Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
قسط نمبر 1 :۔
میں تیز قدموں سے خالہ کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا ۔۔۔شام ہوچلی تھی ۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو خالہ نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ گھر میں داخل ہوا اور ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگا ۔دروازہ کھول کر اندر جا کر بیٹھا۔۔دو راتیں پہلے والا منظر میرے سامنے پھر سے لہرایا تھا.......بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور سکون کی سانس لینے لگا ۔۔ خالہ پانی لے ڈرائنگ روم میں پہنچی ......پانی پینے کے بعد میں نے ثناء کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔وہاں کوئی دعوت ہو رہی تھی ۔۔میں نے پوچھا کہ آپ نہیں گئیں ۔۔انہوں نے کہا کہ نہیں وقار نے آج رات آنا تھا تو میں یہیں رکی ہوئی تھیں......ہم آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے اور یقینا خالہ کے ذہن میں بھی وہ پچھلی رات گذر رہی تھی ۔خالہ نے چائے کا پوچھا اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا .......مجھے اپنی کار کا خیال آیا جو میں سعدیہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا اور سعدیہ کی گاڑی رانا ہاؤس میں کھڑی تھی ......پہلے سعدیہ کو فون کیا اسے ہلکی پھلکی بات بتا کر واپسی کا بتایا اور گاڑی کا کہا کہ میں پہنچواتا ہوں کسی زریعے سے .......۔وہ بھی کچھ دن بعد فارغ ہو رہی تھی اور واپس آنے کا کہ رہی تھی ......فون بند کیا تو مجھے زارا کا خیال آیا جو کہ یہیں پر تھی اور شاید میری منتظر بھی تھی ......وقار کو فون کیا کہ کب تک آ رہے ہو......اس نے جواب دیا کہ آ ج رات میں نکلوں گا ......میں نے سعدیہ کا نمبر اور ایڈریس دیا کہ یہاں سے میری کار لے لو اورصبح آرام سے آ جاؤ ۔۔۔ وقار نے ہامی بھر لی۔۔اور میرا پوچھ کر فون بند کر دیا ۔۔۔۔خالہ چائے لے کر پہنچ چکی تھیں ۔۔اور میرے برابر میں ہی بیٹھیں تھیں ۔۔۔۔جیسے اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے کا ارادہ ہو ۔۔۔میں نے گہری نظر سے ان کا جائزہ لیا تو وہ بھی کچھ بے چین ہی تھیں .......ان کی آنکھوں سے محبت جھلک رہی تھی ۔۔اک لگاوٹ سی تھی ۔۔۔۔اک انداز دلبرانہ تھا ۔۔۔ میرا پوچھا کہ دو دن کیسے گذارے .......میں نے مختصرا بتایا اور وقار کا بھی کہ وہ شہر میں ایک اچھا گھر خرید رہا ہے ۔۔۔۔خالہ تھوڑی اور قریب ہوئی تھیں ۔۔۔ مجھے ان کے جسم کی گرمی ٹکرائی تھی ۔۔۔۔جس کے ساتھ ان کے جسم کی مہک بھی شامل تھی ۔۔۔میں نے جلدی سے چائے کا کپ اٹھا لیا ۔۔۔اور چائے کے سپ بھرنے لگا .......۔۔مجھے عجیب سے گھبراہٹ شرو ع ہو گئی تھی ۔۔۔
اٌس رات کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔ثناء کی طرف سے ادھوری خواہش سی تھی ۔۔۔۔مگر اب ہوش میں ہی تھا ۔۔۔ مگر چائے خالہ کو کتنی دیر تک روک پاتی۔۔۔۔اِدھر چائے ختم اورمیں نے کپ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔ادھر خالہ کچھ اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔ان کے جسم کی مہک مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک نظر ڈالی ۔۔ان کا بے چین جسم اور دھڑکن ان کے سینے کو حرکت دے رہی تھی .......۔سینے کے بڑے سے ابھار تھوڑا بھی ہلتے تو مجھے گھبراہٹ کا ایک تیز جھٹکا سا لگتا .......میں نے ان کے سینے سے نظریں چْراتے ہوئے سامنے دیکھا تو خالہ کا گورا سفید چہرہ ایک پیاسی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا .......۔ان کی براؤن آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی ۔۔۔۔اب شاید میری بھی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔خالہ میں چلتا ہوں ۔۔۔کچھ دنوں میں چکر لگاتا ہوں .......خالہ بھی میری ہچکچاہٹ سمجھ گئی تھیں ۔۔۔کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے مگر چکر لگا لینا ۔۔۔۔بھول مت جانا ۔۔۔ میں نے جلدی سے سر ہلا دیا .......اٹھ کر باہر نکلا ۔تو رخصت ہوتے ہوئے خالہ نے ایک مرتبہ پھرمیرا ہاتھ پکڑ کر دبایا ۔۔۔
میں باہر آیا اوراپنے گھر کی طرف چل پڑا .......دروازے سے داخل ہوا تو ہلچل مچ چکی تھی ۔۔۔نیا نویلا دلہا دوسری رات کے بعد دو دن بعد گھر واپس پہنچا تھا .......امی سے ملا ۔۔اس کے بعد بہنیں سامنے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھیں .......۔بھائی ہمارا خیال نہیں تو بھابھی کا ہی خیال کر لو ، ، دیکھو کیسی اداس ہو گئیں ہیں ۔۔۔ثناء پیچھے کھڑی شرما رہی ہے ۔۔۔۔چاچی اور بھابھی بھی نیچے ہی تھیں ۔۔۔سب میری دْرگت بنتے دیکھ رہی تھیں ....... اور مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔میں درمیان میں مجرم بنا کھڑا ہوا تھا ۔۔آخر چاچی کو خیال آیا ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر لانے لگیں .......کہ آرام کرو ، تھکے ہوئے لگ رہے ہو .......اور پھر مڑتے ہوئے ثناء سے کہا کہ کچھ کھانے کو بھی لے آؤ .......میں چاچی کے ہاتھوں کھینچتا ہواہوا اوپر پہنچا تھا .......اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاچی مجھے میں سمائی تھیں ....... میں نے بھی جواب میں انہیں بانہوں میں بھرا تھا ۔۔۔۔چاچی بھی اداس لگ رہی تھیں .......۔ ۔ ہمارے درمیان ایک انجان سا تعلق تھا جو مضبوط ہوتا جا رہا تھا .......۔وہ میری ہر بات کہے بغیر جان لیتی تھیں ۔۔۔۔اور چہرہ دیکھ کر دل کا حال پڑھ لیتی تھیں .......کچھ دیر ایسے ہی وہ میرے ساتھ لپٹی رہیں ۔۔۔اور پھر پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی .......میں نے جلدی سے چہرہ صاف کیا اور بیڈ پر بیٹھنے لگا .......سیڑھیوں پر قدموں کی آواز آنے لگیں تھی۔۔۔چاچی بھی سائیڈ پر ہو کر بیٹھیں اور ہم نارمل بات کرنے لگے .......۔اتنے میں ثناء کمرے کا دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر رونق آ گئی تھی ۔۔۔یا پھرنیچے شاید مناہل اور ربیعہ کی باتوں میں آ کر مصنوعی اداسی خود پر طاری کرلی تھی۔۔۔۔ثناء جوس لے کر آئی تھی۔۔۔۔چاچی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر دیکھا اور کھانے کا پوچھ کر باہر جانے لگیں .......۔ثناء سے جوس لیتے ہوئے میں نے کہا ۔۔تم میری بغیر اداس ہو گئیں تھیں کیا ۔۔۔ ؟
اور نہیں ہوتی کیا ۔۔ ؟ ثناء کے جواب نے میرے دل میں گھنٹی بجا دی تھی ۔۔۔۔اچھا کتنی یاد آئی تھی ۔بتانا ..... زرا ۔۔۔میں بیڈ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا .......وہ بھی سمجھدار تھی ، کہنےلگی پہلے یہ جوس پی لیں ، پھر بتاتی ہوں ۔۔۔۔میں جوس لئے بیڈ پر بیٹھااور وہ غڑاپ سے باہر نکل گئی .......میں بے اختیار ہنسنے لگا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نیچے سے کھانے کی آواز آئی اور میں نیچے چلا آیا تھا ۔۔۔۔کھانا کھا کر نیچے ہی بیٹھے رہے تھے ۔۔۔چاچا بھی ساتھ تھے ۔۔ہم نے چائے ساتھ پی ۔۔۔۔بھیا اور ابا جان شہر میں ہی تھے ۔۔۔کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔چاچا مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کھیتوں کی طرف چکر لگاؤ گے ۔۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ شاید کل آؤں گا ۔۔اور پھر اوپر اوپر کی طرف چل دیا .......
