Cute
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
دوست کی بیوی سے میری چدائی۔۔۔۔ سیزن فور
میں نے ارم سے کہا آپ جیسے چاہیں آزمالیں۔ اس نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے مجھے دیکھا اور پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے قمیض کا پلو اوپر کرنا شروع کردیا اور ایک ہی جست میں اپنی قمیض اتار کر سائیڈ میں رکھ دی۔ اس کا دودھیا جسم میری دل کی دھڑکنوں کو بگاڑ چکا تھا اس پر کالا بریزر الگ ہی منظر پیش کررہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیسا لگا ۔۔۔۔ میں نے گردن کے اشارے سے اس کی تعریف کی تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر کی طرف لیجاکر بریزر کے ہک کھول دیا اور آہستہ آہستہ اپنے کندھے سے بریزر کے اسٹریپ اتار کر بریزر کو اپنی قمیض کے ساتھ ڈال دیا۔اس کے پیروں کی طرح سرخ مموں کے دائرے اور اس پر رکھے سرخ موٹے انگور کے دانے، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بیڈ سے کھڑا ہوگیا اور چلتا ہوا دوسری طرف بیٹھی ارم کے پاس پہنچ گیا اور بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ارم کے مموں کو تھام لیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا اس کے مموں کا سائیز اڑتیس ہے اور اس بات کی گواہی اس کے بریزر کے ٹیگ سے بھی ہورہی تھی جو قمیض کے اوپر پڑا ہوا تھا۔جیسے ہی میں نے ارم کے مموں کو تھاما اس کے گالوں پر لذت سے ڈمپل نمودار ہوئے اور اس نے بےساختہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ برابر میں ہی اس کا بیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا اور اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کے باپ کی منکوحہ کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا موڈ بناچکی ہے۔خیر میں نے ارم کے مموں کو سہلانا شروع کیا اور اس کے انگوروں کو مسلنے لگا تو ارم کے منہ سے سسی سسی آہ کی ہلکی آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ میں نے یہ عمل کرتے ہوئے اپنے ہونٹ ارم کے ہونٹوں سے جوڑ دیئے جسے ارم کے ہونٹوں نے اپنے قبضہ میں لیکر میلاپ کرنا شروع کردیا اور کچھ وقفہ کے بعد اس کی زبان نے میرے منہ پر دستک دینی شروع کی تو میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ میں خوش آمدید کہا۔ اس کے منہ کاذائقہ ایسا تھا کہ انتہائی ٹھنڈےکمرے میں بھی ہماری جسموں سے پسینہ کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے۔ ابھی میں اس کے ہونٹوں اور زبان کا ذائقہ چکھنے میں مگن ہی تھا کہ مجھے اپنے لنڈ پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ لنڈ تو پہلے ہی بےقرار تھا ارم کے ہاتھ کا لمس پاکر اس میں ایک بجلی کی لہر کوند کر آئی اور وہ نوے ڈگری کے زاوئے پر سلامی دینے لگا۔ میں آہستہ آہستہ اس کے ہونٹ چوستا رہا اور وہ اتنی دیر میں میری پینٹ کی زپ کھول کر اپنا ہاتھ اندر ڈال کر میرے لنڈ کو باہر نکال چکی تھی اور ننگے لنڈ پر اس کا ملائم اور گورا ہاتھ مجھے ہواوں میں پہنچا چکا تھا اور مجھ پر خماری طاری ہونے لگی تھی۔