Offline
- Thread Author
- #1
سہانا باجی کے ساتھ تھری سم
ویسے یہ زبر دستی کی شرافت بھی بہت اشلیل چیز ہے۔
اچھا خاصہ میالن رکھنے کے باوجود بھی انسان مزے اور
لذت کی زندگی سے دور رہتا ہے۔ لیکن شریف اشلیل بن جائے،
اس سے خدا کی پناہ مانگنا بہتر ہے۔ میرا نام سلمان ہے۔
بچپن سے پڑھاکو ہونے اور گھر کے مذہبی ماحول نے مجھے
کافی شریف بنائے رکھا۔ بچپن سے ہی صلواہ اور عبادات کا
پابند، خواتین کے سائے سے بھی دور رہنے واال حتی کہ گفتگو
میں بھی فحش کالمی سے گریز کرنے واال میں جب راستے
سے بھی گزرتا تو آنکھیں نیچے رکھتا۔ لیکن کمبخت تنہائی
مجھے اپنا لن ہاتھوں میں پکڑ کر اسے ہالنے پر مجبور کر
دیتی۔ کہانی کچھ یوں ہے؛ تب میری عمر نو سال تھی۔
مسجد کے قاری صاحب چونکہ تھوڑے تلخ مزاج واقعہ ہوئے
تھے، اور میں اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ؛ اس لئے
میری قرات کے سلسلے میں اماں نے جا کے پڑوس میں
مدرسے کی معلمہ سے بات کی۔ کیونکہ وہ مجھے جانتی
تھی، میری شرافت کے قصے اسے ازبر تھے، اسی لئے انہوں
نے بال حیل و حجت مجھے ان کے ہاں پڑھنے کی اجازت دی۔
تاہم میں معلمات کے کمرے سے منسلکہ اک چھوٹے سے کمرے
جسے شاید سٹور کے طور پر بنایا گیا تھا، کے اندر اکیلے بیٹھ
کر پڑھتا۔ معلمہ صاحبہ نے میری پڑھنے کی ذمہ داری اک
پندرہ سالہ طالبہ کو دی جو اپنی پڑھائی ختم کرکے مجھے
پڑھانے آجاتی تھی۔ انکا نام سہانا تھا، اور وہ بھی اپنے نام
کی طرح بہت خوش مزاج، ہنس مکھ اور ہلکی پھلکی رہنے
والی طالبہ تھی، تاہم میں انہیں اپنی مدرسہ ہونے کی
حیثیت سے "سہانا باجی " بالتا تھا۔ میں نے تیرہ سال کی
عمر میں پہلی دفعہ ناظرے سے پڑھ کر کالم پاک ختم کیا۔
سہانا باجی نے 17 سال کی عمر میں اپنی چار سالہ پڑھائی
ختم کی تھی۔ اور اب وہ ایک تربیت لیتی استانی "باجی" بن
چکی تھیں جن کا کام چھوٹے یا کند ذہن طالبات کے ساتھ
دہرائی کرنا تھا۔ سہانا باجی مجھے پڑھانے کمرے میں آتی تو
بعض اوقات اپنی ایک اور ہم جماعت طالبہ، جو انکی کولیگ
بھی تھیں، لے آیا کرتی تھیں۔ تاہم مجھے سبق پڑھانے کے بعد
وہ آپس میں کچھ باتیں کرتی اور ہنستی رہتیں۔ ختم کے بعد
میرا مدرسے جانا تو بند ہوا لیکن سہانا باجی کے گھر کا
سودا سلف ارینج کرنا میرے حصے میں آگیا تھا۔ اس لئے اب
انکے کام کاج کے سلسے میں گھر پر ہی حاضری دے دیا کرتا
تھا۔ مزید ڈیڑھ سال گزرا اور اب میں پندرہ کی دہلیز پر قدم
رکھنے واال تھا۔ چودہ پر پہنچتے ہی میں نے قد کاٹھ نکالنا
شروع کردیا تھا۔ ساڑھے چودہ کی عمر میں میری ہائیٹ 5
فٹ، 6 انچ ہو گئی تھی۔ وجود اگرچہ تھوڑا پتال تھا لیکن
میرے ہاتھوں کے مسلز سخت ہو گئے تھے۔ اب میرا دھیان
فطری طور پر جنس مخالف کے جسمانی ڈھول ڈھانچے کی
طرف اگیا تھا۔ اکثر سہانا باجی کے گھر جاتا، تو نظر انکے
وجود کے پیچ و تاب پہ اٹک جاتی۔ زیادہ تو کچھ نہیں جانتا
تھا لیکن سہانا باجی کی مست صاف آنکھیں، ان کے اوپر
کالی گھنی پلکیں، سفید رنگت، گال پہ بننے واال ڈمپل، اور
انکے گالبی ہو نٹ، جب بات کرتے ہوئے ہلتے تو میرے اندر
ارتعاش پیدا کردیتے تھے۔ سہانا باجی کے کپڑوں کی حس
بہت اچھی تھی۔ وہ اگرچہ پورے کپڑے پہنتی تھی لیکن اس
کی فٹنگ ایسے انداز سے رکھتی کہ انکا انگ انگ نمایاں ہوتا۔
قدرت نے سہانا باجی کو دلفریب نسوانی حسن سے نوازا
تھا۔ بات کرتے وقت میں نظر چرا کر انکے دودو کو ضرور
دیکھتا جو انکی جوانی کی امنگوں کے ترجمان تھے اور ہر
وقت کسی بارڈر پر پہرہ دینے والے سپاہی کی طرح چست
اور سخت ہوتے تھے۔ انکا پیٹ بلکل فلیٹ تھا لیکن کمر سے
نیچے ان کی گانڈ۔۔۔ افففففففففف، وہ چلتی تھی تو اسکے
چوتڑ ایسے ہلتے تھے کہ جیسے کسی غبارے کو پانی سے بھر
کر اسے جھٹکے دئے جائیں۔ سہانا باجی کو سیاہ لباس بہت
پسند تھا، جس میں انکا وجود کسی اندھیری رات میں
چمکتے چاند کی طرح منور نظر آتا۔ میرے نہم کے امتحانات
