Cute
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
خیر اسی دن شام سے میں نے خاموشی سے تیاری کرنی شروع کی اور نہاتے ہوئے اپنی بغلوں اور ٹٹوں کے بال صاف کئے اور اپنا بیڈ روم طریقے سے سیٹ کیا اور جو جو چیزیں پھیلی ہوئی تھیں ان کو جگہ پر رکھ کر رات کو کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹ کر اپنے ذہن میں ارم کے خدوخال کے نقشے بنانے لگا کہ وہ کیسی ہوگی، اس کے ممے اور چوت کیسی ہوگی۔ میری زندگی کا یہ دوسرا مرحلہ یا واقعہ کسی عورت کے ساتھ رونما ہونے جارہا تھا۔حالانکہ اس وقت تک مجھے یہ لگتا تھا کہ شاید ہر عورت کا ذائقہ ایک جیسا نہیں ہوتا مگر ذائقہ تو ایک جیسا ہوتا ہے پسند و ناپسند الگ الگ ہوتی ہے۔ دوستوں میں اپنے ان واقعات کو اس لئے تھوڑا تھوڑا لکھ رہا ہوں کہ میری شادی سے پہلے اور شادی کے بعد میں نے کس کس سے اور کس طرح سیکس کے مزے لوٹے۔ ویسے تو زندگی میں اب تک میں نے اپنی بیوی کے علاوہ آٹھ خواتین سے سیکس کیا ہے اور ان میں صرف میری بیوی ہی کنواری تھی باقی سب شادی شدہ یا بیوہ ہی تھیں۔اب میں آپکو رضا کی کزن ارم سے ہونے والی ملاقات کی رودار سناتا ہوں۔
اگلے دن بدھ کو صبح حسب معمول بھائی اور امی ابو کے جانے کے بعد میں اٹھا اور فریش ہوا نہا کر جسم پر پرفیوم لگایا اور ناشتہ نکال کر ناشتہ کرنے لگا۔ ابھی میں نے ناشتہ ہی کرنا شروع کیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں اٹھ کر باہر دروازے پر گیا تو دیکھا ایک خوبصورت عورت اپنی گود میں شاید دس ماہ کا بچہ تھا لئے کھڑی تھی میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ جی فرمائیں۔۔۔ اس نے کہا آپ بوبی ہیں میں نے جواب دیاجی میں ہی بوبی ہوں ۔۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر گلی میں جائیزہ لیکر کہا میں رضا کی کزن ہوں میں نے کہا جی جی آئیں اندر آجائیں ۔۔۔۔۔ وہ اندر آگئی ۔۔۔۔ میں نے سر باہر نکال کر گلی کا جائیزہ لیا تو دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ یہ بات میں پہلے بتاچکا ہوں ہمارا علاقہ اس وقت غیر آباد تھا اور بہت ہی کم مکانات تعمیر ہوئے تھے۔ارم کو لیکر میں لاونج میں آگیا جہاں میں ناشتہ کررہا تھا۔ میں نے اخلاقی طور پر ارم سے پوچھا کہ آپ ناشتہ کریں گی تو اس نے جواب دیا میں ناشتہ کرکے آئی ہوں۔ میں نے اس کو چائے نکال کر دی تو وہ چائے پینے لگی۔ میں نے ناشتہ کرتے ہوئے اس کے خدوخال کا جائیزہ لینا شروع کیا۔
ارم کا قد پانچ فٹ پانچ ہوگا اور اس کا رنگ گورا جبکہ اس نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا اور ہونٹ بھرے بھرے تھے جس پر گلابی لپ اسٹک لگی ہوَئی تھی اور گالوں پر مسکراتے ہوئے ڈمپل پڑتے تھے۔بال براون تھے جبکہ ممے اٹھے ہوئے اور بڑے تھے جو کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اڑتیس سائیز کے تھے۔جب میری نظر اسکے پاوں پر پڑی میں ناشتہ کرتے کرتے رک گیا۔ اتنے حسین اور گورے پاوں جس پرنیل پالش نہیں لگی تھی جبکہ ایڑھیوں اور تلوں پر دوران خون اس قدر تھا کہ وہ سرخ ہورہے تھے۔
جیتی دیر میں اس کا جائیزہ لیتا رہا وہ چائے پیتے پیتے میرے چہرے کے تاثرات دیکھتی رہی۔پھر میرے کانوں میں اس کی کھنکتی آواز گونجی بوبی کیا کرتے ہو تم؟ میں نے اس کو بتایا کہ میں کالج کا اسٹوڈنٹ ہوں اور پھر میں نے اپنے فیملی ممبرز کا بتایا۔ اس نے سننے کے بعد کہا رضا سے کب سے ہے دوستی میں نے کہا ٹائم ہوگیا، میرا کالج انکے گھر کے پاس ہی ہے تو اکثر کالج کے باہر ہوٹل پر ملاقات ہوتی تھی بس وہیں سے ابتداء ہوئی۔میں نے کہانی بناتے ہوئے کہا جس سے اس کے چہرے پر مجھے سکون نظر آیا۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں رہتی ہیں تو وہ کہنے لگی میرا سسرال اسی سیکٹر میں ہے یہاں سے پانچ گلی آگے۔پھر اس نے بتایا کہ میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں بڑی بیٹی ہے دو سال کی اور یہ بیٹا ہے آٹھ ماہ کا۔ میرے شوہر قطر میں پیٹرولیم انجینئر ہیں اور انکی ڈیوٹی ڈیک پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا ڈیک کیا ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ جہاں سے پیٹرول یا تیل نکلتا ہے اس کو ڈیک کہتے ہیں اور وہاں کام کرنے والوں کو اپنے ساتھ فیملی رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔وہ شادی سے پہلے سے وہاں جاب کررہے ہیں اور سال میں بس ایک ماہ کی چھٹی آتے ہیں۔اور میرے ساتھ گھر پر ساس اور سسر ہوتے ہیں بیٹی کو ابھی انہی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں کہ ایک سہیلی سے ملنے کا بہانہ کرکے۔میرے ساس سسر دونوں کافی عمر کے ہیں تو بس زیادہ تر میں گھر کے کاموں میں یا بچوں میں لگی رہتی ہوںساتھ ساتھ انکی خدمت بھی۔ میرے والدین ناظم آباد میں رہتے ہیں تو ہفتہ میں ایک دن میں انکے پاس چلی جاتی ہوں۔
اتنی دیر میں میں چائے ختم کرچکا تھا اور برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے گیا تو اس کا بیٹا رونے لگا میں نے کہا آپ میرے بیڈ رووم میں اس کو لٹادیں اور اس کو اپنے بیڈ روم میں لے گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو بیڈ پر لٹایا اور کروٹ لیکر خود لیٹ گئی میں نے اندازہ لگایا وہ شاید اپنے بیٹے کو دودھ پلارہی تھی۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی میں فون اٹھایا تو دوسری طرف رضا کی آواز کرب بھری تھی وہ کہہ رہا تھا کہ میں تمہاری طرف آرہا تھا کہ گلشن چورنگی پر گاڑی والے نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی اور میری ٹانگ میں شدید چوٹ آَئی ہے میں ابھی کلینک سے انجیکشن لگواکر اپنے گھر واپس آگیا ہوں یہ بتاو ارم آگئی؟ میں نے کہا جی آگئیں تو اس نے کہا میری بات کروادو میں فون رکھ کر ارم کو بلانے گیا اور جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا وہ بستر پر نیم غنودگی میں لیٹی ہوئی تھی اس کا بیٹا دودھ پیتے پیتے سوچکا تھا اور اس کا انتہائی گلابی مما قمیض سے باہر تھا جسے دیکھ کر میرے لنڈ میں ہلچل شروع ہوگَئی میں نے آواز دیکر کہا آپ کا فون ہے وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور اپنا مما اپنے بریزر کے اندر کرتی ہوئی فون سننے بڑھ گئی۔
پھر کیا ہوا یہ اگلے سیزن میں پیش کروں گا اپنی قیمتی آرا دیکر حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ یہ جو بھی تحریر کیا جارہا ہے یہ واقعات بالکل حقیقی ہیں بس ناموں اور جگہ کی تبدیلی اس لئے کی گئی ہے کہ پریشانی سے بچا جاسکے۔ امید ہے آپ سب کے لائیکس اور کمنٹس سے تقویت ملے گی۔
اگلے دن بدھ کو صبح حسب معمول بھائی اور امی ابو کے جانے کے بعد میں اٹھا اور فریش ہوا نہا کر جسم پر پرفیوم لگایا اور ناشتہ نکال کر ناشتہ کرنے لگا۔ ابھی میں نے ناشتہ ہی کرنا شروع کیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں اٹھ کر باہر دروازے پر گیا تو دیکھا ایک خوبصورت عورت اپنی گود میں شاید دس ماہ کا بچہ تھا لئے کھڑی تھی میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ جی فرمائیں۔۔۔ اس نے کہا آپ بوبی ہیں میں نے جواب دیاجی میں ہی بوبی ہوں ۔۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر گلی میں جائیزہ لیکر کہا میں رضا کی کزن ہوں میں نے کہا جی جی آئیں اندر آجائیں ۔۔۔۔۔ وہ اندر آگئی ۔۔۔۔ میں نے سر باہر نکال کر گلی کا جائیزہ لیا تو دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ یہ بات میں پہلے بتاچکا ہوں ہمارا علاقہ اس وقت غیر آباد تھا اور بہت ہی کم مکانات تعمیر ہوئے تھے۔ارم کو لیکر میں لاونج میں آگیا جہاں میں ناشتہ کررہا تھا۔ میں نے اخلاقی طور پر ارم سے پوچھا کہ آپ ناشتہ کریں گی تو اس نے جواب دیا میں ناشتہ کرکے آئی ہوں۔ میں نے اس کو چائے نکال کر دی تو وہ چائے پینے لگی۔ میں نے ناشتہ کرتے ہوئے اس کے خدوخال کا جائیزہ لینا شروع کیا۔
