Imranprince
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
شادی کی پہلی رات تھی اور میں بہت گھبرا رہی تھی، جسم کانپ رہا تھا، یہ سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی کہ اگر سلمان کو پتہ چل گیا کہ میں کنواری نہیں رہی،تو شاید وہ مجھے جان سے ہی مار دے گا۔کیونکہ میرے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔،سردیوں کے وہ رات میں کبھی نہیں بھول سکتی تھی،جب میں اور طارق اک غلطی کر بیٹھے تھے۔ آخر سلمان رات بارہ بجے کمرے میں د ا خل ہوا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا، کیونکہ میرا راز کھل جانا تھا، پھر سہاگ رات کا آغاز ہوا تو اچانک میرا شوہر میرا جسم دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور میری؟؟؟
------------------
کرن میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی کیونکہ اسے ڈ اکٹر بننے کا بہت شوق تھا اس لیے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیا اور دل لگا کر پڑھنے لگی، کرن کی کلاس میں ایک بہن بھائی بھی پڑھتے تھے، کرن کی ان سے دوستی ہو گئی۔طارق اور اس کی بہن کا زیادہ وقت کرن کےساتھ گزرتا تھا، وہ دونوں بہت آزاد خیال تھے۔
کرن اور طا رق ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور میڈیکل کی تعلیم کے بعد شادی کا پلان بھی بنا لیا، لیکن زندگی میں جو سوچا جائے ویسا نہیں بھی ہوتا۔کرن ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ایک رات نے اس لڑکی کا سب کچھ برباد کر دیا،اس کی زندگی میں ایسی بھیانک رات آئی کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔
طارق بہت جذباتی لڑکا تھا، وہ شادی سے پہلے کے جنسی تعلق کو وقت کی ضرورت سمجھتا تھا، لیکن کرن نے اس کا ایسے کسی بھی معاملے میں ساتھ نہ دیا، جب بھی وہ ایسی بات کرتا کرن شرم محسوس ہونے لگتی،اور اسے اک حد میں رکھتی تھی، لیکن پھر بھی اسے جب بھی موقع ملتا وہ کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کر لیتا تھا۔اس کا صبر جواب دے رہا تھا اور کرن ، طارق کو خود سے دور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی اور پاس بھی نہیں آنے دے رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتی کہ کیا اسے طارق کی بات مان لینی چاہیے؟
ایک سال بیت گیا، اور ایک ہفتہ کی چھٹی آئی تو سب نے باہر گھومنے کا پروگرام بنا لیا،اس طرح کرن، طارق، اسکی بہن نبیلہ اور ایک ان کا کزن حاشر کاغان کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے خوب انجوائے کرنے کا سوچ رکھا تھا، لیکن نہ جانے کیوں اک انجانہ سا خوف کرن کو گھیرے ہوئے تھا۔اسے لگتا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔
ہوٹل میں ایک ہی کمرہ لیا گیا ، کرن نے اعتراض کیا کہ ہم لڑکیوں کے لیے الگ کمرہ ہونا چاہئے، لیکن طارق نے ہنس کر ٹال دیا۔
خیر سب تھکے ہوئے تھے اس لیے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگے، پھر طارق نے کرن کو ساتھ لیا اور کچھ ضروری ارینج منٹ کے لیے باہر آ گئے، انہیں ایک گاڑی چاہئیے تھی اور کچھ کیمپنگ کا سامان بھی، ہوٹل کے کمرے میں نبیلہ اور حاشر اکیلے تھے، ایک گھنٹے بعد دونوں واپس آئے تو ہوٹل کے پاس پہنچ کر طارق کو کچھ یاد آیا اور کرن کو کمرے میں جانے کا کہ کر واپس بازار چلا گیا، کرن ہوٹل میں د اخل ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھی،لیکن جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اچانک رک گئی، کمرے میں نبیلہ اور حاشر ایک شرم ناک کھیل میں مصروف تھے، ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ کرن سمجھ گئی کہ پچھلے ایک گھنٹے سے کمرے میں کیا چل رہا تھا۔
