Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ

    اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ ریٹس

    ٭یہ ریٹس 31 دسمبر 2025 تک کے لیے ہیں٭

    فری رجسٹریشن

    مکمل طور پر مفت

    رجسٹریشن بالکل مفت ہے، اور فورم کے عمومی سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    پرو پیڈ ممبرشپ

    فیس: 1000 روپے (1 ماہ)

    اس پیکج میں آپ کو صرف پرو پیڈ سیکشنز تک رسائی حاصل ہوگی۔

    وی آئی پی ممبرشپ

    فیس: 3000 روپے (3 ماہ)

    وی آئی پی ممبرشپ میں پرو اور وی آئی پی اسٹوریز سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    فیس: 5000 روپے (6 ماہ)

    وی آئی پی پلس ممبرشپ کے ذریعے پرو، وی آئی پی اور وی آئی پی پلس سیکشنز وزٹ کریں۔

    پریمیم ممبرشپ

    فیس: 50 ڈالر (6 ماہ)

    پریمیم ممبرشپ میں پرو، وی آئی پی، وی آئی پی پلس اور خصوصی پریمیم سیکشنز شامل ہیں۔

    رابطہ کریں

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    Email: [email protected]

    © 2025 اردو اسٹوری ورلڈ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Moral Story زندگی کے رنگ

Story LoverStory Lover is verified member.

