر نکل آیا ۔ چاچی کمرے میں آ چکی تھی ، اور ثناء کے قریب بیٹھیں حال چال پوچھ رہی تھیں ۔۔مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور ثناء سے کہا کہ جاؤ تم بھی فریش ہو جاؤ ۔۔۔وقار کا فون آیا تھا وہ ایک گھنٹے تک ناشتہ لے کر پہنچیں گے ۔ ثناء یہ سن کراٹھنے لگی اور لڑ کھڑا گئی ، چاچی نے اس کوسہارا دے کر باتھ روم تک پہنچا دیا اور میری طرف پلٹیں ، ان کی آنکھیں چمک رہیں تھیں ، اور سرخ ہونٹوں پر شرارت مچل رہی تھیں ۔۔وہ تیزی سے میری طرف بڑھیں اور مجھ سے لپٹ گئیں ۔ میں نے بھی باتھ روم کی طرف دیکھتے ہوئے ان کو بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔وہ گرم جوشی سے لپٹی جا رہی تھیں ۔ اور میں بھی جوابی کارؤائی میں اپنے ہاتھ ان کی کمر اور چوتڑ کو دبار ہا تھا ۔۔۔۔ میرا تولیہ نیچے گر گیا تھا ۔۔اور ہتھیار دوبارہ سے انگڑائی لینے لگا ۔۔۔چاچی نے یہ دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگی ۔۔۔ثناء کسی بھی وقت آ سکتی تھی اور گھر میں سب لوگ موجود تھے ۔ اس وقت کوئی بھی مہم جوئی نقصان کا باعث تھی ۔۔چاچی نے میرا ہتھیار تھاما اور کہنے لگیں ۔۔۔۔دیکھو اِسے پھر سے تیار ہے ۔۔ رات کُوئی کسر رہ گئی تھی کیا۔۔۔۔میں نے کہا کہ سامنے آپ ہوں اور اسے ہوشیاری نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔چاچی نے میرے ہونٹوں کو چوما اور کہا کہ ابھی چلتی ہوں ۔۔۔ثناء آ جائے تو اسے تیار کرتی ہوں ۔۔ اس کے گھر والے بھی آنے والے ہیں ۔ شام کو ولیمہ بھی ہے ۔ میں نے کہاٹھیک ہے ۔۔۔۔اور پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔ ثناء فریش ہو کر آئی تو چاچی آ کر اسے تیار کرنے لگیں ۔۔میں بھی کپڑے پہن کر نیچے آ گیا ۔ابو اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا ۔۔انہوں نے مجھے تھپکی دی اور حال پوچھا ۔۔میں نے سب خیر کی رپورٹ سنائی ۔۔ تھوڑی ہی دیر میں گھر میں ہل چل مچ گئی تھی ۔۔۔ڈائننگ ٹیبل سجنے لگی بھیا نیچے آگئے تھے اور کچھ دیر میں خالہ اور وقار بھی پہنچ گئے ۔۔ ثناء نیچے نہیں آئی تھی ۔۔مناہل اور ربیعہ اپنا ناشتہ لے کر اوپر چلے گئے جہاں بھابھی بھی تھی اور باقی لوگ نیچے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کرنے لگے ۔۔۔ ناشتے کے بعد امی خالہ کو لے کر اپنے کمرے میں لے گئیں اور ہم سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے کا انتظار کرنے لگے ۔۔چائے پی کر وقار اور خالہ تو واپس چلے گئے بھیا اور ابو لان اور کیٹرنگ والے کی طرف گئے اور ہم اپنے کمروں میں واپس آ گئے ۔۔۔بھابھی ابھی تک ثناء سے باتیں کر رہی تھیں ، ان کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ ان کی رات بھی اچھی گزری تھی ۔ میں بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا ۔۔بھابھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔۔ثناء ابھی تیار بھی نہیں ہوئی مگر اس کو چہرہ جگمگا رہا تھا ۔۔آنکھوں میں محبت تیر رہی تھی اور اس پر شرماہٹ کے بادل سایہ کیے ہوئے تھے ۔۔میں اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔اور اس کے نازک ہاتھوں کو تھام لیا ۔۔۔وہ سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں بیڈ پر لیٹ گیا اور اسے بھی خود سے لِپٹا لیا ۔۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نیند کی وادیوں میں کھو گئے ۔شام کو ولیمہ تھا ۔۔ہم سب تیار ہو کر وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔ ہر طرف لائٹس چمک رہی تھی ۔۔۔ہم اسٹیج پر بیٹھے تھے ، جب میری نظر سعدیہ پر پڑی تھی (پہلے حصے میں وقار کے اسکول میں اسپورٹس کی ٹیچر) ۔ وہ بھی آج کافی تیار ہو کر آئی ہوئی تھی ۔اپنی مضبوط جسامت میں پنک کلر کی ساڑھی پہنے وہ سب سے نمایا ں تھی ۔اٹھی ہوئی چھاتیاں اور پتلی کمر سے اترتے ہوئے اس کی بیک کافی گول مٹول سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے اسے آنکھوں سے اشارہ کیا تو وہ اسٹیج پر آکر ثناء کے برابر میں بیٹھ گئی۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔۔۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ کو کان سے لگاتے ہوئے موبائل کا اشارہ کے کے نیچے اتر گئی ، تھوڑی ہی دیر میں میسج کی ٹون بجی تھی ، میں نے دیکھا تو سعدیہ کا ہی میسج تھا ۔۔۔جوڑی مبارک ! ان صاحبہ کے عشق میں ہمیں نہ بھول جانا ۔کوشش کر کے اسکول کا چکر لگاؤ کسی سے ملوانا بھی ہے ۔۔میں نے اوکے کا میسج لکھ کر سینڈ کر دیا ۔۔۔۔ ہر طرف خوشیاں گونج رہیں تھی ، قہقہے اور مسکراہٹیں تھیں ۔۔۔کھانا شروع ہوا اور کھانے کے بعد مہمانوں کی واپسی بھی شروع ہو گئی تھی ۔ ثناء آج اپنے گھر واپس جا رہی تھی ۔ اور ایک دو دنوں کے بعد اسے آنا تھا۔ ہم بھی گھر واپس لوٹ آئے ۔ تھکن سے برا حال تھا ۔کچھ دیر ابو اور امی کے ساتھ نیچے بیٹھا تھا۔۔۔۔اور پھر اوپر آ کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔کچھ ہی دیر میں چاچی روم میں آئیں ، چائے کے دو کپ ان کے ہاتھ میں تھے ۔۔۔آ کر برابر میں بیٹھ گئیں ۔۔میرے چہرے پر تھکن دیکھ کر پوچھنے لگیں کہ ثناء کی یاد آ رہی ہے میرے راجہ کو، ایک دن بھی نہیں رہ پارہے اس کے بغیر ۔۔۔میں مسکرا دیا اور اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا دی ۔۔۔۔چائے پی کر چاچی میرے اور قریب ہو گئیں اور سر دبانے لگیں ۔۔ ان کے نرم نرم ہاتھ جیسے چھوتے جا رہے تھے درد ۔ویسے ہی غائب بھی ہو رہا تھا ۔میں آنکھیں بند کر بیڈ سے ٹیک لگائے ہوا تھا۔۔اور وہ میری سائیڈ پر بیٹھیں دونوں ہاتھوں سے سر دبا رہی تھی ۔۔ ان کے جسم سے اٹھنے والی حرارت مجھے دور سے بھی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔اور چوڑیوں کی چھن چھن میرے کانوں میں کھنک رہی تھی ۔۔۔۔ ان کے جسم سے مچلنے والی خوشبو مجھے بلا رہی تھی ۔۔۔پکار رہی تھی ۔۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیے ہوئے ہی ایک ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا اور ان کی ران پر پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔میرے سر کا درد اب غائب ہو چکا تھا اور اس کی جگہ سنسناہٹ نے لے لی تھی ۔۔جو پیشانی سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔مسرت آمیز لہریں پورے بد ن میں پھر رہی تھیں ۔۔۔میری آنکھیں اُسی طرح بند تھیں ۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کی ایک چھاتی کو تھام لیا اور اور دبانے لگا ۔۔۔۔جو نرم روئی کے گالے کی طرح مچل رہی تھی ۔۔۔۔چاچی کے ہونٹوں سے گرم سسکیاں بھی اب میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔ میں نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر ان کی کمر پر پھیرنے لگا ۔۔بہت عجیب سی فیلنگ تھی ۔۔شادی کے بعد دوسری رات تھی ۔۔اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بے وفائی ہو رہی ہو ۔۔مگر چاچی کے چہرے پر بکھری ہوئی چاہت اور محبت مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔۔۔ میں بھی ان کے چھاتی پر دباؤ بڑھا کر مسلنے لگا ۔۔۔۔۔ساتھ ساتھ دوسری چھاتی کو بھی تھام لیا ۔۔۔۔ دوسرا ہاتھ ان کی کمر پر گردش کر رہا تھا ۔۔چاچی اب اوپر کو ہوتی ہوئیں مجھ پر جھکتی جا رہی تھیں ۔۔۔