Offline
- Thread Author
- #1
رات كے ساڑھے بارہ بجے فون کی گھنٹی کی آواز سے انسپیکٹر ساجد خان کا کمرا گنج اٹھا جس کمرے میں ساجد اپنے ِیوِی ڈاکٹر خوبصورت ب شمع پروین كے ساتھ سو رہا تھا . . . . . رنگ کی آواز سے دونوں كی آنکھ کھل گئی . . . ساجد کو شاید پتہ تھا کہ آج اور ابھی اتنی رات کو کس کا فون ہو سکتا ہے . . . صرف بیڈ سے فون تک كے جانے كے درمیان کے چند لمحوں كے فاصلے میں ساجد كے ذہن میں گزشتہ دن بھر کی کار گزاری ابھر آئی تھی . . . . کہ کس طرح اس نے اورنگی ٹاؤن كے ایک قصبہ میں چھپا مار کر شراب کو بیچنے والے ایک گروہ کو پکڑا جس میں چھے لوگوں کو گرفتار کیا گیا . . . 5 تو غنی بھائی كے آدمی تھے . . . . جس نے ساجد کو پہلی سے ہی اپنے لائن پر لا رکھا تھا . . . ہر مہینے غنی بھائی کا آدمی انسپیکٹر ساجد کو اس کے علاقے میں کالے دھندے کرنے کا ہرجانہ رشوت كے طور پر دے دیا کرتا تھا. . . . اس لیے غنی بھائی كے پانچ آدمی جو کئی کیسوں میں مطلوب تھے انہیں تھوڑی کروائی كے لیے ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا . . . مگر ان چھے میں سے ایک بدقسمت انسان کی پہنچ غنی بھائی جیسے لوگوں تک نہیں تھی. . . . وہ ایک معمولی سی گلی کا آوارہ دیکھنے والا گندہ میلا کچیلا تھا . . . . 22 سال کا نوجوان. . . جس کا باپ اورنگی ٹاؤن میں ایک چھوٹی سی گینگ کا لیڈر تھا. . . مگر ان کی حکومت اور پہنچ صرف اسی گلی تک ہی تھی. . . اسی وجہ سے انسپیکٹر ساجد نے ِاس لڑکے کو اس کیس میں حوالات میں بند کر دیا اور سارا الزام اس کے اوپر لگا دیا . . . اور آج اس لڑکے کو کوٹ سے چھے مہینے کی سزا ہوگئی . . . اور اس کا باپ جو اورنگی ٹاؤن کی صرف ایک گلی میں ہی مار پیٹ اور غنڈہ گردی میں مشہور تھا. . . کچھ بھی نہیں کر پایا. . . مگر کہتے ہے نہ. . . نہ لگنے والی چوٹ ، لگنے والی چوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے . . . اور وہ چوٹ دینے والا جان سے بڑا دشمن بن جاتا ہے . . . ساجد کو پتہ تھا کہ فون پر وہی ہوگا . . . اس آوارے لڑکے کا آوارہ باپ . . . ُٹھا کر ساجد غصے سے فون ا : ہیلو . . . دوسری طرف سے : - انسپیکٹر . . . . تم نے جو کیا اب اس کی سزا بھگتنے کو تیار رہو . . . میرے بیٹے کا جیل میں ایک ایک دن کا حساب تمہیں چکانا پڑیگا . . . ( بات پوری ہونے سے پہلی ہی ) ساجد : - ابے . . . ُکھاڑ تمہیں جو اکھاڑنا ہے ا لینا . . . اگر دوبارہ تم نے مجھے فون کیا تو میں تیرے بیٹے کی تو ماں کو تو چود ہی دیا ہے . . . بہن كے لوڑے. . . تیری بھی ماں چود دوں گا . . . . . کمینے تم جیسے گلی كے کتوں کا کیا کرنا ہے مجھے اچھی طرح پتہ ہے . . . دوسری طرف سے : دیکھ انسپکٹر . . . . زبان سنبھل کر بات کر . . . تم نے میرے بے قصور بیٹے كے ساتھ ظلم کیا ہے . . ساجد : تم جیسے نالی كے کیڑے کو ایسے ہی مسلا جاتا ہے . . . ِاس دوران انسپیکٹر ِیوِی ڈاکٹر ساجد کی ب شمع پروین. . . . بلو نائٹی میں سفید بیڈ شیٹ بچھے ہوئے بیڈ پر . . . دائیں کروٹ لئے . . . اپنے دائیں ہاتھ كی کوہنی كے بل پر اپنے َسر كے پیچھے ہاتھ ٹکاے لیٹی . . . اپنے شوہر ساجد کو فون پر کسی کو گندی گلیاں دیتے اور غصے سے گورا چہرہ لال پیلا ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی . . . یہ اسے پتہ تھا کہ . . . یہ اس کے شوہر كے ڈیوٹی میں ایسی گالم گلوچ تو عام بات ہے . . . . مگر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ ِاس وقت اس کا شوہر اپنی کرسی اور پولیس كے اہم عہدے ( پوسٹ ) پر ہونے کی وجہ سے جس شخص کو ایک معمولی سا غنڈہ موالی سمجھ کر گلیاں بک رہا ہے . . . . جس کو اس کا شوہر اپنی وردی کی طاقت دکھا رہا ہے . . . جس کو نالی کا کیڑا سمجھ کر مسل دینے کی بات کر رہا ہے . . . وہی نالی کا کیڑا ان کے زندگی کا ایک اہم حصہ بننے والا ہے . . . بستر پر لیٹی انسپکٹر ساجد خان کی 25 سال کی ِیوِی جوکہ ایک خوبصورت ب پرائیویٹ اسپتال کی مالکن اور خود ایک ڈاکٹر بھی ہے . . . اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ . . . جس شخص کو اس کا شوہر حقیر سمجھ کر اپنی وردی کا بھرم دکھا رہا ہے . . . وہ کچھ دنوں بعد شمع كے جسم کی گرمی اتارنے والا ہے . . . یہ وہی ہے جو شمع کو اصلی مرد ہونے کا احساس دلانے والا ہے . . . یہ وہی ہے . . . . جو شمع کی چکنی چوت سے بچہ دانی تک اپنا لنڈ کو اتار کر اپنی گرم منی سے اس کی پھدی کو سراب کرنے والا ہے . . . سب سے بڑی بات یہ کہ . . . . انسپکٹرساجد كے بھی تصور میں یہ نہیں تھا کہ اس نے جس شخص کو جیل میں بھیجا ہے . . وہ گلی کا آوارہ لڑکا. . . 