Story Lover
VIP+
Offline
- Thread Author
- #1
میری پیاری سہیلی کلثوم بہت دنوں بعد ملنے آئی، تو میں نے پوچھا، اتنے دنوں بعد کم کو ہماری یاد کیے آگئی؟ کہنے لگی، تم سے ملنے کو بہت دل تھا، مگر تم ایسی غائب ہو گئیں کہ کئی ماہ تک تمہاری خبر تک نہ ملی۔ کچھ میں بھی مصروف تھی، اب بھی تمہارے لیے پیغام لے کر آئی ہوں۔یہ کہہ کر اس نے ایک نیلے رنگ کا لفافہ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے لفافے پر پتا دیکھا، ہمارے پرانے محلے کا تھا اور یہ محلہ ڈیڑھ سال قبل میں چھوڑ آئی تھی۔ یہ خط مجھے میری پرانی دوست تیر نے لکھا تھا۔ کلثوم کچھ دیر بیٹھ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد لفافہ کھولا اور خط پڑھنے لگی۔
پہلی سطر پڑھ کر میں مسکرا دی لیکن اگلی سطریں میرے حواس پر بجلی بن کر گریں۔ اس نے لکھا: صنوبر! کیا تمہیں پتا ہے کہ امجد نے تمہاری وجہ سے اس دنیا سے منہ موڑ لیا ہے؟میں! یہ نہیں ہو سکتا۔ بے اختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔ آگے لکھا تھا:اس بیچارے کی موت کی ذمہ دار تم ہو، کیونکہ ان دنوں جب اس کی ماں حج کرنے آئی تھیں، تب اس نے تمہارا حال احوال پوچھا تو اس کی ماں نے کہا کہ وہ تو اپنے گھر میں بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش باش ہے۔ تبھی امجد نے سوال کیا: اپنے گھر سے کیا مطلب، امی جان؟’ یعنی اپنے ماں باپ کے گھر؟ ‘نہیں، اپنے سسرال، اپنے خاوند کے گھر۔’ اس کی ماں نے اس پر اچھی طرح واضح کر دیا کہ صنوبر نے ایک آفیسر سے شادی کر لی ہے اور اس کا شوہر اچھا ہے، جس نے اس کی پہلے شوہر سے دو بچیوں کو بھی قبول کر کے اپنے ساتھ رکھ لیا ہے۔ پھر امجد سے کہا کہ: بیٹا، وہ مطلقہ عورت تھی، زمانہ دیکھ چکی تھی، تمہیں اس سے وفا کی امید نہ رکھنی چاہیے تھی۔ تم نے خواہ مخواہ اس کے پیچھے اپنا وقت برباد کیا۔ آگے لکھا تھا:شام کو امجد میری طرف آیا تو وہ بہت آزردہ تھا۔ اس نے مجھے کہا:بھابھی، صنوبر نے شادی کر لی ہے، کچھ آپ کو پتا ہے؟ اس خبر پر یقین تو مجھے بھی نہ آیا، مگر میں نے سوچا کہ یہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا، کیونکہ آج کے دور میں ہر بات ممکن ہے اور اپنوں سے بے وفائی بھی عین ممکن ہے۔ خیر، میں نے اس کو تسلی دی۔ تمہارے دولہا بھائی ارسلان جب رات کو آئے تو انہوں نے کافی سمجھایا، لیکن امجد کچھ نہیں بولا، بس خاموشی سے سنتا رہا، پھر اٹھ کر چلا گیا۔ صنوبر، امجد نے یہاں کسی لڑکی سے دوستی تو دور کی بات، کبھی نرمی سے بات بھی نہیں کی تھی۔اگلی صبح جب ارسلان آفس جانے کے لیے تیار ہوئے، تو فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون ریسیو کیا۔ دوسری طرف خالہ جان تھیں، وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ارسلان کو بلایا تھا۔ وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے بچوں کو ناشتہ دیا اور برتن سمیٹنے لگی کہ ارسلان کا فون آگیا۔ انہوں نے مجھے خالہ جان کی طرف آنے کو کہا اور تاکید کی کہ بچوں کو ساتھ نہ لاؤں، بلکہ آیا کے پاس چھوڑ آئوں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ امجد کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔ میں نے بمشکل خود کو سنبھالا اور خالہ جان کے فلیٹ پر پہنچی۔ وہ پاگلوں کی طرح دیوار سے سر ٹکرا رہی تھیں اور امجد بستر پر بے حس پڑا تھا۔ اس نے کوئی دوا کھائی اور وہ مر چکا تھا۔ تبھی ارسلان نے اسپتال میں دکھائے بغیر اپنے رشتہ دار ڈاکٹر سے ہارٹ فیل کی رپورٹ لکھوائی۔ ڈاکٹر نے ان پر اعتبار کر کے رپورٹ لکھ دی اور کہا: ‘ یہاں قانون بہت سخت ہے بہر حال، پھر اس کو یہاں سعودی عرب ہی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔صنوبر ! ہمیں پتا ہے امجد کتنا اچھا انسان تھا۔ تمہاری پہلی شادی کی بھی اس نے بہت مخالفت کی تھی اور اس مرتبہ تو تم نے خود اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ عرصے تک اس کو تسلی دیتی رہی تھیں، پھر ایک دم تم نے فیصلہ کیا اور دوسرے کنارے ہو گئیں۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کیا بنے گا؟ خیر، خدا تمہیں خوش رکھے۔ جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ بہت سی دعائیں، تمہاری دوست
