Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

دل پہ لگے زخم

Desi Gujjar

Well-known member
Joined
Jun 24, 2023
Messages
58
Reaction score
884
Points
83
Location
Lahore Pakistan
Offline
دل پہ لگے زخم
قسط: 01

”بولو! میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے ؟ کہاں گئی تھی تم ؟“
زارا اس کے اچانک استفسار پر بوکھلا سی گئی۔ وہ اندر داخل ہوئی تو زبیر نے دروازہ بند کرتے ہی اس کے ہاتھ کو دبوچ لیا ۔اس کی سخت گرفت اُسے اذیت دینے لگی تو اس نے آنسوؤں کے درمیان کہا۔
”زبیر چھوڑیں میرا ہاتھ ۔مجھے درد ہو رہا ہے ۔”
اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش میں اس کے ہاتھ پر پھر ایک نئے زخم کا اضافہ ہوا تھا۔آنسوؤں کے قطرے موتیوں کی شکل میں اس کی آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہہ رہے تھے۔
”کچھ پوچھا ہے تم سے ، بتاؤ مجھے کہاں گئی تھی؟ “
زبیر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے آنکھوں میں بے پناہ غصّہ اور حقارت لیے بولا۔
زارا کی حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر بمشکل مزید چیخ کو باہر آنے سے روکا۔
اسے خاموش دیکھ کر زبیر نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑ دیا اور ڈگ بھرتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا جبکہ زارا وہیں بیٹھتی چلی گئی۔ روز روز کی اذیت اُسے موت کی طرف دھکیل رہی تھی اور وہ اس تکلیف کو سہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ زبیر احمد سے اس کی شادی کو چھ ماہ ہی ہوئے تھے ۔پہلے دن سے ہی وہ اس پر شک کرتا‘ اسے مارتا پیٹتا ‘ کسی سے بات کرتا دیکھ کے اس سے طرح طرح کے سوال کرتا اور وہ رونے دھونے اور اپنے نا کردہ گناہوں کی معافی مانگنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی ۔اس بھری دنیا میں فی الحال وہ ہی اس کا واحد سہارا تھا لیکن کب تک وہ اس کے دیے زخموں کو برداشت کرسکتی تھی۔ کبھی نہ کبھی تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا۔
زارا ، عباس مرزا کی اکلوتی بیٹی تھی اس کی ماں رقیہ عباس اس کی پیدائش کے وقت دنیا سے چل بسی تھیں۔ اس کی پرورش عباس مرزا نے بڑے انوکھے انداز میں کی۔ اسے ایک کانٹا بھی چبھ جاتا تو وہ پریشان ہوجاتے اور اس کی ناز نخرے اٹھاتے مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس کے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ بھی اس خاکی دُنیا سے رُخصت ہوگئے اور زارا بے چاری اس مطلبی دُنیا میں اکیلی رہ گئی ۔ بڑی پھپھو سے کئی سالوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ شاید پردیس جاکے وہ انھیں بھول گئی تھیں جبکہ اس کی چھوٹی پھوپھو نے پہلے تو اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا پھر اس کے بابا کی ساری دولت خود سمیٹ کر اس بے چاری کے ساتھ نوکروں سے بھی بدتر سلوک کیا ۔وہ اس سے گھر کے سارے کام کروانے کے باوجود بھی رات دن اسے لعن طعن کرتیں اور ایک دن اسے زبیر احمد کے ساتھ نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جو اس سے عمر میں کافی بڑا اور سخت گیر تھا اس طرح انھیں اس بوجھ سے بھی چھٹکارہ مل گیا۔
★★★★★