کرن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب کیا کرے اس لیے ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر طارق کا انتظار کرنے لگی۔آدھا گھنٹہ بعد طارق آیا تو اس نے پوچھا کہ باہر کیوں بیٹھی ہو؟ کرن کہنے لگی: کچھ نہیں، میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی، لیکن اب کرن گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں ابھی تک کمرے میں وہی چکر نہ چل رہا ہو، کیونکہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ طارق کا ردِعمل کیا ہوتا۔
طارق نے کرن سے چابی لی اور کمرے کا دروازہ کھولا تو کرن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، لیکن اندر کا منظر دیکھ کر کرن کو سکون ملا، نبیلہ نہا رہی تھی اور حاشر بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا، طارق بھی شرارت کے موڑ میں تھا، اور کرن کو باہوں میں بھر لیا، وہ بچاری گھبرا گئی کہ کہیں حاشر نے دیکھ لیا تو ؟
طارق نے حاشر کو جگایا اور تیاری کرنے کا کہا، نبیلہ نہا کر باہر آ گئی اور حاشر کر دیکھ کر مسکرا رہی تھی، حاشر بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا، کرن دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ دونوں اک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور ان کو حد میں رہنا چاہئے۔
سب نے ناشتہ کیا، اور گاڑی میں بلند و بالا پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل گئے، موسم بھی اچھا تھا، بارش ہو سکتی تھی، سردی بھی کافی تھی۔حاشر نے طارق سے پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ طارق نے کوئی جواب نہ دیا اورمسکرا رہ گیا، پھر بولا: سب کے لیے سرپرائز ہے۔طارق بہت دور نکل آیا تھا، چند لوگ موجود تھے جو اب واپس جا رہے تھے، حاشر اور طارق نے گاڑی سے سامان نکالا اور دو خیمے نصب کرنے لگے، ان کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا تھا۔
کرن کچھ اپ سیٹ سی تھی، وہ نبیلہ کے ساتھ کچھ دور بیٹھی خوبصورت نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک کرن نے نبیلہ سے کہا: تم حاشر کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دے رہی ہو، مجھے سب پتہ ہے ہمارے جانے کے بعد تم دونوں کمرے میں جس کام میں مصروف تھے نا اس کا انجام اچھا نہیں ہونا۔نبیلہ نے بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: کیا بتاؤں یار،۔۔۔تم لوگ ایک گھنٹہ اور لیٹ آ جاتے تو؟؟
پھر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑی اور نبیلہ نے کہا: ڈونٹ وری ، حاشر نے پروٹیک شن یوز کیا تھا۔طارق کو اپنے پاس آتا دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئیں، پھر سب خیموں میں اپنا اپنا ساماں سیٹ کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔وہ لوگ خیموں میں دبک کر بیٹھ گئے۔
سب نے دوپہر کا کھانا کھایا، تب تک بارش بھی رک چکی تھی۔پھر اپنا اپنا مختصر سا مان لیا اور اک پہاڑی کی طرف بڑھے، حاشر اور نبیلہ آگے تھے، اور تھوڑے فاصلہ پر کرن اور طارق آ رہے تھے، درختوں اور پودوں کہ بہتات تھی، نبیلہ اور حاشر بہت آ گے نکل گئے، کرن تھک گئی اور طارق سے کہا کہ کچھ دیر سانس لے لیں۔ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے، طارق اسے دیکھے جا رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کو حاصل کرنے کا یہی موقع ہے، وہ سرک کر کرن کے پاس ہو گیا، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے، پھر تو صبر کا سارے بندٹوٹ گئے اور دونوں دیوانہ وار ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے، پھر پہلی بار کرن کو محسوس ہوا کہ وہ ساری حدیں پار کر چکی ہے، دونوں تھک گئے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔
