kashmiri
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
دیکھنے گئے تھے جاپان، پر دیکھی افغان چوت
پہلا حصہ ۔۔۔
وہ کوئی بہت زیادہ خوبصورت تو نہیں تھی، مگر عجیب سی کشش تھی اس کے جسم اور آنکھوں میں۔ بات کرتے ہوئے جب وہ اپنے ہونٹوں کو تر کرنے کےلئے زبان باہر نکالتی تھی، تو دل کرتا تھا کہ لپک کر اس کی زبان چوس کر اسکے لعاب سے اپنے ہونٹ تر کرلوں۔
اب اس واقعہ کو اٹھارہ برس بیت چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی طرف سے ٹوکیو سے تقریبا پانچسو کلومیٹر دور جاپان کے ایک مضافاتی قصبہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کےلئے جانا پڑا۔ آجکل ویسے یہ ادارے اور ان کے منتظمیں اتنے چالاک ہو گئے ہیں، کہ وہ کسی بڑے شہر میں کانفرنس رکھتے ہی نہیں ہے۔ اس سے شرکت کرنے والے کانفرنس چھوڑ کر شہر دیکھنے یا شاپنگ میں وقت ضائع نہیں کرتے ہیں۔ اور پورا وقت کا نفرنس کے ایجنڈہ پر ہی مرکوز کرتے ہیں۔
شہر کا نام کوماتسو یا اسی سے کوئی ملتا جلتا نام تھا۔ کانفرنس اس کے بھی مضافات میں ایک ہوٹل ریزورٹ میں تھی۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ساوتھ ایشیا سے میرے علاوہ بس ایک أفغان خاتون آئی ہے، جو اسوقت پارلیمنٹ کی ایک رکن بھی تھی۔ یہ وہ وقت تھا، جب حامد کرزائی تازہ تازہ حکومت میں آئے تھے۔ باقی جن لوگوں کو آنا تھا مختلف وجوہات کی بنا پر آخر وقت انہوں نے کینسل کر دیا تھا۔
اس سیاسی خاتون کا نام لکھنا بد دیانتی ہوگی۔ مگر کہانی کو آگے بڑھانے کےلئے چلئے اسکا نام مہ وش رکھتے ہیں۔ چار دن کی اس کانفرنس کے پہلے دو روز وہ مجھ سے کچھی کچھی سی رہی۔ جب دیکھا کہ وہ لفٹ ہی نہیں کرا رہی ہے، تو میں نے بھی دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔
تیسرے روز کیا ہوا کہ منتظمین کی طرف سے اسکو جو مترجم دیا گیا تھا، وہ بیمار پڑ گیا یا کوئی اور مسئلہ اس کو درپیش آگیا۔ جو لوگ ایسے ممالک میں رہے ہوں، جہاں انگریزی کا وجود نہیں ہے، ان کو معلوم ہوگا کہ مترجم اس جگہوں پر کتنا اہم ہوتا ہے۔ منتظمیں کے پاس بس اب ایک ہی انگریزی کا مترجم تھا ، جو میرے ساتھ ڈیوٹی پر تھا۔ اس مترجم کی ڈیوٹی اب ہم دونوں کے ساتھ لگائی گئی۔ چاہے ، لنچ، ڈبر، کانفرنس کے اندر پریزنٹیشن و ڈسکشن، غرض اب دونوں کو اس ایک ہی مترجم کی وجہ سے ساتھ بیٹھنا اور گھومنا پڑا، جس کی وجہ سے مہ وش اب کچھ کچھ کھلنے لگی تھی۔
اس نے بتایا کہ وہ انڈیا اور پاکستان میںٰ رہ چکی ہے جس کہ وجہ سے وہ بہت اچھی اردو یا ہندی بول سکتی ہے۔ ایک لمبی جدو جہد کے بعد وہ أفغان سیاست میں آگئی تھی۔ وہ اس وقت کچھ تیس سال یا اس کے کچھ اوپر نیچے تھی۔ کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی، مگر وہ کامباب نہیں ہو پائی۔ سال دو سال بعد ہی طلاق ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد اس نے پڑھائی پر دھیان لگا کر پورپ سے کئی ڈگریاں حاصل کی اور طالبان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کابل واپس آگئی تھی۔