اور پھر ان کے گرم ہونٹ مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہوئے ۔۔پیشانی کو چومتے ہوئے۔۔۔ پورے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر وہ میرے ہونٹوں تک جا پہنچیں ۔۔۔۔۔اور پھر اپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹ تھام لیے ۔۔۔میری تھکن ختم ہونے لگی تھی ۔۔۔۔اور جسم میں توانائی دوڑنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ان کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے انہیں اپنے اوپر کھینچ لیا ۔۔۔وہ بیڈ پر میر ے ساتھ ہی لیٹی ہوئی میرے ہونٹوں کو چوم رہی تھی ۔۔۔ہم اپنے گردوپیش سے بے خبر ہو چکے تھے ۔۔۔چاچی کے ریشمی بال بھی خوشبو بکھیرتے ہوئے کھل رہے تھے ۔۔۔ چاچی کے ہونٹ میرے ہونٹوں کو تھام رہے تھے ، کھینچ رہے تھے ۔۔۔۔اور ان کی نرم و ملائم بڑی بڑی چھاتیاں میرے سینے میں دبی ہوئی تھیں ۔۔۔اور اور میرے دونوں ہاتھ ان کی کمر پر گھومتے ہوئے ان کی چوتڑوں کو دبار ہے تھے ۔۔۔۔۔۔میں خود پر ان کا وزن بڑھتا ہوا محسوس کر رہاتھا ۔۔ان کی ایک ٹانگ اٹھ کر میرے اوپر آ چکی تھی ۔۔۔۔ وہ پوری گرم جوشی سے میرے ہونٹوں کو چوم رہی تھی ۔۔میں نے بھی جواب میں ان کے ہونٹوں سے رس کشید کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ساتھ ہی زبان بھی ان کے منہ میں داخل کرنے لگا۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ ان کے چوتڑوں کو دبار رہا تھا تو دوسرا ان کے بالوں کو کھول رہا تھا ۔۔۔نیچے سے ہتھیار بھی تننے لگا تھا۔۔۔۔چاچی اب میرے دائیں بائیں گھٹنے رکھ کر میرے اوپر بیٹھ گئی تھی اور دونوں ہاتھوں سے میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگیں ۔۔۔۔ان کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا ۔۔اور آنکھوں میں شہوت صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔۔پیچھے کو گرے ہوئے کھلے بال انہیں اور خوبصورت بنا رہے تھے ۔۔۔میری شرٹ اتار کر وہ میری پینٹ کی طرف بڑھ گئی اور جلد ہی میری ٹانگیں بھی آزاد تھی۔۔۔میرے جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا ۔۔۔ہتھیار نے بھی چاچی کے ہاتھوں کے لمس کو پہچان لیا تھا اور اب فل اسپیڈ سے تننے لگا تھا۔۔۔۔چاچی پھر سے مجھ پر جھک گئیں اورمنہ کو چومتی ہوئی نیچے کو آنے لگیں ۔۔۔گردن کو چومتی ہوئی سینے پر آگئیں اور نپلز کو ہونٹوں سے چومنے اور چوسنے لگیں ۔۔۔۔میرے پورے جسم میں سنسناہٹ پھیلنے لگی ۔۔۔۔۔چاچی تھوڑی دیر بعد میری آنکھوں میں دیکھتی اور پھر سے نپلز کو چوسنے لگ جاتیں ۔۔۔۔ان کے تھوک کے گیلے پن کو میں اپنے سینے پر محسوس کر رہاتھا ۔۔۔نیچے سے ہتھیار فل کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔اور اوپر بیٹھی ہوئی چاچی کو اٹھا نے کی کوشش میں مصروف تھا۔۔۔۔جسے چاچی نے بھی محسوس کر لیا تھا۔۔وہ تھوڑا نیچے کو ہوتی گئیں ۔۔اورٹانگوں پر بیٹھ گئیں ۔۔۔اب ہتھیار ان کے سامنے کھڑا۔۔ سلامی دے رہا تھا ۔۔۔چاچی نے دونوں ہاتھوں سے ہتھیار تھام رکھا تھا۔۔اوراپنے ہاتھوں کو اس پر آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔۔اپنا چہرہ آگے کی طرف کرتے ہوئے تھوک اکھٹا کرتی ہوئیں اس پر گرایا اور دونوں ہاتھوں سے پورے ہتھیار پر مسلنے لگیں۔۔۔۔ہتھیار فل جوبن پر تھا اور چاچی کے دونوں ہاتھوں سے نکلنے کی کوشش میں تھا ۔تھوک سے ملتے ہوئے چاچی کے ہاتھوں نے اسے سرخی مائل کر دیا ۔۔چاچی اب آگے کو ہوئیں اور ہتھیار کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگیں ۔۔۔ان کو پورا منہ کھل چکا تھا ۔۔