دو دن کی ذہنی اورجسمانی تھکان نے مجھے تھکا دیا تھا ۔۔۔۔بستر پر لیٹے میں جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔رات کو 2 بجے میری آنکھ کھلی تھی ۔۔میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی ۔۔۔کمرے کی ہلکی مدھم لائٹ میں بستر پرتھوڑی سی آڑھی ترچھی ثناء لیٹی ہوئی تھی .......سیاہ بالوں میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔۔۔بند آنکھوں میں چہرے پر معصومیت بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ بازو پھیلائے ہوئے سیدھ لیٹی وہ کسی دلکش پینٹنگ جیسی لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے سینے کا مدھم زیروبم اس کی گہری نیند کو ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔میں نے بے اختیار اس کے چہرے کو چوما تھا ۔۔۔ماتھے کو چومتے ہوئے میں واپس اپنی جگہ پر آیا تھا ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کی نیند خراب کرتا ۔۔۔کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کردیں ۔اور سونے لگا .......اچانک ایک ہاتھ میرے ہاتھوں سے ٹکرا یا تھا ۔۔۔میں نے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ثناء میرے لمس سے جاگ چکی تھی ۔۔۔مگر اب بھی آنکھیں جھکی جھکی سی تھی ۔۔۔میں نے اس کا بازو پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور خود سے لپٹا لیا .......۔نرم و ملائم نازک سی ثناء اْسی نزاکت کے ساتھ مجھ سے آن لگی تھی ۔۔۔۔میں نے
اس کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھا ۔۔۔شرم اور لاج نے اس کے چہرے کو مزید دہکا دیا تھا .......جھکی ہوئی پلکیں لرز رہی تھیں ۔۔میں نے بے اختیاراس کی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے .......پھر اس کی پیشانی پر ہونٹ ثبت کیے ۔۔۔اورپھر بھر ے بھرے گالوں کو چومنے لگا .......اس کا پورا بدن مجھے سے لپٹا ہوا تھا ۔۔۔چاہت اور لذت کی ایک لہر ہم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔۔کشش کی ایک قوت ہمیں گھیرے ہوئے تھی ۔۔۔۔میں نے اسے اور شدت سے خود سے لپٹا دیا ۔۔۔ساتھ ہی پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ جاری تھی .......جو ثناء کے چہرے کو گیلا کئے جا رہی تھی .......وہ بھی جھینپ سی گئی تھی ۔۔۔مگر میری شدت اسی تیزی سے جاری تھی .......میں پورے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لپکا تھا .......پتلے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کےدرمیان دبا کر کھینچنے لگا تھا .......جس سے ہونٹ مزید سرخ ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔میں اسے خود میں سمائے ہوئے تھا اور ہاتھ پیچھے اس کی کمر پر گردش کر رہے تھے ۔۔۔۔اور پیچھے سے اس کے نرم و نازک چوتڑ پر ہاتھ رکھے ۔وہ تھوڑی سی آگے کو ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ہلکےہاتھوں سے اس کےچوتڑ کو دبانا شروع کر دیا تھا .......اور ساتھ ہی اپنی طرف زور بھی دیتا تھا ۔۔۔۔میرا ہتھیار بھی انگڑائی لیتا اٹھ رہا تھا .......۔جو آگے سے ثناء کو ٹچ ہو کر اور تیزی دکھاتا .......اس کے نرم و نازک سے ممے میرے سینے سے کچھ ہی دور تھے ، جب و ہ آگے کو ہوتی یا میں بڑھتا وہ بڑے نرم انداز میں مجھے ٹچ ہو تے تھے ۔۔۔۔جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں ......اور میں نے اس کی موجودگی محسوس کر لی تھی .......۔اس کے ممے درمیانے سائز کے گول مٹول سے تھے ۔۔۔مگر اس فٹنگ والی قمیض میں وہ بھی قیامت ڈھا رہے تھے......میں نے اسے تھوڑا سے بٹھایا اور ہاتھ اوپر کرتے ہوئے قمیض اتارنے لگا......وہ مزید خود میں سمٹنے لگی تھی .......قمیض اترتے ہی بے حد سفید نازک سا چمکتا ہوا جسم میرے سامنے تھا ۔۔۔۔سرخ رنگ کی برا میں اس کے ممے چھپے ہوئے تھے ......صرف اوپر ی حصہ اور گہری سی کلیویج نظر آتی تھی .......میں نے اس کی برا کھولتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹا دیا تھا ۔گورے چٹے ممے اٹھ کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔میرے نظریں اس کے چہرے پر تھیں اور ہاتھ اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیے ۔۔۔ جو سفید میدے کے پیڑے جیسے لگ رہے تھے ۔۔۔۔پنک گلابی نپلز اپنی نزاکت کے ساتھ ہلکے سے لرز رہے تھے ۔۔میں بے اختیار اسے پکڑ کرمنہ میں لے جانے لگا ۔۔۔۔نپلز کواپنے زبان سے رگڑتا ہوا ۔۔۔ممے کا کچھ حصہ میرے منہ میں جا چکا تھا ۔۔۔میں بےصبری سے ممے منہ میں لئے ہوئے چوس رہا تھا ۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے میری پیاس مٹنے کے انتظار میں تھی ۔۔نپلز بھی میرے تھوک میں گیلے ہو کر چمکنے لگے تھے ...... میں انصاف کے ساتھ دونوں مموں کو برابر ٹائم دے رہا تھا ......اور کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر ثناء کو دیکھتا جو مجھے ہی دیکھی جا رہی تھی......اس کی سیاہ آنکھوں میں محبت کا سمندر بڑھتا جا رہا تھا .......۔۔اور چمک اس سے بھی زیادہ تھی .......