22 سال کا نوجوان جیل سے باہر آنے كے بعد اس کی چکنی اور حیا ِیوِی کو اپنے لنڈ کا دار ب دیوانہ بنانے والا ہے . . . . . اور ِاس بات کا گمان اس كے ذہن كے آس پاس بھی نہیں گزرا ہوگا کہ کچھ مہینوں كے بعد ِیوِی كے پیٹ میں اس کی ب جو بچہ اس کے نام کا پالے گا اس بچے کے اصل باپ یہ دو آوارہ باپ اور بیٹے ھوں گیں . . . . کب کیا ہوگا یہ تو وقت آنے پر پتہ چلے گا . . . بہت جلد ہی وہ دو آوارہ معمولی سا انسان ڈاکٹر شمع كے نازک اور خوبصورت جسم کو اپنے مضبوط اور طاقتور جسم سے یہ احساس دلانے والا ہے کہ پھدی کی ہوس عہدہ اور کرسی نہیں دیکھتی صرف ایک مضبوط لنڈ اور اس لنڈ کی جان دار ڈھکے دیکھتی ہے . . . بہت جلد وہ دونوں باپ بیٹے شمع پروین كے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیلنے والے ہے . . . جس کھیل میں ڈاکٹر شمع پروین اپنا سب کچھ ہار کر بھی ایک ایسا سکھ جیتنے والی ہے جو سکھ اس کا انسپیکٹر شوہر ساجد خان سے شادی كے دو سال كی چدائی میں بھی کبھی نہیں پایا مگر کیسے . . . اور کب . . . یہ آنے والا وقت بتائے گا . . . وہ وقت . . . اور وہی وقت بتاے گا کہ انسپیکٹر ساجد خان کی کرسی اور غرور کی طاقت جیتے گی یا اس کی ِیوِی کی جسم ب کی پیاس ہارے گی جو بھی ہارے . . . ہارنا تو ساجد کو ہی ہے . . . اور اسی كے ارد گرد یہ کہانی ہے فون پر بات کرنے كے بعد ساجد واپس بیڈ کی طرف آتا ہے . . . ِیوِی بڑی ہی جہاں اس کی ب ناراضگی سے اسے دیکھ رہی تھی . . . . " سالو كے گانڈ میں جب تک ڈنڈے نہیں پڑے گے سدھرنے والے نہیں . . . مجھے دھمکیاں دیتا ہے . . " ساجد بڑبڑاتا ہوا شمع كے قریب لیٹ جاتا ہے . . . شمع : کیوں آپ اتنی گندی گندی گالیاں اپنے ُزبان سے نکلتے ہو . . . کتنی بار سمجھایا ہے آپ کو کہ میرے سامنے آپ کسی کو گالی نہ دیا کرے . . . مجھے اچھا نہیں لگتا . . " ساجد شمع کو اپنے بانہوں میں لیتے ہوئے : کیا کرے جان. . . ڈیوٹی ہی ایسی ہے کہ ہر طرح كے حقیر لوگوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے . . . یہ حقیر لوگ گالیوں کی اور ڈنڈوں کی ہی زبان سمجھتے ہے . . " شمع ساجد كے سینے سے چمٹتے ہوئے : دیکھو جان ہر کسی کو آپ حقیر نہ سمجھا کرو . . . ہر مجرم حقیر نہیں ہوتا . . . کچھ مجرموں پر جرم کئے بنا ہی ان پر الزام تھوپا جاتا ہے . . " شمع نے یہ بات بغیر کسی مقصد اور سوچ كے کہہ دی تھی. . . مگر وہ بات سیدھی ساجد كے سینے میں ایک خنجر کی طرح چبھی . . . ساجد نے ایک لمحے كے لیے تو یہ سوچا کہ شمع کو یہ کیسے پتہ کہ کل اس نے اسی طرح کے کام کو انجام دیا ہے . . اصلی مجرموں کو کچھ پیسوں کی خاطر بھاگانے كے لیے . . . گلی کے ایک معمولی سے بدمعاش كے اوپر سارا الزام تھوپ دیا تھا. . . صبح شمع کو اپنے اسپتال كے لیے دوسرے علاقے میں جانا تھا . . . جہاں شمع کا ایک چھوٹا سا اسپتال تھا . . . جس کو شمع ساجد سے نکاح ہونے سے پہلے سے ہی چلا رہی تھی . . . وہ اسپتال شمع كے مرحوم والد اقبال رضا کا تھا جس کا ایک سال پہلے ہی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت ہوگئی تھی . . . . . اس نے اپنے اکلوتی بیٹی کو بھی ڈاکٹر بنانے کی خواھش کی تھی. . جو پوری ہو چکی تھی. . . . اس کی بیٹی شمع نے ڈاکٹری کی پڑھائی امریکہ میں ُپوری کی اور آتے ہی اپنے والد کا ُپورا ہاتھ بٹایا. . . یہاں تک کے شمع نے اپنی صلاحیت سے اس اسپتال میں بہت تبدیلی بھی کی . . . اس اسپتال میں اور بھی ڈاکٹروں کو جوائنٹ کروایا . . . اور ایڈمٹ كے لیے ِا ْس َ پیشل وارڈ بنوایا . . اور اسپتال میں بہت سارے نئی ٹیکنیک كی مشینین لگوائی وغیرہ وغیرہ . . . . . اور خاص کام یہ کیا کہ اسپتال كے ہی بائونڈری میں اسٹاف كے لیے کوارٹرز بھی بنوائیں . . . اور خود بھی وہی ایک بڑے کوارٹر میں رہنے کا انتظام بھی کیا . . . کیوىکہ اس کے میکے میں اب کوئی نہیں رہا . . . اس کی ماں تو آٹھ سال پہلی ہی مر چکی تھی اور اب ایک سال پہلے اس کا باپ بھی . . . . اور ساری اسپتال اور مکان اپنی اکلوتی بیٹی شمع كے نام کر گئے . . . شمع نے اس مکان کو اچھے داموں میں بیچ کر اس کے پیسے اسپتال كے خرچ میں لگا دیے . . . شمع کا شوہر ساجد خان پولیس میں بڑی پوسٹ میں ملازم ہے جس کا نام تو ہے . . . مگر شریف دھکاوے کا . . . وجہ یہ ہے کہ شہر كے بڑے بڑے مافیا گینگ جن کا دو نمبر کا دھندا چلتا ہے . . . وہ سارے ساجد خان کی پیسے اور عیاشی کی بھوک سے اچھی طرح وقف تھے . . . . اس لیے وہ مجرم ساجد سے بلکل بھی ڈرتے نہیں تھے بلکہ ساجد كے اس علاقہ پر ڈیوٹی کرنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے . . . . اور اپنے جرم کو بےخوف انجام دیتے تھے. . . کبھی کوئی مافیا گینگ کا بندہ پکڑا جاتا تو کچھ دنوں بعد وہ بڑی آسانی سے چھوٹ بھی جاتا . . . ساجد کی ڈیوٹی جس علاقے میں ہے وہ علاقہ شمع كے 70 ً اسپتال سے تقریبا کلومیٹر دوری پر تھا. . . . . آنے جانے کی مشکلات كی وجہ سے ساجد ِاس علاقہ میں ہی اپنے سرکاری کوارٹر میں رہتا تھا اور شمع اپنے اسپتال كے کوارٹر میں ہفتے میں ایک دن ہی دونوں ساتھ رہتے تھے. . . ساجد تو اسپتال والے علاقے میں کبھی کبھار ہی جاتا تھا . . . اکثر شمع ساجد كے علاقے میں آ جاتی . . . ویسے بھی شمع ساجد كے غلط کاموں سے پریشان تھی. . . اس کا رشوت لینا اور گناہ گاروں کو بغیر سزا كے چھوڑ دینا . . . اسے اچھا نہیں لگتا تھا. . . اس نے ساجد کو کئی بار سمجھانے کی بھی کوشس کی . . . مگر کہتے ہے نہ . . . چاہے تاجوری نوٹوں سے بھری ہو . . . . بھر بھی لالچ کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا . . . . بہرحال. . . دوسرے دن صبح شمع اپنی تیاری کرکے اسپتال