تھے، مئی کا درمیانی حصہ تھا۔ دن اب کافی لمبے ہو چکے
تھے۔ مدرسے کی بھی اوقات کاردوپہر بارہ بجے کردی گئیں
تھیں۔ آخری پیپر کیمسٹری کا تھا۔ سکول سے واپسی پر
سہانا باجی کے پاس حاضری لگوانے کو دل کیا۔ میں سیدھا
ان کے گھر گیا۔ دروازے پر پہنچ کر میں نے دستک دینے کے
لئے کنڈی کو ہاتھ لگایا تو دروازہ آہستہ سے کھل گیا۔ میں
نارمل سے انداز میں اندر داخل ہو گیا اور سہانا باجی کے
گھر کی روایت کے مطابق کنڈی لگا دی۔ ان کے گھر میں
کوئی نہیں دکھ رہا تھا۔ "شاید پڑوس میں گئے ہوں گے، پھر
آجاونگا" کی خودکالمی کے ساتھ میں وہاں سے مڑا۔ دو قدم
بھی نہیں چل پایا تھا کہ ان کے کمرے سے آاااااہ کی ایک
آواز آئی۔ مجھے تجسس ہوا۔ میں آہستہ آہستہ کمرے کی
طرف دبے پاوں چال گیا۔ جتنا قریب ہوتا جاتا، سسکاریوں
اور آاااااہ، افففففففف کی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا
تھا۔ حسب معمول سہانا باجی کے کمرے کی کھڑکی کی اک
کواڑ ادھ کھلی تھی۔ میں نے اس سے جھانکا تو دھنگ رہ
گیا۔ سہنا باجی اور ایسے۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ سہانا
باجی نے اپنی قمیض اوپر کی ہوئی تھی جس سے انکا سنگ
مرمر کی طرح کا سفید وجود صاف نظر آرہا تھا۔ اک کراہ کے
ساتھ سہانا باجی ہلی اور اپنی قمیض اور اوپر کردی۔ انکے
بھرے بھرے ممے دیکھ کر، اور جب انہوں نے اپنا گالبی نپل
اپنی انگلیوں میں رگڑا، اونہہہ کی ایک کراہ کے ساتھ جب
انہوں نے اپنا نچال ہونٹ دانتوں میں دبایااور تڑپ کر
ہائےےےےےے کی آواز نکالی تو میرا گلہ خشک ہو گیا۔
ماتھے پر آتا پسینہ اب ٹھنڈے پسینے میں بدل چکا تھا۔ میں
نے تھوڑا نیچے دیکھا، تو اک اور لڑکی انکی ٹانگوں کے بیچ
سر رکھ کر کچھ رہی تھی۔ سہانا باجی نے انکا سر پکڑا اور
نیچے دبایا۔ میں نے غور کیا تو سہانا باجی کا چوتڑ نظر آیا۔
افففففففففف انکی سفید گانڈ کی کرو کیا ہی سیکسی تھیں۔
مجھے اور حیرت تب ہوئی جب دوسری لڑکی نے اپنا سر
اٹھایا اور بال سمیٹے، آااااااااااہ؛ وہ کوئی اور نہیں بلکہ
سہانا باجی کی وہی کولیگ تھی۔ یہ کیا، وہ تو سہانا باجی
کی ٹانگوں کے بیچ ہلکے گالبی رنگ کی چوت چاٹ رہی تھی۔
اس منظر کو دیکھ کر میرے لن کو خون کی سپالئی شروع
ہوگئی اور اک منٹ کے اندر ہی پورا تن گیا۔ میں نے سمٹ کر
اپنے لن کو ٹانگوں میں دبانے کی کوشش کی تو ہاتھ ہلنے کی
وجہ سے برآمدے میں پڑے کولر سے گالس زمین پر گر گیا۔
سہانا باجی چونکی اور اوپر دیکھا تو کھڑکی کے باہر میں
کھڑا تھا۔ ان کی حیرت دیکھ کر ان کی وہی کولیگ نے
پیچھے دیکھا تو میں واپسی نکلنے کی راہ لے رہا تھا۔ انہوں
نے باہر آکر مجھے آواز دی تو میں انکے ساتھ روم میں چال
گیا۔ سہانا باجی کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا، ان کی کو لیگ کی
بھی زمیں کی طرف ہی دیکھتی رہی۔ سہانا باجی نے کہا، "
سلمان! تم کب سے یہی کھڑے تھے؟" میں نے گلہ کنکھار کر
جواب دیا، "جی وہ۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔۔۔ لیکن میں
کسی کو نہیں بتاونگا جی!" سہانا باجی نے اپنی کولیگ سے
کہا، " آپ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا؟ " انکا بھی جواب
سہمے ہوئے گلے سے بنچ کر نکل آیا تھا،" مجھے لگا۔۔۔ مجھے
لگا۔۔۔ میں نے۔۔۔ بند کردیا ہے!" مجھ سے بات کرتے وقت
سہانا باجی نے کاال دوپٹہ اوڑھ لیا تھا جس سے انکا ننگا
وجود، بھرے بھرے ممے صاف نظر آرہے تھے۔ ان کی کولیگ
نے ابھی کپڑے نہیں اتارے تھے۔ اچانک سے سہانا باجی کی
نظر میری شلوار پر پڑی۔ میرا نیا نیا جوان چھ انچ کے لوڑے
کو تنا ہوا دیکھ کر وہ حیران ہو گئیں۔ مجھے ایسے دیکھ کر
وہ مطمئن ہو گئی اور اک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنے
گالبی باریک ہونٹوں کو حرکت دی۔" اچھا تو تم ہمیں دیکھ
کر مزے لے رہے تھے؟" میں بوکھال گیا۔ سہانا باجی نے قریب