ایک ہاتھ سے میں اس کے مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی شلوار کے اوپر سے اس کی نازک رانوں کو دبا رہا تھا ۔۔۔میراہاتھ نرم ہی تھا ۔۔۔ثناء کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اس کا پورا سینہ میرے تھوک سے گیلا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔ممے پہلے سے سختی میں تھے ۔۔اور نپلز بھی ہوشیاری کا بھرپورمظاہر ہ کر رہے تھے ۔۔۔۔میرے نچلے حصے میں بھی میٹھا سا درد ہوئے جا رہاتھا ۔۔ہتھیار اپنی سختی پر آنا چاہ رہا تھا ۔۔مگر پینٹ اسے اجازت نہیں دے رہی تھی .......۔۔میں ثناء کی سائیڈ سے کچھ درمیان کی طر ف آیا اور اس کی پیٹ کو چومتے ہوئے مزید نیچے بڑھا ۔۔۔نازک کمر کےاوپر ایک سڈول سا پیٹ تھا جس کے درمیاں ناف کا ایک چھوٹا سے گڑھا تھا ۔۔۔۔میں اس کے اندر زبان گھمانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر پیروں کے بل کھڑی کر دی ۔۔۔وہ لیٹی ہوئی تھی مگر ٹانگیں اوپر کو مڑی ہوئی اور پیر بیڈ پر تھے ۔۔۔اور ان سب کے درمیان نیچے کو سفر کرتا ہو ا میرا چہرہ تھا .......۔میرے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔۔میں ناف سے نیچے آیا اور شلوار کو پکڑ کر نیچے کھسکانے لگا .......ساتھ ہی میری زبان بھی سفر کرتی ہوئی نیچے آئی ۔۔۔جتنی شلوار نیچے ہو رہی تھی ۔۔اتنے ہی فاصلے سے زبان بھی نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔ثناء بے چینی سے ہلنے لگے تھی ۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا اور شلوار کو نیچے تک کھینچی اور ایک ٹانگ اٹھاکر ایک پائینچہ نکالا اور اسی طرح دوسری سائیڈ سے بھی ۔۔۔اس کی نازک پنڈلیاں اور مناسب رانیں دمک رہی تھی ۔۔۔بغیر بالوں کے چاندی جیسی رنگت والی۔۔۔پینٹی بھی اتار کر ۔۔۔میں ایک ہاتھ اس کی پنڈلیوں پر پھیرتا ہوا اوپر آیا تھا اور وہی پوزیشن سمبھال چکا تھا۔۔۔اس کی نازک سیپی جیسی چوت میرے سامنے تھی .......میں اپنے دونوں ہاتھ کو اس کی رانوں اور چوتڑ پرباری باری لے جا کر دبا رہا تھا ۔۔۔اور ہونٹ اس کی چوت پر رکھ دئے ۔۔۔ثناء نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا ۔۔۔۔اس نے بے اختیار دونوں ٹانگیں سیدھی کرنے کی کوشش کی تھی .......میں کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے اس کی چوت کو چومنے کے بعد پھر اوپر ہوا تھا ۔۔اور اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔اٌدھر ثناء میری زبان چوسنا شروع کر رہی تھی......اِدھر میری ایک انگلی اس کی چوت میں داخل ہوئی تھی ۔۔ثناء نے سریلی آواز میں ایک سکاری بھری اور پھر میری زبان کو چوسنے لگی .......لذت کی ایک لہر اس کے نرم ہونٹوں سے نکل کر میرے بدن میں سرائیت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے بھی اپنی انگلی کو حرکت دینے شروع کر دی تھی ۔۔۔۔اس کی چوت حد سے زیادہ تنگ تھی ۔۔انگلی بھی بڑی دقت کے ساتھ جارہی تھی ۔۔جس کے ساتھ ثناء کی سسکیاں بھی میرے منہ میں پہنچتیں ۔۔۔۔میں نہایت نرمی کے ساتھ اپنی انگلی کو آگے پیچھے کررہا تھا .......ساتھ ہی انگوٹھے کو اس کی چوت کے اوپر مسلنےلگا۔۔۔ثناء کی ٹانگوں میں بھی حرکت بڑھ رہی تھی ۔۔۔وہ ہلکے سے کمر کو بھی گردش کرتی ۔۔۔میری انگلی اندر ایڈ جسٹ ہونے لگی تو دوسری انگلی بھی میں نے ملا دی ۔۔۔۔ثناء کی ایک تیز آواز نکلی تھی ۔۔اوئی ۔۔۔سس......۔اس کا پیٹ ایک دم نیچے گیا اور پھر باہر آیا ۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی آہستگی سے آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔اور اوپر اب میں ثناء کی زبان کو چوس رہا تھا .......اس کی آنکھیں قدرے لال سی ہونے لگیں تھی .......میری دونوں انگلیاں اپنا کام بخوبی کر رہی تھیں.......ثناء کی ٹانگوں میں بھی لرزش سی تھی .......اس نے منہ سے سسکیاں اور بڑھا دی تھی .......مناسب انداز کی یہ گرم گرم سسکیاں میرے چہرے پر ہی پڑ رہی تھی .......جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی تھیں .......کچھ دیر اور گذری تھی کہ ثناء کی ٹانگوں نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا .......اور گرم پانی میرے انگلیوں کو چھوتا ہوا گزرا تھا .......میں کچھ دیر اورہاتھ کو حرکت دے کر روک چکا تھا ۔۔۔۔
میں اوپر ہوتے ہوئے ثناء کے برابر میں آیا تھا ۔۔۔۔اور اسے خود سے چپکا چکا تھا ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب نیچے کو بڑھا تھا ۔۔اپنی پینٹ کا بٹن کھولتے ہوئے میں نے پینٹ نیچے کھسکائی ۔۔۔اوردونوں ہاتھوں سے اسے نیچے دھکیلنے لگا .......۔۔آگے سے اچھلتا ہوا ہتھیار باہر آیا تھا ۔۔۔اور ثناء کی رانوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔۔ثناء نے بے اختیار میری طرف دیکھا تھا .......گرم گرم ہتھیار اسے بتا چکا تھا کہ اگلا مرحلہ کیا ہے .......ہتھیار باہر آکر پہلے سے زیادہ تننے لگا .......۔میں نے سائیڈ ٹیبل سے ویزلین اٹھاتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسے ہتھیار پر ملنے لگا .......ثناء مجھے جھکی جھکی نظروں سے دیکھ رہی تھی.......میں نے ویزلین سائیڈ پر رکھی.......اور اس کی سائیڈ پر ایسے کروٹ لے کر لیٹا اور کہ آدھا اس کے اوپر اور آدھا بیڈ پر تھا ۔۔۔ہتھیار اپنے گیلے پن کے ساتھ اسے چھو رہا تھا .......۔میں نے اوپر ثناء کے چہرے کی طرف نظر ڈالی ۔۔۔تو وہ بھی بے چین سی نظر آ رہی تھی .......میں اسی طرح ٹوپے کو سمبھال کر اس کی چوت کے اوپر رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹے ہونے کی وجہ سے ہتھیار کافی فاصلے پر ہی تھا ۔بس ٹوپا اوردو انچ ہی اس کے اند ر داخل ہو پاتا ۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومنے لگا ۔۔اور نیچے سے تھوڑا اور کھسک کر آگے ہوا تھا .......اورٹوپے کو چوت کے اوپر رکھ کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ثناء نے تھوڑی سی ٹانگیں ہلائیں تھیں ، پھیلائیں تھیں ۔۔۔اور دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دبانے لگی تھی .......میں نے دباؤ برقرار رکھا تھا ۔۔۔۔اوررگڑ کھاتا ہوا ٹوپا اندر پہنچا تھا ۔۔۔ثناء کی ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔۔اس نے ٹانگیں نیچے کو دبا کر اوپر اٹھنا چاہا تھا ۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی کمر سے نیچے پھرتا ہوا چوتڑ تک جاتا اور پھر واپس کمر تک آتا ۔۔۔۔میں نرم ہاتھوں سے مساج کر رہاتھا ۔۔ٹوپا وہیں رکا ہوا تھا .......ثناء کی چیخ کے بعد اب اوئی ۔۔۔اف۔۔۔ کی سریلی سی آواز نکل رہی تھی ۔۔۔میں نے ٹوپے کو ایسے ہی کچھ دیر رکھا اور ہاتھ اوپر لے جا کر اس کے ممے پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔اب کی بار میری پکڑ میں دباؤ زیادہ تھا ۔۔۔اور اس کے نپلز کو کھینچتا ہوا۔۔۔چھوڑتا تھا .......ثناء کی درد بھری سسکاری اب بھی جاری تھی ۔اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔وہ درد برداشت کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔میری کمر کا حصہ ساکت ہی تھا ۔۔۔اور اوپر سے چھیڑ خانی جاری تھی ۔۔۔اس کے ممے کھینچ کھینچ کر لال ہونے لگے تھے ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے نیچے سے کمر کو تھوڑا آگے بڑھایا تھا ۔۔۔۔