جانے كے لیے نکل پڑھتی ہے . . . اپنی گاڑی کو پارکنگ سے باہر ِھر چوکیدار نکالتی ہے اور پ گیٹ کھولتا ہے . . . اور اپنے ساجد صاحب کی ِیوِی ب کو سیلوٹ مرتا ہے. . . . ( جیسے پولیس والے ہاتھ پیر جھٹک کر سیلوٹ کیا کرتے ہے ) ڈاکٹر شمع پروین. . . ایک بہترین ڈاکٹر . . . ساتھ ہی ایک بلا کی خوبصورت حسینہ . . . . اپنی ذمداری کو ُپورا کرنے اپنے شوہر كے علاقے کو چھوڑ کر . . . اپنے اسپتال والے علاقے كی راہ میں سفر شروع کر دیتی ہے . . . . ِاس بات سے انجان کی دو آنکھیں اس کے گیٹ سے نکلنے كے بعد سے اس کی گاڑی كی رفتار پکڑنے تک اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھی. . . درخت كے پیچھے چھپے وہ شخص . . . اپنا موبائل نکلتا ہے . . . کسی کو کال کرتا ہے . . . اور بس . . . اتنا ہی کہتا ہے : - وہ نکل چکی ہے گاڑی میں . . . . " اورنگی ٹاؤن " ( ساجد جہاں رہتے ہے ) سے گلشن حدید ( شمع کا اسپتال جہاں ہے ) تک 170 کلومیٹر دور ہے . . . جس کو طے کرنے میں شمع کو ڈھائی سے ِتین گھنٹے تک لگنا تھا. . . . ِاس سفر كے درمیان میں کافی علاقے پڑتے ہے . . . " ایک علاقہ جس کا نام نہیں لکھا جاۓ گا " جوکہ اورنگی ٹاؤن كے قریب پڑتا تھا. . . اور یہ اورنگی ٹاؤن کے( ایریہ ) میں ہوتا ہے . . . جوکہ انسپیکٹر ساجد خان كے ان چارج میں ہے . . اور اس کے بعد ایک اور علاقہ آتا ہے "جو اورنگی ٹاؤن كے قریب پڑتا ہے . . . اور اورنگی ٹاؤن سے الگ ہوتا ہے . . . جس کا انچارج انسپیکٹر جانو خان ( جانی ) ہوتا ہے . . . جوکہ ایک ایماندار اور بہادر شخص ہے . . . جوکہ انسپیکٹر ساجد خان كی شخصیات كے بالکل ُلٹا ) ہے . . . مختلف ( ا ڈاکٹر شمع پروین اپنے کار سے سفر کو طے کر رہی تھی. . . گاڑی كے اندر اے سی سٹارٹ تھا. . . اور اسپکرز میں ہلکی میوزک كے ساتھ ایک پرانی غزل گونج رہی تھی . . . ایک مدہم دھن میں . . . ایک سوریلی دھن میں . . . سوریلی آواز . . . اور اے سی كے ہلکی ٹھنڈک کی تصورات ( اثر ) شمع كے ذہن اور جسم پر صاف ظاہر ہو رہے تھے . . . . ایسا نہیں کہ اسے نیند آ رہی ہو . . . لیکن غزل كے مطلب کی گہرائی ( دیپ میننگ ) اور دھن میں وہ کھو سی گئی تھی . . . ~ یوں زندگی کی راہ میں مجبور ہو گئے ~ ~ اتنے ہوئے قریب كے ہم دور ہوگئے . . . . ~ ~ ایسا نہیں كہ ہم کو کوئی بھی خوشی نہیں . . ~ ~ لیکن یہ زندگی بھی کوئی زندگی نہیں . .~ ~ ایسا نہیں كہ ہم کو کوئی بھی خوشی نہیں . . ~ ~ لیکن یہ زندگی بھی کوئی زندگی نہیں . . ~ ~ کیوں اس کے فیصلے ہمیں منظور ہو گئے ~ شمع كی گاڑی كے سامنے سے اچانک سے ایک سائیکل ٹکرا گئی . . . اور اس میں سوار وہ آدمی چیختے ہوئے گاڑی كی ایک طرف سڑک پر گر پڑا . . . سڑک چھوٹی، سنسان اور ٹوٹی پھوٹی ہونے کی وجہ سے شمع کی گاڑی کی زیادہ سپیڈ نہیں تھا . . . ِھر بھی ٹھوکر تو لگی ہی پ تھی . . . اور سائیکل سوار کو کتنی چوٹ لگی یہ تو بعد میں ہی پتہ چلتا . . . . شمع كے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی كے آثار صاف نظر آ رہے تھے . . . چوٹ چاہے کتنی بھی لگی ہو . . . مگر وہ آدمی سڑک پر کرا پڑا تھا . . . شمع گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آتی ہے . . . اور دوڑتی ہوئی اس آدمی كے پاس جاتی ہے . . . معمولی لباس . . ( قمیض شلوار ) پہنے ہوئے ایک پچاس سے پچپن سال کا. . . مگر ہٹا کٹا آدمی سڑک پر پڑا کرا رہا تھا . . . شکل سے وہ کسی قصبے کا باشندہ لگتا تھا . . . چہرے پر داڑھی اور بڑی مونچھیں تھی . . . ایسا لگتا ہے اس کی مونچھیں اس مرد کی مردانگی کا ثبوت دے رہی ہو . . . اور اس کی مردانگی پر فخر سے تاؤ کھائی ہوئی ہو . . . لمبے قد اور چوڑا سینہ دیکھ کر کوئی بھی کہے سکتا تھا کہ وہ مرد کافی طاقتور ہے . . . شمع اسے دیکھ کر ایک لمحے كے لیے تو گھبرائی . . . مگر غور سے دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیہوش ہو چکا ہے . . . اس کا جسم میں کوئی بڑی چوٹ تو نظر نہیں آئی . . . بس تھوڑا سا ہاتھوں سے خون بہے رہا تھا . . . . شمع سوچنے لگی : " اتنے چھوٹی سے چوٹ سے یہ پہاڑ جیسا آدمی بےہوش کیسے ہو گیا . . ہو سکتا ہے اس کو کچھ اندرونی چھوٹ لگی ہو . . ! " شمع كے ذہن میں آیا کہ ِاس آدمی کو پہلے اسپتال لے جانا ہو گا . . مگر کیسے . . ! ؟ اسے اٹھانے كے لیے تو کوئی آدمی کا ہونا ضروری ہے . . . " شمع کا یہ سوچنا ہی تھا کہ اسے سامنے سے کچھ لوگ آتے ہوے نظر آے . . . شاید وہ اسی قصبے كے لوگ ہوں گے . . . شمع نے ان لوگوں کو ایکسڈینٹ کا واقعہ بتایا . . . اور معلوم کیا کہ یہ آدمی کون ہے . . . تو پتہ چلا کہ وہ ِاس علاقے کا نہیں ہے . . کسی دوسرے قصبے کا ہوگا . . . شمع اسے اب اپنے اسپتال لے جانے کا فیصلہ کرتی ہے . . اور ان لوگوں کی مدد سے اسے گاڑی كے پچھلے سیٹ پر ِھر گاڑی ڈرائیو کرنے لیٹا کر پ لگتی ہے . . . اب گلشن حدید زیادہ دور نہیں تھا . . . مگر شمع كے لیے یہ تھوڑے فاصلے کی دوری بھی لمبی لگنے لگی تھی . . . کیوىکہ ِاس وقت اس کے پیچھے ایک انجان مرد بیہوشی کی حالت میں لیٹا ہوا تھا . . . اور وہ خود اکیلی بیابان راستوں کو طے کر رہی تھی . . . ایک انجان