کچھ دیر وہاں بیٹھ کر رونے کے بعد جب وہ تھک گئی تو آنسو پونچھتی اٹھ گئی اور کچن میں چلی آئی ۔اب اسے رات کے کھانے کی تیاری کرنی تھی۔ بازوؤں پر ناخن لگنے کے باعث اس جگہ سے خون رس کر جم چکا تھا اُسے اپنے اس زندگی سے بہت سے شکوے تھے مگر وہ بے بس تھی ۔ زبیر جیسے شوہر کے ساتھ رہنا نہایت ہی مشکل تھا جو ذہنی عارضے کا شکار تھا لیکن اس کے علاوہ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔اس کی چھوٹی پھو پھو جان نے زندگی اس پر تنگ کردی تھی۔ وہ یہاں سے کس کے پاس جاتی ۔اب رشتے دار کے نام پر بس ایک پھوپھی بچی تھیں جو اس کے حال سے ناواقف تھیں اور اس وقت بیرون ملک میں مقیم تھیں ۔جنھیں اس نے اپنے والد کی زندگی میں دیکھا تھا۔ یتیمی نے وہ سارے رشتے ختم کردیے تھے۔ وہ یہی سوچ کے رہ جاتی تھی کہ جس کے ماں باپ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو پیچھے کچھ نہیں بچتا اور یتیمی نے اس سے بھی جینے کا حق چھین لیا تھا۔ وہ اس بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی تھی۔
کھانا تیار کرکے ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ زبیر کا انتظار کرنے لگی۔ وہ سارا دن جہاں بھی رہے رات کے وقت لوٹ آتا تھا ۔ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ نارمل انداز میں بات کرتا تھا ورنہ زیادہ تر وہ غصّے کی حالت میں ہی پایا جاتا تھا ۔
صبح پڑوس میں صاعقہ خالہ کی طبعیت کافی بگڑ گئی تھی اور ان کا پوتا اسے بلانے آیا تو وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ان کی طرف چلی گئی تھی ۔اس نے تو ایک بھلائی کی تھی لیکن وہ بھلائی اس پر بھاری پڑگئی ۔ زبیر نے اچانک چلانے پر وہ اتنا ڈر گئی کہ وہ بتا ہی نہیں پائی کہ وہ ایک بیمار کی عیادت کے لیے گئی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ سوچوں کے یلغار سے باہر نکل آئی اور جلدی سے جا کر دروازہ کھول دیا ۔
ایک ہاتھ میں جیکٹ لیے زبیر لڑکھڑاتے ہوئے اسے سامنے سے ہٹاتے اندر داخل ہوا ۔
زارا بے بسی سے لب کانٹتے رہ گئی پھر دروازہ بند کرتی وہ اس کے پیچھے چلی آئی ۔وہ آج پھر سے نشے میں دھت آیا تھا۔ اس نے بچپن میں سنا تھا کہ نشہ کرنا حرام ہے۔قبل از اسلام لوگ بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے اس میں ایک حرام کام نشہ کرنا تھا لیکن اسلام نے تمام بُری باتوں سے مسلمانوں کو باز رہنے کا حکم دیا ۔ہر اس شئے کے قریب جانے سے منع کردیا جس سے بہکنے کا اندیشہ ہو۔
مگر اسے ایک ایسا ہمسفر ملا تھا جو آئے روز نشے کی حالت میں گھر آتا تھا اور اس پر ہاتھ اٹھاتا تھا ۔ہر لڑکی کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کا شوہر اس کا محافظ اس کا خیال رکھے ۔اس کے لاڈ اٹھائے اور سب سے بڑھ کر دین کا پیروکار ہو۔ مگر اس کی یہ خواہش کانچ کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی تھی ۔وہ اپنے رب کی ناشکری کرنے والوں میں سے نہیں تھی ۔وہ اس آزمائش میں کھری اترنے کی اپنی پوری کوشش کرتی تھی۔
★★★★★

پورا دن کام کرکے اس کی ہمت جواب دینے لگی۔ دُھلے کپڑوں کو سمیٹ کر وہ کھڑکی کے قریب چلی آئی ۔بہار کے اس موسم میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ٹھنڈی ہوائیں چلنے کی وجہ سے موسم خوشگوار ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے اندر ایک عجیب سی اداسی تھی۔
