What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

Spy Fiction سرفروش۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔ از قلم ہارڈ ٹارگٹ

Spy Fiction سرفروش۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔ از قلم ہارڈ ٹارگٹ
Man moji Çevrimdışı

Man moji

Staff member
Super Mod
Dec 24, 2022
6,481
178,771
113
pakistan
Gender
Male


سرفروش 2 ۔۔ قسط نمبر 1 ۔۔۔

عاصم جیپ ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔اور میں اس کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مصروف تھا ۔۔۔جہاں تک میرا خیال تھا کہ عاصم نے پوجا کو بھی کوئی ٹوپی پہنائی ہوگی ۔۔۔۔مگر یہ تو طے تھا کہ ا ب انٹیلی جنس پاگل کتوں کی طرح ہمارے پیچھے پڑ چکی ہے ۔۔۔۔ایک ہی ہفتے میں انڈیا کے دو بڑے اڈے ہم نے تباہ کر کے ڈرون ٹیکنالوجی کو درہم برہم کر دیا تھا۔۔۔جو مشن عمراں صاحب نے میرے ذمے لگایا تھا ۔۔وہ کافی حد تک پورا ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔انہی سوچوں میں تھا کہ عاصم نے ایک ہوٹل کے سامنے جیپ روک دی ۔۔۔۔میری طرح وہ بھی چائے کا شیدائی تھا۔۔ چائے کا آرڈر دے کر ہم ہوٹل کے سامنے ہی تخت پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔سامنے ہی الیکٹرونکس کی کئی دکانیں تھیں ۔۔۔۔عاصم مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے چلا گیا ۔۔۔۔۔اور کار میں بیٹھتے ہوئے ایک شخص کے قریب سے گزرتے ہوئے موبائل اڑا لایا ۔۔۔۔۔اس شخص کو اندازہ نہیں ہو ا۔۔وہ سیدھا کار لے کر بڑھتا چلا گیا ۔۔اسی طرح ایک اور چلتے پھرتے بندے سے پرس بھی نکال لایا ۔۔۔۔۔عاصم واپس آیا اور لدھیانے میں رضوان کو کال کرنے لگا۔۔رضوان وہی لڑکا تھا جو عاصم کے بعد سارے گروپ کو سمبھالتا تھا ۔۔۔۔۔مگر آگے سے شاید آپریٹر کا میسج آ رہا تھا کہ آپ کا مطلوبہ نمبر بند ہے ۔۔۔۔۔عاصم نے ایک اور نمبر ٹرائی کیا ۔۔۔۔یہاں فون اٹھا لیا گیا ۔۔۔۔۔عاصم نے رضوان کا پوچھا ۔۔۔۔آگے سے سننے والے جواب کے بعد عاصم کے چہرے پر سرخی تیر گئی ۔۔۔۔۔باقی لوگ کہاں ہیں ابھی ۔۔۔۔
اور پھر کچھ ہدایا ت دے کر فون بند کر دیا ۔۔۔۔۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔رضوان کل رات سے غائب ہے ۔۔۔اپنے اڈے پر بھی نہیں پہنچا۔۔۔اور نمبر بھی بند ہے ۔۔۔اور ایسا آج تک نہیں ہوا ہے ۔
ویسے بھی آپ کے آنے کے بعد میں نے انہیں تمام معاملات سے الگ رہنے کا کہا ۔۔۔کہ سب آپ کے لئے ریزرو رہیں گے ۔۔۔اور نگاہوں میں بھی نہیں آئیں گے ۔۔۔
میں اسے بغور دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ہم نے پچھلی رات ہی جو اڈا تباہ کیا تھا ۔۔۔اس کے بعد تو اتنی جلدی کوئی بھی حرکت میں نہیں آتا ۔۔۔۔ اور پچھلے شملے پر حملے کے وقت تو یہ سب تھے بھی نہیں ۔۔بس میں اور عاصم تھے ۔۔۔۔۔۔میں کڑیا ں ملاتے گیا۔۔۔۔اور دونوں واقعات میں صرف ایک چیز مشترک تھی ۔۔۔۔اور وہ اس شملے کے کنٹرولنگ سسٹم سے اٹھائی ہوئی گاڑی ۔۔۔۔۔میں نے عاصم نے پوچھا کہ اس جیپ کا کیا ہوا تھا جو تم لے کر نکلے تھے ۔۔۔
عاصم چونک پڑ ا۔۔۔۔۔۔ اوہ ہ۔۔۔۔۔وہ جیپ تو رضوان کو ہی ٹھکانے لگانے بھیجا تھا ۔۔۔وہ بیچنے کی بات کر رہا تھا کہ کچھ پیسے ہاتھ آئیں گے ۔۔۔مگر میں نے اسے نہر میں پھینکنے کا کہا تھا۔۔۔یہ وہیں سے ٹریس ہو ا ہو گا۔۔بعد میں میں نے بھی نہیں پوچھا تھا۔۔۔۔۔پوری کہانی ہماری سمجھ میں آ گئی تھی ۔۔۔۔۔عاصم نے جلدی جلدی چائے پی اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔چلیں راجہ صاحب ۔۔
میں نے بھی تیزی سے چائے ختم کی ۔۔۔۔۔عاصم ہوٹل والے کی طرف گیا ۔۔اور کہنے لگا کہ ہمیں کسی کام سے آگے جانا ہے ۔۔۔۔یہ جیپ وہ اپنے پاس رکھے ۔کل تک وہ واپس آ کر جیپ لے جائے گا۔۔۔ہوٹل والے کو کیا انکار تھا ۔۔۔اس نے کہا باؤ جی ۔۔جیپ ہوٹل کے پیچھے کچے پر لگا دئیو۔۔۔۔۔۔عاصم نے ایسے ہی کیا ۔۔۔اور پھر ہم روڈ کراس کر کے اس طرف آ گئے ۔۔۔۔۔سامنے سے ایک لوکل بس آ رہی تھی ۔۔۔ جالندھر کی آوازیں لگاتا ہوا کنڈیکٹر ہمارے سامنے کودا ۔۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے اشارہ کیا اور بس پر سوار ہو گیا ۔۔۔۔وہ کچھ سنجید ہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ کافی عرصے سے انڈیا میں تھا ۔۔۔اور ہاتھ پاؤں بچا کر کام کر رہا تھا ۔۔۔۔۔مگر اب صورتحال مختلف ہو رہی تھی ۔۔۔اور میرا بھی یہی حال تھا ۔۔۔نیپا ل سے آنے کےبعد عاصم کے ساتھ اور سپورٹ نے میری بھرپور مدد کی ۔۔۔۔جس کی وجہ سے میں نے صرف مشن پر ہی فوکس رکھا تھا ۔۔۔اور دوسری طاقت ہماری تیز رفتاری تھی۔۔۔۔۔جتنی دیر میں ٹریسنگ ہوتی ۔۔میں مشن ختم کر کے یا تو انڈیا سے باہر ہوتا ۔۔۔یا پھر کسی نئے حلیے ۔۔۔۔۔
عاصم نے ایک نظر بس کے مسافروں پر ڈالی ۔۔۔۔۔اور پھر درمیانی سیٹ کی طرف بڑ ھ گیا ۔۔کارنر سیٹ پر بیٹھے ہوئے اس نے مجھے اپنے سائیڈپر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔میں بھی خاموشی سے جا بیٹھا ۔۔۔۔چوری کے پرس سے کرایا دیتے ہوئے اس نے میری طرف بھی اشارہ کر دیا ۔۔کنڈیکٹر نے ایک نظر مجھے دیکھا اور آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔ہمارا سفر چار گھنٹے کا تھا۔۔
جالندھر کے ٹول پلازے سے بس کچھ آگے گئی ۔۔کہ عاصم نے میرا ہاتھ تھام اور کنڈیکٹر کو آواز دی ۔۔۔۔ہم دروازے پر پہنچے ۔۔۔۔۔موبائل اور پرس اس نے اسی سیٹ کے نیچے رکھ دیا ۔۔اس نے کنڈیکٹر کو رکنے کا کہا اور ہم اتر گئے ۔۔۔یہ ہائی وے کا بڑا روڈ تھا۔۔۔اور کنارے پر کھیتوں کی اک طویل لائن تھی ۔۔۔۔۔عاصم مجھے لئے کھیتوں میں چلتا گیا ۔۔کچھ دور جا کر کچھ کچے مکان نظرآئے ۔۔۔سامنے ہی ایک آدمی چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑ گڑا رہا تھا ۔۔۔عاصم کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔پنجابی میں بات کرتا ہوا عاصم چارپائی پر جا بیٹھا ۔۔۔۔۔عاصم نے اسے کھانے کا بندوبست کرنے کا کہا ۔۔۔اور حقہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے انکار کیا ۔۔ چائے کی لت کم تھی کہ حقہ بھی پیا جائے ۔۔۔۔۔کھانا کچھ دیر بعد آ گیا ۔۔۔۔کھانے کے بعد لسی ڈکارنے کے بعدعاصم اندر بڑھ گیا ۔۔کچھ دیر بعد ایک بائک اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔۔۔۔اور عاصم ہیلمٹ پہنے ہوئے باہر آیا ۔۔۔۔ دو سائیلنسر والی یہ بھاری بھرکم ہونڈا نئی نظر آرہی تھی ۔۔۔میں پیچھے جا بیٹھا ۔۔۔اور آگے کا سفر شروع ہو ا۔۔۔۔کھیتوں کے درمیان سے نکلنےکے بعد عاصم نے بائک اڑا دی ۔۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں ہم شہر میں داخل ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔ٹول پلازے سے کچھ آگے ہی ناکے لگ چکے تھے ۔۔۔۔۔جو عاصم نے کھیتوں کے درمیان سے ہی گذارے ۔۔۔آنے والی ہر بس کو روکا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔اور شاید ہماری بس کو بھی روکا گیا ہو گا۔۔۔۔انہی کھیتوں کے درمیان سے ہم شہر میں داخل ہوئے ۔۔۔لدھیانے اور جالندھر دونوں ہی لاہور سے زیادہ مختلف نظر نہیں آتے تھے ۔۔۔۔جالندھر سے لدھیانے کا 60 کلو میٹر کا فاصلہ تھا ۔۔۔۔عاصم تیزی سے بائک بھگائے جا رہا تھا۔۔۔۔ہم ہائی وے کےساتھ گذرنے والے شہری روڈ پر سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔جہاں روزمرہ کی ٹریفک چل رہی تھی ۔۔اور عاصم تیزی سےبائک دائیں بائیں گھماتا ہوا نکلتا جا رہا تھا۔۔۔ایک گھنٹے سے کچھ اوپر کا ٹائم تھا کہ ہم لدھیانے میں داخل ہو گئے ۔۔۔۔ دوپہر کے تین بجے کا ٹائم تھا ۔۔عاصم نے بائک ایک ہوٹل کے سامنے روکی اور چائے کا کہہ کر سامنے پی سی او کی طرف چل پڑ ا۔۔۔۔۔ہمارے چائے پینے تک جیپ آ چکی تھی ۔۔۔۔اور جیپ پر سوار لڑکے کوبھی میں پہچان چکا تھا ۔۔یہ وہی تھا جو اس اڈے پر چائے سر و کرتے ہوئے نظر آیا تھا ۔۔۔ آصف دبلے پتلے جسم کا لڑکا مگر تیز چمک آنکھوں میں نمایا ں تھی ۔۔۔۔قریب آ کر عاصم سے گلے ملا اور مجھے سے ملتے ہوئے سامنے جا بیٹھا ۔۔جیب سے موبائل اور جیپ کی چابیاں نکالتے ہوئے عاصم کی طرف بڑھا دی ۔۔۔عاصم نے رضوان کا پوچھا ۔۔۔مگر آصف نے انکار میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔اس کا اب تک کوئی پتا نہیں تھا۔عاصم نے نئی رپورٹ پوچھی ۔۔۔تو آصف نے بتایا کہ انٹیلی جنس کا کوئی نیو آفیسر صبح پہنچا ہے ۔۔۔پولیس اور انٹیلی جنس کی کمبائن میٹنگ ہوئی ہے ۔۔۔اور صبح سے پولیس کافی ایکٹو اور جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی ۔۔۔حالات بگڑ رہے ہیں ۔۔۔۔اورمیڈیا کو بھی ان معاملات سے دور رکھا جا رہا ہے ۔۔۔یہ خبر بھی پولیس کے اندر کے بندے سے ملی ہے ۔۔۔عاصم نے کچھ سوچا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔بائک کی چاپی آصف کو دے کر پیچھے آنے کا کہا ۔۔اور جیپ پر آ کر بیٹھ گیا ۔۔میں ساتھ ہی تھا ۔۔راجہ صاحب آپ کا کیا پلان ہے ۔۔۔۔۔میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کو جالندھر سے امرتسر بھجوا دوں ۔۔وہاں سکھوں کا ایک گروپ ہے ۔۔۔جو سیالکوٹ سائیڈ سے آپ کو بارڈر کراس کرو ا دے گا۔۔۔۔یا پھر کوئی نیا پاسپورٹ بنوا کر باہر بھجوا دیتا ہوں ۔۔آپ کے جانے کے بعد میں سکون سے یہ معاملات ڈیل کر لوں گا۔۔۔۔۔۔
مجھے واپس کی جلدی تو تھی ۔۔مگر عاصم کو فکر مندی میں دیکھ کر میں رک گیا ۔۔۔۔میں نے اس کہا کہ پہلے یہ معاملہ نبٹا تے ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ یہ اتنی آسان کھیر نہیں ہے ۔۔۔اس کے بعد ۔۔۔اور ٹائم نکال کر عمراں صاحب سے بھی بات کرنی ہو گی ۔۔۔۔اور یہ کیسے سوچ لیا کہ میں مشکل میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔
عاصم نے مجھے دیکھا اور جیپ آگے بڑھا دی ۔۔آصف پیچھے بائک پر آ رہا تھا۔۔۔۔جیپ کی رفتار تیز تھی ۔۔اور رخ اسی اڈے کیطر ف تھا ۔۔جہاں میں کچھ دن پہلے رہ چکا تھا۔۔۔۔رہائش علاقے میں یہ ایک بڑی عمارت تھی۔۔۔جو ایک بڑی چار دیواری سے گھری ہوئی تھی ۔۔۔ہم علاقے میں داخل ہی ہوئے تھے ۔۔۔۔کہ تیز فائرنگ کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔چار سے پانچ رائفلوں کی گھن گرج کی آواز تھی ۔۔۔۔عاصم نے چونک کر مجھے دیکھا ۔۔اور ہونٹ بھینچتے ہوئے ایکسلیٹر دبا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عاصم تیزی سے اپنے اڈے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔ابھی تین گلیاں دور تھے کہ پولیس کے بیرئیرنے راستہ روک دیا۔۔۔۔آگے اور کاریں بھی کھڑی تھی ۔۔۔اور لوگ باہر نکلے صورتحال معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔ہر طرف پاکستانی آتنگ وادی کا شور تھا۔۔کچھ یہ بڑ بڑا رہے تھے ۔۔اور کچھ انڈرورلڈ کے کسی لیڈر کی بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔اڈے کی طرف سے بھی جوابی فائر آیا تھا۔۔۔ہم دونوں باہر آچکے تھے ۔۔۔۔۔میڈیا کے لوگ بھی پہنچ چکے تھے ۔۔۔وین کے اوپر چڑھے ویڈیو بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔۔۔عاصم نے آگے جانے کی کوشش کی مگر ایک موٹی توند والے نے ڈنڈ ا لہراتے ہوئے واپس جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔عاصم کا چہرہ سرخ ہو ا۔۔۔میں نے آگے بڑھ کر اسے تھاما اور واپس جیپ کی طرف لے آیا ۔۔۔یہ وقت ہوش کا تھا ۔۔۔اور جوش سارے کام کو بگاڑ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔عاصم نےموبائل نکالا اور اندر رابطہ کرنے لگا۔۔۔۔مگر آس پاس کوئی جیمرلگا ہوا تھا۔۔۔اور سگنل غائب تھے ۔۔فائرنگ کی تیز آوازیں وقفے وقفے سے آ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔آصف بھی بائک لگا کر ہمارے پیچھے آ یا ۔۔اس کے چہرے پر بھی اپنے ساتھیوں کے لئے فکر مندی کے آثار تھے ۔۔۔۔۔وہ ہماری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے ۔۔۔۔۔میں نے آصف کو کہا کہ وہ آس پاس کی خبر لے کہ کتنی نفری ہے ۔۔اور کیا اطلاعات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں میری نگاہ سامنے میڈیا کے گاڑی پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔جہاں مائک پکڑے ہوئے ایک حسین دوشیزہ کیمرہ مین سے جھگڑ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے غور کیا تو معاملہ سمجھ آ گیا۔۔۔وہ کیمرہ مین کو آگے لے جانا چاہ رہی تھی ۔۔۔مگر وہ بزدل فائرنگ کی آوازوں سے کانپ رہا تھا۔۔اور جانے سے انکار کر رہا تھا۔۔۔۔لڑکی کافی سے زیادہ خوبصورت تھی ۔۔اور غصے میں اور زیادہ سرخ ہو ئے جارہی تھی ۔۔۔۔میں نے عاصم سے کہا کہ میں اس کے ساتھ اندر جارہا ہوں۔۔۔وہ کسی طرح اڈے کے پچھلی سائیڈ پر آنے کی کوشش کرے ۔۔۔۔میں اندر جانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔عاصم پلان سمجھ گیا۔۔۔میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے وہ جیپ کی طرف گیا اور پیچھے نکالنے لگا۔۔۔میں تیز ی سے اس میڈیا کی گاڑی کی طر ف بڑھا ۔۔۔۔
اور اس لڑکی کے سامنے آیا ۔لڑکی کچھ چونکی اورسوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔"میڈم میں ماس میڈیا کا اسٹوڈنٹ ہوں" ۔۔۔۔۔اور اگر آپ چاہیں تو کیمرہ مین کی جگہ میں جا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔اس کے بدلے میں اگر آپ چاہیں تو میری جاب لگوا سکتیں ہیں ۔۔۔۔۔میرے چہرے پر غربت کےسارے آثار طاری ہو گئے۔۔
اس لڑکی نے جانچتی نگاہوں سے مجھے دیکھا ۔۔۔ میں نے زیادہ ٹائم نہیں دیا۔اور کیمرہ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔۔۔کیمرے والے کی تو جان بچی تھی ۔۔اس نے جلدی سے کیمر ہ اتارا اور میری طرف بڑھا دیا ۔۔۔کیمرے کی بیلٹ اپنے بازو میں گھماتے ہوئے دیکھا تو وہ ابھی بھی شش و پنج میں تھی ۔۔۔میں نے کہا میڈم ٹائم کم ہے ۔۔۔چلیں ۔۔۔۔۔لڑکی ابھی تک سوچ ہی رہی تھی ۔۔۔۔خوبصورت آنکھیں الجھن کا شکار تھیں ۔۔۔۔مگر میرا سکون اسے مطمئن کر رہا تھا۔۔۔۔وہ تیزی سے اپنی وین کی طرف بڑھی اور ایک کارڈ میری شرٹ پر ٹکا دیا۔۔۔ ایک ہیلمٹ نکال کر خود پہنچا ۔۔دوسر ا مجھے پہناتے ہوئے بولی ۔۔۔میرا نام مادھوری ہے ۔۔۔۔۔اور تم ۔
میں نے اپنا نام راجہ ہی بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔مادھوری مجھے دیکھتے ہوئے باہر آئی ۔۔۔اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔پولیس کے بیرئیر کو میڈیا کے کارڈ نے بے اثر کر دیا۔۔۔۔۔گلی کے کونے پر ہی پولیس کی چار سےپانچ گاڑیاں تھی ۔۔۔جن کی اوٹ میں پوزیشن لئے ہوئے پولیس والے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ہم سائیڈ کے مکان اور دکان کے سامنے سے جھکے جھکے ہوئے بڑھتے گئے ۔۔۔۔مادھوری میرے آگے تھی ۔۔۔اور میں کیمرہ لئے اس کے پیچھے ۔۔۔۔گلی کے کونے پر پہنچتے ہی منظر میرے سامنے تھے ۔۔۔۔۔سامنے تیس فیٹ کے فاصلے پر وہ عمارت تھی ۔۔۔مین گیٹ بند تھا۔۔۔۔سامنے کی طرف پولیس کی مزید 5 سے 6 گاڑیوں لگی ہوئی تھی ۔۔ ۔۔اور سائیڈ پر ہوٹر لگی ایک وائٹ جیپ ۔۔۔۔۔سب پولیس والے پوزیشن سمبھالے ہوئے تھے ۔۔۔اور وقفے وقفے سے فائرنگ کا جواب دے رہے تھے ۔۔۔۔۔وائٹ جیپ کے پیچھے اوٹ میں کوئی افسر تھا ۔۔۔جو میگا فون پر اعلان کر رہا تھا کہ وہ لوگ باہر آ جائیں ۔۔انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔۔۔اڈے کی طرف سے بھی فائرنگ آ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور اندر اسلحے کا تو مجھے پتا تھا کہ وہ پورا ایک دن سکون سے خرچ کر سکتے ہیں ۔۔میں نے آس پاس نظر دوڑائی۔۔۔۔پولیس والے ایک ترتیب سے قریبی عمارتوں کی چھتوں پر آتے جا رہے تھے ۔۔اور وقفے وقفے سے آگے بڑھتے ہوئے پیچھے کی طرف جار ہے تھے۔۔۔۔میرا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔۔۔۔افسر میگافون پر ان سے ڈیل کی بات کرنے لگا تو میں چونکا ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں اندازہ ہو گیا کہ پہلے ہلے میں اندر گھسنے والے پولیس کے کچھ جوان ابھی باندی بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔وہ افسر ان کو چھوڑتے اور شرط ماننے کی بات کر رہا تھا ۔۔۔جو کہ شاید ہی سچ ہو ۔۔۔۔۔مادھوری نے میری طر ف مڑ کر دیکھا ۔۔۔میں نے کیمرہ آن کرتے ہوئےاسے اوکے کا سائن دکھایا ۔۔۔۔مادھور ی نے مائک پر بولتے ہوئے رپورٹنگ شروع کر دی ۔۔میں اس کے ہاتھ کے اشار ے کے مطابق کیمرہ گھماتے ہوئے زوم کرنے لگا۔۔۔۔۔ہم ساتھ ساتھ قریب ہوتے جار ہے تھے ۔۔۔۔اس افسر نے ہمیں آتے ہوئے دیکھا اور غصے میں پیچھے ہٹنے کا کہا ۔۔۔مگر مادھوری نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔۔۔اور ہم اوٹ میں سے ہوتے ہوئے عمارت کے سامنے جا پہنچے ۔۔۔ مادھوری مائک پر بولتی ہوئی کہنے لگی ۔۔ابھی ہم کھڑے ہیں اس آپریشن کی کمانڈ کرنے والے اے سی پی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔اور مائک اس کی طرف بڑھا کر کچھ پوچھنے لگی ۔۔۔۔میرے کیمرے کا رخ اس کی طرف اور نگاہیں اوپر گھوم رہی تھی ۔۔۔۔میں نے اوپر کے فلور پر کپڑے کے جھلک دیکھ لی تھی ۔۔۔۔اور شاید اوپر سے بھی ہمیں دیکھا جا چکا تھا۔۔میں نے سوچا کے اندر والوں کو کسی طرح اشارہ دوں یا پھر اپنا چہرہ دکھا دوں ۔۔۔۔اے سی پی ابھی بھی پیچھے ہٹنے کا کہہ رہا تھا ۔۔۔تبھی اوپر سے ایک پتھر آ کر ہمارے سامنے گرا۔اندر والے نے میرے دل کی بات سن لی تھی۔۔۔۔۔۔مادھوری ایک دم بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔اے سی پی بھی جلدی سے اوٹ میں بھاگا۔۔۔میں نے غور سے دیکھا تو پتھر پر کاغذ لپیٹا ہوا تھا ۔۔۔اے سی پی بھی شرمندہ ہوئے واپس آیا ۔۔۔اور کاغذ کھول کردیکھنے لگا۔۔جہاں ہندی میں لکھا تھا ۔۔کہ وہ اپنی مانگ دینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔اور اس رپورٹر لڑکی کو اندر بلا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اے سی پی پریشان سا ہو گیا ۔۔۔۔پہلے ہی چار جوان اندر جا کر یرغمال تھے ۔۔اور اب یہ رپورٹر بھی ۔
