Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
قسط نمبر 1۔۔۔۔
میں اس وقت ائر پورٹ کےوی آئی پی ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔ بورڈنگ کارڈ اور پاسپورٹ میرے ہاتھ میں تھا ۔۔جبکہ ساتھ ہی ایک چھوٹا بریف کیس رکھا ہوا تھا ۔۔۔تھری پیس سوٹ میں کافی سوبر اور
وجیہہ لگ رہا تھا ۔۔مختلف نظریں مجھ پر پڑتی اور تحسین بھرے انداز سے لوٹ جاتیں ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا کہ اناؤنسر کی آواز گونجی۔۔۔۔میری ہی فلائٹ کا نمبر بتا کر گیٹ نمبر بتایا جا رہا تھا ۔۔میں نے بریف کیس سمبھالا اور اس گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔ بزنس کلاس کی وجہ سے ہماری لائن الگ تھی ۔۔۔ جلد ہی میں جہاز کے اندر تھا ۔۔۔یہ اتحاد ائیر کا جہاز تھا اور میرے لئے خصوصی سیٹ ریزرو تھی ۔۔جہاز کے اندر داخل ہوتی ہی عربی اور یورپی ائیر ہوسٹس نے استقبال کیا ، جن کی مسکراہٹ ہر آنے والے کے لئے یکساں تھی ۔۔۔۔اپنے کیبن میں پہنچ کر جائزہ لیا۔۔۔۔چھوٹے فلیٹ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے میں نے اپنا بریف کیس سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔۔شوز کھولتے ہوئے پیر میں نے سامنے پھیلا دیئے ۔۔جلد ہی ایک ائیر ہوسٹس اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میرے پاس آئی ۔۔۔اسے آرڈر دینے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں بند کر دی ۔۔۔۔۔۔۔پچھلے مشن کی پوری ریل میرے ذہن میں گھومنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔عمران کو دیکھنے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔۔۔اور ہوش رانا ہاؤس میں آیا تھا ۔۔۔۔جہاں عمران نےخود میرا آپریشن کر کے ایک ڈاکٹر کو ڈریسنگ پر معمور کر دیا تھا ۔۔۔۔مگر جوزف نے اسے منع کر کے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی اپنے وچ ڈاکٹر والے خصوصی نسخے مجھے پر آزمانے لگا۔۔۔۔ہر روزانہ میں اٹھتے ساتھ ہی ایک کڑوا سا محلول اپنے حلق سے اتارتا ۔۔۔اور پھر دوپہر اور شام کو یہ عمل دہرایا جاتا ۔۔وہ عجیب و غریب جڑی بوٹیاں لاتا اور بڑے شوق سے میرے لئے یہ قہوہ بناتا ۔۔۔۔جوزف کی محنت رنگ لائی ۔۔اور ہفتوں کا زخم دنوں میں ٹھیک ہو ا۔۔۔ساتھ ہی میرے اسٹیمنا اور انرجی میں بھی پہلے سے کافی اضافہ ہو اتھا ۔۔۔۔کچھ دنوں بعد میں نے گھر کا چکر لگایا ۔۔۔۔جہاں ثناء میرے لئے آنکھیں بچھائے انتظار تھی ۔۔۔۔کچھ دن گھر والوں کے ساتھ رہا تھا ۔۔۔۔کہ عمران صاحب کی کال ملی ۔۔۔۔مجھے ٹریننگ سیکشن کے لئے شہر بلایا گیا تھا ۔۔میں نے بھی خوشی خوشی سامان باندھا ، اور رانا ہاؤس پہنچا ۔جہاں عمران نے مجھے مزید فولاد بنانے کے لئے ایک فیلڈ تیار کی ہوئی تھی ۔۔۔۔ذہنی اور جسمانی ایکسرسائز کی آمیزش نے مجھے کچھ ہی ہفتے میں ایک نئے روپ میں ڈھال دیا ۔۔۔۔فلائنگ اور پیراٹروپنگ کی مشقوں کا اضافہ تھا ۔۔ساتھ ہی میک اپ اور دوسر ی کئی چیزیں بھی سکھا ئی گئیں تھی ۔۔۔۔اور اس کے بعد پہلی مرتبہ میں عمران کے فلیٹ گیا جہاں سلیمان کے ہاتھ کی چائے اور ان کی نونک جھونک سے لطف اندوز ہوا ۔۔۔عمران نے مجھے مشن سمجھا دیا تھا ۔مجھے خصوصی موبائل دیا گیا جو دانش منزل سے ہر وقت ٹریک کیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔اور موجودہ حالات میں جب انڈیا کے ساتھ حالات اور سرحدی معاملات اسقدر بدتر ہو چکے تھے کہ اس مشن کے لئے انہیں ایک نئے چہرے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔جس کے لئے عمران نے مجھے بلایا ۔۔۔۔۔۔مشن کی مکمل بریفنگ کے بعد مجھ پر ایک درمیانی عمر کے ڈاکٹر کا میک اپ کیا گیا تھا ۔۔۔کنپٹی کے قریب ہلکے سفید بال لئے میرے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی تھی ۔۔جس میں بھی سفید بال تھے ۔۔۔نئے چہرے کے لحاظ سے ہی میرا پاسپورٹ تھا ۔اورمیرا نیا نام پروفیسر جان اور میری نئی شہریت جرمنی کی تھی ۔۔۔نیلی آنکھوں کے ساتھ میں چالیس سالہ خوش شکل ڈاکٹر کے میک اپ میں تھا ۔۔۔جو ایک میڈیکل کی کانفرنس کے لئے نیپال جا رہا تھا ۔۔یہ ڈاکٹر پاکستان میں کسی کام سے رکا تھا جہاں عمران نے اسے روک کر اس کا میک اپ مجھ پر کر دیا تھا ۔۔۔۔۔کانفرنس میں مجھے ایک مقالہ پڑھنا تھا ۔۔جو عمران نے ہی مجھے لکھ کر دیا تھا ۔۔۔اور پوری تیار ی بھی کروا دی تھی ۔۔۔۔۔یہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی جو تین دن جاری رہنی تھی ۔۔۔اور پھر دو دن کی سیر و تفریح کے بعد تمام اراکین اپنے ملک لوٹ جانے تھے ۔۔نیپال سے مجھے انڈیا بارڈر تک چھوڑنے کی ذمہ داری وہاں کے فارن ایجنٹ کی تھی ۔۔۔جو مجھے وہیں ملنا تھا ۔۔۔۔اور اس کے بعد میں اب اس جہاز پر سوار تھا ۔۔۔
میرے نتھنے سے خوشبو کا ایک جھونکا ٹکرا یا تو میں نے آنکھیں کھول دی ، ائیر ہوسٹس میرے سامنے تھی ۔۔۔مشروب اور گلاس رکھتے ہوئے اس نے ایک نظر میری طرف ڈالی اور کچھ اور پوچھتی ہوئی واپس چلی گئی۔۔۔
اس کی نظریں صاف کہہ رہی تھی کہ کچھ اور میں اور کیا کیا شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔۔جہاز ہوا میں اڑ چکا تھا اور اب ہموار تیرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے سیٹ بیلٹ کھول لی تھی ۔۔۔۔اور اب آنے والے واقعات کے لئے خود کو تیا ر کر رہا تھا۔۔۔۔اور انہی سوچوں کے درمیان میں نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔دو گھنٹے کی نیند کے بعد مجھے ہوش آیا تھا ۔۔۔۔ائر ہوسٹس شاید کئی بار چکر لگا چکی تھی اور اب مجھے اٹھتا دیکھ کر کھانے کی ٹرے لا چکی تھی ۔۔۔۔۔کھانا کھا کر میں نے چائے کا کہا اور پھر چائے لئے بزنس کلاس میں ہی بنے ایک چھوٹے سے لاؤنج میں آ گیا جہاں چند لوگ بیٹھے بات چیت کرر ہے تھے ۔۔میں چائے لئے ان کے درمیان جا بیٹھا ۔۔اس فلائٹ کا دوحہ میں 4گھنٹے کا وقفہ تھا ۔۔اس لئے کچھ عربی بھی نظر آرہے تھے ۔۔۔۔ایک طرف کچھ غیر ملکی آدمی اورعورت نظر آرہی تھی ۔ اورآپس کی گفتگو میں مصروف تھے ۔۔۔۔میں بھی خاموشی سے چائے پینے لگا۔۔۔۔کہ ایک مترنم ہیلو کی آواز گونجی ۔۔میں نے سر اٹھایا تو ایک بلیک بیوٹی کو پایا جو میرے ساتھ بیٹھنے کی اجازت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔میں سر ہلاتے ہوئے تھوڑا کھسک گیا اور اسے بیٹھنے کی جگہ دی ۔۔۔25 سالہ یہ سینیٹا میری بھی اسی کانفرس میں نیپال جا رہی تھی ۔۔اس نے میری تصویر اس کانفرنس کے اشتہار میں دیکھ لی تھی ۔۔۔۔اس لئے میرے پاس آ بیٹھی ۔۔۔۔سینیٹا ڈاکٹر تھی اور اپنی فیلڈ میں اسپیشلائزیشن کر رہی تھی ۔۔اور اس کانفرنس میں اپنے پروفیسر کی طرف سے پیش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھ سے میری جاب اور ریسرچ کے حوالے سےسوال پوچھا جسے میں نے بڑی خوبصورتی سےواپس اس کی طرف موڑ دیا ۔۔۔میرےسوال اس کی جاب اور شادی کے بارے میں تھے ۔۔اوراس کا جواب سن کر میں حیران ہو گیا تھا ۔۔وہ پچھلے سال ہی مس یونیورس کے لئے منتخب ہوئی تھی ۔اور تاحال مس جمائیکہ تھی ۔۔۔۔اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کا جائزہ لیا ۔۔۔بلاشبہ وہ کالی رنگت میں کافی حسین تھی ۔۔۔بڑی بڑی چمک دار سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔پتلے نقوش کے ساتھ بہت ہی متوازن جسم کی مالک تھی ۔۔لمبے چٹیوں میں بٹے ہوئے سیاہ بال ۔۔۔۔مسکراتا ہوا چہرہ اسے منفرد بنا رہا تھا ۔بلاشبہ اس کا پورا جسم باتیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔سینیٹا اپنی شوخیوں میں مجھ سے جلد ہی فری ہو چکی تھی ۔۔میں بھی ٹھہرے ٹھہرے انداز میں اس کے سوالا ت کا جواب دیتا رہا ۔۔۔اور اس کی ہنستی مسکراتی آواز کو اپنی مسکراہٹ سے سمبھالتا رہا ۔۔۔کچھ دیر میں وہ مجھےاپنے بارے میں کافی کچھ بتا چکی تھی ۔۔کافی دیر اس سے بات چیت ہوتی رہی ۔۔وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی کافی تھی ۔وہ مجھ سے اور میری ریسرچ سے کافی متاثر تھی اور میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کیوں نہ خواہش مند نہ ہوتی ۔میں جرمنی کے سب سے بڑے میڈیکل انسٹیٹیوٹ کا ڈائیریکٹر تھا ۔ ۔۔سال میں کئ بار ہزاروں درخواست میرے پاس آتی تھیں کہ ہم آپ کے انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ ورک کرنا چاہتے ہیں ۔مگر چند ایک لوگ ہی منتخب ہو پاتے تھے ۔۔۔۔اور سینیٹا اس موقع سے فائد ہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اور میں نے اسے پورا موقع بھی دیا ۔۔میرے بازو کو تھامتے ہوئے وہ اپنے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔اپنے اونچے خواب اور آگے بڑھنے کی لگن۔۔اتنے میں دوحہ میں وقفے کا اعلان ہو ا تھا ۔۔میں اٹھ کر اپنی سیٹ پر آنے لگا ۔۔۔مگر سینیٹا مجھے اکیلے چھوڑنے پر راضی نہیں تھی ۔۔جلد ہی جہاز رن وے پر اتر گیا ۔۔بیگ لئے میں بھی باہر آ گیا ۔۔یہ بیگ خصوصی بنا ہوا تھا ۔۔۔اور عمران صاحب نے ہی مجھے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔فلائٹ کی طرف سے ہمیں ائیر پورٹ پر ہی ہوٹل دیا گیا ۔۔۔میں کاؤنٹر پر پہنچا تو سینیٹا میرے ساتھ ہی تھی ۔۔۔اس نے کاؤنٹر پر میرے ساتھ ہی روم کی ریکوئسٹ کی ۔۔۔میرے بازو تھامے ہوئی وہ ایسے تاثر دے رہی تھی جیسے ہم کافی عرصے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں ۔۔بہت سی نظریں ہماری طرف تعریفانہ انداز میں اٹھتی ۔۔۔۔۔سینیٹا کی خوبصورتی ایسی ہی تھی ۔۔۔۔میرے ساتھ وہ بڑے نازک اندام انداز سے قدم اٹھا رہی تھی ۔۔۔اور ہر شخص مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنے کو مجبو ر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ہم اپنے کمرے میں پہنچ گئے ۔۔۔۔۔سینیٹا نے بڑی ادا سے مجھے سے کھانے کو پوچھا تھا ۔۔۔۔میں نے ہلکا پھلکا بتا دیا ۔۔۔اس نے فون اٹھا کر آرڈر کیا ۔۔۔۔
سینیٹا ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی ۔۔ٹی شرٹ کےاوپر ڈینم کی جیکٹ تھی ۔۔۔۔وہ بڑے انداز سے مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مجھے سے شاور کا پوچھنے لگی ۔۔۔۔میں نے اسے پہلے جانے کا کہا ۔۔۔جیکٹ اتار کر بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔باتھ اٹیچ ہی تھا ۔۔۔۔اور جب اس نے باتھ کے دروازے پر جا کر مجھے دیکھا اور اندر داخل ہو گئی ۔۔۔۔اب مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کیا چاہ رہی ہے ۔۔۔۔اور زیادہ دیر کرنا بھی میرے اصول کے خلاف تھا۔۔۔۔علاج کے دوران جوزف نے مجھے ان سب چیزوں سے دور رکھا تھا ۔۔اور اب سینیٹا مستقل بلا رہی تھی ۔۔مجھے جگا رہی تھی۔۔۔اس کے خیال میں میں ادھیڑ عمر ڈاکٹر تھا ۔۔جو جلد ہی اس کے حسن کے جال میں پھنسنے والا تھا ۔۔۔۔اوروہی ہوا تھا ۔۔۔میں نے پھنسنے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔پینٹ کوٹ سے نجات حاصل کرنے میں مجھے دو منٹ بھی نہیں لگے تھے ۔۔۔میں نے کوٹ ہینگر کرتے ہوئے خود کو شیشے میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔عمران صاحب کی کروائی گئی ورزشوں کے بعد میں اور نکھر گیا تھا ۔۔۔۔بازوؤں میں بجلیاں سی کوند آئیں تھیں ۔۔۔اور سینہ پہلے سے زیادہ کشادہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔انڈروئیر جسم پر چھوڑ کر میں اندر باتھ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔حسب توقع دروازہ لاک نہیں تھا ۔۔۔اندر بھاپ پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔اور ایک کونےمیں سینیٹا اپنے شاور کے نیچے کھڑی ہوئی بالوں کو سمیٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے قدم آگے بڑھا دئے ۔۔۔۔اس کے حسن کو خراج پیش کرنے کا ٹائم آ گیا تھا ۔۔۔۔۔بڑی سی آنکھیں بند تھی ۔۔اور نیچے پتلی نازک سی گردن سے اترتے ہوئے ۔۔۔چھوٹے مگر گول اور سخت ممے تھے ۔۔۔۔نپلز بھی چھوٹے اور اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔اور نیچے نہ ہونے کے برابر پیٹ ۔۔۔پتلی کمر اور بالکل گول شیپ چوتڑ تھے ۔۔۔۔۔جو اس کے جسم میں شاید سب سے زیادہ گولائی میں تھے ۔۔۔۔۔۔میرے قد م اس کے قریب جا کر رکے تھے ۔۔اس نے بھی محسوس کر کے رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔۔میری طرف پشت کر کھڑی سینیٹا کے اوپر سے پانی پھسلتا ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے پیچھے سے جا کر اسے تھام لیا ۔۔۔ہاتھ اس کے پیٹ پر جا کر باندھ دیئے ۔۔۔اس کے ہاتھ بھی میرے ہاتھوں پر آ کر ٹِک گئے ۔۔۔۔۔پانی ہم دونوں پر گررہا تھا ۔۔۔۔میں تھوڑا سا آگے ہوا تھا ۔۔۔۔سینیٹا بھی اسی انتظار میں تھی ۔۔اس نے مجھ سے ٹیک لگا لی تھی ۔۔۔۔میرے جسم میں اک آگ سی بھڑکی تھی ۔۔۔۔۔اس کےجسم کا لمس بہت ہیجان خیز تھا ۔۔۔۔۔مجھے حیرت ہوئی کہ جب جہاز میں وہ میرے ساتھ تھی ۔۔مجھے تب کیوں محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کو پیٹ سے اوپر بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔اور آہستگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا اوپر آتا گیا ۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نےگول گول ممے محسوس کر لیے تھے ۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ اٹھ کر میرے سر پر آیا تھا۔۔۔۔اور نتیجے میں مجھے پوری من مانی کی اجازت مل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھوں کو مموں پر گول گول پھیرنا شروع کر دیا ۔۔چھوٹے چھوٹے سنگترے جیسے ممے میرے ہاتھو ں میں سمائے جا رہے تھے ۔۔۔اور میں ہلکی ٹچ کے ساتھ مساج کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کے چوتڑ میرے اگلے حصے کے ساتھ ٹچ تھے ۔۔۔۔اور ہتھیار کو جگانے کی کوششوں میں تھے ۔۔۔۔میں نے اپنے چہرے سے سینیٹا کی بالوں کی لٹو ںکو سائیڈ پر کیا اور گردن کو چومنے لگا۔۔۔اس نے بھی سر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔میں گردن چومتے ہوئے اس کے کندھے پر آیا ۔۔۔۔۔اور پھر اس کو اپنی طرف موڑ دیا ۔۔۔سانولی رنگت میں تراشیدہ بد ن میرے سامنےتھے ۔۔۔۔۔اور اوپر گلابی ہونٹ دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے بھی اسی کی گردن میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹ ملا دیا ۔۔۔نرم ہونٹوں کی ملاقات جاری تھی ۔۔۔کہ زبان نے بھی اپنی ضرورت محسوس کروا دی ۔۔۔۔مگر یہ شرارت پر آمادہ تھیں ۔۔۔۔اور لڑنے کا پورا ارادہ تھا ۔۔۔۔میں نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔یہ لڑائی ایسے ہی جاری رہی۔۔۔جب میرے ہاتھوں نے اس کی کمر کو چھوا۔ اور پھر نیچے آتے ہوئے اس کے چوتڑ پرہتھیلی کا زور ڈالا ۔۔۔۔سختی اور بھرپور گولائی سے جمے ہوئے تھے ۔۔۔۔سینیٹا تھوڑی سی کھسک کر اور قریب آئی تھی ۔۔۔۔اس کے نپلز میرے سینے کو چھونے لگے ۔۔۔اپنی سختی بتانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں نے کمر پر زور دے کر اور خود سے لگا دیا ۔۔۔ایسے ملے ہوئے تھے کہ گرتا ہوا پانی سائیڈوں سے نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار میں جنبش ہوئی تھی ۔۔