ارم نے میری پینٹ کا بٹن کھول کر میری پینٹ کو گھٹنوں تک سرکادیا اور میرے ساڑے سات انچ لمبےاور تین انچ موٹے اور گلابی لنڈ کو اوپر سے نیچے سہلانے لگی میں وہ مزہ بیان نہیں کرسکتا میں کس کیفیت سے گزر رہا تھا۔ میرے ہی گھر کے میرے ہی بیڈ روم میں کسی اور کی بیوی میرے لنڈ سے لذت حاصل کررہی تھی۔میں نے ارم کے منہ سے توجہ ہٹائی اور اس کی شلوار اتارنے کے لئے اس کا ناڑا تلاش کرنے لگا مگر میری خوش قسمتی کہ اس کی شلوار میں لاسٹک تھا اور ارم نے خود اپنی شلوار اتارنے میں میری مدد کی ساتھ ہی میں نے اپنی پینٹ جو کہ میرے گھٹنوں میں تھی کو میں نے اتار پھینکا۔اب ہم دونوں اپنے قدرتی لباس یعنی مکمل ننگے تھے۔ میری نظر اس کی چوت پر پڑی تو وہ ایک دم گوری اور بالوں سے پاک تھی مطلب لگ رہا تھا اس نے صبح آنے سے پہلے ہی صفائی کی ہو۔ میری تو لاٹری کھل گئی تھی۔ارم تو فرح سے بھی زیادہ حسین اور سیکسی تھی۔اس کی چوت کے لب جڑے ہوئے تھے اور آج بھی سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ وہ اس وقت لگتی ہی نہیں تھی کہ دو بچوں کی ماں ہے اس نے خود کو اتنا مینٹین کرکے رکھا ہوا تھا۔ خیر وہ میرے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں بیڈ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا ارم نے میرا لنڈ اپنے ایک ہاتھ سے پکڑا اور اس کی ٹوپی پر کس کرکے منہ میں لے لیا۔ ہم دونوں کی آنکھیں لذت سے بند تھیں اور میرے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں نکل رہی تھیں اور اس کے برابر میں اس کا بیٹا سکون کی نیند سورہا تھا۔تقریبا دس منٹ ارم میرا لنڈ چوستی رہی کبھی نیچے سے اوپر کبھی اپنے منہ میں لیکر ۔۔۔۔۔ دس منٹ بعد میں نے اس کو بیڈ پر لٹادیا اور اسکے چہرے سے کس کرنا شروع کیا۔ کبھی اس کی پیشانی پر کبھی آنکھوں پر کبھی ڈمپل والے سیکسی گالوں پر ، میں اسی طرح اس کو کس کرتا ہوا گردن سے اس کے سینے اور اس کے مموں پر پہنچ گیا اور مموں کو ایک ایک کرکے منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا تو میرے منہ میں دودھ کا ذائقہ محسوس ہوا۔ میٹھا تازہ اور گرم ۔۔۔۔۔ اس نے کہا دودھ ضائع نہیں کرنا عوسیجہ اٹھے گا تو مانگے گا۔ عوسیجہ اس کے بیٹے کا نام تھا۔میں یہ سن کر اس کے پیٹ اور ناف سے ہوتا ہوا اس کی چوت تک پہنچ گیا۔ چوت پہلے ہی شدت جذبات سے گیلی ہوچکی تھی اور جب میں نے اس کو چاٹنا شروع کیا تو اس کا ذائقہ نمکین تھا میں نے چوت کے لب اپنے دو انگلیوں کی مدد سے کھولے تو اس نے ایک آہ بھری۔۔۔ دونوں لب جڑے ہوئے تھے۔ میں نے ارم سے پوچھا تمہارے دونوں بچے نارمل ڈلیوری سے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ ارم نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا نہیں آپریشن سے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری چوت اب بھی حسین و جمیل ہے۔ میں نے اس کے منہ سے لفظ چوت سنا تو جذبات پھر ابھر آئے۔اور میں نے اپنا منہ پھر اس کی چوت کی طرف بڑھا دیا اور اس کو باہر سے چاٹنے کے بعد اپنی زبان چوت کے دانے سے ٹچ کرتا ہوا اندر کرنے لگا۔