نیئر کو کوئی جواب نہ دے سکی، کیونکہ اصل حقیقت سے آگاہ کرتی تو ایک محترم رشتہ دار ان کی نظروں سے گر جاتا اور وہ خالہ جان کی شخصیت کا وہ پہلو جس کو صرف میں جانتی تھی۔ کاش میں نیئر کو ہی نہیں، امجد کو بھی بتا سکتی کہ بے وفا میں نہیں، بلکہ کوئی اور ہے، اور وہ ہے خود اس کی اپنی ماں، مگر میں جب جیتے جی اس کو یہ نہ بتا سکی، تو مرنے کے بعد کیونکر بتا سکتی تھی۔
جس دن سے نیئر کا خط آیا تھا، مجھے کسی پل چین نہیں یہاں تک کہ میرا شریک حیات بھی مجھے سکون نہیں دے سکا تھا۔ چند دنوں سے ان کی ڈیوٹی کافی سخت تھی۔ وہ بارہ ایک بجے آتے اور آتے ہی سو جاتے اور میں تمام رات جاگتی رہتی۔ جو خود تھکا ہارا گھر آتا ، بھلا وہ کیا جانے اس کی شریک حیات کس حال میں ہے ؟ اس پر کیا گزرتی رہی ہے۔ وہ مجھے ٹائم ہی نہیں دے پارہے تھے اور میرے دل کا سکون کٹ گیا تھا۔ سیر و تفریح میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ ماضی کا درد بہت ستانے گا، تو قلم لے کر دل کی باتیں لکھنے بیٹھ گئی کیونکہ جب بات کہی نہ جاسکے ، تو دل کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے، یوں کہہ دینے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت جو میں تحریر کر رہی ہوں، سو فیصد سچ ہے۔ ایسا سچ ، جو کبھی میں امجد کو کو بتا سکی ، نہ نیئر کو جواب دے سکی اور نہ ہی اپنے محبوب شوہر کو بتا سکی حالانکہ میں نے اپنے شریک زندگی سے دل اور دنیا کی کوئی بات آج تک کبھی نہیں چھپائی تھی۔ آج آپ کو بتارہی ہوں کہ واقعہ کیا تھا۔
میری شادی بارہ سال کی عمر میں ہو گئی۔ شوہر مجھ سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ محلے داروں ، رشتے داروں نے کافی مخالفت کی ، مگر والدین نے دولت دیکھ کر رشتہ کی۔ اس پر رشتے داروں نے ہم سے قطع تعلق کر لیا، محلے والوں نے بھی ملنا چھوڑ دیا۔ خیر، میں نے تو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا اور چھی بات ہے ہے کہ میں اتنی کم سن تھی، کیا کسی سے کہتی اور کیا سمجھتی ۔ میری ایک سہیلی تھی، جس کا نام عفت تھا۔ ہمارا آپس میں بہت پیار تھا اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی رہتا تھا۔ عفت کا بھائی امجد اکثر پڑھائی میں ہم دونوں کی مدد کر تا تھا، یوں میرا اور مجد کاروزانه آمنا سامنا ہوتا تھا، کیونکہ ہمارے گھر پاس پاس تھے۔ مجھے خبر نہیں کہ امجد کے دل میں میرے لئے کیا جگه تھی۔ میں نے کہا کہ میں تو کم سن تھی، گردو پیش سے بے خبر لیکن جب میری شادی ہونے لگی تو امجد بہت مضطرب ہوا۔ اس نے اپنے گھر میں ہر ایک سے کہا کہ اس کے ماں باپ کو س ظلم سے روکو، یہ شادی نہیں ہونی چاہئے۔ صنوبر ابھی کم عمر ہے اور وہ شخص چالیس برس کا ہے ، مگر امجد کی بھلا کون سنتا جبکہ امی ابو نے میرے قریبی عزیزوں خالہ ، ماموں، چچا وغیرہ کی ایک نہ سنی اور میری شادی ہو گئی۔ سال بھر بعد ایک بچی کی ماں بھی بن گئی، حالانکہ میں اس وقت خود اتنی چھوٹی تھیکہ اپنی بچی کو بھی اٹھانا مجھے نہیں آتا تھا عفت سے اتنا پیار تھا کہ کچھ ہی دن بعد میں بچی کو لے کر ان کے گھر جا پہنچی۔ امجد بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے میری بچی کو اٹھا لیا اور بہت پیار کیا۔ وہ دونوں مجھ سے کافی دیر باتیں کرتے رہے اور ساتھ ہی مذاق بھی کرتے کہ ننھی منی اماں آگئی۔ بھئی، تمہاری بچی تو بہت پیاری ہے، اللہ میاں نے تم کو گڑیا دی ہے، اب اس سے کھیلا کرتی رہنا۔
اس طرح جب میں میکے آ کر عفت کے ہاں جاتی تو امجد بھی ملتا اور خوب باتیں شروع کر دیتا۔ ایک دن عفت اور میں نے چھانگا مانگا جانے کا پروگرام بنایا۔ ان دنوں آموں کا موسم تھا، ہم خوب سارے آم ساتھ لے گئے، برف کے کولر بھی بھر لیے تھے۔ امجد کو پتہ تھا کہ مجھے آم بہت پسند ہیں۔ وہ میرے آگے آم کھا کر گھٹلیاں پھینکتے جاتے تھے تاکہ میں بے چین ہو جاؤں، لیکن ہم سب ہنستے کھیلتے رہے اور مجھے اس کا اتنا برا نہ لگا۔
امجد کی چچازاد بہن میری دوست بھی تھی۔ اس کی شادی اس کے تایا کے بیٹے ارسلان سے ہو گئی، جو سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ انہوں نے پہلے نیئر اور پھر امجد کو بھی وہاں بلوالیا۔ ان ہی دنوں میرے خاوند کو امریکا کا ویزا مل گیا۔ وہ کہنے لگا، کیوں نہ وہاں پیر جما لوں ، پھر تم کو بلا لوں گا۔ مجھے گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ایک بچی کی ماں تھی اور دوبارہ امید سے تھی۔ امریکا جا کر مجاہد نے نیشنلٹی کی خاطر کسی امریکی لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ پانچ سال باہر رہے۔