آکر میرا سر پکڑا اور دوپٹہ اتار کر اپنے مموں پر دبا دیا۔ ان
کے جسم سے آتی عود کی خوشبو نے مجھے مسحور کر دیا
تھا۔ تاہم مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اس لئے میں پسینے ہونے
لگا۔ سہانا باجی نے مجھے الگ کرکے شفقت سے کہا، " تم
بہت اچھے وقت پر آئے ہو سلمان!" پھر میرا چہرہ ہاتھوں
پکڑا اور پہلے اک گال، پھر دوسرے گال پر بوسہ لیا۔ پھر اک
ہاتھ میرے بالوں میں پھیر کر میری گردن پکڑی اور دوسرے
ہاتھ سے نپل پکڑ کر میرے منہ میں دیا۔ میں نے زبردستی
کرکے منہ میں انکا نپل پکڑا تو وہ خود ہی ہاتھ سے نپل
میرے منہ پر آہستہ آہستہ ملنے لگی۔ پھر میرے کان میں
آہستہ سے کہا،" سلمان! زور زور سے چوسو۔" میں نے اک دو
دفعہ انکی پوری چھاتی منہ می پکڑ کر چوسی تو انہوں نے
سر پیچھ جھٹک دیا۔ سہانا باجی کے نپل سخت ہو رہے تھے۔
لیکن ان کے ممے اتنے نرم تھے کہ چوس کر پوری چھاتی
جیسے میرے منہ میں آجاتی۔ ان کے نرم مموں کو مس کرنے
کے بعد میرا لن اب اور تننے لگا تھا۔ سہان باجی نے اپنی
چوت میرے تنتے لن کے ساتھ رگڑنا شروع کی اور آاااااااااہ
اور سسسسسسسسس کی آوازیں نکالنے لگی۔ پھر میرے
کندھوں کو پکڑ کر پہلے بیڈ پر بیٹھ اور پھر لیٹ گئی۔ میں
ان کے اوپر ہی آ لیٹا تھا۔ اب میرا لن پورا کھڑا ہو چکا تھا،
حتی کہ لن پر رگیں ابھر پھڑکنے لگی تھیں۔ لیکن مجھے
سہانا باجی کے ممے چوسنے کے عالوہ کچھ سمجھ نہیں آرہا
تھا۔ سہانا باجی نے میرا سر پکڑا اور اسے پیٹ کی طرف
دھکیال۔ میں نے انکے پیٹ پو چوما۔ پھر تھوڑا اور نیچے کی
طرف دھکیال۔ اب میرے ہونٹ انکی ناف کا طواف کر رہے
تھے۔ میں نے ناف سے تھوڑا نیچے چوما تو سہانا باجی تڑپ
کر رہ گئی اور منہ سے بس سسسسسسسسسسس کی آوازیں
نکالتی رہیں۔ میں نے اوپر ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنے نپل
کو چاٹتی، کاٹتی اور اسے انگلیوں میں دباتی جاتی تھی۔
سہانا باجی نے اپنی کولیگ کو اشارہ کیا۔ وہ چڑھ کر بیڈ پہ
آگئی۔ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے بیچ دھکیل کر سہانا
باجی نے اپنی ٹانگوں کی گرفت مضبوط کر لی۔ میرے سر کے
بالوں میں ہاتھ پھیر کر میرا سر اپنی گالبی پھدی پر دبایا۔
میرے ہونٹ انکی پھدی پر چپک گئے تو سہانا باجی تڑپی اور
آااااااااااہ، اففففففففففف کے آوازوں کی تکرار کرنے لگی۔
پھر مجھ سے کہا،" سلمان! چاٹو اسے، چوم لو، چوس لو
لیکن اسے ٹھنڈک بخش دو! اففففففف، اااااااائی!" میں تو
پھدی ہی ایسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی فورا
سہانا باجی کے پھدی کے ہونٹ چوسنا شروع کردئے۔ سہانا
باجی اب بہت گرم ہو رہی تھی۔ دوسری طرف سہانا باجی
کی کولیگ تھی۔ انہوں نے چپکے سے میری شلوار کا ناڑا
کھوال تھا اور میرے سخت لن کو ہاتھوں میں پکڑ کر حیرت
اور خوشی سے جیسے چال اٹھی تھی۔ انہوں نے میرے لن کو
پکڑ کر پہلے اس کی لمبائی ماپی اور انگلیوں کا گھیرا بنا کر
موٹائی پرکھی۔۔۔ اور پھر میرے لن کی ٹوپی پر تھوک لگا کر
اسے ہاتھوں میں رگڑنے لگی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ
میرے انڈوں کو ہاتھ میں لے لیتی اور چومتی کبھی چاٹتی۔
ادھر سہانا باجی تڑپ رہی تھی لیکن ادھر ان کی کولیگ کے
نرم ہاتھوں کی رگڑ مجھے پاگل کر رہی تھی۔ میرے لن کو
تھوڑی دیر ہال کر سہانا باجی کی کولیگ اپنی شلوار اتار کر
سہانا باجی کے سینے پر بیٹھ گئی۔ سہانا باجی نے اسکے
مموں کو ہاتھوں میں پکڑا اور انکی پھدی چاٹنے لگی۔ کولیگ
سہانا باجی کی پہلی چومی سے ہی لہرانے لگی۔ میری نظر
سہانا باجی کے پھدی کے اوپر اک دانے جیسی گروتھ پہ
پڑی۔ میں نے محضچیک کرنے کے لئے اس پر انگلیوں میں
چٹکی لی تو سہانا باجی بے اختیار چیخی۔ مجھے بہت مزا
آیا۔ میں اس دانے سے کھیلنے لگا، اور پھدی کے ہونٹوں کو
اپنے ہونٹوں میں لے کر کھینچتا۔ اک دو دفع تو انہوں نے
