Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Life Story روشنی کی کرن

Story Lover

Well-known member
Joined
Nov 24, 2024
Messages
108
Reaction score
1,852
Points
93
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
زندگی کبھی کبھی ایسے راستوں پہ لاکھڑا کرتی ہے کہ آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا، گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ انسان بری طرح بکھر جاتا ہے ایسے جیسے آندھی کے بعد درختوں کے پتے۔ کل ہی وریشہ ممانی آئی تھیں امی نے بازار سے سموسے پیسٹری وغیرہ منگوا لیے تھے تا کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔ اکلوتے بھائی کی بیوی سے بنا کر رکھنا مجبوری تھی، امی کچھ محبت کرتی تھیں تو کچھ بھائی کی محبت میں کرنا پڑتا تھا۔ زندگی کا سارا دارو مدار ہی محبت جیسی بے درد شے پر ہے۔ انسان کتنا بے بس لاچار ہے، اس جذبے کے سامنے جس کی کوئی مشکل ہی نہیں کوئی روپ بھی نہیں مگر اس کی بے دردی کی کوئی حد نہیں کا ش اسے قید کیا جاسکتا۔ ممانی وریشہ نے ارد گرد کا جائزہ لیا عائزہ سکھر اور سمجھ دار لڑکی گھر اچھی طرح سے سنبھال رکھا تھا ۔ شکل و صورت بھی اچھی تھی مدعا زبان پر لائیں اور کسی کی زندگی کا فیصلہ ہو گیا۔ عائزہ بھی چپ تھی، ماں باپ کا قبلہ نہیں ہوسکتا۔ وہ جوبھی فیصلے کرتے ہیں ان میں تجربے کے ساتھ برکت بھی شامل حال رہتی ہے۔ بے برکتے رشتے عدالتوں کے چکروں اور گلی کوچوں میں گل سڑ جاتے ہیں کوڑا کرکٹ کی طرح۔ انس کے پاس اچھی جاب تھی۔ پڑھا لکھا تھا تو عائزہ بھی بہت پیاری تھی ویسے بھی پیارا تو وہ ہوتا ہے جس کے نصیب خوب صورت ہوں ۔ بی ایس کے بعد اس نے دل لگا کر گھر داری کی اور زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا تھا کہ زندگی کا یہ خوب صورت موڑ آ گیا۔ سونے کی انگوٹھی اس کی درمیان والی انگلی میں چمک رہی تھی ۔ اسے بھی بہت اچھی لگی تھی ۔ امی بیٹی کے نصیب پر نازاں تھیں تو بابا بھی اللہ رحمن کے شکر گزار تھے۔ جو ہمیشہ ۔ مہربان رہتا ہے۔ تائی شائستہ کا موڈ آج پھر خراب تھا۔ ان کی نائمه، سلیمہ تو بیٹھی رہ گئیں اور رشتہ ہو گیا عائزہ کا نائمہ ،سلمہ بھی شکل وصورت میں کسی سے کم نہیں تھیں مگر بات نصیب کی ہے ، کس کے لیے اللہ نے کس وقت کیا لکھا ہے۔ کون جانتا ہے۔ نایاب اس وقت گھر پر نہیں تھا ور نہ وہ تائی کو اس سب سے منع ضرور کر دیتا ۔ اس طرح کی اٹھاپٹخ سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ بھی کوشش کریں ، کوشش کرنے والے کو خالی دامن نہیں لوٹایا جاتا۔ مگر تائی شائستہ کی شروع سے عادت تھی اسی طرح اپنا غصہ نوکرانیوں پر یا پھر اولاد پر نکالتی تھیں، ان کی عمر کی پروا کیے بغیر کہ کون کیا سوچتا ہوگا۔ نائمہ ، سلیمہ لاؤنج میں اپنا فیورٹ ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھیں۔ انہیں ماں کی پروا نہیں تھی ان کے چہروں پر صاف لکھا تھا کہ ان کا تو روز کا ماتم ہے۔ سکینه (ملازمہ ) سے کہہ کر دو کپ چائے بنوائی اور مزے سے پہلا ہی گھونٹ لیا تھا کہ منہ جلتے جلتے بچا۔ شائستہ تائی سر پر پہنچ گئی تھیں ۔ ہے ذرا شرم تم لوگوں کو ۔ دیکھا ہے کیسے عائزہ کا رشتہ ہو گیا انس کے ساتھ۔ تم لوگوں میں بھی کوئی گن ہوتے تو تم میں سے کسی کو پسند کرتی وریشہ مگر نہ جی یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کسی کو پروا ہی نہیں ہے۔ نائمہ نے جلدی سے بسکٹ کا ریپر ڈسٹ بن میں ڈال دیا تھا کہ سارا غصہ اس پر بھی الٹ سکتا تھا اور وه که نازک اندام سانولی سی۔ اتنا غصہ اس سے کہاں برداشت ہوگا۔ بات ساری نصیب کی ہی ہے اس پر کیا لڑنا جھگڑنا، جھگڑوں سے نصیب بدلا کرتے تو دنیا لڑ بھڑ کر سب سیدھا کرلیتی مگر نصیبوں کی ڈور کسی اور کے پاس ہے۔ اس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور لوگ بس اسے ہی بھول جاتے ہیں اور یہ بھولنا کتنا برا ہے۔ اسی بحث تکرار میں عائزہ نے بھی بالکونی سے جھانکا تھا اسے پتا تھا ، آج ماحول قطعاً اچھا نہیں ہوگا اس نے بھی نائمہ سلیمہ سے بات کرنے کوشش نہیں کی ۔ لان میں بے شمار رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے۔ امی بھی آج بہت خوش تھیں ، ایک طرح سے انہوں نے شائستہ تائی کو شکست دے دی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے فرض سے پہلے سبکدوش ہورہی تھیں۔ یہی کھینچا تانی تمام عمر رہی ، نہ امی بدلیں اور نہ ہی شائستہ تائی نے بدلنے کی کوشش کی، کبھی عید تہوار پر ملاقات ہوئی بھی تو سرد مزاجی کی نذر ہوگئی ، بچے البتہ بات کرتے تھے اور فاروق اور عیاد صاحب کی ملاقات آفس میں ہو جاتی تھی ، دوری تھی اس قدر نہیں مگر دوریاں تو پھر دوریاں ہی ہوا کرتی ہیں۔ انہیں کون نظر انداز کر سکتا ہے۔ عائزہ اکلوتی ہونے کی وجہ سے بہت اکیلا پن محسوس کرتی تھی۔ نائمہ، سلیمہ سے کبھی کبھی کی گئی کپ شپ اچھی لگتی تھی مگر امی کہتی تھیں۔ جیسی ماں مجھے ویسی ہی اولاد ہے ۔ کم ظرف اور کم ظرفوں سے تعلق ہم نہیں رکھتے ۔ زندگی ۔ بہر حال تمام تر خوب صورتیوں سمیت لاؤنج میں براجمان بھی۔ امی کو انس کا بھید بھاؤ، بات چیت کرنا، چلنا پھرنا سب پسند تھا۔ شروع ہی سے سمجھ دار بچہ تھا۔انس کو تو دیکھیں فاروق صاحب یہ ہوتا ہے بنا کر رکھنے کا فائدہ۔ اب میں اکلوتی نند ٹھہری وریشہ بھا بھی کی مگر بیٹے کے لیے پسند کر لی میری بیٹی ، اب اگر میں ہی اچھی نہ لگتی بھا بھی کو تو میری بیٹی بھی نہ بھاتی انہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ جس کی ماں اچھی نہ لگے اس کی اولاد بھی نہیں اچھی لگتی ۔ یہ بڑی گہری بات ہے ۔ فاروق صاحب خاموشی سے سن رہے تھے رشتہ واقعی معقول تھا تو اعتراض کرنے کا جواز نہ تھا، زندگی بہت زیادہ اعتراض کرنے سے بدصورت ہو جاتی ہے خاموشی اور صبر اسے خوب صورت بناتے ہیں۔ فاروق صاحب نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور کمرے کی جانب چل دیئے ، اب ان کے سونے کا وقت تھا۔ بیٹی کے فرض سے آزاد شخص کی بھر پور نیند منتظر تھی تو دوسری طرف امی بھی شاداں و فرحاں کمرے کی جانب چل دی تھیں۔عائزہ نے نماز پڑھنے کے بعد انگھوٹی کو ہلکا سا انگلی میں گھمایا ضرور بہت مہنگی ہو گی شاید انس نے اپنی پسند سے لی ہو یا پھر ممانی نے خریدی ہو۔ اس کی نگاہوں میں انس کا سراپا گھوم گیا تھا، بے حد عام سا انسان پر اب وہ خاص کیوں نہیں لگ رہا۔ پتا نہیں۔

دور سے اس نے دیکھا کہ بہت سارے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ بہار کی آمد آمد تھی اسی وجہ سے درختوں نے سب پرانے بوسیدہ پتوں کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے انسان بدل جاتے ہیں انہیں خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ نہیں بدلیں تو وقت انہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح درخت بھی اپنے وجود کو اکیلا کر دیتے ہیں جدائی کا مزا چکھتے ہیں ہجر انہیں بھی کھاتا ہے۔ عائزہ جب بھی فارغ وقت میں یہاں آیا کرتی۔ اسے عجیب سا محسوس ہوا کرتا تھا کبھی سب بچے یہاں مل کر کھیلا کرتے تھے۔ نایاب اپنی امی یعنی شائستہ تائی کا پیارا بیٹا ہوا کرتا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں ماما ز بوائے وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات جا کر تائی کے گوش گزار کیا کرتا تھا۔ دور سے اس نے دیکھا کہ بہت سارے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ بہار کی آمد آمد تھی اسی وجہ سے درختوں نے سب پرانے بوسیدہ پتوں کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے انسان بدل جاتے ہیں انہیں خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ نہیں بدلیں تو وقت انہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح درخت بھی اپنے وجود کو اکیلا کر دیتے ہیں جدائی کا مزا چکھتے ہیں ہجر انہیں بھی کھاتا ہے۔ عائزہ جب بھی فارغ وقت میں یہاں آیا کرتی۔ اسے عجیب سا محسوس ہوا کرتا تھا کبھی سب بچے یہاں مل کر کھیلا کرتے تھے۔ نایاب اپنی امی یعنی شائستہ تائی کا پیارا بیٹا ہوا کرتا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں ماما ز بوائے وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات جا کرتائی کے گوش گزار کیا کرتا تھا۔ چچی نے یہ کہا، چاچو نے وہ کہا، چچی ایسے چلیں۔ چچی نے یہ پہنا ہوا تھا، سب سے زیادہ نفرت وہ عائزہ سے کرتا تھا۔ اپنی ماں کے پڑھائے سبق کی وجہ ہے۔ جب بھی اس کا اور نایاب کا سامنا ہوتا ۔ عائزہ کو اس سے ڈر لگا رہتا کہ کہیں زور سے تھپڑ ہی نہ مار دے، تھا بھی ایسا ہی کھڑے کھڑے نائمہ کے بال کھینچ لیتا اور کبھی سلیمہ کا دو پٹامٹی میں پھینک دیتا اور عائزہ سے تو خاص نفرت تھی اسے ، اس بات کا عائزہ کو بچپن ہی سے پتا تھا۔ اس کا رزلٹ آتا تب بھی سب سے برا نایاب کو ہی لگا کرتا۔ فرسٹ تو بہت سارے لوگ آجاتے ہیں رٹا لگا کر میری طرح سے محنت کرو تو پتا چلے بھی ہم رٹا لگانے والے تو ہیں نہیں ۔ اس طرح کی باتوں کی وجہ سے عائزہ کا دل ٹوٹ جایا کرتا کہ وہ گھر جا کر بتائی ہی نہ مگر نائمہ اور سلیمہ کی وجہ سے وہ وہاں جاتی تھی۔ نایاب کا رویہ ہمیشہ ہی مایوس کن رہا تھا نجانے وہ ایسا کیوں تھا۔ کس نے ایسا کر دیا تھا۔ اتنی نفرت کوئی کیسے کر سکتا ہے۔ عائزہ تو ایسی نہیں تھی۔ مگر پھر بھی عائزہ کو بھی ایسا ہونا پڑا تھا ، جب وہ اس کے لان میں موجود امرود کے درخت پر چڑھا ہوا تھا تو عائزہ نے بھی اس کی ٹانگ کھینچ کر نیچے گرا دیا تھا کہ امرود کا درخت ہمارا ہے بو کھلایا ہوا نایاب رو پڑا تھا مگر رحم عائزہ کو بھی نہیں آیا۔ اپنے والے شہتوت یاد ہیں گندے سڑے سے، جب وہ توڑے تھے تو کیا حال کیا تھا تم نے میرا ۔ اب جاؤ ۔ لگاؤ شکایت بابا کو ۔ کون یقین کرے گا تمہارا کہ تمہیں میں نے دھکا دیا ہے۔ عائزہ نے کبھی چڑیا کے بچے کو بھی نہیں مارا تھا مگر نایاب پر اس کا غصہ بڑھتا ہی جارہا تھا جب ایک فریق نفرت کرے گا تو دوسرا محبت کیسے کرے گا۔ یہی نفرت کا سفر تھا جو آہستہ آہستہ شروع ہوا ۔ چھوٹے چھوٹے دھکے اور تھپڑوں کا سفر بہت دور تک چلا اور چلتا ہی رہا جب نایاب کو تایا جان نے پہلی بار سائیکل دلوائی تب وہ بے انتہا خوش تھا۔ سلیمہ اس کے ساتھ بیٹھنے کی ضد کر رہی تھی ، جب سلیمہ نے اس کے ساتھ اپنے چپس شیئر کیے ، تب وہ مانا تھا وہ تھوڑی دیر کے لیے اسے اپنی سائیکل چلانے دے گا یا پھر وہ اس کے پیچھے بیٹھ جائے ۔ نائمہ کا چانس بھی نکل ہی سکتا تھا۔ اتنے میں عائزہ بھی کہیں سے آنکلی تھی۔ وہ آج اسکول گئی تھی۔ وہ تینوں نہیں گئے تھے وجہ وہی تایا جان کا وعدہ کہ آج نایاب کو سائیکل دلوائیں گے۔ اب عائزہ کا سائیکل پر بیٹھنے کا چانس تو بالکل بھی نہیں بن سکتا تھا۔ ڈرتے ڈرتے نایاب کی طرف دیکھا مگر نایاب امر دود والا قصہ بھول جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بیٹھ جاؤ تم بھی عائزہ مسکراتے ہوئے دوسرے چکر میں نجانے کیسے یقین کر بیٹھی اور پھر دوسرے بھی لمحے وہ نیچے گری ہوئی تھی ۔ ماتھے پر چوٹ بھی لگ چکی تھی ، تائی امی نے اس روز نایاب کی اچھی خاصی خبر لی تھی۔ رات عائزہ بھی روتے روتے سوگئی تھی اور نایاب کا آج کا دن بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ ایک ذراسی چوٹ پر اتنا ہنگامہ۔ ڈرامہ کوئین۔ یہ کہہ کر اس نے کروٹ بدل لی تھی اسے اپنے کیے پر ذرا بھی شرم نہیں آئی تھی۔