جب دل اندر سے زخمی ہو اور اندر کا موسم خار دار ہو تو باہر کی رنگینیاں بھی انسان کے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں لاتی ہے اور اس نے تو کتنے دُکھ جھیلے تھے اس نے دکھی دل سے سوچا۔
دو دن کے لیے زبیر شہر سے باہر گیا ہوا تھا اس کے جاتے ہی چار کمروں کا یہ مکان اسے کسی آسیب کی طرح خوف زدہ کرنے لگا۔
وہ تنہائی کا شکار تھی اور اس تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ اپنے ساتھ کوئی ملازمہ بھی نہیں رکھ سکتی تھی کیوں کہ زبیر کو پسند نہیں تھا۔
وہ بے دلی سے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلی آئی ۔دھلے کپڑے تہ کرکے الماری میں رکھے اور کھانا کھا کر لیٹ گئی لیکن نیند کسی روٹھی محبوبہ کی طرح اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ پوری رات کروٹیں بدلتے گزر گئی ۔ جب زبیر ہوتا تھا تو کم از کم وہ سو تو جاتی تھی لیکن اس کی غیر موجودگی میں اسے اکیلے گھر سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔
فجر کے وقت نماز پڑھنے کے بعد وہ کام سے جلدی فارغ ہوئی اور کھڑکی کے سامنے آ کے بیٹھ گئی ۔ نیند نہ آنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ بمشکل ایک دو گھنٹے ہی سو پائی تھی اور آج تو وہ نیند میں ڈر گئی تھی کوئی اُسے پُکار رہا تھا مگر پورا گھر خالی پڑا تھا ۔
وہ باہر کھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر وہاں کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جو بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے جلدی سے اپنی نظریں جُھکا لی جب مسلسل خود پر اس کی نظروں کی تپش محسوس کرنے لگی تو وہ وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
”پتہ نہیں وہ مجھے کیوں گھور رہا تھا ۔اگر زبیر دیکھ لیتے تو پھر سے ایک نیا تماشہ لگ جاتا ۔۔“
یہ سوچ کر ہی اسے جھر جُھری آگئی۔
” زبیر آگئے تو پھر سے وہی رویہ.......! “ وہ اس کے اگے کچھ سوچنا اسے اداس کر دیتا تھا۔ ہر اُس سوچ سے کنارہ چاہتی تھی جو اس کے زخموں پر نمک کام کرے ۔
رات میں زبیر نے کال کر کے بتایا کہ وہ مزید کچھ دن نہیں آ پائے گا اس کی غیر موجودگی میں وہ گھر سے کہیں باہر نہ نکلے اور نہ کسی سے بات نہ کرے ۔
اس کی باتیں اسے چابک کی طرح لگی تھیں جسے سننتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
اُسے اپنی ناقدری پر رہ رہ کر رونا آتا تھا۔ وہ سوچتی تھی کہ جس طرح بچے رو دھو کر ،ضد کرکے اپنی بات منوا لیتے ہیں کاش وہ بھی رو کر ضد کرکے زبیر کو اپنے ہونے کا احساس دلا سکے۔ لیکن اس کے بے شمار آنسو بھی اس پتھر صفت آدمی کے دل کو موم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے ورنہ وہ اُس پر اس طرح ظلم نہیں کرتا ۔اس نے اس کی ہر بات مانی تھی۔ خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا لیکن اتنے مہینوں میں وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ آخر وہ ایسا کیوں ہے ۔ زبیر کے اس رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے اور ان سب میں اس کی کیا غلطی ہے۔
وہ ہر لحاظ سے خوبصورت تھی ایک سلیقہ شعار، وفا دار ۔شادابی رنگت کی حامل لڑکی۔اس کے بُھورے لمبے ریشمی بال کمر سے نیچے تک آتے تھے ۔اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جو بنا میک اپ کے بنا بھی بلا کی حسین تھیں ۔اگر کوئی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا تو اس کا دیوانہ ہوجاتا۔