میں لوگوں سے سنتی تھی کہ میرے شوہر نے وہاں شادی کر لی ہے، لیکن یقین نہیں کرتی تھی کیونکہ جب وہ یہاں تھے تو بہت پیار جتاتے تھے۔ مجھے تقریباً پورا پاکستان گھما دیا تھا، سوات، کاشان، گلگت، آزاد کشمیر، اور مختلف خوبصورت جگہوں پر لے گئے تھے، لیکن میں بے شعور تھی۔ ایسے سیر کرتی جیسے بچے بچیاں کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ میں شوہر کے جذبات کی طرف تو دھیان نہیں دیتی تھی۔ ان حسین جگہوں پر بھی میں خود کو تنہا محسوس کرتی تھی۔
میرے شوہر سے میری ہم عمروں والی دوستی نہیں ہو سکتی تھی۔ پانچ سال کے بعد جب میرے شوہر واپس آئے تو ہم کراچی شفٹ ہو گئے۔ وہ دو ماہ ساتھ رہے اور بالکل اچھی طرح رہنے لگے، لیکن جاتے ہوئے مجھے طلاق دے گئے اور کہا کہ شاید میں پھر نہ آ سکوں۔ بچیاں بھی انہوں نے مجھے دے دیں، یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ اپنی بچیوں کی خاطر میں نے لاہور جا کر نوکری کر لی۔ صبح میں اسکول پڑھانے جاتی اور شام کو ہیئر پارلر میں کورس کرتی۔
پارلر میں جو میری استاد تھیں، وہ امجد کی رشتہ دار خالہ بھی تھیں۔ ایک دن اچانک امجد اپنی خالہ سے ملنے آیا تو مجھ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ میرا حال جان کر اسے بہت افسوس ہوا۔ وہ اس وقت تو چلا گیا، لیکن گھر جا کر اپنی والدہ سے کہا کہمیں نے کہا تھا کہ اس بڈھے سے اس معصوم کی شادی نہ کرو۔ آخر وہی ہوا۔ دراصل وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ تو پہلے بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن اب جب کہ میں نامساعد حالات میں پوری طرح گھر چکی تھی اور دو بچیوں کا بوجھ بھی میرے کندھے پر تھا، تو اس نے مجھے حالات کے اس مشکل دور سے نکالنے کی ٹھان لی۔
امجد نے اپنی والدہ سے منت کی کہ میں صنوبر سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ رشتہ لے کر جائیے۔ مجھے تو ان باتوں کا بالکل پتا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی عفت نے کوئی اشارہ دیا تھا۔ میں نے بھی کبھی امجد کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ان دنوں میں بہت خوبصورت تھی، جب امجد نے ماں سے کہا۔ وہ نہ صرف خفا ہو گئیں بلکہ بیٹے کی ضد کی وجہ سے مجبور بھی ہو گئیں اور میرے پاس آئیں۔ پہلے تو انہوں نے مجھ سے طنزیہ باتیں کیں، لیکن جب میں نے اپنے بچوں کی قسم کھا کر یقین دلایا کہ میں امجد کو ہمیشہ بھائی جیسا سمجھتی رہی ہوں اور کبھی ان کے لئے میرے دل میں ایسا ویسا خیال نہیں آیا۔ اب اگر وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے یہ بھی کہا کہ میں نہ ہی امجد سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور نہ محبت کے چکر میں پڑنا چاہتی ہوں۔ میں دو بچیوں کی ماں ہوں، اور مجھے زیب نہیں دیتا کہ آپ کے کنوارے بیٹے سے شادی کی آرزو کروں۔میری باتوں میں چونکہ سچائی تھی، امجد کی والدہ کو یقین کرنا پڑا۔ پھر وہ بولیں، امجد اس وقت مجھ سے بہت اکھڑا ہوا ہے۔ اگر تم نے انکار کیا تو وہ واپس سعودی عرب نہیں جائے گا اور ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔ اس کی نوکری بھی چھین جائے گی، لہٰذا تم میرا ساتھ دو اور ہمیں تباہی سے بچانے کے لئے تھوڑا جھوٹ بول دو۔ تم ایسا کرو، امجد سے کہہ دو کہ میں دو سال تک تم سے شادی نہیں کر سکتی، تاکہ دو سال تک تم خوب کما لو، پھر میں تم سے شادی کروں گی۔
وہ مجھے اپنے گھر لے گئیں اور جو انہوں نے مجھے سکھایا، عفت، ان کی خاطر، میں نے امجد کے سامنے وہی بات کہہ دی کہ تم وہاں جاکر کام کرو، ابھی میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، دو سال بعد کروں گی۔ پھر امجد نے پوچھا، کیا تم مجھے خط لکھو گی؟ تو میں نے کہا، نہیں، مجھے خط لکھنا اچھا نہیں لگتا، اس لئے میں خط نہیں لکھوں گی۔ تم بھی مجھے خط نہ لکھنا۔ ہاں، اپنی امی کے خط میں میرے لئے جو چاہو لکھ دینا اور میرا حال احوال ان سے پوچھ لیا کرنا۔