گندمی رنگ، کتابی چہرہ، گلابی مگر نسبتا موٹے ہونٹ، ستواں ناک مگر روایتی تیکھے افغانی نقوش کے ساتھ اس کے بھرے بھرے جسم میں ایک جنسی کشش موجود تھی۔ جہاں کشمیری، ایرانی اور قفقازی لڑکیوں کے فیچرس ملائم ہوتے ہیں، افغانیوں کے نقوش اس کے برعکس قدرے کرخت ہوتے ہیں۔ یعنی کشمیری اور ایرانی لڑکیاں اگر مکھن ہیں تو افغان لڑکیاں پنیر ہوتی ہیں۔ دونوں ہی دودھ سے بنتی ہیں اور ان کا اپنا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ ہاں پنیر تھوڑی سخت ہوتی ہے۔
وہ خاصی ریزروڈ تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ یہاں بیل تو منڈھے نہیں چڑھ پائے گی۔ اس دوران میں نے اس کی پریزنٹیشن کو مزید نکھارنے اور اسکو پاور پوائینٹ میں منتقل کرنےمیں مدد دی، جس کی وجہ سے اس کو ایک یا دو گھنٹے میرے کمرے میں گذارنے پڑے۔ پھر ایک صبح جب ہوٹل سے کانفرنس ہال کی طرف جا رہے تھے، کہ اس کی چپل ٹوٹ گئی۔ اس کی پہلے ہی سیشن میں پریزنٹیشن تھی۔ اس کو کانفرنس روم میں چھوڑ کر میں مترجم کے ساتھ منتظمیں کی طرف سے مہیا کردہ گاڑی میں قصبہ کے بازار کی طرف روانہ ہوگیا۔
پہلے اس کےلئے ایک چپل خریدی۔ کیونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہاں کوئی موچی ملے گا۔ مگر واک کرتےہوئے ہم نے جوتے ٹھیک کرنے والی دکان بھی دیکھی۔ اس موچی کو چپل دے کر ٹھیک کروائی اور پے مینٹ کریڈیٹ کارڈ سے کی۔ معلوم ہوا کہ ٹھیک کروانے کے دام نئی چپل جتنے ہی تھے۔ دونوں چپلیں لیکر ہم ہوٹل واپس لوٹے۔
وہ بس شام تک ہر لمحہ شکریہ ادا کرتی رہی اور جذبہ احسان کے تحت میرے ہی آس پاس منڈلاتی رہی۔ کانفرنس ختم ہونے سے ایک روز قبل اس نے بتایا کہ وہ کل ہی واپس کابل روانہ ہو رہی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ آخر ٹوکیو شہر کو دیکھے بغیر کیوں واپس جانا چاہتی ہے ؟
اسنے جواب دیا کہ" مجھے بھی ٹوکیو دیکھنے کا بہت شوق ہے اور پہلی بار ہی جاپان آئی ہوں۔ مگریہاں ہوٹل وغیرہ بہت ہی مہنگے ہیں، میں افورڈ نہیں کر پاوٗں گی۔ میں سیاست دان تو ہیں، مگر ابھی ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی تنخواہیں اتنی نہیں ہے کہ کوئی لگزری افورڈ کی جا سکے۔‘‘
اسنے میرا شیڈول پوچھا، تو میں نے بتایا کہ:’’ میں نے ممبئی سے ہی نیٹ پر ٹوکیو میں ایک ون بیڈ روم سروس فلیٹ دو رات کےلئے بک کیا ہوا ہے۔ کیونکہ ان جگہوں پرہم جیسے لوگ تو زندگی میں ایک ہی بار آتے ہیں۔ آنے جانے کا کرایہ منتظمیں نے ادا کیا تھا۔ تو بس چند اور روپے ہی خرچ کرنے تھے، دو رات اور ایک پورا دن ٹوکیو میں گذارنے کےلئے۔‘‘
چند لمحوں کے بعد میں نے کہا،" ویسے ایک آفر تو ہے۔" اس وقت تک اب وہ کچھ کچھ فری ہو چکی تھی۔
"کیا آفر ہے؟" اس نے پوچھا۔
میں نے کہا کہ" نیٹ پر جب میں سروس فلیٹ بک کر رہا تھا تو اس کے مطابق اس میٍں دو کمرے ہیں، ڈرائنگ روم کم کچن و ڈائینگ اسپیس ہے اور ایک بیڈ روم ہے۔ اگر تمہارا موڈ ٹوکیو دیکھنے کا ہے، تو میرے ساتھ آسکتی ہو۔ فلیٹ کا کرایہ میں پہلے ہی ادا کرچکا ہوں۔ میں ڈرائینگ روم میں صوفہ پر سوجاوں گا اور تم بیڈ روم میں سوجانا۔"
