Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

دوست کی بیوی سے میری چدائی۔۔۔۔ سیزن پانچ

Cute

Well-known member
Joined
Mar 17, 2023
Messages
143
Reaction score
4,200
Points
93
Location
Germany
Gender
Female
Offline
دوست کی بیوی سے میری چدائی۔۔۔۔ سیزن پانچ

تمام دوستوں اور پڑھنے والوں کو تسلیمات، گزشتہ چارسیزنز پڑھ کر آپ تمام دوستوں نے لائیکس اور کمنٹس دیئے اس سے مزید لکھنے کی تقویت ملی۔ تو دوستوں اب تک آپ نے جو میری زندگی کی کہانی پڑھی وہ تمام حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ اب چلتے ہیں اگلی جانب کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ظاہر ہے تجسس تو آپ کو بھی ہوگا کہ باقی چھ کون تھیں اور کیسے میری زندگی میں داخل ہوئیں۔

آپ قارئین نے میری اس حقیقی زندگی کے دو تجربات کو پسند کیا اب پیش خدمت ہے تیسرا واقعہ جو میری زندگی میں پیش آیا۔

تو دوستو ارم اور فرح سے اسی طرح ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ میں نے گریجویشن کرلیا اور جامعہ کراچی میں فارم ڈی میں ایڈمیشن لے لیا۔ اسی دوران میرے بڑے بھائی اپنی نئی نوکری کے لئے جرمنی جاچکے تھے اور میرے والدین نے انکے لئے لڑکی کی تلاش شروع کردی تھی۔ کافی چھان پٹک کر ہمارے رشتے داروں کی ایک لڑکی انکو پسند آگئی۔ اسکا نام ثناء صدیقی ہے اور اس نے ایپلائیڈ کیمسٹری میں ماسٹرز کیا ہوا ہے جامعہ کراچی سے۔ خیر جولائی انیس سو چھیانوے میں بھائی کی شادی ہونا قرار پائی۔ جو لوگ کراچی کے پرانے رہائشی ہیں انکو معلوم ہوگا کہ ان دنوں میں کراچی کے حالات کافی خراب تھے۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے بھائی جرمنی سے شادی کیلئے آگئے اور میری ذمہ داری لگی کہ میں انکو شیروانی اور ولیمے کا سوٹ خریدوانے میں انکی مدد کروں،خیر یہ کام بھی خیر و خوبی سے انجام کو پہنچا اور مہندی کا دن آگیا۔ مہندی کی تقریب دونوں جانب سے مشترکہ رکھی گئی۔ شادی اور ولیمہ بھی خیریت سے ہوگیا۔ بھائی کو آئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا تھا اب وہ ہنی مون کے لئے شمالی علاقہ جات چلے گئے اور دو ہفتہ گزار کر جب واپس آئے تو انکی چھٹی ختم ہونے میں ایک ہفتہ ہی تھا۔ اور وہ وقت آگیا کہ بھائی کو ہم سب ایئرپورٹ رخصت کرکے واپس گھر آگئے، ثناء بھابھی بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اب گھر میں کئی برسوں بعد امی کے علاوہ کوئی خاتون ہمارے گھر میں موجود تھیں۔ وقت پھر اپنی رفتار سے چلنا شروع ہوا اور امی اور ابا اپنی اپنی نوکریوں میں مصروف ہوگئے۔ گھر میں اب میں اور بھابھی ہی ہوتے تھے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے کی روایت ہے کہ بھابھی گھر میں اپنے دیور یا نند سے زیادہ اٹیچ ہوتی ہے اور یہی ہوا ہمارے ساتھ بھی۔ بھائی کو گئے ہوئے مہینہ ہوچکا تھا۔اوپر کی منزل پر بھابھی کا کمرہ تھا جبکہ میرا کمرہ نیچے کی منزل پر ہے جبکہ میرا سٹیڈی روم بھی بھابھی کے کمرے کے برابر میں اوپر کی منزل پر ہے۔ ایک دن امی ابا کے جانے کے بعد میں اسٹیڈی روم میں پڑھنے کیلئے اوپر جارہا تھا تو سیڑھیوں کے ساتھ پہلا کمرہ بھابھی اور دوسرا کمرہ میرا اسٹیڈی روم تھا۔ جب میں بھابھی کے کمرے کے ساتھ بنی کھڑکی کے پاس سے گزرا تو کچھ مانوس سے آوازیں میرے کانوں میں آئیں۔ میں اچانک جاتے جاتے رک گیا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا مگر کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور اس پر پردہ لگا ہوا تھا۔ مجھے تجسس نے گھیر لیا۔ میں نے انگلی کی مدد سے پردے کو ہلکا سا ایک طرف سے اٹھایا تو میرے سامنے وہ منظر تھا جسے دیکھ کر کوئی بھی جوان مرد اپنے حواس قابو میں نہ رکھ سکتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