Staff member
Administrator
Super Mod
Moderator
Prolific Author
Elite writer
VIP+
VIP
Premium
Legend
Super Paid Member
Joined
Nov 24, 2024
Messages
216
Reaction score
8,428
Points
93
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
ہر انسان کی زندگی ایک کہانی ہوتی ہے اور جب گزرتے وقت کا درد سینے میں تکلیف دینے لگے ، تو آنسو چھلک پڑتے ہیں تب جی چاہتا ہے کہ یہ کہانی کسی کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ میرا بچپن یتیمی میں گزرا۔ ماں نے ہر ناز اُٹھایا، جو ایک دکھیاری بیوہ اُٹھا سکتی ہے ، مگر باپ کی کمی تو وہ پوری نہ کر سکتی تھیں۔ سو احساس محرومی ہر دم میرے ساتھ رہا اور جوانی دبے پاؤں آ گئی۔ میٹرک کے بعد میں گھر بیٹھ گئی۔ ماں نے سوچا کہ اب میری ذمہ داری سے سبک دوش ہو جانا چاہئے۔ رشتے تو بہت تھے ، مگر مجھے کوئی قبول کرتا تو بات تھی۔ وجہ یہی تھی کہ ماں بیوہ اور میں یتیم تھی اور ہم ماموں کے پاس رہتے تھے۔ ان دنوں میرے نزدیک زندگی ایک بے رنگ منظر کے جیسی تھی میں ان بد نصیب لڑکیوں میں سے تھی کہ جن کو کسی کا پیار نہیں ملتا۔ وقت دبے پاؤں گزرتا گیا۔ دن بڑے بور گزر رہے تھے کہ ایک دن ماموں کے دوست اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دے گئے۔ میں کارڈ دیکھ کر خوش ہوئی کہ کچھ بوریت کم ہو گی۔ وہاں میری کچھ سہیلیاں بھی آرہی تھیں، جن سے کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی اور خالہ جان سے بھی۔ وہ دلہن والوں کی پڑوسن تھیں۔ ہم شادی کی تقریب میں گئے ، تھوڑی دیر بعد خالہ جان بھی آ گئیں۔ یہ امی کی رشتے کی بہن تھیں اور ان کے بیٹے بختیارے سے میری بات طے ہونے والی تھی، لہذا مجھے اس شخص کو دیکھنے کا بہت ارمان تھا۔ بختیار کو سب پیارے ہی بلاتے تھے۔ جب ہم صحن میں آئے، تو کوئی میرے پاس سے گزرا۔ وہ بہت خوبصورت شخص تھا، لیکن میں اسے نہ جانتی تھی، تاہم چونکی ضرور ۔ وہ جو کوئی بھی تھا، اس کی پرسنلیٹی بڑی شاندار تھی۔ مجھے گمان گزرا کہ ہو نہ ہو، یہ بختیار ہے۔ دو بھائی کھانے کی دیگوں کے پاس کھڑے نظر آئے تو میں نے خالہ کی چھوٹی بیٹی سے پوچھا کہ ان میں سے بھی کون سے ہیں؟ وہ بولی۔ گرے ڈریس والے۔ میں نے اُن کو دیکھ کر نظریں جھکالیں، کیونکہ یہ وہی بندہ تھا۔ بارات لے کر ہم دلہن کے گھر پہنچے، وہاں بھی میرا یہی کام بھتا کہ دیکھوں وہ کہاں کھڑے ہیں ؟ بس میں انہی کو دیکھتی تھی، اُدھر وہ مجھے دیکھ رہے تھے۔ اُن کی بہن فوٹونہیں ی پار ہی تھی۔ وہ جلدی سے آئے کیمرہ لیا اور تصویریں بنانے لگے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ بخت میری تصویریں اتاریں۔ میں ادھر اُدھر چھپنے لگی، مگر پھنس کر رہ گئی۔ آگے جاتی تو دولہا دلہن بیٹھے تھے، پیچھے پہلے ہی عورتوں کا ہجوم تھا۔ میں دائیں جانب ہونے لگی تو بخت سے ٹکرا گئی اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ خیر، ایک خوش کن یاد لے کر گھر آ گئی۔ شادی کے کچھ دن بعد امی سے ضد کی کہ ہم لڑکی والوں کے طرف والی شادی کی مووی منگواتے ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ اس کے لئے خالہ کے گھر فون کرنا پڑے گا۔ میں سہیلی کے گھر خالہ کو فون کرنے چلی گئی۔ نمبر ڈائل کیا تو کسی نے ہیلو کہا۔ میں نے پوچھا۔ کون ؟ جواب ملا ، بختیار ! میں نے خوش ہو کر شادی کی مووی مانگی ، جوفی الحال نہ مل سکی تھی۔ چند باتیں ہوئیں اور میں خوش ہو گئی۔ اپنے ماموں کی بیٹی جن کو بتایا کہ میری بختیار سے بات ہوئی ہے، تو وہ چپ ہو۔ گئی اگلے دن انہوں نے خود فون کیا اور اپنی بہن کے ذریعے مجھ سے کافی باتیں کیں۔ ماموں کا ہر وقت فون لاک رہتا تھا، اس لئے باہر سے تو کال آسکتی تھی، مگر ہم نہیں کر سکتے تھے۔ خیر، میں نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ دوسرے روز حنا نے کہا کہ میں پھو پھی کے گھر جارہی ہوں، لیکن وہ گئی نہیں، بلکہ کمرے میں چھپ گئی۔ میں نے ممانی سے چابی لے کر بخت کے گھر فون کیا، جو اُسی نے اٹھایا۔ گھنٹہ بھر ہم نے باتیں کیں۔ جب میں نے ریسیور رکھا تو حنا باہر آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں۔ اب میں ساری باتیں ابو کو بتاؤں گی۔ میں نے اس کی منت کی کہ ایسامت کرو مگر وہ نہیں مانی اور اس نے ماموں، یعنی اپنے والد کو ساری باتیں بتا دیں۔ وہ ایک دم غصے میں بھر گئے اور امی سے کہا کہ یہ ہیں تمہاری لاڈلی کے کرتوت ، ابھی وہاں سے رشتہ آیا نہیں اور اس نے ہمیں بد نام کرنا شروع کر دیا۔ وہ لوگ کیا سوچیں گے ؟ بس اب یہ رشتہ نہیں ہو گا، یہ میرا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد جو نفرت مجھے گھر والوں سے ملی ، خدا کسی کو نہ دکھائے۔ میں زندہ لاش بن کر رہ گئی۔ مجھے کھانے پینے کا بھی ہوش نہ تھا کیونکہ میرے ارمانوں کو ماموں جان کے فیصلے نے خاک میں ملا دیا کھتا اور گھر والوں نے بھی میری بہت اہانت کی تھی۔ خدا جانے کیوں حن میری دشمن بن گئی تھی۔ مجھے بختیار سے رشتہ نہ ہونے کا غم تھا اور میری ماں اسے اللہ کی مرضی سمجھ کر صبر سے کسی اور اچھے رشتے کا انتظار کر رہی تھی کہ انہی دنوں اچانک دور کے عزیز کا بیٹا کراچی سے آکر کچھ دن ماموں کے ہاں رکا۔ اس کا نام زبیر تھا۔ اس کی سحر انگیز شخصیت کا جادو امی اور ماموں پر چل چکا تھا۔ امی دعا کرنے لگیں کہ خد ا زبیر کو ان کا داماد بنا دے۔ انہوں نے کسی طور اپنا مدعا زبیر کو کہہ دیا۔ جاتے ہوئے اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے ہی شادی کریں گے اور والدین کو رشتے کے لئے بھیجیں گے۔ اُن کے جانے کے بعد میرے دل پر گہری اداسی چھا گئی ، لیکن پڑھائی کی مصروفیات میں الجھ کر وقت گزارتی رہی کہ معلوم ہوا، زبیر کے والدین ان کی شادی اپنے قریبی رشتہ دار کی بیٹی سے کرنا چاہتے ہیں۔ والدہ کو اس معاملے کی خبر ملی تو انہوں نے ایک اور رشتے پر ہاں کر دی۔ یہ رشتہ مجھے پسند نہ تھا، بہت روئی پیٹی۔ ماں نے پیار سے سمجھایا کہ مجھے اپنا فرض نبھانے دو، اب کس بنیاد پر تم عمر بھر بیٹھی رہو گی۔ میں نافرمان نہیں تھی، اسی لئے ماں اور اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکا دیا اور ایک انجان ہمراہی کے ساتھ زندگی کے سفر پر چل پڑی۔