وہ بولی "نا بابا نا نا ، کسی کو پتہ چلا تو میرا کیریر تو تباہ ہو ہی جائیگا، قتل بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تو بہت ہی رسکی آپشن ہے۔ یہی بہت ہے کہ میں یہاں تمہارے ساتھ بات کررہی ہوں۔ "
میں نے نیٹ آن کرکے اسکو فلیٹ کے فوٹو دکھائے، جس میں بیڈ روم بکل الگ نظر آتا تھا۔
ممبئی میں ہی ایک دوست جس کا جاپان آنا جانا لگتا ہے، نے ہی ہوٹل کے بجائے سروس فلیٹ بک کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس سے کھانے پینے کی پریشانی دور ہوجاتی ہے اور پھر ہوٹل سے کافی سستا ملتا ہے۔ اس ریٹ پر جو ہوٹل ہوتے ہیں، ان میں کھانے کی بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ چین، کوریا، جاپان میں کھانے کے نام پر کیا ملے، کوئی بھروسہ نہں ہوتا ہے۔
" یہاں کس کو پتہ ہے، اور کون تمہیں جانتا ہے۔ ویسے بھی فلیٹ میں ہم کو کتنے گھنٹے گذارنے ہیں۔ یہ تو بس سامان رکھنے کی جگہ ہے۔ ٹوکیو پہنچتے ہی شہر گھومنا ہے۔ دیر رات گئے واپسی پر بس چند گھنٹےسونا ہے۔ پھر اگلے روز سٹی ٹور پر نکلیں گے۔ دوبارہ دیر رات واپسی ہوگی اور پھر صبح سویرے پو پھوٹنے سے قبل ہی ایر پورٹ روانہ ہونا ہے، " میں نے اسکو منانے کی آخری کوشش کی۔
وہ سوچ میں پڑ گئی، مگر کہا کہ شام تک وہ غور کرکے جواب دیگی۔ رات کو ڈنر کےلئے جب ہم جمع ہوئے، تو اس نےکہا کہ منتظمیں سے کہلوا کر اس نے ٹکٹ کو ریشیڈل کرکے فلائٹ دو دن بعد ٹوکیو سے رکھوائی ہے۔ اس نے قسم دلوائی کہ فلیٹ میں ساتھ رہنے کے بارے میں کسی کو نہیں بتاوٗں گا۔ میں نے کہا اس کےلئے مجھے کابل آنا پڑے گا، جس کا مجھے کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دو دن بعد ہم دونوں کی راہیں الگ ہونگی۔ کیا معلوم کہ دوبارہ کبھی ملاقات ہو بھی سکے گی کہ نہیں۔ اب جو موقعہ ملا ہے اس کو غنیمت سمجھ کر ٹوکیو کی سیر کی جائے۔
جمعہ کی صبح کانفرنس کا آخری سیشن تھا۔ سبھی ڈیلی گیٹ ایک دوسرے سے رخصت ہو رہے تھے ۔ مجھے یقین تھا کہ چدائی کی دال گلنے والی نہیں ہے، بس ہاتھ وغیر ہی لگ جائے یہی بہت ہے۔ پھر بھی ایک موہوم امید کے سہارے میں نےباتھ روم جاکر لنڈ کے آس پاس کے بال بلیڈ اور ہیر ریمور سے خوب صاف کرکے اس کو صاف وشفاف اور چکنا کرکے رکھ دیا۔ کیا معلوم اس کی ضرورت پیش آئے۔
ہم نے ٹوکیو جانے کےلئے ایک بس میں ٹکٹ بک کی ہوئی تھی۔ پانچ گھنٹے کا سفر تھا۔ راستے میں مہ وش نیند میں لڑھک کر میرے کندھے پر گر جاتی تھی۔ کیونکہ آخری رات کم وبیش سبھی ڈیلی گیٹ جاگ کر ہوٹل لابی میں کافی اور بیروقفہ وقفہ سے پی کر باتیں کر رہے تھے۔ شاید ہی کوئی سویا تھا۔
پھر اس کو إحساس ہوتا تھا کہ وہ میرے کندھے کا سہا را لے رہی ہے، تو سوری کرکے سیٹ پر تن کر بیٹھ جاتی تھی۔ میں نے کہا کہ کندھا حاضر ہے، کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ کندھے کا سہارا لیکر سو گئی اور میں بھی کچی نیند میں چلا گیا۔
خیر بعد دوپہر ٹوکیوکے بس اڈے پر پہنچ کر ایڈرس دکھا کر ایک ٹیکسی والے نے ہمیں سروس فلیٹ کی بلڈنگ کے دورازہ پر چھوڑا۔ ریسپشن سے چابی لیکر معلوم ہوا کہ فلیٹ گیارہوں منزل پر ہے۔ لفٹ سے اوپر جاکر اور دروازہ کھول کر اندر جاکردیکھا کہ ایک چھوٹا سا کوریڈور ہے۔