امجد کی ماں درمیان میں پڑی تھی، لہٰذا اس کو میری باتوں کا یقین آ گیا اور وہ کمانے چلا گیا۔ اب اس کا جو بھی خط آ جاتا، اس میں میری اور اس کے درمیان کے تعلقات کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس نے وہاں سے میرے لئے کچھ تحفے بھی بھجوائے، لیکن میں نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ خیر، میں اپنی دوست کے ہاں رہنے لگی کیونکہ اس کی والدہ مجھے ہیئر پارلر کا کورس کرواتی تھیں اور یہ بیوٹی پارلر ان کا اپنا تھا۔
ایک دن مہوش میرے پاس آئی۔ وہ بہت پریشان تھی اور مجھ سے پوچھنے لگی، “صنوبر، کیا تم میرے ساتھ ایک جگہ چلو گی؟ میں نے جواب دیا، “کیوں نہیں، تم اگر جهنم میں بھی لے چلو گی تو چلوں گی۔ تب اس نے بتایا کہ اس کا بھائی انور پکڑا گیا ہے، اسے چھڑوانا ہے۔ مہوش کا ایک ہی بھائی تھا اور اس کا باپ فوت ہو چکا تھا۔ اس دن میں نے چھٹی کی اور مہوش کے ساتھ اس کے بھائی کو چھڑانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگی۔ شام تک کوئی نہ آیا، تو ہم دونوں خود ہی ہمت کر کے تھانے چلی گئیں۔
جب ہم محرر کے آفس پہنچیں، تو وہاں ایک خوبصورت نوجوان محرر کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے دریافت کیا کہ ہم یہاں کیسے اور کیوں آئی ہیں؟ ہم نے اسے روداد سنائی، اور مہوش رونے لگی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ انور جیل میں ہے، صبح آکر ایف آئی آر کی کاپی لے جاؤ۔ ہم دوسرے دن ایف آئی آر لینے گئے تو پتا چلا کہ پرچہ اسی نوجوان نے کاٹ رکھا تھا، جس کا نام ایاز تھا۔ انور کو اسی نے بے گناہ پکڑوایا تھا۔ اس لئے ہم نے اس سے کہا کہ محترم! اب ہمارے بھائی کو بھی آپ خود ہی چھڑا کر دیں۔ ہماری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ہماری مدد کا وعدہ کر لیا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس نے مہوش کے بھائی کو چھڑا دیا۔ ہم نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا، لیکن انور تو چھوٹ گیا اور ہم دونوں بری طرح پھنس گئے، یعنی ایاز کے جال میں۔
میں اس کو پسند آ گئی تھی اور وہ بھی مجھے اچھا لگا۔ اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ وہ کہتا تھا، تم مجھ سے شادی کر لو، میرے دل کو سکون مل جائے گا اور تمہارا گھر بھی بس جائے گا۔ میں نے امی جان سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ “اگر وہ تمہاری بچیوں کو تمہارے ساتھ رہنے دے اور ان کو باپ کی شفقت دینے پر راضی ہو، تو اس رشتے پر غور کرنے میں کیا حرج ہے؟ تم نے شادی تو بہرحال کرنی ہے، تمام عمر ایسے کیونکر گزارو گی؟امی ابو سے اجازت ملی تو ایاز اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آیا۔ میرے والدین نے اس کو قبول کر لیا کیونکہ ہم نے اس کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا تھا اور وہ پھر بھی مجھے اپنا بنانا چاہتا تھا۔ شادی کے بعد ایاز نے مجھے بہت پیار دیا۔ وہ واقعی مجھے دل سے پسند کرتا تھا۔ میری دعاؤں اور باتوں کو وہ پورا کرتا تھا۔ پھر مجھے اپنے گاؤں بھی لے گیا۔ اس کے بھائی، رشتہ دار اور لوگ بہت اچھے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے دل سے قبول کیا اور گرمجوشی سے پذیرائی کی، حالانکہ میں مطلقہ اور دو بچوں کی ماں تھی، پھر بھی ایاز نے ہر طرح سے میرا ساتھ دیا۔ محبت ہو تو گھر بس جاتا ہے، زندگی جنت بن جاتی ہے۔
وہ تو میری دعاؤں اور تکلیف پر کراہ اٹھتا تھا۔ شادی کے بعد اس نے مجھے اپنا ہیئر پارلر کھولنے کی اجازت دی اور اس کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا تاکہ میں اپنے شوق کے کام میں مصروف رہوں۔ یہ تھی میری زندگی کی کہانی۔ آپ نے اس میں کیا مجھے غلط پایا؟ اگر میں مجرم ٹھہرتی ہوں تو کس موڑ پر؟ حقیقت یہ ہے کہ مجرم خود امجد کی اپنی ماں ہے، جس نے مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا، اپنے بیٹے کو دھوکہ خود اس نے دیا۔ وہ ڈیڑھ برس تک اپنے بیٹے سے جھوٹ بولتی رہی اور وہ سادہ لوح، بڑے یقین کے ساتھ مجھ سے محبت کرتا رہا، آس لگائے رہا اور جب اس کا یقین ٹوٹا تو وہ اندر سے ٹوٹ کر اتنا کھوکھلا ہو گیا کہ اس کے لئے جینا دشوار ہو گیا۔ تب ہی اس نے مایوس ہو کر خودکشی کر لی،