ثناء ایک مرتبہ پھر پیچھے کو ہتنے کے لئےہلی تھی ۔۔۔اور منہ سے پھر سریلی چیخ نکالی تھی ۔۔۔اس کے چہرہ کی سرخی برداشت کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں مستقل مجھے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔میں رک رک کر اسے بہلا رہا تھا ۔۔۔وہ کچھ تھمی تھی ۔۔جب میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھا یا ۔۔۔اس کی پھرتیز آواز نکلی تھی ۔۔۔میں خاموشی سے اس کے ہونٹوں کو چومتا رہا .......۔اس کے مموں کو تیزی سے مسلتے ہوئے مجھے 3 منٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے تھوڑا اور آگے آیا تھا ۔۔اور ہتھیار ثناء کی چوت میں پھنستا ہوا آگے کو بڑھا تھا .......۔۔ثناء نے پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا ۔۔راجہ بس کی درد بھری آواز آئی تھی ۔۔۔۔ثناء کی آواز میں کچھ تھا ۔۔۔۔۔میں نے بھی وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد آہستگی سے باہر لانے لگا ۔۔۔۔باہر بھی اتنی ہی مشکل سے گھسٹتا ہو ا آتا تھا ۔۔۔۔۔میں ٹوپے تک باہر لا کر دوبارہ سے گھسانے لگا ۔۔۔۔۔وہ پھر سے ۔۔۔سس ۔۔اوئی کرتی ہوئی ہلی تھی ۔۔۔۔میں پھر اتنا ہی اندرڈال کر واپس نکالنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ویزلین سے میرا ہتھیار بھرا ہوا تھا ۔۔اور یہ ویزلین اس کی چوت کے اوپر اورنیچے حصے پر بھی لگ چکی تھی ۔۔۔میں دوبارہ سے ہتھیار کو لبریکیٹ کیا ۔۔۔۔۔۔اور پوزیشن تبدیل کرنے لگا ۔۔۔۔۔ثناء کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسے سینے پر لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب بھی بے چارگی اور درد کے آثار تھے ۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار اس کے چہرے پر جھکا اور چومنے لگا ۔
اس کے چہرے کو چومتے ہوئے ہونٹوں پر آیا اور خود کے ہونٹوں سے پکڑتا ہوا کھینچنے لگا ۔۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی چومتے ہوئے نیچے سے ہتھیار کو چوت پر ٹکانے لگا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار پہلے سے زیادہ لبیریکیٹ ہوا وا تھا ۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ٹوپ اوپر رکھتے ہوئے اندر زور دیا ۔۔۔۔ثناء تھوڑی سی ہلی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینے پر جکڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔خود سے لپٹانے لگی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سااور ہتھیار ڈآل کر ہلانے لگا ۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں اور سینہ مستقل ہل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے سر کو اٹھاتے ہوئے اس کو دیکھا اور ہونٹ چومنے لگا تھا ۔۔۔تین سے چار منٹ میں ثناء کی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اس کی سسکیاں تیز ہونے لگی ۔۔۔۔۔کراہیں بلند ہونے لگیں تھیں۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی اسپیڈ کم کردی تھی ۔۔۔۔ثناء نے مجھے تشکر سے دیکھا ۔۔۔۔اور مجھے چومنے لگی ۔۔۔۔مجھے پانچ منٹ ایسے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں ویسے ہی ہلتا ہوا تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔ثناء کی ٹانگیں اس کے سینے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اسی حال میں کروٹ دے دی ۔۔۔وہ مڑی ٹانگوں کے ساتھ کروٹ لے چکی تھی ۔۔۔پیچھے سے اس کی گوری گانڈ مڑی ہوئی مزید خوبصور ت نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اس کےپیچھے بیٹھا دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں کچھ ہو گئیں ۔۔۔تو میں نے اسپیڈ بڑھانے کا سوچا ۔۔۔۔۔۔اور اپنی اسپیڈ کو درمیانہ کر دیا ۔۔۔۔ثناء پھر سے کراہی تھی ۔۔۔۔اور اوئی ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔افف۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔کی سریلی آواز میں پکارنے لگی ۔۔۔۔۔۔اب کی بار اس کی آواز میں درد بہت ہی کم تھا ۔۔اسلئے میں بھی مطمئن تھا ۔۔اور اپنی اسپیڈ سے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ثناء کے نازک سے گول مٹول سے ممے تھام لئے تھے ۔۔اور اسے پکڑتے ہوئے اسپیڈ تھوڑی اور تیز کردی ۔۔۔ثناء کی سسکیاں بھی تیز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔اوئی ۔۔۔کے ساتھ وہ تھوڑی سی ٹانگ اٹھا کر فاصلہ پیدا کرتی اور ٹانگ واپس رکھ دیتی ۔۔۔۔۔۔ثناء کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے فارغ ہونے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ پیچھے بڑھا کر اپنی چوتڑ پر جمے میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کرتے ہوئے ایک دو جھٹکے بھی دے دیئے ۔۔۔۔ثناء کراہی اور تیز سسکی کے ساتھ پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہتھیار کو ہلاتا رہا ۔۔۔اور پھر اس کے برابر میں لیٹ گیا ۔۔۔۔ثناء کو پتا تھا کہ میں اب تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔مگر اب اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔وہ کچھ دیر سانس برابر کرکے اٹھی اورمیرے ہتھیار کو تھامتی ہوئی اپنے ہاتھ ہلانے لگی ۔۔۔ویزلین کے ساتھ اب اسکی چوت کا پانی بھی اس پر لگا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ کافی دیر تک ہاتھ ہلاتی رہی ۔۔۔۔پھر بے بسی سے مجھے دیکھتی ۔۔۔۔۔آخر کافی دیر بعد میرے ہتھیار کو رحم آ گیا اور اس نے بارش برسانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار سیدھا ہی تھا ۔۔۔۔برابر میں ثناء بیٹھی تھی ۔۔۔۔پہلی چھینٹ کافی اوپر تک اچھل کر نیچے گری ۔۔۔کچھ بیڈ پر ۔۔۔کچھ مجھ پر اور کچھ ثناء پر ۔۔۔اور اس کے بعد کئی سیکنڈ تک ایسے ہی بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ثناء نے ٹشو سے صاف کیا اور میرے برابر میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ویسے ہی روشن تھی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو ثناء جاگی ہوئی تھی اور میرے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔آنکھ کھولتے ہی نظر اس کے مسکراہٹ بھرے چہرے پر پڑی تھی ۔۔دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔جسے وہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔کچھ قریب آتے ہوئے بولی ، یہیں سے کہیں ! کیا بات ہے .......۔میں نے کہا کہ پاس تو آؤ کان میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔وہ وہیں کھڑی مجھے اٹھنے کا اشارہ کرنے لگی تھی ۔۔۔میں جلد ی سےاٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔اس کے گالوں پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ثناء کا چہرہ شرماہٹ میں لال ہو گیا تھا ۔۔وہ خود کو چھڑوانے لگی اور کہا کہ جلدی سے تیار ہو جائیں ، سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں ایک اور بوسہ دیتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
فریش ہو کر نیچے پہنچا تو سب ڈآئننگ ٹیبل پر بیٹھے انتظار میں ہی تھے .......۔ناشتہ شروع ہو گیا تھا ۔۔ہلکی پھلکی نونک جھونک کے ساتھ ناشتہ ختم کیا ۔۔۔چاچابھی وہیں ناشتے پر تھے۔(جاری ہے)