اور صرف ٹوپا ہی ان کے منہ میں گھس پایا تھا ۔۔۔وہ اسی کے اوپر اندرسے اپنی زبان مسل رہی تھی ۔۔۔۔پھر ٹوپا باہر کی طرف نکالا اور چاروں طرف سے اس پر زبان پھیرنے لگیں ۔۔ان کا انداز ایسا تھا کہ جیسے تیزی سے گھلتی ہوئی قلفی کو بچانے کے لئے چاروں طرف سے چوسا جا رہا ہو ۔۔۔۔چاچی نیچے جڑ سے اپنی زبان پھیرنا شروع کرتیں اورٹوپے تک آ پہنچتی ۔۔۔۔۔یہ سلسلہ ایسے ہی کچھ دیر جاری رہا۔۔ہتھیار فل کھڑا سنسنا رہا تھا۔۔۔۔میری برداشت اب ختم ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے چاچی کو اپنے اوپر کھینچا اور اپنے برابر اوپر لے آیا اور ساتھ ہی دونوں ٹانگوں کو گھماتے ہوئے بیڈ سے نیچے کر دیں۔۔۔اور چاچی کو اپنی گود میں اٹھا یا ۔۔چاچی نے اپنی ٹانگیں میرے گرد لپیٹ دیں تھی اور بازو میری گردن کے گرد باندھ دیئےتھے ۔۔۔میں انہیں اٹھا ئے پہلے کمرے کے دروازے کی طرف گیا ۔۔دروازہ لاک کر کے لائٹ بند کی اور نائٹ بلب آن کرتے ہوئے بیڈ پر آنے لگا ۔۔۔چاچی کی سیاہ آنکھوں کی چمک مجھے صاف محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔انہیں بیڈ پر گرا کر میں بھی اوپر چڑھ آ یا تھا ۔۔ٹائم کم تھا اور مقابلہ سخت ۔۔۔۔۔میں نے وقت ضائع کیے بغیر انہیں بٹھایا اور ان کی قمیض اتارنے لگا ۔۔چاچی نے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے ۔۔۔۔قمیض نکلتے ہیں ان کی جاندار چھاتیاں میرے سامنے تھی ۔۔نرم ملائم گوری چِٹی ۔۔۔۔دودھ سے بھری ہوئی۔۔۔بریزر میں پھنسی ہوئی ۔۔۔۔میں نے جلدی سے ہک کھول کر انہیں آزاد کیا ۔۔۔۔۔اور ان کی دونوں ٹانگوں پھیلا کر ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔اور ان کی مچلتی ہوئی ایک چھاتی کو تھام کر منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔۔میں دونوں ہاتھوں سے انکی مچلتی ہوئی چھاتی کو دبوچ کر منہ میں گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔چاچی نے ہاتھ بڑھا کر تکئے تھام کر اپنے پیچھے رکھے اور نیم دراز ہو کر میری حرکتیں دیکھنے لگیں ۔۔۔۔میں ان کی چھاتی کو منہ میں گھسانے کی ناکام کوشش کے بعد اب
صرف نپلز ہی چوس رہا تھا۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے دوسری چھاتی کو تھامنے لگاتھا۔۔۔چاچی کے دونوں ہاتھ میرے بالوں پر گردش کر رہے تھے اور ۔۔۔گرم سسکیاں مجھے مزید پرجوش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔اور میں پہلے سے زیادہ جوش سے ان کے ممے چوستا ۔۔۔۔۔چاچی کا نچلا بدن بھی اب بے چین ہوا چلا تھا ۔۔۔۔وہ بار بار اپنی کمر کو اوپر کی طرف اٹھا رہی تھیں ۔۔۔میں ان کی یہ بے چینی سمجھ رہا تھا۔۔۔مگر ابھی ان مموں سے میرا دل نہیں بھرا تھا ۔۔۔۔میں چاچی کے مموں کو اپنے تھوک میں لت پت کر چکا تھا۔۔۔چاچی اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اورتیزی سے میرے سر کو اپنے مموں پر دبا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کے انگلیاں میرے بالوں کو کھینچی ہوئی دباؤ بھی دے رہی تھی۔۔مجھے درد ہوا تھا ۔۔تو میں نے اپنے دانوں سے ان کے نپلز کو ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کر دیں ۔۔چاچی کے ایک سریلی سے سسس۔۔۔۔سسکاری نکلی ۔۔۔۔اور منہ سے ایک دم راجہ نکلا۔۔۔۔۔میں نے متناسب دباو سے کاٹنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔۔جس کے جواب میں ان کی مستقل سسکاری نکلتی ۔۔۔۔۔۔۔میں ان کے دونوں مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔ہتھیار چاچی کی شلوار کی پرواہ کئے بغیر ان کی چوت پر دباؤ بڑھا رہا تھا ۔۔۔