۔۔مادھوری نے میری طرف دیکھا ۔۔میں نے ہامی بھر لی ۔۔۔۔۔مادھوری کے اندر جانے پر میں حیران ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ کافی بے خطر لگ رہی تھی ۔۔۔یہ شاید پروفیشلزم تھا یا وہ واقعی اتنی بے خطر تھی ۔۔۔اے سی پی موبائل میں کسی اوپر کے افسر سے بات کر نے لگا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں کار وہاں آ کر رکی ۔۔۔۔۔ یہ انٹیلی جنس کے لوگ تھے ۔۔۔۔میں نے اپنا چہرہ کیمرے کے پیچھے چھپا لیا۔۔۔
انٹیلی جنس والے سیدھے اے سی پی کے پاس گئے ۔۔۔اور بات چیت کرنے لگے ۔۔۔۔میرا ذہن تیزی سے گردش میں تھا۔۔۔۔رضوان نے اگر زبان کھولی تھی تو کس حد تک کھولی تھی ۔۔۔؟اگر وہ پاکستانی ایجنٹ کے بارے میں بتاتا تو یہاں کچھ اور منظر ہونا تھا ۔۔۔۔۔انہیں صرف ہلکا شک تھا یا کوئی اور بات تھی ۔۔۔یا پھر صرف رضوان کی رہائش پر چیکنگ کے لئے آئے اور جوابی فائرنگ نے مشکوک کیا ہے ۔۔
اتنے میں اے سی پی نے مادھوری کو بلایا ۔۔۔اور اس سے پھر پوچھا ۔ ۔۔۔مادھوری تو اندر جانے کو تیار تھی ۔۔۔۔ایک وائیرلیس مائکرو فون مادھور ی کو دیا گیا کہ اپنے کان پر لگا دیں ۔۔۔۔اے سی پی نے مادھوری کو اکیلے جانے کا کہا ۔۔مگر اس نے میرے بغیر جانے سے انکار کیا ۔۔کہ اسے اپنے چینل کو بھی جواب دینا ہے ۔۔۔اور کچھ فوٹیج حاصل کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اے سی پی نے ایک نظر مجھے دیکھا ۔۔اور پھر آگے بڑھنے کا اشارہ دے دیا۔۔۔میگا فون پر چلاتے ہوئے اس نے فائر نہ کرنے اور مادھوری کو اندر بھیجنے کا بتایا ۔۔۔۔میں نے ایک نظر پیچھے ڈالی ۔۔۔سامنے والے گھر کی چھت پر اسنائپر ز آ چکی تھیں ۔۔۔۔مادھوری درمیانے قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔میں کیمرہ آن کئے آگے بڑھنے لگا۔۔۔۔دروازہ کھلا تھا ۔۔۔اندر گھستے ہی میں نے بارود کی بو محسوس کی ۔۔ساتھ ہی گولیوں کے بکھرے ہوئے شیل دیکھے ۔۔۔۔شروع شروع کی فائرنگ یہی سے ہوئی تھی ۔۔اور پھر یہ اوپر اور اندر مورچہ بند ہوئے ۔۔۔ہم اندر کی بلڈنگ میں داخل ہوئے ۔۔۔۔دروازے کے پیچھے سے ہینڈز اپ کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔۔اور ساتھ ایک لڑکا آگے آیا چہرے پر نقاب لگا تھا ۔۔مادھور ی کے ہاتھ اٹھوا کر چیکنگ کی ۔۔اور میری طرف آیا ۔۔کیمرہ ہٹتے ہی وہ چونکا تھا ۔۔۔میں نے جلدی سے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کا اشارہ کیا ۔۔۔وہ سمجھ گیا ۔اور مادھوری کولے کر آگے گیا ۔۔اور کچھ دیر کے لئے باتھ روم میں بند کر آیا ۔۔۔۔میں نے کیمرہ سائیڈ پر پھینکا ۔۔۔وہ لڑکا واپس آ گیا ۔۔۔راجہ بھائی ۔۔۔۔آپ یہاں ۔۔۔عاصم بھی نہیں ہیں یہاں ۔۔۔اور رضوان بھی شام سے غائب ہے ۔۔۔میں نے اسے کہا کہ عاصم بھی آ چکا ہے ۔۔۔۔پچھلی سائیڈ پر ہے ۔۔۔لڑکوں کو اکھٹا کر لو ۔۔۔۔۔۔میں تیزی سے اوپر گیا ۔۔اور پچھلی سائیڈ کا جائزہ لیا ۔۔۔۔مجھے عاصم کی جیپ کی جھلک نظر آ گئی تھی ۔۔۔دائیں بائیں پولیس والے آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔پچھلی سائیڈ پر ایک بڑا نالہ گزررہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے پیچھے سے راستہ بالکل بند تھا ۔۔۔اور شاید اسی لئے پولیس والے بھی دائیں بائیں دھیان لگائے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں جلدی سے نیچے پہنچا۔۔۔۔لڑکے کا نام ناصر تھا ۔۔۔۔۔اس کے ساتھ تین اور لڑکے تھے ۔۔۔میں نے پولیس والوں کا پوچھا ۔۔۔وہ سائیڈ کے کمرے میں بندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔میں نے ناصر کو اوپر کی منزل اور نچلی منزل میں بم لگانے کا کہا ۔۔۔اور باقی لوگوں کو پولیس کی وردی اتار کر خودپہننے کا کہا۔۔باہر سے میگا فون پر اے سی پی کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں پولیس والوں کے جسم پرلڑکوں کے کپڑے تھے ۔۔۔میں نے منہ بند کرتے ہوئے ان کے چہرے پر نقاب چڑھوا دئے ۔۔۔۔۔اور چاروں کے ہاتھ کندھے تک اٹھوا کر آپس میں بندھوا دیئے ۔لڑکوں سے گن لے کر وہ پیچھے کندھے پر ٹانگ دی ۔۔۔۔۔۔اب پہلی نظر میں ایسا لگتا تھا کہ جیسے چاروں سرنڈر کر رہے ہیں ۔۔۔۔میں نے ایک لڑکے کو ساتھ لیا ۔۔اور پچھلی سائیڈ پر آ گیا۔۔
اور دیوار کا جائزہ لینے لگا ۔۔اگر یہ دیوار ٹوٹ جائے توپیچھے نالا تھا۔۔۔اتنے میں ناصر بھی آ گیا۔۔۔میں نے کہا کہ یہ دیوار توڑنی ہے ۔۔۔۔ناصر واپس گیا ۔۔اور ایک ہتھوڑا لے آیا ۔۔۔راجہ صاحب یہاں ایک ونڈو تھی ۔۔۔۔مگر بدبو کی وجہ سے بند کر اوپر پلستر کر دیا تھا۔۔۔۔وہ ہتھوڑا مارتے ہوئےکھڑکی ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں وہا ں پلستر اکھڑتے ہوئے کھڑکی کو واضح کر رہا تھا۔۔۔۔میں نے ناصر سے ہتھوڑا لیا ۔۔۔اور اسے مادھوری کی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہوئے لانے کا کہا ۔۔۔۔ساتھ مائک کا بھی بتا دیا کہ وہ بھی اتار دینا۔۔۔۔۔ناصر وہاں چلا گیا۔۔۔میں نے لڑکوں کو اشارہ کیا کہ وہ کھڑکی کے پاس رہیں ۔اور صوفے کو اٹھا کر یہاں رکھ دیں ۔۔۔۔۔اور اوپر چلا گیا۔۔۔۔وہاں الماری میں عاصم کا کافی قیمتی سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔وہ ایک بیگ میں لیتا ہوا نیچے آیا ۔۔۔۔مادھوری بھی آچکی تھی ۔۔۔اور بند آنکھوں پر پٹی کے ساتھ وہیں کھڑی تھی ۔۔میں نے سب کو چپ رہنے کا کہا اور ناصر کے ساتھ اندر آ گیا۔۔۔۔چاروں پولیس والے ویسے ہی کھڑے تھے ۔۔انہیں لے کر ہم مین گیٹ پرپہنچے ۔۔۔۔گیٹ سے نکال کر ہم نے انہیں سیدھا جانے کا کہا ۔۔۔وہ ہاتھ اٹھائے ہوئے چل رہے تھے ۔۔۔منہ تو پہلے ہی بند تھے ۔۔۔ایک کے پیچھے رائفل بھی لٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔گیٹ ہم پیچھے سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مین گیٹ سے دو قدم آ گے گئے ہوں گے ۔۔کہ سامنے سے فائر آیا تھا ۔۔۔اسنائپر اور رائفل ایک ساتھ گرجیں تھیں ۔۔۔۔اور وہ چاروں وہیں لہو میں بھیگتے ہوئے گر گئے ۔۔۔۔۔مجھے پہلے اندازہ تھا کہ یہیں ہونا ۔۔میں نے ناصر کا ہاتھ پکڑا اور واپس بھاگا ۔۔۔اب پولیس نے اندر گھسنا تھا ۔۔۔اور ٹائم کم تھا۔۔۔
ناصرسے بم کے ریموٹ کا پوچھا ۔۔۔اس نے نکال کر مجھے دے دیا۔۔۔۔۔ہم واپس بلڈنگ کی بیک سائیڈ پر تھے ۔۔۔لڑکے فائرنگ کی آواز سن چکے تھے ۔۔۔۔میں نے کھڑکی کھولی ۔۔۔صوفے باہر سیٹ ہو چکا تھا۔۔۔۔میں نے اشارے میں کہا ۔۔"میں ریموٹ دباؤں گا ۔۔۔اور تم لوگوں نے سیدھا آگے بھاگنا ہے ۔۔۔۔میں اور ناصر مادھور ی کو لائیں گے ۔۔"۔۔۔۔۔وہ سمجھ چکے تھے۔۔۔مجھے مین گیٹ سے شور کی آواز آئی تھی ۔۔۔
میں نے لڑکوں کو کھڑکی سے باہر اترنے کا کہا ۔۔۔پھر مادھوری اور ناصر کو بھی ۔۔۔اور باہر آتے ہوئے بٹن دبا دیا۔۔۔۔۔۔ایک دھماکے کے ساتھ گردو غبار کا طوفان اٹھا تھا ۔ جو دائیں بائیں والے پولیس والوں پر بھی گرا ہو گا۔۔۔۔ناصر نے بم اوپر والی منزل پر لگایا تھا ۔۔اور ملبہ چھت کے ٹوٹنے سے نیچے جا گرا تھا ۔۔۔لڑکے فورا صوفے پر پیر رکھتے ہوئے نالے کو کراس کیا اور بھاگے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ناصر کو آگے بھیجا اور مادھور ی کو اٹھا کر صوفے پر کھڑا کیا ۔۔۔۔اور آگے چلنے کے لئے ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔۔مادھوری آگے کو قدم کھسکانے لگی ۔۔۔۔ناصر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔۔۔۔۔اور اٹھاتے ہوئے صوفے سے اتار دیا ۔۔۔میں نے بھی تیزی دکھائی اور صوفے کو پھلانگتا ہوا آگے آیا ۔۔ساتھ ہی صوفے کو لات مارتے ہوئے نالے میں گرا دیا۔۔۔اور ۔۔۔مادھوری کا ہاتھ پکڑ کراسے کھینچتے ہوئے بھگانے لگا۔۔۔۔۔دوسرا ہاتھ ناصر نے پکڑ لیا۔۔۔۔ابھی گردو غبار تھما نہیں تھا کہ ہم نے آدھا راستہ طے کر لیا۔۔۔تیزی سے ہم پہنچے تو عاصم جیپ اسٹارٹ کئے انتظار میں تھا ۔۔۔۔۔۔مادھوری کو اٹھا کر جیپ میں ڈالا اور خود بھی آگے آگیا۔۔۔۔ناصر بھی پیچھے چڑھ گیا ۔۔۔۔آصف بائک لئے تیزی سے آگیا بڑھا اور راستہ کلئیر کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔جیپ ایک جھٹکے سے آگے بڑھی ۔۔۔اور پھر گلیوں میں تیزی سے سفر شروع ہو گیا۔۔۔اگلے دس منٹ میں ہم گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک گھر کے سامنے پہنچے ۔۔ ۔ویسے بھی ۔۔پولیس کی وردی میں بیٹھے لڑکے کافی مشکوک لگ رہے تھے ۔۔۔عاصم نے ہارن دیا ۔۔۔۔اور گیٹ کھلتے ہی جیپ اندر لے گیا۔۔۔۔آصف پیچھے تھا ۔۔وہ بھی بائک لئے اندر آ گیا۔۔۔۔
یہ چار کمروں کا ایک کشادہ گھر تھا۔۔۔۔عاصم نے سب کو کپڑے تبدیل کرنے کا کہا۔۔۔۔۔دس منٹ میں سبھی اکھٹے ہو چکے تھے ۔۔۔۔عاصم اندر گیا اور نوٹوں کی ایک گڈی لے آیا ۔۔اور کھول کر سب میں بانٹ دئے۔۔۔اور پہلی ٹرین یا بس پکڑ شہر چھوڑنے کا کہا ۔۔۔۔تمام لوگوں کو رخصت کرنے کے بعد عاصم نے مجھےکہا کہ اگر ہو سکے تو آپ کلدیپ کور کی طرف چلے جائیں ۔۔۔میں اور آصف رضوان کا پتا کر کے آپ سے رابطہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔عاصم نے کافی سارے نوٹ میرے حوالے کئے ۔موبائل ۔اور بائک کی چابی بھی ۔۔۔۔۔۔اور یہ مادھوری کا کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔
اسے میں کہیں چھوڑ کر آتا ہوں ۔۔ورنہ پولیس پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔۔۔۔عاصم نے کہا ۔
میں بائک کی چابی لئے باہر آ گیا۔۔۔۔بائک اسٹارٹ کی اور تیزی سے سفر کرتا ہوا مین روڈ پر آیا۔۔۔۔راستے میں کلدیپ کے کالج کا ایڈریس پوچھا ۔۔اور سیدھا وہاں جا پہنچا۔۔بائک پارکنگ میں لگا کر باہر آیا۔۔شام ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔اور اکا دکا اسٹوڈنٹ کے گروپ باہر لان میں بیٹھے نظر آ رہے تھے ۔۔۔میں دائیں بائیں نظریں گھماتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔۔کلدیپ کو سرپرائز دینے کا ارادہ تھا ۔۔۔۔مگر یہاں پر تو کوئی گہما گہمی نظر نہیں آرہی تھی ۔۔۔
ایک اسٹوڈنٹ اکیلا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں تیزی سے اس کی طرف لپکا ۔۔۔اور کلدیپ کور کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔۔پہلے تو اس نے مجھے اوپر سے نیچے دیکھا ۔۔۔۔اور پھر پوچھنے لگا کہ آپ کو اس سے کیا کام ہے ۔۔۔مجھے وہ کچھ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے تھوڑا سختی سے کہا کہ جس سے کام ہے اسے بتاؤں گا ۔۔۔۔۔کہاں ہے وہ ۔۔۔۔؟
میرے پیچھے آئیے ۔۔۔۔اس نے اپنے کندھے پر پہنے بیگ کو اچھال کر اوپر کیا اورآگے چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔میں ہاتھ میں چابی گھماتا ہوا اس کے پیچھے جا رہا تھا۔۔۔۔۔کالج کی بیک سائیڈ پر ہی ہاسٹلز کی لائن بنی تھی ۔۔۔۔اور میں دیکھتے ہی سمجھ گیاتھا کہ ایک طرف بوائز ہاسٹل ہے دوسر ی طرف گرلز۔۔۔۔سامنے کھڑکیوں پر کپڑے خشک ہونے کے لئے ٹنگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہاسٹل کی فضاء میں کچھ گھبراہٹ کی بو آئی تھی ۔۔۔۔جو بھی دکھ رہا تھا ۔۔پریشان چہرے کے ساتھ تھا۔۔
وہ لڑکا مجھے لئے گرلز ہاسٹل کے سامنے پہنچا ۔۔۔اور اندر جا کر انچارج کو کلدیپ کو بلانے کا کہا ۔۔۔۔۔پھر باہر آ کر مجھے انتظار کرنے کا کہا ۔۔اور غور سے دیکھتے ہوئے واپس چلا گیا ۔۔۔۔ تین سے چار منٹ میں کلدیپ آ چکی تھی ۔۔۔۔ہلکے گرین کلر کی قمیض کے ساتھ پنک کلر کی شلوار پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ حیرت بھری نگاہوں سے باہر آئی ۔۔۔۔مجھے دیکھتے ہی ایکدم سے چونکی اور تیزی سے میری طرف بڑھی ۔۔۔۔راجہ تم ۔۔۔۔ایسے اچانک ۔۔۔ اس کے منہ کے الفاظ بکھر گئےتھے ۔۔۔۔۔۔میرے قریب آ کر میرے بازو تھام کر یقین کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔"میں تو سمجھی تھی کہ اب آپ سے کبھی ملاقات نہ ہو پائے گی ۔۔"۔۔۔کلدیپ کی محبت بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔اور پھر جلدی سے میر ا ہاتھ تھام کر اندر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
گرلز ہاسٹل میں بوائز کا داخلہ ممنوع تھا ۔۔۔۔وارڈن نے دیکھا اور روکنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر کلدیپ کے گھورنے پر خاموش ہی رہا۔۔۔۔میرے اندازے کے مطابق اس نے اپنا رعب و دبدبہ باقی رکھا تھا۔
کلدیپ جلدی سے مجھے لئے فرسٹ فلور پر آئی ۔۔۔جس کے سب سے آخری کمرہ اس کا تھا ۔۔۔وہ مجھے تیزی سے کھینچتے ہوئے لے کر جارہی تھی ۔۔۔اوپر کوریڈور میں کھڑی لڑکیا ں ہمیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے مجھے اندر کھینچا تھا ۔۔۔اور دروازہ بند کرتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے ۔۔۔۔میں نے بھی گرم جوشی سے جواب دیا ۔۔۔اور اسے اپنے بازؤوں میں بھر لیا ۔۔۔۔۔۔اس کے جسم میں لرزش طاری تھی ۔۔۔۔میں نے اسے اٹھا یا ۔۔۔اور چہرے پر بوسے ثبت کرنے لگا۔۔۔۔۔بہنے والے آنسوؤں کو چومنے لگا۔۔۔۔۔میرے بوسوں کو محسوس کر کے اس کے آنسو اور تیزی سے نکلے ۔۔۔
آخر مجھے بولنا پڑا ۔۔۔"بے وقوف لڑکی ۔۔چپ ہو جاؤ ورنہ میں واپس چلا جاؤں گا"۔۔۔اس نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائی اور شکوہ بھری نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔
شکر تھا کہ اس کے آنسو رک گئے تھے ۔۔۔۔میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔۔کچھ بڑا کمرہ تھا ۔۔جس میں ایک طرف الماری ۔۔۔اوربیڈ ۔۔۔دوسری طرف اسٹڈی ٹیبل اور کتابوں کی شیلف رکھی ہوئی تھی ۔۔۔میں اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اس کے برابر میں آ گیا۔۔۔۔ اس کے بعد اس کا سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو ا۔۔۔۔۔ہمیں الگ ہوئے چار سے پانچ دن ہی ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اس لئے جلدہی میں نے مختصر اپنی کہانی سنا دی تھی ۔۔۔۔اور پھرمیں اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ہم برابر میں ایک دوسرے کی طرف منہ کئے ہوئے لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں اب تک نمی تھی۔۔۔۔اس نے موضوع بدل دیا ۔۔۔۔اور کہنے لگی کہ کل بتاتی ہوں ۔۔۔ابھی کچھ اور ضرور ی کام ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا کہ اور کیا ضرور ی کام ۔۔۔۔۔اس کی نگاہیں اٹھیں تھی ۔۔۔۔۔جن میں شوخی بھی تھی ۔۔۔محبت بھی تھی ۔۔۔۔۔انداز بھی تھا ۔۔۔طلب بھی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے بھی دیر نہ کی اور اسے اپنے بانہوں میں بھر لیا۔۔۔۔۔۔وہ ہلکے پھلے وجود کی طرح میرے سینے سے آن لگی تھی۔۔دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔۔۔۔۔اور ہونٹوں نے ایک دوسرے کو تھام لیا۔۔۔جسم آپس میں چپکے گئے تھے۔۔۔جوانی اپنی تڑپ دکھا رہی تھی۔۔۔میں نے کلدیپ کور کوچومتے ہوئے اپنے اوپر کھینچا تھا۔۔۔میرے اوپر لیٹی ہوئی وہ میرے آئی او ر ہونٹ سے ہونٹ ٹکرانے لگی ۔۔۔۔اور میں ہاتھوں کو کمر پر پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا۔۔۔نرم نرم چوتڑ میرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے میں سر اٹھا کر کلدیپ کا ساتھ دینے لگا۔۔۔۔۔جو ہونٹوں کو چومنے میں مگن تھی۔۔۔سینے کی نرم اور گول گولائیا ں میرے سینے میں دبی ہوئی تھی۔۔۔۔کلدیپ کے بال کھل چکے تھے ۔۔۔اور اب مجھے پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔جن کےدرمیان چمکتا ہوا چہرہ میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔میرے جسم میں لذت دوڑنے لگی تھی۔۔۔اور نیچے سست پڑا ہوا ہتھیار جان پکڑنے لگا۔۔۔میں اپنے ہاتھ کلدیپ کے چوتڑ سے نیچے ران کی طر ف لے گیا۔۔اور اسے بھی اپنے ہاتھوں کی سختی سے روشناس کروانےلگا۔۔۔کلدیپ کے ہونٹوں سے گرم گرم آہیں میرے چہرے پر بکھر رہی تھی۔۔۔۔۔