اچانک کرن کی نظر حاشر پر پڑی جو اسے گھور رہا تھا، کرن نے جلدی جلدی اپنا لباس درست کیا، نبیلہ نے کہا: بھائی آپ کہاں رہ گئےتھے؟ ہم نے سوچا کہ کہیں آپ لوگ ہم سے بچھڑ ہی نا جائیں اس لیے ہم واپس آ گئے، سفر ایک بار پھر شروع ہوا، کچھ دور جا کر کرن نے طارق سے کہا کہ واپس چلتے ہیں شام بھی ہو رہی ہے، بارش پھر آ گئی تو مشکل ہو گئی۔
سب نے واپسی کا ارادہ کر لیا، اب کی بار حاشر اور نبیلہ کہیں دور رہ گئے، شام کا اندھیر ا پھیل چکا تھا، اچانک نبیلہ کی چیخ سن کر طارق واپس دوڑا، کرن اور طارق نے جو منظر دیکھا ان کے تو ہوش اڑ گئے، حاشر نیچے کھائی میں گر کر بے ہوش ہو چکا تھا، اور نبیلہ رو رہی تھی، طارق نے حاشر کو آوازیں دی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو طارق نے نیچے جانے کا فیصلہ کر لیا۔
کرن اور نبیلہ ڈ ر رہی تھیں، انہوں نے طارق کو روک لیا ، کرن کے پاس اک ٹارچ تھی، جب اس کے روشنی نیچے کھائی میں ڈ الی گئی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے، حاشر کا سر پھٹ چکا تھا، اور وہ اس دنیا سے جا چکا تھا۔اس وقت کسی کی مدد لینا بھی مشکل تھا ، کیونکہ وہ بہت دور آ چکے تھے، آخر وہ خیمے والی جگہ واپس آئے تو ان کی گاڑی اور خیمے غائب تھے، اب تو ان کا خون خشک ہو گیا۔
اچانک تین آدمیوں نے انہیں گھیر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے، وہ ڈ اکو تھے اور لوگوں کو لوٹتے تھے، پھر تو ان کے ساتھ کچھ بہت بھیانک ہونے والا تھا، رات ہو چکی تھی ، سردی بڑھ رہی تھی، وہ لوگ ان کو لے کر ایک پرانے سے گھر پہنچے جہاں ایک خوفناک صورت والا موٹا آدمی بیٹھا تھا، حسین اور جوان لڑکیوں کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی، اس نے آگے بڑ ھ کر طارق کی بہن کو کھنچ کر باہوں میں کس لیا، طارق کا جوان خون جوش مارنے لگا، اس کے آگے بڑھ کر اس موٹے انسان کو ایک مکا رسید کر دیا، جس سے اس کے جبڑے سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا۔
دوسرے ہی لمحے دونوں لڑکیوں کی چیخ نکل گئی، ایک ڈ اکو نے طارق کے سینے میں دو گولیاں اتار دیں اور طارق بھی مر گیا۔
موٹے سردار نےنبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس لڑکی کو آج رات کے لیے میرے حوالے کر دو، اور دوسری کو کمرے میں بند کر دو۔نبیلہ تھر تھر کانپ رہی تھی، جبکہ کرن بے ہوش ہو چکی تھی۔
جب کرن کو ہوش آیا تو اک کمرے میں تھی، اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نظر اک ادھ کھلی کھڑکی پر پڑی۔اب کرن کے پاس دو راستے تھے ۔اک اگر وہ بھاگ جاتی تو جان بچ سکتی تھی، دوسرا ان کے رحم و کرم پر رہتی تو وہ درندے اس کا جو حشر کرتے ، وہ سوچ کر ہی کانپ گئی۔
جلدی سے اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکا تو چاند کی ہلکی روشنی میں اک راستہ نیچے جاتا نظر آیا، کرن کھڑکی سے نکلنا چاہتی تھی کہ نبیلہ کی درد بھر ی چیخوں کے آواز سن کر اس پر سکتہ طاری ہو گیا، وہ ظالم نبیلہ کی عزت سے کھیل رہے تھے، کرن نے جلدی سے باہر چھلانگ لگا دی۔
وہ تیزی سے اس تنگ سے راستے پر چلی جا رہی تھی، اس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا، اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔وہ رکے بغیر چلتی رہی، آخر اک سڑک تک پہنچ گئی،دور اک گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر آ ریہ تھیں۔ لیکن سنسان سڑک پرپہنچتے ہی لڑ کھٹرا کر گر پڑی۔اور بے ہوش ہوگئی۔