میرے دونوں پاؤں کے اوپر اس کے پیر تھے ملے ہوئے ۔۔میرے پیروں پر کھڑی ابھی بھی ہماری زبانوں کی لڑائی جاری تھی ۔۔۔۔تبھی میں نے چوتڑ کو دباتے ہوئے اسے اوپر کھینچا تھا ۔۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔اور اچھلتی ہوئی میری کمر کے گرد ٹانگیں لپیٹ لی۔۔۔اس کی شدت سے بھرپور کسنگ اب بھی جاری تھی ۔۔میں نے شاور کو بند کیا اور باہر چلا آیا ۔۔۔باتھ سے باہر نکل کر اسے بیڈ پر اچھالا ۔۔۔۔۔۔۔وہ حیرت بھری نگاہوں سے میرا جسم دیکھنے لگی ۔۔۔جس پر شاید وقت کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔۔بھر پور جوانی کی علامت تھا ۔۔۔میں چلتا ہوابیڈ پر پہنچا تو وہ بھی مجھے لپٹنے لگی ۔۔۔ابھی تک اس کا خیال تھاکہ میں کوئی ادھیڑ عمر آدمی ہوں ۔۔۔مگر جسم دیکھنے کے بعد اس کا خیال تبدیل ہو نے لگا تھا ۔۔۔۔اور کچھ ہی مکمل بدلنے والا تھا۔۔۔میرے لیٹتے ہی وہ اوپر آئی تھی ۔۔اور پاؤں دائیں بائیں رکھتے ہوئے سوار جیسی پوزیشن بنا لی ۔۔نیچے سے اس کی چوت میرے پیٹ پر ٹچ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔پیچھے سے کمر کو اندر اور چوتڑ کو باہر نکال کر وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔چہر ہ کو چومتی ہوئی نیچے کو آئی ۔۔۔۔اور پھر سینے پر آتی ہوئی پانی کے قطرے صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔میرے بد ن میں لذت کی لہریں گردش کر نے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ممے تھام لیے ۔۔۔اور ہاتھوں میں دبوچ کر دبانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔وہ نیچے کو ہوتی ہوئی میرے ہتھیار پر آ بیٹھی ۔۔۔۔اور پھر اورنیچے کو ہونے لگی ۔۔۔ناف تک پہنچی تو میں نے اسے اوپر کھینچا اور ساتھ ہی کروٹ لے لی ۔۔اب میں اس کا عمل دہر ا رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہونٹوں نے اس کے مموں کو چھوا تو وہ ہل سی گئی ۔۔۔۔میں نے مموں کوچوستے ہوئے نپلز کھینچنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔سینیٹا میرے سر پر ہاتھ رکھے شاباش دئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت پر رکھا اور درمیانی انگلی اس کے لبوں پر رکھی ۔۔۔لب کچھ باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے ۔۔۔میں اس پر انگلی پھیرتا ہوا اس کے دانے کو مسلنے لگا۔۔۔سینیٹا کی سسکاری بھی اسی کی طرح نازک اور دلکش تھی ۔۔۔کسی بلیک بیوٹی سے میرا پہلی مرتبہ واسطہ پڑا تھا ۔۔۔اور اب تک میں نے اس کی شدت میں کمی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔یہ بڑھتی ہوئی شدت میری وحشت کو بھی جگارہی تھی ۔۔میں نے سینیٹا کے دائیں بائیں کہنی جما کر اوپر اٹھا اور انڈر وئیر کو نیچے دھکیل دیا۔۔۔۔ایک بھاری بھرکم اور گرم وجود سینیٹا کی ٹانگوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں اشتیاق او ر پیاس بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔تبھی میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی ٹانگوں میں ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا اور ٹانگوں کو اٹھا دیا ۔۔۔ساتھ ہی اپنے پاؤں کے پنجے پر وزن ڈال کر آگے کو جھک گیا ۔۔۔۔چوت گیلی ہوچکی تھی ۔۔اور لبوں پر پانی چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر دیکھااور پھر ہتھیار کے ٹوپے کو چوت کے لبوں پرر کھ دیا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چھپا لیا تھا ۔۔۔۔۔مین نے ٹوپے پر دباؤ بڑھایا ۔۔۔۔۔چوت بہت پھنسی ہوی اور تنگ تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ حرکت میں آیا تھا ۔۔۔اس نے چوت کے دانے کو مسلتے ہوئے مجھے اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔میں نے تیز پریشر دیتے ہوئے ٹوپے کو راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چیرا تھا اور اند ر جا پھنسا ۔۔۔۔سینیٹا کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔۔اس نے ہونٹوں کو آپس میں دباتے ہوئے مجھے دیکھا تھا ۔۔میں نے تھوڑا اور دباؤ بڑھایا ۔۔۔ہتھیار پھنسا ہوا اندر جانے لگا۔۔۔۔سینیٹا نے سانس روک لی تھی ۔۔اور آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔۔۔۔ ایک ہاتھ سینے پر آ کر مجھے روکنے کی کوشش میں تھا ۔۔اور دوسرا ہاتھ کی انگلیاں میری رانوں پر لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے منہ کے تاثرات عجیب سے تھے ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا ۔۔۔۔سنینٹا نے منہ اٹھاتے ہوئے سانس چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر نیچے دیکھنے لگی ۔۔جہاں آدھے ابھی کچھ حصہ ہی اندر گیا تھا ۔۔باقی باہر انتظار میں تھا ۔۔۔میں نے پھر دباؤ بڑھا یا اور آدھا ہتھیار اندر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔سینیٹا کے چہرے کے نقش کچھ اور تبدیل ہوئے تھے ۔۔ہونٹ کچھ اور بھنچے تھے ۔۔۔۔۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے روک سا دیا تھا۔۔۔میں نے واپس نکالتے ہوئے دوبارہ سے دھکا دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا کے چہرہ ایک دم اوپر کو اٹھا ۔۔۔چیخ نما سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ہتھیار کو اسی انداز میں رواں کر تا رہا ۔۔۔۔۔اور سینیٹا اسی طرح سسکاریاں بھرتی رہی ۔۔۔بار بار مجھے آہستہ ہونے کا کہتی رہی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگوں کو دائیں بائیں پھیلا دیا۔۔۔۔۔اور پھر تیز دھکے مارنے شروع کئے ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کی منہ سے بے اختیار کراہیں نکلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔میں نے تین چار دھکے اور مارے ہوں گے کہ اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔میں نے پھر بھی دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔مگر اس نے روک دیا ۔۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔سامنے ہی ہتھیار اس کے پانی سے چمک رہا تھا۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھے اور ہتھیار دونوں کوحیرت سے دیکھا ۔۔۔۔اور پھر تھامنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھوں میں آتا ہوا یہ ہتھیار ابھی بھی سخت اورتنا ہوا تھا۔۔۔ سینیٹا اسے منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔اور ناکامی پر چاروں طرف سے چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ٹائم کم تھا ۔۔۔کم از کم ایک گھنٹے پہلے ائیرپورٹ کی گاڑی آ جانی تھی اور ہمیں چیک ان کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ دیر سینیٹا کو ہتھیار چوسنے دیا ۔۔اور پھر گھوڑی بنادیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنے کے بل بیڈ پر تھی ۔۔۔۔میں نے پوزیشن لیتے ہوئے ٹوپے کو چوت پر ٹکا یا۔۔۔۔۔اور سینیٹا کے کمر کو تھامتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔ٹوپے پھر پھنستا ہوا گھسا تھا ۔۔۔۔۔چوت ابھی بھی اندر سے پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے پاؤں جماتے ہوئے دھکے دینے لگا ۔۔اور ساتھ ہی ہلکا ہلکا سا آگے ہونے لگا۔۔۔۔اب ہتھیار ہر جھٹکے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اندر جا رہا تھا۔۔۔ سینیٹا کے منہ سے کراہیں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔میں نے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔۔آدھے سے زیادہ ہتھیار اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔ اور اب دھکے کے ساتھ سینیٹا کی کمر بھی اوپر کو اچھلتی ۔۔۔۔۔۔اس کی سسکاری اور آہیں بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔میرا پہلے موقع تھا کہ کسی بلیک بیوٹی کی سسکاریاں سننے کا۔۔۔اور یہ سسکاریں ایسی تھی کہ میرا جوش اور بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔کبھی او مائی گوڈ ۔۔۔۔اور کبھی سریلی آواز میں ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ۔۔تھی ۔۔میں دھکے دیتا ہوا جھٹکوں پر آیا ۔۔۔۔۔گہرے اور پاور فل اسٹروک تھے ۔۔۔۔جو بیڈ کو بھی ہلا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور سینیٹا کو بھی آگے کھسکا رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کو چوت ابھی بھی پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔جو اس کی ٹانگوں پر نشان بناتا ہوا نیچے جا رہا تھا ۔۔۔۔سینیٹا اس پوزیشن میں تھکنے لگی تھی ۔۔میں پیچھے ہٹتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا ۔۔۔اور کھینچ کر اسے کنارے پر لے آیا ۔۔۔۔۔۔اس کی ٹانگوں کو ملا کر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔۔اور پھر ٹوپے کو نشانے پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔اس کی منہ سے پھر سسکاری نکلی ۔۔۔۔میں نے جھٹکے بڑھانے شروع کر دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا ابھی بھی آگے کو کھسکتی ۔۔اور میں اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا دیتا ۔۔۔۔۔اس کی اوہ ہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔جاری تھی ۔۔۔۔اگلے تین منٹ تک میں نے درمیانی اسپیڈ کے دھکے مارے تھے ۔۔۔۔اور اس نے پھر پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔اب کی بار میں رکا نہیں ۔۔۔نہ ہی اس کی چیخوں پر غور کیا۔۔۔۔دھکے مارتا ہوا اسے اوپر دھکیلنے لگا۔۔۔۔۔۔تھوڑی آگے دھکیلنے کے بعد اتنی جگہ بن گئی کہ میں خود بھی اوپر آ گیا ۔۔اس کی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر میں اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔میرے ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔نیچے بیڈ والا اسپرنگ تھا ۔۔۔میں اپنےپورے وزن کے ساتھ نیچے دھکا دیتا ۔۔۔۔اور سینیٹا بیڈ کے اسپرنگ پر دبتی ہوئی دوبارہ اچھل کر باہر آتی ۔۔اور اگلا دھکا پہلے سے زیادہ اسے اندر پہنچاتا ۔۔۔۔سینیٹا کی چیخیں اور بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اوہ مائی گوڈ ۔۔۔۔اوہ مائی گوڈ کی آوازیں تھی ۔۔۔۔میں رکے بغیر دھکے بڑھا تا ۔۔۔۔۔اسپیڈ درمیانی سے اور تیز ہوئی تھی ۔۔۔اسپرنگ بھی پوری قوت سے دبتے اور سینیٹا کو اچھالتے ۔۔۔۔۔۔بیڈ کی چوں چوں کے ساتھ سینیٹا کی ہائے ۔ہائے ۔۔۔کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جھٹکے اور تیز کیے تھے ۔۔۔۔میرا ٹائم بھی قریب تھا ۔۔۔۔دھکے اور طوفانی ہوتے گئے ۔۔۔سینیٹا کا چِلانا بڑھ چکا تھا ۔۔ ۔۔وہ انگلش بھول چکی تھی ۔۔اور اپنی زبان میں رکنے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے منہ سے غراہٹ نکلی ۔۔۔اس کا چلانا کچھ دیر کے لئے بند ہوا تھا۔۔۔۔مگر طوفانی دھکوں نے دوبارہ اس کا منہ کھول دیا۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اپنے آخری جھٹکے مارے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تیسری مرتبہ سینیٹا نے پانی چھوڑا ۔۔۔۔۔۔میری بھی آمد تھی ۔۔۔۔۔میں نے آخری جھٹکا مارتے ہوئے ہتھیار باہر نکال کر سینیٹا کےپیٹ پر رکھا ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر تھاما اور ہلانے لگی ۔۔۔۔پہلا فوارہ اس کے منہ پر گرا تھا ۔۔۔۔اور پھر اس کے ہلانے کےساتھ ساتھ پانی نکلتا رہا ۔۔۔۔اس کا پورا پیٹ پانی سے بھر چکا تھا ۔۔۔اور پانی دونوں طرف سے نیچے بہنے لگا۔۔۔۔۔وہ پھر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔میں اس کے برابر میں لیٹا اور سانس برابر کرنےلگا۔۔۔۔سینیٹا کچھ دیر منہ چومنے کے بعد اٹھی ۔۔۔اور شاور کے لئے چلی گئی ۔۔۔۔اس کے بعد میں بھی تیار ہونےلگا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم واپس جہاز میں آگئے تھے ۔۔سینیٹا اپنی سیٹ پر چلی گئی ۔۔اور نیپال میں مجھے سے ملنے کا وعدہ لے کر گئی ۔۔۔۔۔
میں بھی اپنے کیبن میں واپس آیا۔۔۔۔اورائیر ہوسٹس کو کچھ اور آڈر دینے لگا۔۔۔اس کے بعد مزید سوچ میں گم ہو گیا ۔آنےوالے حالات اور گزرے ہوئے واقعات ۔۔۔۔میرے خیالوں میں ثناء چلی آئی ۔۔۔اپنی اداس اور گیلی آنکھوں کے ساتھ یہی پیغام دے رہی تھی کہ جلد ی لوٹ آئیے گا۔۔۔۔۔انہیں سوچوں میں ایک گھنٹا مزید گزر گیا ۔۔۔ کہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلا ن ہونے لگا۔۔میں نے سیٹ بیلٹ باندھ لی اور انتظار کرنے لگا۔۔جلد ہی میں کھٹمنڈو ائیرپورٹ کےارائیول ہال سے نکل رہا تھا ۔۔سامنےہی بہت سے لوگ کارڈ اٹھائے ہوئے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔ایک میں میرا نام بھی تھا ۔۔میں اسی طرف بڑھ گیا ۔۔۔یہ کوئی ڈرائیور تھا ۔۔میرے آگے جھکتا ہوا مجھے لے کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔کار کےساتھ ہی ایک خاتون میرا انتظار کر رہی تھیں ۔۔اپنے ہاتھ جوڑتی ہوئی وہ تھوڑی سی جھکی تھی ۔۔ویلکم ٹو نیپال۔۔۔۔ہلکی نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے۔قدرے بھرے ہوئے جسم کی مالک۔۔۔ماتھے پر ٹیکہ لگائے ہوئے اس خاتون کا ۔۔۔مینا کماری نام تھا ۔۔۔سانولے گول چہرے پر سیاہ بڑی سی آنکھیں ۔۔۔۔میں بھی اپنا نام بتاتے ہوئے قدرے جھک گیا۔۔۔میرے دراز قد کے مقابل میرے کندھے تک آ رہی تھی ۔۔۔اچھی لہجے کی انگلش بولتی ہوئی کہنے لگی ۔چلیں پروفیسر صاحب ۔۔۔میں کار میں بیٹھنے لگا تو میں نے سینیٹا کو دیکھا اسے بھی کوئی ریسیو کرنے آیا ہوا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر مینا کماری یہاں کی ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن میں تھیں اور اس کانفرنس کو منعقد کروانے میں ان کی کافی کوشش تھی ۔۔۔ہم دونوں کار کے پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور ڈرائیور نے اگلی سیٹ سمبھال لی ۔۔مینا کماری میرے قریب ہی بیٹھی تھی اور میں با آسانی اس کے پرفیوم کی مہک محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
پروفیسرصاحب سفر کیسا گذرا آپ ۔۔۔مینا کماری مجھ سے پوچھنے لگی ۔۔
اچھا سفر گذرا ،سفر میں کانفرنس کے بھی کچھ ڈاکٹرز مل گئے تھے ۔۔۔۔میں نے بتایا ۔۔۔
پروفیسر صاحب کانفرنس کے لئے تمام افراد کو فائیو اسٹار ہوٹل میں روم دئے گئے ہیں ۔۔۔آج شام سے کانفرنس کا پہلا دن شروع ہے ۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ خصوصی مہمانوں کے لئے میزبانی ہم نے خود رکھی ہے ۔۔۔اور آپ بھی انہیں میں سے ایک ہیں ۔۔تو آپ چاہیں تو میرے ہاں بھی رک سکتے ہیں ، اور کانفرنس کے بعد یہاں کی سیر بھی کروانا میری ذمہ داری ہو گی ۔۔
مینا کماری نے مجھے پورا پروگرام بتا دیا ۔۔۔
مس مینا میں بھی زیادہ بھیڑ بھاڑ پسند نہیں کرتا ۔۔۔اس لئے میرا خیال ہے ہے کہ آپ کا گھر بہتر رہے گا۔۔۔۔میں نے بھی اپنا اراداہ بتا دیا ۔۔۔