برداشت کیا لیکن پھر اک موننگ اور اک وحشی افففففف اور
آاااااااااااہ کے ساتھ سہانا باجی کی پھدی نے میرے منہ پر
تھوک دیا۔ ان کی سپرا کافی طاقتور تھی۔ اب باری کولیگ
کی تھی۔ سہانا باجی نے مجھے لٹایا اور کولیگ کو اشارہ
کیا۔ انکی کولیگ میرے پیٹ پہ ا کر بیٹھ گئی۔ پھر میرے
ہونٹوں کو چوما اور سیدھے ہو کے پشت کی طرف ہاتھ بڑھا
کر میرے لن کو مسلنے لگی۔ میری حالت سنبھالنے سے نہیں
سنبھل رہی تھی۔ سہانا باجی نے اپنی کولیگ کے ہونٹوں کو
چوما اور میرا لن پکڑ کر انکی گانڈ پہ رگڑنے لگی۔ وہ اپنی
پھدی میرے ناف سے نیچے مسل رہی تھی۔ سہانہ باجی نے
ان کی گانڈ تھوڑی اوپر کی اور میرے لن کی ٹوپی پر
ایڈجسٹ کرکے اس کے کاندھے کو دبایا۔ اس کی ایک
آاااااااااہ نکلی، اور آنکھیں گول گول گھومی۔ انکا منہ میرے
لن کی موٹائی نہ سہ پانے کی وجہ سے کھال رہ گیا تھا۔
سہانا باجی پھر سے میرے منہ کے اوپر اپنی پھدی رگڑنے
لگی۔ وہ کافی گرم ہو رہی تھی۔ میں نے انکی کولیگ کو بیڈ
پر لٹایا۔ انہون نے خود ہی ٹانگیں کھولیں تو میں نے اپنا لن
انکی پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا۔ ان کا کراہنا مجھے
انہیں زور سے چودنے پر مجبور کر رہاتھا۔ سہانا باجی نے
پھدی انکے منہ پر رکھی اور ہونٹ میرے ہونٹوں پر، جتنا زور
سے وہ مجھے کس کرتی، اتنے زور سے میں اپنا لن ان کی کو
لیگ کی پھدی میں مارتا، جس سے وہ مون کرتی تو میرا
شوق بڑھتا جاتا، اور جتنا میں زور سے انکی پھدی چودتا،
اتنا ہی وہ سہانا باجی کی پھدی زور سے چاٹتی۔ تقریبا پانچ
منٹ بعد میں نے اپنا لن کولیگ کی پھدی سے نکاال تو انکی
سانس بحال ہو گئی۔ اب سہانا باجی خود ہی گھوڑی بن
گئی۔ میں نے لن انکی پھدی پر رکھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ
سے میرا لن پھدی سے ہٹا کر اپنی گانڈ کی سوراخ پر رکھا۔
میں نے اپنے لن کی ٹوپی پت تھوک مال اور اسے سہانا باجی
کی پھدی میں ڈالنے لگا تو وہ چیخنے لگی۔ میں نے اپنا لن ڈر
کے مارے ہٹایا تو انہوں نے اٹھ کر اک منٹ کے لئے میرے لن
کو چاٹا۔ اور پھر گھوڑی بن گئی۔ میں نے انکے چوتڑ پر لن
پھیرا تو انہوں نے میرے لن کی ٹوپی اپنی گانڈ کے سوراخ پر
رکھی۔ میں نے اس دفعہ انکے کولہے پکڑ لئے اور تھوڑے زور
لن کی ٹوپی ان کی تنگ ترین گانڈ میں داخل کردی۔ میں نے
دیکھا کہ درد سے ان کی ٹانگیں تھرتھرا رہی تھی۔ لیکن میں
نے لن نہیں نکاال۔ تھوڑا اور زور دیا تو انکی اااااااااااااااااہ
کی ایک رونی سی آواز سنی۔ میں نے اور زور سے پورا لن
انکی گانڈ میں ڈاال تو وہ درد سے سیدھی ہو گئی۔ ان کو
ایسے چیختا دیکھ کر ان کی کولیگ ہنس پڑی تھی۔ اب میں
رکنے واال نہیں تھا۔ میں نے اپنے پورے زور سے جلدی جلدی
انکی گانڈ کی رگیں کھول دیں۔ سہانا باجی درد سے بلکتی
تھی لیکن میرا لن انہیں اپنی گانڈ سے باہر منظور نیں تھا۔
سہانا باجی کی گانڈ پہ زور پڑتا تو وہ ہذیانی ہو کے گالیاں
بھی دینے لگتی جنہیں میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ان کو تسلی
دینے کے لئے ان کی کولیگ انکے مموں کو چوستی، کمر پر
سہالتی، بالوں میں ہاتھ پھیرتی لیکن
اففففففففففففففففففف! پہلی دفع کی چدائی، سامنے
شرافت کی دنیا سے دور استانی صاحبہ اور ان کی کولیگ۔۔۔
اتنا خوبصورت جسم، تنگ پھدی اور ورجن گانڈ! میں خود
کو کسی اور دنیا میں محسوس کررہا تھا۔ باآلخر کوئی 45
منٹ کی اس چدائی کا اختتام میں نے اپنی پیاری سہانا
باجی کی گانڈ میں اپنا پانی چھوڑ کر کیا۔ اک بات تھی،
سہانا باجی درد سے مسکرا بھی نہیں سکتی تھی لیکن وہ
ہنس رہی تھی، اور خوش ہو رہی تھی۔ ان کی کولیگ نے بھی
آنکھوں ہی آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کیا۔ سہانا باجی نے
تو کمرے سے نکلنے سے پہلے میرا لن ہی چوم لیا تھا اور
مجھے اک ٹائٹ سی ہگ دے کر وعدہ لیا کہ میں کسی کو
نہیں بتاونگا۔ میں بھی اثبات میں سر ہال کر اک اور دن کی