جب اسے ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی اور ایک گھر میں تھی، وہ ذہنی طور اپ سیٹ ہو چکی تھی اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا، اچانک ایک عورت اندر آئی اور اس سے پوچھنے لگی، تو کرن نے جو بیتی سب بتا دی۔حاشر اور طارق جان سے جا چکے تھے، نبیلہ کا کیا بنا ہو گا کوئی کچھ نہیں کہ سکتا تھا، اس عورت نے مجھے ایک آدمی ساتھ شہر روانہ کیا، یوں میں لٹی پھٹی اپنے گھر پہنچ گئی۔
حاشر، طارق اور نبیلہ کی تلاش میں پولیس گئی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ایک مہینہ گزر گیا، کرن کی طبیعت خراب رہنے لگی، اس کا علاج ہوا اور وہ کافی بہتر ہو گئی، اس ساری بات کو کرن نے راز میں رکھا کہ کیسے وہ طارق کے ہاتھوں اپنی جوانی لٹا چکی تھی، اور کیسے ان کو اغوا کیا گیا، اس نے بس اتنا بتا دیا کہ وہ ان سے بچھڑ گئی تھی۔
سلمان اس کا کزن تھا اور اسے چاہتا بھی تھا، اس نے کرن کے رشتے کے لیے اپنے والدین کو بھیجا تو کرن کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا، کرن طارق کی موت کو بھلا نہ پائی تھی، کیونکہ طارق اس کی پہلی محبت تھا۔شادی کے دن قریب آ رہے تھے، لیکن کرن گم سم تھی، اچانک اسے آبکائیاں آنا شروع ہوئیں تو اسے ہوش آیا اور وہ واش روم دوڑی، اس کا دل دھک کر رہ گیا، وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی لیکن پڑھنا چھوڑ دیا تھا، وہ سمجھ گئی کہ اب وہ کنواری نہیں رہی تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی ہے، اس کے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔
شادی کی رات وہ کمرے میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہو گا، تھوڑی دیر بعد سلمان سہاگ کی سیج پر آنے والا تھا، کرن کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیونکہ اس کا راز کھلنے والا تھا، سلمان بچہ نہیں تھا کہ اسے پتہ نہ چلتا۔اچانک کمرے کا دورازہ کھلا اور سلمان اندر داخل ہوا، کرن سہاگ رات کے خوف سے پسینے میں بھیگ چکی تھی، اک قیامت آنے والی تھی۔
سلمان اس کے قریب آ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا، وہ صرف سر ہلا کر جواب دے رہی تھی۔آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کا ڈر تھا، سلمان نے اسے باہوں میں بھر لیا اور اس سے پیار کرنے لگا، وہ کرن کا دیوانہ تھا، اب اس کی دلی مراد پوری ہو رہی تھی۔پھر وہ ہوا جس کا ڈ ر تھا، اچانک سلمان نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کنواری نہیں ہے ،وہ پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا ہے، اس نے سوالیہ نظروں سے کرن کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی، سلمان نے لباس پہنا اور جانے لگا تو کرن اس کے سامنے کھڑی ہو گئی،کرن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
سلمان نے کہا: کرن اب کیا رہ گیا ہے، تم نے میرا دل ہی توڑ دیا ہے۔ لیکن کرن نے کہا: پہلے آپ میری بات سن لیں پھر جو فیصلہ کریں مجھے منظور ہو گا۔کرن نے اس پر جو بیتی سب کہ سنائی اور سسکیاں بھرنے لگی، سلمان اسے حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس لڑکی نے کتنی درد بھرے لمحے گزارے ہیں، محبت میں انسان اندھا ہو جاتا ہے اور بہت سی غلطیاں کر لیتا ہے، ایسے ہی کرن بھی اک غلطی کر چکی تھی جو اس کے پیٹ میں پل رہی تھی۔