حالانکہ اس دوران اس نے اتنا کما لیا تھا کہ اس کی ماں نے ایک شاندار گھر تعمیر کروا لیا تھا، لیکن یہ شاندار عمارت کس کام کی، جو کبھی گھر نہ بن سکی اور جس میں دن رات محنت کر کے کمانے والا پہلا قدم بھی نہ رکھ سکا۔ بعض والدین بیٹوں کی کمائی کے لالچ میں ان کی خوشیوں کا خیال نہیں کرتے، پھر ان کے اپنے ہاتھوں میں بھی سوائے تاسف کے کچھ نہیں آتا۔
پہلی سطر پڑھ کر میں مسکرا دی لیکن اگلی سطریں میرے حواس پر بجلی بن کر گریں۔ اس نے لکھا: صنوبر! کیا تمہیں پتا ہے کہ امجد نے تمہاری وجہ سے اس دنیا سے منہ موڑ لیا ہے؟میں! یہ نہیں ہو سکتا۔ بے اختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔ آگے لکھا تھا:اس بیچارے کی موت کی ذمہ دار تم ہو، کیونکہ ان دنوں جب اس کی ماں حج کرنے آئی تھیں، تب اس نے تمہارا حال احوال پوچھا تو اس کی ماں نے کہا کہ وہ تو اپنے گھر میں بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش باش ہے۔ تبھی امجد نے سوال کیا: اپنے گھر سے کیا مطلب، امی جان؟’ یعنی اپنے ماں باپ کے گھر؟ ‘نہیں، اپنے سسرال، اپنے خاوند کے گھر۔’ اس کی ماں نے اس پر اچھی طرح واضح کر دیا کہ صنوبر نے ایک آفیسر سے شادی کر لی ہے اور اس کا شوہر اچھا ہے، جس نے اس کی پہلے شوہر سے دو بچیوں کو بھی قبول کر کے اپنے ساتھ رکھ لیا ہے۔ پھر امجد سے کہا کہ: بیٹا، وہ مطلقہ عورت تھی، زمانہ دیکھ چکی تھی، تمہیں اس سے وفا کی امید نہ رکھنی چاہیے تھی۔ تم نے خواہ مخواہ اس کے پیچھے اپنا وقت برباد کیا۔ آگے لکھا تھا:شام کو امجد میری طرف آیا تو وہ بہت آزردہ تھا۔ اس نے مجھے کہا:بھابھی، صنوبر نے شادی کر لی ہے، کچھ آپ کو پتا ہے؟ اس خبر پر یقین تو مجھے بھی نہ آیا، مگر میں نے سوچا کہ یہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا، کیونکہ آج کے دور میں ہر بات ممکن ہے اور اپنوں سے بے وفائی بھی عین ممکن ہے۔ خیر، میں نے اس کو تسلی دی۔ تمہارے دولہا بھائی ارسلان جب رات کو آئے تو انہوں نے کافی سمجھایا، لیکن امجد کچھ نہیں بولا، بس خاموشی سے سنتا رہا، پھر اٹھ کر چلا گیا۔ صنوبر، امجد نے یہاں کسی لڑکی سے دوستی تو دور کی بات، کبھی نرمی سے بات بھی نہیں کی تھی۔اگلی صبح جب ارسلان آفس جانے کے لیے تیار ہوئے، تو فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون ریسیو کیا۔ دوسری طرف خالہ جان تھیں، وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ارسلان کو بلایا تھا۔ وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے بچوں کو ناشتہ دیا اور برتن سمیٹنے لگی کہ ارسلان کا فون آگیا۔ انہوں نے مجھے خالہ جان کی طرف آنے کو کہا اور تاکید کی کہ بچوں کو ساتھ نہ لاؤں، بلکہ آیا کے پاس چھوڑ آئوں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ امجد کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔ میں نے بمشکل خود کو سنبھالا اور خالہ جان کے فلیٹ پر پہنچی۔ وہ پاگلوں کی طرح دیوار سے سر ٹکرا رہی تھیں اور امجد بستر پر بے حس پڑا تھا۔ اس نے کوئی دوا کھائی اور وہ مر چکا تھا۔ تبھی ارسلان نے اسپتال میں دکھائے بغیر اپنے رشتہ دار ڈاکٹر سے ہارٹ فیل کی رپورٹ لکھوائی۔ ڈاکٹر نے ان پر اعتبار کر کے رپورٹ لکھ دی اور کہا: ‘ یہاں قانون بہت سخت ہے بہر حال، پھر اس کو یہاں سعودی عرب ہی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔صنوبر ! ہمیں پتا ہے امجد کتنا اچھا انسان تھا۔ تمہاری پہلی شادی کی بھی اس نے بہت مخالفت کی تھی اور اس مرتبہ تو تم نے خود اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ عرصے تک اس کو تسلی دیتی رہی تھیں، پھر ایک دم تم نے فیصلہ کیا اور دوسرے کنارے ہو گئیں۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کیا بنے گا؟ خیر، خدا تمہیں خوش رکھے۔ جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ بہت سی دعائیں، تمہاری دوست
نیئر کو کوئی جواب نہ دے سکی، کیونکہ اصل حقیقت سے آگاہ کرتی تو ایک محترم رشتہ دار ان کی نظروں سے گر جاتا اور وہ خالہ جان کی شخصیت کا وہ پہلو جس کو صرف میں جانتی تھی۔ کاش میں نیئر کو ہی نہیں، امجد کو بھی بتا سکتی کہ بے وفا میں نہیں، بلکہ کوئی اور ہے، اور وہ ہے خود اس کی اپنی ماں، مگر میں جب جیتے جی اس کو یہ نہ بتا سکی، تو مرنے کے بعد کیونکر بتا سکتی تھی۔