ہماری پہلی ملاقات اچانک سے ہوئی ۔۔اور وہ رات بھی ایسے ہی گذری ۔۔۔۔کلدیپ پہلی رات کی بیوی کی طرح خود کو میرے سپرد کر رکھا تھا۔۔۔۔۔ہر چیز کی میں ہی پہل کر رہا تھا۔۔مگر اب وہ خود پہل کرتی ہوئی اپنی محبت دکھا رہی تھی ۔۔۔۔بڑی گرم جوشی اور شدت سے ہونٹوں کو چومتی ہوئی میرے اوپر لیٹی ہوئ تھی۔۔۔اور میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتا۔۔۔چوتڑ کو دباتا ۔۔اور پھر رانوں سے ہاتھ گھماتے ہوئے واپس چوتڑ اور کمر پر آتا ۔۔۔۔کلدیپ کے ہونٹ چومنے کا انداز اناڑیوں جیسے تھا۔۔۔اس کے لرزتے ہوئے ہونٹ میرے ہونٹوں کو پکڑ نے کی کوشش کرتے اور پھرہونٹوں میں بھر کر چوسے جاتے۔۔۔میں اس کے چوتڑوں کو دباتا ہوا ہاتھ ان کے درمیان لے جا کر نچلی طرف مساج شروع کیا ۔۔۔دونوں چوتڑ کو دباتے ہوئے درمیانی انگلی نیچے لے جا کر مسلنا شروع کیا۔۔۔۔۔کلدیپ کچھ ہلی اور اچھلی ۔۔۔۔اور پھر ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا دیں۔۔۔اور پھر مزید ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا۔۔۔ساتھ ساتھ چوتڑوں کو مستقل اپنے پکڑ میں ہی رکھا تھا۔۔۔۔اوپر کی طرف کلدیپ کے ہونٹ مجھے پر آنےلگے تو اپنی زبان نکال کراس کے منہ میں ڈال دی ۔۔۔کلدیپ نے اس تبدیلی کو دیکھا اور پھر جی جان سے زبان چوسنے میں لگ گئی۔۔۔۔اور کچھ دیر بعد اپنی زبان نکال کر میرے منہ میں ڈال دی ۔۔۔۔میں بھی جوابی طرز پر چوسنے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ کی آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی تھیں۔۔۔اور میرا ہتھیار اب سختی پکڑ کر تنگ کر رہا تھا۔۔میں نے کلدیپ کو کچھ اور من مانی کرنے دی ۔۔۔اور پھر اترنے کا کہا ۔۔۔۔مگر وہ اترنے پر راضی نہ ہوئی ۔۔۔اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔شرارتی نظروں سے دیکھتی ہوئی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔۔۔۔آنکھیں جتنی شرارتی تھیں ۔اور فدا ہونے والا انداز تھا۔اتنی ہی میرے لئے تسکین کا باعث تھی۔۔
میرا بھی دل چاہا کہ یہ خوبصورت چہرہ ایسا ہی کھلا کھلا رہے ۔۔۔یہ ہونٹ ہمیشہ ایسے ہی مسکراتے ہی رہیں ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی میری نگاہوں کی تپش کو محسوس کر لیاتھا
۔شرٹ کے بٹن کھول کر اب وہ کچھ نیچے کو کھسکی اور میرے سینے پر جھک گئی ۔۔۔۔۔اس کے نرم ریشمی بال بھی ساتھ ہی آئے تھے ۔۔۔ٹھوڑی کو چومتی ہوئی وہ سینے پر آئی ۔۔۔اورمیرے کندھے پر ہاتھ رکھے سینے پر لب رکھ دئے ۔۔۔۔گرم گرم ہونٹ ۔۔۔ساتھ ہی قدرے گیلا پن بھی ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے بالوں کو سمیٹا اور پیچھے کی طرف کر کے اکھٹا کرنے لگا۔۔۔وہ ایسے ہی سینے کو چومتے ہوئے نپل پرزبان پھیرنے لگی ۔۔۔۔ساتھ ساتھ اوپر دیکھتی ہوئی میرےچہرے کوبھی دیکھتی ۔۔جس پرلذت اور خوشی کے آثار اسے مزید شدت پر ابھارتے ۔۔۔۔میں بھی اپنے سینے پرگیلا پن محسوس کر نے لگا۔۔۔میرے جذبات مشتعل ہونے لگے ۔۔۔میں نے اسے خود پر بٹھایا ۔۔اور اس کی قمیض کے کنارے پکڑ لئے ۔۔ہلکے گرین کلر کی قمیض اتاری ۔۔۔کلدیپ شرماتے ہوئے میرے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔۔۔اس کا گرم جسم مجھ سے لگا تو جہاں بے پناہ نرمی کا احساس ہوا وہیں پر میری برداشت بھی جواب دینے لگی۔۔۔میں نے ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھا اور اٹھتے ہوئے کروٹ لے گیا۔۔۔۔کلدیپ نیچے آ گئی ۔۔۔۔میری شرٹ کے بٹن تو کھلے ہی تھے ۔۔۔ایک سیکنڈ میں ہی میرا اوپر بدن ننگا تھا۔۔۔میں بھی کلدیپ پر جھک گیا۔۔۔۔۔جہاں اوپر سرخ پنکھڑی جیسے ہونٹ اور نیچے گلابی نپلز شرارت بھرے انداز سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔میں نے اس کے چہرے پر آئے ہوئے بالوں کو کانوں کے پیچھے پھنسایا ۔۔اور کان کی لو کو چومتا ہوا ٹھوڑی تک آیا۔۔۔اور پھر گردن پر ہونٹ پھیرتا ہوا نیچے آیا۔۔جہاں برا میں پھنسے دو سرخ سیب میرے منتظر تھے ۔۔۔۔کچھ دیربنتی ہوئی کلیویج کو دیکھا ۔۔۔نہ زیادہ گہری اور نہ ہی زیادہ کم ۔۔۔اور پھر برا کے اوپر سے سیبوں کو دباتا ہوا سائیڈ پر چلا گیا۔۔۔کلدیپ بھی بھانپ چکی تھی ۔۔ہلکی سی اٹھی ۔۔اور میں نے ہاتھ پیچھے لے کر ہک کھول دی۔۔۔اور برا سائیڈ پر رکھ دی۔۔۔چھوٹے درمیانی سائز کے گول مٹول سیب میرے سامنے تھی ۔۔۔۔میں نے ایک نظر کلدیپ کو دیکھا اور پھر جھک گیا۔۔۔ایک سیب میرے ہاتھ کے نیچے مچلنے لگا۔۔۔اور دوسرے پر ہونٹ دبا کر چوسنے لگا۔۔۔چھوٹے سے گلابی نپلز اس وقت میرے ہونٹوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔اور میں ہونٹوں کو آپس میں رگڑے جا رہا تھا۔۔۔میرے ہاتھ نے مموں کو بالکل پیچھےسے دبائے رکھا تھا۔۔جس سے نپل اور آگے کی طرف نکل آیا تھا۔۔۔ساتھ ہی میں نے نپل کے گرد بننے والے گلابی دائرے کو بھی ہونٹوں کی رگڑ میں شامل کر لیا۔۔۔جس سے نپل ہونٹوں کی حد سے نکل کر اندر گئے ۔۔جہاں زبان کی نوک ان کا اچھے سے مساج کرنے لگی۔۔۔۔۔کلدیپ مجھے دیکھ رہی تھی۔۔اس کے منہ سے نکلنے والی گرم گرم سانسیں جاری تھیں۔۔۔۔میرے دوسرے ہاتھ دوسرے ممے پر تھا۔۔۔جو اس وقت دباتے ہوئے اس کا رس نکالنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
کلدیپ کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔میں نے اس کے سیدھے والے ممے کو منہ میں بھرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔بے اختیار اس کا ہاتھ میرے بالوں پر گیا۔۔۔میں اپنی کوشش میں مصروف ہی رہا ۔۔۔اور دوبارہ سے ممے کو پیچھے سے دبا کر منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔اس کوشش میں میرے دانت بھی اس کے ممے بھی لگتے اور ہلکا سا درد دیتے ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تک میں اس کا رس پیتا رہا ۔۔اور پھردوسرے ممے کی طرف مڑ گیا۔۔۔۔اسے میرے ہاتھوں نے دبا دبا کر تیار کر رکھا تھا۔۔۔میں نے جلدی سے منہ میں بھرا اور بے صبری سے چوسنے لگا۔۔۔۔چس چس کی مخصوص آواز کچھ دیر بھی میرے منہ سے نکل جاتی ۔۔۔۔میں ان سب سے بےخبر چوسنے میں مشغول تھا۔۔۔۔پچھلا والا مما بھی ایک دم سرخ سا ہو گیا۔۔۔میرا تھوک اس پر لگ کر اسے چمکا رہا تھا۔۔۔جب دانت کچھ زور سے لگتے تو کلدیپ کی سسکی سی نکلتی ۔۔جو اسی کی طرح نازک اور سریلی تھی۔۔۔ساتھ ہی میرے بال بھی کھینچ دیتی۔
ایک تیز ابال میرے نچلے حصے کی طرف آمادہ سفر تھا۔۔۔۔اور جسم کے ہر حصے سے انرجی کی لہریں میرے ہتھیار تک پہنچ کر اسے جگا رہی تھی۔۔۔اور شاید یہی حال کلدیپ کا بھی تھا۔۔۔تبھی اس کی ٹانگیں بھی بے چینی دکھانے لگی۔۔۔۔۔میں چوستے ہوئے نیچے کو کھسکا اور گورے خوبصورت پیٹ کو چومتا ہوا نیچے کو آیا۔۔۔ساتھ ہی میرے ہاتھ اس کی شلوار پر رکے ۔۔اور اسے بھی لئے میں تھوڑا اور نیچے کو کھسکا ۔۔
اس کی خوبصورت رانوں نے جھلک دکھائی تھی۔۔۔۔جس پر ایک بھی بال نہیں تھا۔۔۔میں نے رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شلوار نیچے کھینچ دی۔۔۔سلک جیسا احساس میرے ہاتھوں کو محسوس ہوا ۔صحت مند رانیں میرے سامنے تھیں۔۔۔سرخ پینٹی گیلی ہو چکی تھی۔۔۔اگلا نمبر اسی کا تھا۔۔اسے بھی اتار کے شلوار کے ساتھ بیڈکے کنارے رکھ دیا۔۔۔اوپر دیکھا تو کلدیپ نے آنکھیں بند کر دی تھی۔۔۔۔۔۔میں نے جلدی سےاپنی پینٹ بھی نیچے اتار دی ۔۔۔اور انڈروئیر بھی ساتھ۔۔۔۔۔ہتھیار پینٹ سے رگڑ کھا کر سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔اور شاید ناراض بھی ۔۔۔
میں اوپر کلدیپ کے اوپر جھک گیا۔۔۔۔۔میرے گرم گرم ہونٹ اس کے بند پلکوں پر جارکے ۔۔۔اور پھر چومتے ہوئے میں نیچے آیا ۔۔گال شدت جذبات سے سرخ تھے ۔۔۔انہیں بھی چومتے ہوئے گلابی پنکھڑیوں پر آیا۔۔۔۔اور ہونٹوں میں تھام کر چومنے لگا۔۔۔میرے ہاتھ اس کے پیٹ پر گردش کر رہے تھے ۔۔۔اور وہاں سےنیچے اترتے ہوئے رانوں پر آئے ۔۔دونوں ہاتھ دونوں سائیڈز پر تھے ۔۔اور رانوں کے ساتھ ساتھ آدھے چوتڑ بھی دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔انگلیاں چوتڑ کی طرف اور انگوٹھے چوت کے طرف ۔۔دونوں انگوٹھوں کے درمیان ہی پتلے سے سرخ دو باریک لب تھے ۔۔۔۔میں ہلکے سے انگوٹھوں کو ان کے آس پاس حرکت دیتا رہا۔۔۔۔اوپر اسی تیزی سے گلابی پنکھڑیوں پر حملے جاری تھی۔۔۔۔۔کلدیپ کی آنکھیں کھل گئی تھی ۔۔۔۔ٹانگیں کچھ ہلنے اور مچلنے لگیں تھیں ۔۔۔۔
میں ہونٹوں کو چومتے ہوئے واپس مموں پر آیا۔۔۔ساتھ ہی میرے ایک ہاتھ نے چوتڑ پر دباؤ ختم کر دیا۔۔۔اور چوت کے لبوں پر آگیا۔۔جس کے کناروں پر پانی کی چمک دکھ رہی تھی۔۔۔میں نے انگوٹھے کو اوپر ی حصے پر مسلتے ہوئے درمیانی انگلی کو لب پر رکھے رگڑنے لگا۔۔۔کلدیپ کچھ مچلی ۔۔کچھ سسکی ۔۔۔میں نے ایک ممے سے ہونٹ ہٹا کر دوسرے پر رکھ دئیے ۔۔۔اور ساتھ ہی چوت پر رگڑتی ہوئی انگلی اندر داخل ہوئی ۔۔۔جہاں گیلے پن کے ساتھ گرمی پھوٹ رہی تھی۔۔۔۔کلدیپ کی باآواز سسکی نکلی ۔۔۔۔اس کی ٹانگیں ہلکی سی اٹھ کر دوبارہ لیٹ گئیں ۔۔۔میں ہلکے ہلکے اندا ز میں انگلی کو ہلانے لگا۔۔۔ساتھ انگوٹھے سے اوپر ی حصے کر مسلتا رہا۔۔۔۔کلدیپ کی بے چینی اور بڑھ گئی ۔۔۔میں نے اس کی آنکھوں کو دیکھا ۔۔۔جہاں پرعجیب سے نشہ تیر رہا تھا۔۔۔میں اوپر کو اٹھا۔۔اور اس کے چہرے پر ٹوٹ پڑا ۔۔۔۔میرے بوسوں کی ایک برسات تھی۔۔۔۔بوچھاڑ تھی ۔۔۔جو اس کے پورے چہرے کو لپیٹ میں لینے لگی۔۔۔۔وہ دفاع میں اپنے چہرے کو سامنے لا کر سامنے کرنے لگی۔۔۔میں نے اس کا موقع نہیں دیا۔۔۔۔۔اورناک سے اس کے چہرے کو سائیڈ پر دباتا ہوا اسی طرح چومتا رہا ۔۔۔ان بھیگے ہوئے بوسوں نے ایک مرتبہ پھر اس کا چہرہ گیلا کر دیا ۔۔۔نیچے بھی حال کچھ یہی تھا۔۔۔میرے ہاتھ کی حرکت ساتھ ساتھ تیز ہوئی ۔۔اور اب دوسری انگلی بھی ساتھ شامل ہو کر چوت میں پہنچ گئی۔۔۔۔۔کلدیپ کے منہ سے سسکیاں نکلے جا رہی تھی۔۔۔ساتھ ہی کمر بھی ہلکے ہلکے جھٹکے کھاتی۔۔۔۔اس کا ایک ہاتھ میرے نیچے والے ہاتھ پر تھا۔۔۔جس کا دباؤ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔۔
اگلے ایک سے دو منٹ میں کلدیپ کچھ اور تڑپی اور پھر میری انگلیوں کو گیلا کرنا شروع کر دیا۔۔۔چوت سمٹی اور پھر پانی بہانے لگی۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسےہی انگلی ہلاتا رہا۔۔۔کلدیپ بھی گہرے گہر ے سانس لینے لگی۔۔۔میں کروٹ لئے ساتھ میں لیٹ گیا۔۔۔کلدیپ مجھے دیکھتے ہوئے مسکرائی اور لپٹنےلگی۔۔۔مگر اب کی بار ہمارے درمیان میرا ہتھیار ظالم سماج بن کر آیا۔۔۔۔اور کلدیپ کو دور ہی روک دیا۔۔۔کلدیپ نے نیچے نظر ڈالی ۔۔۔اور پھر ہاتھ لے جا کر پکڑنے لگی۔۔۔۔اس کی نگاہوں میں عجیب سی چمک اور حیرانگی تھی۔۔۔۔اس نے پہلی مرتبہ یہ نہیں دیکھا ۔۔۔۔صرف محسوس کیا تھا۔۔۔اور اب دیکھ کر حیران تھی ۔۔جیسے پوچھ رہی ہو یہ کیسے اندر گیا تھا۔۔۔۔اس نے ٹوپے کو ہتھیلی پر رکھا اور بند کرنے کی کوشش کی ۔۔۔آدھی ہتھیلی بھی بمشکل بند ہوتی تھی۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ دباتی رہی ۔۔اور میں اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرنے لگا۔۔نرم و نازک ہاتھ تھے ۔۔۔اور ان کے درمیان سخت اور توانا ہتھیار ۔۔۔
کلدیپ ابھی تک حیرانگی میں ہی تھی۔۔۔اور پورے ہتھیار کو دباتے ہوئے چیک کرنے لگی ۔۔۔۔مجھے گد گد ی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔۔ٹوپے سے نیچے اور زیادہ پھولے ہوئے اور چوڑے حصے کو اس نے غور سے دیکھا۔۔۔۔اور نیچے جڑ تک پہنچی ۔۔۔۔۔اس نے دوسرے ہاتھ کو لا کر اسے قابو کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ایک ہاتھ جڑ سے رکھا اور دوسرا اس کے بعد ۔۔۔۔۔ابھی بھی آدھے سے زیادہ ہتھیار باہر ہی تھا ۔۔۔وہ جڑ والے ہاتھ کو اٹھا کر پھر اوپر والے ہاتھ پر لائی ۔۔۔۔ابھی بھی ٹوپے کے دو تین انچ باہر تھا ۔۔۔کلدیپ کی حیرت دیکھنے لائق تھی۔۔اور ہتھیار کا ٹوپا یہ دیکھ کر اور خوشی سے مچلنے لگا۔۔۔
وہ نیچے جھک کر اسے چومنے لگی۔۔۔اس کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ٹوپے پر آئے اور پھر سائیڈ سے چومتی ہوئی نیچے جانے لگی۔۔۔ہتھیار مزید خوشی سے پھولنے لگا۔۔۔۔میں نے خود پر گرے ہوئے اس کے بالوں کو سمیٹا اور پیچھے گر ا دیا ۔۔کلدیپ کے بال بھی اسی کی طرح ریشمی تھی۔۔۔سیاہ بال جیسے مجھے پسند تھے ۔۔کلدیپ اب زبان نکالے ٹوپے کو گیلے کرنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔عقلمند تھی اس لئے یہ تو پتا تھا کہ یہ اس کے منہ میں نہیں جانے والا۔۔۔۔۔۔اور پھر زبان نکال کر چاروں طرف سے چاٹنے لگی۔۔۔۔۔میں اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔اور وہ بھی ہر تھوڑی دیر بعد اوپر نظر ڈال لیتی۔۔۔۔جیسے پوچھ رہی ہو کہ میں مطمئن تو ہوں۔۔۔۔۔
کلدیپ میرے سائیڈ پر تھی ۔۔۔اور مجھ پر جھکے ہونے کی وجہ سے اس کی بیک میرے سامنے تھی۔۔۔۔گوری رنگت میں پتلی کمر اور نیچے گول مٹول سے چوتڑ ۔۔۔جو پوری گولائی میں باہر کو گھومے ہوئے تھے۔۔۔میں کمر اور گردن پر انگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔
ادھر کلدیپ نے پورے ہتھیار کو چمکا دیا تھا۔۔۔۔وہ تھوک اکھٹا کرتی ہو ئی اوپر پھینکتی ۔۔۔اور پھر چومتے ہوئے پورے ہتھیار پر ملتی ۔۔۔۔اس کے نرم ہونٹ عجب ہی مزا دے رہے تھے ۔۔۔اور ٹوپا تو اور پھولے جا رہا تھا۔۔۔میں کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے گیا ۔۔اور چوتڑ پر بھی ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔گورے گورے یہ چوتڑ میرے ہاتھوں کی سختی سے سرخ ہونے لگے ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر دباتا رہا۔۔۔۔اور نیچے سے پھر چوت تک انگلیاں لے گیا۔۔۔
چوت ایک مرتبہ پھر پانی چھوڑنے لگی تھی ۔۔اور میری بھی بس ہو چکی تھی۔۔۔میں نے کلدیپ کو سیدھا کیا ۔۔۔اور لٹانے لگا۔۔۔شاید اس کا پہلے سواری کا ارادہ تھا۔۔۔مگر ہتھیار دیکھنے کے بعد اس کا ہمت کرنا مشکل تھا۔۔۔میں اس لٹاکر نیچے کھسک گیا۔۔اور ٹانگیں اٹھا کر اسکے سینے سے لگا دیں۔۔کلدیپ کے منہ سے نکلا تھا۔۔۔راجہ آرام سے ۔۔۔۔حالانکہ وہ پہلے یہ آدھا تک لے چکی تھی۔۔۔مگر اب وہ دیکھ بھی چکی تھی۔۔اس لئے نفسیاتی طور پر زیادہ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔
میں نے انگلی سے چوت کے لبوں کو دیکھا ۔۔جس نے گیلی ہونے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر پانی بہانا شروع کر دیا۔۔۔۔ٹانگیں سینے پر رکھے کلدیپ مجھے دیکھ رہی تھی۔۔میں نے ٹوپے کو دیکھا جو چمک رہا تھا۔۔اور پھرچوت کے لبوں پر رکھ دیا۔۔۔۔میں پاؤں کے بل پر بیٹھ گیا ۔قدرے آگے جھک گیا ۔۔اور ٹوپے پر دباؤ بڑھنے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ نے میرے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔۔میں نے ٹوپے کےپیچھے ہاتھ رکھے اسے دبانے لگا۔۔۔۔چوت کے لب کچھ کھلے ۔۔۔۔کچھ پھیلے ۔۔۔۔کچھ چِرے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جا پھنسا ۔۔۔کلدیپ سانس روکے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔منہ کھل بند ہو رہا تھا۔۔۔۔اور آنکھیں بتا رہی تھی کہ اسے درد کی لہریں پہنچ چکی ہیں۔۔۔میں دوسرے ہاتھ سے چوت کے اوپری حصے پر انگوٹھا گھمانے لگا۔۔۔اور آہستگی سے دباؤ بڑھانے لگا۔۔۔چوت کے لب کچھ اور کھلے تھے ۔۔۔دباؤ اور بڑھا ۔۔۔۔اور ۔۔۔ٹوپا اندر راستہ بناتا ہوا جانے لگا۔۔۔۔۔قریب دو انچ کے جاتے ہی کلدیپ نے میرے بازو پر زور بڑھا دیا۔۔۔۔میں کچھ رکا۔۔۔اور ویسے ہی مساج کرتا رہا۔۔۔۔۔اور پھر سے سفر شروع کر دیا ۔۔
