Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Sumeer

Well-known member
Joined
Dec 27, 2022
Messages
209
Reaction score
12,832
Points
93
Location
Panjab
Offline
میرا نام سمیر ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا تب میری عمر ۲۳ سال تھی جس سے کوئی بھی لڑکی، عورت یا کوئی بھی مرد اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں۔ میرا خود کا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ مطلب میری ایک چھوٹی سی دکان ہے جہاں صبح سے شام تک میرا جگری دوست بیٹھا رہتا تھا کبھی کبھی وہ اپنا ڈیرہ قریبی بینک کے پاس بھی ڈال لیتا تھا۔ گھر کا اکلوتا ہونے کا ناتے اس پر ذمہ داریاں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ لاپروا بنا پھرتا تھا پھر ایک دن اچانک احسن کے والد کے دوست نے احسن کے لیے سعودی عرب کا ویزہ بھیج دیا۔ تب ماں کو اپنے بیٹے کے بہیانے کی پڑی۔ احسن کی منگنی ہوچکی تھی اس لیے احسن کے سسرالیے فورا مان گئے۔
ہم سب دوستوں اور دکانداروں نے اس کی شادی پر کافی مزا لیا تھا، مزہ صرف کھانے کا تھا لیکن شادی کے دن میرے دوست احسن کی سالی فائزہ مجھ پر کافی حد تک فدا تھی۔
میں نے بھی سمائل کے متبادل سمائل ہی پاس کی، نکاح کی تقریب تک میں احسن کی بیوی نازیہ کے بارے میں جان چکاتھا اور سالی کے بارے میں بھی۔ نازیہ کے جسم کے متعلق بتاتا ہوں۔ نازیہ نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے، بوبز کا سائز ۳۲ بتیس، کمر شاید ۳۰ تیس اور باہر کو نکلی گانڈ صرف ۲۸ اٹھائیس سائز کی تھی۔ جب بھی احسن اپنی منگیتر سے ملنے جاتا تب مجھے رکھوالی کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا تھا ان تمام واقعات کے دوران نازیہ مجھے کبھی کبھی مسکرا کر دیکھ لیا کرتی تھی لیکن میں اس وجہ سے آگے نہیں بڑھا۔ احسن چاہے مجھے اپنا جگری یار مانے یا نہ مانے میں اسے ضرور مانتا تھا اس لیے میں نازیہ کی اس مسکراہٹ کا کوئی جواب نہ دیتا تھا۔
اب فائزہ کی طرف آتے ہیں، فائزہ اپنی بہن کی طرح نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے۔ فائزہ کا تھوڑا سا رنگ فئیر ہے نازیہ سے، فائزہ کے بوبزاور گانڈ کا سائز بتیس سے زیادہ تھا، کمر تیس تھا۔
خیر نکاح کی تقریب کے وقت ہم سب دوست احسن کے قریب ہی کھڑے تھے، میں چونکہ اکثر احسن کے سسرالیوں کے گھر آتا جاتا رہتا تھا اس لیے مجھے احسن کے سسر نے ایک کام کے لیے گھر کی بیک سائڈ پر بنے سٹور روم کی طرف بھیج دیا۔ میں فورا سٹور روم کی طرف بڑھا تبھی فائزہ مجھے ساری مجلس میں اکیلے کھڑی نظر آئی مجھے اپنی طرف دیکھتا دیکھ مسکرانے لگی، میں نے بھی موقعہ محل کے حساب سے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فائزہ کو رپلائی دیا۔
فائزہ مسکراتے ہوئے اندر کی جانب چل دی، اندر جاتے جاتے اپنے ہاتھ کو اندر کی طرف موڑتے ہوے مجھے اشارہ کیا جسے میں نے چند لمحوں کے بعد سمجھ لیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ میں نے احسن کے سسر کے بتائے کام کو اگنور کردیا تھا۔
میں نے باہر کے تمام دوستوں سے سن رکھا تھا کہ فائزہ کو اپنی پھدی مروانے کا بہت شوق ہے، آج دن تک ناجانے اس نے کتنے لنڈ لیے ہیں اسی سوچ کے ساتھ میں آگے کو بڑھ گیا۔
ہم دونوں کچھ دیر بعد ایک کمرے میں آمنے سامنے کھڑے تھے جہاں احسن کےسسرالیوں نے اپنا سارا قیمتی سامان شفٹ کردیا تھا۔ شاید انہوں نے شادیوں میں چوری چکاری کے سبب ایسا کیا تھا۔ کچھ دیر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر فائزہ نے آگے بڑھ کر دروازے کو لاک کردیا اور میرے سینے سے لگ گئی۔
فائزہ کی بھاری بھرکم چھاتی میری چھاتی سی لگی ہوئی تھی اور میں فائزہ کے جسم کی اتھل پتھل کو واضح محسوس کررہا تھا۔ میں نے اپنے اس دوست کے مطابق خود کو کنوارہ بنائے رکھنے کی ایکٹنگ شروع کردی۔