پانچ سے سات منٹ چوت کو اچھی طرح چاٹنے کے بعد میں نے ایک ہاتھ سے اپنا لنڈ پکڑا اور اس کی چوت پر رکھ دیا۔ اس نے مجھے دیکھا اور اپنی دونوں ٹانگیں اٹھ کر میرے کندھوں پر رکھ دیں۔ میں نے دو سے تین مرتبہ لنڈ کو چوت پر رگڑا اور آہستہ آہستہ چوت کے اندر داخل کردیا۔ لنڈتقریبا تین انچ اندر جاچکا تھا لنڈ کو کچھ باہر نکالا اور پھر ایک جھٹکا مارا تو پورا لنڈ جڑ تک اندر داخل ہوگیا۔ ارم کے منہ سے ایک چیخ نکلی، اگر گھر میں کوئی ہوتا تو ضرور آواز سن کر آجاتا مگر خوش قسمتی کہ گھر میں ہمارے اور اس کے سوئے ہوئے بیٹے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ اس کی چیخ سے برابر میں سویا ہوا اس کا آٹھ ماہ کا بیٹا جاگ گیا اور لیٹے لیٹے ہمیں دیکھنے لگا۔ میں آہستہ رفتار میں اسٹروک کرتا رہا اور وہ اپنے ایک ہاتھ سے بچے کو سلانے کی کوشش کرتی رہی مگر بچہ اپنی نیند لے چکا تھااور ہمیں لیٹے لیٹے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنی رفتار سے اس کی چدائی جاری رکھی۔ اور رفتہ رفتہ اپنی رفتار بڑھاتا گیا۔ تقریبا دس منٹ بعد میں نے ارم سے کہا میں فارغ ہونے والا ہوں اس نے کہا اندر نہیں چھوڑنا باہر فارغ ہونا میں نے ایسا ہی کیا اور مزید تین یا چار منٹ بعد میں نے اپنا لنڈ باہر نکالا تو بوتل کھولنے جیسی آواز کے ساتھ لنڈ باہر آیا اور اس کی چوت پر سارا لاوا بہنے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ فارغ ہوگئی۔
ہم دونوں ہی بری طرح ایسے ہانپ رہے تھے جیسے کسی سو میٹر ریس سے بھاگ کر آرہے ہوں۔ اپنا سانس نحال کرکے اس نے اپنے بیٹے کو دودھ پلانا شروع کیا تو میں نے اپنے کپڑے پہن لئے جبکہ وہ ابھی تک ننگی ہی بستر پر لیٹی اپنے بیٹے کو دودھ پلارہی تھی۔ کچھ دیر بعداس نے بیٹے کو الگ کیا اور اٹھ کر اپنی برا پہننے لگی اور پھر شلوار پہن کر قمیض بھی پہن لی۔اور بیٹے کو گود میں لیکر بیٹھ گئی۔
میں بھی اس کے ساتھ بیڈ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا تمہارا شوہر سیکس میں کیسا ہے؟ اس نے کہا سیکس میں تو ٹھیک ہے مگر وہ بیرون ملک نوکری کرتا ہے اس لئے سال میں ایک ماہ کیلئے ہی آتا ہے اور میں پیاسی ہی رہتی ہوں۔ انسان ہوں، جذبات ہیں میرے بھی۔ میں نے ہاں میں گردن ہلائی اور اگلا سوال کیا کہ کیا میں ہی ہوں تمہارے شوہر کے بعد جس نے تمہارا بدن دیکھا اور محسوس کیا ہے؟ نے کہا نہیں، مگر اور کون ہے اور کب سے ہے یہ نہیں پوچھنا۔۔۔۔ خیر میں نے ہاں میں پھر گردن ہلائی حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ رضا مجھ سے پہلے اس کے ساتھ تعلقات قائم کرچکا ہے۔
پھر وہ بولی بوبی، تم پتہ نہیں میری بات کا یقین کرو یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج سے پہلے تم جیسا مرد میری زندگی میں نہیں آیا، تم نے اس ایک دو گھنٹہ کی ملاقات میں مجھے جو سکھ پہنچایا ہے وہ اب تک کا سب سے حسین اتفاق کہا جاسکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی شادی ارینج تھی جو کہ آج سے چھ سال پہلے ایک عزیز کے بیٹے سے ہوئی اور اس کے ایک سال بعد میری بیٹی پیدا ہوئی، میرے شوہر شادی سے پہلے ہی بیرون ملک ملازمت کیلئے چلے گئے تھے اور شادی کرنے کیلئے آئے تھے۔ اس کے بعد وہ سالانہ چھٹیوں پر آتے ایک ماہ رکتے اور واپس چلے جاتے۔ سال کا وہ ایک ماہ میرے لئے سکون اور فرحت سے کم نہیں ہوتا باقی گیارہ مہینے میں تڑپ کر گزارتی، بیٹی جب ڈھائی سال کی ہوئی تو میری زندگی میں ایک شخص آیا جس کی قربت سے بس پیاس ہی بجھ پاتی، وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا ، سال گزرنے سے قبل وہ آتے میری زندگی میں بہار آجاتی اور ایک ماہ بعد پھر خزاں، دوسال پہلے جب وہ گئے تو میرے آشنا نے مجھ کو پریگنیٹ کردیا اور یہ جو تحفہ تم کو میری گود میں نظر آرہا ہے اسی کی نشانی ہے۔
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ گھڑی میں ٹائم دیکھا تو پونے تین بج رہے تھے اس نے کہا مجھے اب چلنا چاہئے، یہاں سے پانچ گلی آگے میرا گھر ہے تم مجھے اپنا نمبر دے دو میرے بھی گھر فون ہے میں خود تم سے رابطہ کرکے مل لیا کروں گی مگر ایک بات یاد رکھنا کبھی بھی میرا ذکر یا اس بات کا ذکر جو ابھی ہوا کسی کے سامنے خاص طور پر رضا کے سامنے نہیں کرنا ورنہ یہ دوستی برقرار رہنا مشکل ہوگی۔ ہم نے دعدہ کیا میں نے اپنا نمبر دیا اس تاکید کے ساتھ کہ صرف ورکنگ ڈے میں دن کے وقت فون کرنا۔ اس کے بعد ہم نے ایک طویل فرینچ کس کی اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔
پھر کیا ہوا یہ اگلے سیزن میں پیش کروں گا اپنی قیمتی آرا دیکر حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ یہ جو بھی تحریر کیا جارہا ہے یہ واقعات بالکل حقیقی ہیں بس ناموں اور جگہ کی تبدیلی اس لئے کی گئی ہے کہ پریشانی سے بچا جاسکے۔ امید ہے آپ سب کے لائیکس اور کمنٹس سے تقویت ملے گی۔
میں نے ارم سے کہا آپ جیسے چاہیں آزمالیں۔ اس نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے مجھے دیکھا اور پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے قمیض کا پلو اوپر کرنا شروع کردیا اور ایک ہی جست میں اپنی قمیض اتار کر سائیڈ میں رکھ دی۔ اس کا دودھیا جسم میری دل کی دھڑکنوں کو بگاڑ چکا تھا اس پر کالا بریزر الگ ہی منظر پیش کررہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیسا لگا ۔۔۔۔ میں نے گردن کے اشارے سے اس کی تعریف کی تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر کی طرف لیجاکر بریزر کے ہک کھول دیا اور آہستہ آہستہ اپنے کندھے سے بریزر کے اسٹریپ اتار کر بریزر کو اپنی قمیض کے ساتھ ڈال دیا۔اس کے پیروں کی طرح سرخ مموں کے دائرے اور اس پر رکھے سرخ موٹے انگور کے دانے، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بیڈ سے کھڑا ہوگیا اور چلتا ہوا دوسری طرف بیٹھی ارم کے پاس پہنچ گیا اور بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ارم کے مموں کو تھام لیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا اس کے مموں کا سائیز اڑتیس ہے اور اس بات کی گواہی اس کے بریزر کے ٹیگ سے بھی ہورہی تھی جو قمیض کے اوپر پڑا ہوا تھا۔جیسے ہی میں نے ارم کے مموں کو تھاما اس کے گالوں پر لذت سے ڈمپل نمودار ہوئے اور اس نے بےساختہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ برابر میں ہی اس کا بیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا اور اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کے باپ کی منکوحہ کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا موڈ بناچکی ہے۔