مینا کماری نے ڈرائیور کو گھر جانے کا کہا ۔۔راستے میں مینا کماری وہاں کی مشہور عمارتوں اور روڈ کا تعارف کروانےلگی ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔جلد ہی ہم مینا کماری کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔پوش علاقے میں یہ گھر بڑی خوبصورتی سے بنا ہوا تھا ۔۔جلد ہی اندر داخل ہو کر مینا کماری نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اندر کی طرف چلی ۔۔مشروب کی تواضع کے ساتھ ہی اس نے سوال جواب کاسلسلہ شروع کردیا ۔۔۔میں بھی سوال پوچھتا رہا ۔۔مینا کماری کے شوہر کا کئی سال پہلےایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا ۔۔اور اب ایک لڑکا اور لڑکی کے ساتھ رہتی تھی ۔۔دونوںکالج اسٹوڈنٹ تھے اور ابھی بھی وہیں تھے ۔۔۔مشروب کے ختم ہوتےہی مینا کماری اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی پروفیسر جان مجھے واپس انسٹیوٹ جانا ہے ۔۔شام میں آپ سے ملاقات ہو گی ۔۔۔ابھی کچھ دیر میں وجے اور انجلی آ جائیں گے ۔۔وہ آپ کو کمپنی دیں گے ۔۔میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے بچوں کی بات کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اٹھتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔
میں اپنے روم میں جا کر سو گیا تھا ۔۔۔اور شام کو ہی میری آنکھ کھلی تھی ۔۔۔روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک17 سال کے آس پاس ایک لڑکا کھڑا تھا ۔۔مجھے سے گرم جوشی سے ہیلو ہائے کی اورکہنے لگا کہ مما بلا رہی ہیں آپ کو ۔۔۔۔میں فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں رات کا کھانا لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں نے انجلی کو بھی دیکھ لیا تھا ۔۔وہ اپنی ماں کی کاپی تھی ۔۔۔بس جسامت کا فرق تھا ۔۔باقی وہی نقش تھے ۔۔۔۔وہ بھی میری طرف بڑھی اور ہاتھ ملاتے ہوئے ہیلو ہائے کرنے لگی ۔۔میں جواب دیتے ہوئے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھرکھانےکے ساتھ ہی انجلی اور وجے کے آپس میں شوخی اور چھیڑ چھاڑ شروع تھی ۔۔۔۔۔دونوں میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ تھی ۔۔۔۔کھانے کے بعد دونوں میرے دائیں بائیں آ بیٹھے اور پھر سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔۔۔وہ بے تکلفی سے مجھے انکل کہہ رہے تھے اور میں بھی مسکر ا رہا تھا ۔۔اگر میک اپ ہٹا دیا جائے تو ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔۔۔
مگر ابھی میں ان کا انکل بنا ہوا تھا ۔۔۔۔انجلی بے فکر ی سے مجھ سے چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور وجے بھی ساتھ لگا ہواتھا ۔۔میری شادی اور بچوں کی فکر ان دونوں کو زیادہ تھی ۔۔میں نے خود کو کنواراہ بتا یا تھا ۔۔۔
انکل آپ اتنے ہینڈ سم ہیں پھر بھی شادی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔انجلی چہکی تھی ۔۔۔۔
بس ریسرچ اور کام میں اتنا مصروف ہوتا ہوں کہ اس طرف خیال ہی نہیں آیا ۔۔میں نے جواب دیا ۔۔
انجلی میرے اور قریب آئی تھی ۔۔۔ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئے وہ میری بازو پکڑے ہوئے بیٹھی ہوئی ۔۔وجے اس سے ایک سال چھوٹا تھا ۔۔۔
میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر مینا کماری نے مجھے آ کر اس امتحان سے نکالا ۔۔۔۔۔چلو جاؤ آرام کرو ۔۔صبح کالج جانا ہے تمہارے انکل تین دن یہیں ہیں ۔۔۔باقی کل پوچھتے رہنا ۔۔۔
انہوں نے آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے سیاہ آنکھوں سے مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔
نہیں ۔۔!۔۔آپ کے بچے بہت اچھے ہیں ۔۔ہنستے مسکراتے اور ایکدوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ۔۔۔انجلی اور وجے اپنی ماما کو منہ چڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئے ۔۔۔
چلیں آپ باہر چلتے ہیں ۔۔۔مینا کماری خاصی رنگ ڈھنگ سے تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔بلیک کلر کی ساڑھی پر گولڈن کناری تھی ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑی سی جیولری نے اسے سجا دیا تھا۔۔تھوڑی سی لمبے قد کے ساتھ۔۔۔تنگ بلاؤز نے کلیویج کو ظاہر کر دیا تھا۔۔۔سانولی رنگت کےساتھ بھرا ہوا جسم ۔۔۔اور سامنے کو بڑے سے ابھار۔۔پیٹ نہ ہونے کے برابر ۔۔۔اور پیچھے کی طرف لپٹی ہوئی ساڑھی اسے اور پرکشش بنا رہی تھی ۔وہ اپنی عمر سے بہت کمر نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے اس کا بھرپور جائزہ لیا اورآگے چلنےکا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
مینا کماری مجھے اپنے ساتھ باہر لے آئی ۔۔۔۔گیراج سے کار نکال کر ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بٹھا دیا ۔۔رات سر پر آ چکی تھی ۔۔۔۔۔نیپال کا یہ دارالحکومت کافی سجا ہوا تھا ۔۔۔اور شام کے وقت جگمگا کر منور ہو رہاتھا ۔۔۔..۔۔مینا کماری مجھے گائیڈ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔پہلے ہم پشوپتی ناتھ مندر پہنچے ۔۔۔یہ باگمتی دریا کے کنارے پر ہے۔۔۔اور یہاں کے سے پرانے مندر میں شمار ہوتا ہے۔۔۔مینا کماری مجھے بڑے شوق سے یہاں کی ہر چیز کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔باگمتی دریا کے ایک طرف کھٹمنڈو شہر اور دوسری طرف پتن شہر تھا۔۔۔۔یہ دریا ہمالین دریاؤں میں شمار ہو تا تھا ۔۔۔اور یہاں سے گذرتا ہوا انڈیا میں داخل ہوتا ہے ۔۔۔۔ہم کافی دیر تک دریا کے کنارے گھومتے رہے ۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس پر گارڈن آف ڈریم پہنچے جو دس منٹ کے فاصلے پر ہی تھا ۔۔۔مینا کماری کی کمینٹری جاری تھی ۔۔۔۔یہاں کچھ ٹائم گزار کر ہم ہاؤس آف میوزک پہنچے تھے ۔۔۔۔۔آدھی رات ہونےوالی تھی ۔۔۔۔مگر یہاں اس کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔یہاں میں نے غیر ملکی بھی دیکھے جو خاص طور پر یہاں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔اندر پہنچتے ہی میں روشنیوں میں گم ہو گیا ۔۔۔۔ایک طرف لائیو میوزک ہو رہا تھا ۔۔۔جبکہ سامنے کی طرف بار بنا ہواتھا ۔۔۔
اور سامنے ہی کافی لوگ میوزک کے دھنوں پر رقص کر رہے تھے ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تو بیٹھا مگر مینا کماری نے مجھے جلد ہی گھسیٹ لیا ۔۔میرے ساتھ وہ بھی اپنے قدم تھرکا رہی تھی ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں مجھ پر گڑی باتیں کر رہی تھی ۔۔میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔۔کئی بار وہ گھومتی ہوئی میرے سینے لگتی تو میرے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ۔۔۔۔میں نے بھی اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ دو چار اسٹیپ کرنے کے بعد ہم ٹیبل پر جا بیٹھے ۔۔یہاں فاسٹ فوڈ کا زبردست انتظام تھا ۔۔۔۔میں نے محسوس کیا تھا کہ مینا کماری بھی میرے ساتھ کافی انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔اسے بھی کافی ٹائم کے بعد ان سب کا وقت ملاتھا ۔۔۔اس کے بعد مینا کماری بار کی طرف گئی اور ڈرنک اٹھا لائی ۔۔۔۔۔۔میں نے بچنے کی بڑی کوشش کی تھی ۔۔مگر مینا کماری بضد تھی ۔۔۔جوزف اور عمران صاحب نے اس معاملے میں بھی مجھے کافی ٹرین کیا تھا ۔۔۔میں نے مینا کماری کا ساتھ دینے کی کوشش کی ۔۔مگر وہ ایک کے بعد ایک چڑھانے لگی ۔۔۔ٹائم زیادہ ہو چکا تھا ۔۔۔اور بار بھی خالی ہونے لگا تھا ۔۔۔میں نے اسے اٹھنے کا کہا اور باہر آگئے ۔۔۔کار تھوڑی دور پارکنگ لاٹ میں تھی ۔۔ہم کار کے طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔مینا کے قد م ہلکے ہلکے سے بہک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں ساتھ سہار ا دیتا ہوا پارکنگ کی طرف چلنے لگا۔۔۔مینا کماری کے بدن کی نرمی مجھ پر اثر انداز ہو رہی تھی ۔۔۔۔سنسنی کی لہر دوڑنے لگی تھی ۔اس کی ساڑھی کا پلو بار بار ڈھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔میں بار بار اس کی ساڑھی کا پلو سمبھال کر اسے ڈھانپتا ۔۔۔مگر وہ بار بار گرتا ۔۔۔اور اس کی گہری کلیویج ظاہر ہوتی ۔۔۔۔۔اسی طرح ہم پارکنگ کے پاس پہنچے ۔۔۔۔۔کار کے قریب پہنچے تو مینا کماری کی آواز آئی ۔۔۔۔۔میرا پرس اندر رہ گیا ہے ۔۔۔۔میں نے کوفت ذدہ انداز میں اسے دیکھا اور کار میں بیٹھنے کا اشارہ کرکے تیز قدموں سے اندر چل پڑا ۔۔۔۔۔۔پرس اسی سیٹ پر رکھا تھا ۔۔۔۔میں پرس لے کر واپس پہنچا تو عجیب منظر سامنے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی کار کے سامنے پانچ سے چھ بائک دیکھیں تھی ۔۔جو ایک دائر ے میں گھوم رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔جبکہ ان سب کےدرمیاں میناکماری ڈری سہمی ہوئی کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وہ لوگ ہوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔اور قریب گھومتے ہوئے ساڑھی کھینچنے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔میں نے پرس کار کے اندر پھینکا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے انگڑائی لی ۔۔۔اور پھر بائک کے درمیان سے ہوتا ہوامینا کے پاس پہنچا تھا ۔۔وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی ۔۔بائک والے میری طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔بائک رک چکی تھی ۔۔۔۔اور اب لائٹ آن کئے وہ اترنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔مجھے وہ کوئی بوڑھا غیر ملکی سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔اور اسی غلط فہمی میں ایک آدمی چاقو لے کر قریب آیا تھا ۔۔۔شاید ڈرا کر بھگانا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ میں چاقو گھماتے ہوئے سامنے آ کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔میرے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔۔۔اور پھر وہ طیش میں آ کر میری طرف جھپٹا۔۔۔پیٹ کی طرف آتے ہوئے چاقو کو میں نے تھوڑی دور روکا تھا ۔۔۔اور ہاتھ کوپکڑکر مڑتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔اس کا ہاتھ میرے کندھے سے ایسے گذر ا تھا کہ کہنی میرے کندھے کے عین اوپر تھی ۔۔۔۔اور پھر ایک آواز آئی تھی ۔کہنی کا جوڑ ڈس لوکیٹ ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ کو نیچے جھٹکا دیا تھا ۔۔۔چاقو میرے سامنے ہی گرا تھا ۔۔۔اور کہنی کی طرف سے ہاتھ دوسری طرف مڑ گیا تھا ۔۔۔میں واپس اٹھتا ہوا سیدھا ہوا اور فرنٹ کک سے دور اچھا ل دیا ۔۔۔۔میں نے چاقو کو پاؤں مارتے ہوئے دور پھینک دیا ۔۔۔۔اب کی بار دو سورماؤں نے ہمت کی تھی ۔۔ایک سامنے سے آیا اور دوسرا پیچھے سے آنے لگا۔۔میں مطمئن انداز سے کھڑا ان کی حرکت دیکھ رہا تھا ۔۔سائیڈ پر کھڑی مینا بھی حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔اس کا نشہ اتر چکا تھا ۔۔۔سامنے والا مجھے سے دو قدم کے فاصلے پر پہنچا تو میں نے ایک نظر پیچھے ڈالی ۔۔۔دوسرا بھی اتنا ہی نزدیک تھا۔۔۔۔سامنے والا نے جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھا یا تھا ۔۔اور پھر بجلی سی کوندی ۔۔۔میں آگے کو جھپٹا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھوں آگے کی طرف مکے کے انداز میں تھے ۔۔۔۔اس نے چہرے کے سامنے ہاتھ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔مگر یہ صرف ڈاج تھا ۔۔میرا نشانہ اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔۔۔وہ چیخ مار کر بیٹھا تھا ۔۔۔میرےبڑھے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر جا رکے تھے ۔۔۔۔اور پھراس کے کندھے پر زور ڈالتے ہوئے اپنے پاؤں پیچھے اچھالے تھے۔۔۔۔پیچھے والا مجھے دبوچنے کے لئے لپکا تھا ۔۔۔مگر دونوں ٹانگوں کی چہرے پر پڑنے والی ٹھوکر اسے الٹا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ناک لہولہان تھی ۔۔وہ لوٹ پوٹ ہونے لگا ۔۔باقی دو ہی بچے تھے ۔۔مگر ان میں ہمت نہیں تھی ۔۔وہ بائک پر واپس جا بیٹھے تھے ۔۔اچانک سے شروع ہونے والی لڑائی دو منٹ سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
میں نے حیران پریشان مینا کماری کا ہاتھ تھاما اور کار کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر تیز رفتاری سے واپس پہنچا ۔۔۔راستہ مجھے یاد ہی تھا ۔۔بس ایک جگہ مینا کماری کو بتانا پڑا تھا ۔۔۔گیراج میں کار کھڑی کر کے ہم اندر آئے تھے ۔۔۔۔مینا کماری ابھی بھی شاک میں ہی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر وہ باہر گئی تھی ۔۔۔واپس پر اس کے ہاتھ میں چائے تھی ۔۔۔۔۔وہ میرے بیڈ پر ہی بیٹھی تھی ۔۔۔اور حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔۔پروفیسر صاحب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا ۔۔اتنی پھرتی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔آپ تو بالکل جوان آدمی لگ رہے تھے ۔
بس سب اچانک سے ہو گیا ۔۔مجھے بھی سمجھ نہیں آیا ۔۔۔۔میں نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی ۔
وہ لوگ جرائم پیشہ تھے ۔۔۔اتنی آسانی سے آپ کیسے انہیں بھگا سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔مینا کماری پھر پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں نے اسے مطمئن کیا کہ میں کچھ عرصے سیلف ڈیفنس سیکھتا رہا تھا ۔۔۔بس وہی کام آیا ہے ۔۔۔۔۔