امید میں گھر چال آیا تھا۔
ویسے یہ زبر دستی کی شرافت بھی بہت اشلیل چیز ہے۔
اچھا خاصہ میالن رکھنے کے باوجود بھی انسان مزے اور
لذت کی زندگی سے دور رہتا ہے۔ لیکن شریف اشلیل بن جائے،
اس سے خدا کی پناہ مانگنا بہتر ہے۔ میرا نام سلمان ہے۔
بچپن سے پڑھاکو ہونے اور گھر کے مذہبی ماحول نے مجھے
کافی شریف بنائے رکھا۔ بچپن سے ہی صلواہ اور عبادات کا
پابند، خواتین کے سائے سے بھی دور رہنے واال حتی کہ گفتگو
میں بھی فحش کالمی سے گریز کرنے واال میں جب راستے
سے بھی گزرتا تو آنکھیں نیچے رکھتا۔ لیکن کمبخت تنہائی
مجھے اپنا لن ہاتھوں میں پکڑ کر اسے ہالنے پر مجبور کر
دیتی۔ کہانی کچھ یوں ہے؛ تب میری عمر نو سال تھی۔
مسجد کے قاری صاحب چونکہ تھوڑے تلخ مزاج واقعہ ہوئے
تھے، اور میں اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ؛ اس لئے
میری قرات کے سلسلے میں اماں نے جا کے پڑوس میں
مدرسے کی معلمہ سے بات کی۔ کیونکہ وہ مجھے جانتی
تھی، میری شرافت کے قصے اسے ازبر تھے، اسی لئے انہوں
نے بال حیل و حجت مجھے ان کے ہاں پڑھنے کی اجازت دی۔
تاہم میں معلمات کے کمرے سے منسلکہ اک چھوٹے سے کمرے
جسے شاید سٹور کے طور پر بنایا گیا تھا، کے اندر اکیلے بیٹھ
کر پڑھتا۔ معلمہ صاحبہ نے میری پڑھنے کی ذمہ داری اک
پندرہ سالہ طالبہ کو دی جو اپنی پڑھائی ختم کرکے مجھے
پڑھانے آجاتی تھی۔ انکا نام سہانا تھا، اور وہ بھی اپنے نام
کی طرح بہت خوش مزاج، ہنس مکھ اور ہلکی پھلکی رہنے
والی طالبہ تھی، تاہم میں انہیں اپنی مدرسہ ہونے کی
حیثیت سے "سہانا باجی " بالتا تھا۔ میں نے تیرہ سال کی
عمر میں پہلی دفعہ ناظرے سے پڑھ کر کالم پاک ختم کیا۔
سہانا باجی نے 17 سال کی عمر میں اپنی چار سالہ پڑھائی
ختم کی تھی۔ اور اب وہ ایک تربیت لیتی استانی "باجی" بن
چکی تھیں جن کا کام چھوٹے یا کند ذہن طالبات کے ساتھ
دہرائی کرنا تھا۔ سہانا باجی مجھے پڑھانے کمرے میں آتی تو
بعض اوقات اپنی ایک اور ہم جماعت طالبہ، جو انکی کولیگ
بھی تھیں، لے آیا کرتی تھیں۔ تاہم مجھے سبق پڑھانے کے بعد
وہ آپس میں کچھ باتیں کرتی اور ہنستی رہتیں۔ ختم کے بعد
میرا مدرسے جانا تو بند ہوا لیکن سہانا باجی کے گھر کا
سودا سلف ارینج کرنا میرے حصے میں آگیا تھا۔ اس لئے اب
انکے کام کاج کے سلسے میں گھر پر ہی حاضری دے دیا کرتا
تھا۔ مزید ڈیڑھ سال گزرا اور اب میں پندرہ کی دہلیز پر قدم
رکھنے واال تھا۔ چودہ پر پہنچتے ہی میں نے قد کاٹھ نکالنا
شروع کردیا تھا۔ ساڑھے چودہ کی عمر میں میری ہائیٹ 5
فٹ، 6 انچ ہو گئی تھی۔ وجود اگرچہ تھوڑا پتال تھا لیکن
میرے ہاتھوں کے مسلز سخت ہو گئے تھے۔ اب میرا دھیان
فطری طور پر جنس مخالف کے جسمانی ڈھول ڈھانچے کی
طرف اگیا تھا۔ اکثر سہانا باجی کے گھر جاتا، تو نظر انکے
وجود کے پیچ و تاب پہ اٹک جاتی۔ زیادہ تو کچھ نہیں جانتا
تھا لیکن سہانا باجی کی مست صاف آنکھیں، ان کے اوپر
کالی گھنی پلکیں، سفید رنگت، گال پہ بننے واال ڈمپل، اور
انکے گالبی ہو نٹ، جب بات کرتے ہوئے ہلتے تو میرے اندر
ارتعاش پیدا کردیتے تھے۔ سہانا باجی کے کپڑوں کی حس
بہت اچھی تھی۔ وہ اگرچہ پورے کپڑے پہنتی تھی لیکن اس
کی فٹنگ ایسے انداز سے رکھتی کہ انکا انگ انگ نمایاں ہوتا۔
قدرت نے سہانا باجی کو دلفریب نسوانی حسن سے نوازا
تھا۔ بات کرتے وقت میں نظر چرا کر انکے دودو کو ضرور
دیکھتا جو انکی جوانی کی امنگوں کے ترجمان تھے اور ہر
وقت کسی بارڈر پر پہرہ دینے والے سپاہی کی طرح چست
اور سخت ہوتے تھے۔ انکا پیٹ بلکل فلیٹ تھا لیکن کمر سے
نیچے ان کی گانڈ۔۔۔ افففففففففف، وہ چلتی تھی تو اسکے
چوتڑ ایسے ہلتے تھے کہ جیسے کسی غبارے کو پانی سے بھر
کر اسے جھٹکے دئے جائیں۔ سہانا باجی کو سیاہ لباس بہت
پسند تھا، جس میں انکا وجود کسی اندھیری رات میں
چمکتے چاند کی طرح منور نظر آتا۔ میرے نہم کے امتحانات