وہ رات ایسے ہی گزر گئی، اگلی صبح کرن کا سلمان سے سامنہ ہوا تو وہ سر جھکائے پریشان کھڑی تھی، سلمان اس کے پاس آیا اور بولا:کرن رات والی بات کی معذرت چاہتا ہوں، تم میری زندگی ہو، میں ہر مشکل وقت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کرن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ سلمان سے لپٹ گئی اور ایک بہت بڑا بوجھ اس کے دل سے اتر گیا۔
------------------
کرن میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی کیونکہ اسے ڈ اکٹر بننے کا بہت شوق تھا اس لیے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیا اور دل لگا کر پڑھنے لگی، کرن کی کلاس میں ایک بہن بھائی بھی پڑھتے تھے، کرن کی ان سے دوستی ہو گئی۔طارق اور اس کی بہن کا زیادہ وقت کرن کےساتھ گزرتا تھا، وہ دونوں بہت آزاد خیال تھے۔
کرن اور طا رق ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور میڈیکل کی تعلیم کے بعد شادی کا پلان بھی بنا لیا، لیکن زندگی میں جو سوچا جائے ویسا نہیں بھی ہوتا۔کرن ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ایک رات نے اس لڑکی کا سب کچھ برباد کر دیا،اس کی زندگی میں ایسی بھیانک رات آئی کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔
طارق بہت جذباتی لڑکا تھا، وہ شادی سے پہلے کے جنسی تعلق کو وقت کی ضرورت سمجھتا تھا، لیکن کرن نے اس کا ایسے کسی بھی معاملے میں ساتھ نہ دیا، جب بھی وہ ایسی بات کرتا کرن شرم محسوس ہونے لگتی،اور اسے اک حد میں رکھتی تھی، لیکن پھر بھی اسے جب بھی موقع ملتا وہ کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کر لیتا تھا۔اس کا صبر جواب دے رہا تھا اور کرن ، طارق کو خود سے دور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی اور پاس بھی نہیں آنے دے رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتی کہ کیا اسے طارق کی بات مان لینی چاہیے؟
ایک سال بیت گیا، اور ایک ہفتہ کی چھٹی آئی تو سب نے باہر گھومنے کا پروگرام بنا لیا،اس طرح کرن، طارق، اسکی بہن نبیلہ اور ایک ان کا کزن حاشر کاغان کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے خوب انجوائے کرنے کا سوچ رکھا تھا، لیکن نہ جانے کیوں اک انجانہ سا خوف کرن کو گھیرے ہوئے تھا۔اسے لگتا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔
ہوٹل میں ایک ہی کمرہ لیا گیا ، کرن نے اعتراض کیا کہ ہم لڑکیوں کے لیے الگ کمرہ ہونا چاہئے، لیکن طارق نے ہنس کر ٹال دیا۔
خیر سب تھکے ہوئے تھے اس لیے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگے، پھر طارق نے کرن کو ساتھ لیا اور کچھ ضروری ارینج منٹ کے لیے باہر آ گئے، انہیں ایک گاڑی چاہئیے تھی اور کچھ کیمپنگ کا سامان بھی، ہوٹل کے کمرے میں نبیلہ اور حاشر اکیلے تھے، ایک گھنٹے بعد دونوں واپس آئے تو ہوٹل کے پاس پہنچ کر طارق کو کچھ یاد آیا اور کرن کو کمرے میں جانے کا کہ کر واپس بازار چلا گیا، کرن ہوٹل میں د اخل ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھی،لیکن جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اچانک رک گئی، کمرے میں نبیلہ اور حاشر ایک شرم ناک کھیل میں مصروف تھے، ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ کرن سمجھ گئی کہ پچھلے ایک گھنٹے سے کمرے میں کیا چل رہا تھا۔