میں نے چائے پی کر ساتھ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔۔اور مینا کماری کو دیکھا ۔۔۔جس کی آنکھوں میں چمک کے ساتھ امید بھی تھی ۔۔۔۔وہ میرے قرب کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کہنے سے ہچکچا بھی رہی تھی ۔۔میں کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر خود پر گھسیٹ لیا ۔۔۔۔نرم گرم جسم میرے ہاتھ سے کھنچتا ہوا مجھ پر آیا تھا ۔۔۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری نے میرے چہرے پر بوسوں کی بارش کر دی ۔۔۔۔۔۔۔اس کے بوسوں میں غضب کی گرمی اورشدت تھی ۔۔۔۔کچھ دیر تو میں رک سا گیا ۔۔۔۔وہ اپنا زور مارنے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی کمر پر رکھ دیے ۔۔۔اور اٹھاتے ہوئے بالکل اپنے اوپر لے آیا ۔۔۔۔میرے پورے جسم میں بجلی سی کوند گئی ۔۔۔مینا کماری کےجسم کے لمس نے مجھے چونکا دیا تھا۔۔۔سینے کے بڑے سے ابھار میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔ساڑھی کا پلو کہیں دور رہ گیا تھا ۔۔۔اور سینے کے دودھ بلاؤز سے باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔۔۔۔میں نے اپنے اور لیٹی مینا کماری کے گرد ٹانگیں لپیٹ دی اور جوابی بوسے دینے لگا۔۔۔۔۔سیاہ ریشمی بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔جن سے کوکونٹ جیسی سمیل نکل کر میرے نتھنوں میں گھس رہی تھی ۔۔۔مینا کماری کے بوسوں میں برسوں کی پیاس تھی ۔۔۔۔۔جھکی جھکی آنکھوں کے ساتھ وہ بوسوں میں مصروف تھی ۔۔۔اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں بھی جوا بی بوسے سے اس کی ہمت بڑھا تا ۔۔۔میرا چہرہ گیلا ہونا شروع ہو چکا تھا ۔۔میں نے کروٹ لی اور مینا کماری کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔نیچے دلکش نظارہ تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے آدھے سے زیادہ ممے بلاؤز باہر آئے ہوئے تھے ۔۔اور اپنے پورے سائز کا اندازہ کر وا رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بلاؤز رکھتے ہوئےچہرے پر جھک گیا ۔۔اور ہونٹوں کو چومتے ہوئے کھینچنے لگا۔۔۔۔مینا کماری کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔۔۔۔میں نے جواب دیتے ہوئے اس سے زیادہ شدت کا مظاہر ہ کیا تھا ۔۔۔اس کے منہ کو چومتے ہوئے میں نیچے آیا ۔۔۔آدھے باہر نکلے ہوئے ممے سامنے تھے ۔۔ان کے اوپر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔بے تحاشہ گرم تھے ۔۔۔میں ہونٹوں کو جگہ جگہ رکھتے ہوئے نشان بناتا گیا ۔۔۔مینا کماری کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔سینے کی دھڑکن تیز ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لیتے ہوئے اس کی سائیڈ پر آیا ۔۔اور اسے کھینچتے ہوئے خود پر گھسیٹ لیا ۔۔دونوں ہاتھ کمر پر لے گیا ۔۔جہاں بلاؤز کی ڈوری میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔ڈوریاں کھینچنے کے بعد کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے لے جانے لگا۔۔۔جہاں بڑے سے چوتڑ لہنگے میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔میں نے اوپر ہتھیلی رکھتے ہوئے زور دے دبایا ۔۔۔مینا کماری سسکی بھرتی ہوئی میرے ہونٹ چومنے لگی ۔۔۔میں کچھ دیر چوتڑ اوپر سے دباتا رہا ۔۔۔۔اور پھر۔۔لہنگے کے اندر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔گرم گوشت سے بھرے ہوئے گول چوتڑمیرے ہاتھ کے نیچے تھے ۔۔میں ہلکی پکڑ کے ساتھ دباؤ دینے لگا۔۔۔۔اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر کو آتا اور چوتڑ وں کو بھینچ کر دبانے لگتا۔۔۔۔۔مینا کماری کے گیلے گیلے بوسے ابھی بھی جاری تھے ۔۔۔۔جن کے درمیان سے گرم گرم سسکی بھی نکل جاتی ۔۔بلاؤز کی ڈوریاں کھلنے کے بعد وہ آہستگی سے اترتا جا رہا تھا ۔۔اور دو چار بار میرے سینے پرمیناکماری کے رگڑ کھانے کے بعد اب وہی رہ گیا تھا ۔۔گول مٹول سے ممے سامنے تھے ۔۔۔اور نپلز ۔۔۔۔میرے آج تک دیکھے گئے نپلز میں سب سے زیادہ لمبے تھے ۔۔۔۔ہلکے براؤن کلر کے نپلز پوری لمبائی کے ساتھ اکڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے مینا کماری کے لہنگے کو نیچے کی طرف کھسکا دیا ۔۔۔۔اور جہاں تک ہاتھ جاتا نیچے لیتا گیا ۔۔۔اور پھر کروٹ لیتے ہوئے اس نیچے لٹا کر اس کے اوپر آیا ۔۔۔۔بھاری بھرکم ممے مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے اس کے دائیں بائیں گھٹنے رکھتے ہوئے اس کے اوپر سوار ہوا۔۔۔اور جھک کر مموں اپنے منہ میں بھرنے لگا۔۔۔یہ بڑے سے ممے منہ میں آنے سے قاصر تھے ۔۔۔پھر بھی میں کوشش کرتا رہا ۔۔۔اور نپلز کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نپلز لمبے تھے ۔۔اور میرا انداز بھی بے صبرا تھا ۔۔نتیجہ چس چس۔۔ کی آواز کی صورت میں نکلا تھا ۔۔۔۔میں دونوں نپلز کو باری باری چوستا۔۔۔میناکماری پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھے جاتی اور سر پر ہاتھ پھیرتی ۔۔۔۔میں پورے ممے کو دبوچ کر منہ میں پہنچاتا اورہونٹوں سے اندر پہنچانے کی کوشش کرتا۔۔۔مگر نپلز ہی آخر میں رہ جاتے جو ہونٹوں میں دبے رہتے ۔۔۔۔۔ممے آہستہ آہستہ گیلے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔تبھی مینا کماری نے ہاتھ بڑھا کرمیری شرٹ اتارنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔میں سیدھا ہو گیا ۔۔اورااس نے ایک ایک کر بٹن کھولے ۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں نے سائیڈ پر پھینکی تھی ۔۔۔۔میرا کشادہ سینا دیکھ کر مینا کماری کے آنکھوں میں حیرانی آئی تھی ۔۔۔اس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے سختی کا اندازہ لگا لیا تھا ۔۔۔اب وہ میری پینٹ کے بٹن کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔بٹن کھولنے کے بعد میں سائیڈ پر آگیا ۔۔۔۔۔اور پہلے اس کا کہ لہنگا اور پینٹی مکمل طور پر اتاری ۔۔اور پھر خود کی پینٹ اور انڈروئیر بھی اتار دیا ۔۔۔اور ساتھ ہی مینا کماری کو خود سے لپٹا لیا ۔۔۔ہم دونوں مکمل ننگے ہو چکےتھے ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں مل رہے تھے ۔۔۔۔میں کروٹیں بدلتا ہوا گھومتا جا رہا تھا ۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے بھی پکار دے دی تھی ۔۔۔۔۔وہ سخت اور لمبائی میں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور مینا کماری کی چوت سے ٹچ ہوتا ہوا پیچھے کو نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی کروٹ بدلتا رہا ۔۔۔۔ہم دونوں کے بدن ایکدوسرے سے ٹکرا کر عجیب سی لذ ت محسوس کر رہے تھے ۔۔۔۔اس کی ٹانگیں آپس میں جڑتی ہوئی میرے ہتھیار کو دبوچنے کی کوشش کرنے لگتی ۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے بیڈ کے درمیان آ گیا۔۔۔اور اٹھتے ہوئے اس کی چوت کو دیکھا ۔۔۔پانی باہر چمک رہا تھا ۔۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینےسے لگائی تھی ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کی ٹانگوں کی گرفت نے ہتھیار کی چوڑائی بھانپ لی تھی ۔۔۔۔۔تبھی اس نے ہلکے سے کہا کہ پلیز اسٹارٹ سلو ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے اوپر رگڑتے ہوئے مینا کماری کو دیکھا تھا ۔۔وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے زور دیتے ہوئے ٹوپے کودھکا دیا ۔۔۔چوت کے لبوں کے درمیان سے ٹوپا اوپر کو سلپ ہوا تھا ۔۔۔۔۔چوت کافی تنگ تھی ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ٹوپے کو چوت پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔میرا دوسرا ہاتھ چوت کے اوپری حصے کا تیزی سے مساج کر رہا تھا ۔۔چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جاپھنسا ۔۔۔۔۔مینا کے منہ سے ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔اوئی ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا دباؤ اور بڑھایا اور ٹوپے کے ساتھ دو انچ اندر ہو گیا ۔۔۔۔ہتھیار کی چوڑائی کے مطابق چوت جتنی دائیں بائیں سے پھنسی ہوئی تھی ۔۔اتنی ہی موٹائی نے بھی اوپر اور نیچے کی طرف زور ڈالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔سس ۔۔۔آہ۔۔۔سس۔۔میں نے دوبارہ دباؤ بڑھا اور آدھےہتھیار کو اندر پہنچا دیا ۔۔۔۔مینا کماری ایکدم سی چیخی تھی ۔۔۔۔۔۔اور مجھے رکنے کا کہا تھا۔۔۔اس نے سر اٹھا کر ہتھیار دیکھا جو ابھی بھی آدھا باہر تھا۔۔۔۔اور جڑ کے قریب کی موٹائی اس سے بھی زیادہ تھی ۔۔۔۔میناکماری نے اپنے ہونٹ پر زبان پھیری اور سر نیچے رکھ دیا۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ہلنا شرو ع کر دیا ۔۔۔باہر نکال کر دوبارہ اندر کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت تحاشا پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔میں آدھے ہتھیار کو ہی آگے پیچھے دھکیلنے لگا ۔۔۔میناکماری کی کراہیں ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔آنکھیں بند کئے ہوئے اس کے ہونٹ اب بھی سس۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔کی دلکش آوازیں نکال رہے تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی ہلکے دھکے دیتا رہا ۔۔۔مینا کے ممے بھی باؤنس ہونے میں دیر نہیں لگا رہے تھے ۔۔دھکوں کے ساتھ ردھم میں تھے ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگوں کے درمیان سے اٹھتے ہوئے آگے کو جھکنے لگاتھا ۔اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اور اوپر سینے سے لگا دیا ۔۔اس طرح اس کو چوتڑ بھی بیڈ سے اوپراٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔اور اب جھٹکے پیچھے سے آگے نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف لگ رہے تھے ۔۔میں ہاتھ اس کے دائیں بائیں رکھ کر گہرے اسٹروک مار رہا تھا ۔۔۔۔۔اور انہیں جھٹکوںمیں ہتھیار نے مزید اندر گھس کر تباہی مچائی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اس وقت پتا چلا جب مینا کماری تیز آواز میں چیخی۔۔۔آہ۔۔۔اوئی بھگوان۔۔۔۔۔آہ۔۔مرگئی ۔۔۔۔میں تھوڑا رک کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔وہ کچھ شانت ہوئی تو دوبارہ سے سواری شروع کی ۔۔۔اگلے دو منٹ میں اس نے ہار مان لی تھی ۔۔۔اور پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔میں نے دو چار جھٹکے اور مار ے ۔۔پھر اس نے مجھے روک دیا ۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لئے لیٹا تھا ۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک ویسے ہی تنا ہو اتھا۔۔۔۔۔۔مینا کماری اٹھتی ہوئی میرے اوپر آئی ۔۔۔اورہتھیار کو آگے کرتی ہوئی میری ٹانگوں پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔میرے چہرے کو چومنے کے بعد نیچے متوجہ ہوئی جہاں ہتھیار اس کے مموں سے ٹکرا رہا تھا۔۔۔۔ایک طرف نرم گول ممے تھے ۔۔۔دوسری طرف سختی سے تنا ہوا ایک مضبوط راڈ تھا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے اسے اپنے مموں کے درمیاں دبانے کی کوشش کی ۔۔۔اور مموں کو اس پر اوپر نیچے حرکت کرنے لگی ۔۔۔میں دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے اس دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر ایسے کرنے کے بعد اس نےہتھیار کو چاٹا تھا ۔۔چاروں طرف سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد وہ اٹھی ۔۔اور ہتھیار کی سیدھ میں آتے ہوئے بیٹھنے لگی ۔۔۔۔دونوں پیر میرے دائیں بائیں جمے ہوئےتھے ۔۔اور وہ آہستگی سے بیٹھتی ہوئی نیچے آنے لگی ۔۔۔۔میں نے بھی پیر بیڈ پر رکھ کر گھٹنے اٹھا دیئے تھے ۔۔۔۔۔وہ ٹوپے کی نوک پر آ کر تھوڑی رکی اور پھر بیٹھی ۔۔۔ٹوپے بغیر رکاوٹ کے اندر گھسا تھا ۔۔۔۔مینا کماری کے چہرے کے نقش تبدیل ہوئے تھے ۔۔۔اس کے ایک ہاتھ ہتھیار کی شافٹ پر تھا ۔۔۔جسے آہستہ آہستہ وہ نیچے لے جاتی ہوئی ہتھیار کو اندر لے رہی تھی ۔۔۔میں سکون سے لیٹا اس کی حرکت دیکھ رہاتھا۔۔۔۔آدھے ہتھیار لینے کے بعد اس نے گہرا سانس لیا ۔۔۔مجھے دیکھا اور اٹھتی ہوئی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ہلنے کے بعد آگے کو آئی میرے پیٹ پر بیٹھتی ہوئی آگے کو جھکی تھی ۔۔۔۔پیچھے سے اس کے چوتڑ فل گولائی میں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میرے منہ کو چومتی ہوئی کہنی میرے دائی بائیں ٹکائی تھی ۔۔نرم اور گرم ممے میرے سینے سے ٹکرائے ۔۔۔۔اور پھر صرف اپنی کمر کو حرکت دینےلگی ۔۔۔۔گھٹنے اس نے پہلے ہی بیڈ پر ٹکا دیے تھے ۔۔۔۔۔پیچھے اس کی صحت مند رانیں اور چوتڑ آہستگی سے اوپر نیچے ہو نے لگے ۔۔۔اور گول مٹول سے ممے سینے پر دبنے لگے تھے ۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری کے نرم ہونٹ میرے ہونٹ سےٹکرا نے لگے ۔۔میں نے اس کے چوتڑ پر ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے بیٹھنے میں مدد کرنے لگا۔۔اس کی نرم نرم اور گیلی سسکاریاں میرے منہ پر چھوٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے پیر جما کر کمر کو اچھالا تھا ۔۔۔ہتھیار اپنی پور ی طاقت سے اندر گھسا تھا ۔۔۔مینا کماری پھر سے چیخی ۔۔۔اور مجھ پر ڈھے گئی ۔۔۔اس کے بعد میں دھکے پر دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔وہ میرے اوپر اچھلتی رہی ۔۔۔وہ اٹھ کر کھڑی سی ہونے لگی تھی ۔۔میں نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود سے چمٹا دیا۔۔نیچے سے دھکے ویسی تیزی سے جاری تھے ۔۔۔۔۔میناکماری کی سسکاری اور آہیں پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹ کو چومنے کی کوشش کی ۔۔مینا کماری یہ دیکھ کر جھکی اور ہونٹ کو تیزی سے چوسنے لگی ۔۔۔۔اس کے چوسنا کاٹنے کے برابر تھا۔۔۔۔میرے چہرے پر گیلا پن بڑھتا جار ہا تھا ۔۔جو اسی کے تھوک کا تھا ۔۔۔۔۔ہونٹ چومنے کے ساتھ وہ پورے چہرے کو بھی چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔میرا دھکے تیز ہوئے ۔۔۔اس کی آہ ۔۔۔او ہ۔۔۔۔اف۔۔۔سس ۔۔بھی بڑھنے لگی ۔۔۔نیچے سے بیڈ کی دھپ دھپ بھی جاری تھی ۔۔پورا ہتھیار اس کے اندر سمایا ہوا تھا ۔۔۔آدھے کے قریب باہر آتا اور پھر بجلی کی تیزی سے اندر لپکتا ۔۔۔۔۔میں نے اگلے تین چار منٹ تیز دھکے مارے تھے ۔۔۔۔مینا کماری کے کس بل ڈھیلے ہو گئے تھے ۔۔میں نے اپنا بازو کھولا تو وہ میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر سیدھی ہوئی ۔۔۔ممے قید سے چھوڑ کر تیزی سے اوپر نیچے اچھلے ۔۔۔میں نے آہستہ سے اسپیڈ کم کرتے ہوئے رک گیا ۔۔۔۔بیڈ کے درمیان تین چار تکیے رکھتے ہوئے اسے اوندھا لٹا دیا ۔۔تکئے اس کے پیٹ اور چوت کی طرف تھے ۔۔۔اور اسے کافی اونچا اٹھا دیا تھا ۔۔اس کی ٹانگیں جڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور گول مٹول چوتڑ آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔سر اور اگلا حصہ نیچے بیڈ پر تھے ۔۔میں پیچھے سے آیا تھا ۔۔کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ٹوپے کو اندر بھیجا ۔۔۔۔چوت پر ٹکنے کے بعد دھکا پڑا تھا ۔۔۔مینا کماری کا جسم آگے کو لپکا تھا ۔۔میں نے سمبھال کر واپس کھینچا اور دوسرا دھکے نے ہتھیار کو پورا اندر پہنچا دیا ۔۔۔میناکماری چلائی تھی ۔۔۔آہ ۔۔۔آئی۔۔۔۔سس۔۔۔میں نے ان سنی کرتے ہوئے تھے جھٹکے تیز کر دیئے ۔۔۔میرا ٹوکن ٹائم شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔جھٹکے تیز ہوئے تھے ۔۔۔اور پھر اور تیز ۔۔۔مینا کماری اوندھی ہوئی کراہتی اور سسکیاں لیتی رہی تھی ۔۔کمرے میں میری دھپ دھپ کے ساتھ اس کی آہ۔۔اوہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔گونج رہی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے اورتیز ہوئے تھے ۔۔۔۔اور اگلی اسپیڈ طوفانی تھی۔۔۔مینا کماری کا پورا جسم لرزنے لگا تھا ۔۔سر سے لے کر پیر تک جسم کی ہر چیز حرکت میں آگئی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر میری غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔ہتھیار اور اسپیڈ پکڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔سسکیاں اور آہیں اور تیز گونجنے لگی ۔۔۔۔مینا کماری پھر سے چھوٹنے والی تھی ۔۔۔اور پھر ایک تیز غراہٹ کیساتھ میرا فوارہ چھوٹا تھا۔۔۔۔جو سیدھا اس کی چوت میں بھاگتا گیا ۔۔اور واپس مینا کماری کے پانی کے ساتھ آیا ۔۔۔۔۔اس کی چوت میں پانی کاطوفان بھرنے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے اگلے جھٹکوں میں پانی کا آخری قطرہ بھی اندر ہی نکالا ۔۔۔مینا کماری گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔میں کروٹ لے کر سائیڈ پر گرا تو اس کا چہرہ لال سرخ اور پسینے میں شرابور تھا ۔۔۔تکیہ سائیڈ پر نکالتی ہوئی وہ میرے برابر میں لیٹی ۔۔۔۔اور پھر مجھ سے لپٹتی چلی گئی ۔۔۔۔رات آدھی سے زیادہ ہو چلی تھی ۔۔۔۔میناکماری نے کہا کہ یہیں سو جاؤ ۔۔۔اور کچھ دیر میں ہم نیند کی وادیوں میں چلے گئے ۔۔۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں اس وقت ائر پورٹ کےوی آئی پی ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔ بورڈنگ کارڈ اور پاسپورٹ میرے ہاتھ میں تھا ۔۔جبکہ ساتھ ہی ایک چھوٹا بریف کیس رکھا ہوا تھا ۔۔۔تھری پیس سوٹ میں کافی سوبر اور