جس سے چاچی کی بے چینی اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔پورے کمرے میں گرمی سی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔پچھلی رات کے لگے ہوئے گلاب کے پھول اب بھی اپنی خوشبو پھیلا رہے تھے ۔۔۔ وقفے وقفے سے چاچی کی سسکاری نکل رہی تھی ۔۔۔میں نیچے کی طرف ہو کر ان کی الاسٹک لگی شلوار کو کھینچنے لگا۔۔۔چاچی نے بھی اپنی کمر اٹھا دی ۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو سمبھالنے کی کوشش میں مصروف تھیں ۔۔جو میرے ہاتھوں کے لمس کے بغیر بے چین ہورہے تھے ۔۔۔انہیں بھی کپڑوں سے آزاد کر کے میں ان کی چوت کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔جو گیلی ہوئی لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک اپنے ہاتھ کی مٹھی میں ان کی چوت کو تھام لیا ۔۔۔ساتھ ہی اپنا انگوٹھا اندر داخل کرتے ہوئے انگلی کو چوت کے دانے پر مسلنے لگا۔۔۔چاچی کی سسکاری بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے ۔۔۔مموں کو تھامے ہوئے ۔۔۔۔مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔ میں کچھ دیر ان کی چوت سے کھیلتا رہا اور پھر میری نظران کی طرف پڑ گئی ۔۔۔۔ان کو اپنی جانب تکتا دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس ہوا اور میں اوپر کو اٹھ کر ان سے لپٹ گیا ۔۔۔میں پوری شدت سے ان کے چہرے کو چوم رہا تھا ۔۔۔۔ان کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا۔۔۔چاچی بھی میری اس شدت کا ساتھ دینے کی کوشش کرنے لگی اور اپنے دونوں ہاتھ سےمیری کمر کو بھینچنے لگیں ۔۔۔۔۔ہم دونوں اپنے کپڑوں سے آزاد ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے ۔۔۔چاچی کے فل دودھ سے بھرے ہوئے ممے میرے سینے پر گڑئے ہوئے گدگدی کر رہے تھے ۔۔۔۔اور نیچے سے تنا ہوا ہتھیار چاچی کی ٹانگوں کے درمیاں پھنسا ہوا تھا ۔۔جس کی گرمی چاچی کی چوت کو پگھلا رہی تھی ۔۔۔۔۔چاچی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا ہتھیار تھام لیا اور اسے اپنی چوت کے لبوں پر رگڑنے لگیں ۔۔۔ٹوپا فل پھولا ہوا تھا۔۔۔۔۔اور ہتھیار کی شافٹ جوش جذبات سے لرز رہی تھی ۔۔۔یہ وہی ہتھیار تھا جس نے پہلی مرتبہ چاچی کی چیخیں نکلوائیں تھیں۔۔۔۔۔اور آج پھر چاچی کے چہرے پر اس کی پیاس جاگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔چاچی کے ہونٹ لرز رہے تھے اور بے اختیار سسکاریاں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اب اٹھ کر بیٹھ گیا اور چاچی کے ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔۔ایک ہاتھ سے تھوڑا تھوک ٹوپے پر ملا اور چوت پر ٹکا دیا ۔۔۔چاچی نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا اور ڈھیر سارا تھوک اکھٹا کر میرے ہتھیار پر مسلنے لگیں ۔۔۔چوت کی گرمی باہر تک آ کر ٹوپے پر محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ سے ہتھیار کو تھامتے ہوئے ٹوپے کو اندر دھکا دیا ۔۔ٹوپے پہلے سے زیادہ پھولا ہوا تھا۔۔۔ٹوپا پھنستا ہوا اندر گھسا تھا ۔۔۔چاچی کی ایک سس۔۔۔۔افف۔۔۔۔آہ نکلی تھی ۔۔میں دباؤ بڑھا کر آدھا لن اندر گھسا دیا تھا ۔۔اور آگے کو ہوتے ہوئے اپنے پیروں پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔میرے دونوں ہاتھ چاچی کے گھٹنے پر تھے ۔۔۔جو تھوڑے سے اوپر کو اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے پاؤں کے بل بیٹھتے ہوئے ہتھیار کو دوبارہ سے کھینچ کردوبارہ دھکا دے دیا تھا۔۔۔ساتھ ہی چاچی کے ممے مچل کر اوپر کو اچھلے تھے۔۔ ۔چاچی کی چوت ابھی بھی میرے ہتھیار کے لئے کافی زیادہ تنگ تھی ۔۔۔۔جس کا اندازہ چاچی کی ۔۔۔