کرن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب کیا کرے اس لیے ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر طارق کا انتظار کرنے لگی۔آدھا گھنٹہ بعد طارق آیا تو اس نے پوچھا کہ باہر کیوں بیٹھی ہو؟ کرن کہنے لگی: کچھ نہیں، میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی، لیکن اب کرن گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں ابھی تک کمرے میں وہی چکر نہ چل رہا ہو، کیونکہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ طارق کا ردِعمل کیا ہوتا۔
طارق نے کرن سے چابی لی اور کمرے کا دروازہ کھولا تو کرن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، لیکن اندر کا منظر دیکھ کر کرن کو سکون ملا، نبیلہ نہا رہی تھی اور حاشر بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا، طارق بھی شرارت کے موڑ میں تھا، اور کرن کو باہوں میں بھر لیا، وہ بچاری گھبرا گئی کہ کہیں حاشر نے دیکھ لیا تو ؟
طارق نے حاشر کو جگایا اور تیاری کرنے کا کہا، نبیلہ نہا کر باہر آ گئی اور حاشر کر دیکھ کر مسکرا رہی تھی، حاشر بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا، کرن دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ دونوں اک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور ان کو حد میں رہنا چاہئے۔
سب نے ناشتہ کیا، اور گاڑی میں بلند و بالا پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل گئے، موسم بھی اچھا تھا، بارش ہو سکتی تھی، سردی بھی کافی تھی۔حاشر نے طارق سے پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ طارق نے کوئی جواب نہ دیا اورمسکرا رہ گیا، پھر بولا: سب کے لیے سرپرائز ہے۔طارق بہت دور نکل آیا تھا، چند لوگ موجود تھے جو اب واپس جا رہے تھے، حاشر اور طارق نے گاڑی سے سامان نکالا اور دو خیمے نصب کرنے لگے، ان کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا تھا۔
کرن کچھ اپ سیٹ سی تھی، وہ نبیلہ کے ساتھ کچھ دور بیٹھی خوبصورت نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک کرن نے نبیلہ سے کہا: تم حاشر کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دے رہی ہو، مجھے سب پتہ ہے ہمارے جانے کے بعد تم دونوں کمرے میں جس کام میں مصروف تھے نا اس کا انجام اچھا نہیں ہونا۔نبیلہ نے بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: کیا بتاؤں یار،۔۔۔تم لوگ ایک گھنٹہ اور لیٹ آ جاتے تو؟؟
پھر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑی اور نبیلہ نے کہا: ڈونٹ وری ، حاشر نے پروٹیک شن یوز کیا تھا۔طارق کو اپنے پاس آتا دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئیں، پھر سب خیموں میں اپنا اپنا ساماں سیٹ کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔وہ لوگ خیموں میں دبک کر بیٹھ گئے۔
سب نے دوپہر کا کھانا کھایا، تب تک بارش بھی رک چکی تھی۔پھر اپنا اپنا مختصر سا مان لیا اور اک پہاڑی کی طرف بڑھے، حاشر اور نبیلہ آگے تھے، اور تھوڑے فاصلہ پر کرن اور طارق آ رہے تھے، درختوں اور پودوں کہ بہتات تھی، نبیلہ اور حاشر بہت آ گے نکل گئے، کرن تھک گئی اور طارق سے کہا کہ کچھ دیر سانس لے لیں۔ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے، طارق اسے دیکھے جا رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کو حاصل کرنے کا یہی موقع ہے، وہ سرک کر کرن کے پاس ہو گیا، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے، پھر تو صبر کا سارے بندٹوٹ گئے اور دونوں دیوانہ وار ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے، پھر پہلی بار کرن کو محسوس ہوا کہ وہ ساری حدیں پار کر چکی ہے، دونوں تھک گئے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔
اچانک کرن کی نظر حاشر پر پڑی جو اسے گھور رہا تھا، کرن نے جلدی جلدی اپنا لباس درست کیا، نبیلہ نے کہا: بھائی آپ کہاں رہ گئےتھے؟ ہم نے سوچا کہ کہیں آپ لوگ ہم سے بچھڑ ہی نا جائیں اس لیے ہم واپس آ گئے، سفر ایک بار پھر شروع ہوا، کچھ دور جا کر کرن نے طارق سے کہا کہ واپس چلتے ہیں شام بھی ہو رہی ہے، بارش پھر آ گئی تو مشکل ہو گئی۔
سب نے واپسی کا ارادہ کر لیا، اب کی بار حاشر اور نبیلہ کہیں دور رہ گئے، شام کا اندھیر ا پھیل چکا تھا، اچانک نبیلہ کی چیخ سن کر طارق واپس دوڑا، کرن اور طارق نے جو منظر دیکھا ان کے تو ہوش اڑ گئے، حاشر نیچے کھائی میں گر کر بے ہوش ہو چکا تھا، اور نبیلہ رو رہی تھی، طارق نے حاشر کو آوازیں دی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو طارق نے نیچے جانے کا فیصلہ کر لیا۔
کرن اور نبیلہ ڈ ر رہی تھیں، انہوں نے طارق کو روک لیا ، کرن کے پاس اک ٹارچ تھی، جب اس کے روشنی نیچے کھائی میں ڈ الی گئی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے، حاشر کا سر پھٹ چکا تھا، اور وہ اس دنیا سے جا چکا تھا۔اس وقت کسی کی مدد لینا بھی مشکل تھا ، کیونکہ وہ بہت دور آ چکے تھے، آخر وہ خیمے والی جگہ واپس آئے تو ان کی گاڑی اور خیمے غائب تھے، اب تو ان کا خون خشک ہو گیا۔
اچانک تین آدمیوں نے انہیں گھیر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے، وہ ڈ اکو تھے اور لوگوں کو لوٹتے تھے، پھر تو ان کے ساتھ کچھ بہت بھیانک ہونے والا تھا، رات ہو چکی تھی ، سردی بڑھ رہی تھی، وہ لوگ ان کو لے کر ایک پرانے سے گھر پہنچے جہاں ایک خوفناک صورت والا موٹا آدمی بیٹھا تھا، حسین اور جوان لڑکیوں کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی، اس نے آگے بڑ ھ کر طارق کی بہن کو کھنچ کر باہوں میں کس لیا، طارق کا جوان خون جوش مارنے لگا، اس کے آگے بڑھ کر اس موٹے انسان کو ایک مکا رسید کر دیا، جس سے اس کے جبڑے سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا۔
دوسرے ہی لمحے دونوں لڑکیوں کی چیخ نکل گئی، ایک ڈ اکو نے طارق کے سینے میں دو گولیاں اتار دیں اور طارق بھی مر گیا۔
موٹے سردار نےنبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس لڑکی کو آج رات کے لیے میرے حوالے کر دو، اور دوسری کو کمرے میں بند کر دو۔نبیلہ تھر تھر کانپ رہی تھی، جبکہ کرن بے ہوش ہو چکی تھی۔
جب کرن کو ہوش آیا تو اک کمرے میں تھی، اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نظر اک ادھ کھلی کھڑکی پر پڑی۔اب کرن کے پاس دو راستے تھے ۔اک اگر وہ بھاگ جاتی تو جان بچ سکتی تھی، دوسرا ان کے رحم و کرم پر رہتی تو وہ درندے اس کا جو حشر کرتے ، وہ سوچ کر ہی کانپ گئی۔
جلدی سے اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکا تو چاند کی ہلکی روشنی میں اک راستہ نیچے جاتا نظر آیا، کرن کھڑکی سے نکلنا چاہتی تھی کہ نبیلہ کی درد بھر ی چیخوں کے آواز سن کر اس پر سکتہ طاری ہو گیا، وہ ظالم نبیلہ کی عزت سے کھیل رہے تھے، کرن نے جلدی سے باہر چھلانگ لگا دی۔
وہ تیزی سے اس تنگ سے راستے پر چلی جا رہی تھی، اس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا، اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔وہ رکے بغیر چلتی رہی، آخر اک سڑک تک پہنچ گئی،دور اک گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر آ ریہ تھیں۔ لیکن سنسان سڑک پرپہنچتے ہی لڑ کھٹرا کر گر پڑی۔اور بے ہوش ہوگئی۔