خیر میں نے ارم کے مموں کو سہلانا شروع کیا اور اس کے انگوروں کو مسلنے لگا تو ارم کے منہ سے سسی سسی آہ کی ہلکی آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ میں نے یہ عمل کرتے ہوئے اپنے ہونٹ ارم کے ہونٹوں سے جوڑ دیئے جسے ارم کے ہونٹوں نے اپنے قبضہ میں لیکر میلاپ کرنا شروع کردیا اور کچھ وقفہ کے بعد اس کی زبان نے میرے منہ پر دستک دینی شروع کی تو میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ میں خوش آمدید کہا۔ اس کے منہ کاذائقہ ایسا تھا کہ انتہائی ٹھنڈےکمرے میں بھی ہماری جسموں سے پسینہ کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے۔ ابھی میں اس کے ہونٹوں اور زبان کا ذائقہ چکھنے میں مگن ہی تھا کہ مجھے اپنے لنڈ پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ لنڈ تو پہلے ہی بےقرار تھا ارم کے ہاتھ کا لمس پاکر اس میں ایک بجلی کی لہر کوند کر آئی اور وہ نوے ڈگری کے زاوئے پر سلامی دینے لگا۔ میں آہستہ آہستہ اس کے ہونٹ چوستا رہا اور وہ اتنی دیر میں میری پینٹ کی زپ کھول کر اپنا ہاتھ اندر ڈال کر میرے لنڈ کو باہر نکال چکی تھی اور ننگے لنڈ پر اس کا ملائم اور گورا ہاتھ مجھے ہواوں میں پہنچا چکا تھا اور مجھ پر خماری طاری ہونے لگی تھی۔ارم نے میری پینٹ کا بٹن کھول کر میری پینٹ کو گھٹنوں تک سرکادیا اور میرے ساڑے سات انچ لمبےاور تین انچ موٹے اور گلابی لنڈ کو اوپر سے نیچے سہلانے لگی میں وہ مزہ بیان نہیں کرسکتا میں کس کیفیت سے گزر رہا تھا۔ میرے ہی گھر کے میرے ہی بیڈ روم میں کسی اور کی بیوی میرے لنڈ سے لذت حاصل کررہی تھی۔میں نے ارم کے منہ سے توجہ ہٹائی اور اس کی شلوار اتارنے کے لئے اس کا ناڑا تلاش کرنے لگا مگر میری خوش قسمتی کہ اس کی شلوار میں لاسٹک تھا اور ارم نے خود اپنی شلوار اتارنے میں میری مدد کی ساتھ ہی میں نے اپنی پینٹ جو کہ میرے گھٹنوں میں تھی کو میں نے اتار پھینکا۔اب ہم دونوں اپنے قدرتی لباس یعنی مکمل ننگے تھے۔ میری نظر اس کی چوت پر پڑی تو وہ ایک دم گوری اور بالوں سے پاک تھی مطلب لگ رہا تھا اس نے صبح آنے سے پہلے ہی صفائی کی ہو۔ میری تو لاٹری کھل گئی تھی۔ارم تو فرح سے بھی زیادہ حسین اور سیکسی تھی۔اس کی چوت کے لب جڑے ہوئے تھے اور آج بھی سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ وہ اس وقت لگتی ہی نہیں تھی کہ دو بچوں کی ماں ہے اس نے خود کو اتنا مینٹین کرکے رکھا ہوا تھا۔ خیر وہ میرے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں بیڈ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا ارم نے میرا لنڈ اپنے ایک ہاتھ سے پکڑا اور اس کی ٹوپی پر کس کرکے منہ میں لے لیا۔ ہم دونوں کی آنکھیں لذت سے بند تھیں اور میرے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں نکل رہی تھیں اور اس کے برابر میں اس کا بیٹا سکون کی نیند سورہا تھا۔تقریبا دس منٹ ارم میرا لنڈ چوستی رہی کبھی نیچے سے اوپر کبھی اپنے منہ میں لیکر ۔۔۔۔۔ دس منٹ بعد میں نے اس کو بیڈ پر لٹادیا اور اسکے چہرے سے کس کرنا شروع کیا۔ کبھی اس کی پیشانی پر کبھی آنکھوں پر کبھی ڈمپل والے سیکسی گالوں پر ، میں اسی طرح اس کو کس کرتا ہوا گردن سے اس کے سینے اور اس کے مموں پر پہنچ گیا اور مموں کو ایک ایک کرکے منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا تو میرے منہ میں دودھ کا ذائقہ محسوس ہوا۔ میٹھا تازہ اور گرم ۔۔۔۔۔ اس نے کہا دودھ ضائع نہیں کرنا عوسیجہ اٹھے گا تو مانگے گا۔ عوسیجہ اس کے بیٹے کا نام تھا۔میں یہ سن کر اس کے پیٹ اور ناف سے ہوتا ہوا اس کی چوت تک پہنچ گیا۔ چوت پہلے ہی شدت جذبات سے گیلی ہوچکی تھی اور جب میں نے اس کو چاٹنا شروع کیا تو اس کا ذائقہ نمکین تھا میں نے چوت کے لب اپنے دو انگلیوں کی مدد سے کھولے تو اس نے ایک آہ بھری۔۔۔ دونوں لب جڑے ہوئے تھے۔ میں نے ارم سے پوچھا تمہارے دونوں بچے نارمل ڈلیوری سے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ ارم نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا نہیں آپریشن سے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری چوت اب بھی حسین و جمیل ہے۔ میں نے اس کے منہ سے لفظ چوت سنا تو جذبات پھر ابھر آئے۔اور میں نے اپنا منہ پھر اس کی چوت کی طرف بڑھا دیا اور اس کو باہر سے چاٹنے کے بعد اپنی زبان چوت کے دانے سے ٹچ کرتا ہوا اندر کرنے لگا۔
پانچ سے سات منٹ چوت کو اچھی طرح چاٹنے کے بعد میں نے ایک ہاتھ سے اپنا لنڈ پکڑا اور اس کی چوت پر رکھ دیا۔ اس نے مجھے دیکھا اور اپنی دونوں ٹانگیں اٹھ کر میرے کندھوں پر رکھ دیں۔ میں نے دو سے تین مرتبہ لنڈ کو چوت پر رگڑا اور آہستہ آہستہ چوت کے اندر داخل کردیا۔ لنڈتقریبا تین انچ اندر جاچکا تھا لنڈ کو کچھ باہر نکالا اور پھر ایک جھٹکا مارا تو پورا لنڈ جڑ تک اندر داخل ہوگیا۔ ارم کے منہ سے ایک چیخ نکلی، اگر گھر میں کوئی ہوتا تو ضرور آواز سن کر آجاتا مگر خوش قسمتی کہ گھر میں ہمارے اور اس کے سوئے ہوئے بیٹے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ اس کی چیخ سے برابر میں سویا ہوا اس کا آٹھ ماہ کا بیٹا جاگ گیا اور لیٹے لیٹے ہمیں دیکھنے لگا۔ میں آہستہ رفتار میں اسٹروک کرتا رہا اور وہ اپنے ایک ہاتھ سے بچے کو سلانے کی کوشش کرتی رہی مگر بچہ اپنی نیند لے چکا تھااور ہمیں لیٹے لیٹے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنی رفتار سے اس کی چدائی جاری رکھی۔ اور رفتہ رفتہ اپنی رفتار بڑھاتا گیا۔ تقریبا دس منٹ بعد میں نے ارم سے کہا میں فارغ ہونے والا ہوں اس نے کہا اندر نہیں چھوڑنا باہر فارغ ہونا میں نے ایسا ہی کیا اور مزید تین یا چار منٹ بعد میں نے اپنا لنڈ باہر نکالا تو بوتل کھولنے جیسی آواز کے ساتھ لنڈ باہر آیا اور اس کی چوت پر سارا لاوا بہنے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ فارغ ہوگئی۔
ہم دونوں ہی بری طرح ایسے ہانپ رہے تھے جیسے کسی سو میٹر ریس سے بھاگ کر آرہے ہوں۔ اپنا سانس نحال کرکے اس نے اپنے بیٹے کو دودھ پلانا شروع کیا تو میں نے اپنے کپڑے پہن لئے جبکہ وہ ابھی تک ننگی ہی بستر پر لیٹی اپنے بیٹے کو دودھ پلارہی تھی۔ کچھ دیر بعداس نے بیٹے کو الگ کیا اور اٹھ کر اپنی برا پہننے لگی اور پھر شلوار پہن کر قمیض بھی پہن لی۔اور بیٹے کو گود میں لیکر بیٹھ گئی۔