آہ۔۔۔۔افف۔۔۔۔اور سسکاری سے بخوبی ہو رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے آدھا لن اندر گھسا دیااتھا ۔۔۔اور چاچی کے گھٹنے پر ہاتھ رکھے اس کو تیزی سے آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی دھکے لگاتے ہوئے میں چاچی کی ٹانگوں کو اور اوپر اٹھا کر ان کے سینے سے لگا چکا تھا ۔۔۔۔۔اور کچھ اور ہتھیار اندر گھسا دیا ۔۔۔جس سے چاچی کی آہوں میں او ر اضافہ ہو گیاتھا۔۔۔چاچی کے لمبے بال بیڈ پر بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا ۔۔بار بار ہونٹ کھل بند رہے تھے اور سسکیاں منہ سے جاری تھیں ۔۔۔۔میں پانچ منٹ ایسے ہی دھکے دیتا رہا ۔۔۔اور پھرہتھیار باہر کھینچ کر چاچی کو اٹھانے لگا۔۔۔۔ایک ہاتھ سے کھینچ کر میں انہیں گھوڑی بنا چکا تھا۔۔۔ان کے گول مٹول سے چوتڑ دمک رہے تھے ۔۔۔۔۔چاچی کے بالوں کو اکھٹا کر کے پیچھے ان کی پتلی کمر پر ڈال دیا ۔۔۔جس سے تھوڑے ہی نیچے گولائی میں پھیلے ہوئے چوتڑ مجھے دعوت عام دے رہے تھے ۔۔میں نے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں میں ہتھیار پھنسا کر چوت پر جمایا اور آگے کو ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔ہتھیارپھنستا ہوا ندر جا چکا تھا ۔۔چاچی تھوڑی سی آگے کو جھکی۔۔۔۔۔میں نے ان کی کمر کو تھامتے ہوئے جھٹکے دینے شروع کر دیے تھے ۔چاچی کی سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔اور یقینا ان کے بھاری بھرکم ممے بھی ہل ہل کر نیچے سے مجھے شاباش دے رہے تھے ۔۔۔ میں جھٹکوں کی اسپیڈ بڑھاتا گیا ۔۔۔۔چاچی کے بال دوبارہ سے نیچے کو گر چکے تھے اور ان کی پتلی کمر صاف واضح ہوئی وی تھی ۔۔۔۔۔ساتھ ہی چاچی کی آہوں اور سسکیوں نے مجھے اور گرما رہی تھیں ۔۔۔۔میرے بھرپور جھٹکے سے ان کے چوتڑ بھی ہل رہے تھے ۔ میں جھٹکے بڑھاتا جا رہے تھا ۔۔اسپیڈ کے ساتھ کبھی ہتھیار آدھے میں ہی واپس ہو جاتا اور کبھی آدھے سے زیادہ اندر گھستا تھا ۔۔۔جس سے چاچی کی افف۔۔۔آہ۔۔۔۔کی آواز نکلتی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے کے اسپیڈ چاچی روک نہیں پارہی تھیں اور آگے کو لیٹتی چلی گئیں ۔۔۔۔میں بھی ہتھیار نکالے بغیر ان کے اوپر سوار تھا اور اب دائیں بائیں پاؤں رکھے اپنے پورے وزن سے اندر جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔بیڈ برے طریقے سے لرز رہا تھا ۔۔۔۔اور اس کے اسپرنگ بھی میرے جھٹکوں کو واپس اچھال رہے تھے ۔۔۔چاچی کی سسکیاں اور آہیں بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔ان کی چوت کی دیواریں ٹائٹ اور لوز ہو رہی تھیں ۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں انہوں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی دروازے پر دستک نے مجھے نے اختیار اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔
صرف نپلز ہی چوس رہا تھا۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے دوسری چھاتی کو تھامنے لگاتھا۔۔۔چاچی کے دونوں ہاتھ میرے بالوں پر گردش کر رہے تھے اور ۔۔۔گرم سسکیاں مجھے مزید پرجوش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔اور میں پہلے سے زیادہ جوش سے ان کے ممے چوستا ۔۔۔۔۔چاچی کا نچلا بدن بھی اب بے چین ہوا چلا تھا ۔۔۔۔وہ بار بار اپنی کمر کو اوپر کی طرف اٹھا رہی تھیں ۔۔۔میں ان کی یہ بے چینی سمجھ رہا تھا۔۔۔مگر ابھی ان مموں سے میرا دل نہیں بھرا تھا ۔۔۔۔میں چاچی کے مموں کو اپنے تھوک میں لت پت کر چکا تھا۔۔۔