جیون ساتھی اچھا تھا، لیکن سسرال والے روایتی نکلے۔ چند مہینوں میں ہی نندوں نے زندگی اجیرن کر دی، میں لاڈوں پلی رو رو کر خاک ہو گئی۔ اس دوران ایک بیٹے اور بیٹی کی ماں بن گئی مگر حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ میاں نے بھی رفتہ رفت آنکھیں پھیر لیں اور اپنے جذباتی سہارے سے بھی محروم کر دیا۔ پہلے وہ اپنے کاروبار میں مگن تھے، پھر عیاشیوں میں پڑ گئے۔ ادھر میں گھر کے کام اور بچوں کی دیکھ بھال میں لگی تھی کہ اچانک امی کے فوت ہونے کی اطلاع ملی۔ وہ خاموشی سے دنیا تیاگ کر مجھے تنہا کر گئی تھیں۔ اب میرے دکھ سننے سمجھنے اور میرے غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہ رہا تھا-

وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہوتے گئے اور پھر ایک دن میرے میاں نے دوسری شادی کر لی۔ میں نے بہت احتجاج کیا۔ سسرال والوں نے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ تمہاری سوکن اس گھر میں نہیں رہے گی۔ ہم اس کو یہاں نہ آنے دیں گے۔ تم اور تمہارے بچے یہاں پہلے کی طرح رہو گے۔ یہ ان کا احسان تھا، ورنہ میرا کوئی آسرا نہ تھا۔ بیٹی جوان ہو رہی تھی، بیٹا بھی سیانا ہو چکا تھا۔ میاں مجھ سے لا تعلق ہو گئے اور مکمل علیحدگی اختیار کر لی۔ اس برے وقت میں سسرال والوں نے پھر بھی ساتھ دیا۔ اگر وہ ساتھ نہ دیتے تو جانے کیا حشر ہوتا، مگر سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس پھیکی ، بے رنگ زندگی میں اچانک طوفان آجائے گا۔ گھر کے کام کاج اور سودا سلف لینے باہر جاتی تو نقاب اور چادر اوڑھ کر جاتی، پھر بھی ایک دکاندار نے مجھے نوٹ کیا۔ اس کی دکان سے میں بچوں کی کتابیں و غیرہ لینے جاتی تھی۔ محلے دار ہونے کے سبب وہ میرے حالات سے بھی واقف تھا۔ جب وہ اظہار محبت کے بہانے ڈھونڈنے لگا تو میں نے اس کی دکان پر جانا چھوڑ دیا اور راستہ ہی بدل لیا، لیکن اس نے بھی ہار نہ مانی۔ کبھی کسی بچے کے ہاتھ پھول بھجواتا تو کبھی درد بھرے خطوط میں یہ پرچے پڑھ کر پھاڑ دیتی اور جواب نہ دیتی کہ خود ہی مایوس ہو جائے گا، لیکن وہ باز نہ آیا تو میں نے گھر سے نکلنا بہت کم کر دیا، مگر شامت آنا تھی۔ ایک دن بیٹے نے کہا کہ میرا ٹیسٹ ہے اور یہ پیپرز ضرور چاہیں، تو میں اس کی دکان پر چلی گئی۔ شاید شوہر کی بے وفائی کا رد عمل تھا کہ اس دن میرے دل میں وقاص کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا اور میں نے اسے برابھلا نہ کہا بلکہ جو اس نے کہا خاموشی سے سنتی رہی اور پیپرز لے کر گھر آ گئی۔ اگلے دن اس نے محلے کے بچے کے ہاتھ اپنا موبائل فون نمبر لکھ بھیجا تا کہ اس سے رابطہ کر سکوں۔ میں نے فون کیا اور کہا کہ جب میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تو پھر وہ کیوں مجھے تنگ کر رہا ہے۔ وہ ضد کرنے لگا کہ ایک بار ملو، آئندہ بھی تنگ نہ کروں گا۔ میں نے یہ سوچ کر ہامی بھر لی کہ محلے کا معاملہ ہے، ایسا نہ ہو اس کی دیوانگی راز کھول دے۔ مجھے اس کو سمجھانا ہو گا، میں نے اسے پارک میں آنے کا کہہ دیا۔ یہ قدرے سنسان پارک تھا۔ ہم بینچ پر بیٹھ گئے۔ اس نے مدعا بیان کیا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میرے بچوں کو باپ کا پیار دے گا۔ میں اپنے شوہر خلع لے لوں اور اپنی زندگی ایک بے وفا آدمی کے پیچھے برباد نہ کروں۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے سسرال والوں نے میری اور بچوں کی تمام ذمہ داریاں اٹھائی ہوئی ہیں، اگر ان کو اس بات کا پتا چل گیا تو وہ مجھے زندہ گاڑھ دیں گے۔ بہر حال اس نے کسی قسم کی بد تمیزی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ نہ کیا۔ جب گھر آئی تو عجیب طرح کا احساس میرے دل میں تھا۔ اب اپنے لباس کا خیال رکھنے لگی۔ من میں جینے کی امنگ جاگ اٹھی کہ مجھے کوئی پسند کرتا ہے۔ عورت ہو یا مرد، یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی ضرور سوچتا ہے میں بھی چاہا جاؤں۔ کیا مجھے جینے کا حق نہیں، لیکن اولاد کی محبت میرے پاؤں کی زنجیر تھی۔ جانتی تھی کہ اس راہ پر چلی تو بچے برباد ہو جائیں گے ، اس لئے دوبارہ اس سے نہ ملی۔ ایک دن اس کا خط ملا کہ بہت بیمار ہوں۔ فلاں اسپتال کے فلاں کمرے میں ، آ کر مجھے دیکھ جاؤ۔ دل نے گمراہ کیا اور میں اس کی عیادت کو چلی گئی۔ وہ واقعی بیمار تھا۔ پیلا پڑا ہوا تھا، ایک ہفتہ اسپتال میں رہا پھر گھر آ گیا تو کہا کہ گھر آکر دیکھ جاؤ۔ میں اس کے گھر گئی، جہاں ایک بوڑھی ماں اور بیوہ بہن کے سوا کوئی نہ تھا۔ وقت اس نے کہا۔ شکریہ تم آئیں، اگر نہ آتیں تو شاید میں پھر سے اسپتال میں ہوتا۔ میں نے کہا۔ آخری بار آئی ہوں، میرا خیال دل سے نکال دو۔ تم کیسی عجیب زندگی گزار رہی ہو۔ تم خلع لے لو، میں تم سے شادی کروں گا۔ میں بے حد پریشان گھر لوٹی۔ دوسری شادی کے بعد میرے میاں نے مجھ سے ہی نہیں اپنے گھر والوں سے بھی ناتا توڑ لیا تھا مگر مجھے اپنے سسر صاحب اور جیٹھ کی عزت بھی مطلوب تھی۔ عہد کیا کہ آئندہ کبھی وقت اس سے ملوں گی اور نہ بات کروں گی۔ ایک ماہ بعد اس نے فون کیا کہ کونسلر کو خلع کی درخواست دے دو۔ میں نے فون بند کر دیا کیونکہ میں سسرال والوں سے ہی نہیں اپنے میاں سے بھی ڈرتی تھی کہ وہ مجھے جان سے مار دیں گے۔ اس نے پھر فون کیا کہ آخری بار بات کر لو۔ کاش میں نہ جاتی۔ میں ڈرتے ڈرتے گئی۔ ہم پارک میں بیٹھے ہی تھے کہ کسی عزیز نے ہمیں دیکھ لیا اور میرے میاں کو خبر کر دی۔ دوسری شادی کے چھ برس بعد پہلی بار وہ گھر آئے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات چیت کوئی تذکرہ یا پوچھ گچھ کچھ نہ کی، بس بچوں سے بات کر کے چلے گئے۔ شام کو محلے کی ایک عورت ہمارے گھر آئی کہ کسی نے غنڈوں سے وقت اس کی اتنی پٹائی کروائی ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ وہ اس پر بس کر دیتے تو کافی تھا، مگر خدا نے وقاص کو سزا دینی تھی، سو ملی۔ چھ ماہ بعد جب آپریشن کے بعد اس کی ٹانگوں کا پلستر اترا اور وہ لاٹھی ٹیکتا ہوا دکان پر آیا تو کسی نے اس کو غائب کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن وقت اس کے بارے میں آج تک کسی کو خبر نہیں کہ کہاں گیا؟ لیکن مجھے گمان ہے کہ وہ میرے خاوند کے انتقام کا نشان بنا ہے۔

اس کی ماں بہن ، آج بھی خون کے آنسو روتی ، اُسے تلاش کرتی ہیں۔ میرے شوہر اس دن کے بعد دوبارہ گھر نہیں آئے نہ ان کو اس بات کی پروا ہے کہ بچوں کا خرچ کیوں کر اور کیسے پورا ہوتا ہے ؟ لیکن سارا زمانہ تسلیم کرتا ہے کہ میں آج بھی ان کی بیوی ہوں اور ان کے بچوں کی ذمہ دار ہوں۔ سوچتی ہوں اگر میرے سسرال والے اچھے نہ ہوتے، میری پروانہ کرتے تو میں کیا کرتی، کہاں جاتی ؟ خدا ایسے شوہروں کو نصیحت دے جو بیویوں کے حقوق غصب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
 
Back
Top