ٹوپا اسی طرح پھنستا پھنساتا جا رہا تھا۔۔۔اور آدھے کے قریب جا چکا تھا۔۔۔۔کلدیپ کی گرم گرم سسکیاں نکلے جا رہی تھی ۔۔۔جن کے درمیان اوہ ہ۔۔۔آہ۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔بھی شامل تھی۔۔میں آدھے تک پہنچا کر کچھ دیر رکا۔۔۔اور پھر ہلکے ہلانے لگا۔۔۔کلدیپ کا جسم بھی ساتھ ہی حرکت میں آیا ۔۔۔۔۔گہرے گہرے سانس کے سانس پیٹ بھی حرکت کر رہا تھا۔۔۔اور اس کی انگلیاں میں دبی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ہلانے کے بعد میں نے ٹوپے کو آہستہ سے باہر نکالنا شروع کیا ۔۔۔ٹوپے تک لا کر روک دیا۔۔۔۔جہاں تک ہتھیار اندر گیا تھا ۔۔وہاں تک چوت کے پانی سے گیلا دائرہ بنا ہوا تھا۔۔۔باہر نکال کر کلدیپ کو دیکھا ۔۔۔کچھ مطمئن تھی۔۔۔۔مگر آنکھیں بتا رہی تھی کہ پیاس پہلے سے بڑھ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ٹوپے کو آگے کی طرف بڑھانا شرو ع کر دیا۔۔۔۔۔کلدیپ پھر سے کچھ ہلی ۔۔۔۔ٹوپا اسی طرح آگے بڑھتا گیا۔۔سسکیاں پھر سے اونچی ہوئی تھیں۔۔۔او ہ ہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔میں تھوڑا پیچھے کو ہٹ کر گھٹنے کے بل آ گیا۔۔۔ کلدیپ کے ہاتھ جو میرے بازو پر تھے ۔۔وہ ملا کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے ۔۔۔اور کمر کو ہلکے ہلانا شروع کردیا ۔۔۔۔کلدیپ کے بازوؤں نے دونوں مموں کو آپس میں جوڑ کردرمیان میں گہری کلیویج سی نکال دی تھی ۔۔۔کمر کے ساتھ اس کا جسم ہلتا ۔۔۔اور جسم کے ساتھ ا س کے ممے بھی باؤنس ہوتے ۔۔۔۔اس نے سسکتے ہوئے ہوئے اپنے مموں کو دیکھا ۔۔۔اورپھر ہونٹوں کو بھینچنے لگی۔۔۔۔۔۔ہلکی ہلکی گرم سریلی آہیں مجھے بھی گرما رہی تھیں ۔۔۔میں اسی طرح مستقل ایک ہی اسپیڈ سے کمر کو ہلاتا رہا۔۔۔کلدیپ کے سسکاریوں میں شہوت سی پکار رہی تھی۔۔۔۔جو شاید مجھے بلا بھی رہی تھی۔۔۔میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔اس کی ٹانگیں جو میرے سینے سے لگی ہوئی تھی۔۔۔اسے واپس کلدیپ کے سینے سے لگا دیا۔۔اور پاؤں کے بل پر آ کر کچھ اٹھ گیا۔۔۔۔اور ٹانگو ں کو کھینچتا ہوا مزید اسے اٹھا کر موڑ دیا۔۔۔۔کلدیپ نے حیرانگی سے یہ منظر دیکھا۔۔۔۔اور ساتھ ہی ایک منہ کھولتی ہوئی ایک ہلکی چیخ ماری۔۔۔۔میں نے کچھ تیز اسپیڈ میں دھکا دے دیا ۔کلدیپ ایک دم سے ہلی تھی۔۔۔ساتھ ہی آہ ہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔سس ۔۔کی آواز سے کمرہ گونج اٹھا۔۔میں نے ٹوپے کو باہر نکالا۔۔اور اس کے بعد درمیانی اسپیڈ سے دھکے مارنے لگا۔۔۔۔۔جو کہ اوپر سے نیچے کی طرف لپکتے ۔۔۔ابھی تک آدھا ہی ہتھیار اندر تھا ۔۔مگر ان جھٹکوں نے لمبائی کا فرق بھلا دیا۔۔۔اور کلدیپ کی تیز تیزآہوں اور ہلکی چیخوں کو جگا دیا تھا۔۔۔میں ہتھیار کو ٹوپے تک باہر نکالتا ۔۔اور پھر ایک پریشر سے واپس دے مارتا ۔۔۔۔۔کلدیپ بری طرح ہلتی اورچلاتی ۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔
یہ ہاسٹل کا روم تھا۔۔۔۔مگر یہ آوازیں کلدیپ کے کنٹرول میں نہیں تھیں۔۔۔۔۔میرے جھٹکے اسی طرح درمیانی اسپیڈ پر ۔۔اور گہرائی میں لگتے ۔۔۔۔کلدیپ درد کے ساتھ ساتھ مزے میں بھی تھی۔۔۔۔اس نے اپنی ٹانگوں کے درمیان سے ہاتھ نکال کر میر ی گردن کے گرد گھما دئے ۔۔۔۔اور میں قدرے اور آگے جھک گیا۔۔۔۔اب کے مار اور زیادہ زور کی تھی۔۔۔ہتھیار اپنی پوری لمبائی کے ساتھ گھستا ۔۔۔۔۔اور کلدیپ کو تڑپا دیتا ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔اوہ۔۔۔۔سس۔۔۔۔کلدیپ نے زیادہ دیر نہیں لگائی ۔۔۔اور اگلے کچھ جھٹکوں میں ہی پانی چھوڑ کر نڈھا ل ہو گئی۔۔۔۔میں ہتھیار کو اندر ہی رکھے اس کے چہرے پر جھک گیا۔۔اور چومنے لگا۔۔۔جہاں پر ہلکے پسینے کاآثار تھے ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ہونٹ چومنے کے ساتھ ساتھ مموں کے ساتھ چھیڑ خانی جاری تھی ۔۔۔انداز بدل گیا تھا ۔۔پکڑ سخت تھی۔۔۔۔میں دونوں ہاتھوں سے نپلز کو ہلکے ہلکے کھینچا جا رہا تھا۔۔۔۔۔کھڑے کھڑے سے نپلز مزید سرخ ہوئے جا رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ہتھیار باہر نکالا اور کلدیپ کے برابر میں آ گیا۔۔۔وہ مجھ سے لپٹی ہوئی چومنے لگی۔۔۔اور میں بھرپور جواب دینے لگا۔۔۔۔۔دس سے پندر ہ منٹ بعد مجھے لگا کہ کلدیپ پھر سے گرم ہور ہی ہے ۔۔۔۔اس کے بوسوں میں شدت آنے لگی۔۔۔اپنی ٹانگیں وہ میرے گرد لپیٹنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ساتھ ہی اس کا ایک ہاتھ نیچے ٹٹولتا ہوا ہتھیار تک پہنچا ۔۔جو پھر سے سختی پکڑ چکا تھا۔۔۔کلدیپ کے ہاتھوں کا لمس پا کر اور تننے لگا۔۔۔۔کلدیپ بھی اسے پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔جیسے بدلا لے رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔
اب کی بار میں نے کلدیپ کو گھوڑی بنایا اور پیچھے پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔۔کلدیپ کے گول گورے چوتڑ کے درمیانی میرا سرخ ہتھیار شان سے جگہ بناتا ہوا اندر گھسنے لگا۔۔۔میں نے کمر تھام لی ۔۔اور دباؤ بڑھانے لگا۔۔۔۔ٹوپے ویسے ہی پھنستا ہوا گھسا۔۔۔۔کلدیپ کچھ آگے کو جھکی ۔۔۔میں نے کمر کو کھینچتے ہوئےہلکے سا جھٹکا دیا۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔کی سریلی آواز آئی۔۔
کلدیپ کا بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔اور پتلی کمر میرے ہاتھوں میں تھی۔۔۔۔میرے ہلکے ہلکے سے جھٹکے جاری تھی۔۔۔۔کلدیپ بھی ہلکے سے کراہتی ۔۔۔سسکتی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔
جھکتے ہوئے میں نے اس کے بالوں کو اکھٹا کیا ۔۔اور پیچھے کی طرف ہلکے سے کھینچ کر کمر پر اپنے ہاتھوں کے نیچے دبا دئے ۔۔۔اب زیادہ کھینچنے کا امکان نہیں تھا۔۔۔مگربال اب اس کے چہرے کو بالکل بھی نیچے نہیں جانے دے دے رہے تھے ۔۔۔میرے جھٹکے کچھ درمیانی ہوئے ۔۔۔کلدیپ پکڑے جانے کے باجود با ر بار آگے کو ہلتی ۔۔میر ا مزہ خراب ہونے لگا تومیں گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔اور کلدیپ کو بھی اسی طرح اٹھا کر اپنےسینے سے ٹیک لگوا دی۔۔۔۔اب دوبارہ سے جھٹکے دینےلگا۔۔۔اپنے ہاتھ میں نے اس کے سینے کے گرد گھمائے ۔۔۔بال ویسے ہی پیچھے کو لٹکے ہوئے ۔۔۔۔اور میرے دھکے جاری ۔۔۔۔
کلدیپ کی بیک مجھ سے لگی ہوئی تھی۔۔۔۔چہرے مجھ سے کچھ آگے ہی تھا۔۔۔میں اس کی گردن کو چومتے ہوئے دھکے ماری جارہا تھا۔۔۔اس نے سسکتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔اور چہرہ ملانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ا س کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس پوزیشن میں درد زیادہ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔سسکاریاں بھی زیادہ درد بھری تھیں۔۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ میں میرا نچلا حصہ اس کے چوتڑسے ٹکراتا ۔۔۔جس کی آواز اور مزہ دونوں جدا تھے ۔۔۔میں نے کلدیپ کے سینے پر بندھے ہوئے ہاتھوں کو کھولا ۔۔۔اور اوپر ٹٹولتے ہوئے دونوں مموں کو تھام لیا۔۔۔۔جو اکیلے مچل مچل کر تھکنے لگے تھے ۔۔۔۔میرے ہاتھوں کی گرمی سے دوبارہ مسکرانے لگے ۔۔۔میں نے اسپیڈ کچھ اور بڑھا دی ۔۔۔۔دھکے تیز ہوئے ۔۔۔تو سسکاریاں کیوں نہ تیز ہوتیں ۔۔۔۔۔مجھے لگا جیسے میں فارغ ہونے لگاہوں۔۔۔اور شاید کلدیپ بھی ۔۔۔
میں نے اسے آگے جھکاتے ہوئے لیٹنے کا کہا۔۔۔۔کلدیپ ہاتھ بیڈ پر رکھے الٹی لیٹ گئی ۔۔۔۔میں بھی ساتھ ہی آگے آیا ۔میرا سینہ اس کی بیک سے چپکا ہوا تھا۔۔۔۔۔ہتھیار ویسے ہی اند ر رہا۔۔۔
دونوں گھٹنے میں نے کلدیپ کی ٹانگوں کے گرد رکھ کر انہیں آپس میں ملا دیا۔۔۔۔اوپر سے اس کے بال سائیڈ پر کرتے ہوئے گردن چومنے لگا۔۔۔۔۔
ساتھ ہی تھوڑا سا کھسک کر گھٹنے آگے کھینچ لایا ۔۔۔۔اور کمر اٹھا دی ۔۔۔اس کے بعد پھر سے دھکے جاری ۔۔۔۔۔جو آہستہ آہستہ تیزی پکڑتے جار ہے تھے ۔۔۔۔کلدیپ پھر سے چلانے لگی ۔۔۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ اوئی ۔۔۔۔۔میں اسی تیزی سے لیٹے لیٹے جھٹکے بڑھانے لگا۔۔۔۔۔اسپیڈ تیز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔نیچے سے کلدیپ بھی ہل جل مچا رہی تھی ۔۔۔۔میں مستقل اس کے گردن اور سائیڈ پر ہوئے چہرے کر چوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔میری سانسیں بھی تیز ہونے لگیں تھی ۔۔۔۔۔جھٹکے اب طوفانی ہو چلے ۔۔۔۔جس نے کلدیپ کو اور تڑپا دیا۔۔۔۔وہ شاید اٹھنے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگریہ الٹا اس کے لئے نقصان کا باعث تھا۔۔میرے جھٹکے سے وہ دوبارہ بیڈ میں جا گھستی ۔۔۔۔۔جو مستقل چوں چوں کی آواز وں سے ساتھ والوں کو جگا رہا تھا۔۔۔۔
کلدیپ کی بس ہو گئی تھی ۔۔۔۔طوفانی جھٹکے ابھی شروع ہی تھے ۔۔۔۔مگر وہ ہمت ہار گئی ۔۔۔۔۔اور پانی چھوڑنے لگی۔۔۔۔میں اگلے دو منٹ ایسے ہی لگا رہا ۔۔۔کلدیپ چپ ہو کر تھم سی گئی ۔۔۔۔مگر بیڈ اسی طرح ہر جھٹکے کے ساتھ چوں چوں کرتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر میرا بھی فوارہ چھوٹا ۔۔۔۔تین چار جھٹکے مار کر میں کلدیپ پر ہی لیٹ گیا۔۔۔۔اور بھی سائڈ پر کروٹ لے لی۔۔۔۔
وہ کچھ چپ چپ تھی ۔۔۔۔مگر میں نے اسے بانہوں میں بھرا تو اسی محبت سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی ہم لیٹے رہے ۔۔۔۔۔اور پھر سوتے چلے گئے ۔۔۔۔


قسط نمبر 2 ٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح ہم جلدی اٹھے تھے ۔۔۔۔کلدیپ مجھ سے پہلے اٹھی تھی اور تیار ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا تو وہ تیار ہونے کا کہنے لگی ۔۔میں اٹھ کر بیٹھ گیااور اسے اپنے پاس بٹھایا ۔۔۔اور اس کی مصروفیات پوچھنے لگا۔۔اس نے مختصر مجھے کہانی سنادی جو کچھ یوں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے الگ ہونے کے بعد کلدیپ کالج واپس آئی ۔۔۔۔اس کے بھائی کی موت کے بعد وہ خود تو اپنی اسٹوڈنٹ یونین کی صدر بن گئی ۔۔۔۔مگر اس کا بھائی اس یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کمیٹی کا صدر بھی تھا ۔۔۔اور ان کے اصول کے مطابق دوبارہ سے الیکشن ہونے تھے ۔۔۔۔۔۔جس کی تیاری زور و شور سے جاری تھی ۔۔۔۔۔۔پچھلے کئ دنوں میں ان دونوں یونین کی آپس میں مڈ بھیڑ بھی ہوچکی تھی ۔۔۔۔اور اب آج ان کے الیکشن کا دن تھا۔۔دوسری یونین بی جے پی کا اسٹوڈنٹ ونگ تھا ۔۔۔جودنیا میں سب سے بڑی اسٹوڈنٹ فیڈیریشن کے دعوے دار بھی تھی۔۔۔مگر اس کا ماٹو غنڈہ گردی ، اور لالچ اور ہندو ازم کا فروغ ہی تھا۔۔۔بی جے پی کا نام آتے میں کچھ سیدھا ہو گیا۔۔۔اس کی نحوست اور سیاہ کارناموں سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔انڈیا کا موجودہ صدر بھی اسی پارٹی کاتھا ۔۔میں نے اس اسٹوڈنٹ ونگ کا نام پوچھا تو کلدیپ نے اے بی وی پی بتایا جو کہ اَکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشاد کا مخفف تھا ۔۔۔۔۔اب جو بھی یونین کالج کا الیکشن جیت جائے گی ۔۔۔وہ اسٹاف ممبرز کی کمیٹی میں بھی شامل ہوں گے ۔اور یونیورسٹی سے بھی بھرپور سپورٹ ملے گی ۔۔۔
پچھلی رات ہی اے بی وی پی کے لڑکوں نے کلدیپ کے لڑکوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی بھی کیا ۔۔۔۔اس کے بعد کلدیپ نے لڑکیوں سے مدد لی ۔۔۔اور انہیں پورے کالج میں کلدیپ کو ووٹ دینے کے لئے رضا مند کیا ۔۔۔۔آج دس بجے سے الیکشن شروع ہونے تھے ۔۔۔۔کالج کی بھی اسی لئے چھٹی تھی ۔۔۔۔۔مگر کلدیپ کو ڈر تھا کہ اے بی وی پی کی طرف سے پھر غنڈہ گردی ہو گی ۔۔اور وہ اسٹوڈنٹ کو فورس کر کے اپنے حق میں ووٹ ڈلوائیں گے ۔۔۔۔۔میں ساری صورتحال کو تیزی سے سمجھ رہا تھا ۔۔۔اگر کلدیپ یہ الیکشن جیت جاتی ہے تو ہمار ا کام کافی آسان اور تیزی سے ہو سکتا تھا ۔۔۔نوجوانوں کی یہ کھیپ خالصتان کے حق میں تیزی سے راہ ہموار کر سکتی تھی ۔۔
اچانک میرے زہن میں اس دولت کاخیال آیا جو جیوتی کے پاس رکھی تھی ۔۔۔۔۔میں نے کلدیپ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے اپنی چھوٹی بہن کو خود راج گڑھ بھیجا ہے ۔۔۔۔۔وہ بھی اسی کالج میں پڑھتی تھی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ان سب مومنٹ میں شامل ہے ۔۔۔سمرن کور کل شام گئی تھی ۔۔۔اور آج ہی اسے واپس لوٹنا تھا۔۔۔۔جیوتی سے فون پر بات ہو گئی تھی ۔۔۔۔
اتنا کہہ کر کلدیپ نے کہا کہ اب آپ تیار ہو جائیں ۔۔۔۔۔سمرن کور بھی پہنچنے والی ہو گئی ۔۔۔مجھے ایڈمن بلاک میں جا کر کام چیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔سمرن کو میں بتا دیتی ہوں وہ آپ کو ناشتہ کروا دے گی۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ کور اٹھ کر باہر چلی گئی تو میں دوبارہ بستر پر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔کہ پنجابیوں کی اکثریت والے اس علاقے میں ہندو شدت پسند تنظیم کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔یا تو بی جے پی کی بھرپور سپورٹ ہے ۔۔اور ساتھ حکومتی اداروں کی بھی ۔۔جو سکھ اسٹوڈنٹ کو زیادہ منظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں دوبارہ نیند میں گم ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
میری آنکھ چوڑی کی کھنکھناہٹ سے کھلی تھی ۔۔۔۔۔آنکھ کھولی تو چہرے کے اوپر ایک نازک کلائی چٹکی بجا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ہوش بحال ہوا تو ایک سریلی آواز بھی میرے کانوں میں آئی ۔۔۔۔
۔"اٹھ بھی جائیں ۔۔۔۔۔کیا رات سوئے نہیں تھے ۔۔۔۔باجی نے جلدی بلایا ہے ۔۔"۔۔۔۔۔۔۔
میں نے آنکھیں پوری کھولی اور اٹھ کر بیٹھا گیا ۔۔۔۔۔۔سامنے ہی ایک نازک حسینہ کھڑی مسکرا رہی تھی ۔۔۔چہرے پر بلا کی معصومیت اور ہونٹوں پر شوخی رقصاں تھی ۔۔۔۔۔۔یہ سِمرن کَور تھی ۔
جیجا جی ۔۔۔۔اب اٹھ بھی جائیں ۔۔۔۔۔باجی نے تو کہا تھا کہ آپ تیار بیٹھے ہیں ۔۔ ۔۔سمرن کور کی چہکار پھر گونجی تھی ۔
خیر تو ہے ۔۔۔میں تمہار ا جیجا کب سے بن گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔میں نے پاؤں بیڈ سے نیچے گھسیٹے اور اٹیچ باتھ میں گھس گیا۔۔۔دس منٹ میں نہا کر وہی کپڑے پہنے اور باہر آیا ۔۔
سمرن کور بیڈ پر بیٹھی میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ڈریسنگ ٹیبل کیطرف گیا اور بال بنانے لگا۔
سمرن کور میرے پیچھے ہی آئے تھی ۔۔۔۔۔بس بس ہمیں پتا ہے کہ آپ کتنے خوبصورت ہیں ۔۔۔۔باجی تو ہر وقت آپ کی باتیں کیا کرتیں ہیں ۔۔۔۔پتا نہیں کیا جادو کر دیا ہے ان پر ۔۔
میں نے حیرت سے شیشے میں اس بولتی چڑیا کو دیکھا۔۔۔جو مستقل بولے ہی جارہی تھی ۔۔۔پتا نہیں کلدیپ کور نے اسے جیوتی کے پاس کس طرح بھیج دیا تھا ۔۔۔یہ تو خود اعلان کرتی ہوئی آتی کہ مجھے لوٹ لو میرے پاس دولت ہے ۔۔۔
۔"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔"۔۔۔۔سمرن پھر بولی تھی ۔۔۔۔کچھ نہیں ۔۔چلو کہاں چلنا ہے ۔۔۔۔۔میں نے پوچھا۔
آپ ناشتہ یہاں کریں گے یا کینٹین میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ٹائم دیکھا۔ ساڑھے نو کا ٹائم تھا ۔۔
یہ تمہاری باجی کا الیکشن کب شروع ہے ۔۔۔؟ میں نے پوچھا۔
ویسے تو دس بجے شروع ہے ۔۔۔۔۔مگر کچھ دیر بھی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔سمرن بولی ۔
اچھا چلو پھر کینٹین چلتے ہیں ۔۔۔تم چلتے ہوئے مجھے کالج بھی دکھا دینا۔۔۔۔۔۔سمرن تو پہلے ہی تیار تھی کہ اسے بولنے کا موقع ملے۔۔