تھے، مئی کا درمیانی حصہ تھا۔ دن اب کافی لمبے ہو چکے
تھے۔ مدرسے کی بھی اوقات کاردوپہر بارہ بجے کردی گئیں
تھیں۔ آخری پیپر کیمسٹری کا تھا۔ سکول سے واپسی پر
سہانا باجی کے پاس حاضری لگوانے کو دل کیا۔ میں سیدھا
ان کے گھر گیا۔ دروازے پر پہنچ کر میں نے دستک دینے کے
لئے کنڈی کو ہاتھ لگایا تو دروازہ آہستہ سے کھل گیا۔ میں
نارمل سے انداز میں اندر داخل ہو گیا اور سہانا باجی کے
گھر کی روایت کے مطابق کنڈی لگا دی۔ ان کے گھر میں
کوئی نہیں دکھ رہا تھا۔ "شاید پڑوس میں گئے ہوں گے، پھر
آجاونگا" کی خودکالمی کے ساتھ میں وہاں سے مڑا۔ دو قدم
بھی نہیں چل پایا تھا کہ ان کے کمرے سے آاااااہ کی ایک
آواز آئی۔ مجھے تجسس ہوا۔ میں آہستہ آہستہ کمرے کی
طرف دبے پاوں چال گیا۔ جتنا قریب ہوتا جاتا، سسکاریوں
اور آاااااہ، افففففففف کی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا
تھا۔ حسب معمول سہانا باجی کے کمرے کی کھڑکی کی اک
کواڑ ادھ کھلی تھی۔ میں نے اس سے جھانکا تو دھنگ رہ
گیا۔ سہنا باجی اور ایسے۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ سہانا
باجی نے اپنی قمیض اوپر کی ہوئی تھی جس سے انکا سنگ
مرمر کی طرح کا سفید وجود صاف نظر آرہا تھا۔ اک کراہ کے
ساتھ سہانا باجی ہلی اور اپنی قمیض اور اوپر کردی۔ انکے
بھرے بھرے ممے دیکھ کر، اور جب انہوں نے اپنا گالبی نپل
اپنی انگلیوں میں رگڑا، اونہہہ کی ایک کراہ کے ساتھ جب
انہوں نے اپنا نچال ہونٹ دانتوں میں دبایااور تڑپ کر
ہائےےےےےے کی آواز نکالی تو میرا گلہ خشک ہو گیا۔
ماتھے پر آتا پسینہ اب ٹھنڈے پسینے میں بدل چکا تھا۔ میں
نے تھوڑا نیچے دیکھا، تو اک اور لڑکی انکی ٹانگوں کے بیچ
سر رکھ کر کچھ رہی تھی۔ سہانا باجی نے انکا سر پکڑا اور
نیچے دبایا۔ میں نے غور کیا تو سہانا باجی کا چوتڑ نظر آیا۔
افففففففففف انکی سفید گانڈ کی کرو کیا ہی سیکسی تھیں۔
مجھے اور حیرت تب ہوئی جب دوسری لڑکی نے اپنا سر
اٹھایا اور بال سمیٹے، آااااااااااہ؛ وہ کوئی اور نہیں بلکہ
سہانا باجی کی وہی کولیگ تھی۔ یہ کیا، وہ تو سہانا باجی
کی ٹانگوں کے بیچ ہلکے گالبی رنگ کی چوت چاٹ رہی تھی۔
اس منظر کو دیکھ کر میرے لن کو خون کی سپالئی شروع
ہوگئی اور اک منٹ کے اندر ہی پورا تن گیا۔ میں نے سمٹ کر
اپنے لن کو ٹانگوں میں دبانے کی کوشش کی تو ہاتھ ہلنے کی
وجہ سے برآمدے میں پڑے کولر سے گالس زمین پر گر گیا۔
سہانا باجی چونکی اور اوپر دیکھا تو کھڑکی کے باہر میں
کھڑا تھا۔ ان کی حیرت دیکھ کر ان کی وہی کولیگ نے
پیچھے دیکھا تو میں واپسی نکلنے کی راہ لے رہا تھا۔ انہوں
نے باہر آکر مجھے آواز دی تو میں انکے ساتھ روم میں چال
گیا۔ سہانا باجی کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا، ان کی کو لیگ کی
بھی زمیں کی طرف ہی دیکھتی رہی۔ سہانا باجی نے کہا، "
سلمان! تم کب سے یہی کھڑے تھے؟" میں نے گلہ کنکھار کر
جواب دیا، "جی وہ۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔۔۔ لیکن میں
کسی کو نہیں بتاونگا جی!" سہانا باجی نے اپنی کولیگ سے
کہا، " آپ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا؟ " انکا بھی جواب
سہمے ہوئے گلے سے بنچ کر نکل آیا تھا،" مجھے لگا۔۔۔ مجھے
لگا۔۔۔ میں نے۔۔۔ بند کردیا ہے!" مجھ سے بات کرتے وقت
سہانا باجی نے کاال دوپٹہ اوڑھ لیا تھا جس سے انکا ننگا
وجود، بھرے بھرے ممے صاف نظر آرہے تھے۔ ان کی کولیگ
نے ابھی کپڑے نہیں اتارے تھے۔ اچانک سے سہانا باجی کی
نظر میری شلوار پر پڑی۔ میرا نیا نیا جوان چھ انچ کے لوڑے
کو تنا ہوا دیکھ کر وہ حیران ہو گئیں۔ مجھے ایسے دیکھ کر
وہ مطمئن ہو گئی اور اک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنے
گالبی باریک ہونٹوں کو حرکت دی۔" اچھا تو تم ہمیں دیکھ
کر مزے لے رہے تھے؟" میں بوکھال گیا۔ سہانا باجی نے قریب
آکر میرا سر پکڑا اور دوپٹہ اتار کر اپنے مموں پر دبا دیا۔ ان