جب اسے ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی اور ایک گھر میں تھی، وہ ذہنی طور اپ سیٹ ہو چکی تھی اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا، اچانک ایک عورت اندر آئی اور اس سے پوچھنے لگی، تو کرن نے جو بیتی سب بتا دی۔حاشر اور طارق جان سے جا چکے تھے، نبیلہ کا کیا بنا ہو گا کوئی کچھ نہیں کہ سکتا تھا، اس عورت نے مجھے ایک آدمی ساتھ شہر روانہ کیا، یوں میں لٹی پھٹی اپنے گھر پہنچ گئی۔
حاشر، طارق اور نبیلہ کی تلاش میں پولیس گئی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ایک مہینہ گزر گیا، کرن کی طبیعت خراب رہنے لگی، اس کا علاج ہوا اور وہ کافی بہتر ہو گئی، اس ساری بات کو کرن نے راز میں رکھا کہ کیسے وہ طارق کے ہاتھوں اپنی جوانی لٹا چکی تھی، اور کیسے ان کو اغوا کیا گیا، اس نے بس اتنا بتا دیا کہ وہ ان سے بچھڑ گئی تھی۔
سلمان اس کا کزن تھا اور اسے چاہتا بھی تھا، اس نے کرن کے رشتے کے لیے اپنے والدین کو بھیجا تو کرن کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا، کرن طارق کی موت کو بھلا نہ پائی تھی، کیونکہ طارق اس کی پہلی محبت تھا۔شادی کے دن قریب آ رہے تھے، لیکن کرن گم سم تھی، اچانک اسے آبکائیاں آنا شروع ہوئیں تو اسے ہوش آیا اور وہ واش روم دوڑی، اس کا دل دھک کر رہ گیا، وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی لیکن پڑھنا چھوڑ دیا تھا، وہ سمجھ گئی کہ اب وہ کنواری نہیں رہی تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی ہے، اس کے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔
شادی کی رات وہ کمرے میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہو گا، تھوڑی دیر بعد سلمان سہاگ کی سیج پر آنے والا تھا، کرن کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیونکہ اس کا راز کھلنے والا تھا، سلمان بچہ نہیں تھا کہ اسے پتہ نہ چلتا۔اچانک کمرے کا دورازہ کھلا اور سلمان اندر داخل ہوا، کرن سہاگ رات کے خوف سے پسینے میں بھیگ چکی تھی، اک قیامت آنے والی تھی۔
سلمان اس کے قریب آ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا، وہ صرف سر ہلا کر جواب دے رہی تھی۔آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کا ڈر تھا، سلمان نے اسے باہوں میں بھر لیا اور اس سے پیار کرنے لگا، وہ کرن کا دیوانہ تھا، اب اس کی دلی مراد پوری ہو رہی تھی۔پھر وہ ہوا جس کا ڈ ر تھا، اچانک سلمان نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کنواری نہیں ہے ،وہ پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا ہے، اس نے سوالیہ نظروں سے کرن کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی، سلمان نے لباس پہنا اور جانے لگا تو کرن اس کے سامنے کھڑی ہو گئی،کرن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
سلمان نے کہا: کرن اب کیا رہ گیا ہے، تم نے میرا دل ہی توڑ دیا ہے۔ لیکن کرن نے کہا: پہلے آپ میری بات سن لیں پھر جو فیصلہ کریں مجھے منظور ہو گا۔کرن نے اس پر جو بیتی سب کہ سنائی اور سسکیاں بھرنے لگی، سلمان اسے حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس لڑکی نے کتنی درد بھرے لمحے گزارے ہیں، محبت میں انسان اندھا ہو جاتا ہے اور بہت سی غلطیاں کر لیتا ہے، ایسے ہی کرن بھی اک غلطی کر چکی تھی جو اس کے پیٹ میں پل رہی تھی۔
وہ رات ایسے ہی گزر گئی، اگلی صبح کرن کا سلمان سے سامنہ ہوا تو وہ سر جھکائے پریشان کھڑی تھی، سلمان اس کے پاس آیا اور بولا:کرن رات والی بات کی معذرت چاہتا ہوں، تم میری زندگی ہو، میں ہر مشکل وقت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کرن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ سلمان سے لپٹ گئی اور ایک بہت بڑا بوجھ اس کے دل سے اتر گیا۔