فائزہ نے کچھ دیر تک میری آنکھوں میں دیکھا پھر اپنا جسم اوپر اٹھاتے ہوئے میرے ہونٹوں کے برابر پہنچ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دیے۔
کچھ دیر کی کوشش کے بعد میں نے بھی فائزہ کی طرح کس کرنا شروع کردی تھی وقت کم تھا لیکن شہوت زدہ لمحوں کی وجہ سے میرا لنڈ کھڑا ہوچکا تھا، فائزہ نے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔
فائزہ نے کچھ لمحوں کے بعد اپنے ہونٹوں کو مجھ سے الگ کیا اور نیچے پڑی ہوئی چٹائی پر لیٹتے ہی اپنی شلوار اتار کر سائڈ پر رکھ دی۔ میں خاموشی سے کھڑا یہ سب کارنامہ دیکھ رہا تھا۔ پھر فائزہ نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کی بات مان کر اس کی طرف بڑھا تب فائزہ نے میرے لنڈ کو دوبارہ پکڑا اور آہستہ سے بولی
فائزہ: پہلے کبھی یہ کام کیا ہے یا نہیں؟
میں نے انکار میں سر ہلا کر اسے اس کے سوال کا جواب دیا۔ تب فائزہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک جمع کیا اور میرے لنڈ پر ڈال کر مٹھ لگانے لگی، اس وقت حالات کی نزاکت کی وجہ سے میں بہت کچھ سوچ رہا تھا لیکن فائزہ کی اس حرکت سے میرے جسم کا روم روم سرور کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا تھا تب فائزہ سیدھی لیٹ چکی تھی اور مجھے اپنے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ٹھیک ویسا ہی کیا،
فائزہ نے دیر نہ کرتے ہوئے میرے گیلے لنڈ کو پکڑ کر اپنی پھدی کو اندر کا راستہ دیکھا دیا۔ پھر میری ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی: آہستہ آہستہ جھٹکے لگانا شروع کردو۔
میں نے کافی سیکس و پورن کلپس دیکھ رکھی تھی اس لیے آہستہ آہستہ دو سے تین جھٹکے لگا کر اپنے لنڈ فائزہ کی دہکتی ہٹی میں اتار دیا۔ پھر میں اسی رفتار سے چودائی کرتا رہا پھر کچھ لمحوں کے بعد میرے دھکوں کی رفتار میں تیزی آتی گئی فائزہ کبھی میری کمر کو سہلاتی تو کبھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کو روکنے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنا سر دائیں بائیں کرتی، میں یہ سب حرکات خاموشی سے دیکھے جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوستوں کی باتوں پر غور کرتا رہا، پھر میری سوچوں کا وقت ختم ہوا جب فائزہ نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے بوبز پر دبا لیا اور میں اس کے بوبز سے نکلنے والی خوشبو میں مدہوش ہوتے ہوئے خود کو روک نہ پایا۔
ہم انیس بیس کے فرق سے ایک ساتھ فارغ ہوچکے تھے، میرے لنڈ نے آج کافی عرصے کے بعد اپنا پانی کی پھدی کے اندر چھوڑا تھا۔ (
میں اس سیکس سے کافی پرسکون ہوچکا تھا فائزہ نے میرے سر کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا تب میں خاموشی سے اٹھا اور اپنی شلوار اٹھا کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ تب تک فائزہ بھی اٹھ چکی تھی فائزہ نے بیٹھے ہوئے میرے لنڈ کو پھر سے پکڑ لیا جہاں ابھی بھی فائزہ اور میری منی لگی ہوئی تھی۔
میں: سب ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ اب چلنا چاہیے۔
فائزہ نے بستروں میں سے ایک کپڑا نکال کر میرے لنڈ کو صاف کیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ مطلب میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے آزاد کردیا۔
میں اس وقت جلدی میں تھا اس لیے فائزہ کا انتظار نہ کرتے ہوئے فورا وہاں سے نکل کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں ابھی ابھی نکاح ہوا تھا۔
خیر ہم سب ڈولی لے کر احسن کے گھر چل دیئے۔ میں نے فائزہ والی بات کسی سے بھی نہیں کی، سارے کاموں کاجوں کو ختم کرکے میں اپنے گھر آگیا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔
کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کرنے کے بعد میں دکان کا کام شروع کردیا جو رات کے ایک بجے ختم ہوا۔