میں تیز قدموں سے خالہ کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا ۔۔۔شام ہوچلی تھی ۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو خالہ نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ گھر میں داخل ہوا اور ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگا ۔دروازہ کھول کر اندر جا کر بیٹھا۔۔دو راتیں پہلے والا منظر میرے سامنے پھر سے لہرایا تھا.......بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور سکون کی سانس لینے لگا ۔۔ خالہ پانی لے ڈرائنگ روم میں پہنچی ......پانی پینے کے بعد میں نے ثناء کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔وہاں کوئی دعوت ہو رہی تھی ۔۔میں نے پوچھا کہ آپ نہیں گئیں ۔۔انہوں نے کہا کہ نہیں وقار نے آج رات آنا تھا تو میں یہیں رکی ہوئی تھیں......ہم آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے اور یقینا خالہ کے ذہن میں بھی وہ پچھلی رات گذر رہی تھی ۔خالہ نے چائے کا پوچھا اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا .......مجھے اپنی کار کا خیال آیا جو میں سعدیہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا اور سعدیہ کی گاڑی رانا ہاؤس میں کھڑی تھی ......پہلے سعدیہ کو فون کیا اسے ہلکی پھلکی بات بتا کر واپسی کا بتایا اور گاڑی کا کہا کہ میں پہنچواتا ہوں کسی زریعے سے .......۔وہ بھی کچھ دن بعد فارغ ہو رہی تھی اور واپس آنے کا کہ رہی تھی ......فون بند کیا تو مجھے زارا کا خیال آیا جو کہ یہیں پر تھی اور شاید میری منتظر بھی تھی ......وقار کو فون کیا کہ کب تک آ رہے ہو......اس نے جواب دیا کہ آ ج رات میں نکلوں گا ......میں نے سعدیہ کا نمبر اور ایڈریس دیا کہ یہاں سے میری کار لے لو اورصبح آرام سے آ جاؤ ۔۔۔ وقار نے ہامی بھر لی۔۔اور میرا پوچھ کر فون بند کر دیا ۔۔۔۔خالہ چائے لے کر پہنچ چکی تھیں ۔۔اور میرے برابر میں ہی بیٹھیں تھیں ۔۔۔۔جیسے اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے کا ارادہ ہو ۔۔۔میں نے گہری نظر سے ان کا جائزہ لیا تو وہ بھی کچھ بے چین ہی تھیں .......ان کی آنکھوں سے محبت جھلک رہی تھی ۔۔اک لگاوٹ سی تھی ۔۔۔۔اک انداز دلبرانہ تھا ۔۔۔ میرا پوچھا کہ دو دن کیسے گذارے .......میں نے مختصرا بتایا اور وقار کا بھی کہ وہ شہر میں ایک اچھا گھر خرید رہا ہے ۔۔۔۔خالہ تھوڑی اور قریب ہوئی تھیں ۔۔۔ مجھے ان کے جسم کی گرمی ٹکرائی تھی ۔۔۔۔جس کے ساتھ ان کے جسم کی مہک بھی شامل تھی ۔۔۔میں نے جلدی سے چائے کا کپ اٹھا لیا ۔۔۔اور چائے کے سپ بھرنے لگا .......۔۔مجھے عجیب سے گھبراہٹ شرو ع ہو گئی تھی ۔۔۔
اٌس رات کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔ثناء کی طرف سے ادھوری خواہش سی تھی ۔۔۔۔مگر اب ہوش میں ہی تھا ۔۔۔ مگر چائے خالہ کو کتنی دیر تک روک پاتی۔۔۔۔اِدھر چائے ختم اورمیں نے کپ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔ادھر خالہ کچھ اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔ان کے جسم کی مہک مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک نظر ڈالی ۔۔ان کا بے چین جسم اور دھڑکن ان کے سینے کو حرکت دے رہی تھی .......۔سینے کے بڑے سے ابھار تھوڑا بھی ہلتے تو مجھے گھبراہٹ کا ایک تیز جھٹکا سا لگتا .......میں نے ان کے سینے سے نظریں چْراتے ہوئے سامنے دیکھا تو خالہ کا گورا سفید چہرہ ایک پیاسی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا .......۔ان کی براؤن آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی ۔۔۔۔اب شاید میری بھی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔خالہ میں چلتا ہوں ۔۔۔کچھ دنوں میں چکر لگاتا ہوں .......خالہ بھی میری ہچکچاہٹ سمجھ گئی تھیں ۔۔۔کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے مگر چکر لگا لینا ۔۔۔۔بھول مت جانا ۔۔۔ میں نے جلدی سے سر ہلا دیا .......اٹھ کر باہر نکلا ۔تو رخصت ہوتے ہوئے خالہ نے ایک مرتبہ پھرمیرا ہاتھ پکڑ کر دبایا ۔۔۔
میں باہر آیا اوراپنے گھر کی طرف چل پڑا .......دروازے سے داخل ہوا تو ہلچل مچ چکی تھی ۔۔۔نیا نویلا دلہا دوسری رات کے بعد دو دن بعد گھر واپس پہنچا تھا .......امی سے ملا ۔۔اس کے بعد بہنیں سامنے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھیں .......۔بھائی ہمارا خیال نہیں تو بھابھی کا ہی خیال کر لو ، ، دیکھو کیسی اداس ہو گئیں ہیں ۔۔۔ثناء پیچھے کھڑی شرما رہی ہے ۔۔۔۔چاچی اور بھابھی بھی نیچے ہی تھیں ۔۔۔سب میری دْرگت بنتے دیکھ رہی تھیں ....... اور مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔میں درمیان میں مجرم بنا کھڑا ہوا تھا ۔۔آخر چاچی کو خیال آیا ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر لانے لگیں .......کہ آرام کرو ، تھکے ہوئے لگ رہے ہو .......اور پھر مڑتے ہوئے ثناء سے کہا کہ کچھ کھانے کو بھی لے آؤ .......میں چاچی کے ہاتھوں کھینچتا ہواہوا اوپر پہنچا تھا .......اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاچی مجھے میں سمائی تھیں ....... میں نے بھی جواب میں انہیں بانہوں میں بھرا تھا ۔۔۔۔چاچی بھی اداس لگ رہی تھیں .......۔ ۔ ہمارے درمیان ایک انجان سا تعلق تھا جو مضبوط ہوتا جا رہا تھا .......۔وہ میری ہر بات کہے بغیر جان لیتی تھیں ۔۔۔۔اور چہرہ دیکھ کر دل کا حال پڑھ لیتی تھیں .......کچھ دیر ایسے ہی وہ میرے ساتھ لپٹی رہیں ۔۔۔اور پھر پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی .......میں نے جلدی سے چہرہ صاف کیا اور بیڈ پر بیٹھنے لگا .......سیڑھیوں پر قدموں کی آواز آنے لگیں تھی۔۔۔چاچی بھی سائیڈ پر ہو کر بیٹھیں اور ہم نارمل بات کرنے لگے .......۔اتنے میں ثناء کمرے کا دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر رونق آ گئی تھی ۔۔۔یا پھرنیچے شاید مناہل اور ربیعہ کی باتوں میں آ کر مصنوعی اداسی خود پر طاری کرلی تھی۔۔۔۔ثناء جوس لے کر آئی تھی۔۔۔۔چاچی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر دیکھا اور کھانے کا پوچھ کر باہر جانے لگیں .......۔ثناء سے جوس لیتے ہوئے میں نے کہا ۔۔تم میری بغیر اداس ہو گئیں تھیں کیا ۔۔۔ ؟
اور نہیں ہوتی کیا ۔۔ ؟ ثناء کے جواب نے میرے دل میں گھنٹی بجا دی تھی ۔۔۔۔اچھا کتنی یاد آئی تھی ۔بتانا ..... زرا ۔۔۔میں بیڈ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا .......وہ بھی سمجھدار تھی ، کہنےلگی پہلے یہ جوس پی لیں ، پھر بتاتی ہوں ۔۔۔۔میں جوس لئے بیڈ پر بیٹھااور وہ غڑاپ سے باہر نکل گئی .......میں بے اختیار ہنسنے لگا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نیچے سے کھانے کی آواز آئی اور میں نیچے چلا آیا تھا ۔۔۔۔کھانا کھا کر نیچے ہی بیٹھے رہے تھے ۔۔۔چاچا بھی ساتھ تھے ۔۔ہم نے چائے ساتھ پی ۔۔۔۔بھیا اور ابا جان شہر میں ہی تھے ۔۔۔کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔چاچا مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کھیتوں کی طرف چکر لگاؤ گے ۔۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ شاید کل آؤں گا ۔۔اور پھر اوپر اوپر کی طرف چل دیا .......