کے جسم سے آتی عود کی خوشبو نے مجھے مسحور کر دیا
تھا۔ تاہم مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اس لئے میں پسینے ہونے
لگا۔ سہانا باجی نے مجھے الگ کرکے شفقت سے کہا، " تم
بہت اچھے وقت پر آئے ہو سلمان!" پھر میرا چہرہ ہاتھوں
پکڑا اور پہلے اک گال، پھر دوسرے گال پر بوسہ لیا۔ پھر اک
ہاتھ میرے بالوں میں پھیر کر میری گردن پکڑی اور دوسرے
ہاتھ سے نپل پکڑ کر میرے منہ میں دیا۔ میں نے زبردستی
کرکے منہ میں انکا نپل پکڑا تو وہ خود ہی ہاتھ سے نپل
میرے منہ پر آہستہ آہستہ ملنے لگی۔ پھر میرے کان میں
آہستہ سے کہا،" سلمان! زور زور سے چوسو۔" میں نے اک دو
دفعہ انکی پوری چھاتی منہ می پکڑ کر چوسی تو انہوں نے
سر پیچھ جھٹک دیا۔ سہانا باجی کے نپل سخت ہو رہے تھے۔
لیکن ان کے ممے اتنے نرم تھے کہ چوس کر پوری چھاتی
جیسے میرے منہ میں آجاتی۔ ان کے نرم مموں کو مس کرنے
کے بعد میرا لن اب اور تننے لگا تھا۔ سہان باجی نے اپنی
چوت میرے تنتے لن کے ساتھ رگڑنا شروع کی اور آاااااااااہ
اور سسسسسسسسس کی آوازیں نکالنے لگی۔ پھر میرے
کندھوں کو پکڑ کر پہلے بیڈ پر بیٹھ اور پھر لیٹ گئی۔ میں
ان کے اوپر ہی آ لیٹا تھا۔ اب میرا لن پورا کھڑا ہو چکا تھا،
حتی کہ لن پر رگیں ابھر پھڑکنے لگی تھیں۔ لیکن مجھے
سہانا باجی کے ممے چوسنے کے عالوہ کچھ سمجھ نہیں آرہا
تھا۔ سہانا باجی نے میرا سر پکڑا اور اسے پیٹ کی طرف
دھکیال۔ میں نے انکے پیٹ پو چوما۔ پھر تھوڑا اور نیچے کی
طرف دھکیال۔ اب میرے ہونٹ انکی ناف کا طواف کر رہے
تھے۔ میں نے ناف سے تھوڑا نیچے چوما تو سہانا باجی تڑپ
کر رہ گئی اور منہ سے بس سسسسسسسسسسس کی آوازیں
نکالتی رہیں۔ میں نے اوپر ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنے نپل
کو چاٹتی، کاٹتی اور اسے انگلیوں میں دباتی جاتی تھی۔
سہانا باجی نے اپنی کولیگ کو اشارہ کیا۔ وہ چڑھ کر بیڈ پہ
آگئی۔ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے بیچ دھکیل کر سہانا
باجی نے اپنی ٹانگوں کی گرفت مضبوط کر لی۔ میرے سر کے
بالوں میں ہاتھ پھیر کر میرا سر اپنی گالبی پھدی پر دبایا۔
میرے ہونٹ انکی پھدی پر چپک گئے تو سہانا باجی تڑپی اور
آااااااااااہ، اففففففففففف کے آوازوں کی تکرار کرنے لگی۔
پھر مجھ سے کہا،" سلمان! چاٹو اسے، چوم لو، چوس لو
لیکن اسے ٹھنڈک بخش دو! اففففففف، اااااااائی!" میں تو
پھدی ہی ایسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی فورا
سہانا باجی کے پھدی کے ہونٹ چوسنا شروع کردئے۔ سہانا
باجی اب بہت گرم ہو رہی تھی۔ دوسری طرف سہانا باجی
کی کولیگ تھی۔ انہوں نے چپکے سے میری شلوار کا ناڑا
کھوال تھا اور میرے سخت لن کو ہاتھوں میں پکڑ کر حیرت
اور خوشی سے جیسے چال اٹھی تھی۔ انہوں نے میرے لن کو
پکڑ کر پہلے اس کی لمبائی ماپی اور انگلیوں کا گھیرا بنا کر
موٹائی پرکھی۔۔۔ اور پھر میرے لن کی ٹوپی پر تھوک لگا کر
اسے ہاتھوں میں رگڑنے لگی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ
میرے انڈوں کو ہاتھ میں لے لیتی اور چومتی کبھی چاٹتی۔
ادھر سہانا باجی تڑپ رہی تھی لیکن ادھر ان کی کولیگ کے
نرم ہاتھوں کی رگڑ مجھے پاگل کر رہی تھی۔ میرے لن کو
تھوڑی دیر ہال کر سہانا باجی کی کولیگ اپنی شلوار اتار کر
سہانا باجی کے سینے پر بیٹھ گئی۔ سہانا باجی نے اسکے
مموں کو ہاتھوں میں پکڑا اور انکی پھدی چاٹنے لگی۔ کولیگ
سہانا باجی کی پہلی چومی سے ہی لہرانے لگی۔ میری نظر
سہانا باجی کے پھدی کے اوپر اک دانے جیسی گروتھ پہ
پڑی۔ میں نے محضچیک کرنے کے لئے اس پر انگلیوں میں
چٹکی لی تو سہانا باجی بے اختیار چیخی۔ مجھے بہت مزا
آیا۔ میں اس دانے سے کھیلنے لگا، اور پھدی کے ہونٹوں کو
اپنے ہونٹوں میں لے کر کھینچتا۔ اک دو دفع تو انہوں نے
برداشت کیا لیکن پھر اک موننگ اور اک وحشی افففففف اور