صبح میری نیند اپنے وقت پر کھلی معمول کے مطابق ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنی دکان پر گیا کچھ دیر تک ضروری معاملات دیکھ کر، گھر واپس آگیا۔ جلدی کے چکر میں نہانا بھول چکا تھا جب یاد آیا تب میرے پاس وقت نہیں تھا اس لیے بغیر نہائے احسن کے ولیمے کی تقریب میں شرکت کے لیے نکل پڑا۔

ہمارے ہاں بیرونی دوستیاں ہوا کرتی ہیں اس لیے زیادہ شادیاں ہم لڑکوں (مردوں) کو ہی دیکھنا اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں۔ میرے احسن کے گھر پر پہنچنے تک احسن کے دوستوں نے تمام معاملات دیکھ لیے تھے، میں دکان سے گھر اور پھر گھر سے ولیمے پر آنے تک مجھے کافی دیر ہوچکی تھی اس لیے میرے آنے تک ولیمے کی تقریب کی تیاریاں ہوچکی تھی۔

میں کچھ دیر احسن اور نازیہ کے قریب بیٹھا رہا پھر کسی وجہ سے اٹھ کر احسن کے گھر کے اندرونی جانب چل دیا۔ کچھ کام جو چھوٹے موٹے تھے ان کو نبٹاتے ہوئے اچانک فائزہ مجھے نظر آئی۔

فائزہ استری اسٹینڈ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی مجھے دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی، ہال میں تمام افراد جمع تھے کچھ عورتیں اندر اور کچھ باہر آجارہے تھے۔ فائزہ کی مسکراہٹ دیکھ میرے اندر ہلکی سی سنسنی پھیل رہی تھی۔

میں فائزہ کو یکسر فراموش کرتا واپس گھر سے باہر بنے تقریبی ھال میں چلا گیا۔ احسن سٹیج سے تھوڑا دور کھڑا کسی سے موبائل پر بات کر رہا تھا تب میں بھی اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کی باتیں سننے لگا کچھ دیر بعد نازیہ نے احسن کو بلایا جس پر احسن نازیہ کی طرف دیکھا۔

نازیہ: مجھے پانی پینا ہے فائزہ گھر گئی تھی ابھی تک نہیں آئی تم جا کر لادو یا منگوادو۔

احسن (مجھ سے دھیمی آواز سے): جا جاکر اپنی بھابھی کی خدمت کر۔۔۔

میں نے نازیہ کے سامنے سے خالی جگ کو اٹھایا اور کچھ دور پڑے ڈرم سے پانی بھرا اور واپس نازیہ کی طرف آگیا۔ نازیہ کو گلاس میں پانی ڈال کر دیتے ہوئے واپس احسن کی طرف مڑنے لگا تب نازیہ بولی: کچھ دیر اپنی بھابھی کے قریب بھی بیٹھ جاو۔ صبح سے بور ہورہی ہوں۔
میں نے ایک نظر احسن پر ڈالی جو اس وقت اپنے دوسرے دوست کے پاس نازیہ کی طرف کمر کیے کھڑا باتیں کررہا تھا۔ مجھے احسن کی طرف دیکھتا دیکھ نازیہ پھر سے بولی:

دیور جی۔۔۔ کس سوچ میں پڑ گئے ہو؟ میں نے کوئی مہنگی فرمائش نہیں ڈالی جس کو پورا کرنے سے پہلے آپ نے احسن سے اجازت مانگنی ہے۔