دو دن کی ذہنی اورجسمانی تھکان نے مجھے تھکا دیا تھا ۔۔۔۔بستر پر لیٹے میں جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔رات کو 2 بجے میری آنکھ کھلی تھی ۔۔میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی ۔۔۔کمرے کی ہلکی مدھم لائٹ میں بستر پرتھوڑی سی آڑھی ترچھی ثناء لیٹی ہوئی تھی .......سیاہ بالوں میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔۔۔بند آنکھوں میں چہرے پر معصومیت بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ بازو پھیلائے ہوئے سیدھ لیٹی وہ کسی دلکش پینٹنگ جیسی لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے سینے کا مدھم زیروبم اس کی گہری نیند کو ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔میں نے بے اختیار اس کے چہرے کو چوما تھا ۔۔۔ماتھے کو چومتے ہوئے میں واپس اپنی جگہ پر آیا تھا ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کی نیند خراب کرتا ۔۔۔کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کردیں ۔اور سونے لگا .......اچانک ایک ہاتھ میرے ہاتھوں سے ٹکرا یا تھا ۔۔۔میں نے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ثناء میرے لمس سے جاگ چکی تھی ۔۔۔مگر اب بھی آنکھیں جھکی جھکی سی تھی ۔۔۔میں نے اس کا بازو پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور خود سے لپٹا لیا .......۔نرم و ملائم نازک سی ثناء اْسی نزاکت کے ساتھ مجھ سے آن لگی تھی ۔۔۔۔میں نے
اس کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھا ۔۔۔شرم اور لاج نے اس کے چہرے کو مزید دہکا دیا تھا .......جھکی ہوئی پلکیں لرز رہی تھیں ۔۔میں نے بے اختیاراس کی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے .......پھر اس کی پیشانی پر ہونٹ ثبت کیے ۔۔۔اورپھر بھر ے بھرے گالوں کو چومنے لگا .......اس کا پورا بدن مجھے سے لپٹا ہوا تھا ۔۔۔چاہت اور لذت کی ایک لہر ہم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔۔کشش کی ایک قوت ہمیں گھیرے ہوئے تھی ۔۔۔۔میں نے اسے اور شدت سے خود سے لپٹا دیا ۔۔۔ساتھ ہی پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ جاری تھی .......جو ثناء کے چہرے کو گیلا کئے جا رہی تھی .......وہ بھی جھینپ سی گئی تھی ۔۔۔مگر میری شدت اسی تیزی سے جاری تھی .......میں پورے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لپکا تھا .......پتلے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کےدرمیان دبا کر کھینچنے لگا تھا .......جس سے ہونٹ مزید سرخ ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔میں اسے خود میں سمائے ہوئے تھا اور ہاتھ پیچھے اس کی کمر پر گردش کر رہے تھے ۔۔۔۔اور پیچھے سے اس کے نرم و نازک چوتڑ پر ہاتھ رکھے ۔وہ تھوڑی سی آگے کو ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ہلکےہاتھوں سے اس کےچوتڑ کو دبانا شروع کر دیا تھا .......اور ساتھ ہی اپنی طرف زور بھی دیتا تھا ۔۔۔۔میرا ہتھیار بھی انگڑائی لیتا اٹھ رہا تھا .......۔جو آگے سے ثناء کو ٹچ ہو کر اور تیزی دکھاتا .......اس کے نرم و نازک سے ممے میرے سینے سے کچھ ہی دور تھے ، جب و ہ آگے کو ہوتی یا میں بڑھتا وہ بڑے نرم انداز میں مجھے ٹچ ہو تے تھے ۔۔۔۔جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں ......اور میں نے اس کی موجودگی محسوس کر لی تھی .......۔اس کے ممے درمیانے سائز کے گول مٹول سے تھے ۔۔۔مگر اس فٹنگ والی قمیض میں وہ بھی قیامت ڈھا رہے تھے......میں نے اسے تھوڑا سے بٹھایا اور ہاتھ اوپر کرتے ہوئے قمیض اتارنے لگا......وہ مزید خود میں سمٹنے لگی تھی .......قمیض اترتے ہی بے حد سفید نازک سا چمکتا ہوا جسم میرے سامنے تھا ۔۔۔۔سرخ رنگ کی برا میں اس کے ممے چھپے ہوئے تھے ......صرف اوپر ی حصہ اور گہری سی کلیویج نظر آتی تھی .......میں نے اس کی برا کھولتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹا دیا تھا ۔گورے چٹے ممے اٹھ کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔میرے نظریں اس کے چہرے پر تھیں اور ہاتھ اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیے ۔۔۔ جو سفید میدے کے پیڑے جیسے لگ رہے تھے ۔۔۔۔پنک گلابی نپلز اپنی نزاکت کے ساتھ ہلکے سے لرز رہے تھے ۔۔میں بے اختیار اسے پکڑ کرمنہ میں لے جانے لگا ۔۔۔۔نپلز کواپنے زبان سے رگڑتا ہوا ۔۔۔ممے کا کچھ حصہ میرے منہ میں جا چکا تھا ۔۔۔میں بےصبری سے ممے منہ میں لئے ہوئے چوس رہا تھا ۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے میری پیاس مٹنے کے انتظار میں تھی ۔۔نپلز بھی میرے تھوک میں گیلے ہو کر چمکنے لگے تھے ...... میں انصاف کے ساتھ دونوں مموں کو برابر ٹائم دے رہا تھا ......اور کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر ثناء کو دیکھتا جو مجھے ہی دیکھی جا رہی تھی......اس کی سیاہ آنکھوں میں محبت کا سمندر بڑھتا جا رہا تھا .......۔۔اور چمک اس سے بھی زیادہ تھی .......