☆☆☆

اس دن پروین شاکر کی غزل پڑھتے ہوئے اس کی نظر اسٹڈی سے باہر بھٹک گئی تھی ، وہ نایاب تھا ہمیشہ سے اٹھی ہوئی گردن والا جس کے چلنے میں اسے کبھی کوئی کشش محسوس نہ ہوئی تھی ، نہ کبھی بولنے میں وہ اچھا لگا، نفرت جو کرتا تھا مگر آج وہ وہیں بیٹھ کر نظر سے اوجھل ہونے تک اسے دیکھتی رہی ۔ نایاب، یہ تم نے کیا کیا۔ تم کیا نکلے ہو میں کیا سمجھی تھی۔ دل میں عجیب پکڑ دھکڑ جاری تھی ۔ ایسے جیسے پولیس کسی اشتہاری ڈاکو کی تلاش میں سرچ آپریشن کرتی پھر رہی ہو۔ اس کے اندر کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ کیوں کچھ نہ بولے تم نایاب کچھ تو کہتے ، اتنا صبر تم میں آیا کہاں سے، نایاب … نایاب پوری کائنات نایاب ہو گئی اور خود عائزہ بھی نایاب ہو گئی تھی۔ وہ شام شاید ان دونوں کے اختلافات کی بھی شام تھی وہ ہو گیا تھا جس کا تصور بھی نہیں تھا۔ عائزہ تایا جی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ شائستہ تائی نے یہ خوش خبری نایاب کو بھی سنائی تھی عائزہ اب انس سے منسوب ہے۔ نائمہ اور سلیمہ کے لیے تو یہ بات ہفتہ بھر تھی پرانی مگر وہاں سب کچھ پرانا نہیں تھا۔ عائزہ نے دیکھ لیا تھا نایاب کی آنکھوں میں چھپے آنسو، نایاب عائزہ کے لیے رو بھی سکتا تھا۔
نایاب تم… یہ خواب نہیں تھا۔ سامنے کی حقیقت جیسے اس کا سب کے درمیان میں سے اٹھ کرچلے جانا اور عائزہ کی حالت بھی عائزہ کا دل جھٹلا نہیں سکا تھا۔ محبت کی نہیں جاتی نہ یہ تو بس ہو جاتی ہے۔ کب کس سے ہو جائے یہ بھی پتا نہیں چلتا۔ اس دن بھی بارش ہو رہی تھی بارش برستی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ ایسے جیسے خون برس رہا ہو ۔ نفرت محبت کی چھوٹی بہن ہے۔ یہ آج پتا چلا تھا عائزہ کا دل کسی اور لے پر دھڑک اٹھا تھا یہ کچھ نیا تھا۔ اس میں ملاوٹ کھوٹ نہیں تھی۔ نایاب کے اٹھ کر جانے کے بعد عائزہ کا دل دنیا سے ہی اٹھ گیا تھا۔ نایاب ! تم مجھ سے محبت کرتے تھے۔ اف نایاب دھڑکنیں جھوٹ نہیں ہوتیں۔ اس کا دل بھی جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ اس کے اس طرح چلے جانے کو کسی نے محسوس نہیں کیا تھا ۔ نایاب کے آنسو بھی نایاب تھے، وہ تو اسے رلا کر ہنستا تھا۔ آج رورہا تھا۔ اسے حیرت سے زیادہ محبت کا سامنا تھا محبت جس کا راز آج ہی اس پر فاش ہوا تھا ۔ سمندر کی لہروں کی طرح محبت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ اسے کوئی راستہ دے نہ دے اسے راستہ مل جاتا ہے۔ خوشبو کی طرح سفر کرتا عشق ۔ عائزہ اس رات چپ چاپ سوگئی تھی۔ امی اور پاپا نے اس کی خاموشی محسوس نہیں کی۔ وہ پہلے بھی خاموش طبع تھی زیادہ تر خاموش رہنا مگر اس خاموشی میں زور آور چیخیں چھپ کر بیٹھی تھیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عائزہ کے دل پر کیا بیت رہی ہے سائیڈ ٹیبل پر دھری سنہری انگھوٹھی حیران تھی۔ نایاب تم نے مجھ سے تمام عمر نفرت کی، مجھے دھکے دیے، مجھے دکھ دیے ایسا ہی کرتے رہتے تم نے محبت کرکے مجھے توڑ ڈالا تم نے مجھ سے محبت کیوں کی، میں محبت کے لائق نہیں ہوں نایاب نہیں ہوں میں تمہارے آنسوؤں کے قابل۔ آج اسے روتا دیکھ کر لگتا تھا کہ پوری کائنات آنسوؤں میں ڈوب گئی ہو۔ کبھی کبھی ہم کسی سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر خود پر اختیار نہیں رہتا ، چاند دھیرے دھیرے سرک رہا تھا اس قدر تنہا اور اجڑا اجڑا الگ رہا تھا کہ لگتا تھا کہ اس کی دھڑکنیں بھی کوئی اپنے ساتھ لے گیا ہے اور لوٹانا بھول گیا ہے، بے دل دھڑکتا ہوا چاند اور عائزہ ساتھ ساتھ ہی رو ر ہے تھے۔ اپنے آنسو ا سے بھی حیران کر رہے تھے۔ میں نایاب کے لیے رورہی ہوں۔ اس کے بعد اس کے آنسوؤں میں تیزی آگئی تھی جب اسے یاد آیا تھا کہ اس کی وجہ سے وہ ایک پورا دن تایا جان کی ڈانٹ کھا کر بالکل چپ چاپ رہا تھا۔