جس دن سے نیئر کا خط آیا تھا، مجھے کسی پل چین نہیں یہاں تک کہ میرا شریک حیات بھی مجھے سکون نہیں دے سکا تھا۔ چند دنوں سے ان کی ڈیوٹی کافی سخت تھی۔ وہ بارہ ایک بجے آتے اور آتے ہی سو جاتے اور میں تمام رات جاگتی رہتی۔ جو خود تھکا ہارا گھر آتا ، بھلا وہ کیا جانے اس کی شریک حیات کس حال میں ہے ؟ اس پر کیا گزرتی رہی ہے۔ وہ مجھے ٹائم ہی نہیں دے پارہے تھے اور میرے دل کا سکون کٹ گیا تھا۔ سیر و تفریح میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ ماضی کا درد بہت ستانے گا، تو قلم لے کر دل کی باتیں لکھنے بیٹھ گئی کیونکہ جب بات کہی نہ جاسکے ، تو دل کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے، یوں کہہ دینے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت جو میں تحریر کر رہی ہوں، سو فیصد سچ ہے۔ ایسا سچ ، جو کبھی میں امجد کو کو بتا سکی ، نہ نیئر کو جواب دے سکی اور نہ ہی اپنے محبوب شوہر کو بتا سکی حالانکہ میں نے اپنے شریک زندگی سے دل اور دنیا کی کوئی بات آج تک کبھی نہیں چھپائی تھی۔ آج آپ کو بتارہی ہوں کہ واقعہ کیا تھا۔
میری شادی بارہ سال کی عمر میں ہو گئی۔ شوہر مجھ سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ محلے داروں ، رشتے داروں نے کافی مخالفت کی ، مگر والدین نے دولت دیکھ کر رشتہ کی۔ اس پر رشتے داروں نے ہم سے قطع تعلق کر لیا، محلے والوں نے بھی ملنا چھوڑ دیا۔ خیر، میں نے تو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا اور چھی بات ہے ہے کہ میں اتنی کم سن تھی، کیا کسی سے کہتی اور کیا سمجھتی ۔ میری ایک سہیلی تھی، جس کا نام عفت تھا۔ ہمارا آپس میں بہت پیار تھا اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی رہتا تھا۔ عفت کا بھائی امجد اکثر پڑھائی میں ہم دونوں کی مدد کر تا تھا، یوں میرا اور مجد کاروزانه آمنا سامنا ہوتا تھا، کیونکہ ہمارے گھر پاس پاس تھے۔ مجھے خبر نہیں کہ امجد کے دل میں میرے لئے کیا جگه تھی۔ میں نے کہا کہ میں تو کم سن تھی، گردو پیش سے بے خبر لیکن جب میری شادی ہونے لگی تو امجد بہت مضطرب ہوا۔ اس نے اپنے گھر میں ہر ایک سے کہا کہ اس کے ماں باپ کو س ظلم سے روکو، یہ شادی نہیں ہونی چاہئے۔ صنوبر ابھی کم عمر ہے اور وہ شخص چالیس برس کا ہے ، مگر امجد کی بھلا کون سنتا جبکہ امی ابو نے میرے قریبی عزیزوں خالہ ، ماموں، چچا وغیرہ کی ایک نہ سنی اور میری شادی ہو گئی۔ سال بھر بعد ایک بچی کی ماں بھی بن گئی، حالانکہ میں اس وقت خود اتنی چھوٹی تھیکہ اپنی بچی کو بھی اٹھانا مجھے نہیں آتا تھا عفت سے اتنا پیار تھا کہ کچھ ہی دن بعد میں بچی کو لے کر ان کے گھر جا پہنچی۔ امجد بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے میری بچی کو اٹھا لیا اور بہت پیار کیا۔ وہ دونوں مجھ سے کافی دیر باتیں کرتے رہے اور ساتھ ہی مذاق بھی کرتے کہ ننھی منی اماں آگئی۔ بھئی، تمہاری بچی تو بہت پیاری ہے، اللہ میاں نے تم کو گڑیا دی ہے، اب اس سے کھیلا کرتی رہنا۔
اس طرح جب میں میکے آ کر عفت کے ہاں جاتی تو امجد بھی ملتا اور خوب باتیں شروع کر دیتا۔ ایک دن عفت اور میں نے چھانگا مانگا جانے کا پروگرام بنایا۔ ان دنوں آموں کا موسم تھا، ہم خوب سارے آم ساتھ لے گئے، برف کے کولر بھی بھر لیے تھے۔ امجد کو پتہ تھا کہ مجھے آم بہت پسند ہیں۔ وہ میرے آگے آم کھا کر گھٹلیاں پھینکتے جاتے تھے تاکہ میں بے چین ہو جاؤں، لیکن ہم سب ہنستے کھیلتے رہے اور مجھے اس کا اتنا برا نہ لگا۔
امجد کی چچازاد بہن میری دوست بھی تھی۔ اس کی شادی اس کے تایا کے بیٹے ارسلان سے ہو گئی، جو سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ انہوں نے پہلے نیئر اور پھر امجد کو بھی وہاں بلوالیا۔ ان ہی دنوں میرے خاوند کو امریکا کا ویزا مل گیا۔ وہ کہنے لگا، کیوں نہ وہاں پیر جما لوں ، پھر تم کو بلا لوں گا۔ مجھے گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ایک بچی کی ماں تھی اور دوبارہ امید سے تھی۔ امریکا جا کر مجاہد نے نیشنلٹی کی خاطر کسی امریکی لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ پانچ سال باہر رہے۔