ان سب کے علاوہ وہ نرم دل تھی ۔دوسروں سے محبت کرنے والی ،ان کی تکلیف میں رو دینے والی پھر اسے زبیر جیسا ساتھی کیوں ملا تھا جسے اس کی قدر ہی نہیں تھی ۔
اب اگر کوئی روح تک رسائی حاصل کرتا تو اس کے دل میں چُھپے دکھوں کا یہ محل دیکھ کر ایک بار ضرور اشک بار ہوتا ۔
★★★★★

وہ کچن میں کھڑی جلدی جلدی پین کیک بنا رہی تھی جب دروازے پر بیل ہوئی ۔
” اس وقت کون ہوگا؟“ اس نے دل میں سوچا۔ دوبارہ بیل کی آواز سنتے ہی اس نے جلدی سے کیک کو اوون میں ڈالا ۔ٹائم سیٹ کرکے وہ تیزی سے کچن سے نکل کر تقریبآ بھاگتی ہوئی دروازے تک آئی ۔
"کون.......کون ہے ؟ "
اس نے دو بار پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ آنے والا جیسے گونگا تھا۔ وہ اندر ہی اندر ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں کوئی چوراچکا تو نہیں ۔
”بولتے کیوں نہیں......کون ہے دروازے پر ؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
" آپ کا نیا ہمسایہ....!!“
فون پر بات کرتا لڑکے نے موبائل کو ٹراؤزر کی جیب میں اڑستے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا جبکہ زارا مردانہ آواز سن کے حیران ہوئی ۔
"دیکھیں! آپ جو کوئی بھی ہیں مہربانی کرکے یہاں سے چلے جائیں۔"
وہ کسی انجان آدمی کے ساتھ نرمی برتنا نہیں چاہتی تھی ۔اس لیے اس نے رعب دار اور کھردرے لہجے میں کہا۔
”ارے ایک بار میری بات تو سن لیں ۔ آپ کیسی بے مروت ہیں۔ میری بات سُنے بغیر ہی مجھے یہاں سے چلتا کر رہی ہیں..... اور آپ جب تک میری بات نہیں سُن لیتی ہیں میں یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔“
مقابل نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ارادے سے اسے آگاہ کیا۔
”عجیب مصیبت ہے..... اگر زبیر آگئے اور اسے گھر کے باہر دیکھ لیا تو انھیں مجھ پر شک کرنے کا نیا بہانہ مل جائے گا۔“
وہ بڑ بڑانے لگی۔
”دیکھیں مسٹر.....! میں اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں ایسے کسی پر یقین نہیں کرسکتی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں ۔ جب وہ آئیں تو آپ مل لینا۔“
اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
” ارے میں آپ کے شوہر سے بات کرنے یا راہ و رسم بڑھانے نہیں آیا اور میں خود بھی آپ کو تنگ نہیں کرتا محترمہ!! لیکن میں چائے بنانے لگا تھا اور دودھ ختم ہوگیا ہے ۔میں دو دن پہلے ہی یہاں رہنے آیا ہوں مجھے اس جگہے کا کچھ خاص آتا پتا نہیں ہے اس لیے آپ مجھے تھوڑا سا دودھ ادھار دے دیں ۔میں لوٹا دوں گا پکا۔“
اس نے بولنا شروع کیا تو بنا بریک کے بولتا چلا گیا ۔
وہ پوری کہانی سُننے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھی اس نے دروازے کو کھول کر اپنا چہرہ باہر نکالا اور اس کا سر تا پیر جائزہ لینے لگی۔ جو رف سی ٹی شرٹ اور بیلو جینز میں تھا۔ یہ وہی شخص تھا جسے وہ کل بچوں کے ساتھ کھڑا دیکھ چکی تھی۔
” سوری!! دودھ ختم ہوگیا ہے۔ " اس نے دروازہ اس کے منہ پر بند کرنا چاہا لیکن سامنے کھڑے نوجوان نے اپنا بازو دروازے کے درمیان حائل کرکے دروازہ بند ہونے سے روک دیا ۔
"آپ اس طرح منع نہیں کرسکتی جبکہ میں نے کہا بھی ہے کہ میں آپ کو لوٹا دوں گا۔"
اس نے برہم ہوکے کہا جیسے وہ رکھتے ہوئے جھوٹ بول رہی ہو۔