☆☆☆

ممانی اور انس گھر آرہے تھے۔ ۔ گھر کا اکلوتا داماد آنے والا تھا۔ امی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ آسمان سے چاند ستارے توڑ کر لائیں اور راستے میں بچھا دیں۔ امی نے عائزہ کو اچھی طرح سے تیار ہونے کا کہا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے کتنی دیر ہوگئی۔ اسے پتا بھی نہ چلا کہ کتنا وقت گزر گیا، تب امی عجلت میں اس کے پاس آئیں اور اسے یوں کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ اتنا سناٹا کیوں ہے لڑکی ! انس آنے والا ہوگا سی گرین شلوار سوٹ کا کہا تھا۔ وہ ابھی تک پہنا کیوں نہیں ۔ وہ براہ راست عائزہ کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں ۔ جہاں ویرانوں سے بڑھ کر ویرانی پھیلی ہوئی بھی۔ کیا بات ہے مجھے بتاؤ۔ وہ نرمی سے اسے گلے لگا کر کہنے لگیں۔ تب عائزہ کے آنسو ایک بار پھر بہنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ کیا کہ سکتی تھی کہ آپ نے بس شائستہ تائی کو شکست دینے کے لیے یہ سب کیا ہے۔ ان ہی کا نایاب اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو گیا ہے۔ اتنا زیادہ عزیز کہ اب اسے اپنی زندگی بھی بے جان سی لگنے لگی ہے۔ ماں کی شکست اور اپنے اندر کی شکست وریخت کا سوچ کر ہی اس کا دل اور بے تاب ہو گیا تھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا بس بے آواز روتی رہی جب ہم کچھ نہیں کر سکتے تو رونے لگتے ہیں وہ بھی امی کو دیکھ کر بے بس ہو گئی تھی۔ کل تک تو عائزہ بالکل ٹھیک تھی شاید والدین سے بچھڑانے کا خوف جو یوں رلا رہا ہے ۔ انہوں نے یہی سوچا اور ہنس کر کہنے لگیں۔ نائمہ سلیمہ اور تم سب نے رخصت ہونا ہے۔ وہ تو ایسے نہیں روتیں بلک بلک کر بچوں کی طرح ، بس ایک نایاب ہے ماں کا چمچا جو یہیں رہ جائے گا۔ انہوں نے اسے ہنسنے کی کوشش کی تھی جو مزید ر لانے کا باعث بنی تھی ۔ کسی اور کو لے آئے گا وہ کسی کے ساتھ رہے گا اور میرا دل گہرے سمندر میں غرق ہو جائے گا۔ انس اس وقت بے حد سنجیدہ نظر آ رہا تھا وہ پہلے بھی اپنے مسکرانے والی شخصیت نہیں تھا۔ آف وہائٹ شلوار قمیص میں اچھا خاصا با رعب لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بہت صاف تھا اور ان آنکھوں میں کوئی تحریرتھی جیسے عائزہ کی برسنے کو تیار آنکھوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ ناکام کوشش۔ ممانی اور امی کی باتیں بے شمار تھیں ، کپڑے لتے ، زیور ۔ ان دونوں کے درمیان ایک ان دیکھی سی دیوار کھڑی تھی ، جسے ڈھانے کی کوشش دونوں نے ہی نہیں کی۔ عائزہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی جب ہی سامنے سے نایاب چلا آ رہا تھا۔ ڈھیلی چال اور اس کی شربتی گھنی پلکوں کے اندر آنسو چھپے ہوئے تھے۔ ان آنسوؤں کو عائزہ ہی پہچانتی تھی۔ لگتا تھا جیسے عمر بھر ایک دوسرے کے آنسوؤں کو سمجھتے آئے ہوں ۔ اب ہی پہچانا تھا اس نے وہ کتنی محبت کرتا ہے عائزہ تم سے۔ اس کا دل بار بار رو رہا تھا۔ تڑپ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا۔ اس کے آنسوؤں میں ڈوب کر مر جائے ۔ اب مرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تم نے اس سے بات نہیں کی بیٹھتیں کچھ دیر اس کے پاس کتنے دل سے وہ ملنے آیا تھا اور تم یوں اپنے کمرے میں چلی آئیں۔ اچھا نہیں لگتا ہیے۔ امی اسے سمجھا رہی تھیں اور وہ انہیں اپنی کیفیت نہیں سمجھا پارہی تھی خود انس کا حال ایسے لگا جیسے وہ بھی پریشان ہو اور بس ممانی کی وجہ سے آیا بیٹھا ہو۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کے دل میں جھانکنے کا ہنر آنا چاہیے نجانے ممانی وریشہ نے کیا سوچ کر رشتہ طے کر دیا ۔ زندگی جس نے گزارنی ہے۔ پہلے اس سے تو پوچھو پھر طے کرو۔ کیا پتا دو خاندانوں میں نہ بنے مگر دو انسانوں میں بہت زیادہ بن جائے مگر اس طرح بہت کم لوگ سوچتے ہیں، دل مار ڈالتے ہیں لوگ اور بعض اوقات پوری عمر برباد کر دیتے ہیں ۔۔ اگر کوئی ایک یوٹرن لے لینے سے کسی کی زندگی بچ سکتی ہے، دل رکھنے سے بچ سکتا ہے تو اس بات کی پروا کیا کرتی کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ جو چاہے کہتے پھریں ! عائزہ کے سامنے تازہ گلابوں کی بہت ساری ٹہنیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے کافی سارے پھول بے خیالی میں پتی پتی کر ڈالے تھے، پاس پڑی چائے الگ ٹھنڈی ہوئی تھی۔ اس کا کسی بھی چیز پر دھیان نہیں تھا۔ نائمہ کی آنکھیں خود پر جمی دیکھ کر وہ ہر بڑا کر سیدھی ہوگئی تھی۔ سارے گھر میں ہی اداسی پھیلی ہوتی ہے۔ پتا نہیں نایاب کو کیا ہو گیا ہے۔ ساری زندگی کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا اسے اور کل سے دوبار اسے نم آنکھوں کے ساتھ پکڑ چکی ہوں اور تو اور میرا ول بھی بھرا رہنے لگا ہے۔ کیوں روتی رہتی ہوں۔ ہمیں نظر لگ گئی کسی کی۔ کوئی آزمائش ہے اللہ کوئی آزمائش آواز نائمہ کی بھی بھاری ہوگئی تھی اور عائزہ کی بھی دونوں ہی ایک دوسرے کے گلے لگ گئی تھیں ایک دوسرے کو سمجھے بغیر۔
☆☆☆

وریشہ سبزی چھیل چھیل کر ٹوکری میں رکھتی جارہی تھیں ۔ کچن کا کام انہوں نے کبھی بھی ملازمین پر نہیں چھوڑا از خود نگرانی کی اور سب کی صحت کا خاص خیال رکھا ۔ انس آفس سے واپسی پر انہیں سلام کر کے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ فرش پر بھرے بے شمار گلابی پھول جو بیل سے مسلسل گر رہے تھے۔ اس کے قدموں میں چر مرا گئے تھے جب وریشہ اندر گئی تب وہ نیوز چیل میں مگن تھا۔ کیا تمہیں عائزہ پسند نہیں ہے انس؟ انہوں نے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا تھا جہاں اداسی کا ایک جہان آباد تھا سارے خزاں کے موسم وہیں بسیرا کیے نظر آ رہے تھے، مائیں دل کی تحریریں پڑھ لیتی ہیں۔ پسند ہے امی ! میں نے کب انکار کیا ہے۔ اس کے جواب نے بھی کوئی تسلی نہیں دی تھی دل مسلسل بے چین ہورہا تھا۔ تو پھر اس قدر بجھے بجھے کیوں ہو؟ اس طرح بجھ کر زندگی تھوڑی گزرتی ہے، تم تو بجھے چراغ کی طرح نظر آنے لگے ہو۔ عائزہ کے ساتھ بہت خوش رہو گے۔ اس کی ماں نے ساری زندگی نا چاہتے ہوئے بھی ہر جگہ نبھائی ہے وہ بھی نبھانے والی ہوگی تمہیں پتا ہے نبھانے والی عورتیں جیون سنوارتی ہیں اور بے صبری عورت کبھی بھی کسی کے دل اور گھر کے لائق نہیں ہوا کرتی۔ زندگی انہوں نے گزاری تھی پہلے اپنا گھر بنایا تھا اب بیٹے کا گھر بنانے جارہی ہیں۔ ایک نئے گھر کی بنیاد ایک اچھی لڑکی ہی رکھ سکتی ہے۔ انہیں خوب معلوم تھا اور بیٹے کے دل کا حال بھی وہ جانتی تھیں۔ شائستہ انہیں ساری زندگی اچھی نہیں لگیں گھر بساتے ہی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کی۔ ٹھیک ہے کہ گھر بسایا تھا اولا د سنبھالی تھی مگر زندگی انہوں نے اپنی مرضی کی جی تھی۔ کیا پتا ان کی نائمہ آتے ہی الگ گھر کا مطالبہ کر دے اور وہ انس کی صورت کو ہی ترس جائیں۔ انس کے لیے ترسنا انہیں کسی طرح بھی گوارا نہیں تھا۔ بے ساختہ نائمہ کا سراپا ان کی نگاہوں میں گھوم گیا تھا۔ بے ضرری بچی تھی مگر ہو بہو ماں کی فوٹو کاپی۔ اس سے دل ڈرتا تھا اور جان بوجھ کر کون خوف میں مبتلا ہونا چاہے گا۔ جب کبھی وہاں جانا ہوا انس کی مسکراہٹ جان دار ہوا کرتی تھی ، ہمیشہ نائمہ کا استقبال بھی بڑے دل والا ہوتا تھا۔ وہ بھی وریشہ اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہ رکھتی تھی مگر وریشہ ہمیشہ شائستہ کی وجہ سے بدگمان رہیں۔ بس انہیں شائستہ کی اٹھا پٹخ بہت بری لگتی تھی بس۔ جو برا لگے اس کی ہر بات بری ہی لگتی ہے۔ اس برے لگنے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ جس طرح انس کے دل میں نائمہ بھی ہوئی تھی اور نائمہ کے دل میں انس اس محبت کا کوئی علاج نہیں ۔ اس ایک چہرے کے سوا دنیا میں اور کوئی نظر آتا ہی نہیں اور دل سمیت پورا وجود بے بس ہے لاچار ہے۔ انس کو معلوم تھا کہ امی کیا سوچ رہی ہیں اس نے بھی بھی ماں کی کوئی بات ٹالی نہیں تھی مگر اس بار دل چاہتا تھا کہ صاف مکر جائے ہر بات سے مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
☆☆☆

جب امی نے عائزہ کا ہاتھ تھاما تو وہ بے حد ٹھنڈا ہو رہا تھا بلکہ پور اوجو د بھی سخت ٹھنڈا ہورہا تھا امی کا دل بہت زور سے دھڑک اٹھا تھا۔ ہاسپٹل کی ٹھنڈی طویل راہ داریوں میں تیز تیز چلتے وہ یہی سوچتے جارہی تھیں کہ ان کی بیٹی کی خوشی کو شائستہ کی نگا ہیں کھاگئی ہیں۔ اس رشتے سے سب سے زیادہ صرف شائستہ جلی تھی ۔ سچ کہتے ہیں لوگ اپنی خوشی چھپا کر رکھنی چاہیے ورنہ ایسے کوئی بھی نظر لگا سکتا ہے۔ عائزہ کو ڈرپ لگی تھی ۔ قطرہ قطرہ بہتی ہوئی اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا اور امی کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ کون سا روگ پال لیا عائزہ ! کیا ہو گیا ہے۔ ذرا سی دیر میں فاروق صاحب بھی آنے والے تھے مگر پہلے نایاب پہنچ گیا تھا۔ اس کی چال پہلے جیسی نہیں تھی ۔ چہرے پر تشویش اور آنکھیں بھی عجیب سی ، وہ سیدھا عائزہ کے پاس گیا تھا، جہاں عائزہ کے لب کانپ رہے تھے اور بال بکھرے ہوئے تھے وہیں نایاب جیسا اس کا پرانا دشمن بھی شدید دکھی نظر آ رہا تھا۔ امی نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے جب ہی انہیں ہنسی آگئی تھی۔ اچھا تو یہ بات ہے شائستہ کے چمچے بیٹے۔ لڑکا تھا تو شروع سے گھنا میسنا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میری سوچ سے بھی زیادہ گہرا ہے یہ نایاب۔ اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیتا نہ جی ماں پر گیا ہے ہاں کوئی بات سیدھی نہیں کرنی۔ اشارے کر کے بندے کی جان نکال لینی ہے۔ چاہے اگلے کو سمجھ میں آئے نہ آئے کہا تو بیٹا اس نے تم سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے مذاق میں عائزہ سے پوچھ لیا تھا جواب قدرے بہتر طبیعت کے ساتھ بیٹھی یخنی پی رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ شدیدذ ہنی دباؤ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ، عائزہ کو کوئی ٹینشن ہے۔ اس وجہ سے بی پی اس حد تک لو ہوا ہے ۔ جب امی نے معاملہ بھانپا تب وہ ذرا ہلکی ہوئی تھیں۔ اور تو اور انہوں نے کہا بھی کچھ نہیں۔ شائستہ تائی ہوتیں تو کب کی اس کی گردن مروڑ چکی ہوتیں اور اسے اپنی گردن بہت عزیز تھی۔ وہ رنگ کہاں ہے انس والی ؟ ۔ امی نے دیکھا کہ اس کی انگلی خالی ہے۔ دراز میں پڑی ہے۔ عائزہ کی آواز اب بھی نحیف سی تھی۔ امی نے دراز کھول لی تھی۔ یہ رنگ واپس کیسے کریں سوال یہ تھا۔
☆☆☆

خزاں کے بعد بہار آجاتی ہے ایسی ہی بہار گل و گلزار کی دستک تھی جب شائستہ تائی ان کے پورشن میں آئیں اور آتے ہی عائزہ کے پاس بیٹھیں ۔ امی کی آنکھوں میں آنسوؤں کے بجائے مسکراہٹ تھی۔ کبھی نایاب نے کہاہی نہیں کہ جس لڑکی کو بچپن میں مار مار کر ادھ موا کرتا رہا ہے اب اسے اور رلانا چاہتا ہے، یہ لڑکا بھی بالکل ہی عجیب ہے عائزہ بیٹا ! آپ تیار ہو نایاب کے ہاتھوں اور پٹنے سے پر عائزہ کی ہنسی بے اختیار تھی جذبے سچے ہوں تو محبت مل ہی جاتی ہے۔ شائستہ تائی کتنے پیار سے بات کر رہی تھیں نایاب اور عائزہ کا دل رکھ لیا تھا ، یہی سب سے اہم بات ہے نہ کوئی روک نہ ٹوک انہوں نے فوراً نایاب کی نایاب فرمائش مان لی تھی اور عائزہ کی ہنسی رکنے میں نہیں آرہی تھی ، وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ورنہ اس ہنسی نے اس کا مذاق بنوا دینا تھا۔ جب تائی نے نایاب کو اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار کر عائزہ کو پہنانے کا کہا تو عائزہ نے فورا ہاتھ آگے کر دیا تھا ، جیسے نایاب نے اپنی از لی سختی سے تھاما تھا بچپن والی سختی سے .. تب عائزہ نے اپنا ہاتھ فوراً کھینچ لیا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے عائزہ نے بیگ سے اس کا ربڑ نکالا ہو اسے واپس پہنچ رہا ہو۔ یہ دنیا بھی کبھی کتنی خوب صورت ہو جاتی ہے کتنے رنگ خود میں سمو لیتی ہے۔ نایاب اس وقت دنیا میں سب سے نایاب نظر آ رہا تھا وہ ہنستا بھی ہے یہ آج دیکھا تھا ورنہ تو ہر وقت مار دھاڑ غصہ اور موڈ خراب انگوٹھی اس کی انگلی میں سج گئی تھی تایا جان نے بھی اس خوش گوار محفل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے سے دوسری گلاب جامن اٹھا کر منہ میں رکھتی تھی اور تائی شائستہ کو پتا بھی چل گیا تھا۔ کبھی پر ہیز بھی تو کرلیا کریں۔ بس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں آپ۔ یہ کہ گرتائی جان نے مٹھائی ان سے دور کر دی تھی۔ تایا جان فاروق صاحب سے گپ شپ میں لگ گئے۔ زندگی ذراسی آسانی بانٹنے سے کتنی سہل ہو گئی تھی ، ازلی دشمن سچے محبوب بن چکے تھے۔ ٹیبل پر گلاب کے بے شمار پھول اور گجرے رکھے ہوئے تھے جو نایاب لے کر آیا تھا جسے نائمہ سلیمہ اور عائزہ اٹھا اٹھا کر پہن رہی تھیں۔ تب بڑے حق سے اٹھ کر نایاب نے گجرے عائزہ کی کلائی میں پہنا دیے تھے اور مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گیا تھا۔ میں سمجھی کا نٹا چبھونے کا ارادہ ہے۔ سب کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ اگلا سر پرائز وریشہ ممانی کی آمد کا تھا۔ ساتھ میں انس بھی تھا۔ اس کی مسکراہٹ بھی آج جان دار تھی ۔ جب وریشہ ممانی نے سارے اختلافات بھول بھال کرنائمہ کو انس کے ساتھ لا بٹھایا اور اعلان کر دیا ہم سب کی مرضی اور مشترکہ فیصلہ ہمارے بچوں کے ساتھ جڑا ہے۔ نائمہ نے چھپ کر خاموش محبت تو کی تھی مگر فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ اظہار کی ہمت نہیں تھی مگر جب اللہ کسی کو کسی ایسے کے لیے چن لیتے ہیں جسے ہم نے دل سے چاہا ہوتا ہے تو ساری عمر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ اندھیرے سویرے کا سفر اسی طرح جاری و ساری رہے گا ، زندگی روشنیوں سے بھری ہے تو اندھیرا بھی بہت گہرا ہے۔ کسی کا ساتھ مل جانا کسی کے ساتھ شریک سفر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل بات تو نباہنے اور محبت کرتے رہنے میں ہے جب اس نے نائمہ کا ہاتھ تھاما اور نایاب نے عائزہ کا تب آسمان پر بے شمار امیدوں کے ستارے روشن تھے، نا امیدی کا اندھیر دل میں اترنے سے پہلے ہی امید کا سفر شروع ہو جانا چاہیے۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ نایاب نے عائزہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اور مجھے محبت بہت ہے۔ عائزہ نے بھی شرمائے بغیر سچ بول دیا تھا۔ ایک ہی بات تو ہم دونوں میں مشترک ہے۔ عائزہ ! محبت ہم دونوں نے ہی بے شمار کی۔ میں نے چھپ کر کی اور تم نے اچانک کرلی ۔ آؤ اس عہد کو نبھا کر د کھا ئیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی سچی طلب تھی جھوٹی نہیں۔ روشنی کی کرن تو کسی روزن سے بھی اندھیروں میں داخل ہو سکتی ہے بس اک ذرا سا انتظار !
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top