میں لوگوں سے سنتی تھی کہ میرے شوہر نے وہاں شادی کر لی ہے، لیکن یقین نہیں کرتی تھی کیونکہ جب وہ یہاں تھے تو بہت پیار جتاتے تھے۔ مجھے تقریباً پورا پاکستان گھما دیا تھا، سوات، کاشان، گلگت، آزاد کشمیر، اور مختلف خوبصورت جگہوں پر لے گئے تھے، لیکن میں بے شعور تھی۔ ایسے سیر کرتی جیسے بچے بچیاں کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ میں شوہر کے جذبات کی طرف تو دھیان نہیں دیتی تھی۔ ان حسین جگہوں پر بھی میں خود کو تنہا محسوس کرتی تھی۔
میرے شوہر سے میری ہم عمروں والی دوستی نہیں ہو سکتی تھی۔ پانچ سال کے بعد جب میرے شوہر واپس آئے تو ہم کراچی شفٹ ہو گئے۔ وہ دو ماہ ساتھ رہے اور بالکل اچھی طرح رہنے لگے، لیکن جاتے ہوئے مجھے طلاق دے گئے اور کہا کہ شاید میں پھر نہ آ سکوں۔ بچیاں بھی انہوں نے مجھے دے دیں، یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ اپنی بچیوں کی خاطر میں نے لاہور جا کر نوکری کر لی۔ صبح میں اسکول پڑھانے جاتی اور شام کو ہیئر پارلر میں کورس کرتی۔
پارلر میں جو میری استاد تھیں، وہ امجد کی رشتہ دار خالہ بھی تھیں۔ ایک دن اچانک امجد اپنی خالہ سے ملنے آیا تو مجھ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ میرا حال جان کر اسے بہت افسوس ہوا۔ وہ اس وقت تو چلا گیا، لیکن گھر جا کر اپنی والدہ سے کہا کہمیں نے کہا تھا کہ اس بڈھے سے اس معصوم کی شادی نہ کرو۔ آخر وہی ہوا۔ دراصل وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ تو پہلے بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن اب جب کہ میں نامساعد حالات میں پوری طرح گھر چکی تھی اور دو بچیوں کا بوجھ بھی میرے کندھے پر تھا، تو اس نے مجھے حالات کے اس مشکل دور سے نکالنے کی ٹھان لی۔
امجد نے اپنی والدہ سے منت کی کہ میں صنوبر سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ رشتہ لے کر جائیے۔ مجھے تو ان باتوں کا بالکل پتا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی عفت نے کوئی اشارہ دیا تھا۔ میں نے بھی کبھی امجد کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ان دنوں میں بہت خوبصورت تھی، جب امجد نے ماں سے کہا۔ وہ نہ صرف خفا ہو گئیں بلکہ بیٹے کی ضد کی وجہ سے مجبور بھی ہو گئیں اور میرے پاس آئیں۔ پہلے تو انہوں نے مجھ سے طنزیہ باتیں کیں، لیکن جب میں نے اپنے بچوں کی قسم کھا کر یقین دلایا کہ میں امجد کو ہمیشہ بھائی جیسا سمجھتی رہی ہوں اور کبھی ان کے لئے میرے دل میں ایسا ویسا خیال نہیں آیا۔ اب اگر وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے یہ بھی کہا کہ میں نہ ہی امجد سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور نہ محبت کے چکر میں پڑنا چاہتی ہوں۔ میں دو بچیوں کی ماں ہوں، اور مجھے زیب نہیں دیتا کہ آپ کے کنوارے بیٹے سے شادی کی آرزو کروں۔میری باتوں میں چونکہ سچائی تھی، امجد کی والدہ کو یقین کرنا پڑا۔ پھر وہ بولیں، امجد اس وقت مجھ سے بہت اکھڑا ہوا ہے۔ اگر تم نے انکار کیا تو وہ واپس سعودی عرب نہیں جائے گا اور ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔ اس کی نوکری بھی چھین جائے گی، لہٰذا تم میرا ساتھ دو اور ہمیں تباہی سے بچانے کے لئے تھوڑا جھوٹ بول دو۔ تم ایسا کرو، امجد سے کہہ دو کہ میں دو سال تک تم سے شادی نہیں کر سکتی، تاکہ دو سال تک تم خوب کما لو، پھر میں تم سے شادی کروں گی۔
وہ مجھے اپنے گھر لے گئیں اور جو انہوں نے مجھے سکھایا، عفت، ان کی خاطر، میں نے امجد کے سامنے وہی بات کہہ دی کہ تم وہاں جاکر کام کرو، ابھی میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، دو سال بعد کروں گی۔ پھر امجد نے پوچھا، کیا تم مجھے خط لکھو گی؟ تو میں نے کہا، نہیں، مجھے خط لکھنا اچھا نہیں لگتا، اس لئے میں خط نہیں لکھوں گی۔ تم بھی مجھے خط نہ لکھنا۔ ہاں، اپنی امی کے خط میں میرے لئے جو چاہو لکھ دینا اور میرا حال احوال ان سے پوچھ لیا کرنا۔
امجد کی ماں درمیان میں پڑی تھی، لہٰذا اس کو میری باتوں کا یقین آ گیا اور وہ کمانے چلا گیا۔ اب اس کا جو بھی خط آ جاتا، اس میں میری اور اس کے درمیان کے تعلقات کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس نے وہاں سے میرے لئے کچھ تحفے بھی بھجوائے، لیکن میں نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ خیر، میں اپنی دوست کے ہاں رہنے لگی کیونکہ اس کی والدہ مجھے ہیئر پارلر کا کورس کرواتی تھیں اور یہ بیوٹی پارلر ان کا اپنا تھا۔