وجیہہ لگ رہا تھا ۔۔مختلف نظریں مجھ پر پڑتی اور تحسین بھرے انداز سے لوٹ جاتیں ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا کہ اناؤنسر کی آواز گونجی۔۔۔۔میری ہی فلائٹ کا نمبر بتا کر گیٹ نمبر بتایا جا رہا تھا ۔۔میں نے بریف کیس سمبھالا اور اس گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔ بزنس کلاس کی وجہ سے ہماری لائن الگ تھی ۔۔۔ جلد ہی میں جہاز کے اندر تھا ۔۔۔یہ اتحاد ائیر کا جہاز تھا اور میرے لئے خصوصی سیٹ ریزرو تھی ۔۔جہاز کے اندر داخل ہوتی ہی عربی اور یورپی ائیر ہوسٹس نے استقبال کیا ، جن کی مسکراہٹ ہر آنے والے کے لئے یکساں تھی ۔۔۔۔اپنے کیبن میں پہنچ کر جائزہ لیا۔۔۔۔چھوٹے فلیٹ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے میں نے اپنا بریف کیس سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔۔شوز کھولتے ہوئے پیر میں نے سامنے پھیلا دیئے ۔۔جلد ہی ایک ائیر ہوسٹس اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میرے پاس آئی ۔۔۔اسے آرڈر دینے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں بند کر دی ۔۔۔۔۔۔۔پچھلے مشن کی پوری ریل میرے ذہن میں گھومنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔عمران کو دیکھنے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔۔۔اور ہوش رانا ہاؤس میں آیا تھا ۔۔۔۔جہاں عمران نےخود میرا آپریشن کر کے ایک ڈاکٹر کو ڈریسنگ پر معمور کر دیا تھا ۔۔۔۔مگر جوزف نے اسے منع کر کے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی اپنے وچ ڈاکٹر والے خصوصی نسخے مجھے پر آزمانے لگا۔۔۔۔ہر روزانہ میں اٹھتے ساتھ ہی ایک کڑوا سا محلول اپنے حلق سے اتارتا ۔۔۔اور پھر دوپہر اور شام کو یہ عمل دہرایا جاتا ۔۔وہ عجیب و غریب جڑی بوٹیاں لاتا اور بڑے شوق سے میرے لئے یہ قہوہ بناتا ۔۔۔۔جوزف کی محنت رنگ لائی ۔۔اور ہفتوں کا زخم دنوں میں ٹھیک ہو ا۔۔۔ساتھ ہی میرے اسٹیمنا اور انرجی میں بھی پہلے سے کافی اضافہ ہو اتھا ۔۔۔۔کچھ دنوں بعد میں نے گھر کا چکر لگایا ۔۔۔۔جہاں ثناء میرے لئے آنکھیں بچھائے انتظار تھی ۔۔۔۔کچھ دن گھر والوں کے ساتھ رہا تھا ۔۔۔۔کہ عمران صاحب کی کال ملی ۔۔۔۔مجھے ٹریننگ سیکشن کے لئے شہر بلایا گیا تھا ۔۔میں نے بھی خوشی خوشی سامان باندھا ، اور رانا ہاؤس پہنچا ۔جہاں عمران نے مجھے مزید فولاد بنانے کے لئے ایک فیلڈ تیار کی ہوئی تھی ۔۔۔۔ذہنی اور جسمانی ایکسرسائز کی آمیزش نے مجھے کچھ ہی ہفتے میں ایک نئے روپ میں ڈھال دیا ۔۔۔۔فلائنگ اور پیراٹروپنگ کی مشقوں کا اضافہ تھا ۔۔ساتھ ہی میک اپ اور دوسر ی کئی چیزیں بھی سکھا ئی گئیں تھی ۔۔۔۔اور اس کے بعد پہلی مرتبہ میں عمران کے فلیٹ گیا جہاں سلیمان کے ہاتھ کی چائے اور ان کی نونک جھونک سے لطف اندوز ہوا ۔۔۔عمران نے مجھے مشن سمجھا دیا تھا ۔مجھے خصوصی موبائل دیا گیا جو دانش منزل سے ہر وقت ٹریک کیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔اور موجودہ حالات میں جب انڈیا کے ساتھ حالات اور سرحدی معاملات اسقدر بدتر ہو چکے تھے کہ اس مشن کے لئے انہیں ایک نئے چہرے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔جس کے لئے عمران نے مجھے بلایا ۔۔۔۔۔۔مشن کی مکمل بریفنگ کے بعد مجھ پر ایک درمیانی عمر کے ڈاکٹر کا میک اپ کیا گیا تھا ۔۔۔کنپٹی کے قریب ہلکے سفید بال لئے میرے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی تھی ۔۔جس میں بھی سفید بال تھے ۔۔۔نئے چہرے کے لحاظ سے ہی میرا پاسپورٹ تھا ۔اورمیرا نیا نام پروفیسر جان اور میری نئی شہریت جرمنی کی تھی ۔۔۔نیلی آنکھوں کے ساتھ میں چالیس سالہ خوش شکل ڈاکٹر کے میک اپ میں تھا ۔۔۔جو ایک میڈیکل کی کانفرنس کے لئے نیپال جا رہا تھا ۔۔یہ ڈاکٹر پاکستان میں کسی کام سے رکا تھا جہاں عمران نے اسے روک کر اس کا میک اپ مجھ پر کر دیا تھا ۔۔۔۔۔کانفرنس میں مجھے ایک مقالہ پڑھنا تھا ۔۔جو عمران نے ہی مجھے لکھ کر دیا تھا ۔۔۔اور پوری تیار ی بھی کروا دی تھی ۔۔۔۔۔یہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی جو تین دن جاری رہنی تھی ۔۔۔اور پھر دو دن کی سیر و تفریح کے بعد تمام اراکین اپنے ملک لوٹ جانے تھے ۔۔نیپال سے مجھے انڈیا بارڈر تک چھوڑنے کی ذمہ داری وہاں کے فارن ایجنٹ کی تھی ۔۔۔جو مجھے وہیں ملنا تھا ۔۔۔۔اور اس کے بعد میں اب اس جہاز پر سوار تھا ۔۔۔
میرے نتھنے سے خوشبو کا ایک جھونکا ٹکرا یا تو میں نے آنکھیں کھول دی ، ائیر ہوسٹس میرے سامنے تھی ۔۔۔مشروب اور گلاس رکھتے ہوئے اس نے ایک نظر میری طرف ڈالی اور کچھ اور پوچھتی ہوئی واپس چلی گئی۔۔۔
اس کی نظریں صاف کہہ رہی تھی کہ کچھ اور میں اور کیا کیا شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔۔جہاز ہوا میں اڑ چکا تھا اور اب ہموار تیرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے سیٹ بیلٹ کھول لی تھی ۔۔۔۔اور اب آنے والے واقعات کے لئے خود کو تیا ر کر رہا تھا۔۔۔۔اور انہی سوچوں کے درمیان میں نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔دو گھنٹے کی نیند کے بعد مجھے ہوش آیا تھا ۔۔۔۔ائر ہوسٹس شاید کئی بار چکر لگا چکی تھی اور اب مجھے اٹھتا دیکھ کر کھانے کی ٹرے لا چکی تھی ۔۔۔۔۔کھانا کھا کر میں نے چائے کا کہا اور پھر چائے لئے بزنس کلاس میں ہی بنے ایک چھوٹے سے لاؤنج میں آ گیا جہاں چند لوگ بیٹھے بات چیت کرر ہے تھے ۔۔میں چائے لئے ان کے درمیان جا بیٹھا ۔۔اس فلائٹ کا دوحہ میں 4گھنٹے کا وقفہ تھا ۔۔اس لئے کچھ عربی بھی نظر آرہے تھے ۔۔۔۔ایک طرف کچھ غیر ملکی آدمی اورعورت نظر آرہی تھی ۔ اورآپس کی گفتگو میں مصروف تھے ۔۔۔۔میں بھی خاموشی سے چائے پینے لگا۔۔۔۔کہ ایک مترنم ہیلو کی آواز گونجی ۔۔میں نے سر اٹھایا تو ایک بلیک بیوٹی کو پایا جو میرے ساتھ بیٹھنے کی اجازت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔میں سر ہلاتے ہوئے تھوڑا کھسک گیا اور اسے بیٹھنے کی جگہ دی ۔۔۔25 سالہ یہ سینیٹا میری بھی اسی کانفرس میں نیپال جا رہی تھی ۔۔اس نے میری تصویر اس کانفرنس کے اشتہار میں دیکھ لی تھی ۔۔۔۔اس لئے میرے پاس آ بیٹھی ۔۔۔۔سینیٹا ڈاکٹر تھی اور اپنی فیلڈ میں اسپیشلائزیشن کر رہی تھی ۔۔اور اس کانفرنس میں اپنے پروفیسر کی طرف سے پیش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھ سے میری جاب اور ریسرچ کے حوالے سےسوال پوچھا جسے میں نے بڑی خوبصورتی سےواپس اس کی طرف موڑ دیا ۔۔۔میرےسوال اس کی جاب اور شادی کے بارے میں تھے ۔۔اوراس کا جواب سن کر میں حیران ہو گیا تھا ۔۔وہ پچھلے سال ہی مس یونیورس کے لئے منتخب ہوئی تھی ۔اور تاحال مس جمائیکہ تھی ۔۔۔۔اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کا جائزہ لیا ۔۔۔بلاشبہ وہ کالی رنگت میں کافی حسین تھی ۔۔۔بڑی بڑی چمک دار سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔پتلے نقوش کے ساتھ بہت ہی متوازن جسم کی مالک تھی ۔۔لمبے چٹیوں میں بٹے ہوئے سیاہ بال ۔۔۔۔مسکراتا ہوا چہرہ اسے منفرد بنا رہا تھا ۔بلاشبہ اس کا پورا جسم باتیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔سینیٹا اپنی شوخیوں میں مجھ سے جلد ہی فری ہو چکی تھی ۔۔میں بھی ٹھہرے ٹھہرے انداز میں اس کے سوالا ت کا جواب دیتا رہا ۔۔۔اور اس کی ہنستی مسکراتی آواز کو اپنی مسکراہٹ سے سمبھالتا رہا ۔۔۔کچھ دیر میں وہ مجھےاپنے بارے میں کافی کچھ بتا چکی تھی ۔۔کافی دیر اس سے بات چیت ہوتی رہی ۔۔وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی کافی تھی ۔وہ مجھ سے اور میری ریسرچ سے کافی متاثر تھی اور میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کیوں نہ خواہش مند نہ ہوتی ۔میں جرمنی کے سب سے بڑے میڈیکل انسٹیٹیوٹ کا ڈائیریکٹر تھا ۔ ۔۔سال میں کئ بار ہزاروں درخواست میرے پاس آتی تھیں کہ ہم آپ کے انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ ورک کرنا چاہتے ہیں ۔مگر چند ایک لوگ ہی منتخب ہو پاتے تھے ۔۔۔۔اور سینیٹا اس موقع سے فائد ہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اور میں نے اسے پورا موقع بھی دیا ۔۔میرے بازو کو تھامتے ہوئے وہ اپنے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔اپنے اونچے خواب اور آگے بڑھنے کی لگن۔۔اتنے میں دوحہ میں وقفے کا اعلان ہو ا تھا ۔۔میں اٹھ کر اپنی سیٹ پر آنے لگا ۔۔۔مگر سینیٹا مجھے اکیلے چھوڑنے پر راضی نہیں تھی ۔۔جلد ہی جہاز رن وے پر اتر گیا ۔۔بیگ لئے میں بھی باہر آ گیا ۔۔یہ بیگ خصوصی بنا ہوا تھا ۔۔۔اور عمران صاحب نے ہی مجھے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔فلائٹ کی طرف سے ہمیں ائیر پورٹ پر ہی ہوٹل دیا گیا ۔۔۔میں کاؤنٹر پر پہنچا تو سینیٹا میرے ساتھ ہی تھی ۔۔۔اس نے کاؤنٹر پر میرے ساتھ ہی روم کی ریکوئسٹ کی ۔۔۔میرے بازو تھامے ہوئی وہ ایسے تاثر دے رہی تھی جیسے ہم کافی عرصے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں ۔۔بہت سی نظریں ہماری طرف تعریفانہ انداز میں اٹھتی ۔۔۔۔۔سینیٹا کی خوبصورتی ایسی ہی تھی ۔۔۔۔میرے ساتھ وہ بڑے نازک اندام انداز سے قدم اٹھا رہی تھی ۔۔۔اور ہر شخص مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنے کو مجبو ر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ہم اپنے کمرے میں پہنچ گئے ۔۔۔۔۔سینیٹا نے بڑی ادا سے مجھے سے کھانے کو پوچھا تھا ۔۔۔۔میں نے ہلکا پھلکا بتا دیا ۔۔۔اس نے فون اٹھا کر آرڈر کیا ۔۔۔۔
سینیٹا ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی ۔۔ٹی شرٹ کےاوپر ڈینم کی جیکٹ تھی ۔۔۔۔وہ بڑے انداز سے مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مجھے سے شاور کا پوچھنے لگی ۔۔۔۔میں نے اسے پہلے جانے کا کہا ۔۔۔جیکٹ اتار کر بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔باتھ اٹیچ ہی تھا ۔۔۔۔اور جب اس نے باتھ کے دروازے پر جا کر مجھے دیکھا اور اندر داخل ہو گئی ۔۔۔۔اب مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کیا چاہ رہی ہے ۔۔۔۔اور زیادہ دیر کرنا بھی میرے اصول کے خلاف تھا۔۔۔۔علاج کے دوران جوزف نے مجھے ان سب چیزوں سے دور رکھا تھا ۔۔اور اب سینیٹا مستقل بلا رہی تھی ۔۔مجھے جگا رہی تھی۔۔۔اس کے خیال میں میں ادھیڑ عمر ڈاکٹر تھا ۔۔جو جلد ہی اس کے حسن کے جال میں پھنسنے والا تھا ۔۔۔۔اوروہی ہوا تھا ۔۔۔میں نے پھنسنے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔پینٹ کوٹ سے نجات حاصل کرنے میں مجھے دو منٹ بھی نہیں لگے تھے ۔۔۔میں نے کوٹ ہینگر کرتے ہوئے خود کو شیشے میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔عمران صاحب کی کروائی گئی ورزشوں کے بعد میں اور نکھر گیا تھا ۔۔۔۔بازوؤں میں بجلیاں سی کوند آئیں تھیں ۔۔۔اور سینہ پہلے سے زیادہ کشادہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔انڈروئیر جسم پر چھوڑ کر میں اندر باتھ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔حسب توقع دروازہ لاک نہیں تھا ۔۔۔اندر بھاپ پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔اور ایک کونےمیں سینیٹا اپنے شاور کے نیچے کھڑی ہوئی بالوں کو سمیٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے قدم آگے بڑھا دئے ۔۔۔۔اس کے حسن کو خراج پیش کرنے کا ٹائم آ گیا تھا ۔۔۔۔۔بڑی سی آنکھیں بند تھی ۔۔اور نیچے پتلی نازک سی گردن سے اترتے ہوئے ۔۔۔چھوٹے مگر گول اور سخت ممے تھے ۔۔۔۔نپلز بھی چھوٹے اور اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔اور نیچے نہ ہونے کے برابر پیٹ ۔۔۔پتلی کمر اور بالکل گول شیپ چوتڑ تھے ۔۔۔۔۔جو اس کے جسم میں شاید سب سے زیادہ گولائی میں تھے ۔۔۔۔۔۔میرے قد م اس کے قریب جا کر رکے تھے ۔۔اس نے بھی محسوس کر کے رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔۔میری طرف پشت کر کھڑی سینیٹا کے اوپر سے پانی پھسلتا ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے پیچھے سے جا کر اسے تھام لیا ۔۔۔ہاتھ اس کے پیٹ پر جا کر باندھ دیئے ۔۔۔اس کے ہاتھ بھی میرے ہاتھوں پر آ کر ٹِک گئے ۔۔۔۔۔پانی ہم دونوں پر گررہا تھا ۔۔۔۔میں تھوڑا سا آگے ہوا تھا ۔۔۔۔سینیٹا بھی اسی انتظار میں تھی ۔۔اس نے مجھ سے ٹیک لگا لی تھی ۔۔۔۔میرے جسم میں اک آگ سی بھڑکی تھی ۔۔۔۔۔اس کےجسم کا لمس بہت ہیجان خیز تھا ۔۔۔۔۔مجھے حیرت ہوئی کہ جب جہاز میں وہ میرے ساتھ تھی ۔۔مجھے تب کیوں محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کو پیٹ سے اوپر بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔اور آہستگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا اوپر آتا گیا ۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نےگول گول ممے محسوس کر لیے تھے ۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ اٹھ کر میرے سر پر آیا تھا۔۔۔۔اور نتیجے میں مجھے پوری من مانی کی اجازت مل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھوں کو مموں پر گول گول پھیرنا شروع کر دیا ۔۔چھوٹے چھوٹے سنگترے جیسے ممے میرے ہاتھو ں میں سمائے جا رہے تھے ۔۔۔اور میں ہلکی ٹچ کے ساتھ مساج کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کے چوتڑ میرے اگلے حصے کے ساتھ ٹچ تھے ۔۔۔۔اور ہتھیار کو جگانے کی کوششوں میں تھے ۔۔۔۔میں نے اپنے چہرے سے سینیٹا کی بالوں کی لٹو ںکو سائیڈ پر کیا اور گردن کو چومنے لگا۔۔۔اس نے بھی سر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔میں گردن چومتے ہوئے اس کے کندھے پر آیا ۔۔۔۔۔اور پھر اس کو اپنی طرف موڑ دیا ۔۔۔سانولی رنگت میں تراشیدہ بد ن میرے سامنےتھے ۔۔۔۔۔اور اوپر گلابی ہونٹ دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے بھی اسی کی گردن میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹ ملا دیا ۔۔۔نرم ہونٹوں کی ملاقات جاری تھی ۔۔۔کہ زبان نے بھی اپنی ضرورت محسوس کروا دی ۔۔۔۔مگر یہ شرارت پر آمادہ تھیں ۔۔۔۔اور لڑنے کا پورا ارادہ تھا ۔۔۔۔میں نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔یہ لڑائی ایسے ہی جاری رہی۔۔۔جب میرے ہاتھوں نے اس کی کمر کو چھوا۔ اور پھر نیچے آتے ہوئے اس کے چوتڑ پرہتھیلی کا زور ڈالا ۔۔۔۔سختی اور بھرپور گولائی سے جمے ہوئے تھے ۔۔۔۔سینیٹا تھوڑی سی کھسک کر اور قریب آئی تھی ۔۔۔۔اس کے نپلز میرے سینے کو چھونے لگے ۔۔۔اپنی سختی بتانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں نے کمر پر زور دے کر اور خود سے لگا دیا ۔۔۔ایسے ملے ہوئے تھے کہ گرتا ہوا پانی سائیڈوں سے نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار میں جنبش ہوئی تھی ۔۔میرے دونوں پاؤں کے اوپر اس کے پیر تھے ملے ہوئے ۔۔