چلیں میرے ساتھ ۔۔۔۔اور تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔ کالج کی اسٹڈی بلڈنگ کے تین فلور تھے ۔۔۔اور یہ انگلش کے ایل کی طرف بلڈنگ تھی ۔۔۔۔جس کے ایک کونے پر ایڈمن آفس تھا ۔۔۔دوسرے کونے پر کینٹین تھی۔۔۔۔۔جبکہ سامنے وسیع لان نما باغ تھا۔۔۔۔۔۔باغ کے درمیان ہی ایک کچا روڈ تھا ۔۔جو کالج کے مین گیٹ تک جاتا تھا ۔۔۔۔سمرن مجھے ایڈمن بلاک کے سامنے سے گھماتی ہوئی کینٹین میں پہنچی ۔باہر کی طر ف ایک کاؤنٹر بنا ہوا تھا ۔۔جس پر ٹین کی چادر سے چھپرا کیا ہوا تھا۔۔۔جبکہ اندر بیٹھنے کا اچھا نظام تھا۔۔۔۔۔۔یہاں ممبر شپ سسٹم تھا ۔۔۔سمرن میرے لئے آرڈر دیتی گئی ۔۔ساتھ ساتھ میری طرف سوالیہ نظروں سے پوچھتی رہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں اشارے سے سر ہلاتا گیا۔
ہم ایک کونے کی ٹیبل پر جا بیٹھے۔۔۔کچھ ہی دیر میں ناشتہ سامنے تھا ۔۔۔۔میں ناشتے پر ٹوٹ پڑا ۔۔۔۔رات سے بھوکا تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ سے ملنے کے چکر میں بھول ہی گیا تھا۔۔۔
سمرن مجھے دیکھنے میں مصروف تھی ۔۔۔اور چپڑ چپڑ بولے جا رہی تھی ۔۔۔۔ایک ہاتھ میں پراندہ گھماتے ہوئے نہ جانے کیا کیا بولے جارہی تھی ۔۔۔۔۔باجی نے آپ کے بارے میں یہ کہا ۔۔۔۔وہ کہا ۔۔۔۔
اور آپ کہاں کے راجہ ہو۔۔۔کسی ریاست کے ہو ۔۔۔۔۔۔یا پھر کوئی نواب ہو گے ۔۔۔۔۔سمرن میری طرف جھکتے ہوئے سرگوشی میں بولی ۔
مجھے اس کی باتوں پر ہنسی ہی آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میرا نام راجہ ہے ۔۔اور میں کہیں کا راجہ نہیں ہوں ۔۔۔سمجھ گئیں۔۔۔
سمرن کی کھٹی میٹھی باتوں میں پتا ہی نہیں چلا کہ کب سارا ناشتہ ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔مجھے تو بس اس کی حیرت بھری آواز آئی ۔۔۔ہیں ں ۔۔۔سارا ختم کر دیا ۔۔۔میں نے مصنوعی غصے سے اس کو گھورا ۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ۔۔۔کونسا میں نے پیسے دینے ہیں ۔۔۔۔باجی کے اکاؤنٹ سے ناشتہ منگوایا تھا۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولی ۔
اور پھرہم اٹھ کر باہر آ گئے ۔۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا ۔۔الیکشن کی ٹائمنگ قریب تھی ۔۔۔اور اسٹوڈنٹ کا رش بھی بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔سمرن مجھے لئے ہوئے فرسٹ فلور پر لے آئی ۔۔۔ اب ہم کینٹین کے اوپر تھوڑا سا سائیڈ پر تھے ۔۔میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔موسم کچھ تبدیل ہوا تھا ۔۔۔ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی ۔۔۔۔۔سمرن کو دیکھا تو وہ خود سے بے پروا اسی طرح کچھ بتاتی جا رہی تھی ۔۔
کالج کے مین گیٹ کے سامنے ہجوم بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔اسٹوڈنٹ تیزی سے اندر اکھٹے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔کچھ کے ہاتھوں میں پلے کارڈ ۔۔۔۔اور بینرز پکڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔
وہ دیکھیں ۔۔۔۔باجی کا نام لکھا ہے ۔۔۔سمرن نے ایک طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔کالج کے مین گیٹ پر ایک بڑا سا بینر تھا ۔۔جس میں دونوں امیدواروں کی تصویریں لگی ہوئی تھی ۔۔۔
یہ ساتھ والا وشنو پربھاکر ہے ۔۔۔۔۔۔کل اس نے باجی سے بدتمیزی بھی کی ۔۔اور لڑکوں سے مار کٹائی بھی۔۔۔۔سمرن کی لائیو کمنٹری جاری تھی۔۔
میں نے وشنو کو بغور دیکھا ۔۔۔آنکھوں سے خباثت نمایا ں تھی۔۔۔اور کہیں سے بھی اسٹوڈنٹ تو لگتا نہیں تھا۔۔اتنے میں کالج کے باہر جیپ کے زور دار ہارن اور اسپیکر کی آواز آئی ۔۔۔۔۔فلک شگاف آواز میں بی جے پی کے گانے بج رہے تھے ۔۔۔۔ڈرائیونگ سیٹ پر میں نے وشنو کو دیکھا ۔۔۔۔سفید کپڑے پہنے ماتھے پر لالی لگائے۔۔۔منہ میں پان چبا رہا تھا۔۔پیچھے بیٹھے اس کے چمچے اس کے لئے نعرے لگا رہے تھے۔۔۔
اتنے میں ایڈمن بلاک کی طرف سے میگا فون پر کوئی اعلان ہوا ۔۔۔۔۔۔تمام اسٹوڈنٹ اس طرف چل پڑے۔۔۔۔ہم بھی اوپر ی منزل پر اس کے متوازی چلنے لگے ۔۔۔اور کچھ دیر میں ایڈمن بلاک کے اوپر تھے ۔۔۔
یہاں دو لائنیں بننا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔ہر امیدوار کی اپنی لائن تھی ۔۔۔اور اسے باری باری اپنی پرچی اندر ڈال کر آنا تھی ۔۔۔۔۔یہ کوئی شفاف طریقہ تو تھا نہیں ۔۔۔۔۔سب کو پتا ہی تھا کہ اس کے ووٹر کتنے ہیں ۔۔۔۔
اس لئے سب ظاہر ہی رکھا ہوا تھا۔۔۔۔کلدیپ کور مجھے اب تک نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔مگر میں نے اس کی ووٹنگ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نوٹ کر لیا ۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں ووٹنگ شروع ہو گئیں تھی۔۔۔۔وشنو کی لائن میں صرف گنتی کے ہی لوگ تھے ۔۔۔۔۔۔جن کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ مجبورا آئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔آدھے گھنٹے کے قریب ووٹنگ چلی ہو گی ۔۔۔۔۔۔کہ میں نے وشنو اور اس کے چمچوں کو ہاتھوں میں ڈنڈے لئے آتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔نیچے سکھ اسٹوڈنٹ میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔۔۔۔میں نے کالج انتظامیہ کو دیکھا ۔۔دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔۔۔سمرن نے بتا یا کہ وہ آج آئے ہی نہیں کہ جو بھی فیصلہ کر نا ہے آپس میں کر لو۔
وشنو ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے ہوئے لائن کے درمیان میں پہنچا۔۔۔۔۔اور ایک لڑکے کا گریبان پکڑتے ہوئے اس اپنی لائن کی طرف دھکیلا۔۔۔۔۔دوسرے لڑکے کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ۔۔۔ایک لڑکے نے کچھ چوں چراں کی ۔۔وشنو نے ڈنڈا گھما کر اس کے کمر پر رسید کیا ۔۔۔۔۔تبھی میں نے ایک جوشیلے جوان کو آتے ہوئے دیکھا ۔۔۔یہ کلدیپ کی یونین کا ہی تھا۔۔۔اس نے چلاتے ہوئے سب کو اکھٹا کرنا شروع کیا ۔۔ساتھ ہی کلدیپ کے نام کے نعرے بھی لگانے لگا۔۔۔۔سب لڑکوں نے مل کر جوا ب دیا ۔۔۔اور وشنو کے سامنے جڑ جڑ کر کھڑے ہوتے گئے ۔۔۔یہ اتحاد کا سادہ سا مظاہرہ تھا۔۔۔۔جس کا اثر وشنو پر بھی پڑا تھا۔۔۔اس کے ساتھ صرف سات یا آٹھ چمچے تھے ۔۔۔مگر یہاں چار سو سے اوپر لڑکے تھے ۔۔۔۔۔وشنو کچھ دیر غصے میں گھورتا رہا ہے ۔۔۔۔منہ سے گالیاں بکتا رہا ۔۔۔۔پان اس کے منہ سے گر رہا تھا۔۔۔ڈنڈا غصے سے پھینک کر وہ پیچھے چلا گیا۔
لڑکے پھر اپنی پہلے والی لائن پر آگئے ۔۔اور ووٹنگ شروع ہو گئی ۔۔۔
میں نے وشنو کو نگاہوں میں رکھا تھا۔۔۔ساتھ ساتھ سمرن کی باتیں بھی سن رہا تھا ۔۔جو وشنو کی شان میں گستاخیاں کئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔وشنو اپنی جیپ کے قریب گیا تھا۔۔۔اور جیب سے موبائل ملا کر کہیں بات کرنے لگا۔۔۔۔ہاتھ ہلا ہلا کر وہ کسی بات پر زور دے رہا تھا۔۔۔۔اور پھر فون بند کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے بات کرنے لگا۔۔۔۔
ادھر سمرن بغیر رکے بولنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔اسے بھی کلدیپ نظر نہیں آئی تھی ۔۔۔وہ نیچے جا کر اسے ڈھونڈنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔
میں نے اسے روکا ۔۔۔میری چھٹی حس خطرے کا سائرن بجا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے چاروں طرف نظریں دوڑانا شروع کر دی ۔۔۔۔۔وشنو کے لڑکوں کی لائن ختم ہو چکی تھی ۔۔۔اب صرف کلدیپ کے طرف دار ہی بچے تھے ۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا ۔۔۔پونے گیارہ کا ٹائم تھا۔۔۔تبھی کالج کے دروازے پر دو جیپوں کو آتے دیکھا۔۔۔۔۔وشنو کی جیپ بھی اس کے پیچھے ہی آئی تھی ۔۔۔۔تیز رفتاری سے آتے ہوئے یہ لوگ سیدھا ایڈمن بلاک کے سامنے رکے تھے ۔۔۔۔گردو غبار کا ایک بادل اٹھا۔۔۔اور آس پاس کے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے گیا۔۔۔اور پھر میں نے اگلی جیب سے ایک آدمی کو اترتے ہوئے دیکھا۔۔اونچے لمبے قد کے ساتھ ۔۔کالا چہرہ جس پر زخموں کے بے شمار نشان تھے۔۔۔۔ہاتھ میں آہنی مکہ لگایا ہوا تھا۔۔۔اور اس کے پیچھے بارہ سے پندرہ اس کے بندے اترے ۔۔میرے اندازے کے مطابق یہ بی جے پی کے غنڈے تھے ۔۔۔۔۔۔لاٹھیوں ، سریوں اور چین لئے ہوئے یہ سب نیم مسلح ہی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔سکھوں میں ایک مرتبہ پھر ہڑبونگ مچی تھی ۔۔۔۔
وشنو نے اونچے قد والے کو اس لڑکے کی طرف اشارہ کر کے دکھایا جس نےپہلے آگے آ کر نعرے لگائے تھے ۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف بڑھا ۔۔۔اور گریبان سے گھسیٹتا ہوا اسے درمیان میں لے آیا۔۔۔۔اور مارنا شروع کر دیا۔اس نے بے دریغ پیٹ اور چہرے پر مکے برسانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔لڑکے کے چہرے سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔مزاحمت کی کوشش کی تھی ۔۔مگر اونچے قد والا کافی طاقتور تھا ۔۔۔لڑکا اس کےہاتھ پر جھول ہی رہا تھا۔۔۔۔۔سمرن مجھ سے لگ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔اس کا جسم بھی لرزش میں تھا ۔۔اور منہ بالکل بند تھا۔۔۔۔
تبھی میں نے ایڈمن بلاک سے کلدیپ کور کو نکلتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔اس کا انداز ہی جدا تھا۔۔۔۔۔نیلے رنگ کے سوٹ پر وہ پیلے رنگ کی مخصوص سکھ اسٹائل کی پگڑی پہنے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔دوپٹا بھی کندھےسے نیچے آ کر سائڈ پر بندھا ہوا تھا۔۔۔۔وہ قریب آتے ہوئے اس اونچے قد کے آدمی کے سامنے آئی اور چلاتے ہوئے اس لڑکے کو چھڑوانے لگی ۔۔۔۔۔۔
سمرن کور بھی اپنی باجی کو دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔اور پہلے سے زیادہ مضبوطی سے مجھ سے جڑگئی۔۔۔
کلدیپ کے درمیان میں آنے کے بعد اس اونچے آدمی نے وشنو کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ یہ کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وشنو کے اشارے نے میرے تن بدن میں آگ لگائی تھی ۔۔۔اس نے یہی کہا تھا کہ کوئی لحاظ نہ کیا جائے ۔اور اسے بھی مارے۔۔۔۔میں نے اس اونچے قد والے کے چہرے کو مڑتے دیکھا ۔۔۔میں نے سمرن کو پیچھے دھکیلا۔۔۔میرے نیچے ایڈمن بلاک کا چھجا تھا۔۔۔۔میں تیزی سے اس پر کودا تھا۔۔۔مجھےامید تھی کہ وہ میرا وزن سمبھال لے گا۔۔۔۔ٹین کی چادر کی آواز گونجی تھی۔چھجے پر قدم پڑتے ہی میں بھاگا۔۔۔میں نے دو سے تین قدم تیز بھاگتے ہوئے کنارے پر آ کر ایک جمپ لی ۔۔۔اور اڑتا ہوا ان کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔۔۔۔اونچے قد والے نے کلدیپ کے لئے ہاتھ اٹھا دیا تھا۔۔۔اور اب وہ ہاتھ ہوا میں اٹھائے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا۔جیسے اس نئی انٹر ی کا پوچھ رہا ہو ۔۔۔۔میں اس کے دائیں طرف تھا ۔۔۔اور سامنے کلدیپ کھڑی تھی ۔۔۔نیچے وہ لڑکالوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔کلدیپ کے آنے سے اس کی جان بخشی ہو گئی ۔
میری آنکھوں کی سرخی میرے ارادوں کا پتا بتا رہی تھی ۔۔جس میں اس کے لئے غصہ ہی غصہ تھا۔۔۔۔اونچے قد والے کو بھی اندازہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔اس نےاپنی سیدھی ٹانگ اٹھا کر میری طرف ماری تھی ۔۔۔میں اس کی ٹانگ کی رینج میں تو تھا ۔۔۔مگر ٹانگ پہنچنے تک وہی رکتا ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔میں اسی سرعت سے حرکت میں آیا تھا۔۔۔اور ٹانگ پوری کھلنے سے پہلے ہی کلدیپ اور اس کے درمیانی حصے میں پہنچا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں حیرت چمکی ۔۔۔۔مگر اگلا لمحہ اس پر بہت بھاری پڑا تھا۔۔۔۔میرا فولادی مکہ اس کی ٹھوڑی کے نیچے پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔میں نے جبڑے کی ہڈی کو فوکس کرنے کے بجائے حلق کے نرم حصے کو ٹارگٹ کیا تھا۔۔اور زور کے ساتھ میرا غصہ بھی شامل تھا۔۔۔۔۔وہ کریہہ آواز میں چلاتے ہوئے پیچھے گرا ۔۔۔۔اس کی سانسیں یقینا رکی ہو گی ۔۔۔۔۔آنکھیں باہر آتے ہوئے میں نے بھی دیکھی اور کلدیپ نے بھی ۔۔۔۔۔پیچھے کھڑا اس کے چمچہ ہاتھ میں سریا لیے مجھ پر لپکا تھا۔۔۔دائیں ہاتھ میں سریا گھماتا ہوا میری طرف آیا ۔میں نے پیچھے مڑے بغیر ہاتھ گھما کر کلدیپ کو پیچھے دھکیلا ۔۔۔اور تھوڑا آگے آگیا۔۔۔میں اس کے بازو کے نیچے گھومتے ہوئے کب اس کی پشت پر آیا یہ اسکو پتا بھی نہیں چلا۔۔۔۔ اس کے بازو کے نیچے سے گھومتے ہوئے اس کی پشت پر آیا اورساتھ ہی اسکا کالر تھام کر کھینچ دیا۔۔۔تیزی سے آگے کو جھپٹتے ہوئے اس چمچے کی گردن پیچھے کو مڑی تھی ۔۔۔۔ہاتھ ہوا میں لہرا گئے۔۔۔۔۔دوسرے ہی لمحے میری فرنٹ کک پوری قوت سے اس کے کولہے پر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کے دونوں ٹانگیں ہوا میں اچھل کر لہرائیں تھیں اور۔۔۔میں نے کالر سے کھینچتے ہوئے اسے پوری قوت سے زمیں پر پٹخ دیا۔۔۔۔۔۔کچھ مٹی بھی اڑی ۔۔۔۔اور کمر پر لگنے والی یہ ضرب اس کی سانسیں روک چکی تھی ۔۔۔۔۔
ماحول ایک دن سنسان سا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔پن ڈراپ سائلنس پھیل چکی تھی ۔۔۔جس میں صرف ان دونوں غنڈوں کی ہائے ہائے گونجنے لگی۔۔۔۔۔اب کی بار دو غنڈوں نے ایک ساتھ بڑھنے کی ہمت کی تھی۔۔۔ہاتھ میں چین لپیٹ ہوئے یہ دونوں میری طرف بڑھے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ان کی بڑھنے کی اسپیڈ کو کیلکلولیٹ کیا ۔۔۔اور ایک قدم آگے بڑھتا ہوا ہوا میں اچھل گیا۔۔۔۔میں ہوا میں اچھلتا ہوا گھوما تھا ۔۔۔ساتھ ہی دونوں ککس تیزی سے پیچھے کی طرف گئی ۔۔اور نشانہ ان کے سر تھے ۔۔۔۔۔۔جو صحیح سے پڑی تھی۔۔اور دونوں کو پیچھے الٹا چکی تھیں۔۔۔۔۔میں ہوا میں گھومتے ہوئے ہی سیدھا ہو کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف سناٹا تھا ۔۔۔۔۔اونچے قد والے کے ساتھ آنے والے تمام لوگ شش و پنج میں تھے ۔۔۔وشنو آگے بڑھا ۔۔اور انہیں آگے دھکیلنے کی کوشش کی ۔۔۔اس کے چمچے بھی آگے آئے تھے ۔۔۔اور اب چاروں طرف سے گھیرا ڈالنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔وشنو ہاتھ میں ہاکی لئے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔ساتھ آس پاس والوں کو بھی ہلا شیری دیتے ہوئے حملہ کرنے پر اکسا رہا تھا۔۔میں نے نظریں سامنے دوڑائی۔۔۔چار کے کم ہونے کے بعد اب بھی پندرہ کے قریب لوگ تھے ۔۔۔۔اور وشنو انہیں لیڈ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔۔میں نے پیچھے دیکھا ۔۔۔لڑکے سب خاموش تماشائی بنے تھے ۔۔۔۔جیسے میں سپر مین کی طرف کرتب دکھاؤں۔۔۔اور ان سب کو پھونک مار کر اڑا دوں۔۔۔۔
میں نے کلدیپ پر نظر ڈالی ۔۔۔وہ بھی گم سم سی تھی ۔۔۔۔اگلا لمحہ سب کے لئے حیران کن تھا ۔۔۔
۔ "جے بولے سو نہال"۔۔۔۔۔میرے منہ سے بلندگونج دار آواز نکلی تھی ۔۔اور اس لان میں پھیل گئی۔
میں سکھوں کے گڑھ میں کھڑا تھا ۔۔۔اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ یہ الفاظ نہیں پہچانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔۔۔۔۔میرے پیچھے ہلچل سی مچی ۔۔۔۔اور پھر ست سری اکال کا نعرہ بلند ہوا۔
ساتھ ہی لڑکوں کا ہجوم تیزی سے آگے بڑھا۔۔۔۔میں نےکلدیپ کو اپنے پیچھے کیا ۔۔۔اور آہستگی سے پیچھے ہٹنے لگا۔۔۔۔۔ وشنو کی نظریں مجھ پر گڑی تھی ۔۔۔اور مجھے تک پہنچنے کی کوشش میں تھا۔۔۔مگر پرجوش لڑکے اب ان پر ٹوٹ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔میں بالکل پیچھے ہٹ گیا تھا۔اس قسم کی لڑائیوں سے مجھے شدید الرجک تھی ۔۔جس میں نہ اپنوں کا پتا چلتا ہوا اور نہ پرایوں کا ۔۔۔۔۔اتنے میں سمرن کور بھی اوپر سے آ کر ہمارے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں میدان صاف تھا۔۔تمام غنڈے بری طریقے سے پٹ کر ادھ موے ہوچکے تھے ۔۔۔اور لڑکے انہیں ڈنڈہ ڈولی کرتے ہوئے جیپوں میں ڈال رہے تھے ۔۔کافی لڑکے میری طرف آئے اور ہاتھ ملاتے ہوئے تعارف کروانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے پولیس کو فون کر دیا۔۔۔۔۔۔کالج کے مین گیٹ سے سائرن کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔۔۔یہ بھی بی جے پی کے لڑکوں کی طرف سے کی گئی تھی ۔۔وہ مار پیٹ کر سکھ اسٹوڈنٹ کو ہی پولیس کے حوالے کرنے کا سوچ کر آئے تھے ۔۔۔مگر ان کی چال انہی پر الٹ گئی۔۔۔۔۔پولیس جیپ اور پیچھے والی گاڑی کالج کے گیٹ پر رکی ۔۔۔لڑکے سامنے آ کر نعرہ بازی کرنے لگے ۔۔۔۔۔اتنے میں کلدیپ میرے قریب ہوئی ۔۔۔۔راجہ تم یہا ں سے نکلو ۔۔۔۔۔۔سب کی نظروں میں آچکے ہو ۔۔۔۔یہ صرف تمہیں ہی ڈھونڈیں گے ۔۔۔۔۔