وہ واقعی ڈھیٹ تھا وہاں سے ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ جتنا چاہتی تھی کہ اسے جلدی سے فارغ کرے اتنا ہی وہ یہاں ڈٹ کر بحث کرنے پر اتر آیا تھا۔
اس نے سامنے کھڑے شخص کو گُھوری سے نوازا پھر بنا کچھ کہے اندر چلی گئی ۔
"عجیب لڑکی ہے ہمسایہ مدد مانگنے آیا ہے ۔وہ بھی ادھار.......لڑنے ہی لگ گئی۔“
اس نے خود کلامی کی اور اس کا آنے کا انتظار کرنے لگا ۔
کچھ دیر بعد جب لوٹی تو اس کے ہاتھ میں چائے کا ایک کپ تھا ۔ وہ اسے تھماتے ہوئے باور کرنے لگی۔
”اسے لو اور آئندہ اپنی شکل مت دکھانا۔"
اس نے کہتے ساتھ ہی زور سے دروازہ اس کے منہ پر بند کردیا۔
یہ سراسر اس کی بے عزتی تھی اور بہت ڈھٹائی سے کی گئی تھی۔
”شیرنی نہ ہو تو.....ہونہہ۔
چائے پینی نہ ہوتی تو میں اس بدتمیز کے منہ ہی نہ لگتا ۔کیسے لوگ بستے ہیں یہاں ہمارے گھر کوئی آئے تو ہم مہمانوں اور ہمسائے کی ایسی خاطر داری کرتے ہیں کہ ان کی سات نسلیں یاد رکھیں۔ چائے اور کھانا کھلا کے بھیجتے ہیں۔ مگر یہ توبہ ہے قسم سے ۔“ وہ اپنی تذلیل پر بڑبڑاتے ہوئے اپنے گھر کی سمت چل دیا جبکہ اس مصیبت سے جان چھوٹنے پر زارا کی جان میں جان آئی تھی۔
" شکر ہے چلا گیا ۔ پتا نہیں کہاں سے آگیا تھا۔“ ایک گہرا سانس خارج کرتے اس نے خود کلامی کی۔
اس نے اپنے لیے جو چائے بنائی تھی وہ بھی اب اُسے دے چکی تھی۔ اس کے نان اسٹاپ بولنے پر وہ حیران بھی ہوئی تھی۔ پتا نہیں کیا کھا کے آیا تھا کہ ایک بار بولنا شروع کیا تو پھر بولتا ہی چلا گیا ۔
انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ عجیب سی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور وہ تقریباً اچھل پڑی۔ تیزی سے کچن میں آتے ہی اس نے اوؤن بند کر دیا اور پین نکال کے دیکھا تو پورا کیک جل گیا تھا۔
”لگتا ہے کوئی جن بھوت ہی تھا۔ “
پہلے چائے اور اب کیک سے ہاتھ دھونے پر اسے جن بھوت کے القاب سے نوازتی وہ بے دلی سے اس جلے کیک کو اُٹھا کے کھڑکی کے قریب لے آئی تاکہ چڑیوں کا کھانا بن سکے لیکن شاید ہی وہ اسے کھاتیں۔
”اب میں کیا کھاؤں؟“ صبح سے بھوک کی شدت سے بے حال تھی اس وقت اسے حقیقتا رونا آیا ۔
اتنے دنوں بعد وہ اپنی پسند کا کچھ بنا رہی تھی اور وہ بھی جل گیا تھا۔ بھوک کے مارے اس کے پیٹ میں چوہے کودنے لگیں۔
وہ اسنیک وغیرہ ڈھونڈنے کی نیت سے واپس کچن میں آئی مگر سب کچھ خالی پڑا تھا۔ کچھ دیر کی تلاشی کے بعد اسے ایک برنی میں چند بسکٹ ہی ملے تھے۔
وہ وہیں میز پر چڑھ کے بیٹھ گئی اور انھیں ہی کھانے لگی تاکہ بھوک میں کچھ افاقہ ہو۔
گھر کا سودا ختم ہوگیا تھا اور زبیر اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ ناجانے وہ کب آتا۔ وہ باہر کسی کام سے جاتا تھا تو واپس کئی کئی دنوں بعد ہی لوٹتا تھا۔ اس کے پاس کچھ پیسے تھے لیکن خریداری کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا اور وہ اکیلے جانے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
”اب میں کیا کروں ؟“
اس نے شہادت کی انگلی گال پر دھرے سوچا اور زبیر سے بات کرنے کے ارادے سے لاؤنج کی جانب بڑھ گئی۔ گھر میں لگے لینڈ لائن کا ریسور اٹھا کے اس کا نمبر ملانے کے دوران اپنے ذہن میں الفاظ کو ترتیب دینے لگی کہ اسے کیا کہنا ہے۔
”کچھ بولو گی یا میرا وقت برباد کرنے کےلیے فون کیا ہے؟“

جاری ہے......
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top