کھڑکی کی اوٹ سے جب میں نے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ بھابھی مکمل ننگی اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور اپنی چوت کو مسل رہی تھی جبکہ خمار کی وجہ سے انکی آنکھیں بند تھیں اور کانوں میں ہیڈ فون لگا ہوا تھا جس پر انکو کوئی ہدایات دے رہا تھا، میں یہ سمجھا کہ بھابھی بھائی سے بات کرکے تسکین حاصل کررہی ہوں گی۔
مگر ان آہوں سسکیوں کے درمیان جب انہوں نے ایک نام لیا تو میں چونک گیا۔انہوں نے کہا شامی تم کب ملو گے، بہت دن ہوگئے ہیں یار ۔۔۔۔۔ اب تو طلب بہت بڑھ گئی ہے۔ میں نے جب شامی کا نام سنا تو ایک لمحہ میں سمجھ گیا کہ یہ میرا تایا زاد بھائی ہے جو عمر میں مجھ سے ایک سال چھوٹا ہے اور یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ہے۔ ہوسکتا ہے وہ کوئی اور شامی ہو جس سے بھابھی بات کررہی ہو مگر وہ کہتےہیں نہ کہ یقین کی منزل تک پہنچنے کا آغاز شک سے ہوتا ہے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا کہ سب سے پہلا شک کا کیڑا میرے ذہن میں اپنے تایا زاد بھائی کا ابھرا۔ اب سوچنا یہ تھا کہ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے۔ثناء بھابھی کا جو منظر میں نے دیکھا پہلے انکا آپ کو بتادوں کہ انکی عمر 23 سال جبکہ فیگر یعنی بریسٹ36 کمر 28 اور چوتڑ34 کے تھے اور جسم کی رنگت دودھیا گوری اور اس پر پنک کلر کے نپل جبکہ دو پہاڑوں کی وادیوں میں ایک حسین سی نہر جس پر دور دور تک گھانس موجود نہیں تھی لگتا تھا ثناء بھابھی روز اس پر خوب محنت کرتی ہیں۔ تو بات ہورہی تھی بھابھی کی کیفیت کی کہ وہ دنیا و مافیا سے بے نیاز اپنے یار کی ہدایات پر عمل کررہی تھیں اور ان کو کوئی خبر نہیں تھی کہ کوئی پردے کی اوٹ سے دیکھ رہا ہے۔یہ مناظر دیکھ کر میرے ذہن میں صرف یہ بات ہی چل رہی تھی کہ جب بھابھی مجھ سے فرینک ہیں تو وہ کون ہے اور کب سے ہے جس سے وہ فون سیکس کررہی تھیں۔ پھر میں اپنی اسٹیڈی میں آکر یہ ہی سوچتا رہا کہ اس کا پتہ کیسے لگایا جائے کہ اتنے میں بھابھی اسٹیڈی کے دروازے پر کھڑی ہوکر مجھ سے پوچھنے لگیں کہ بوبی تم نے ناشتہ کیا؟ میں نے ان سے کہا بھابھی ابھی دو منٹ پہلے ہی تو میں اٹھ کر اوپر آیا ہوں۔ وہ کہنے لگیں اچھا میں نیچے جارہی ہوں تم تھوڑی دیر میں آجاو میں ناشتہ تیار کرلیتی ہوں، میں نے کہا جی بھابھی اور وہ نیچے چلی گئیں۔ جب مجھے کنفرم ہوگیا تو میں دبے پاوں انکے کمرے میں داخل ہوا تو سامنے بیڈ پر ہی انکا موباءل نوکیا 3310 نظر آگیا، میں نے جلدی سے وہ اٹھایا اور اس کے میسیج دیکھنے شروع کئے جس میں شامی کے کئی میسیج تھے جس میں سیکس کی باتیں کی گئیں تھیں میں نے اس کا نمبر ذہن میں نوٹ کیا اور جلد سے اسٹیڈی میں آکر ایک کاغذ پر وہ نمبر نوٹ کرلیا۔ تھوڑی دیر میں نیچے سے بھابھی کی آواز آئی وہ ناشتہ کیلئے مجھے بلا رہی تھیں میں نیچے چلا گیا اور ان پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ناشتہ کے دوران بھابھی سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں جب میں نے بھابھی کا موڈ اچھا دیکھا تو ان سے پوچھا بھابھی آپکو بھائی کی یاد آتی ہوگی ۔۔۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ہاں مگر جب تم ہو تو اتنی یاد نہیں آتی۔ میں نے کہا میرے ہونے سے کیا فائدہ، جو کام بھائی کا ہے وہ تو میں نہیں کرسکتا نا ۔۔۔۔۔ یہ سن کر ان کا منہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا ضروری تو نہیں اگر شوہر قریب نہ ہو تو بندہ بھوکا پیاسا ہی زندگی گزارے ۔۔۔۔ میں نے کہا کیا مطلب؟ انہوں نے کچھ لمحے انتظار کیا اور پھر بولیں دیکھو بوبی تم میرے اچھے دیور بھی ہو اور دوست بھی، ہماری عمروں میں اتنا کوئی خاص فرق بھی نہیں میں تم سے ایک سال ہی بڑی ہوں، اور اب تم بھی سمجھدار ہو، ایک بات بتاو، تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟ میں نے مسکرا کر انکو دیکھا اور الٹا ان سے سوال کرڈالا آپ کا کیا خیال ہے کیا میری کوئی گرل فرینڈ ہوگی؟ انہوں نے ہہہم کرکے سوچا اور کہا ہاں ہوگی۔ میں نے پوچھا آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ میری کوئی گرل فرینڈ ہوگی؟ انہوں نے کہا دیکھو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ ہو تم، میں نے بھی یونیورسٹی میں پڑھا ہے سب ہی ہی پڑھتے ہیں اور وہاں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ ہوتے ہیں تو انڈراسٹینڈنگ ہوجاتی ہے، کہیں نظروں سے کہیں دماغ سے اور کہیں جسمانی مراسم ہوہی جاتے ہیں۔ بھابھی کے منہ سے اتنی کھلیبات سن کر میں حیرت سے انکا منہ دیکھ رہا تھا۔یہ بات سن کر اب میری باری تھی بھابھی سے سوال داغنے کی کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا تھا؟ انہوں نے کہا سب کچھ آج ہی جان لو گے کچھ باتیں بعد کے لئے بھی رکھو، اچھا یہ بتاو یونیورسٹی کب جاو گے، میں نے کہا بھابھی کل میری بہت اہم کلاس ہے کل مجھے جانا ہے صبح آٹھ بجے اور واپسی تین بجے دن تک ہوگی۔یہ بات میں نے ان کو چیک کرنے کیلئے کہی تھی انہون نے ہاں میں گردن ہلائی اور میں نے ذہن میں پروگرام ترتیب دینا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ بھابھی پر خفیہ نظر رکھنی شروع کردی۔