خوف اور خیالات كے ساتھ سفر کاٹ رہی . . . آخر قصبوں اور ویرانیوں کو پار کرتے ہوئے شہر کی آبادی تک پہنچ گئی . . . اور کچھ دیر بعد وہ اپنے اسپتال كے کمپاؤنڈ میں گاڑی کو داخل کر لیتی ہے . . . اور اپنے اسٹاف کو اس آدمی کو اندر لانے کو کہتی ہے . . ایک ڈاکٹر كو یہ ذمداری دے کر شمع اسپتال كے قریب ہی بنے اپنے گھر میں سفر كی تھکن کو دور کرنے چلی جاتی ہے . . . شمع . . . گھر پہنچ کر ایک ٹھنڈی آہ بھرتی ہے . . . جیسے اس نے سارے ٹینشن کو گھر كے دروازے سے باہر چھوڑ آیا ہو . . . . دروازے کو اندر سے بند کرکے . . . اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوتے اپنے َسر پر بندھا اسکاف کو کھول دیا . . . جیسے ہی اسکاف َسر سے ہٹایا اس کے لمبے اور کالے بال جیسے آزادی ملنے کی خوشی میں اس کی پیٹ پر لہرا سے گئے ہو . . . اس نے اپنے بالوں کو بندھا اور اپنے ڈریسنگ ٹیبل كے آدم قد آئینے كے سامنے کھڑے ہو کر اپنی شلوار قمیض اترنے لگی . . . 25 سال کی جوانی کا طوفان آہستہ آہستہ اے سی كے ٹھنڈ میں کھلنے لگا. . . انتہائی خوبصورت . . . جسم تھوڑی ہی دیر میں بے لباس ہو چکا تھا . . . شمع کچھ پل كے لیے اپنے خوبصورتی کا جیسے خود ہی موازنہ کرنے لگی . . . شمع کا پانچ فٹ پانچ انچ کا قد اس کے 34 ، 28 ، 34 کے فگر میں خوب ججتا تھا . . . اس کے گورے جسم پر جیسے قدرت نے سرخی بکھر دی ہو . . . ایک معصومیت لیے ہوئے خوبصورت چہرے پر دو بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جسے ایسا لگ رہا ہو کہ آسمان كی آغوش میں دو چاند ہو . . . اور اس کے پتلے پتلے ہونٹ ایسے تھے جیسے گلاب کی پنکریاں کھل گئی ہو . . . ایک مکمل خوبصورتی کی مورت لیے ہوئے شمع پروین آئینے كے سامنے اپنی جوانی اور خوبصورتی پر فخر کر رہی تھی . . ِھر شمع سوچنے لگی . . . پ کہ یہ جوانی اور خوبصورتی جس کے لیے ہے وہ تو اپنے عہدے كے غرور سے چور لوگوں پر اپنی دھاک جمانے سے فرصت نہیں . . . اسے میری جوانی كی پیاس كا احساس کہاں سے ہوگا . . . اور ہفتے میں ایک دن ملتا ہے وہ بھی غنڈوں موالیوں كی گفتگو میں گزر جاتا ہے . . . خیر . . . میری قسمت ہی ایسی ہے . . . اس میں اس کا کیا قصور . . ! اتنا سوچ کر شمع خود کو ّی دیتی ہوئی باتھ تسل روم کی طرف چل پڑھتی ہے . . ایک جسم کی ایک پیاس جیسے اس کے اندر ایک ہوس کی آگ سولگا دی ہو . . . ایک ایسی آگ جسے شمع چاہا کر بھی بجھا نہیں سکتی تھی . . . کیوىکہ اسے بجھانے كے لیے ایک لنڈ کی ضرورت ہوتی ہے . . . اور وہ لنڈ جو شمع كے نام کا ہے . . . جس کے لیے ایک نکاح والی رسم کو اس نے ساجد كے ساتھ پورا کیا ہوا ہے . . . . مگر اس لنڈ کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ شمع کی چوت کی پیاس بجھا سکے . . اسے صرف پیسہ کمانے کی ہوس تھی . . . . چاہے وہ پیسہ کیسے بھی آئے . . . بے قصور کو مجرم بناکر حوالات میں بند کرنے سے آئے . . . یا مجرموں کو بغیر سزا دیئے چھوڑوانے سے آئے . . . شمع کا یہی درد اسے ہمیشہ سنجیدہ بنائے رکھتا تھا ان کے اسپتال كے ذمداری میں وہ اپنا زیادہ دھیان لگاتی تھی . . . اس کے لیے اسپتال میں کام کرنے والا اسٹاف اور ان سے علاج کروانے والے مریض ہی سب کچھ تھے . . . شمع نے اسپتال کومپلیکس میں اپنے لیے جو مکان چنا تھا . . . وہ ایک مہنگا مگر بہت ہی خوبصورت . . . 500 گز كی زمین پر بنایا گیا تھا جو طرح طرح كے خوبصورت پھولوں كے درختوں سے سجا ہوا تھا . . . اور ان درختوں كے درمیان سے ایک چوڑا فوٹ پاتھ تھا. . . جو شمع كے مکان كے آنگن تک جاتا تھا . . . مکان كے اندر . . . ایک ہال روم . . . دائیں طرف دو بیڈروم . . . اور اس میں اٹیچ باتھ روم . . . . ایک میں شمع خود سوتی ہے . . . دوسرا . . . خالی پڑا ہوا . . . ہال كے بائیں طرف بھی اسی طرح كے دو بیڈروم اٹیچ باتھ روم . . . اس میں سے ایک کمرہ گھر میں کام کرنے والی کو دے رکھا ہے . . . جو کبھی کبھی اپنے گھر چلی جاتی تو کبھی اسی کمرے میں ٹھہرتی. . جوکہ گھر کا سارا کام کرتی . . . اور ہال كے ٹھیک سامنے ڈائیننگ روم . . . اس کے بائیں طرف اسٹوری روم اور دائیں طرف کچن . . . آخری ہفتے کو ( شمع ساجد كے یہاں آنے سے پہلے ) شمع كے گھر کی کام کرنے والی عورت یہ کہہ کر چھٹی لی تھی کہ وہ دوبارہ کام میں نہیں آ پائے گی. . . مگر پیر کے دن سے جب شمع واپس آئیگی تو اس کے گھر کام کرنے کسی جاننے والی کو بھیج دے گی . . . اور وہ یہیں رہے گی ( شمع كے پاس ) شمع بھی ِاس بات سے راضی تھی . . . کیوں نہ ہوتی . . . وہ چاہتی تھی کہ کوئی رات میں اس کے گھر میں ساتھ رہے . . . اس کے شوہر كے ساتھ نہ ہونے کی مجبوری . . . کسی کو تو ساتھ رکھنا ہی تھا . . . کوئی مرد کو تو وہ رکھ نہیں سکتی تھی . . . ایک عورت کو ہی سہی . . . چاہے وہ عورت نوکرانی ہی کیوں نہ ہو . . . . . . . . بہرحال . . . پرانی نوکرانی كے کہے مطابق . . . شمع كے تیار ہو کر اسپتال جانے سے پہلی ہی نئی نوکرانی آ گئی . . ڈور بیل بجی . . شمع نہانے كے بعد اپنے جسم كے اوپر سے ایک شمیز پہنے. . . . بنا براہ انڈرویر كے . . . اور دور کھولنے آگئی . . . دروازہ کھولتے ہی اس کو سامنے