جس کے بائیں طرف ایک باتھ روم ہے اور پھر ایک بڑا سا کمرہ، جس کے ایک کونے میں ایک صوفہ ، بیچ میں چھوٹا سا ڈائنگ ٹیبل اور دوسرے سائڈ میں کچن اسٹینڈ اور اس پر الیکٹرک ہیٹر، کافی میکر اور اس کے اوپر ایک الماری میں چند برتن، پلیٹ، کپ اور چمچہ و دیگر چیزیں تھیں۔
دوسرا کمرہ بھی شاید اس کا حصہ تھا، مگر اس کو فالس پارٹیشن سے الگ کر کے بیڈ روم بنایا گیا تھا۔ اس کے درواہ کو کھول کردیکھا کہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے، جس میں ایک بیڈ ہے، جو ڈبل نہ سنگل تھا۔ اس پر دو لوگ چپک کر ہی سو سکتے تھے۔
اس کے مقابل ایک الماری تھی ، جس کے پورے دروازے پر نیچے سے اوپر تک صاف و شفاف آئینہ لگا ہوا تھا۔ یعنی اس بیڈ پر بیٹھے یا سونے والا آئینہ میں نظر آتا تھا۔
وہ بار بار کمرے کی تنگی کا ذکر کرہی تھی، میں نے کہا کہ تم بیڈ روم پر قبضہ جماو۔ میں صوفے پر سو جاوٰنگا۔ بس باتھ روم جانے کےلئے تمہیں اس کمرہ سے ہو کر گذرنا ہوگا۔ بس اسی سے تھوڑی سی پرائیوسی متاثر ہوگی۔ اب چند گھنٹہ ٹھہرنے کےلئے تھوڑی ایڈجسمنٹ کرنی تو پڑے گی۔
سامان جما کر اور ایک ایک کپ کافی کا پی کر ہم نیچے آگئے اور ریسپشن سے سٹی سینٹر اور ایک دن کے سٹی ٹور کے بارے میں جاننے لگے۔ سٹی سینٹر جانے کےلئے استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی نے میٹرو ٹرین کا راستہ بتایا اور ایک دن کے سٹی ٹور کےلئے پاس کی ایک ٹراول ایجنسی میں بھیجا،جہاں خوش قسمتی سے انگریزی بولنے والا آدمی موجود تھا۔ اگلے دن کےلئے ٹور بس میں دو سیٹیں ریزرو کیں۔ ٹور والے ملازم نے بتایا کہ کل صبح آٹھ بجے بس یہاں پہنچے گی اور بس دس منٹ انتظار کریگی۔ نہ جانے کی صورت میں پیسے واپس نہیں ہونگے۔
وہاں سے ہم انڈر گراونڈ میٹرو اسٹیشن پہنچے، جہاں قیامت کا منظر تھا۔ جن لوگوں کو ٹوکیو کی میٹرو سے واسط پڑا ہے، اس کو معلوم ہوگا کہ آفس ٹائم پر ان ٹرینوں میں ٹھونس ٹھوس کر لوگ بھرے ہوتےہیں۔ ڈبوں میں لوگ چپک کر پیٹھے ہوتے ہیں۔ کہیں بھیڑ میں ہم پچھڑ نہ جائیں، مہ وش نے میرا بازو زور سے اپنے بازو میں جھکڑا ہوا تھا۔ ٹرین کے اندر لوگ ایک دوسرے کی سانسیں تک فیل کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ یہاں کا معمول ہے۔
بھیڑ میں گم ہونے کے خطرہ کے پیش نظر اس نے مجھے پیچے سے جھکڑا ہوا تھا۔ اس کے ممے میری پیٹھ کے ساتھ ٹچ ہو رہے تھے۔ وہ شرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے اوپر ہلکا سا جیکٹ پہنا تھا۔ اس طرح کا لباس کابل پہننا ممکن نہیں تھا۔
تین اسٹیشن کے بعد ہمیں ٹرین تبدیل کرنی تھی۔ اگلی ٹرین میں بھی رش کا یہی حال تھا۔ اس ٹرین میں ہم آمنے سامنے تھے اور اس نے اپنے بازووں سے میری کمر کے ارد گرد ہالہ کیا ہوا تھا۔ اور کس کے پکڑا ہوا تھا۔ میں نے بھی اس کو کس کے گلے لگایا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سےبس چند ہی ملی میٹر دور ہونگے۔ اس کی سانسیں میں اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ممے میرے سینے سے ٹکرا رہے تھے۔