ناشتہ کے بعد میں نے بھابھی سے کہا بھابھی میں زرا سگریٹ لینے مارکیٹ جارہا ہوں، بھابھی کو پتہ تھا میں سگریٹ پیتا ہوں، حالانکہ میرے پاس سگریت کا نیا پیکٹ موجود تھا جو ایک رات پہلے ہی لیا تھا مگر مجھے بہانا کرنا تھا کہ اگر بھابھی شامی کو کل کا پروگرام طے کرنا ہو تو وہ بے فکر ہوکر کرلیں اور میرے پاس باہر گیٹ کی ایک چابی ہوا کرتی تھی میں گھر سے نکلا اور پانچ منٹ بعد ہی خاموشی سے گھر میں داخل ہوگیا ۔ گھر میں مکمل کاموشی تھی، کچن میں بھابھی کو دیکھا تو وہ وہں موجود نہ تھیں اس کا مطلب وہ اپنے کمرے میں جاچکی تھیں میں دبے پاوں ان کے کمرے کے پا س پہنچا تو کمرے کا دروازہ نیم بند تھا اور بھابھی میرے شک کے مطابق شامی سے فون پر بات کررہی تھیں اور اس کو کل کا پروگرام سمجھا رہی تھیں کہ صبح ساڑے آٹھ پر پہنچ کر فون کرنا میں دروازہ کھول دوں گی اور ہمارے پاس دن ایک بچے تک کا وقت ہوگا اور ساتھ یہ بھی ہدایت کی کہ کنڈوم ساتھ لیکر آنا۔ میرا شک یقین میں بدل چکا تھا بس مزید کنفرم یہ کرنا تھا کہ شامی واقعی میرا تایا داز بھائی ہے یا بھابھی کا کوئی بوائے فرینڈ ہے۔ اب مجھے کل تک مزید انتظار کرنا تھا خیر میں دبے پاوں واپس نیچے آیا اور بیرونی دروازے پا جاکر بیل دی اور اندر داخل ہوگیا تاکہ بھابھی کو شک نہ ہو اور وہ محتاط ہوجائیں۔انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ رہا تھا خیر جیسے تیسے رات ہوئی میں نے الارم لگایا اور سوگیا اور صبح امی ابا کے جانے کے بعد تیاری کرنی شروع کی اور اپنی چابی بیگ میں ڈال کر میں نے بھابھی کو آواز دی کہ بھابھی میں جارہا ہوں اور باہر کا دروازہ آواز کے ساتھ بند کرکے گیسٹ واش روم میں چھپ گیا تاکہ بھابھی یہ ہی سمجھیں کہ میں یونیورسٹی چلا گیا ہوں۔ میرے اس عمل کے بعد کوئی پندرہ منٹ بعد مجھے بھابھی کے سیڑھیاں اترنے کی آواز سنائی دی۔ وہ گیسٹ واش روم سے سامنے سے نکل کر بیرونی دروازے کی طرف گئیں اور بیرونی دروازہ کھول دیا تو ایک چھ فٹ لمبا چوڑے شانے اور گوری رنگت کا لڑکا انکے ساتھ گھر میں داخل ہوا، میں دروازے کی باریک جھری سے دیکھ رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر کم سے کم مجھے یہ اطمینان ہوا کہ جس شامی کو میں سمجھ رہا تھا یہ وہ شامی نہیں تھا۔

