Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Sex Story زبردستی

lucky-butt

Banned
Banned
Joined
Dec 24, 2022
Messages
118
Reaction score
2,264
Points
93
Location
Pakistan
Offline

میرا نام زینت بیگم ہے میں زندگی کی ستائیس بہاریں دیکھ چکی ہوں میری شادی عتیق
کے ساتھ ٥ سال پہلے ہوئی تھی . ہم دونوں میں پہلی رات ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی
عتیق میرا بہت خیال رکھتے . میری ہر فرمائش اور خواہیش وہ پوری کرتے . وہ کسی فارن کمپنی
میں جاب کرتے تھے . ا سال پہلے کمپنی نے انہیں ٢ سال کے لئےڈیپوٹیشن پر بیرون ملک
بھیج دیا . شروع میں تو بہت پریشان ہوئی کیونکہ انکی عادت تھی مجھے . دن تو گزر جاتا
مگر رات کی تنہائیاں ڈسنے کو آتیں اور نہ جانے کتنی ہی راتیں میں نے رو کر گزاریں . پھر آہستہ
آہستہ جدائی برداشت کرنے کا سلیقہ آتا گیا . اور کبھی میکے اور زیادہ تر سسرال میں میرا
ٹائم گزرنے لگا . سسرال میں میری ساس اور سسر تھے . ایک نند ( عمیر کی چھوٹی بہن )
جس کا نام فرزانہ ہے وہ بیاہی ہوئی ہے اور ہر دوسرے تیسرے ماہ اپنے میکے والدین سے ملنے
آتی اور دو چار ہفتے رہ کر واپس اپنے سسرال چلی جاتی ہے . میری سسرال ان چند ہی
افراد پر مشتمل ہے میری اپنی نند فرزانہ سے بہت بنتی ہے وہ بہت اچھی طبیعت رکھنے
والی صاف دل خاتون میری نند سے زیادہ سہیلی ہے . ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم دونو کے
فگر بھی تقریبا ایک جیسے ہیں .
پچھلے دنوں فرزانہ کو اسکا دیور ہمارے ہاں چھوڑ گیا اور ٢ ہفتے بعد لے جانے کا کہہ کر
واپس چلا گیا . فرزانہ کا خاوند بسلسلہ روزگار دور رہتا اور اور دو تین ہفتے بعد دو تین دنوں
کے لئے گھر اتا ہے . فرزانہ کے ساتھ وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا اور ایک شام اسکا دیور سمیر
اسے لینے کے لئے آ گیا . تو میری ساس نے اسے کہا کہ کل نہیں پرسوں چلے جانا تو سمیر
نے کہا ٹھیک ہے . پرسوں چلے جایئنگے . سمیر ٢٠ سال کا جوان کالج کا سٹوڈنٹ ہے
اور بہت اچھے اخلاق و آداب کی بدولت سب میں رشتہ داروں میں ایک اچھی شہرت رکھتا ہے .
دوسرے دن فرزانہ اپنی امی کے ساتھ دوسرے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے ان کے ہاں گئی .
مجھے بھی ان کے ساتھ جانا تھا مگر میں نے ٢ دن پہلے ہی سے کپڑے دھونے کا پروگرام بنا رکھا تھا .
١١ بجے کا وقت تھا میں کپڑے دھو رہی تھی. اور کپڑے دھوتے ہوئے میں خود بھی اور
میری قمیض اور شلوار بھی گیلی ہو چکی تھی . مگر میں بے پرواہ ہو کر کپڑے دھوتی رہی
میں چاہتی تھی کہ جلد سے جلد کپڑے دھو کر دوپہر کا کھانا پکا لوں تاکہ فرزانہ اور
میری ساس جب آئیں تو ان کو انتظار نہ کرنا پڑے . چونکہ میں نے برا بریزیر پینٹی وغیرہ
دھونے کے لئے اتار رکھے تھے . اس لئے قمیض کے بھیگنے سے مموں کی گولایاں
اور نپلز نظر آ رہے تھے . اور میری رانوں پر گیلی شلوار چپک گئی تھی جس سے رانوں کی گولایاں
بھی عیاں تھیں کیونکہ گھر میں اکیلی تھی اس لئے مجھے کسی کے دیکھ لینے کا کوئی خطرہ نہ تھا
کہ اچانک سمیر سامنے آگیا . وہ اوپر والے گیسٹ روم میں سویا ہوا تھا .میں بھول ہی گئی تھی کہ
سمیر بھی آیا ہوا ہے . میں نے پوچھا" اٹھ گئے سمیر " اور اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر
اسے دیکھا تو اسکی نظروں کو اپنے جسم پر مرکوز پا کر میں دہل سی گئی . اسکی نظروں میں
ہوس صاف نظر آ رہی تھی وہ کبھی میرے مموں کو تاڑتا تو کبھی میری بل کھاتی کمر کو دیکھتا .
میں کپڑا نچوڑتے ہوئے نیچے جھکی تو سمیر نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیا
مجھے ایسی حرکت کا اندازہ نہ تھا کہ سمیر ایسا بھی کر سکتا ہے . میں نے غصہ اور حیرت
سے اسے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو تم سمیر اور اس کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی
مگرسمیر مجھے اچھی طرح قابو کر چکا تھا . میں اپنے آپ کو بےبس سمجھ کر اسے ڈرانے دبکانے
لگی اور پھر اونچی آواز سے شور مچانے لگی تو اس نے ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا .
میں نے بڑی کوشش کی کہ میری آواز نکل سکے تاکہ اسے بتا سکوں کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے
اسے اسکا خمیازہ بھگتنا ہوگا . مگر اس نے میرے منہ پر بڑی مضبوطی سے اپنا ہاتھ جما رکھا تھا .
میری کوشش تھی کہ کسی طرح میں اس کی گرفت سے نکل سکوں مگر وہ ٢٠ سال کا جوان اور
توانا کسرتی جسم کا مرد اور میں ٢٧ سال کی ایک کمزور عورت اسکا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی .
پھر میں اس کے بازوں میں مچل رہی تھی تاکہ کسی طرح اسکے نیچے سے نکل کر اسے وہ
پھینٹی لگاؤں کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے اور کسی اور کی عزت پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے .
مگر سمیر نے میری ایک نہ چلنے دی . میں گھوڑی بنی اس کے نیچے تھی اور وہ مجھ پر چھایا ہوا تھا .
اسکا ایک ہاتھ میری کمر پر اور دوسرا میرے منہ پر تھا کچھ دیر اسی طرح رہنے کے بعد اسکا
ہاتھ میری کمر سے آگے کو سرکنے لگا اور جلد ہی اس نے میرا ایک مما جکڑ لیا میں زور سے تڑپی
جاری ہے​
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top