نیچے میرا تنا ہوا لنڈ تو پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کو بیتاب تھا۔ میں نے انڈر گارمنٹ نہیں پہنا تھا۔ اب پچھتا رہا تھا۔ نیچے درد اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
میں نے آہستہ بایاں ہاتھ نیچے کرکے زپ کو تھوڑا نیچا کیا۔ چھ انچ کا لوڑا اچھل کر باہر آگیا اور سیدھا اس کے پینٹ کے اوپر سے بلکل اس کے پرائیوٹ پوائیٹ کے دروازےپر دستک دینے لگا۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر ہی میں نے دوبارہ زپ بند کردی۔
خیر ہم شن جوکو سٹی سینٹر پہنچ گئےاور خاصی دیر تک مٹر گشتی اور ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے ایک انڈین ریسٹورنٹ نظر آیا ، جو دراصل کوئی نیپالی چلا رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اورپیٹ بھر کھانا کھاکر واپسی کی راہ لی۔
ایک اسٹور سے بریڈ، میگی، خشک دودھ اور انڈے بھی خرید لئے۔ بازار میں بھی خاصی بھیڑ تھی، مہ وش میرے ساتھ چپک کر ہی چل رہی تھی۔ اس نے بعد میں بتایا کہ اسکو خدشہ تھا کہ کہیں وہ پچھڑ نہ جائے۔ اس کے پاس نہ جاپانی کرنسی تھی، نہ ہی اسکو ہمارے ٹھرنے کی جگہ کا نام و ایڈریس معمول تھا۔ میں نے بھی اسکی کمرکے گر بازو حائل کرکے اس کو اپنے ساتھ بھینچ کر رکھا تھا۔
ویک اینڈ سے قبل جمعہ کی شام تو ویسے بھی ان ملکوں میٰں بڑی رومانٹک ہوتی ہے۔ ٹرین میں اور سٹی سینٹر کے ہر کونے اور ستون کے پاس لڑکے، لڑکی چوما چاٹی میں مصروف تھے۔ باقی پانچ دن تو یہ لوگ گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں اور جمعہ کو پانچ چھ بجے کے بعد تو یہ مرغے، مرغیوں کی طرح آزاد ہوکر چونچیں لڑانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بار ، ریسٹورنٹ صبح سویرے تک آباد رہتے ہیں۔
ان نظاروں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ گرم ہو گئی تھی، مگر بتانے سے قاصر تھی۔ واپسی میں ٹرین میں زیادہ رش تو نہیں تھا،مگر ہم ساتھ ہی میں چپک کر بیٹھے۔ میں نے بھی اس کی کمر کے گرد بازو رکھے تھے۔ اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
پاس کی سیٹوں پر جوڑے کسنگ کر رہے تھے۔ جب میٹرو اسٹیشن سےاترکر سیڑھیوں سے اوپر آرہے تھے، تو دیکھا کہ ایک استوں سےٹیک لگائے ایک لڑکا کھڑا ہے۔ اسکے پینٹ کی کھلی زپ سے اسکا لنڈ باہر جھلک رہا تھا۔ پاس ایک لڑکی اسکو منہ میں لئے چوس رہی تھی۔ مہ وش نے یہ نظارہ دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ کمرے تک ہم ایک دوسرے کے باوزوں میں بازو پھنساتے ہوئے آگئے۔
میں نے اس کو پوچھا کہ تم ہندوستان، پاکستان، ناروے اور سویڈن میں رہی ہو اور کئی بار لندن اور امریکہ بھی گھوم کر آئی ہو، تو کوئی بوائے فرینڈ نہیں رکھا۔ جھجکتے ہوئے اس نے کہا۔۔ہاں۔۔۔۔ہاں ایک دو فرینڈ تو یورپ میں رہے ہیں۔ مگر میں کسی اسکینڈل میٰں نہیں پھسنا نہیں چاہتی ہوں۔۔ اس لئے اوائیڈ کرتی ہوں۔
آپ کے کمنٹس کا انتظار ہے۔۔۔۔۔
You don't have permission to view attachments. Attachments are hidden.
Attachments
You don't have permission to view attachments. Attachments are hidden.