میں کچھ دیر پہلے احسن کی اور پھر اب نازیہ کی دوہری معنی کی باتیں سن کر سوچ میں ڈوبے ہوئے نازیہ کے قریب بیٹھ گیا۔

نازیہ پانی کا ایک گھونٹ پینے کے بعد بولی: دیور جی۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھنی تھی اگر آپ کی اجازت ہو تو؟

میں نے نازیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا: ہاں کیوں نہیں، آپ نے جتنی بھی باتیں پوچھنی ہیں پوچھیں۔۔۔

نازیہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ: جب میں نے سوال جواب شروع کرنے ہیں تب سارا دن گزر جانا ہے اور شاید رات بھی، پھر آپ کے دوست کا کیا ہوگا اگر آپ وہاں موجود ہوں گے تو

میں نازیہ کی اس ڈبل میننگ بات سے تھوڑا بہت کنفوز ہوگیا تھا، میں نے پہلے جی، جی کہا پھر فورا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، بولنے لگا جس پر نازیہ اپنے ناک پر مہندی والا ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔

نازیہ: اچھا اچھا۔۔۔ زیادہ باتیں نہیں پوچھتی آپ اتنا زیادہ کنفوز نہ ہوں، یہ لیں پانی پییں۔

میں نے پہلے انکار کیا تب نازیہ بولی: پانی پی لیں نا۔۔۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو یہ پانی بھی نہ ملے۔

میں نے نازیہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا اور خاموشی سے پانی کے گھونٹ اپنے خشک ہوتے گلے سے نیچے اتارے نازیہ مجھے پانی پیتا دیکھتے ہوئے بولی:

نازیہ: ویسے آپ آج نہائے نہیں نا؟؟؟

میں نے کوئی تاثر نہیں دیا کیونکہ میں نازیہ کی بات پر غور کر رہا تھا، آج دن تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں کب نہایا اور کب نہیں نہایا۔

نازیہ دوبارہ بولی: ویسے آپ کل نکاح کے وقت کہاں تھے؟ فائزہ بھی غائب تھی۔ عجیب معاملہ ہے۔

نازیہ نے ولیمے کی تقریب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے دوبارہ سے میری آنکھوں میں دیکھا، میں جہاں تھا وہیں کا وہیں رک گیا۔ کیونکہ اتنے سالوں سے میں دو عورتوں کو ٹھوک ٹھوک کر خود کو ٹھنڈا کر چکا تھا لیکن کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ اچانک نازیہ کو کیسے علم ہوگیا۔

نازیہ نے بہانے سے کُشن ( چھوٹے تکیے) کو صحیح کرتے ہوئے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی: گلاس سائڈ پر رکھ دیں دیور جی۔ میں فائزہ کی تمام حرکات پر نظر رکھتی ہوں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں کسی کو کچھ بھی بتانے والی نہیں، کیونکہ اس میں آپ کی بدنامی کم، اور فائزہ کی زیادہ ہے۔

میں نے ایک نظر نازیہ کی چہرے پر ڈالی پھر دوسری نظر اپنے ہاتھ پر جو نازیہ کے ہاتھ کے نیچے تھا۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی آرہا تھا کہ اگر نازیہ کو اپنی بہن کی حرکات پر شک ہے تو اس نے اب تک اس کو روکا کیوں نہیں،

نازیہ: آج سے سات دن تک آپ آرام سے گزاریں پھر اس کے بعد آپ کو اپنی بھابھی کی خدمت بھی کرنی ہے۔ ہے نا احسن۔

نازیہ نے اپنی گفتگو کے آخری حصے پر تھوڑا سا زور دیتے ہوئے احسن کی جانب دیکھا، احسن نے بھی دور سے مسکرا کر نازیہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ میں اس وقت ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوچکا تھا کیونکہ میں نے آج دن تک احسن کو اپنا جگری دوست مانا تھا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے احسن کی بہن (جس کی شادی ہوچکی تھی) کو سیکس کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میں نے خود کو ان دونوں ( عائشہ اور اس کا شوہر جو بعد میں بنا) پر ظاہر بھی کردیا تھا۔ عائشہ نے بعد میں اس بات کو احسن یا احسن کی امی کو نہ بتانے کے بدلے خود کو میرے سامنے پیش کردیا تھا لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔ جاری ہے
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top