Cute
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
قسط -1
آج میں جو کہانی سنانے جارہی ہوں یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو کہ میرے دوست احسان کا ہے اور ایک ملاقات میں اس نے مجھے سنایا۔میں اس کو من وعن قسط وار پیش کروں گی۔
ستائیس سالہ رانی کلی کی بجائے کھلا ہوا پھول بن چکی تھی۔آج احسان رانی کے بہت قریب جانے کا سوچ رہا تھا۔ رانی تھی تو دو بچوں کی ماں۔ایک چار سال کی بیٹی اور ایک دوسال کا بیٹا ۔
پانچ سال پہلے رانی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔رانی اپنے خاوند ظفر بھائی کے ہمراہ احسان کے گھر کے نچلے پورشن میں بطور کرایہ دار آئے تھے۔
احسان کے مما بابا اس وقت زندہ تھے۔ اور احسان میٹرک کے امتحانات کے بعد ریزلٹ کے انظار میں تھا۔
احسان کے بابا نے ایک دن احسان کی مما سے کہا ظفر اچھا انسان ہے۔ کافی بڑا بزنس تھا اس کا فیکٹری میں آگ نہ لگ جاتی تو آج اس کو کرائے کے گھر کی ضرورت ہی نہ تھی۔اپنا گھر تھا اس کا۔مال سپلائی کرنے والوں کی رقم ادا کرنے کے لیے اس نے اپنا گھر بیچ دیا۔اور شادی کو بھی کتنا عرصہ ہوا ہے اس کی۔
احسان کی مما نے کہا ٹھیک ہے نا۔ جب ہم لوگ گھر پر نہیں ہوتے تو احسان اکیلا ہوتا ہے۔اور ویسے بھی ہمارے گھر میں کچھ آبادی تو ہونی چاہیے۔
پھر نیچے والے پورشن میں ظفر بھائی اپنی بیوی رانی اور دونوں بچوں کے ساتھ شفٹ ہو گئے۔
رانی کو دیکھتے ہی احسان کو اس سے پیار ہو گیا تھا۔مگر احسان اس وقت سولہ سال کا لڑکا سا تھا۔ رانی کی عمر تو اس وقت بھی ستائیس سال تھی مگر وہ بالکل پھول کی کلی جیسی خوبصورت تھی۔ عجیب جادوگر سی موٹی آنکھیں شرمائی شرمائی سی۔ سرخ گال لمبی پلکیں۔انتہائی نفاست سے قدرے سادہ سا لباس پہننے والی رانی کا بھرا بھرا سا جسم پانچ فٹ تین انچ قد لمبے سیاہ بال ۔احسان نے سوچا ایسی ہی لڑکی سے شادی کروں گا۔ مگر ایسی کوئی اور نہ تھی۔ رانی تو بس رانی تھی۔
طفر بھائی کی وجہ سے احسان رانی کو بھابھی کہتا تھا۔کچھ دنوں بعد احسان کے مما باباایک روڈ حادثے میں وفات پا گئے۔احسان کے مما بابا نے احسان کے لیے کافی جائیداد چھوڑی تھی۔مگر اس کا کوئی رشہ دار نہ تھا۔ مما بابا کی وفات کے وقت رانی نے احسان کا خیال رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں رانی اور احسان کے درمیان کچھ بات چیت ہی بن گئی تھی۔ رانی ویسے تو کسی بھی مرد کو منہ نہ لگاتی تھی مگر احان چھوٹا تھا اور ماں باپ کی موت کا غم بڑا تھا اس لیے رانی کبھی کبھی اس سے بات چیت کر لیتی تھی۔
رانی کو بھی احسان کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی نظر آتی تھی مگر احسان نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کی تھی جو رانی کو گوارا نہ ہو۔ اسی لیے رانی کا اس پر کچھ اعتبار سا بن گیا تھا۔ احسان ایک دو بار رانی کے کام بھی آچکا تھا۔ظفر کے مصروف ہونے کی وجہ سے ایک مرتبہ احسان نے اپنی گاڑی میں رانی کو اس کی ماں کے گھر ڈراپ کیا تھا۔اور ایک مرتبہ رانی کو ہسپتال بھی لے گیا تھا۔