ارم کا قد پانچ فٹ پانچ ہوگا اور اس کا رنگ گورا جبکہ اس نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا اور ہونٹ بھرے بھرے تھے جس پر گلابی لپ اسٹک لگی ہوَئی تھی اور گالوں پر مسکراتے ہوئے ڈمپل پڑتے تھے۔بال براون تھے جبکہ ممے اٹھے ہوئے اور بڑے تھے جو کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اڑتیس سائیز کے تھے۔جب میری نظر اسکے پاوں پر پڑی میں ناشتہ کرتے کرتے رک گیا۔ اتنے حسین اور گورے پاوں جس پرنیل پالش نہیں لگی تھی جبکہ ایڑھیوں اور تلوں پر دوران خون اس قدر تھا کہ وہ سرخ ہورہے تھے۔
جیتی دیر میں اس کا جائیزہ لیتا رہا وہ چائے پیتے پیتے میرے چہرے کے تاثرات دیکھتی رہی۔پھر میرے کانوں میں اس کی کھنکتی آواز گونجی بوبی کیا کرتے ہو تم؟ میں نے اس کو بتایا کہ میں کالج کا اسٹوڈنٹ ہوں اور پھر میں نے اپنے فیملی ممبرز کا بتایا۔ اس نے سننے کے بعد کہا رضا سے کب سے ہے دوستی میں نے کہا ٹائم ہوگیا، میرا کالج انکے گھر کے پاس ہی ہے تو اکثر کالج کے باہر ہوٹل پر ملاقات ہوتی تھی بس وہیں سے ابتداء ہوئی۔میں نے کہانی بناتے ہوئے کہا جس سے اس کے چہرے پر مجھے سکون نظر آیا۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں رہتی ہیں تو وہ کہنے لگی میرا سسرال اسی سیکٹر میں ہے یہاں سے پانچ گلی آگے۔پھر اس نے بتایا کہ میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں بڑی بیٹی ہے دو سال کی اور یہ بیٹا ہے آٹھ ماہ کا۔ میرے شوہر قطر میں پیٹرولیم انجینئر ہیں اور انکی ڈیوٹی ڈیک پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا ڈیک کیا ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ جہاں سے پیٹرول یا تیل نکلتا ہے اس کو ڈیک کہتے ہیں اور وہاں کام کرنے والوں کو اپنے ساتھ فیملی رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔وہ شادی سے پہلے سے وہاں جاب کررہے ہیں اور سال میں بس ایک ماہ کی چھٹی آتے ہیں۔اور میرے ساتھ گھر پر ساس اور سسر ہوتے ہیں بیٹی کو ابھی انہی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں کہ ایک سہیلی سے ملنے کا بہانہ کرکے۔میرے ساس سسر دونوں کافی عمر کے ہیں تو بس زیادہ تر میں گھر کے کاموں میں یا بچوں میں لگی رہتی ہوںساتھ ساتھ انکی خدمت بھی۔ میرے والدین ناظم آباد میں رہتے ہیں تو ہفتہ میں ایک دن میں انکے پاس چلی جاتی ہوں۔
اتنی دیر میں میں چائے ختم کرچکا تھا اور برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے گیا تو اس کا بیٹا رونے لگا میں نے کہا آپ میرے بیڈ رووم میں اس کو لٹادیں اور اس کو اپنے بیڈ روم میں لے گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو بیڈ پر لٹایا اور کروٹ لیکر خود لیٹ گئی میں نے اندازہ لگایا وہ شاید اپنے بیٹے کو دودھ پلارہی تھی۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی میں فون اٹھایا تو دوسری طرف رضا کی آواز کرب بھری تھی وہ کہہ رہا تھا کہ میں تمہاری طرف آرہا تھا کہ گلشن چورنگی پر گاڑی والے نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی اور میری ٹانگ میں شدید چوٹ آَئی ہے میں ابھی کلینک سے انجیکشن لگواکر اپنے گھر واپس آگیا ہوں یہ بتاو ارم آگئی؟ میں نے کہا جی آگئیں تو اس نے کہا میری بات کروادو میں فون رکھ کر ارم کو بلانے گیا اور جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا وہ بستر پر نیم غنودگی میں لیٹی ہوئی تھی اس کا بیٹا دودھ پیتے پیتے سوچکا تھا اور اس کا انتہائی گلابی مما قمیض سے باہر تھا جسے دیکھ کر میرے لنڈ میں ہلچل شروع ہوگَئی میں نے آواز دیکر کہا آپ کا فون ہے وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور اپنا مما اپنے بریزر کے اندر کرتی ہوئی فون سننے بڑھ گئی۔
پھر کیا ہوا یہ اگلے سیزن میں پیش کروں گا اپنی قیمتی آرا دیکر حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ یہ جو بھی تحریر کیا جارہا ہے یہ واقعات بالکل حقیقی ہیں بس ناموں اور جگہ کی تبدیلی اس لئے کی گئی ہے کہ پریشانی سے بچا جاسکے۔ امید ہے آپ سب کے لائیکس اور کمنٹس سے تقویت ملے گی۔