آاااااااااااہ کے ساتھ سہانا باجی کی پھدی نے میرے منہ پر
تھوک دیا۔ ان کی سپرا کافی طاقتور تھی۔ اب باری کولیگ
کی تھی۔ سہانا باجی نے مجھے لٹایا اور کولیگ کو اشارہ
کیا۔ انکی کولیگ میرے پیٹ پہ ا کر بیٹھ گئی۔ پھر میرے
ہونٹوں کو چوما اور سیدھے ہو کے پشت کی طرف ہاتھ بڑھا
کر میرے لن کو مسلنے لگی۔ میری حالت سنبھالنے سے نہیں
سنبھل رہی تھی۔ سہانا باجی نے اپنی کولیگ کے ہونٹوں کو
چوما اور میرا لن پکڑ کر انکی گانڈ پہ رگڑنے لگی۔ وہ اپنی
پھدی میرے ناف سے نیچے مسل رہی تھی۔ سہانہ باجی نے
ان کی گانڈ تھوڑی اوپر کی اور میرے لن کی ٹوپی پر
ایڈجسٹ کرکے اس کے کاندھے کو دبایا۔ اس کی ایک
آاااااااااہ نکلی، اور آنکھیں گول گول گھومی۔ انکا منہ میرے
لن کی موٹائی نہ سہ پانے کی وجہ سے کھال رہ گیا تھا۔
سہانا باجی پھر سے میرے منہ کے اوپر اپنی پھدی رگڑنے
لگی۔ وہ کافی گرم ہو رہی تھی۔ میں نے انکی کولیگ کو بیڈ
پر لٹایا۔ انہون نے خود ہی ٹانگیں کھولیں تو میں نے اپنا لن
انکی پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا۔ ان کا کراہنا مجھے
انہیں زور سے چودنے پر مجبور کر رہاتھا۔ سہانا باجی نے
پھدی انکے منہ پر رکھی اور ہونٹ میرے ہونٹوں پر، جتنا زور
سے وہ مجھے کس کرتی، اتنے زور سے میں اپنا لن ان کی کو
لیگ کی پھدی میں مارتا، جس سے وہ مون کرتی تو میرا
شوق بڑھتا جاتا، اور جتنا میں زور سے انکی پھدی چودتا،
اتنا ہی وہ سہانا باجی کی پھدی زور سے چاٹتی۔ تقریبا پانچ
منٹ بعد میں نے اپنا لن کولیگ کی پھدی سے نکاال تو انکی
سانس بحال ہو گئی۔ اب سہانا باجی خود ہی گھوڑی بن
گئی۔ میں نے لن انکی پھدی پر رکھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ
سے میرا لن پھدی سے ہٹا کر اپنی گانڈ کی سوراخ پر رکھا۔
میں نے اپنے لن کی ٹوپی پت تھوک مال اور اسے سہانا باجی
کی پھدی میں ڈالنے لگا تو وہ چیخنے لگی۔ میں نے اپنا لن ڈر
کے مارے ہٹایا تو انہوں نے اٹھ کر اک منٹ کے لئے میرے لن
کو چاٹا۔ اور پھر گھوڑی بن گئی۔ میں نے انکے چوتڑ پر لن
پھیرا تو انہوں نے میرے لن کی ٹوپی اپنی گانڈ کے سوراخ پر
رکھی۔ میں نے اس دفعہ انکے کولہے پکڑ لئے اور تھوڑے زور
لن کی ٹوپی ان کی تنگ ترین گانڈ میں داخل کردی۔ میں نے
دیکھا کہ درد سے ان کی ٹانگیں تھرتھرا رہی تھی۔ لیکن میں
نے لن نہیں نکاال۔ تھوڑا اور زور دیا تو انکی اااااااااااااااااہ
کی ایک رونی سی آواز سنی۔ میں نے اور زور سے پورا لن
انکی گانڈ میں ڈاال تو وہ درد سے سیدھی ہو گئی۔ ان کو
ایسے چیختا دیکھ کر ان کی کولیگ ہنس پڑی تھی۔ اب میں
رکنے واال نہیں تھا۔ میں نے اپنے پورے زور سے جلدی جلدی
انکی گانڈ کی رگیں کھول دیں۔ سہانا باجی درد سے بلکتی
تھی لیکن میرا لن انہیں اپنی گانڈ سے باہر منظور نیں تھا۔
سہانا باجی کی گانڈ پہ زور پڑتا تو وہ ہذیانی ہو کے گالیاں
بھی دینے لگتی جنہیں میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ان کو تسلی
دینے کے لئے ان کی کولیگ انکے مموں کو چوستی، کمر پر
سہالتی، بالوں میں ہاتھ پھیرتی لیکن
اففففففففففففففففففف! پہلی دفع کی چدائی، سامنے
شرافت کی دنیا سے دور استانی صاحبہ اور ان کی کولیگ۔۔۔
اتنا خوبصورت جسم، تنگ پھدی اور ورجن گانڈ! میں خود
کو کسی اور دنیا میں محسوس کررہا تھا۔ باآلخر کوئی 45
منٹ کی اس چدائی کا اختتام میں نے اپنی پیاری سہانا
باجی کی گانڈ میں اپنا پانی چھوڑ کر کیا۔ اک بات تھی،
سہانا باجی درد سے مسکرا بھی نہیں سکتی تھی لیکن وہ
ہنس رہی تھی، اور خوش ہو رہی تھی۔ ان کی کولیگ نے بھی
آنکھوں ہی آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کیا۔ سہانا باجی نے
تو کمرے سے نکلنے سے پہلے میرا لن ہی چوم لیا تھا اور
مجھے اک ٹائٹ سی ہگ دے کر وعدہ لیا کہ میں کسی کو
نہیں بتاونگا۔ میں بھی اثبات میں سر ہال کر اک اور دن کی
امید میں گھر چال آیا تھا۔