وقت گزرتا گیا رانی اور احسان کے درمیان اپنے گھر کے فرد کی طرح کا رویہ قائم ہو گیا۔ کیونکہ گزشتہ ایک سال سے ظفر صاحب گواردر میں کسی پراجیکٹ پر مصروف تھے اور دو تین ماہ بعد ہی کچھ دنوں کے لیے گھر تشریف لاتے تھے۔
ان برسوں میں رانی دونوں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ مگر وہ کلی کی بجائے کھلا ہوا پھول بن چکی تھی۔
گھر میں ملازم تو موجود تھے مگر اکثر تو احسان رانی کے گھر ہی کھانا کھاتا تھا۔یا رانی اس کا کھانا لے آتی تھی۔
احسان کے ہزار کوشش کرنے کے باوجود رانی احسان کی آنکھوں سے اپنے لیے پیار پڑھنے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔
رانی اور ظفر کے تمام رشتہ دار احسان کے جاننے والے بن گئے تھی۔ رانی کی ماں باپ کے گھر بھی احسان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جبکہ ان کی ہر شادی تقریب اور فوتگی وغیرہ میں احسان ضرور شامل ہوتا تھا۔
آج احسان نے فیصلہ کر لیا کہ رانی سے اس کی شادی کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اور رانی جیسی کوئی اور لڑکی دنیا میں موجود بھی نہیں ہے۔ احسان نے سوچ لیا کہ ظفر صاحب کی بیوی ہوتے ہوئے بھی وہ رانی کو حاصل کر لے گا اور اتنا پیار کرے گا کہ کوئی حسرت باقی نہ رہے۔
((جاری ہے
آج میں جو کہانی سنانے جارہی ہوں یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو کہ میرے دوست احسان کا ہے اور ایک ملاقات میں اس نے مجھے سنایا۔میں اس کو من وعن قسط وار پیش کروں گی۔
ستائیس سالہ رانی کلی کی بجائے کھلا ہوا پھول بن چکی تھی۔آج احسان رانی کے بہت قریب جانے کا سوچ رہا تھا۔ رانی تھی تو دو بچوں کی ماں۔ایک چار سال کی بیٹی اور ایک دوسال کا بیٹا ۔
پانچ سال پہلے رانی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔رانی اپنے خاوند ظفر بھائی کے ہمراہ احسان کے گھر کے نچلے پورشن میں بطور کرایہ دار آئے تھے۔
احسان کے مما بابا اس وقت زندہ تھے۔ اور احسان میٹرک کے امتحانات کے بعد ریزلٹ کے انظار میں تھا۔
احسان کے بابا نے ایک دن احسان کی مما سے کہا ظفر اچھا انسان ہے۔ کافی بڑا بزنس تھا اس کا فیکٹری میں آگ نہ لگ جاتی تو آج اس کو کرائے کے گھر کی ضرورت ہی نہ تھی۔اپنا گھر تھا اس کا۔مال سپلائی کرنے والوں کی رقم ادا کرنے کے لیے اس نے اپنا گھر بیچ دیا۔اور شادی کو بھی کتنا عرصہ ہوا ہے اس کی۔
احسان کی مما نے کہا ٹھیک ہے نا۔ جب ہم لوگ گھر پر نہیں ہوتے تو احسان اکیلا ہوتا ہے۔اور ویسے بھی ہمارے گھر میں کچھ آبادی تو ہونی چاہیے۔
پھر نیچے والے پورشن میں ظفر بھائی اپنی بیوی رانی اور دونوں بچوں کے ساتھ شفٹ ہو گئے۔