ایک ہاتھ سے میں اس کے مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی شلوار کے اوپر سے اس کی نازک رانوں کو دبا رہا تھا ۔۔۔میراہاتھ نرم ہی تھا ۔۔۔ثناء کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اس کا پورا سینہ میرے تھوک سے گیلا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔ممے پہلے سے سختی میں تھے ۔۔اور نپلز بھی ہوشیاری کا بھرپورمظاہر ہ کر رہے تھے ۔۔۔۔میرے نچلے حصے میں بھی میٹھا سا درد ہوئے جا رہاتھا ۔۔ہتھیار اپنی سختی پر آنا چاہ رہا تھا ۔۔مگر پینٹ اسے اجازت نہیں دے رہی تھی .......۔۔میں ثناء کی سائیڈ سے کچھ درمیان کی طر ف آیا اور اس کی پیٹ کو چومتے ہوئے مزید نیچے بڑھا ۔۔۔نازک کمر کےاوپر ایک سڈول سا پیٹ تھا جس کے درمیاں ناف کا ایک چھوٹا سے گڑھا تھا ۔۔۔۔میں اس کے اندر زبان گھمانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر پیروں کے بل کھڑی کر دی ۔۔۔وہ لیٹی ہوئی تھی مگر ٹانگیں اوپر کو مڑی ہوئی اور پیر بیڈ پر تھے ۔۔۔اور ان سب کے درمیان نیچے کو سفر کرتا ہو ا میرا چہرہ تھا .......۔میرے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔۔میں ناف سے نیچے آیا اور شلوار کو پکڑ کر نیچے کھسکانے لگا .......ساتھ ہی میری زبان بھی سفر کرتی ہوئی نیچے آئی ۔۔۔جتنی شلوار نیچے ہو رہی تھی ۔۔اتنے ہی فاصلے سے زبان بھی نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔ثناء بے چینی سے ہلنے لگے تھی ۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا اور شلوار کو نیچے تک کھینچی اور ایک ٹانگ اٹھاکر ایک پائینچہ نکالا اور اسی طرح دوسری سائیڈ سے بھی ۔۔۔اس کی نازک پنڈلیاں اور مناسب رانیں دمک رہی تھی ۔۔۔بغیر بالوں کے چاندی جیسی رنگت والی۔۔۔پینٹی بھی اتار کر ۔۔۔میں ایک ہاتھ اس کی پنڈلیوں پر پھیرتا ہوا اوپر آیا تھا اور وہی پوزیشن سمبھال چکا تھا۔۔۔اس کی نازک سیپی جیسی چوت میرے سامنے تھی .......میں اپنے دونوں ہاتھ کو اس کی رانوں اور چوتڑ پرباری باری لے جا کر دبا رہا تھا ۔۔۔اور ہونٹ اس کی چوت پر رکھ دئے ۔۔۔ثناء نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا ۔۔۔۔اس نے بے اختیار دونوں ٹانگیں سیدھی کرنے کی کوشش کی تھی .......میں کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے اس کی چوت کو چومنے کے بعد پھر اوپر ہوا تھا ۔۔اور اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔اٌدھر ثناء میری زبان چوسنا شروع کر رہی تھی......اِدھر میری ایک انگلی اس کی چوت میں داخل ہوئی تھی ۔۔ثناء نے سریلی آواز میں ایک سکاری بھری اور پھر میری زبان کو چوسنے لگی .......لذت کی ایک لہر اس کے نرم ہونٹوں سے نکل کر میرے بدن میں سرائیت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے بھی اپنی انگلی کو حرکت دینے شروع کر دی تھی ۔۔۔۔اس کی چوت حد سے زیادہ تنگ تھی ۔۔انگلی بھی بڑی دقت کے ساتھ جارہی تھی ۔۔جس کے ساتھ ثناء کی سسکیاں بھی میرے منہ میں پہنچتیں ۔۔۔۔میں نہایت نرمی کے ساتھ اپنی انگلی کو آگے پیچھے کررہا تھا .......ساتھ ہی انگوٹھے کو اس کی چوت کے اوپر مسلنےلگا۔۔۔ثناء کی ٹانگوں میں بھی حرکت بڑھ رہی تھی ۔۔۔وہ ہلکے سے کمر کو بھی گردش کرتی ۔۔۔میری انگلی اندر ایڈ جسٹ ہونے لگی تو دوسری انگلی بھی میں نے ملا دی ۔۔۔۔ثناء کی ایک تیز آواز نکلی تھی ۔۔اوئی ۔۔۔سس......۔اس کا پیٹ ایک دم نیچے گیا اور پھر باہر آیا ۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی آہستگی سے آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔اور اوپر اب میں ثناء کی زبان کو چوس رہا تھا .......اس کی آنکھیں قدرے لال سی ہونے لگیں تھی .......میری دونوں انگلیاں اپنا کام بخوبی کر رہی تھیں.......ثناء کی ٹانگوں میں بھی لرزش سی تھی .......اس نے منہ سے سسکیاں اور بڑھا دی تھی .......مناسب انداز کی یہ گرم گرم سسکیاں میرے چہرے پر ہی پڑ رہی تھی .......جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی تھیں .......کچھ دیر اور گذری تھی کہ ثناء کی ٹانگوں نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا .......اور گرم پانی میرے انگلیوں کو چھوتا ہوا گزرا تھا .......میں کچھ دیر اورہاتھ کو حرکت دے کر روک چکا تھا ۔۔۔۔
میں اوپر ہوتے ہوئے ثناء کے برابر میں آیا تھا ۔۔۔۔اور اسے خود سے چپکا چکا تھا ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب نیچے کو بڑھا تھا ۔۔اپنی پینٹ کا بٹن کھولتے ہوئے میں نے پینٹ نیچے کھسکائی ۔۔۔اوردونوں ہاتھوں سے اسے نیچے دھکیلنے لگا .......۔۔آگے سے اچھلتا ہوا ہتھیار باہر آیا تھا ۔۔۔اور ثناء کی رانوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔۔ثناء نے بے اختیار میری طرف دیکھا تھا .......گرم گرم ہتھیار اسے بتا چکا تھا کہ اگلا مرحلہ کیا ہے .......ہتھیار باہر آکر پہلے سے زیادہ تننے لگا .......۔میں نے سائیڈ ٹیبل سے ویزلین اٹھاتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسے ہتھیار پر ملنے لگا .......ثناء مجھے جھکی جھکی نظروں سے دیکھ رہی تھی.......میں نے ویزلین سائیڈ پر رکھی.......اور اس کی سائیڈ پر ایسے کروٹ لے کر لیٹا اور کہ آدھا اس کے اوپر اور آدھا بیڈ پر تھا ۔۔۔ہتھیار اپنے گیلے پن کے ساتھ اسے چھو رہا تھا .......۔میں نے اوپر ثناء کے چہرے کی طرف نظر ڈالی ۔۔۔تو وہ بھی بے چین سی نظر آ رہی تھی .......میں اسی طرح ٹوپے کو سمبھال کر اس کی چوت کے اوپر رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹے ہونے کی وجہ سے ہتھیار کافی فاصلے پر ہی تھا ۔بس ٹوپا اوردو انچ ہی اس کے اند ر داخل ہو پاتا ۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومنے لگا ۔۔اور نیچے سے تھوڑا اور کھسک کر آگے ہوا تھا .......اورٹوپے کو چوت کے اوپر رکھ کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ثناء نے تھوڑی سی ٹانگیں ہلائیں تھیں ، پھیلائیں تھیں ۔۔۔اور دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دبانے لگی تھی .......میں نے دباؤ برقرار رکھا تھا ۔۔۔۔اوررگڑ کھاتا ہوا ٹوپا اندر پہنچا تھا ۔۔۔ثناء کی ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔۔اس نے ٹانگیں نیچے کو دبا کر اوپر اٹھنا چاہا تھا ۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی کمر سے نیچے پھرتا ہوا چوتڑ تک جاتا اور پھر واپس کمر تک آتا ۔۔۔۔میں نرم ہاتھوں سے مساج کر رہاتھا ۔۔ٹوپا وہیں رکا ہوا تھا .......ثناء کی چیخ کے بعد اب اوئی ۔۔۔اف۔۔۔ کی سریلی سی آواز نکل رہی تھی ۔۔۔میں نے ٹوپے کو ایسے ہی کچھ دیر رکھا اور ہاتھ اوپر لے جا کر اس کے ممے پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔اب کی بار میری پکڑ میں دباؤ زیادہ تھا ۔۔۔اور اس کے نپلز کو کھینچتا ہوا۔۔۔چھوڑتا تھا .......ثناء کی درد بھری سسکاری اب بھی جاری تھی ۔اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔وہ درد برداشت کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔میری کمر کا حصہ ساکت ہی تھا ۔۔۔اور اوپر سے چھیڑ خانی جاری تھی ۔۔۔اس کے ممے کھینچ کھینچ کر لال ہونے لگے تھے ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے نیچے سے کمر کو تھوڑا آگے بڑھایا تھا ۔۔۔۔