میرے پیروں پر کھڑی ابھی بھی ہماری زبانوں کی لڑائی جاری تھی ۔۔۔۔تبھی میں نے چوتڑ کو دباتے ہوئے اسے اوپر کھینچا تھا ۔۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔اور اچھلتی ہوئی میری کمر کے گرد ٹانگیں لپیٹ لی۔۔۔اس کی شدت سے بھرپور کسنگ اب بھی جاری تھی ۔۔میں نے شاور کو بند کیا اور باہر چلا آیا ۔۔۔باتھ سے باہر نکل کر اسے بیڈ پر اچھالا ۔۔۔۔۔۔۔وہ حیرت بھری نگاہوں سے میرا جسم دیکھنے لگی ۔۔۔جس پر شاید وقت کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔۔بھر پور جوانی کی علامت تھا ۔۔۔میں چلتا ہوابیڈ پر پہنچا تو وہ بھی مجھے لپٹنے لگی ۔۔۔ابھی تک اس کا خیال تھاکہ میں کوئی ادھیڑ عمر آدمی ہوں ۔۔۔مگر جسم دیکھنے کے بعد اس کا خیال تبدیل ہو نے لگا تھا ۔۔۔۔اور کچھ ہی مکمل بدلنے والا تھا۔۔۔میرے لیٹتے ہی وہ اوپر آئی تھی ۔۔اور پاؤں دائیں بائیں رکھتے ہوئے سوار جیسی پوزیشن بنا لی ۔۔نیچے سے اس کی چوت میرے پیٹ پر ٹچ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔پیچھے سے کمر کو اندر اور چوتڑ کو باہر نکال کر وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔چہر ہ کو چومتی ہوئی نیچے کو آئی ۔۔۔۔اور پھر سینے پر آتی ہوئی پانی کے قطرے صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔میرے بد ن میں لذت کی لہریں گردش کر نے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ممے تھام لیے ۔۔۔اور ہاتھوں میں دبوچ کر دبانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔وہ نیچے کو ہوتی ہوئی میرے ہتھیار پر آ بیٹھی ۔۔۔۔اور پھر اورنیچے کو ہونے لگی ۔۔۔ناف تک پہنچی تو میں نے اسے اوپر کھینچا اور ساتھ ہی کروٹ لے لی ۔۔اب میں اس کا عمل دہر ا رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہونٹوں نے اس کے مموں کو چھوا تو وہ ہل سی گئی ۔۔۔۔میں نے مموں کوچوستے ہوئے نپلز کھینچنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔سینیٹا میرے سر پر ہاتھ رکھے شاباش دئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت پر رکھا اور درمیانی انگلی اس کے لبوں پر رکھی ۔۔۔لب کچھ باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے ۔۔۔میں اس پر انگلی پھیرتا ہوا اس کے دانے کو مسلنے لگا۔۔۔سینیٹا کی سسکاری بھی اسی کی طرح نازک اور دلکش تھی ۔۔۔کسی بلیک بیوٹی سے میرا پہلی مرتبہ واسطہ پڑا تھا ۔۔۔اور اب تک میں نے اس کی شدت میں کمی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔یہ بڑھتی ہوئی شدت میری وحشت کو بھی جگارہی تھی ۔۔میں نے سینیٹا کے دائیں بائیں کہنی جما کر اوپر اٹھا اور انڈر وئیر کو نیچے دھکیل دیا۔۔۔۔ایک بھاری بھرکم اور گرم وجود سینیٹا کی ٹانگوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں اشتیاق او ر پیاس بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔تبھی میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی ٹانگوں میں ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا اور ٹانگوں کو اٹھا دیا ۔۔۔ساتھ ہی اپنے پاؤں کے پنجے پر وزن ڈال کر آگے کو جھک گیا ۔۔۔۔چوت گیلی ہوچکی تھی ۔۔اور لبوں پر پانی چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر دیکھااور پھر ہتھیار کے ٹوپے کو چوت کے لبوں پرر کھ دیا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چھپا لیا تھا ۔۔۔۔۔مین نے ٹوپے پر دباؤ بڑھایا ۔۔۔۔۔چوت بہت پھنسی ہوی اور تنگ تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ حرکت میں آیا تھا ۔۔۔اس نے چوت کے دانے کو مسلتے ہوئے مجھے اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔میں نے تیز پریشر دیتے ہوئے ٹوپے کو راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چیرا تھا اور اند ر جا پھنسا ۔۔۔۔سینیٹا کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔۔اس نے ہونٹوں کو آپس میں دباتے ہوئے مجھے دیکھا تھا ۔۔میں نے تھوڑا اور دباؤ بڑھایا ۔۔۔ہتھیار پھنسا ہوا اندر جانے لگا۔۔۔۔سینیٹا نے سانس روک لی تھی ۔۔اور آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔۔۔۔ ایک ہاتھ سینے پر آ کر مجھے روکنے کی کوشش میں تھا ۔۔اور دوسرا ہاتھ کی انگلیاں میری رانوں پر لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے منہ کے تاثرات عجیب سے تھے ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا ۔۔۔۔سنینٹا نے منہ اٹھاتے ہوئے سانس چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر نیچے دیکھنے لگی ۔۔جہاں آدھے ابھی کچھ حصہ ہی اندر گیا تھا ۔۔باقی باہر انتظار میں تھا ۔۔۔میں نے پھر دباؤ بڑھا یا اور آدھا ہتھیار اندر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔سینیٹا کے چہرے کے نقش کچھ اور تبدیل ہوئے تھے ۔۔ہونٹ کچھ اور بھنچے تھے ۔۔۔۔۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے روک سا دیا تھا۔۔۔میں نے واپس نکالتے ہوئے دوبارہ سے دھکا دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا کے چہرہ ایک دم اوپر کو اٹھا ۔۔۔چیخ نما سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ہتھیار کو اسی انداز میں رواں کر تا رہا ۔۔۔۔۔اور سینیٹا اسی طرح سسکاریاں بھرتی رہی ۔۔۔بار بار مجھے آہستہ ہونے کا کہتی رہی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگوں کو دائیں بائیں پھیلا دیا۔۔۔۔۔اور پھر تیز دھکے مارنے شروع کئے ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کی منہ سے بے اختیار کراہیں نکلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔میں نے تین چار دھکے اور مارے ہوں گے کہ اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔میں نے پھر بھی دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔مگر اس نے روک دیا ۔۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔سامنے ہی ہتھیار اس کے پانی سے چمک رہا تھا۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھے اور ہتھیار دونوں کوحیرت سے دیکھا ۔۔۔۔اور پھر تھامنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھوں میں آتا ہوا یہ ہتھیار ابھی بھی سخت اورتنا ہوا تھا۔۔۔ سینیٹا اسے منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔اور ناکامی پر چاروں طرف سے چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ٹائم کم تھا ۔۔۔کم از کم ایک گھنٹے پہلے ائیرپورٹ کی گاڑی آ جانی تھی اور ہمیں چیک ان کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ دیر سینیٹا کو ہتھیار چوسنے دیا ۔۔اور پھر گھوڑی بنادیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنے کے بل بیڈ پر تھی ۔۔۔۔میں نے پوزیشن لیتے ہوئے ٹوپے کو چوت پر ٹکا یا۔۔۔۔۔اور سینیٹا کے کمر کو تھامتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔ٹوپے پھر پھنستا ہوا گھسا تھا ۔۔۔۔۔چوت ابھی بھی اندر سے پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے پاؤں جماتے ہوئے دھکے دینے لگا ۔۔اور ساتھ ہی ہلکا ہلکا سا آگے ہونے لگا۔۔۔۔اب ہتھیار ہر جھٹکے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اندر جا رہا تھا۔۔۔ سینیٹا کے منہ سے کراہیں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔میں نے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔۔آدھے سے زیادہ ہتھیار اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔ اور اب دھکے کے ساتھ سینیٹا کی کمر بھی اوپر کو اچھلتی ۔۔۔۔۔۔اس کی سسکاری اور آہیں بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔میرا پہلے موقع تھا کہ کسی بلیک بیوٹی کی سسکاریاں سننے کا۔۔۔اور یہ سسکاریں ایسی تھی کہ میرا جوش اور بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔کبھی او مائی گوڈ ۔۔۔۔اور کبھی سریلی آواز میں ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ۔۔تھی ۔۔میں دھکے دیتا ہوا جھٹکوں پر آیا ۔۔۔۔۔گہرے اور پاور فل اسٹروک تھے ۔۔۔۔جو بیڈ کو بھی ہلا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور سینیٹا کو بھی آگے کھسکا رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کو چوت ابھی بھی پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔جو اس کی ٹانگوں پر نشان بناتا ہوا نیچے جا رہا تھا ۔۔۔۔سینیٹا اس پوزیشن میں تھکنے لگی تھی ۔۔میں پیچھے ہٹتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا ۔۔۔اور کھینچ کر اسے کنارے پر لے آیا ۔۔۔۔۔۔اس کی ٹانگوں کو ملا کر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔۔اور پھر ٹوپے کو نشانے پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔اس کی منہ سے پھر سسکاری نکلی ۔۔۔۔میں نے جھٹکے بڑھانے شروع کر دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا ابھی بھی آگے کو کھسکتی ۔۔اور میں اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا دیتا ۔۔۔۔۔اس کی اوہ ہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔جاری تھی ۔۔۔۔اگلے تین منٹ تک میں نے درمیانی اسپیڈ کے دھکے مارے تھے ۔۔۔۔اور اس نے پھر پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔اب کی بار میں رکا نہیں ۔۔۔نہ ہی اس کی چیخوں پر غور کیا۔۔۔۔دھکے مارتا ہوا اسے اوپر دھکیلنے لگا۔۔۔۔۔۔تھوڑی آگے دھکیلنے کے بعد اتنی جگہ بن گئی کہ میں خود بھی اوپر آ گیا ۔۔اس کی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر میں اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔میرے ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔نیچے بیڈ والا اسپرنگ تھا ۔۔۔میں اپنےپورے وزن کے ساتھ نیچے دھکا دیتا ۔۔۔۔اور سینیٹا بیڈ کے اسپرنگ پر دبتی ہوئی دوبارہ اچھل کر باہر آتی ۔۔اور اگلا دھکا پہلے سے زیادہ اسے اندر پہنچاتا ۔۔۔۔سینیٹا کی چیخیں اور بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اوہ مائی گوڈ ۔۔۔۔اوہ مائی گوڈ کی آوازیں تھی ۔۔۔۔میں رکے بغیر دھکے بڑھا تا ۔۔۔۔۔اسپیڈ درمیانی سے اور تیز ہوئی تھی ۔۔۔اسپرنگ بھی پوری قوت سے دبتے اور سینیٹا کو اچھالتے ۔۔۔۔۔۔بیڈ کی چوں چوں کے ساتھ سینیٹا کی ہائے ۔ہائے ۔۔۔کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جھٹکے اور تیز کیے تھے ۔۔۔۔میرا ٹائم بھی قریب تھا ۔۔۔۔دھکے اور طوفانی ہوتے گئے ۔۔۔سینیٹا کا چِلانا بڑھ چکا تھا ۔۔ ۔۔وہ انگلش بھول چکی تھی ۔۔اور اپنی زبان میں رکنے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے منہ سے غراہٹ نکلی ۔۔۔اس کا چلانا کچھ دیر کے لئے بند ہوا تھا۔۔۔۔مگر طوفانی دھکوں نے دوبارہ اس کا منہ کھول دیا۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اپنے آخری جھٹکے مارے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تیسری مرتبہ سینیٹا نے پانی چھوڑا ۔۔۔۔۔۔میری بھی آمد تھی ۔۔۔۔۔میں نے آخری جھٹکا مارتے ہوئے ہتھیار باہر نکال کر سینیٹا کےپیٹ پر رکھا ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر تھاما اور ہلانے لگی ۔۔۔۔پہلا فوارہ اس کے منہ پر گرا تھا ۔۔۔۔اور پھر اس کے ہلانے کےساتھ ساتھ پانی نکلتا رہا ۔۔۔۔اس کا پورا پیٹ پانی سے بھر چکا تھا ۔۔۔اور پانی دونوں طرف سے نیچے بہنے لگا۔۔۔۔۔وہ پھر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔میں اس کے برابر میں لیٹا اور سانس برابر کرنےلگا۔۔۔۔سینیٹا کچھ دیر منہ چومنے کے بعد اٹھی ۔۔۔اور شاور کے لئے چلی گئی ۔۔۔۔اس کے بعد میں بھی تیار ہونےلگا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم واپس جہاز میں آگئے تھے ۔۔سینیٹا اپنی سیٹ پر چلی گئی ۔۔اور نیپال میں مجھے سے ملنے کا وعدہ لے کر گئی ۔۔۔۔۔
میں بھی اپنے کیبن میں واپس آیا۔۔۔۔اورائیر ہوسٹس کو کچھ اور آڈر دینے لگا۔۔۔اس کے بعد مزید سوچ میں گم ہو گیا ۔آنےوالے حالات اور گزرے ہوئے واقعات ۔۔۔۔میرے خیالوں میں ثناء چلی آئی ۔۔۔اپنی اداس اور گیلی آنکھوں کے ساتھ یہی پیغام دے رہی تھی کہ جلد ی لوٹ آئیے گا۔۔۔۔۔انہیں سوچوں میں ایک گھنٹا مزید گزر گیا ۔۔۔ کہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلا ن ہونے لگا۔۔میں نے سیٹ بیلٹ باندھ لی اور انتظار کرنے لگا۔۔جلد ہی میں کھٹمنڈو ائیرپورٹ کےارائیول ہال سے نکل رہا تھا ۔۔سامنےہی بہت سے لوگ کارڈ اٹھائے ہوئے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔ایک میں میرا نام بھی تھا ۔۔میں اسی طرف بڑھ گیا ۔۔۔یہ کوئی ڈرائیور تھا ۔۔میرے آگے جھکتا ہوا مجھے لے کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔کار کےساتھ ہی ایک خاتون میرا انتظار کر رہی تھیں ۔۔اپنے ہاتھ جوڑتی ہوئی وہ تھوڑی سی جھکی تھی ۔۔ویلکم ٹو نیپال۔۔۔۔ہلکی نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے۔قدرے بھرے ہوئے جسم کی مالک۔۔۔ماتھے پر ٹیکہ لگائے ہوئے اس خاتون کا ۔۔۔مینا کماری نام تھا ۔۔۔سانولے گول چہرے پر سیاہ بڑی سی آنکھیں ۔۔۔۔میں بھی اپنا نام بتاتے ہوئے قدرے جھک گیا۔۔۔میرے دراز قد کے مقابل میرے کندھے تک آ رہی تھی ۔۔۔اچھی لہجے کی انگلش بولتی ہوئی کہنے لگی ۔چلیں پروفیسر صاحب ۔۔۔میں کار میں بیٹھنے لگا تو میں نے سینیٹا کو دیکھا اسے بھی کوئی ریسیو کرنے آیا ہوا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر مینا کماری یہاں کی ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن میں تھیں اور اس کانفرنس کو منعقد کروانے میں ان کی کافی کوشش تھی ۔۔۔ہم دونوں کار کے پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور ڈرائیور نے اگلی سیٹ سمبھال لی ۔۔مینا کماری میرے قریب ہی بیٹھی تھی اور میں با آسانی اس کے پرفیوم کی مہک محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
پروفیسرصاحب سفر کیسا گذرا آپ ۔۔۔مینا کماری مجھ سے پوچھنے لگی ۔۔
اچھا سفر گذرا ،سفر میں کانفرنس کے بھی کچھ ڈاکٹرز مل گئے تھے ۔۔۔۔میں نے بتایا ۔۔۔
پروفیسر صاحب کانفرنس کے لئے تمام افراد کو فائیو اسٹار ہوٹل میں روم دئے گئے ہیں ۔۔۔آج شام سے کانفرنس کا پہلا دن شروع ہے ۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ خصوصی مہمانوں کے لئے میزبانی ہم نے خود رکھی ہے ۔۔۔اور آپ بھی انہیں میں سے ایک ہیں ۔۔تو آپ چاہیں تو میرے ہاں بھی رک سکتے ہیں ، اور کانفرنس کے بعد یہاں کی سیر بھی کروانا میری ذمہ داری ہو گی ۔۔
مینا کماری نے مجھے پورا پروگرام بتا دیا ۔۔۔
مس مینا میں بھی زیادہ بھیڑ بھاڑ پسند نہیں کرتا ۔۔۔اس لئے میرا خیال ہے ہے کہ آپ کا گھر بہتر رہے گا۔۔۔۔میں نے بھی اپنا اراداہ بتا دیا ۔۔۔