رانی کو دیکھتے ہی احسان کو اس سے پیار ہو گیا تھا۔مگر احسان اس وقت سولہ سال کا لڑکا سا تھا۔ رانی کی عمر تو اس وقت بھی ستائیس سال تھی مگر وہ بالکل پھول کی کلی جیسی خوبصورت تھی۔ عجیب جادوگر سی موٹی آنکھیں شرمائی شرمائی سی۔ سرخ گال لمبی پلکیں۔انتہائی نفاست سے قدرے سادہ سا لباس پہننے والی رانی کا بھرا بھرا سا جسم پانچ فٹ تین انچ قد لمبے سیاہ بال ۔احسان نے سوچا ایسی ہی لڑکی سے شادی کروں گا۔ مگر ایسی کوئی اور نہ تھی۔ رانی تو بس رانی تھی۔
طفر بھائی کی وجہ سے احسان رانی کو بھابھی کہتا تھا۔کچھ دنوں بعد احسان کے مما باباایک روڈ حادثے میں وفات پا گئے۔احسان کے مما بابا نے احسان کے لیے کافی جائیداد چھوڑی تھی۔مگر اس کا کوئی رشہ دار نہ تھا۔ مما بابا کی وفات کے وقت رانی نے احسان کا خیال رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں رانی اور احسان کے درمیان کچھ بات چیت ہی بن گئی تھی۔ رانی ویسے تو کسی بھی مرد کو منہ نہ لگاتی تھی مگر احان چھوٹا تھا اور ماں باپ کی موت کا غم بڑا تھا اس لیے رانی کبھی کبھی اس سے بات چیت کر لیتی تھی۔
رانی کو بھی احسان کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی نظر آتی تھی مگر احسان نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کی تھی جو رانی کو گوارا نہ ہو۔ اسی لیے رانی کا اس پر کچھ اعتبار سا بن گیا تھا۔ احسان ایک دو بار رانی کے کام بھی آچکا تھا۔ظفر کے مصروف ہونے کی وجہ سے ایک مرتبہ احسان نے اپنی گاڑی میں رانی کو اس کی ماں کے گھر ڈراپ کیا تھا۔اور ایک مرتبہ رانی کو ہسپتال بھی لے گیا تھا۔
وقت گزرتا گیا رانی اور احسان کے درمیان اپنے گھر کے فرد کی طرح کا رویہ قائم ہو گیا۔ کیونکہ گزشتہ ایک سال سے ظفر صاحب گواردر میں کسی پراجیکٹ پر مصروف تھے اور دو تین ماہ بعد ہی کچھ دنوں کے لیے گھر تشریف لاتے تھے۔
ان برسوں میں رانی دونوں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ مگر وہ کلی کی بجائے کھلا ہوا پھول بن چکی تھی۔
گھر میں ملازم تو موجود تھے مگر اکثر تو احسان رانی کے گھر ہی کھانا کھاتا تھا۔یا رانی اس کا کھانا لے آتی تھی۔
احسان کے ہزار کوشش کرنے کے باوجود رانی احسان کی آنکھوں سے اپنے لیے پیار پڑھنے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔
رانی اور ظفر کے تمام رشتہ دار احسان کے جاننے والے بن گئے تھی۔ رانی کی ماں باپ کے گھر بھی احسان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جبکہ ان کی ہر شادی تقریب اور فوتگی وغیرہ میں احسان ضرور شامل ہوتا تھا۔
آج احسان نے فیصلہ کر لیا کہ رانی سے اس کی شادی کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اور رانی جیسی کوئی اور لڑکی دنیا میں موجود بھی نہیں ہے۔ احسان نے سوچ لیا کہ ظفر صاحب کی بیوی ہوتے ہوئے بھی وہ رانی کو حاصل کر لے گا اور اتنا پیار کرے گا کہ کوئی حسرت باقی نہ رہے۔
((جاری ہے