ثناء ایک مرتبہ پھر پیچھے کو ہتنے کے لئےہلی تھی ۔۔۔اور منہ سے پھر سریلی چیخ نکالی تھی ۔۔۔اس کے چہرہ کی سرخی برداشت کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں مستقل مجھے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔میں رک رک کر اسے بہلا رہا تھا ۔۔۔وہ کچھ تھمی تھی ۔۔جب میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھا یا ۔۔۔اس کی پھرتیز آواز نکلی تھی ۔۔۔میں خاموشی سے اس کے ہونٹوں کو چومتا رہا .......۔اس کے مموں کو تیزی سے مسلتے ہوئے مجھے 3 منٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے تھوڑا اور آگے آیا تھا ۔۔اور ہتھیار ثناء کی چوت میں پھنستا ہوا آگے کو بڑھا تھا .......۔۔ثناء نے پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا ۔۔راجہ بس کی درد بھری آواز آئی تھی ۔۔۔۔ثناء کی آواز میں کچھ تھا ۔۔۔۔۔میں نے بھی وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد آہستگی سے باہر لانے لگا ۔۔۔۔باہر بھی اتنی ہی مشکل سے گھسٹتا ہو ا آتا تھا ۔۔۔۔۔میں ٹوپے تک باہر لا کر دوبارہ سے گھسانے لگا ۔۔۔۔۔وہ پھر سے ۔۔۔سس ۔۔اوئی کرتی ہوئی ہلی تھی ۔۔۔۔میں پھر اتنا ہی اندرڈال کر واپس نکالنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ویزلین سے میرا ہتھیار بھرا ہوا تھا ۔۔اور یہ ویزلین اس کی چوت کے اوپر اورنیچے حصے پر بھی لگ چکی تھی ۔۔۔میں دوبارہ سے ہتھیار کو لبریکیٹ کیا ۔۔۔۔۔۔اور پوزیشن تبدیل کرنے لگا ۔۔۔۔۔ثناء کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسے سینے پر لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب بھی بے چارگی اور درد کے آثار تھے ۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار اس کے چہرے پر جھکا اور چومنے لگا ۔
اس کے چہرے کو چومتے ہوئے ہونٹوں پر آیا اور خود کے ہونٹوں سے پکڑتا ہوا کھینچنے لگا ۔۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی چومتے ہوئے نیچے سے ہتھیار کو چوت پر ٹکانے لگا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار پہلے سے زیادہ لبیریکیٹ ہوا وا تھا ۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ٹوپ اوپر رکھتے ہوئے اندر زور دیا ۔۔۔۔ثناء تھوڑی سی ہلی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینے پر جکڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔خود سے لپٹانے لگی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سااور ہتھیار ڈآل کر ہلانے لگا ۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں اور سینہ مستقل ہل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے سر کو اٹھاتے ہوئے اس کو دیکھا اور ہونٹ چومنے لگا تھا ۔۔۔تین سے چار منٹ میں ثناء کی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اس کی سسکیاں تیز ہونے لگی ۔۔۔۔۔کراہیں بلند ہونے لگیں تھیں۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی اسپیڈ کم کردی تھی ۔۔۔۔ثناء نے مجھے تشکر سے دیکھا ۔۔۔۔اور مجھے چومنے لگی ۔۔۔۔مجھے پانچ منٹ ایسے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں ویسے ہی ہلتا ہوا تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔ثناء کی ٹانگیں اس کے سینے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اسی حال میں کروٹ دے دی ۔۔۔وہ مڑی ٹانگوں کے ساتھ کروٹ لے چکی تھی ۔۔۔پیچھے سے اس کی گوری گانڈ مڑی ہوئی مزید خوبصور ت نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اس کےپیچھے بیٹھا دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں کچھ ہو گئیں ۔۔۔تو میں نے اسپیڈ بڑھانے کا سوچا ۔۔۔۔۔۔اور اپنی اسپیڈ کو درمیانہ کر دیا ۔۔۔۔ثناء پھر سے کراہی تھی ۔۔۔۔اور اوئی ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔افف۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔کی سریلی آواز میں پکارنے لگی ۔۔۔۔۔۔اب کی بار اس کی آواز میں درد بہت ہی کم تھا ۔۔اسلئے میں بھی مطمئن تھا ۔۔اور اپنی اسپیڈ سے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ثناء کے نازک سے گول مٹول سے ممے تھام لئے تھے ۔۔اور اسے پکڑتے ہوئے اسپیڈ تھوڑی اور تیز کردی ۔۔۔ثناء کی سسکیاں بھی تیز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔اوئی ۔۔۔کے ساتھ وہ تھوڑی سی ٹانگ اٹھا کر فاصلہ پیدا کرتی اور ٹانگ واپس رکھ دیتی ۔۔۔۔۔۔ثناء کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے فارغ ہونے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ پیچھے بڑھا کر اپنی چوتڑ پر جمے میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کرتے ہوئے ایک دو جھٹکے بھی دے دیئے ۔۔۔۔ثناء کراہی اور تیز سسکی کے ساتھ پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہتھیار کو ہلاتا رہا ۔۔۔اور پھر اس کے برابر میں لیٹ گیا ۔۔۔۔ثناء کو پتا تھا کہ میں اب تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔مگر اب اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔وہ کچھ دیر سانس برابر کرکے اٹھی اورمیرے ہتھیار کو تھامتی ہوئی اپنے ہاتھ ہلانے لگی ۔۔۔ویزلین کے ساتھ اب اسکی چوت کا پانی بھی اس پر لگا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ کافی دیر تک ہاتھ ہلاتی رہی ۔۔۔۔پھر بے بسی سے مجھے دیکھتی ۔۔۔۔۔آخر کافی دیر بعد میرے ہتھیار کو رحم آ گیا اور اس نے بارش برسانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار سیدھا ہی تھا ۔۔۔۔برابر میں ثناء بیٹھی تھی ۔۔۔۔پہلی چھینٹ کافی اوپر تک اچھل کر نیچے گری ۔۔۔کچھ بیڈ پر ۔۔۔کچھ مجھ پر اور کچھ ثناء پر ۔۔۔اور اس کے بعد کئی سیکنڈ تک ایسے ہی بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ثناء نے ٹشو سے صاف کیا اور میرے برابر میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ویسے ہی روشن تھی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو ثناء جاگی ہوئی تھی اور میرے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔آنکھ کھولتے ہی نظر اس کے مسکراہٹ بھرے چہرے پر پڑی تھی ۔۔دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔جسے وہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔کچھ قریب آتے ہوئے بولی ، یہیں سے کہیں ! کیا بات ہے .......۔میں نے کہا کہ پاس تو آؤ کان میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔وہ وہیں کھڑی مجھے اٹھنے کا اشارہ کرنے لگی تھی ۔۔۔میں جلد ی سےاٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔اس کے گالوں پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ثناء کا چہرہ شرماہٹ میں لال ہو گیا تھا ۔۔وہ خود کو چھڑوانے لگی اور کہا کہ جلدی سے تیار ہو جائیں ، سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں ایک اور بوسہ دیتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
فریش ہو کر نیچے پہنچا تو سب ڈآئننگ ٹیبل پر بیٹھے انتظار میں ہی تھے .......۔ناشتہ شروع ہو گیا تھا ۔۔ہلکی پھلکی نونک جھونک کے ساتھ ناشتہ ختم کیا ۔۔۔چاچابھی وہیں ناشتے پر تھے۔(جاری ہے)