اور سمرن کو مخاطب کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔راجہ کو لے کر بے بے کے پاس چلی جاؤ ۔۔۔۔۔میں بھی شام تک معاملہ نبٹا کر آتی ہوں۔۔۔۔۔
میرے پاس بائک کی چابی تھی ۔۔۔۔۔پارکنگ سے بائک لے کر ہاسٹل کے پچھلے گیٹ سے باہر نکل گیا۔۔۔سمرن میرے پیچھے بائک پر تھی ۔۔۔۔۔۔اور بائک ہوا میں پرواز کر رہی تھی۔۔۔۔
سمرن پیچھے مجھ سے چپکی ہوئی راستہ بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ماحول کا اثر ختم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ٹھنڈی ہوا کے ساتھ دل میں سرور کی لہریں رقصاں تھیں ۔۔۔۔ سمرن حسب معمول میرے کان سے چپکی ہوئی راستہ بتا رہی تھی ۔۔۔۔اس کو شاید پتا بھی نہیں ہو گا کہ اس کے سینے کی گولائیاں میری کندھے میں دبی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔مجھ پر بھی عجیب سی کیفیت طاری ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔میں نے اپنے خیال کو جھٹکا ۔۔۔۔سمرن خوبصورت تو بے حد تھی ۔۔۔۔مگر اس کی معصومیت مجھے ایسا کچھ بھی سوچنے سے روک رہی تھی ۔۔۔۔سیدھے روڈ پر چلتے ہوئے ہمیں دس منٹ سے اوپر ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔بائک پوری رفتار سےدوڑ رہی تھی ۔۔۔۔تبھی سمرن نے مجھے لیفٹ پر مڑنے کا کہا ۔۔۔یہاں کھیتوں کے ساتھ ساتھ کافی رہائشی مکان تھے ۔۔۔۔۔دو گلیوں کے اندر گھومنے کے بعد ہم ایک حویلی کے سامنے تھے ۔۔۔۔سمرن ایسے ہی اچھلتی ہوئی اتری ۔۔۔اور پھاٹک کے اندر ہاتھ ڈال کر کنڈی کھول لی ۔۔۔۔۔پتلی انگلیاں جو تھیں ۔۔۔۔۔مجھے بائک اندر لے آنے کا اشارہ کر کے وہ اندر کی دوڑی ۔۔۔۔۔۔بائک کی آواز سن کر اندر سے ایک خوبصورت خاتوں نکلی ۔۔۔جو یقینا کلدیپ اور سمرن کور کی بے بے ہی تھی۔۔۔آنکھیں سمرن کور کی طرح ڈارک براؤن تھی ۔۔۔اور اس عمر میں متناسب جسم کی مالک تھی ۔۔۔۔۔۔سمرن جا کر ان سے لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔۔بے بے یہ راجہ ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ باجی کے۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہتی ہوئی ایکد م سے رکی ۔۔پھر مجھے دیکھنے لگی ۔۔
میں بائک سے اتر گیا ۔۔۔اور آگے کی طرف بڑھا ۔۔دونوں ہاتھ اٹھا کر واہے گرو کی جے کہی ۔۔۔۔۔بے بے نے بھی اسی طر ح جواب دیا ۔
کلدیپ نے بتا دیا تھا انہیں کہ میں نے ہی ان کے بیٹے کے قاتل کو مارا تھا ۔۔۔۔۔بے بے راجیش کو گالیاں نکالتی ہوئی مجھے دعائیں بھی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔پھر سمرن کو آواز دیتیں ہوئی بولی ۔۔۔۔جا ؤ کچھ کھانے پینے کا کرو ۔۔۔۔۔
سمرن مجھے لئے ایک کمرے میں لے گئی ۔۔۔۔یہ ان کے بیٹے کا کمرہ تھا۔۔۔۔۔ایک طرف دیوار پر کرپان ۔۔۔اور دو نالی بندوق ٹنگی ہوئی تھی ۔۔۔ساتھ ہی کلدیپ کے باپ اور بیٹے کی ایک ساتھ تصویر لگی تھی ۔کمرہ بڑا تھا ۔۔۔ایک طرف بیڈ لگا ہوا تھا۔۔سامنے چارپائی اور ایک جستی الماری رکھی تھی ۔۔۔۔۔میں دیکھ ہی رہا تھاکہ بے بے اندر داخل ہوئی ۔۔مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ چارپائی پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔میرے سامنے بیٹھی وہ کچھ دیر تک اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرتی رہیں ۔۔۔اتنے میں سمرن لسی کا ایک جگ لئے اندر آئی ۔۔۔۔۔گلاس بھی کسی جگ سے کم نہیں تھا۔۔۔پورا بھر کے میرے حوالے کیا تو میں گلاس کو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔خیر بڑی مشکل سے گلاس ختم کیا ۔۔۔بے بے کھانے کا پوچھ کر باہر چلی گئیں ۔۔۔۔ان کے جاتے ہی سمرن کے منہ سے قہقہہ چھوٹا تھا۔۔۔۔۔میں نےسوالیہ نظروں سے دیکھا۔
وہ میرے چہرے کی طرف اشارہ کررہی تھی ۔۔۔۔میں انجان بن گیا ۔۔۔آخر وہ خود ہی قریب آئی ۔۔اور اپنی انگلی سے صاف کر کے دکھانے لگی ۔"۔یہ لگی تھیں آپ کے ہونٹوں پر ۔"۔
میں نے اسی کی انگلیوں کو پکڑا اور دوبارہ سے ہونٹوں پر پھیر کر ٹھیک سے صاف کر دیا ۔۔سمرن کے چہرے پر عجیب سے تاثرات آئے مگر کچھ کہا نہیں ۔۔۔۔میں نے بیڈ پر کمر سیدھی کی ۔۔۔۔سمرن باہر چلی گئی۔ا ۔۔۔۔۔۔۔لسی مکھن اور فیٹ سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔جس کا ثبوت کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آنے لگی تھی ۔۔۔اور میں اسی طرح ٹیک لگائے ہوئے سو گیا۔۔۔۔
میں تقریبا چار سے پانچ گھنٹے بے خبر سویا تھا۔۔۔۔۔۔آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھا تو سمرن لپک کر میرے پاس آئی تھی ۔۔۔۔۔ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔"آپ کی طبیعیت تو ٹھیک ہے۔"۔
وہ خود سے اب بھی بے خبر تھی ۔۔تنگ کپڑوں میں منہ زور جوانی چھلک رہی تھی۔۔۔۔۔مجھے پر جھکی ہوئی میرے ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ بخار چیک کرنے میں تھی ۔۔ ۔۔میں بیڈ کے کنارے سے تھوڑا دور تھا ۔۔۔اس لئے وہ جھک کر میرے ماتھے پر ہی زور ڈالے ہوئے تھی ۔۔۔مجھے شرارت سوجھی ۔۔۔میں ماتھے کو پیچھے لے گیا۔۔۔۔۔سمرن کا زور اسی پر تھے ۔۔۔وہ لہراتی ہوئی میرے اوپر گری تھی ۔۔۔۔۔کچے آموں جیسی مہک میرے نتھنوں میں آئی تھی ۔۔۔۔۔اس کے چہر ہ بھی میرے اوپر ہی آیا تھا۔۔۔وہ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتی رہی ۔۔۔۔جس میں شرارت نمایا ں تھیں ۔۔۔ میں نے اسے اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھا یا ۔۔اور خود پر سے اٹھانے لگا ۔۔۔سمرن نے عجیب سے نظروں سے دیکھا اور پھر نارمل ہوئی۔۔اور پھرمصنوعی غصے میں چلانے لگی۔
اور اگلے دس منٹ وہ مجھ سے اسی بات پر جھگڑ رہی تھی ۔۔۔۔کہ میں نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے ۔۔۔۔اور میرا موقف تھا کہ تم خود میرے اوپر گری تھیں ۔۔۔میں نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔۔لڑنا تو مجھے چاہئے تھا اور الٹا تم مجھے ہی ڈانٹ رہی ہو۔۔
یہ بحث شاید جاری رہتی کہ کلدیپ کور کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔وہ آ چکی تھی یا ابھی آواز سن کر اندر آئی تھی ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر خوشی کے تاثر تھی ۔۔۔ اپنی بہن کی پرواہ کئے بغیر وہ میرے قریب بیڈ پر بیٹھی اور مجھ سے پر جھکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ہم الیکشن جیت چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔وشنو پربھاکر کو صرف 30 ووٹ ملے ہیں ۔۔۔۔۔ لڑائی کی وجہ سے اس کے باقی ووٹ بھی ہمارے پاس آئے ہیں ۔۔۔۔اور پولیس کے آنے کے بعد ہم نے انہی کے خلاف رپورٹ بھی درج کروادی ۔۔۔۔۔۔۔
راجہ یہ صرف تمہاری وجہ سے ہوا ۔۔۔۔۔میری پیشانی کو چومتے ہوئے وہ بولی تھی ۔۔۔۔۔میں نے سمرن کی طرف دیکھا وہ بغور ہمیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔مجھے دیکھتا دیکھ کر ایک دم اٹھی اور باہر چلی گئی ۔۔اس کے بعد کلدیپ کور صحیح سے مجھے سے لپٹ گئی ۔۔۔میں نے بھی اسے بیڈ پر اوپر کھینچ لیا ۔۔۔اورہونٹوں پر ہونٹ جما دئیے ۔ابھی یہ سلسلہ آگے بڑھتا کہ۔۔۔اتنے میں سمرن کور پھر اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔۔۔اور زور سے کھنکھارتے ہوئے قریب آنے لگی ۔۔۔۔مجھے بے اختیار ہنسی آئی تھی ۔۔۔میں نے کلدیپ کو سائیڈ پر ہٹا یا ۔۔وہ اپنی قمیض ٹھیک کرنے لگی ۔۔۔۔سمرن کور کے ہاتھ میں وہ بیگ تھا جو وہ جیوتی سے لے کر آئی تھی ۔۔۔
یہ لیں باجی چیک کر لیں ۔۔۔۔سب پورا ہے ۔۔۔۔مخاطب باجی تھی ۔۔۔مگر سمرن کی شرارتی نظریں مجھ پر تھیں ۔۔۔جیسے کہہ رہی ہوں دیکھا کیسے روک دیا آپ لوگوں کو ۔۔۔
سمرن بیڈ پر بیٹھی بیگ کھولنے لگی۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے بڑے نوٹوں کی گڈیاں نکلنے لگیں ۔۔۔۔۔قریب بیس سے اوپر یہ گڈیاں تھیں ۔۔۔۔۔جو شاید پچاس لاکھ کے قریب تھے ۔۔۔اس کے بعد زیوارت کا ایک ڈھیر تھا۔۔۔رنگا رنگ جواہرات سے بنے ہوئے سیٹ تھے ۔۔۔۔سونے کے بھاری بھرکم سیٹ سے لے کر چاندی کی پائل تک سب ہی اس میں موجود تھا۔۔۔
کلدیپ مجھے بغور دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اتنی دولت اتنی آسانی سے دینے والا شخص کوئی معمولی نہیں ہو سکتا ہے ۔۔اور میں سوچ رہا تھا کہ جیوتی نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔۔اس نے آدھی سے زیادہ دولت یہاں بھجوا دی تھی۔۔۔
میں نے سمرن کو یہ سمیٹنے کا کہا اور بھوک کی آواز لگائی ۔۔۔۔دوپہر سے بھوکا ہوں ۔۔۔۔کچھ تو خیال کرو۔۔۔۔سمرن بیگ میں جلدی سے سب کچھ بھر کر باہر کو بھاگی ۔۔۔۔
کلدیپ میرے ہاتھوں کو تھامتی ہوئے کہنے لگی ۔۔راجہ اس دولت کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔جو کام تم نے کہا ہے ۔۔وہ ہرقیمت پر ہو کر رہے گا ۔۔۔میں اس کے لئے اپنے پیسے خرچ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
۔"مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ تمہیں یہ سب لینے میں کیا اعتراض ہے ۔"۔۔ میں نے اس سے پوچھا ۔
راجہ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب لینے کے بعد ہماری محبت میں فرق نہ آ جائے ۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ ہمارے درمیان بے لوث محبت ہو ۔۔۔کسی غرض کے بغیر ۔۔۔۔
اس سے پہلے ہماری کوئی اور بات ہوتی ۔۔سمرن بھاگتی ہوئی واپس آئی ۔۔۔۔کھانا لگ گیا ہے ۔۔آ جائیں ۔۔۔۔وہ شاید ہمیں تنہائی نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔
میں ہاتھ دھوتا ہوا باہر آ گیا ۔۔۔۔۔چاند کی روشنی میں دو چارپائیوں کے درمیان ایک ٹیبل پر کھانا رکھا ہوا تھا ۔۔۔کھانا کھا کر میں واپس اسی روم میں آ گیا ۔۔
کلدیپ تھوڑی ہی دیر میں چائے لے کر آ گئی ۔۔۔۔اس سے پہلی ملاقات میں میں نے کافی بار چائے کی فرمائش کی تھی ۔۔۔اور اس کو یہ بات یاد تھی ۔۔۔
چائے میرے ہاتھ میں پکڑاتی ہوئی وہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔کچھ پراسرار سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔مگر اس نے منع کر دیا۔۔
چائے پی کر میں نے موبائل آن کیا۔۔۔ پہلی کال عاصم کو کی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پہلی ہی بیل پر فون ریسیو کیا گیا تھا۔۔۔
۔"کیا بات ہے جگر ۔آخر ہماری یاد آہی گئی آپ کو۔۔۔کلدیپ نے ٹائم کیسے دے دیا ہم سے بات کرنے کے لئے ۔۔۔"۔ اس کی شگفتہ آواز میرے کانوں میں پڑی ۔
اور ہاں اب تو کلدیپ کے ساتھ ساتھ سمرن بھی آپ کے آس پاس دِکھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عاصم نے اگلا حملہ کیا تھا۔
میں چونکا ۔۔۔۔۔یار مجھ پر جاسوسی کی ضرورت پڑ رہی ہے کیا ۔۔۔میرے لہجے میں مصنوعی ناراضگی تھی۔۔
یارا آپ کو اکیلا بھیج کر کافی عجیب سے لگا ۔۔۔۔دوستوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے آپ تو پھر جگر ہو ۔۔۔۔اس لئے آصف کو پیچھے بھیج دیا۔۔وہ آپ کو کلدیپ کے گھر تک چھوڑ کر واپس آیا اور پورا قصہ سنایا۔۔ایسے لگتا ہے کہ میں خو د وہیں تھا۔
بی جے پی کے غنڈوں کو اچھا سبق سنایا۔۔۔۔۔اچھا راجہ صاحب میں خود آپ کو فون کرنے والا تھا۔۔۔۔۔عاصم سنجیدہ چکا تھا۔
را کا ایک نیا انٹیلی جنس چیف آ چکا ہے ۔۔۔کرنل راٹھور نام ہے ۔۔۔۔راجیش سے ہزار گنا تیز اور ہوشیار ہے ۔۔۔۔۔میرے خیال سے لدھیانہ میں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں ہے ۔۔۔۔آپ جلد از جلد ممبئی کے لئے نکل جائیں ۔۔۔یہ فون ضائع کردیجئے گا۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ کلدیپ آپ کو اطمینان سے ٹرین میں سوار کروادے گی ۔۔۔میں آج رات ہی نکل رہا ہوں ۔۔۔۔۔وہاں جا کر آپ کے لئے گراؤنڈ تیار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔آپ ممبئی ٹرین اسٹیشن کے سامنے سردار ہوٹل میں آئیے گا۔۔۔کاونٹر پر ناصر آپ کو ملے گا۔۔۔۔۔وہ مجھ تک پہنچا دے گا۔۔۔
میں نے جلدی سے ساری معلومات ذہن نشین کی اور فون بند کر دیا۔۔۔۔بیٹری اور سم نکال کر الگ الگ رکھ دی ۔۔آج کے ترقی یافتہ دور میں سہولت کے ساتھ ساتھ نقصان بھی ہے۔۔انٹرنیٹ اورموبائل سگنل سے جڑی ہوئی ہرچیز آپ کو پکڑوانے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔۔۔اور شکر تھا کہ میں نے یہ سب چیزی بہت ہی کم ٹائم کےلئے استعمال کی ۔۔۔عاصم بھی دوسروں کے موبائل استعمال کر کے پھینک دیا کرتا تھا۔۔۔
کلدیپ مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔عاصم کےساتھ میری محبت دیکھ کر وہ بھی حیران ہوتی کہ آج کے دور میں بھی ایسے دوست ملتے ہیں ۔۔۔۔میں نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے پوچھا کہ سونے کا کہاں پروگرام ہے ۔۔۔۔ ؟
کلدیپ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔اتنی جلدی کیا ہے سرتاج ۔۔۔۔ بس تھوڑا انتظار ۔۔۔میں نے سمرن کو آپ کا روم تیار کرنے کا کہا ۔۔۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔کچھ الگ چمک تھی ۔میں نے سوچا ۔پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔۔جو بھی ہے خود ہی سامنے آئے گا۔
میں نے اگلے ایک گھنٹے میں کلدیپ کو ان پیسوں کا استعمال سمجھادیا ۔یہ ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم تھی۔۔۔آدھے پیسے انویسٹ کرنے کے لئے تھے ۔۔۔اور آدھے استعمال کے لئے ۔۔۔۔لدھیانہ میں دس سے زائد کالج تھے ۔۔۔اور آٹھ یونیورسٹیز تھیں ۔۔۔۔ان سب سے ہم ہزاروں کی تعداد میں اسٹوڈنس اپنی یونین میں شامل کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔میں کلدیپ سےمعلومات لینے کے ساتھ آئندہ کا پلان بھی بنا کر دیتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ہر مہینے کی اسٹوڈنس میٹنگ اور اس میں اپنے یونیورسٹی کے اسٹاف کو بھی شامل کرنے کا کہا ۔۔۔اسی طرح یہاں کی شہری انتظامیہ کے ساتھ بھی تعاون بڑھانے اور ان سے راہ رسم بڑھانے پر بھی زور دیا۔۔۔۔اور آخری کام ایسے گروپ کی تشکیل تھا جو ماردھاڑ کے کام باآسانی کر سکے ۔۔۔ہر جگہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا۔۔تاکہ آج یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعات سے بھی نبٹا جا سکے۔۔۔۔اس گروپ کی تشکیل کے لئے میں نے اس کہا کہ وہ خود کل عاصم سے بات کر لے ۔۔وہ کوئی اچھا بندوبست کر دے گا۔۔۔۔۔۔تقریبا تمام معاملا ت کلدیپ کو سمجھ آ گئے تھے ۔۔۔ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور کام دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ پیسے بھی کم پڑ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔
رات کے دس سے اوپر کا ٹائم تھا جب کلدیپ نے مجھے کہا کہ چلیں آپ کا روم تیار ہو گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔میں اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔باہر برآمدے میں نکل کر ایک کمرے کی طرف وہ چلی۔۔۔۔میں اس کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ہلکی بلیو کلر کی لائٹ روشن تھی ۔۔۔۔۔اور ایک طرف دو بیڈ آپس میں سے جڑے ہوئے تھے ۔۔۔یہ شاید کلدیپ اور سمرن کا جوائنٹ روم تھا۔۔۔۔بیڈ پر بڑا سا لحاف پڑا تھا ۔۔۔۔موسم اتنا سرد نہیں تھا۔۔پھر بھی ہلکی ضرورت محسوس کی جاسکتی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ بیڈ کے کنارے کھڑی تھی۔۔۔اور براؤن آنکھوں کی چمک میں صاف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میں اس کا دل سمجھ چکا تھا۔۔۔۔اس لئے پاؤں خالی کرتا ہوا بیڈ پر آگیا ۔۔۔کلدیپ کنارے کی سائیڈ پر تھی ۔۔۔مجھے بیڈ کے درمیان میں دھکیلتی ہوئی لحاف اوڑھا دیا۔۔۔میں بھی آج کی رات یادگار بنانا چاہتا تھا۔۔ابھی تک کلدیپ کو میں نے جانے کا نہیں بتا یا تھا۔میرے سر کے نیچے تکیے رکھ کر اونچا کیا ۔۔اور خود بھی لحاف کے اندر ہوتی ہوئی میرے قریب آئی ۔۔۔اندھیرا تھا۔۔مگر جسم کی مخصوص بو کے ساتھ۔۔اس کا نرم و نازک بد ن مجھ میں لپٹا تھا ۔۔۔میں نے بانہیں کھول کر اسے سمیٹ لیا۔۔۔اس کے بال کھلتے چلے گئے۔۔میرے گال سے گال لگائے اس نے سرگوشی کی تھی ۔۔۔راجہ بھول تو نہیں جاؤ گے ۔۔۔۔میں نے اس کے چہرے کو اٹھاتے ہوئے سامنے کیا ۔۔