ایک عورت نظر آئی . . ایک لمبی چوڑی عورت . . . جی ہاں . . . . ایک عورت كے لحاظ سے وہ عورت کچھ زیادہ ہی لمبی چوڑی تھی . . . پانچ فٹ سات انچ کے قد کی ایک عورت ہلکے ہارے رنگ کے کپڑوں میں . . . . شمع کو ایک لمحے كے لیے تو خوف محسوس ہوا . . . وہ خوف اس عورت كے آواز كے ساتھ دب گیا . . . کیوىکہ اس عورت نے بڑے نرمی كے ساتھ . . . " سلام میڈم جی . . . میں نفیسہ بائی ہوں . . . مجھے آپ كے پاس نسرین بہن ( پرانی نوکرانی ) نے بھیجا ہے . . شمع : ہ . . ہا . . ہاں . . ! . . . اندر آؤ . . کہہ کر شمع نے اسے اندر آنے كے لیے دروازے کے ایک طرف ہوتے ہوئے جگہ دی . . . . اور نفیسہ بائی كے قدم شمع كے گھر كے اندر داخل ہو گئے . . مگر شمع کو یہ احساس نہیں تھا . . . کہ جس نفیسہ كے لیے اس نے دروازہ کھولا تھا . . جس نفیسہ كے قدم اس کے گھر میں داخل ہوے ہیں . . . آنے والے وقت میں شمع کو یہ احساس ہونے والا تھا کہ آج . . . نفیسہ كی شکل میں کون سی آفت گھر میں داخل ہوئی ہے . . شمع دروازہ بند کر کے . . . . نفیسہ کو صوفے پر بیٹھا کر. . . اپنے بیڈروم میں چلی گئی . . . اسپتال كے لیے تیار ہونے . . . جب وہ باہر آئی . . تو اسکائی بلیو کمیز كے نیچے وائٹ سلاکس پہنی ہوئی تھی . . اور سر پر ہمیشہ کی طرح ایک کریم اسکاف پہنی ہوئی تھی جس سے اس کا ایک بھی بال نظر نہیں آتا تھا . . اور اس کی قمیض کی لمبائی اس کے پاؤں كے پنڈلی تک پہنچتی تھی . . . ہمیشہ وہ گھر سے باہر نکلنے پر اسی طرح كے پورے کپڑے پہنا کرتی تھی . . . جس سے اس کا چہرہ اور ہاتھوں كے ہتھیلی كے علاوہ جسم کا کوئی بھی حصہ نظر نہیں آتا تھا . . . اسکاف کا کپڑا شمع کی چھاتیوں ( جہاں ابھرے ہوئے ممے ہیں ہے ) کو دھکا ہوا تھا . . . شمع کو دیکھ کر نفیسہ کھڑی ہوئی . . شمع نے اسے اشارے سے بیٹھنے کو کہا . . . اور خود بھی ایک صوفے پہ بیٹھ گئی . . ایک نظر شمع نے نفیسہ بائی پر ڈالی . . . بڑی عجیب سی لگ رہی تھی نفیسہ. . . عمر چالیس پینتالیس كے قریب ہوگی . . تھوڑی سانولی تھی . . . مگر گوراپن لیے ہوئے . . . لمبے قد میں اس کا گول چہرا . . . اور ماتھے پر بڑی اور گول سی لال بندیا . . . اور موٹے موٹے ہاتھوں میں کمیز کی میچ کی ہری چوڑیاں . . . تھوڑی موٹی مگر اس کے لمبے قد کی وجہ سے بری بھی نہیں لگتی تھی . . . 42 ، 38 ، 44 کے فگر یعنی گانڈ اور ممے بہت بڑے بڑے. . . ایک بھاری برکھم جسم لیے ہوئے نفیسہ بائی ڈاکٹر شمع كے سامنے نظریں جھکائے بیٹھی تھی . . . شمع سوچنے لگی . . یہ تو پورا لیڈی پہلوان ہے . . تجربہ کار بھی لگتی ہے . . . شمع : نفیسہ. . . ! نسرین نے تو بتا ہی دیا ہوگا کہ تمہیں ِاس گھر میں کیا کرنا ہے . . ! نفیسہ: - جی میم . . . شمع : - تم رات کو یہیں رہو گی. . . تمہارا شوہر کو کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی ؟ نفیسہ: - نہیں میم . . . میری شادی نہیں ہوئی . . . ( مسکراتی ہوئی ) تو شوہر کہاں سے ہوگا ! ؟ شمع تھوڑی حیرانی والی مسکراہٹ كے ساتھ . . . : کیا . . . . تمہاری شادی نہیں ہوئی . . نفیسہ: - نہیں مایم . . مجھے مرد لوگ پسند نہیں ہے . . . میں کیسے ایک مرد كے ساتھ زندگی گزرتی . . . شمع : - ( مسکراتے ہوئے ) ِھر کتنے مردوں كے ساتھ تو پ ! . . . . شمع كے پوچھنے كے انداز پر نفیسہ کی بھی ہنسی نکل گئی . . . : ہی . . ہی . . ہی . . . کیا میم. . . آپ بھی . . شمع : اچھا تمہیں گھر دکھا دیتی ہوں . . . ِھر تم لنچ تیار کر لینا . . . پ تب تک میں اسپتال جا کر آجآتی ہوں . . . او کے . . ! اسپتال میں ایکسڈینٹ والے آدمی ہوش میں آجاتا ہے . . . . ڈاکٹر کومل کی نگرانی میں اس شخص کو ِا ْس َ پیشل روم میں رکھا گیا تھا . . ِا ْس َ پیشل روم سیکنڈ فلور میں تھا . . جہاں ہر مریضوں كے لیے الگ کمرا مہیا کرایا جاتا ہے . . . اس مریض كے ساتھ ایک اٹینڈڈ كے لیے بھی ایک بیڈ دیا جاتا ہے . . . . . . . لیکن اس پر بھرتی ہونے والے کا پیمنٹ عام وارڈ سے ِتین گنا بڑھ جاتا . . . اس لیے وہ فلور اکثر خالی ہی رہتا . . بس کچھ روم کو چھوڑ کر . . . اس آدمی کو وہاں ڈاکٹر شمع نے اس لئے رکھا تھا کہ وہ شمع کی ہی گاڑی کے ایکسڈینٹ کی وجہ سے شمع خود اسے یہاں لائی ہے . . . اور اس کا ذمدار وہ خود کو ہی سمجھتی ہے . . . . . . . ڈاکٹر کومل ایک 35 سال کی خاتون ہے . . جسم اچھا ہے . . کوئی بھی مرد اسے دیکھے تو ضرور چودنا چاہے گا . . اس آدمی كے ہوش میں آنے كے بعد ڈاکٹر کومل ڈاکٹر شمع کو کال کرکے اطلاع کرتی ہے . . . شمع کے وہاں پہنچنے تک ڈاکٹر کومل اس کا پورا ٹریٹمنٹ ریکارڈ تیار کر لیتی ہے . . ڈاکٹر شمع كے آتے ہی . . . . . ڈاکٹر کومل اسے اس آدمی كے پاس لے جاتی ہے . . جو بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا. . شمع کو دیکھ کر وہ آدمی تکیے سے ٹیک کو چھوڑ کر بڑے ادب سے سلام کرتا ہے . : سلام میم صاحب . شمع کو لگ رہا تھا کہ وہ آدمی اسے بیہوش ہونے سے کچھ دیر پہلی ہی اسے دیکھ چکا تھا . . . . شاید وہ اسے پہچان گیا ہے . . . شمع کومل کو دیکھتی ہوئی ہوچھتی ہے . . . : کیا رپورٹ ہے اس کی . . . کومل کچھ پیپرز دیتی ہوئی : . کچھ خاص چوٹ تو نہیں ہے . . کچھ خراشوں كے علاوہ . . . َسر پر ایک چوٹ لگی ہے . . . شاید اسی چوٹ کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوا تھا . . . شمع اس آدمی کی طرف مخاطب ہو کر : کیا نام ہے آپ کا . . . ؟ وہ آدمی : منو . . . شمع : یہ کیسا نام ہے . . منو : پتہ نہیں میم صاحب . . . میں نے اپنے باپ سے پوچھا نہیں . . . شمع اس آدمی کی طرف مخاطب ہو کر : - کیا نام ہے آپ کا . . . ؟ وہ آدمی : منو . . . شمع : یہ کیسا نام ہے . . منو : پتہ نہیں میم صاحب . . میں نے اپنے باپ سے پوچھا نہیں . . . کہ اس نے میرا نام منو کیوں رکھا . . منو کی بھولی بھالی اور معصوم سے انداز پر شمع کو بھی ہنسی آگئی . . مگر وہ صرف مسکرا کر رہ گئی . . . شمع : منو تم رہتے کہاں ہو جس جگہ سے تمہیں یہاں لایا گیا . . . تم اس قصبہ كے تو نہیں تھے ! ؟ منو : میرا اب کوئی قصبہ ہے نہ کوئی اپنا ہے . . . میں اس علاقے میں کچھ کام دھندھا ڈھونڈنے گیا تھا . . . لیکن آپ نے تو مجھے اس قصبہ سے سیدھا دوزخ کا راسته دکھا دیا تھا. . . اچھا تھا نہ. . . اگر میں گاڑی كے نیچے آ جاتا تو میرا قصہ ہی ختم ہو جاتا . . . لک کر رو پڑا ِ کہتے ہوئے منو ب . . شمع کو منو کی باتوں سے ایک سیدھا سادھا انسان لگا . . . اور اس کے چہرے سے ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت پریشان ہے . . . شمع کو پتہ نہیں کیوں اس کا درد سننے کو جی چاہا . . شمع برابر والی کرسی پر بیٹھتی ہوئی کومل کو جانے کا اشارہ کرتی ہے . . کومل بنا کچھ کہے وہاں سے چلی جاتی ہے . . . اب اس کمرے میں ڈاکٹر شمع اور منو ہی رہے جاتے ہے . . . شمع منو کو روتے ہوئے دیکھ رہی تھی ایک طاقتور مرد کو ِاس طرح روتے ہوئے دیکھ کر وہ بڑی عجیب سا محسوس کر رہی تھی . شمع : منو . . . ُچپ ہو جاؤ . . . میں سمجھ سکتی ہوں کہ تمہاری حالات کچھ سہی نہیں ہے . . دیکھو تم ِاس وقت ہمارے مہمان ہو . . . تم مجھے بتاؤ آخر ایسا کیا ہوا تمھارے ساتھ جو تم جیسے طاقتور پہلوان کو بھی رونے پر مجبور کر رہا ہے . . . کوئی ظلم ہوا تمھارے ساتھ . . . یا پیسے کی کمی ہے . . . آخر کیا پریشانی ہے . . . ؟ منو تھوڑا اپنے آپ کو سنبھلتے ہوئے : بہت لمبی کہانی ہے میم صاحب . . . . آپ جان کر کیا کرے گی . . . ویسے بھی میں ابھی ٹھیک ہو . . . مجھے لگتا ہے کہ مجھے اب جانا چاہیے . . شمع : - دیکھو منو . . . . میں ایک ڈاکٹر ہوں اور تم یہاں سے جانے كے قابل ہو یا نہیں یہ میں فیصلہ کروں گی . . . ِاس وقت تمہاری ذہنی حالت سہی نہیں ہے . . . منو . . . تم یہاں کچھ دن آرام کرو تمہیں ٹھیک ہوتے ہی میں تمہیں چھوڑ دوں گی . . . شمع وہاں سے اٹھتے ہوئے سوچ رہی تھی . . . یہ تو حالات کا مارا لگتا ہے . . . اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہوگا . . . اب یہ میرے گاڑی کی ایکسڈینٹ کی وجہ سے یہاں لایا گیا ہے تو اس کی دیکھ بھال کی ذمداری بھی میری ہی ہوگی . . . . . شمع اپنے اسپتال كے ایک وارڈ بواۓ کو اپنے چمبر میں بولا کر اسے پیسے دے کر منو كی ضرورت کا سارا سامان مانگا کر منو كے سپرد کر دیتی ہے . . . . . اس دن اسپتال سے شام کو شمع گھر لوٹتی ہے . . گھر میں نفیسہ بائی كھانا تیار رکھتی ہے . . . كھانا کھا کر دونوں ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتے ہے . . . . . شمع اور نفیسہ آپس میں باتیں کرتے بھی رہتے ہے . . شمع ہمیشہ اپنے اسٹاف یا نوکروں كے ساتھ دوستانہ انداز میں ہی رہتی . . . . کبھی اپنے اندر بڑاپن آنے نہیں دیا . . وقت گزارتا گیا . . . یوں ہی دو دن گزر گئے . . . منو . . ڈاکٹر کومل کی نگرانی میں بالکل ٹھیک ہوگیا . . . اب پریشانی یہ تھی کہ منو جائے تو کہاں جائے . . ِاس بات پر ڈاکٹر کومل اور ڈاکٹر شمع آپس میں مشورہ کرتی ہے . . . اور ڈاکٹر عدنان کو بھی ِاس مشورہ میں شامل کرتی ہے . . . تینوں مل کر یہ طے کرتے ہے کہ منو کو اس اسپتال کمپاؤنڈ كے گارڈن كے کام پر رکھ لیتے ہے . . . . گارڈن كی دیکھ بھال كے لیے پہلے ایک ہی آدمی تھا ، جو کافی نہیں تھا . . . اور ایک کمرا رہنے كے لیے مہیا کروا دیتے ہے . . . منو کو جب ِاس بات کا پتہ چلتا ہے . . تو وہ بہت خوش ہوتا ہے . . اور ڈاکٹر شمع کو بہت دعائیں دیتا ہے . . وہ نکلا ہی تھا کسی کام کی تلاش میں . . . ایک ایکسڈینٹ نے اسے خود ہی کام دلا دیا . . . ادھر شمع كے گھر میں نسرین کی بھیجی ہوئی نوکرانی شمع كے ساتھ کافی گھل مل گئی تھی . . . ساتھ میں كھانا کھاتی تھی. . . ساتھ میں ٹی وی دیکھتی . . . کبھی کبھار ہنسی مذاق بھی ہوتا تھا . . . شام کو شمع اسپتال سے آنے كے بعد . . . فریش ہو کر . . . نفیسہ كے ساتھ كھانا کھانے ِھر ہال میں بیٹھ کر کے بعد پ ٹی وی دیکھنے لگی . . . . شمع نے ایک بلیو نائٹی پہنی ہوئی تھی . . . فرنٹ اوپن نائٹی كے کمر سے لیس بندھی ہوئی تھی . . . . جس سے اس کی چھاتیوں كا اوپری گورا حصہ صاف نظر آ رہا تھا . . . رات کو وہ کبھی پینٹی براہ نہیں پہنتی تھی. . شمع ایک صوفے پر بیٹھی تھی اور دائیں طرف والے صوفے پر نفیسہ بیٹھی تھی . . . دونوں ٹی وی بھی دیکھ رہی ُدھر کی باتیں تھی اور ادھر ا بھی کر رہی تھی. . ِاس دوران شمع نے نفیسہ کو منو كے بارے میں بتایا . . نفیسہ نے منو کے بارے میں باتوں کو بہت دھیان سے سنا . . . اور . . . . نفیسہ: میم . . . جب آپ اسے ٹھیک سے ِھر اس پر جانتی بھی نہیں پ اتنی مہربانی اور بھروسہ کیوں کر رہی ہو ؟ شمع : نہیں نفیسہ. . . مہربانی کی کوئی بات نہیں ہے . . . اس ایکسڈینٹ كے بعد بیہوشی کی حالت میں میں ہی یہاں لے کر آئی . . . تو اب میری ذمداری بنتی ہے نہ اس کے جانے تک اس کی دیکھ بھال کروں . . . . ِھر ڈاکٹر کومل نے اس کے پ بارے میں اس سے معلومات کی . . جو مجھے کومل نے بتایا کہ وہ بہت پرشان ہے . . اور اس کا اب ُدنیا میں کوئی نہیں ہے . . . . اس کی زمین اور گھر پر اس کے بھائی نے دھوکے سے جائیداد كے پیپرز پر دستخط کروا کر قبضہ کر لیا . . . اور اس کی بری حالت کو دیکھ کر اس کے سسرال ِیوِی والوں نے بھی اس کی ب بچوں کو اپنے پاس بلا لیا . . . اور منو سے رشتہ توڑ دیا . . . اس کا ایک بڑا بیٹا ہے جو غلط رستہ کی طرف چل کر پہلے ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا . . . اب وہ ِاس ُدنیا میں بالکل اکیلا ہے . . . . . . اگر ِاس حالت میں اسے کوئی مدد نہ ملی تو شاید ہو سکتا ہے کہ وہ خودکشی بھی کر لے . . . اوپر سے میں نے گاڑی سے بھی اسے چوٹ پہنچا دی . . نفیسہ: - دکھنے میں کیسا ہے وہ ؟ شمع : دیکھنے میں تو گاؤں کا دیہاتی جیسا لگتا ہے . . . لیکن بہت ہٹا کٹا پہلوان جیسا مرد ہے . . . . نفیسہ كے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آ گئی . . اور ہلکی سی آواز میں ہنس بھی دی . . . . شمع : - تم ہنس کیوں رہی ہو ؟ نفیسہ: لگتا ہے چوٹ آپ نے اس کو نہیں . . . . اس نے آپ کو پہنچائی ہے . . شمع : - کیا مطلب . . . ! !؟ نفیسہ: مطلب صاف ہے میم . . . آپ کے ِدل میں اس منو نے تَار ُ اپنے ہمدردی والا خنجر ا دیا ہے . . شمع : کیا بکواس کرتی ہو . . . . . ایسا کچھ بھی نہیں ہے . . . . نفیسہ: اس میں برائی کیا ہے میم . . . اس کے درد پر آپ کو افسوس ہے . . . اس لیے تو آپ نے اس کی مدد کی ہے . . ورنہ یو راہ چلتے آدمی کو آپ نوکری اور رہنے کو مکان کیوں دیتی . . . . . ! ! ہی . . ہی . . ہی . . . شمع : ُچپ رہو نفیسہ. . . تم جو سوچتی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے . . نفیسہ دھیرے سے اٹھ کر مسکراتے ہوئے . . شمع كے قریب آ کر بیٹھ جاتی ہے . . . شمع اسے اپنے قریب آتے حیرانی سے دیکھتی رہی . . . نفیسہ اس کی آنكھوں میں دیکھتے ہوئے . . نفیسہ: میم . . مجھے آپ كے بارے میں نسرین نے سب بتایا ہے . . . یہ بھی بتایا کہ آپ اپنے شوہر سے دور رہ کر راتوں کو یہاں کتنی پیاسی ہو جاتی ہے . . . اور یہ بھی کہ . . . ( اتنا کہہ کر نفیسہ خاموس ہو کر شمع كے آنكھوں میں اپنی آنکھوں سے عجیب شرارتی انداز سے دیکھنے لگی . . .) شمع : . . . . کیا . . . ! ! ! ؟ نفیسہ: . . . . کہ نسرین اور آپ . . . ایک دوسرے سے . . . شمع : . . . اوہ . . . نو . . نسرین کی تو . . نفیسہ: . . . اس میں غلط کیا ہے میم . . آپ بھی پیاسی یہاں اپنے مرد سے دور . . . اور نسرین کا بھی وہی حال تھا . . . تو دونوں نے ایک دوسرے کی پیاس بجھاتی تھی تو اس میں برائی کیا ہے . . . یہ کہتے ہوئے نفیسہ كے دونوں ہاتھ شمع كے چہرے کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہے . . . شمع نے نفیسہ سے ِاس حرکت کی امید نہیں کی تھی . . . ِھر بھی اسے پ ِاس طرح سے چہرے کو پیار سے پکڑنا برا نہیں لگا . . . پتہ نہیں کیوں شمع بھی نفیسہ كے آنکھ سے آنکھ ملائی ہوئی تھی . . . نفیسہ شمع كے آنکھوں میں جھانکتے ہوئے : میم آپ كے شوہر کتنا لکی ہوتے ہوئے بھی ان لکی ہے نہ . . . . شمع نفیسہ کو یوں ہی دیکھتے ہوئے : کیوں . . ! ؟ نفیسہ: - آپ جیسی خوبصورت حسینہ کو پا کر بھی . . . وہ آپ سے دور ہے . . شمع ( اپنی آنکھیں ناچاتے ہوئے ڈھیر سے بڑبڑائی ) : اگر تو ہوتی تو . . . ؟ نفیسہ ( دھیرے دھیرے اپنے ہونٹوں کو شمع كے ہونٹوں كے اور قریب لاتے ہوئے آہستہ سے بولی ) : میں ہوتی تو نہ میم . . . . آپ کی جوانی کا سارا رس ناچوڑ لیتی . . . یہ کہتے ہوئے نفیسہ كے موٹے ہونٹ شمع كے نازک ہونٹوں سے جوڑ گئے . . . شمع نے پتہ نہیں کیوں بالکل بھی برا نہیں منایا. . شمع کو پتہ تھا کہ نفیسہ کو نسرین نے شمع اور نسرین كے لیسبیئن سیکس کا راز بھی بتا چکی ہے . . . اب اسے شرم حیا کا کوئی مطلب نہیں تھا . . شمع تھوڑا پیچھے کو ہٹ کر اپنے ایک ہاتھ کو صوفے پر ٹکا دیتی ہے . . . . نفیسہ اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے الگ ہونے نہیں دیتی . . اور اس کے اوپر جھکتی چلی جاتی ہے . . نفیسہ کا دائیاں ( رائٹ ) ہاتھ شمع كے نائٹی كے اوپر سے ہی اس کی پتلی کمر کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہے . . نفیسہ کا ہاتھ لگتے ہی شمع كے جسم سے ایک کپکپی سی چھوٹ جاتی ہے . . اس کی سانسیں تیز ہو جاتی ہے . . . اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہے . . کیوں نہ ہو . . . شمع کا دھیان ِتین ہفتوں بعد آج سیکس کی طرف گیا تھا . . . نسرین كے ساتھ لیسبیئن سیکس تو پچھلے ہفتے ہی کیا تھا . . لیکن