چاچی اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اورتیزی سے میرے سر کو اپنے مموں پر دبا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کے انگلیاں میرے بالوں کو کھینچی ہوئی دباؤ بھی دے رہی تھی۔۔مجھے درد ہوا تھا ۔۔تو میں نے اپنے دانوں سے ان کے نپلز کو ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کر دیں ۔۔چاچی کے ایک سریلی سے سسس۔۔۔۔سسکاری نکلی ۔۔۔۔اور منہ سے ایک دم راجہ نکلا۔۔۔۔۔میں نے متناسب دباو سے کاٹنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔۔جس کے جواب میں ان کی مستقل سسکاری نکلتی ۔۔۔۔۔۔۔میں ان کے دونوں مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔ہتھیار چاچی کی شلوار کی پرواہ کئے بغیر ان کی چوت پر دباؤ بڑھا رہا تھا ۔۔۔جس سے چاچی کی بے چینی اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔پورے کمرے میں گرمی سی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔پچھلی رات کے لگے ہوئے گلاب کے پھول اب بھی اپنی خوشبو پھیلا رہے تھے ۔۔۔ وقفے وقفے سے چاچی کی سسکاری نکل رہی تھی ۔۔۔میں نیچے کی طرف ہو کر ان کی الاسٹک لگی شلوار کو کھینچنے لگا۔۔۔چاچی نے بھی اپنی کمر اٹھا دی ۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو سمبھالنے کی کوشش میں مصروف تھیں ۔۔جو میرے ہاتھوں کے لمس کے بغیر بے چین ہورہے تھے ۔۔۔انہیں بھی کپڑوں سے آزاد کر کے میں ان کی چوت کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔جو گیلی ہوئی لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک اپنے ہاتھ کی مٹھی میں ان کی چوت کو تھام لیا ۔۔۔ساتھ ہی اپنا انگوٹھا اندر داخل کرتے ہوئے انگلی کو چوت کے دانے پر مسلنے لگا۔۔۔چاچی کی سسکاری بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے ۔۔۔مموں کو تھامے ہوئے ۔۔۔۔مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔ میں کچھ دیر ان کی چوت سے کھیلتا رہا اور پھر میری نظران کی طرف پڑ گئی ۔۔۔۔ان کو اپنی جانب تکتا دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس ہوا اور میں اوپر کو اٹھ کر ان سے لپٹ گیا ۔۔۔میں پوری شدت سے ان کے چہرے کو چوم رہا تھا ۔۔۔۔ان کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا۔۔۔چاچی بھی میری اس شدت کا ساتھ دینے کی کوشش کرنے لگی اور اپنے دونوں ہاتھ سےمیری کمر کو بھینچنے لگیں ۔۔۔۔۔ہم دونوں اپنے کپڑوں سے آزاد ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے ۔۔۔چاچی کے فل دودھ سے بھرے ہوئے ممے میرے سینے پر گڑئے ہوئے گدگدی کر رہے تھے ۔۔۔۔اور نیچے سے تنا ہوا ہتھیار چاچی کی ٹانگوں کے درمیاں پھنسا ہوا تھا ۔۔جس کی گرمی چاچی کی چوت کو پگھلا رہی تھی ۔۔۔۔۔چاچی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا ہتھیار تھام لیا اور اسے اپنی چوت کے لبوں پر رگڑنے لگیں ۔۔۔ٹوپا فل پھولا ہوا تھا۔۔۔۔۔اور ہتھیار کی شافٹ جوش جذبات سے لرز رہی تھی ۔۔۔یہ وہی ہتھیار تھا جس نے پہلی مرتبہ چاچی کی چیخیں نکلوائیں تھیں۔۔۔۔۔اور آج پھر چاچی کے چہرے پر اس کی پیاس جاگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔چاچی کے ہونٹ لرز رہے تھے اور بے اختیار سسکاریاں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اب اٹھ کر بیٹھ گیا اور چاچی کے ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔۔ایک ہاتھ سے تھوڑا تھوک ٹوپے پر ملا اور چوت پر ٹکا دیا ۔۔۔چاچی نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا اور ڈھیر سارا تھوک اکھٹا کر میرے ہتھیار پر مسلنے لگیں ۔۔۔چوت کی گرمی باہر تک آ کر ٹوپے پر محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ سے ہتھیار کو تھامتے ہوئے ٹوپے کو اندر دھکا دیا ۔۔