آنکھوں میں چمک کے ساتھ نمی تھی ۔۔میں نے دونوں ہاتھو ں میں چہرے کو تھامتے ہوئے بوسے دینے لگا۔۔۔۔شروع آنکھوں سے کیا تھا۔۔۔اور پھر ہونٹوں پر جا رکا ۔۔۔ اور جوابی سرگوشی کی
۔" ایسا نہیں ہو سکتا ہے ۔۔۔" ۔۔"۔میں تمہیں ہمیشہ یادر رکھوں گا۔"۔۔میں نے کلدیپ کو جانے کا نہیں کہا تھا مگر شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا۔کہ میری روانگی قریب ہی ہے۔۔
کلدیپ پھر کان کے قریب آتی ہوئی بولی ۔۔"۔میری زندگی میں آنے والے آپ پہلے اور آخری ہیں ۔۔۔اس کے بعد کبھی کوئی اور نہیں آے گا۔۔"۔۔کاش میں آپ کو اپنی محبت کا یقین دلا سکتی۔''۔۔
کلدیپ سے پہلی ملاقات میں وہ صرف ایک سخت گیر اور جنگجو لڑکی لگی تھی۔۔۔۔مجھے انداز ہ نہیں تھا کہ ہمارا تعلق اتنا زیادہ دیر تک چلے گا۔۔۔اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ لڑکی میری محبت میں پڑ جائےگی۔۔میں نے بھی جواباکہا ۔۔۔"۔تمہیں یقین دلانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔مجھے تمہار ی بات پر پورا بھروسہ ہے ۔"۔۔
مجھے اس کالہجہ عاصم کی طرح لگا تھا ۔۔جب آخری رات طیارے پر اسٹنٹ کرتے ہوئے وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا۔۔کھویا کھویا سا لہجہ ۔۔اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے جذبات ۔۔۔۔میں ڈر سا گیا۔۔۔کہ کلدیپ بھی کہیں کچھ ایسا نہ کرنے جا رہی ہو ۔۔۔۔۔۔میں نے باتوں سے روکتے ہوئے اسے گلے سے لگایا۔۔اور کافی دیر لگائے رکھا۔۔۔ایک ٹھنڈک سے میرے دل میں اترتی جارہی تھی ۔۔۔اس کی بھی یہی حالت تھی ۔۔۔اور شاید یہی ہمارے جذبات اور خلوص کی سچائی کی بھی علامت تھی۔۔۔۔
کلدیپ بھی سانس روکے مجھے سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔اس کی باتیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔۔۔۔اور ایک بار تو مجھے ایسے لگا جیسے آج کی رات باتوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔۔۔
۔"راجہ میں نے سب سے زیادہ محبت اپنے بھائی سے کی ۔وہ چلا گیا تو اس کی جگہ اوپر والے نے تمہیں بھیج دیا۔"۔۔کلدیپ بہت زیادہ جذباتی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔میں نے اسے سمیٹتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی۔
۔"۔دوسری محبت مجھے اپنی بہن سمرن کور سے تھی۔ہم دونوں آپس میں دوست بھی ہیں راز دار بھی ہیں۔۔۔۔اور آج میں چاہتی ہوں کہ اسے بھی تمہیں سونپ دوں ۔"۔
مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔۔پہلے پہل تو میں نے الفاظ پر غور کیا کہ یہ کہا کیا گیا ہے۔۔؟۔۔۔اتنے میں مجھے اپنے لحاف کی دوسری طرف کسی اور کا احساس ہوا ۔۔۔میں تیزی سےپلٹا ۔۔۔اور لحاف کو اٹھاتے ہوئے دیکھا۔۔۔یہ سمرن کور تھی۔۔۔بند آنکھوں کے ساتھ لیٹی ہوئی ۔۔۔۔کسی مومی گڑیا کی طرح لگ رہی تھی۔۔
میں واپس گھوما۔۔کلدیپ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے کہہ رہی ہے کہ یہ میری طرف سے تحفہ ہے۔۔میری بے پناہ محبت کا ثبوت ہے۔۔۔میری سب سے قیمتی چیز تمہارے حوالے ہے۔۔۔اس کی نم آنکھیں مستقل باتیں کئے جا رہی تھی ۔۔جن میں ہمیشہ کی چاہت اور محبت کا سوال تھا۔۔۔۔میں کچھ دیر دیکھتا رہا ۔۔اور گم سم سا ہو گیا۔۔۔مجھے کبھی بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب دیکھنا پڑے گا۔۔۔کلدیپ ایسی محبت کر بیٹھے گی۔۔۔جو نہ کوئی سرحددیکھتی ہے نہ کو ئی مذہب۔۔جس میں فقط چاہت ہوتی ہے ۔۔دیوانگی ہوتی ۔۔جنوں ہوتا ہے ۔۔۔جو یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا بھی اتنا پیار کرتا ہے یا نہیں ۔۔۔یہ بس خود کو قربان کر دینے والا جذبہ ہوتا ہے۔۔۔
میرے دل میں بھی یہی خواہش اٹھی کہ اگر اس کی کوئی بھی خواہش ہو تو میں وہ ہر قیمت پر پوری کروں ۔۔۔وہ بس اشارہ کرے ۔۔اور تارے توڑ کر لادوں۔۔۔۔کلدیپ مجھے بھی گم سم دیکھ کر قریب ہوئی ۔۔اور مجھے پلٹتے ہوئے بولی ۔۔اس طرف جائیے کوئی انتظار کر رہا ہے ۔۔۔۔کلدیپ زور لگاتی ہوئی مجھے پلٹا رہی تھی۔۔۔میں سیدھا ہوا۔۔۔اور بجائےاس طرف مڑنے کے واپس کلدیپ کی طرف آیا۔۔۔اس کی نم آنکھیں تیزی سے بہنے لگی۔۔میں کلدیپ کو گلے سے لگا کر بہنے والے آنسو چومنے لگا۔۔کلدیپ نےمجھے الگ کرتے ہوئے سمرن کی طرف دھکیل دیا۔
میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔جس نے دوبارہ سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔۔۔میں نے پہلی نظر میں دیکھ لیا تھا کہ اس نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا ۔۔۔۔مگر پورے بدن پر پہنے ہوئے وہ زیور تھے جو میں نے کلدیپ کو دئے تھے ۔۔۔۔میں نے لحاف تھوڑ ا سا اٹھاتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا ۔۔سمرن کور کسی مومی گڑیا کی طرح لگ رہی تھی۔۔۔ماتھے پر جھومر ۔۔۔ناک میں چاندی کی لونگ۔۔ساتھ ہی سونے کے سیٹ اور چوڑیاں پہنی ہوئی۔۔۔کمر پر مخصوص نازک سی زنجیر بندھی ہوئی ۔۔۔۔بند آنکھوں میں ایسے لگ رہی تھی جیسے کسی خوبصورت خواب میں ہو ۔۔۔نازک اتنی کہ ہاتھ لگے تو پگھل جائے ۔۔۔۔اس کی شوخی تو میں دیکھ ہی چکا تھا ۔۔مگر خاموشی بھی کمال تھی۔۔۔میں نے اسے اپنی طرف کروٹ کروائی ۔۔۔۔کمرے میں چھن چھن کی مخصوص آواز گونجی ۔۔۔ساتھ ہی اس کا جسم بھی سامنے آگیا۔۔۔۔کسی نازک کلی جیسا بدن ۔۔جو ہلکے ہلکے سے لرزش میں تھا۔۔۔۔شرماہٹ کی وجہ سے چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ کو تھام جو ٹھنڈا ہو رہا تھا ۔۔اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔وہ کچھ کسمسائی ۔۔۔کچھ اور شرمائی۔۔۔۔اور چوری چھپے آنکھ کھول کر دیکھنے لگی۔۔۔۔میں کھسک کر قریب ہوا۔۔اور چہرے کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا ۔۔جو نیچے ہوئے جا رہا تھا۔۔۔معصومیت اور خوبصورتی کا شاہکار ۔۔لطافت اور نزاکت کا پیکر۔۔۔پتلے گلابی ہونٹ ۔۔۔۔سرخی مائل گال جس پر مسکراتے ہوئے گڑھا سا بن جاتا ۔۔۔
میں نے اپنی انگلیاں ماتھے پر رکھیں ۔۔۔اور نیچے لے کر آنے لگا۔۔۔ہونٹوں پر آ کر انگلیاں رک گئیں۔۔۔جیسے ہونٹ نیچے جانے نہ دے رہے ہوں۔۔اس کے جسم کی نرماہٹ مجھ پر بے تحاشہ اثر انداز ہو رہی تھی۔۔۔اور میں نے بے اختیار اپنے ہونٹ اس کے گالوں پر رکھے ۔۔۔۔اور پھر پورے چہرے کو چومنے لگا۔۔۔۔۔ہر بوسے کے ساتھ اس میں ایک لہر سی دوڑ جاتی ۔۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے بت بنی ہوئی شہزادی میں جان آتی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔
کلدیپ پیچھے سے مجھ سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر میری شرٹ کے بٹن کھولنےشروع کر دئے تھے ۔۔۔بٹن کھل گئے تو میں کچھ دیر رکھا اور ہاتھ نیچے لے جا پیچھے کر دئے ۔۔کلدیپ نے شرٹ کھینچ لی۔۔۔کلدیپ اب لحاف میں ہی نیچے کی طرف کھسکی اور پینٹ اتارنے لگی ۔۔۔میں واپس سمرن کی طرف آیا۔۔۔۔بوسے دوبارہ سے شروع تھے ۔۔۔گال چومتے ہوئے ٹھوڑی پر آیا۔۔۔اور پھر نیچے گردن چومتا ہوا ا نازک کندھے پر آیا۔۔۔سمرن کور اسی طرح سیدھی لیٹی ہوئی تھی ۔۔میں نے اپنی طرف کروٹ دیتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھا۔۔۔اپنا ایک ہاتھ اس کے سر کے نیچے رکھتے ہوئے چہرے کو اپنے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔ہونٹ ایک دوسرے کو پیاسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔جیسے مدتوں سے ملاقات کے خواہشمند ہوں ۔۔۔میں نے بھی زیادہ دیر نہ کی ۔۔اور وصال کر وا دیا۔۔۔
کیا نرم نرم ہونٹ تھے ۔۔کیا نزاکت تھی۔۔کیا شیرینی تھی۔۔۔میں کچھ دیر تو انہیں میں ہی گم ہو گیا۔۔۔۔دوسرا ہاتھ اس کی کمر پر لے گیا ۔۔۔اور اسے خود سے لپٹا لیا۔۔۔۔ایک نازک سا پری پیکر مجھ میں چھپ گیا تھا۔۔۔۔میرے پورے جسم میں لذت آمیز لہریں ابھریں تھیں۔۔۔جو آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے طوفان بننے جارہی تھیں۔۔۔۔
کلدیپ نےپینٹ اتا ر لی تھی۔۔۔اور اب کی بار وہ پیچھےسے مجھے لپٹی تو انداز ہ ہو گیا کہ وہ خود بھی کپڑوں سے آزاد ہے ۔۔۔۔وہ فطری لباس میں مجھ میں پیوست ہوئی تھی۔۔۔۔۔آگے سمرن کور تھی ۔۔۔اور پیچھے کلدیپ کور ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے ہونٹوں سے سمرن کے چہرے کو اٹھایا اور چومنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔میرے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر گردش کرتے ہوئے نیچے جا رہے تھے ۔۔۔شروع میں اس کے ہاتھ کو جب چوما تھا ۔۔۔تو ٹھنڈے لگ رہےتھے ۔۔۔مگر اب پورا بدن تیزی سے گرمی پکڑتا جا رہا تھا۔۔۔جو اپنےساتھ ساتھ مجھ میں بھی گرمی دوڑ ا رہا تھا۔۔۔۔میں سمرن کے ہونٹوں کو چومتا ہوا اپنے ہونٹ بھی کچھ دیر اس کے ہونٹوں میں رکھتا ۔۔۔جیسے کہہ رہا ہوں کہ وہ بھی جواب دے ۔۔۔۔۔کچھ دیر ایسا کرنےکے بعد اسے شاید اندازہ ہوا ۔۔۔اور بت بنی ہوئی شہزادی میں حرکت ہوئی ۔۔ہونٹوں میں جنبش ہوئی ۔۔۔اور پہلی مرتبہ اس نے میرے ہونٹوں کو پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔میرے اندر ایک نشے اور سرور کی لہر دوڑی ۔۔۔۔مجھے ایسے ہی لگا تھا جیسے پہلی بار کسی نے میرے ہونٹوں کو چھوا ہوا ۔۔۔۔سمرن تھوڑی سی کوشش کر کے پھر رک گئی ۔۔۔۔۔میں نے ایک مرتبہ پھر سے اس کے ہونٹ چومے اور انتظار کرنے لگا۔۔۔۔اس نے پھر سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی ۔۔
کلدیپ نے مجھے اور خود کو کپڑوں سے آزاد کر دیا تھا۔۔۔اور اس وقت جب سمرن میری بانہوں میں چھپی ہوئی تھی ۔۔۔۔ہتھیار بھی اپنی لمبائی میں آ کر اس کی ٹانگوں میں سے گزر رہا تھا۔۔۔ میں نے سمرن کو اٹھائے ہوئے کروٹ لی ۔۔۔اور اپنے اور کلدیپ کے درمیان میں لٹا دیا ۔۔۔۔سمرن کسی ہلکے پھلکے وجود کی طرح میرے بازؤوں میں اٹھی ۔۔اور اسی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہمارے درمیان میں آ گئی ۔۔۔کلدیپ بھی اسے دیکھ کر پر جوش ہو گئی ۔۔۔۔آخر کیوں نہ ہوتی ۔۔۔مومی گڑیا کی نزاکت اور معصومیت ایسی کہ دشمن کو بھی پیار آ جائے ۔۔۔اور وہ تو پھر بھی اس کی بہن تھی ۔۔اس سے سب سے زیادہ پیار کرنے والی۔۔۔۔۔
سمرن ہمارے درمیان آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹی تھی ۔۔۔کلدیپ اور میں دونوں ہی اس کا سینہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔جہاں گلابی نپلز چھوٹے چھوٹے ابھاروں کے اوپر مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کے جسم بھر ا بھرا تھا۔۔۔۔نازک اورپتلا پیٹ ۔۔۔سڈول رانیں ۔۔۔۔۔کلدیپ بے اختیار اس کے ایک نپل پر جھک گئی ۔۔اورہونٹوں میں لئے ہوئے چوسنے لگی۔۔۔۔۔دوسرے نپل پر میں نے اپنے ہونٹ رکھ دئے ۔۔۔۔اور چوسنے لگا۔۔۔۔چھوٹے چھوٹے سے ابھار تھے جو کسی بڑے لیموں کی طرح تھے ۔۔اور بڑی آسانی سے میرے منہ میں آ رہے تھے ۔۔۔میں اپنے ہونٹوں میں دبا کرزبان سے مساج کر رہا تھا۔۔۔۔سمرن کا جسم ہلکے سے لرزہ تھا۔۔۔۔۔اس نے بھی اپنی باجی کو اپنے سینے پرجھکے محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔اور پھر ہلکے سے آنکھیں کھول لی۔۔۔۔۔ہلکی سرخی لئے ہوئے یہ آنکھیں کسی گہرے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی نیند کی حالت میں ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ کو بھی حرکت محسوس ہوئی تو اس نے بھی اپنا سر اٹھا ۔۔۔۔اور سمرن کور کی آنکھیں کھلی دیکھیں ۔۔۔تو بے اختیار اس کو چومنے لگی ۔۔سمرن بھی ایک دم کھلتے ہوئے اس کا ساتھ دینے لگی ۔۔۔۔۔میں نے حیرت سے دیکھا ۔۔کچھ دیر پہلے ہی تو مجھ سے سیکھا ۔۔اور اب اپنی باجی پر آزما رہی ہے ۔۔۔۔بڑی چالاک نکلی یہ سمرن تو۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں بہنیں آپس میں جس طرح سے ہونٹ چومنے میں لگیں تھیں۔۔۔۔مجھے بے انتہا گرمی چڑھنے لگی ۔۔۔۔۔دونوں ہی بے حد حسین ۔۔۔۔ایک اگر کھلا ہوا گلاب تو دوسری ادھ کھلی کلی جیسے ۔۔۔ایک اگرمحبت کی علامت تھی ۔۔تو دوسری معصومیت اور نزاکت کا پیکر تھی ۔۔۔۔۔۔
میں نے کلدیپ کو پیچھے ہٹا یا ۔۔۔دونوں سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔جیسے اس دخل نامعقولات کی وجہ جاننا چاہ رہی ہوں ۔۔۔۔اور پھر سمرن کور کی کروٹ اپنی طرف کر دی۔۔۔اور اسے اشارہ کیا کہ اپنا ہنر یہاں آزمائے ۔۔۔۔پیچھے سے کلدیپ نے بھی اس سے سینے لگائے اس کے چہرے کو میری طرف موڑ دیا۔۔۔سمرن نے نازک ہونٹوں سے مجھے پہلا بوسہ دیا ۔۔۔۔اور پھر دوسر ا۔۔۔۔کیا نرم نرم لمس تھے ۔۔۔تھوڑے گیلے گیلے سے ۔۔۔۔۔۔میں مزے میں ڈوب گیا۔۔۔اور پھر سمرن میرے ہونٹوں پر آئی ۔۔۔اور چومنے کی کوشش کی ۔۔میں آنکھیں بند کئے پوری طرح محسوس کر رہا تھا۔۔۔کہ اس کی ناک میری ناک سے ٹکرائی تو میں نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔میں ہنس پڑا ۔۔سمرن کچھ شرمندہ سی ہوئی ۔۔۔۔پیچھے سے کلدیپ بھی ہنس پڑی ۔۔۔اس کے ہاتھ سمرن کے سینے پر تھے ۔۔۔جسے وہ پھیرتی ہوئی نیچے پیٹ تک لے کر جا رہی تھی۔۔ہاتھ ہٹا کر اس نے سمرن کے چہرے کوتھوڑا موڑتے ہوئے میرے چہرے پر جما دیئے ۔۔۔۔پنکھڑی سے مجھ سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔اب کی بار میری برداشت کم پڑ گئی ۔۔۔میں اس کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹنے سے روکا۔۔۔۔اور پھر بھرپور طریقے سے چومنا شروع کیا ۔۔۔۔چومنے کے بعد چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔میں نے اسے سانس لینے کو موقع بھی نہیں دیا ۔۔۔اور کئی منٹوں تک مستقل چوستا رہا۔۔۔۔ا س کی آنکھیں کچھ پھیلیں ۔مجھے پیچھے ہٹانے کی کوشش کی ۔۔۔اور پھر ناک سے ہلکے ہلکے سانس کھینچنے لگی۔۔۔۔۔میں اسی طرح پوری شدت سے ہونٹ چوسے جا رہا تھا۔۔۔جب تک میرادل نہیں بھرا میں پوری شدت سے چوستا رہا ۔۔۔۔۔سمرن کی شرم اب ختم ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔اپنی باجی کو دیکھنے کے بعد اس کی شوخی واپس آتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ایک ہاتھ میرے ہتھیار کو لگا تو میں نے کلدیپ کو دیکھا ۔۔۔وہ مسکرا رہی تھی۔۔۔۔میرا ہتھیار سمرن کی ٹانگوں میں سے اس کی طرف جھانک رہا تھا۔۔۔۔۔کلدیپ جہاں سمرن کو پیچھے سے چوم رہی تھی ۔۔اب اسے بھی ہاتھوں میں تھامتی ہوئی دبانے لگی۔۔۔۔۔
میں نے اپنی زبان نکالتے ہوئے سمرن کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ۔۔۔وہ سمجھی شاید اس بھی ہونٹوں سے چوسنا ہے ۔۔وہ زبان کی نوک پر ہی ہونٹ دبانے لگی۔۔۔۔میں نے تھوڑا زور لگایا ۔۔اور اسکے دانتوں کو کھولتا ہوا زبان اندر لے گیا۔۔اور پھر کچھ دیر رکا ۔۔۔سمرن نے اب چوسنے کی کوشش کی ۔۔۔اور اسے کامیابی بھی ہوئی ۔۔۔مجھے بےحد مزا آیا تھا۔۔۔
اور اب تو اخیر ہی ہو گئی ۔۔۔اس نے چوستے ہوئے اپنی ٹانگ اٹھاتے ہوئے میرے اوپر رکھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔جیسے غیر ارادی طور پر ہوا ہو۔۔یا پھر جان بوجھ کر۔۔۔مگر میں نے اپنی ٹانگ کو آگے بڑھا کر درمیان میں رگڑنے لگا۔۔۔ہتھیار بھی یہیں سے ہو کر کلدیپ تک پہنچ رہا تھا ۔۔۔
سمرن اب کسنگ اور چوسنے میں ایکسپرٹ ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔اس کی فطری نزاکت ان دونوں میں بھی ظاہر ہونے لگی۔۔۔وہ بڑے انداز اور نزاکت سے چومنے اور چاٹنے کا کام کر رہی تھی ۔۔ادھر کلدیپ اٹھ کر باہر جانے لگی۔۔ایک چادر اس نے اوڑھی تھی ۔۔میں نے ایک نظر اسے دیکھا ۔۔۔اور پھر سمرن کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے اوپر جھک گیا۔۔۔۔چھوٹے چھوٹے ابھار چومنے اور چوسنے کی وجہ سے لال ہو نے لگے تھے ۔۔۔مگر ابھی بھی کسر باقی تھی ۔۔۔جو میں پوری کرنے لگا۔۔۔۔ایک ابھار کے نپل کو اپنی انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے پکڑا ۔۔۔۔اور دوسرے پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے لگا۔۔۔۔
اب کی بار انداز مختلف تھا ۔۔۔۔۔اور شاید سمرن کور نے بھی پہلی مرتبہ یہ انداز دیکھا۔۔۔۔۔اس کے منہ سے بے اختیار سسکی نکلی۔۔۔آواز کی لہریں کچھ دیر اس کمرے میں گردش کرتی رہیں ۔۔۔۔۔اور پھر دوسری سسکی اس سے بھی زیادہ شہوت انگیز تھی۔۔۔۔۔۔کھنکتی ہوئی آواز تھی۔۔۔۔۔جس میں مزے کے ساتھ ہلکا درد کا پہلو بھی تھا۔۔۔۔