لیسبیئن سیکس سے تن کی آگ کم ہونے كے بجائے اکثر بڑھ جاتی تھی . . . ساجد نے ِتین ہفتے پہلی شمع کی چدائی کی تھی . . . ساجد کا سات انچ لمبا اور دو انچ موٹے لنڈ سے شمع کی پیاس بجھ ضرور جاتی تھی . . . مگر اسے ایک بار چودنے كے بعد ہفتہ دو ہفتہ تک چدائی کا موقع نصیب نہیں ہوتا تھا . . نفیسہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی . . اب اس کا بائیاں ( لیفٹ ) ہاتھ بھی حرکت میں آ گیا تھا . . اس نے اپنے بائیں ہاتھ کو شمع کی نائٹی كے اوپر سے ہی اس کے بائیں ممے پر رکھ دیا . . . اور ہلکے سے دھکے سے ہی شمع کو صوفے پر لیٹ جانا پڑا . . شمع نے کسی طرح اپنے ہونٹوں کو نفیسہ كے ہونٹوں کی قید سے چھوڑوایا . . اور لمبے لمبے سانسیں لینے لگی . . . جیسے کئی میل سے بھاگ کر آئی ہو . . نفیسہ کا بھاری بھرکم جسم شمع كے اوپر تھا . . مگر اس نے زیادہ وزن نہیں دیا ہوا تھا . . . . نفیسہ شمع کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی آہستہ سے بولی : بہت پیاسی ہو نہ میم . . ؟ شمع صرف َسر کو ہلکا سا اوپر نیچے کرتے ہوئے اشارے میں حامی بھر لیتی ہے . . . . نفیسہ: کیا پیاس بجھا دوں آپ کی . . ؟ شمع : تم تو صرف پیاس کو بڑھاؤ گی . . . بجھاؤ گی کیسے . . ؟ نفیسہ: لنڈ چائیے . . ؟ شمع : صرف اپنے شوہر کا . . . نفیسہ: وہ تو یہاں ہے نہیں . . . شمع : اور کسی کا نہیں . . نفیسہ : کیوں . . ؟ شمع : بدنامی ہے . . . اور دھوکا ہے . . نفیسہ: میرے ساتھ . . . ؟ شمع : تم تو عورت ہو . . . نفیسہ: میں پیاس ُبجھا سکتی ہوں آپ کی . . شمع : نسرین بھی یہی کہتی تھی . . مگر . . . نفیسہ: نسرین کی پیاس بھی میں ہی بجھاتی تھی . . . شمع : لیسبیئن سیکس میں صرف پیاس بڑھتی ہے . . نفیسہ: میں بجھاؤں گی. . . اگر آپ ساتھ دے تو . . شمع : اور کیا کروں . . . ؟ نفیسہ : شرم کو چھوڑ کر . . . . میں جیسا کرتی ہو آپ اسے قبول کرتی رہو . . . کسی بات سے مجھے روکو نہیں . . . میرا وعدہ ہے میم . . . میں آپ کی پیاس بجھا دوں گی . . . شمع شرم والی مسکراہٹ مسکراتی ہوئی اپنی آنکھیں بند کرکے چہرا ایک طرف موڑ لیتی ہے . . . . جیسے اس نے اپنے آپ کو اپنی کچھ ہی دن پہلی آئی ہوئی نوکرانی كے سپرد کر دیا ہو . . . اپنے جوان اور نازک جسم کو ایک عجیب سی دکھنے والی لمبی چوڑی عورت کو سپرد کر دیا ہو . . یہ سوچ کر کہ کسی طرح جسم کی پیاس بجھ جائے . . کسی طرح جسم میں اٹھی ہوس کی آگ ٹھنڈی ہو جائے . . . نفیسہ كے لیے اتنا اشارہ کافی تھی . . . . . نفیسہ كے چہرے پر ایک قاتل اور فاتحانہ مسکان پھیل جاتی ہے . . . ایک ایسی مسکان جیسے اس نے قلعہ فتح کر لیا ہو . . . ایک ایسی مسکان جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ہو . . . مگر جو ہونا تھا وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے . . نفیسہ شمع كے خوبصورت گالوں کو چومتی ہوئی شمع كے گردن کی طرف اپنے ہونٹوں کو لے جانے لگی . . . شمع كے جسم کی گرمی بڑھتی جا رہی تھی . . . اس کے منہ سے اب سسکیاں نکالنے لگی تھی . . . نفیسہ شمع کی گلے میں اپنا منہ دبا دیتی ہے . . اور اس کے گلے کو اپنے ہونٹوں كے درمیان لے کر ُچوسنے لگتی ہے . . شمع کا ہاتھ بھی اب نفیسہ كی قمیض كے اوپر سے ہی پیٹھ کو سہلانے لگتا ہے . . نفیسہ کا بھری بھرکم جسم نے شمع كے نازک اور خوبصورت جسم کو جیسے اوپر سے دھنک دیا ہو . . . نفیسہ اپنا َسر اٹھا کر ایک بار ِھر شمع کی آنکھوں میں پ دیکھتے ہوئے . . . اپنے دائیں ہاتھ کو شمع كے دائیں ممے پر رکھ کر مسل دیتی ہے . . . س س س . . . . شمع ایک سیسکی كے ساتھ اپنے َسر کو پیچھے کی طرف لے جاتے ہوئے آنکھ بند کر لیتی ہے . . . نفیسہ اپنے موٹے ہونٹوں کو شمع كے کھلے ہوئے نازک ہونٹوں پر رکھ دیتی ہے . . . . شمع کا نیچلا ہونٹ نفیسہ كے منہ میں اور نفیسہ کا اوپر کے ہونٹ شمع كے منہ میں َپ ْ یوست ایک دوسرے کو چوس رہے تھے . . . نفیسہ اپنے بائیں ہاتھ کو نیچے سرکا کر شمع كے فرنٹ اوپن نائٹی كے لیس کھول دیتی ہے . . . اور شمع نے آنکھیں کھول کر ایک نظر نفیسہ كے آنکھوں ِھر میں دیکھ کر دھیرے سے پ آنکھیں بند کر لیتی ہے . . . جیسے وہ نفیسہ کو یہ بتا رہی ہو کہ اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے . . . نفیسہ تھوڑا سا اپنے جسم کو شمع كے جسم سے الگ کرکے اپنے دونوں ہاتھوں کو نائٹی كے دونوں طرف سے پکڑ کر کھنچتی ہے . . شمع کے گورے جسم کو نائٹی سے آذاد کر دیتی ہے . . . نفیسہ شمع كے اوپر سے اٹھ جاتی ہے . . . اور صوفے كے برابر میں کھڑی ہو کر شمع كے گداز جسم کو دیکھتی ہے . . . شمع شرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرا چھپا لیتی ہے . . . شمع کا گورا بدن ، پتلی کمر كے اوپر کو چھاتی کی طرف اور نیچے گانڈ کی طرف پھیلی ہوئی تھی . . . اس کے 34 سائز کے ممے اکڑ کر اپنی سرخیاں ظاہر کر رہے تھے . . . شمع نے اپنا چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپا رکھا تھا . . . تبھی شمع کو محسوس ہوا کہ اس کے پیٹھ اور گانڈ كے نیچے سے اچانک ایک ہاتھ سرکتا ہے . . اور وہ ہوا میں اٹھ جاتی ہے . . . . . جاری ہے . . . . . . .