بھابھی شامی سے باتیں کرتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگیں اور وہ بھی انکے ساتھ ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگا، میں سمجھ گیا وہ دونوں بھابھی کے کمرے کی جانب گامزن ہیں جہاں وہ اپنی ساری حسرتیں پوری کرسکیں۔میں نے پانچ منٹ مزید انتظار کیا اور باہر حالات کا جائزہ لیکر دبے پاوں باہر نکلا اور سیڑغیان چڑح کر محتاط انداز میں بھابھی کے کمرے کے پاس پہنچ گیا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا جبکہ کھڑکی اب بھی کھلی ہوئی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھا اور کھڑکی کے قریب ہوکر اندر کی آوازوں سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ اندر کے حالات کیا ہیں؟ اندر سے کسنگ کی آوازوں کے ساتھ کچھ سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے اپنا بیگ اور جوتے اسٹیڈی میں جاکر چھپائے اور بیگ سے ایک پین نکال کر ساتھ رکھ لیا اور واپس کھڑکی کی جانب آگیا۔ پین کی مدد سے پردے کا کونا اٹھایا تو کمرے کےاندر کا منظر دیکھ کر میرے اندر کا شیطان سر اٹھانے لگا۔ اندر بھابھی اور شامی دونوں مکمل ننگے تھے اور بھابھی کی کمر میری طرف تھی جبکہ شامی انکی کمر پر کسنگ کررہا تھا اور اور اس کے دونوں ہاتھ بھابھی کے مموں کا حصار کئے ہوئے تھے اور یقینا بھابھی کی آنکھیں لذت جذبات سے بند ہونگیں۔کافی دیر شامی بھابھی کے پوری جسم پر کسنگ کرتا رہا پھر بھابھی بیڈ پر الٹی لیٹ گئیں اور اس نے بھابھی کے گورے گورے پیروں اور تلوں کو چومنا اور چاٹنا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر میرے اندر ایک ہیجان کی کیفیت برپا ہوگئی ور میرا دل چاہنے لگا کہ میں مین اپنے کپڑے اتار کر بھابھی کو ابھی چود ڈالوں مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔
کچھ دیر یہ ہی سلسلہ چلتا رہا اور پھر شامی نے بھابھی کو اٹھاکر بیٹھا دیا اور خود بستر کے کنارے کھڑے ہوکر اپنا لنڈ ان کے خوبصورت گلابی ہونٹوں سے لگادیا جس کو بھابھی نے اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور پہلے اس کے لنڈ کو ایک کس کی اور پھر اسکی ٹوپی کو اپنے منہ مین لیکر چوسنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر کیا ہوا یہ اگلے سیزن میں پیش کروں گا
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top