ایک دن مہوش میرے پاس آئی۔ وہ بہت پریشان تھی اور مجھ سے پوچھنے لگی، “صنوبر، کیا تم میرے ساتھ ایک جگہ چلو گی؟ میں نے جواب دیا، “کیوں نہیں، تم اگر جهنم میں بھی لے چلو گی تو چلوں گی۔ تب اس نے بتایا کہ اس کا بھائی انور پکڑا گیا ہے، اسے چھڑوانا ہے۔ مہوش کا ایک ہی بھائی تھا اور اس کا باپ فوت ہو چکا تھا۔ اس دن میں نے چھٹی کی اور مہوش کے ساتھ اس کے بھائی کو چھڑانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگی۔ شام تک کوئی نہ آیا، تو ہم دونوں خود ہی ہمت کر کے تھانے چلی گئیں۔
جب ہم محرر کے آفس پہنچیں، تو وہاں ایک خوبصورت نوجوان محرر کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے دریافت کیا کہ ہم یہاں کیسے اور کیوں آئی ہیں؟ ہم نے اسے روداد سنائی، اور مہوش رونے لگی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ انور جیل میں ہے، صبح آکر ایف آئی آر کی کاپی لے جاؤ۔ ہم دوسرے دن ایف آئی آر لینے گئے تو پتا چلا کہ پرچہ اسی نوجوان نے کاٹ رکھا تھا، جس کا نام ایاز تھا۔ انور کو اسی نے بے گناہ پکڑوایا تھا۔ اس لئے ہم نے اس سے کہا کہ محترم! اب ہمارے بھائی کو بھی آپ خود ہی چھڑا کر دیں۔ ہماری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ہماری مدد کا وعدہ کر لیا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس نے مہوش کے بھائی کو چھڑا دیا۔ ہم نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا، لیکن انور تو چھوٹ گیا اور ہم دونوں بری طرح پھنس گئے، یعنی ایاز کے جال میں۔
میں اس کو پسند آ گئی تھی اور وہ بھی مجھے اچھا لگا۔ اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ وہ کہتا تھا، تم مجھ سے شادی کر لو، میرے دل کو سکون مل جائے گا اور تمہارا گھر بھی بس جائے گا۔ میں نے امی جان سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ “اگر وہ تمہاری بچیوں کو تمہارے ساتھ رہنے دے اور ان کو باپ کی شفقت دینے پر راضی ہو، تو اس رشتے پر غور کرنے میں کیا حرج ہے؟ تم نے شادی تو بہرحال کرنی ہے، تمام عمر ایسے کیونکر گزارو گی؟امی ابو سے اجازت ملی تو ایاز اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آیا۔ میرے والدین نے اس کو قبول کر لیا کیونکہ ہم نے اس کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا تھا اور وہ پھر بھی مجھے اپنا بنانا چاہتا تھا۔ شادی کے بعد ایاز نے مجھے بہت پیار دیا۔ وہ واقعی مجھے دل سے پسند کرتا تھا۔ میری دعاؤں اور باتوں کو وہ پورا کرتا تھا۔ پھر مجھے اپنے گاؤں بھی لے گیا۔ اس کے بھائی، رشتہ دار اور لوگ بہت اچھے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے دل سے قبول کیا اور گرمجوشی سے پذیرائی کی، حالانکہ میں مطلقہ اور دو بچوں کی ماں تھی، پھر بھی ایاز نے ہر طرح سے میرا ساتھ دیا۔ محبت ہو تو گھر بس جاتا ہے، زندگی جنت بن جاتی ہے۔
وہ تو میری دعاؤں اور تکلیف پر کراہ اٹھتا تھا۔ شادی کے بعد اس نے مجھے اپنا ہیئر پارلر کھولنے کی اجازت دی اور اس کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا تاکہ میں اپنے شوق کے کام میں مصروف رہوں۔ یہ تھی میری زندگی کی کہانی۔ آپ نے اس میں کیا مجھے غلط پایا؟ اگر میں مجرم ٹھہرتی ہوں تو کس موڑ پر؟ حقیقت یہ ہے کہ مجرم خود امجد کی اپنی ماں ہے، جس نے مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا، اپنے بیٹے کو دھوکہ خود اس نے دیا۔ وہ ڈیڑھ برس تک اپنے بیٹے سے جھوٹ بولتی رہی اور وہ سادہ لوح، بڑے یقین کے ساتھ مجھ سے محبت کرتا رہا، آس لگائے رہا اور جب اس کا یقین ٹوٹا تو وہ اندر سے ٹوٹ کر اتنا کھوکھلا ہو گیا کہ اس کے لئے جینا دشوار ہو گیا۔ تب ہی اس نے مایوس ہو کر خودکشی کر لی،
حالانکہ اس دوران اس نے اتنا کما لیا تھا کہ اس کی ماں نے ایک شاندار گھر تعمیر کروا لیا تھا، لیکن یہ شاندار عمارت کس کام کی، جو کبھی گھر نہ بن سکی اور جس میں دن رات محنت کر کے کمانے والا پہلا قدم بھی نہ رکھ سکا۔ بعض والدین بیٹوں کی کمائی کے لالچ میں ان کی خوشیوں کا خیال نہیں کرتے، پھر ان کے اپنے ہاتھوں میں بھی سوائے تاسف کے کچھ نہیں آتا۔