میں بھی اس کے ساتھ بیڈ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا تمہارا شوہر سیکس میں کیسا ہے؟ اس نے کہا سیکس میں تو ٹھیک ہے مگر وہ بیرون ملک نوکری کرتا ہے اس لئے سال میں ایک ماہ کیلئے ہی آتا ہے اور میں پیاسی ہی رہتی ہوں۔ انسان ہوں، جذبات ہیں میرے بھی۔ میں نے ہاں میں گردن ہلائی اور اگلا سوال کیا کہ کیا میں ہی ہوں تمہارے شوہر کے بعد جس نے تمہارا بدن دیکھا اور محسوس کیا ہے؟ نے کہا نہیں، مگر اور کون ہے اور کب سے ہے یہ نہیں پوچھنا۔۔۔۔ خیر میں نے ہاں میں پھر گردن ہلائی حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ رضا مجھ سے پہلے اس کے ساتھ تعلقات قائم کرچکا ہے۔
پھر وہ بولی بوبی، تم پتہ نہیں میری بات کا یقین کرو یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج سے پہلے تم جیسا مرد میری زندگی میں نہیں آیا، تم نے اس ایک دو گھنٹہ کی ملاقات میں مجھے جو سکھ پہنچایا ہے وہ اب تک کا سب سے حسین اتفاق کہا جاسکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی شادی ارینج تھی جو کہ آج سے چھ سال پہلے ایک عزیز کے بیٹے سے ہوئی اور اس کے ایک سال بعد میری بیٹی پیدا ہوئی، میرے شوہر شادی سے پہلے ہی بیرون ملک ملازمت کیلئے چلے گئے تھے اور شادی کرنے کیلئے آئے تھے۔ اس کے بعد وہ سالانہ چھٹیوں پر آتے ایک ماہ رکتے اور واپس چلے جاتے۔ سال کا وہ ایک ماہ میرے لئے سکون اور فرحت سے کم نہیں ہوتا باقی گیارہ مہینے میں تڑپ کر گزارتی، بیٹی جب ڈھائی سال کی ہوئی تو میری زندگی میں ایک شخص آیا جس کی قربت سے بس پیاس ہی بجھ پاتی، وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا ، سال گزرنے سے قبل وہ آتے میری زندگی میں بہار آجاتی اور ایک ماہ بعد پھر خزاں، دوسال پہلے جب وہ گئے تو میرے آشنا نے مجھ کو پریگنیٹ کردیا اور یہ جو تحفہ تم کو میری گود میں نظر آرہا ہے اسی کی نشانی ہے۔
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ گھڑی میں ٹائم دیکھا تو پونے تین بج رہے تھے اس نے کہا مجھے اب چلنا چاہئے، یہاں سے پانچ گلی آگے میرا گھر ہے تم مجھے اپنا نمبر دے دو میرے بھی گھر فون ہے میں خود تم سے رابطہ کرکے مل لیا کروں گی مگر ایک بات یاد رکھنا کبھی بھی میرا ذکر یا اس بات کا ذکر جو ابھی ہوا کسی کے سامنے خاص طور پر رضا کے سامنے نہیں کرنا ورنہ یہ دوستی برقرار رہنا مشکل ہوگی۔ ہم نے دعدہ کیا میں نے اپنا نمبر دیا اس تاکید کے ساتھ کہ صرف ورکنگ ڈے میں دن کے وقت فون کرنا۔ اس کے بعد ہم نے ایک طویل فرینچ کس کی اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔
پھر کیا ہوا یہ اگلے سیزن میں پیش کروں گا اپنی قیمتی آرا دیکر حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ یہ جو بھی تحریر کیا جارہا ہے یہ واقعات بالکل حقیقی ہیں بس ناموں اور جگہ کی تبدیلی اس لئے کی گئی ہے کہ پریشانی سے بچا جاسکے۔ امید ہے آپ سب کے لائیکس اور کمنٹس سے تقویت ملے گی۔