مینا کماری نے ڈرائیور کو گھر جانے کا کہا ۔۔راستے میں مینا کماری وہاں کی مشہور عمارتوں اور روڈ کا تعارف کروانےلگی ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔جلد ہی ہم مینا کماری کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔پوش علاقے میں یہ گھر بڑی خوبصورتی سے بنا ہوا تھا ۔۔جلد ہی اندر داخل ہو کر مینا کماری نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اندر کی طرف چلی ۔۔مشروب کی تواضع کے ساتھ ہی اس نے سوال جواب کاسلسلہ شروع کردیا ۔۔۔میں بھی سوال پوچھتا رہا ۔۔مینا کماری کے شوہر کا کئی سال پہلےایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا ۔۔اور اب ایک لڑکا اور لڑکی کے ساتھ رہتی تھی ۔۔دونوںکالج اسٹوڈنٹ تھے اور ابھی بھی وہیں تھے ۔۔۔مشروب کے ختم ہوتےہی مینا کماری اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی پروفیسر جان مجھے واپس انسٹیوٹ جانا ہے ۔۔شام میں آپ سے ملاقات ہو گی ۔۔۔ابھی کچھ دیر میں وجے اور انجلی آ جائیں گے ۔۔وہ آپ کو کمپنی دیں گے ۔۔میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے بچوں کی بات کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اٹھتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔
میں اپنے روم میں جا کر سو گیا تھا ۔۔۔اور شام کو ہی میری آنکھ کھلی تھی ۔۔۔روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک17 سال کے آس پاس ایک لڑکا کھڑا تھا ۔۔مجھے سے گرم جوشی سے ہیلو ہائے کی اورکہنے لگا کہ مما بلا رہی ہیں آپ کو ۔۔۔۔میں فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں رات کا کھانا لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں نے انجلی کو بھی دیکھ لیا تھا ۔۔وہ اپنی ماں کی کاپی تھی ۔۔۔بس جسامت کا فرق تھا ۔۔باقی وہی نقش تھے ۔۔۔۔وہ بھی میری طرف بڑھی اور ہاتھ ملاتے ہوئے ہیلو ہائے کرنے لگی ۔۔میں جواب دیتے ہوئے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھرکھانےکے ساتھ ہی انجلی اور وجے کے آپس میں شوخی اور چھیڑ چھاڑ شروع تھی ۔۔۔۔۔دونوں میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ تھی ۔۔۔۔کھانے کے بعد دونوں میرے دائیں بائیں آ بیٹھے اور پھر سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔۔۔وہ بے تکلفی سے مجھے انکل کہہ رہے تھے اور میں بھی مسکر ا رہا تھا ۔۔اگر میک اپ ہٹا دیا جائے تو ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔۔۔
مگر ابھی میں ان کا انکل بنا ہوا تھا ۔۔۔۔انجلی بے فکر ی سے مجھ سے چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور وجے بھی ساتھ لگا ہواتھا ۔۔میری شادی اور بچوں کی فکر ان دونوں کو زیادہ تھی ۔۔میں نے خود کو کنواراہ بتا یا تھا ۔۔۔
انکل آپ اتنے ہینڈ سم ہیں پھر بھی شادی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔انجلی چہکی تھی ۔۔۔۔
بس ریسرچ اور کام میں اتنا مصروف ہوتا ہوں کہ اس طرف خیال ہی نہیں آیا ۔۔میں نے جواب دیا ۔۔
انجلی میرے اور قریب آئی تھی ۔۔۔ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئے وہ میری بازو پکڑے ہوئے بیٹھی ہوئی ۔۔وجے اس سے ایک سال چھوٹا تھا ۔۔۔
میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر مینا کماری نے مجھے آ کر اس امتحان سے نکالا ۔۔۔۔۔چلو جاؤ آرام کرو ۔۔صبح کالج جانا ہے تمہارے انکل تین دن یہیں ہیں ۔۔۔باقی کل پوچھتے رہنا ۔۔۔
انہوں نے آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے سیاہ آنکھوں سے مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔
نہیں ۔۔!۔۔آپ کے بچے بہت اچھے ہیں ۔۔ہنستے مسکراتے اور ایکدوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ۔۔۔انجلی اور وجے اپنی ماما کو منہ چڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئے ۔۔۔
چلیں آپ باہر چلتے ہیں ۔۔۔مینا کماری خاصی رنگ ڈھنگ سے تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔بلیک کلر کی ساڑھی پر گولڈن کناری تھی ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑی سی جیولری نے اسے سجا دیا تھا۔۔تھوڑی سی لمبے قد کے ساتھ۔۔۔تنگ بلاؤز نے کلیویج کو ظاہر کر دیا تھا۔۔۔سانولی رنگت کےساتھ بھرا ہوا جسم ۔۔۔اور سامنے کو بڑے سے ابھار۔۔پیٹ نہ ہونے کے برابر ۔۔۔اور پیچھے کی طرف لپٹی ہوئی ساڑھی اسے اور پرکشش بنا رہی تھی ۔وہ اپنی عمر سے بہت کمر نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے اس کا بھرپور جائزہ لیا اورآگے چلنےکا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
مینا کماری مجھے اپنے ساتھ باہر لے آئی ۔۔۔۔گیراج سے کار نکال کر ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بٹھا دیا ۔۔رات سر پر آ چکی تھی ۔۔۔۔۔نیپال کا یہ دارالحکومت کافی سجا ہوا تھا ۔۔۔اور شام کے وقت جگمگا کر منور ہو رہاتھا ۔۔۔..۔۔مینا کماری مجھے گائیڈ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔پہلے ہم پشوپتی ناتھ مندر پہنچے ۔۔۔یہ باگمتی دریا کے کنارے پر ہے۔۔۔اور یہاں کے سے پرانے مندر میں شمار ہوتا ہے۔۔۔مینا کماری مجھے بڑے شوق سے یہاں کی ہر چیز کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔باگمتی دریا کے ایک طرف کھٹمنڈو شہر اور دوسری طرف پتن شہر تھا۔۔۔۔یہ دریا ہمالین دریاؤں میں شمار ہو تا تھا ۔۔۔اور یہاں سے گذرتا ہوا انڈیا میں داخل ہوتا ہے ۔۔۔۔ہم کافی دیر تک دریا کے کنارے گھومتے رہے ۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس پر گارڈن آف ڈریم پہنچے جو دس منٹ کے فاصلے پر ہی تھا ۔۔۔مینا کماری کی کمینٹری جاری تھی ۔۔۔۔یہاں کچھ ٹائم گزار کر ہم ہاؤس آف میوزک پہنچے تھے ۔۔۔۔۔آدھی رات ہونےوالی تھی ۔۔۔۔مگر یہاں اس کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔یہاں میں نے غیر ملکی بھی دیکھے جو خاص طور پر یہاں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔اندر پہنچتے ہی میں روشنیوں میں گم ہو گیا ۔۔۔۔ایک طرف لائیو میوزک ہو رہا تھا ۔۔۔جبکہ سامنے کی طرف بار بنا ہواتھا ۔۔۔
اور سامنے ہی کافی لوگ میوزک کے دھنوں پر رقص کر رہے تھے ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تو بیٹھا مگر مینا کماری نے مجھے جلد ہی گھسیٹ لیا ۔۔میرے ساتھ وہ بھی اپنے قدم تھرکا رہی تھی ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں مجھ پر گڑی باتیں کر رہی تھی ۔۔میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔۔کئی بار وہ گھومتی ہوئی میرے سینے لگتی تو میرے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ۔۔۔۔میں نے بھی اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ دو چار اسٹیپ کرنے کے بعد ہم ٹیبل پر جا بیٹھے ۔۔یہاں فاسٹ فوڈ کا زبردست انتظام تھا ۔۔۔۔میں نے محسوس کیا تھا کہ مینا کماری بھی میرے ساتھ کافی انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔اسے بھی کافی ٹائم کے بعد ان سب کا وقت ملاتھا ۔۔۔اس کے بعد مینا کماری بار کی طرف گئی اور ڈرنک اٹھا لائی ۔۔۔۔۔۔میں نے بچنے کی بڑی کوشش کی تھی ۔۔مگر مینا کماری بضد تھی ۔۔۔جوزف اور عمران صاحب نے اس معاملے میں بھی مجھے کافی ٹرین کیا تھا ۔۔۔میں نے مینا کماری کا ساتھ دینے کی کوشش کی ۔۔مگر وہ ایک کے بعد ایک چڑھانے لگی ۔۔۔ٹائم زیادہ ہو چکا تھا ۔۔۔اور بار بھی خالی ہونے لگا تھا ۔۔۔میں نے اسے اٹھنے کا کہا اور باہر آگئے ۔۔۔کار تھوڑی دور پارکنگ لاٹ میں تھی ۔۔ہم کار کے طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔مینا کے قد م ہلکے ہلکے سے بہک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں ساتھ سہار ا دیتا ہوا پارکنگ کی طرف چلنے لگا۔۔۔مینا کماری کے بدن کی نرمی مجھ پر اثر انداز ہو رہی تھی ۔۔۔۔سنسنی کی لہر دوڑنے لگی تھی ۔اس کی ساڑھی کا پلو بار بار ڈھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔میں بار بار اس کی ساڑھی کا پلو سمبھال کر اسے ڈھانپتا ۔۔۔مگر وہ بار بار گرتا ۔۔۔اور اس کی گہری کلیویج ظاہر ہوتی ۔۔۔۔۔اسی طرح ہم پارکنگ کے پاس پہنچے ۔۔۔۔۔کار کے قریب پہنچے تو مینا کماری کی آواز آئی ۔۔۔۔۔میرا پرس اندر رہ گیا ہے ۔۔۔۔میں نے کوفت ذدہ انداز میں اسے دیکھا اور کار میں بیٹھنے کا اشارہ کرکے تیز قدموں سے اندر چل پڑا ۔۔۔۔۔۔پرس اسی سیٹ پر رکھا تھا ۔۔۔۔میں پرس لے کر واپس پہنچا تو عجیب منظر سامنے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی کار کے سامنے پانچ سے چھ بائک دیکھیں تھی ۔۔جو ایک دائر ے میں گھوم رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔جبکہ ان سب کےدرمیاں میناکماری ڈری سہمی ہوئی کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وہ لوگ ہوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔اور قریب گھومتے ہوئے ساڑھی کھینچنے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔میں نے پرس کار کے اندر پھینکا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے انگڑائی لی ۔۔۔اور پھر بائک کے درمیان سے ہوتا ہوامینا کے پاس پہنچا تھا ۔۔وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی ۔۔بائک والے میری طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔بائک رک چکی تھی ۔۔۔۔اور اب لائٹ آن کئے وہ اترنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔مجھے وہ کوئی بوڑھا غیر ملکی سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔اور اسی غلط فہمی میں ایک آدمی چاقو لے کر قریب آیا تھا ۔۔۔شاید ڈرا کر بھگانا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ میں چاقو گھماتے ہوئے سامنے آ کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔میرے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔۔۔اور پھر وہ طیش میں آ کر میری طرف جھپٹا۔۔۔پیٹ کی طرف آتے ہوئے چاقو کو میں نے تھوڑی دور روکا تھا ۔۔۔اور ہاتھ کوپکڑکر مڑتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔اس کا ہاتھ میرے کندھے سے ایسے گذر ا تھا کہ کہنی میرے کندھے کے عین اوپر تھی ۔۔۔۔اور پھر ایک آواز آئی تھی ۔کہنی کا جوڑ ڈس لوکیٹ ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ کو نیچے جھٹکا دیا تھا ۔۔۔چاقو میرے سامنے ہی گرا تھا ۔۔۔اور کہنی کی طرف سے ہاتھ دوسری طرف مڑ گیا تھا ۔۔۔میں واپس اٹھتا ہوا سیدھا ہوا اور فرنٹ کک سے دور اچھا ل دیا ۔۔۔۔میں نے چاقو کو پاؤں مارتے ہوئے دور پھینک دیا ۔۔۔۔اب کی بار دو سورماؤں نے ہمت کی تھی ۔۔ایک سامنے سے آیا اور دوسرا پیچھے سے آنے لگا۔۔میں مطمئن انداز سے کھڑا ان کی حرکت دیکھ رہا تھا ۔۔سائیڈ پر کھڑی مینا بھی حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔اس کا نشہ اتر چکا تھا ۔۔۔سامنے والا مجھے سے دو قدم کے فاصلے پر پہنچا تو میں نے ایک نظر پیچھے ڈالی ۔۔۔دوسرا بھی اتنا ہی نزدیک تھا۔۔۔۔سامنے والا نے جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھا یا تھا ۔۔اور پھر بجلی سی کوندی ۔۔۔میں آگے کو جھپٹا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھوں آگے کی طرف مکے کے انداز میں تھے ۔۔۔۔اس نے چہرے کے سامنے ہاتھ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔مگر یہ صرف ڈاج تھا ۔۔میرا نشانہ اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔۔۔وہ چیخ مار کر بیٹھا تھا ۔۔۔میرےبڑھے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر جا رکے تھے ۔۔۔۔اور پھراس کے کندھے پر زور ڈالتے ہوئے اپنے پاؤں پیچھے اچھالے تھے۔۔۔۔پیچھے والا مجھے دبوچنے کے لئے لپکا تھا ۔۔۔مگر دونوں ٹانگوں کی چہرے پر پڑنے والی ٹھوکر اسے الٹا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ناک لہولہان تھی ۔۔وہ لوٹ پوٹ ہونے لگا ۔۔باقی دو ہی بچے تھے ۔۔مگر ان میں ہمت نہیں تھی ۔۔وہ بائک پر واپس جا بیٹھے تھے ۔۔اچانک سے شروع ہونے والی لڑائی دو منٹ سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
میں نے حیران پریشان مینا کماری کا ہاتھ تھاما اور کار کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر تیز رفتاری سے واپس پہنچا ۔۔۔راستہ مجھے یاد ہی تھا ۔۔بس ایک جگہ مینا کماری کو بتانا پڑا تھا ۔۔۔گیراج میں کار کھڑی کر کے ہم اندر آئے تھے ۔۔۔۔مینا کماری ابھی بھی شاک میں ہی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر وہ باہر گئی تھی ۔۔۔واپس پر اس کے ہاتھ میں چائے تھی ۔۔۔۔۔وہ میرے بیڈ پر ہی بیٹھی تھی ۔۔۔اور حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔۔پروفیسر صاحب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا ۔۔اتنی پھرتی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔آپ تو بالکل جوان آدمی لگ رہے تھے ۔
بس سب اچانک سے ہو گیا ۔۔مجھے بھی سمجھ نہیں آیا ۔۔۔۔میں نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی ۔
وہ لوگ جرائم پیشہ تھے ۔۔۔اتنی آسانی سے آپ کیسے انہیں بھگا سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔مینا کماری پھر پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں نے اسے مطمئن کیا کہ میں کچھ عرصے سیلف ڈیفنس سیکھتا رہا تھا ۔۔۔بس وہی کام آیا ہے ۔۔۔۔۔