ٹوپے پہلے سے زیادہ پھولا ہوا تھا۔۔۔ٹوپا پھنستا ہوا اندر گھسا تھا ۔۔۔چاچی کی ایک سس۔۔۔۔افف۔۔۔۔آہ نکلی تھی ۔۔میں دباؤ بڑھا کر آدھا لن اندر گھسا دیا تھا ۔۔اور آگے کو ہوتے ہوئے اپنے پیروں پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔میرے دونوں ہاتھ چاچی کے گھٹنے پر تھے ۔۔۔جو تھوڑے سے اوپر کو اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے پاؤں کے بل بیٹھتے ہوئے ہتھیار کو دوبارہ سے کھینچ کردوبارہ دھکا دے دیا تھا۔۔۔ساتھ ہی چاچی کے ممے مچل کر اوپر کو اچھلے تھے۔۔ ۔چاچی کی چوت ابھی بھی میرے ہتھیار کے لئے کافی زیادہ تنگ تھی ۔۔۔۔جس کا اندازہ چاچی کی ۔۔۔آہ۔۔۔۔افف۔۔۔۔اور سسکاری سے بخوبی ہو رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے آدھا لن اندر گھسا دیااتھا ۔۔۔اور چاچی کے گھٹنے پر ہاتھ رکھے اس کو تیزی سے آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی دھکے لگاتے ہوئے میں چاچی کی ٹانگوں کو اور اوپر اٹھا کر ان کے سینے سے لگا چکا تھا ۔۔۔۔۔اور کچھ اور ہتھیار اندر گھسا دیا ۔۔۔جس سے چاچی کی آہوں میں او ر اضافہ ہو گیاتھا۔۔۔چاچی کے لمبے بال بیڈ پر بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا ۔۔بار بار ہونٹ کھل بند رہے تھے اور سسکیاں منہ سے جاری تھیں ۔۔۔۔میں پانچ منٹ ایسے ہی دھکے دیتا رہا ۔۔۔اور پھرہتھیار باہر کھینچ کر چاچی کو اٹھانے لگا۔۔۔۔ایک ہاتھ سے کھینچ کر میں انہیں گھوڑی بنا چکا تھا۔۔۔ان کے گول مٹول سے چوتڑ دمک رہے تھے ۔۔۔۔۔چاچی کے بالوں کو اکھٹا کر کے پیچھے ان کی پتلی کمر پر ڈال دیا ۔۔۔جس سے تھوڑے ہی نیچے گولائی میں پھیلے ہوئے چوتڑ مجھے دعوت عام دے رہے تھے ۔۔میں نے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں میں ہتھیار پھنسا کر چوت پر جمایا اور آگے کو ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔ہتھیارپھنستا ہوا ندر جا چکا تھا ۔۔چاچی تھوڑی سی آگے کو جھکی۔۔۔۔۔میں نے ان کی کمر کو تھامتے ہوئے جھٹکے دینے شروع کر دیے تھے ۔چاچی کی سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔اور یقینا ان کے بھاری بھرکم ممے بھی ہل ہل کر نیچے سے مجھے شاباش دے رہے تھے ۔۔۔ میں جھٹکوں کی اسپیڈ بڑھاتا گیا ۔۔۔۔چاچی کے بال دوبارہ سے نیچے کو گر چکے تھے اور ان کی پتلی کمر صاف واضح ہوئی وی تھی ۔۔۔۔۔ساتھ ہی چاچی کی آہوں اور سسکیوں نے مجھے اور گرما رہی تھیں ۔۔۔۔میرے بھرپور جھٹکے سے ان کے چوتڑ بھی ہل رہے تھے ۔ میں جھٹکے بڑھاتا جا رہے تھا ۔۔اسپیڈ کے ساتھ کبھی ہتھیار آدھے میں ہی واپس ہو جاتا اور کبھی آدھے سے زیادہ اندر گھستا تھا ۔۔۔جس سے چاچی کی افف۔۔۔آہ۔۔۔۔کی آواز نکلتی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے کے اسپیڈ چاچی روک نہیں پارہی تھیں اور آگے کو لیٹتی چلی گئیں ۔۔۔۔میں بھی ہتھیار نکالے بغیر ان کے اوپر سوار تھا اور اب دائیں بائیں پاؤں رکھے اپنے پورے وزن سے اندر جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔بیڈ برے طریقے سے لرز رہا تھا ۔۔۔۔اور اس کے اسپرنگ بھی میرے جھٹکوں کو واپس اچھال رہے تھے ۔۔۔چاچی کی سسکیاں اور آہیں بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔ان کی چوت کی دیواریں ٹائٹ اور لوز ہو رہی تھیں ۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں انہوں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی دروازے پر دستک نے مجھے نے اختیار اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