اپنا دوسرا ہاتھ میں اس کے پیٹ پر پھیرنے لگا۔۔۔۔ناف کے سوراخ میں کچھ دیر انگلی گھماتا رہا ۔۔۔اور پھر ناف سے نیچے ہاتھ پھسلنے لگا۔۔۔۔سمرن کور ایک دم بے چین ہونےلگی۔میرے سر پر اس کے ہاتھ آگئے۔۔۔۔۔میں نے ناف سے نیچے ہلکے سے باریک بال محسوس کئے ۔۔۔اور پھر میری انگلیوں نے اس کی سیپی کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔یہ پورا حصہ انتہائی گرم تھا ۔۔۔۔میں نے سیپی پر انگلی پھیری ۔۔۔۔۔ہلکے سے گیلے پن کا احساس ہو ا۔۔۔اور پھر مستقل انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔سمرن کی سسکیاں کچھ مختلف ہوئیں تھیں ۔۔۔جیسے یہاں سے الگ قسم کا مزہ ملا ہوا۔۔۔۔میں نے ایک ابھار سے اپنے ہونٹ اٹھا کر دوسرے پر رکھ دئے ۔۔اور اسی شدت سے چوسنے لگا۔۔۔۔سمرن مستقل سسکیاں بھرتی ہوئی ٹانگوں کو بھی دائیں بائیں ہلا رہی تھی۔۔۔
اتنے میں کلدیپ کمرے میں واپس آئی ۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا۔۔۔جس میں مکھن کے بڑے سے پیڑے دیکھ کر میں مسکرا اٹھا ۔۔۔۔جس لحاف کے اندر ہم نے یہ سب شروع کیا تھا وہ بیڈ کے نیچے کی طرف گر ا پڑا تھا۔۔۔۔جسموں کی گرمی میں اس کی ضرورت ہی کہاں تھی۔۔۔۔۔سمرن نے بھی حیرت سے کلدیپ کے ہاتھ کو دیکھا ۔۔۔۔کلدیپ اپنی چادر اتار کر بیڈ پر واپس آئی ۔۔۔۔اور دوبارہ سے لحاف سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔میں بھی واپس اپنی پوزیشن پر آیا۔۔۔کلدیپ کو دیکھ کر ہاتھ بھی رکے تھے۔۔۔۔۔میں واپس اس کے ابھاروں کو چوسنے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ اس کے برابر ہی آ کر لیٹی۔۔۔۔اس کا دودھیا جسم بھی دعوت دے رہا تھا ۔۔مگر سمرن کی کشش ادھر دیکھنے کی اجاز ت بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔میں ابھاروں کو چوسنے لگا۔۔۔۔اتنے میں کلدیپ نے مکھن کا ایک ٹکڑا اس کے سینے پر ڈالا ۔۔۔جو تیرتے ہوئے ابھار کے اوپر آنے لگا۔۔میں نے اس کا تعاقب کیا ۔۔اور عین نپل کے اوپر آ کر پکڑ لیا ۔۔۔نپل بھی ساتھ ہی میرے منہ میں آئے تھے ۔۔۔نمکین سا زائقہ محسوس ہوا ۔۔۔۔۔میرے چوسنا بھی شدید تھا ۔۔۔جس نے سمرن کی بھی کراہ نکالی تھی۔۔۔۔۔اتنے میں کلدیپ لحاف میں نیچے کی طرف کھسک گئی ۔۔۔میں نے لحاف تھوڑا پیچھے کر دیا ۔۔۔ایسے کہ کلدیپ خود تو لحاف میں تھی ۔۔۔۔۔مگر سمرن باہر ہی تھی۔۔۔۔۔کلدیپ نے اس کی ٹانگیں کھولیں تھیں۔۔۔اور درمیان میں آگئی ۔۔۔مکھن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس نے ناف کے اوپر اور نیچے پھیلا دئے ۔۔مکھن کی سفید ی سے ناف کے نیچے کا پورا حصہ سفید ہو گیا ۔۔۔۔نازک سی چوت کے باریک لب بھی چھپ گئے ۔۔۔کلدیپ تھوڑی اور پیچھے ہوئی۔۔اور پھر جھک کر چوسنے لگی۔۔پہلے ناف سے اور پھر۔۔تھوڑی ہی دیر میں وہ چوت کے اوپر آ گئی ۔۔۔۔۔
میں اپنے کام میں مصروف تھا۔۔۔۔ایکدم سے سمرن کی کمر اوپر اونچی اچھلی ۔۔۔۔میں نے نیچے دیکھا تو کلدیپ کو سمرن کے درمیان میں دیکھا۔۔۔۔سمرن کی سسکیاں اور تیز نکلی ۔۔۔ساتھ ہی کمر ایک مرتبہ پھر سے اچھلی ۔۔۔۔۔اور پھر کمرہ اس کی سسکیوں سے گونجنے لگا۔۔۔وہ بے خبری میں میرے بال کھینچے جا رہی تھی۔۔۔میں نے بھی اپنی طرف سے بھرپور چوسائی شروع کی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔سمرن منہ کھولے ہوئے سسکیاں بھرتی جا رہی تھی ۔۔۔اس کی ٹانگیں بار بار تڑپ کر دائیں بائیں پھیلتی ۔۔۔مگر کلدیپ ان سب سے بے خبر سکون سےزبان پھیرتی ہوئی اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کا ایک ہاتھ حرکت میں آیا ۔۔۔۔اور میری طرف آنے لگا۔۔۔۔پہلے رانوں پر پہنچا۔۔۔اور پھر میرے ہتھیار پر آ گیا۔۔۔ایسے لگا جیسے وہ دونوں کو ایک ہی وقت میں تیار کر رہی ہو ۔۔۔۔اس کےہاتھ میں کچھ مکھن باقی تھا۔۔۔جو میرے ہتھیار پر ملتے ہوئے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔سمرن کور کی سسکاریاں اور بڑھ چکی تھی ۔۔۔اب وہ باربار کمر کو جھٹکے دئے جا رہی تھی۔۔۔۔۔آنکھیں بند ہو چلی تھیں۔۔۔۔اورپھر ایک زور دار سسکاری سے اس نے کمر کو اچھالا۔۔۔اور ہلکے ہلکے لرزتی رہی ہے ۔۔۔۔کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اس نے پانی چھوڑا تھا۔۔۔کلدیپ نے خود کو روکا نہیں تھا۔۔۔وہ ایسے ہی زبان کو حرکت دیتی رہی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد طوفان تھما تو سمرن کور بھی تھم کر لیٹ گئی ۔۔۔اس کی آنکھوں میں گہرے سکون کی علامات تھیں ۔گہرے گہرے سانس لیتی ہوئی وہ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔۔ادھر کلدیپ کا ایک ہاتھ میرے ہتھیار کی بھی مالش کر رہا تھا۔۔۔۔۔کلدیپ سمرن کے درمیان سے اٹھتی ہوئی اس کے اوپر آنے لگی۔۔۔۔سمرن بھی اب صحیح سے اپنی باجی کے بدن کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔کلدیپ اوپر آ کر لیٹتی ہوئی اسے چومنے لگی ۔۔۔سمر ن بھی جواب دینے لگی۔۔۔۔میں نے کلدیپ کی کمر کو دیکھا۔جہاں لمبے سیاہ بال بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔بھرے بھرے بدن اور گرماتی جوانی کے ساتھ وہ بھی للچا رہی تھی۔۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ کلدیپ اور سمرن آپس میں لپٹے ہوئے ایکدوسرے سے بوس و کنار کرتے رہے ۔۔آخر میں نے کلدیپ کے اوپر ہاتھ رکھا۔۔۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔سمجھ تو گئی تھی۔۔۔اور پھر سائیڈ پر ہوتی ہوئی اس کے برابر میں جا لیٹی۔۔۔۔میں لحاف اٹھاتے ہوئے سمرن کے درمیان آیا۔۔نازک سی پنڈلیوں پر پائل بندھی ہوئی تھی ۔۔سمرن بھی مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے مکھن اٹھاتے ہوئے اچھےسے ہتھیار پر لگا دیا ۔۔۔۔کلدیپ سمرن کو چومتے ہوئے اس کا دھیان ہٹا رہی تھی۔۔۔مجھے دیکھتے ہوئے آنکھوں سے اشارہ کرنے لگی۔۔۔جیسے خیال رکھنے کا کہہ رہی ہو۔۔۔۔اور سمرن پر جھکے ہوئے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت پر پھیرنے لگی۔۔۔۔۔۔میں نے سمرن کی ٹانگوں کو موڑتے ہوئے تھوڑا سا اٹھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور ٹوپے کو اوپر رکھتے ہوئے رگڑنے لگا۔۔۔کلدیپ کا ایک ہاتھ بھی وہیں تھا۔۔اس نے اوپری طرف کے چوت کے دانے کو مسلنا شروع کردیا۔۔۔
میں نے خود کو ایڈجسٹ کیا۔۔۔اور ٹانگوں کو تھوڑا اور کھول دیا۔۔۔ٹوپے کو رکھتے ہوئے میں نے دباؤ بڑھایا ۔۔۔۔سمرن تھوڑی ہلی ۔۔۔میں مستقل دباؤ بڑھاتے ہوئے آگے کو ہوا ۔۔سختی سے ہتھیار کو پکڑے ہوئے میں اوپر یا نیچے پھسلنے سے روک رہا تھا۔۔۔۔دونوں لب کھل رہے تھے ۔۔ٹوپا بھی جگہ بنا نے لگا۔۔۔۔اور ایک ہلکے سے جھٹکے سے اندر جا رکا۔۔۔۔۔سمرن کے منہ سے نکلنے والی کراہ کافی بلند تھی۔۔۔اووئی۔۔۔۔۔۔کی آواز کمرے میں گونجی ۔۔۔کلدیپ اس کے اوپر جھکی ایک ہاتھ چوت پر مسل رہی تھی ۔۔اور خود اس کے چہرے اور مموں کو چومتے جارہی تھی۔۔۔اس نے سمرن کی چوت پر اپنے ہاتھ کو اٹھا کر مجھے رکنے کاکہا۔۔۔اور کچھ دیر تک اسے تسلیاں دیتی رہی ۔۔۔۔میں نے کچھ دیر رک کر آگے بڑھنا شروع کیا۔۔۔ہتھیار آگےسےا ور زیادہ موٹا اور پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔اسی طرح پھنسے ہوئے آگے جانے لگا۔۔۔سمرن ابھی تک کنواری ہی تھی۔۔۔۔اور آگے اس کی برداشت کا امتحا ن بھی ہونے والا تھا۔۔۔میں ہلکے ہلکے سے دباؤ بڑھا ر ہا تھا۔۔۔ کہ سمرن ایک دم تڑپی ۔۔۔اس کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔۔اس کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا۔۔۔کلدیپ مستقل اسے تسلیاں دیتی ہوئی چومے جارہی تھی۔۔۔میں کچھ دیر رکا رہا۔۔۔۔۔سمر ن روتے ہوئے کلدیپ کو مجھے ہٹانے کا کہہ رہی تھی۔۔اور کلدیپ بے تحاشہ اسے چہرے پر چومے جارہی تھی۔۔۔اس کے مموں کو نپلز کو مسلے جا رہی تھی۔۔۔۔۔سمرن کا رونا دھونا کم ہونے لگاتھا ۔۔۔۔اور اندر پھنسا ہوا ہتھیار اسے محسوس ہونے لگا۔۔جو رکا ہوا اسی کے اشارے کا منتظر تھا ۔۔
میں نے سمرن کی آواز کو ہلکے ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔۔۔تو ہلکے سے ہلا ۔۔۔مگر ڈری سہمی سمرن ایک مرتبہ پھر چلا اٹھی۔۔۔اور رکنے کا کہنے لگی۔۔میں پھر کچھ دیر تک رکا ہی رہا جب تک وہ نارمل نہیں ہو گئی۔۔۔
جب مجھے کلدیپ نے ہلکے سے بڑھنے کااشارہ کیا تو میں نےہلکی سی وائیبریشن شروع کردی۔۔۔۔سمرن سمرن ساتھ ساتھ کراہنےلگی۔۔میں ہلانے کے ساتھ ساتھ آگے بھی بڑھنے لگا۔۔۔کچھ دیر میں سمرن کا ڈر اور خوف کافی حدتک ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔درد بڑھنے کے بجائے کمی کی طرف جا رہا تھا۔جن میں کلدیپ کی کوششوں کا بھی کافی دخل تھا۔۔۔میں اسی طرح ہلتے ہلتے ہتھیار کو باہر نکلانے لگا۔۔۔۔سمرن بھی ساتھ ساتھ اسی انداز میں ہل رہی تھی۔۔۔میں نےہتھیار کو باہر نکال لیا۔۔۔اور صاف کرتے ہوئے دوبارہ مکھن مالش کرکے واپس چوت کے لبوں پر رکھ دیا۔۔۔۔سمرن اب ہلکی سی اٹھتی ہوئی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ہتھیار کو اس نے بھی حیرت سے دیکھا اور پھر کلدیپ کو دیکھنے لگی جیسے تصدیق کرنا چاہ رہی ہو۔۔۔۔اس کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے چمک رہے تھے۔۔۔۔۔
میں واپس ٹوپے کو رکھتے ہوئے دباؤ ڈالے بڑھنے لگا۔۔۔۔سمرن اسی طر ح دیکھ رہی تھی۔۔۔کسک رہی تھی۔۔۔اور کلدیپ اس کے ساتھ بیٹھی اس کے سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔۔ہتھیار اسی طرح پھنستا ہوا اندر بڑھا چلا آ رہا تھا۔۔۔۔پھسلن کے باعث کوئی دقت تو نہیں تھی۔۔مگر دائیں بائیں چوت میں پھنسے ہوئے وہ سمرن کو تڑپائے جا رہا تھا۔۔۔میں وہیں واپس تک آ کر رکا ۔۔۔اور ہلکے ہلکے سے دھکے شروع کر دئیے ۔۔۔۔ہلکی پھلکی سمرن کور کا پورا جسم بھی ایسے ہی حرکت میں ہلنے لگا۔۔۔میں نے اس کی سیدھی ٹانگ کو دائیں طرف کیا ۔۔اور بائیں والی کو اوپر اٹھا دیا۔۔۔ساتھ ہی دھکے جاری رکھے ۔۔۔۔سمرن کی منہ سے سسکاریاں بہہ نکلی تھیں۔۔۔۔۔ابھی کچھ دیر ہی گذری تھی ۔۔۔کہ ایسے ہی سسکتے ہوئے اس نے جھٹکے کھائے اور پانی چھوڑنے لگی۔۔۔
میں ہتھیار کو باہر کھینچتے ہوئے تھوڑا سائیڈ پر ہوا ۔۔۔سمرن کی ٹانگ واپس رکھتے ہوئے اسے سائیڈ پر کیا ۔۔۔۔ا ور کلدیپ کی طرف آ گیا۔۔۔اس کی ٹانگیں میرے ہاتھوں میں آئی ۔۔اور میں نے اٹھاتے ہوئے اس اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔صحت مند رانیں میرے بازؤوں میں تھی۔۔۔میں اس کو پورا اٹھاتے ہوئے اوپر جھکنے لگا۔۔۔ہتھیار ویسے ہی تنا ہوا تھا۔۔۔جو سیدھا اس کی ٹانگوں کے درمیان لہرا رہا تھا۔۔۔کلدیپ کو چومنے کے لئے میں آگے کی طرف جھکتا گیا۔۔۔۔درمیان میں اس کی ٹانگیں بھی آخری حد تک اوپر کو لگ چکی تھیں ۔۔۔ادھر میں نے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی ۔۔۔ادھر ٹوپے نے کلدیپ کی چوت پر دستک دے ڈالی۔۔
میں نے زور دیتے ہوئے ٹوپے کو اندر اتار ا۔۔۔۔اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اندر گھسا دیا۔۔۔۔۔کلدیپ کے منہ سے بھی ویسے ہی کراہ نکلی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔جسے سمرن نے حیرانگی سے سنا ۔اور اپنی باجی کو اس پوزیشن میں دیکھنے لگی۔۔۔۔۔میں گھسانے کے بعد رکا نہیں بلکہ دھکے مارنے شروع کر دیا۔۔۔۔۔جس کا جواب بھی کلدیپ نے سسکاریوں کی شکل میں دیا۔۔۔۔۔وہ میرے نیچے دبی ہوئی تھی۔۔۔میں کلدیپ کے ہونٹ چومتے ہوئے مستقل دھکے دئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔دھکوں کے زوردار ایفیکٹ نے بیڈ کو ہلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔میں پچھلے ایک گھنٹے سے سمرن کے ساتھ مصروف تھا۔۔ایک دباؤ سا جسم میں اکھٹا ہونے لگا۔۔۔پھر سمرن بھی جلدی فارغ ہوئی ۔۔اور اب یہ سارا غصہ کلدیپ پر نکلنے لگا۔۔۔میں بغیر رکے دھکےپر دھکے دینے لگا۔۔۔۔کلدیپ کی منہ سے سسکاریاں نکل نکل کمرے میں گم ہونے لگیں ۔
سمرن ہمیں دیکھ رہی تھی۔۔۔میرے جھٹکے کچھ اور تیز ہوئے ۔۔۔۔میں اپنے پورے وزن کے ساتھ جھٹکے مار رہا تھا۔۔۔کلدیپ کی بس ہو نے لگی ۔او ہ ہ ۔۔۔آہ۔۔۔۔بڑھتی جا رہی تھی۔۔اس نے مجھے اشارہ کیا۔۔میں پیچھے ہٹا اور اس کی ٹانگیں نیچے رکھتے ہوئے گھوڑی بننے کا کہا ۔۔۔۔کلدیپ سمرن کی طرف خود کو موڑتی ہوئی گھوڑی بننے لگی۔۔میں پیچھے سے آیا اور چوتڑوں کے درمیان ہتھیار پھنسا کر پھر سے دھکے شروع کر دئے۔۔۔۔۔اسپیڈ پہلے والی ہی رکھی تھی۔۔۔نیچے اس کے ممے لہراتے ہوئے جھول رہے تھے ۔۔۔سمرن کبھی اس کو دیکھتی اور کبھی مجھے دیکھتی ۔۔۔۔جو پورے زور و شور سے اس کے باجی کی سسکیاں نکلوا رہا تھا۔۔۔میں نے جھٹکے تیز کرنے شروع کر دئے ۔۔۔۔۔کلدیپ بار بار آگے کی طرف جاتی ۔۔۔میں اس کی کمر پکڑے دھکے ماری جا رہا تھا ۔۔۔۔یہ دھکے اسے آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے لٹا نے لگے تھے ۔۔۔اور پھر ایسے ہی ایک تیز دھکے سے وہ سمرن کے اوپر گری ۔۔۔۔۔میں نے ابھی اسپیڈ اور تیز ہی کی تھی ۔۔۔۔۔کہ کلدیپ بھی اوہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔کرتی ہوئی چھوٹ گئی ۔۔۔۔سمرن کو دیکھتے ہوئے وہ بھی کافی سے زیادہ گرم ہوئی تھی ۔۔اسی لئے جلدی ہی اپنی منزل کو پہنچ گئی۔۔۔جبکہ میں اسی طرح دوبارہ سمرن کی طرف بڑھا ۔۔۔۔مگر وہ کلدیپ کو دیکھتی ہوئی کچھ پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے سمر ن کی ٹانگیں پھیلا دیں ۔۔۔۔۔اور دوبارہ سے پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔۔
سمرن خوف ذدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ہتھیار کلدیپ کے پانی سے گیلا ہوا تھا۔۔۔میں نے ٹوپے کو رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔۔سمرن کے منہ سے بے اختیار آ ہ ہ۔۔اوئی ئی۔۔۔۔۔نکلی ۔۔ٹانگوں کو دائیں بائیں پھیلائےہوئے میں نے خود کو پنجوں پر لے آیا۔۔۔۔۔اور دوبارہ سے دھکے دیتے ہوئے اسپیڈ تیز کرنے لگا۔۔۔۔سمرن کے لئے یہ اسپیڈ اور یہ مزہ دونوں نئے تھے ۔۔۔۔۔بھاری بھرکم ہتھیار تباہی مچاتا ہوا ایکشن میں تھا۔۔۔۔سمرن کچھ دیر تو ہونٹ بھینچ کر آواز روکنے کی کوشش کر نے لگی۔۔۔۔۔۔مگر جیسے جیسے اسپیڈ بڑھ رہی تھی ۔۔۔ا س کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔۔۔رنگ لال سرخ ہوتا گیا۔۔۔اسپیڈ بڑھ کر تیز ہوئی ۔۔۔۔۔اور سمرن کا منہ کھل گیا۔۔۔۔سس۔۔۔ائی۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔ ۔اس نے اپنے ہاتھوں کو منہ پر رکھتے ہوئے آواز بند کرنے کی کوشش کی ۔۔مگر دھکوں سے ہاتھ خود ہی ہٹ جاتا ۔۔۔اور آواز باہر آجاتی ۔۔۔۔دھکے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔۔۔سمرن کا پورا وجود لرزش میں تھا۔۔۔کانپ رہا تھا۔۔اور منہ سے آہیں نکلے جارہی تھیں ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ کچھ اور بڑھائی ۔۔۔مجھے لگا یہ میں بھی فارغ ہونے والا ہوں۔۔۔۔۔اسپیڈ طوفانی کرنے کا بہت دل چاہا ۔۔۔۔مگر سمرن کی حالت ایسی نہیں تھی ۔۔۔اور کلدیپ تو پہلے ہی نڈھال لیٹی ہوئ ہمیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
سمرن کی آوازیں بتا رہیں تھی کہ وہ پھر سے فارغ ہونے والی ہے ۔۔۔۔غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ اپنے سینے پر اور نیچے آنے لگا۔۔۔۔۔۔آہیں اور سسکیاں اسی طرح جاری تھیں ۔۔۔۔۔۔میں نےجھٹکے تھوڑے ہی تیز کئے ۔۔۔۔۔۔سمرن کی آہیں اور بلند ہوئیں ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں دونوں ملاتے ہوئے اوپر کی طرف اس کے سینے سے لگا دیں ۔۔۔۔۔۔۔اور دھکوں کو جھٹکوں کی شکل میں لے آیا ۔۔۔۔نازک سمرن کور جھٹکوں کو برداشت کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔اس کا جسم بھی پھسلتا ہوا آگے کو جاتا ہے ۔۔میرے جسم میں بھی تناؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ تناؤ بڑھتے ہوئے نیچے کا سفر کرنے لگا۔۔۔سمرن بھی بے چین تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔جھٹکے ویسے ہی تھے۔۔۔۔۔کہ سمرن کی اونچی آہ نکلی ۔۔۔۔اور پھر چوت میں گیلے پن کی برسات ہوئی ۔۔۔میں نے ایک دوجھٹکے اور مارے ۔۔۔۔اور پھر فوارہ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔جسم کا تناؤ ایکدم سے نکلا ۔۔۔۔۔اورمیں ہلکا پھلکا ہوا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ہم تینوں ایسے ہی ساتھ ساتھ لیٹے سونے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Back
Top