میں نے چائے پی کر ساتھ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔۔اور مینا کماری کو دیکھا ۔۔۔جس کی آنکھوں میں چمک کے ساتھ امید بھی تھی ۔۔۔۔وہ میرے قرب کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کہنے سے ہچکچا بھی رہی تھی ۔۔میں کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر خود پر گھسیٹ لیا ۔۔۔۔نرم گرم جسم میرے ہاتھ سے کھنچتا ہوا مجھ پر آیا تھا ۔۔۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری نے میرے چہرے پر بوسوں کی بارش کر دی ۔۔۔۔۔۔۔اس کے بوسوں میں غضب کی گرمی اورشدت تھی ۔۔۔۔کچھ دیر تو میں رک سا گیا ۔۔۔۔وہ اپنا زور مارنے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی کمر پر رکھ دیے ۔۔۔اور اٹھاتے ہوئے بالکل اپنے اوپر لے آیا ۔۔۔۔میرے پورے جسم میں بجلی سی کوند گئی ۔۔۔مینا کماری کےجسم کے لمس نے مجھے چونکا دیا تھا۔۔۔سینے کے بڑے سے ابھار میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔ساڑھی کا پلو کہیں دور رہ گیا تھا ۔۔۔اور سینے کے دودھ بلاؤز سے باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔۔۔۔میں نے اپنے اور لیٹی مینا کماری کے گرد ٹانگیں لپیٹ دی اور جوابی بوسے دینے لگا۔۔۔۔۔سیاہ ریشمی بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔جن سے کوکونٹ جیسی سمیل نکل کر میرے نتھنوں میں گھس رہی تھی ۔۔۔مینا کماری کے بوسوں میں برسوں کی پیاس تھی ۔۔۔۔۔جھکی جھکی آنکھوں کے ساتھ وہ بوسوں میں مصروف تھی ۔۔۔اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں بھی جوا بی بوسے سے اس کی ہمت بڑھا تا ۔۔۔میرا چہرہ گیلا ہونا شروع ہو چکا تھا ۔۔میں نے کروٹ لی اور مینا کماری کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔نیچے دلکش نظارہ تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے آدھے سے زیادہ ممے بلاؤز باہر آئے ہوئے تھے ۔۔اور اپنے پورے سائز کا اندازہ کر وا رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بلاؤز رکھتے ہوئےچہرے پر جھک گیا ۔۔اور ہونٹوں کو چومتے ہوئے کھینچنے لگا۔۔۔۔مینا کماری کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔۔۔۔میں نے جواب دیتے ہوئے اس سے زیادہ شدت کا مظاہر ہ کیا تھا ۔۔۔اس کے منہ کو چومتے ہوئے میں نیچے آیا ۔۔۔آدھے باہر نکلے ہوئے ممے سامنے تھے ۔۔ان کے اوپر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔بے تحاشہ گرم تھے ۔۔۔میں ہونٹوں کو جگہ جگہ رکھتے ہوئے نشان بناتا گیا ۔۔۔مینا کماری کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔سینے کی دھڑکن تیز ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لیتے ہوئے اس کی سائیڈ پر آیا ۔۔اور اسے کھینچتے ہوئے خود پر گھسیٹ لیا ۔۔دونوں ہاتھ کمر پر لے گیا ۔۔جہاں بلاؤز کی ڈوری میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔ڈوریاں کھینچنے کے بعد کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے لے جانے لگا۔۔۔جہاں بڑے سے چوتڑ لہنگے میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔میں نے اوپر ہتھیلی رکھتے ہوئے زور دے دبایا ۔۔۔مینا کماری سسکی بھرتی ہوئی میرے ہونٹ چومنے لگی ۔۔۔میں کچھ دیر چوتڑ اوپر سے دباتا رہا ۔۔۔۔اور پھر۔۔لہنگے کے اندر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔گرم گوشت سے بھرے ہوئے گول چوتڑمیرے ہاتھ کے نیچے تھے ۔۔میں ہلکی پکڑ کے ساتھ دباؤ دینے لگا۔۔۔۔اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر کو آتا اور چوتڑ وں کو بھینچ کر دبانے لگتا۔۔۔۔۔مینا کماری کے گیلے گیلے بوسے ابھی بھی جاری تھے ۔۔۔۔جن کے درمیان سے گرم گرم سسکی بھی نکل جاتی ۔۔بلاؤز کی ڈوریاں کھلنے کے بعد وہ آہستگی سے اترتا جا رہا تھا ۔۔اور دو چار بار میرے سینے پرمیناکماری کے رگڑ کھانے کے بعد اب وہی رہ گیا تھا ۔۔گول مٹول سے ممے سامنے تھے ۔۔۔اور نپلز ۔۔۔۔میرے آج تک دیکھے گئے نپلز میں سب سے زیادہ لمبے تھے ۔۔۔۔ہلکے براؤن کلر کے نپلز پوری لمبائی کے ساتھ اکڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے مینا کماری کے لہنگے کو نیچے کی طرف کھسکا دیا ۔۔۔۔اور جہاں تک ہاتھ جاتا نیچے لیتا گیا ۔۔۔اور پھر کروٹ لیتے ہوئے اس نیچے لٹا کر اس کے اوپر آیا ۔۔۔۔بھاری بھرکم ممے مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے اس کے دائیں بائیں گھٹنے رکھتے ہوئے اس کے اوپر سوار ہوا۔۔۔اور جھک کر مموں اپنے منہ میں بھرنے لگا۔۔۔یہ بڑے سے ممے منہ میں آنے سے قاصر تھے ۔۔۔پھر بھی میں کوشش کرتا رہا ۔۔۔اور نپلز کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نپلز لمبے تھے ۔۔اور میرا انداز بھی بے صبرا تھا ۔۔نتیجہ چس چس۔۔ کی آواز کی صورت میں نکلا تھا ۔۔۔۔میں دونوں نپلز کو باری باری چوستا۔۔۔میناکماری پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھے جاتی اور سر پر ہاتھ پھیرتی ۔۔۔۔میں پورے ممے کو دبوچ کر منہ میں پہنچاتا اورہونٹوں سے اندر پہنچانے کی کوشش کرتا۔۔۔مگر نپلز ہی آخر میں رہ جاتے جو ہونٹوں میں دبے رہتے ۔۔۔۔۔ممے آہستہ آہستہ گیلے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔تبھی مینا کماری نے ہاتھ بڑھا کرمیری شرٹ اتارنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔میں سیدھا ہو گیا ۔۔اورااس نے ایک ایک کر بٹن کھولے ۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں نے سائیڈ پر پھینکی تھی ۔۔۔۔میرا کشادہ سینا دیکھ کر مینا کماری کے آنکھوں میں حیرانی آئی تھی ۔۔۔اس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے سختی کا اندازہ لگا لیا تھا ۔۔۔اب وہ میری پینٹ کے بٹن کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔بٹن کھولنے کے بعد میں سائیڈ پر آگیا ۔۔۔۔۔اور پہلے اس کا کہ لہنگا اور پینٹی مکمل طور پر اتاری ۔۔اور پھر خود کی پینٹ اور انڈروئیر بھی اتار دیا ۔۔۔اور ساتھ ہی مینا کماری کو خود سے لپٹا لیا ۔۔۔ہم دونوں مکمل ننگے ہو چکےتھے ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں مل رہے تھے ۔۔۔۔میں کروٹیں بدلتا ہوا گھومتا جا رہا تھا ۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے بھی پکار دے دی تھی ۔۔۔۔۔وہ سخت اور لمبائی میں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور مینا کماری کی چوت سے ٹچ ہوتا ہوا پیچھے کو نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی کروٹ بدلتا رہا ۔۔۔۔ہم دونوں کے بدن ایکدوسرے سے ٹکرا کر عجیب سی لذ ت محسوس کر رہے تھے ۔۔۔۔اس کی ٹانگیں آپس میں جڑتی ہوئی میرے ہتھیار کو دبوچنے کی کوشش کرنے لگتی ۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے بیڈ کے درمیان آ گیا۔۔۔اور اٹھتے ہوئے اس کی چوت کو دیکھا ۔۔۔پانی باہر چمک رہا تھا ۔۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینےسے لگائی تھی ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کی ٹانگوں کی گرفت نے ہتھیار کی چوڑائی بھانپ لی تھی ۔۔۔۔۔تبھی اس نے ہلکے سے کہا کہ پلیز اسٹارٹ سلو ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے اوپر رگڑتے ہوئے مینا کماری کو دیکھا تھا ۔۔وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے زور دیتے ہوئے ٹوپے کودھکا دیا ۔۔۔چوت کے لبوں کے درمیان سے ٹوپا اوپر کو سلپ ہوا تھا ۔۔۔۔۔چوت کافی تنگ تھی ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ٹوپے کو چوت پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔میرا دوسرا ہاتھ چوت کے اوپری حصے کا تیزی سے مساج کر رہا تھا ۔۔چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جاپھنسا ۔۔۔۔۔مینا کے منہ سے ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔اوئی ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا دباؤ اور بڑھایا اور ٹوپے کے ساتھ دو انچ اندر ہو گیا ۔۔۔۔ہتھیار کی چوڑائی کے مطابق چوت جتنی دائیں بائیں سے پھنسی ہوئی تھی ۔۔اتنی ہی موٹائی نے بھی اوپر اور نیچے کی طرف زور ڈالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔سس ۔۔۔آہ۔۔۔سس۔۔میں نے دوبارہ دباؤ بڑھا اور آدھےہتھیار کو اندر پہنچا دیا ۔۔۔۔مینا کماری ایکدم سی چیخی تھی ۔۔۔۔۔۔اور مجھے رکنے کا کہا تھا۔۔۔اس نے سر اٹھا کر ہتھیار دیکھا جو ابھی بھی آدھا باہر تھا۔۔۔۔اور جڑ کے قریب کی موٹائی اس سے بھی زیادہ تھی ۔۔۔۔میناکماری نے اپنے ہونٹ پر زبان پھیری اور سر نیچے رکھ دیا۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ہلنا شرو ع کر دیا ۔۔۔باہر نکال کر دوبارہ اندر کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت تحاشا پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔میں آدھے ہتھیار کو ہی آگے پیچھے دھکیلنے لگا ۔۔۔میناکماری کی کراہیں ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔آنکھیں بند کئے ہوئے اس کے ہونٹ اب بھی سس۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔کی دلکش آوازیں نکال رہے تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی ہلکے دھکے دیتا رہا ۔۔۔مینا کے ممے بھی باؤنس ہونے میں دیر نہیں لگا رہے تھے ۔۔دھکوں کے ساتھ ردھم میں تھے ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگوں کے درمیان سے اٹھتے ہوئے آگے کو جھکنے لگاتھا ۔اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اور اوپر سینے سے لگا دیا ۔۔اس طرح اس کو چوتڑ بھی بیڈ سے اوپراٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔اور اب جھٹکے پیچھے سے آگے نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف لگ رہے تھے ۔۔میں ہاتھ اس کے دائیں بائیں رکھ کر گہرے اسٹروک مار رہا تھا ۔۔۔۔۔اور انہیں جھٹکوںمیں ہتھیار نے مزید اندر گھس کر تباہی مچائی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اس وقت پتا چلا جب مینا کماری تیز آواز میں چیخی۔۔۔آہ۔۔۔اوئی بھگوان۔۔۔۔۔آہ۔۔مرگئی ۔۔۔۔میں تھوڑا رک کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔وہ کچھ شانت ہوئی تو دوبارہ سے سواری شروع کی ۔۔۔اگلے دو منٹ میں اس نے ہار مان لی تھی ۔۔۔اور پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔میں نے دو چار جھٹکے اور مار ے ۔۔پھر اس نے مجھے روک دیا ۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لئے لیٹا تھا ۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک ویسے ہی تنا ہو اتھا۔۔۔۔۔۔مینا کماری اٹھتی ہوئی میرے اوپر آئی ۔۔۔اورہتھیار کو آگے کرتی ہوئی میری ٹانگوں پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔میرے چہرے کو چومنے کے بعد نیچے متوجہ ہوئی جہاں ہتھیار اس کے مموں سے ٹکرا رہا تھا۔۔۔۔ایک طرف نرم گول ممے تھے ۔۔۔دوسری طرف سختی سے تنا ہوا ایک مضبوط راڈ تھا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے اسے اپنے مموں کے درمیاں دبانے کی کوشش کی ۔۔۔اور مموں کو اس پر اوپر نیچے حرکت کرنے لگی ۔۔۔میں دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے اس دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر ایسے کرنے کے بعد اس نےہتھیار کو چاٹا تھا ۔۔چاروں طرف سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد وہ اٹھی ۔۔اور ہتھیار کی سیدھ میں آتے ہوئے بیٹھنے لگی ۔۔۔۔دونوں پیر میرے دائیں بائیں جمے ہوئےتھے ۔۔اور وہ آہستگی سے بیٹھتی ہوئی نیچے آنے لگی ۔۔۔۔میں نے بھی پیر بیڈ پر رکھ کر گھٹنے اٹھا دیئے تھے ۔۔۔۔۔وہ ٹوپے کی نوک پر آ کر تھوڑی رکی اور پھر بیٹھی ۔۔۔ٹوپے بغیر رکاوٹ کے اندر گھسا تھا ۔۔۔۔مینا کماری کے چہرے کے نقش تبدیل ہوئے تھے ۔۔۔اس کے ایک ہاتھ ہتھیار کی شافٹ پر تھا ۔۔۔جسے آہستہ آہستہ وہ نیچے لے جاتی ہوئی ہتھیار کو اندر لے رہی تھی ۔۔۔میں سکون سے لیٹا اس کی حرکت دیکھ رہاتھا۔۔۔۔آدھے ہتھیار لینے کے بعد اس نے گہرا سانس لیا ۔۔۔مجھے دیکھا اور اٹھتی ہوئی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ہلنے کے بعد آگے کو آئی میرے پیٹ پر بیٹھتی ہوئی آگے کو جھکی تھی ۔۔۔۔پیچھے سے اس کے چوتڑ فل گولائی میں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میرے منہ کو چومتی ہوئی کہنی میرے دائی بائیں ٹکائی تھی ۔۔نرم اور گرم ممے میرے سینے سے ٹکرائے ۔۔۔۔اور پھر صرف اپنی کمر کو حرکت دینےلگی ۔۔۔۔گھٹنے اس نے پہلے ہی بیڈ پر ٹکا دیے تھے ۔۔۔۔۔پیچھے اس کی صحت مند رانیں اور چوتڑ آہستگی سے اوپر نیچے ہو نے لگے ۔۔۔اور گول مٹول سے ممے سینے پر دبنے لگے تھے ۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری کے نرم ہونٹ میرے ہونٹ سےٹکرا نے لگے ۔۔میں نے اس کے چوتڑ پر ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے بیٹھنے میں مدد کرنے لگا۔۔اس کی نرم نرم اور گیلی سسکاریاں میرے منہ پر چھوٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے پیر جما کر کمر کو اچھالا تھا ۔۔۔ہتھیار اپنی پور ی طاقت سے اندر گھسا تھا ۔۔۔مینا کماری پھر سے چیخی ۔۔۔اور مجھ پر ڈھے گئی ۔۔۔اس کے بعد میں دھکے پر دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔وہ میرے اوپر اچھلتی رہی ۔۔۔وہ اٹھ کر کھڑی سی ہونے لگی تھی ۔۔میں نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود سے چمٹا دیا۔۔نیچے سے دھکے ویسی تیزی سے جاری تھے ۔۔۔۔۔میناکماری کی سسکاری اور آہیں پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹ کو چومنے کی کوشش کی ۔۔مینا کماری یہ دیکھ کر جھکی اور ہونٹ کو تیزی سے چوسنے لگی ۔۔۔۔اس کے چوسنا کاٹنے کے برابر تھا۔۔۔۔میرے چہرے پر گیلا پن بڑھتا جار ہا تھا ۔۔جو اسی کے تھوک کا تھا ۔۔۔۔۔ہونٹ چومنے کے ساتھ وہ پورے چہرے کو بھی چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔میرا دھکے تیز ہوئے ۔۔۔اس کی آہ ۔۔۔او ہ۔۔۔۔اف۔۔۔سس ۔۔بھی بڑھنے لگی ۔۔۔نیچے سے بیڈ کی دھپ دھپ بھی جاری تھی ۔۔پورا ہتھیار اس کے اندر سمایا ہوا تھا ۔۔۔آدھے کے قریب باہر آتا اور پھر بجلی کی تیزی سے اندر لپکتا ۔۔۔۔۔میں نے اگلے تین چار منٹ تیز دھکے مارے تھے ۔۔۔۔مینا کماری کے کس بل ڈھیلے ہو گئے تھے ۔۔میں نے اپنا بازو کھولا تو وہ میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر سیدھی ہوئی ۔۔۔ممے قید سے چھوڑ کر تیزی سے اوپر نیچے اچھلے ۔۔۔میں نے آہستہ سے اسپیڈ کم کرتے ہوئے رک گیا ۔۔۔۔بیڈ کے درمیان تین چار تکیے رکھتے ہوئے اسے اوندھا لٹا دیا ۔۔تکئے اس کے پیٹ اور چوت کی طرف تھے ۔۔۔اور اسے کافی اونچا اٹھا دیا تھا ۔۔اس کی ٹانگیں جڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور گول مٹول چوتڑ آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔سر اور اگلا حصہ نیچے بیڈ پر تھے ۔۔میں پیچھے سے آیا تھا ۔۔کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ٹوپے کو اندر بھیجا ۔۔۔۔چوت پر ٹکنے کے بعد دھکا پڑا تھا ۔۔۔مینا کماری کا جسم آگے کو لپکا تھا ۔۔میں نے سمبھال کر واپس کھینچا اور دوسرا دھکے نے ہتھیار کو پورا اندر پہنچا دیا ۔۔۔میناکماری چلائی تھی ۔۔۔آہ ۔۔۔آئی۔۔۔۔سس۔۔۔میں نے ان سنی کرتے ہوئے تھے جھٹکے تیز کر دیئے ۔۔۔میرا ٹوکن ٹائم شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔جھٹکے تیز ہوئے تھے ۔۔۔اور پھر اور تیز ۔۔۔مینا کماری اوندھی ہوئی کراہتی اور سسکیاں لیتی رہی تھی ۔۔کمرے میں میری دھپ دھپ کے ساتھ اس کی آہ۔۔اوہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔گونج رہی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے اورتیز ہوئے تھے ۔۔۔۔اور اگلی اسپیڈ طوفانی تھی۔۔۔مینا کماری کا پورا جسم لرزنے لگا تھا ۔۔سر سے لے کر پیر تک جسم کی ہر چیز حرکت میں آگئی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر میری غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔ہتھیار اور اسپیڈ پکڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔سسکیاں اور آہیں اور تیز گونجنے لگی ۔۔۔۔مینا کماری پھر سے چھوٹنے والی تھی ۔۔۔اور پھر ایک تیز غراہٹ کیساتھ میرا فوارہ چھوٹا تھا۔۔۔۔جو سیدھا اس کی چوت میں بھاگتا گیا ۔۔اور واپس مینا کماری کے پانی کے ساتھ آیا ۔۔۔۔۔اس کی چوت میں پانی کاطوفان بھرنے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے اگلے جھٹکوں میں پانی کا آخری قطرہ بھی اندر ہی نکالا ۔۔۔مینا کماری گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔میں کروٹ لے کر سائیڈ پر گرا تو اس کا چہرہ لال سرخ اور پسینے میں شرابور تھا ۔۔۔تکیہ سائیڈ پر نکالتی ہوئی وہ میرے برابر میں لیٹی ۔۔۔۔اور پھر مجھ سے لپٹتی چلی گئی ۔۔۔۔رات آدھی سے زیادہ ہو چلی تھی ۔۔۔۔میناکماری نے کہا کہ یہیں سو جاؤ ۔۔۔اور کچھ دیر میں ہم نیند کی وادیوں میں چلے گئے ۔۔۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