Offline
- Thread Author
- #1
خالہ بیمار تھیں، امی کی بڑی بہن ہونے کے ناتے سب ہی کو ان سے پیار تھا۔ فون آیا کہ آ کر خالہ سے مل جاؤ۔ ہم اسی دن فیصل آباد روانہ ہو گئے۔ بیچاری خالہ بیماری کی وجہ سے آدھی رہ گئی تھیں۔ وہ بہت دن سے اسپتال میں داخل تھیں۔ ہم پندرہ دن وہاں رہے اور پندرہ دن بعد جب واپس آئے تو پتا چلا کہ محلے میں ایک انہونی ہو چکی ہے۔امی نے پڑوسن سے سنا کہ احمد کے گھر دو فرد آئے تھے، جو باپ بیٹا تھے۔ باپ کا نام کاظم اور بیٹے کا عاصم تھا۔ یہ لوگ ساتھ والے بلاک میں رہائش پذیر تھے، محلے کے کچھ لوگ ان کو جانتے بھی تھے۔ آتے ہی انہوں نے ایک خط احمد کو دیا، جو اس کی جواں سال بہن میمونہ نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا، جس میں لکھا تھا:میرے گھر والے مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں اب ان کے مظالم کی تاب نہیں لا سکتی۔ عاصم، اس گھر میں میرا دم گھٹ رہا ہے، تم یہاں سے مجھ کو کہیں دور لے چلو۔آنے والوں نے احمد سے کہا کہ تم اپنی بہن پر مظالم ڈھانا بند کر دو، ورنہ ہم کسی این جی او کو اس معاملے میں مداخلت کی دعوت دیں گے، تو تمہاری بڑی سبکی ہو گی۔ اخبارات کہانیاں چھاپیں گے۔
یہ ایسی بات تھی جس کو کوئی بھی شریف آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ لڑکی کسی کی بھی ہو، اور لینے غیر لوگ آ جائیں، یہ ناقابلِ قبول ہے۔میمونہ کے والد اور بھائی رقعہ دیکھ کر غصے میں آ گئے اور آنے والوں کو برا بھلا کہا کہ تم کون ہوتے ہو ہماری لڑکی کو لے جانے والے؟ یہ رقعہ ہماری بیٹی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے، لہٰذا ہم تمہیں تھانے لے جائیں گے۔ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اپنی لڑکی کو سامنے لے آؤ۔وہ بولے کہ لڑکی کہہ دے کہ یہ خط اس نے نہیں لکھا، تو ہم چلے جائیں گے، ورنہ ہم لڑکی کو لے کر ہی جائیں گے۔بات ایسی تھی کہ دب نہ سکی۔ جب دونوں طرف سے تکرار ہوئی اور شور اٹھا، تو آواز چار دیواری سے باہر گئی۔ ارد گرد کے ہمسائے وہاں جا پہنچے۔ باپ بیٹے کا اصرار تھا کہ وہ میمونہ کو ساتھ لے کر جائیں گے، جس نے ان کو ایسا خط لکھا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ لڑکی عاقل بالغ ہے، بات اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ہم سب سمجھانے لگے کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ اگر لڑکی نے ناسمجھی میں خط لکھ دیا ہے، تب بھی کسی کی بہن یا بیٹی کو یوں کوئی نہیں لے جا سکتا۔ تب ان باپ بیٹے نے بتایا کہ یہ پہلا خط نہیں ہے، بلکہ ایسے بہت سے خطوط اس بچی نے لکھے ہیں، اور وہ سب بہت دردناک ہیں۔اب ہم سب خاموش ہو گئے۔ وہ بولے کہ ہم وہ خط بھی گھر سے لے آتے ہیں، سب محلے والے دیکھ لیں کہ ہم یونہی نہیں آئے ہیں۔لوگوں نے کہا کہ آخر لڑکی نے انہی کو ایسے خطوط کیوں لکھے؟ جبکہ محلے میں اور بھی بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ اس نے ان سے مدد کیوں مانگی؟اس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ میمونہ کے عاصم سے دوستانہ مراسم ہیں، اور اس دوستی کی وجہ سے اس نے یہ خط لکھے ہیں کیونکہ وہ ان پر اعتماد کرتی ہے۔ اب بات سب کی سمجھ میں آ گئی، اور محلے والے کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ تب اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ لڑکی کو بلا کر اس سے دریافت کیا جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے، ورنہ ان بلیک میلر باپ بیٹے کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔دو بزرگوں نے میمونہ سے سوالات کیے۔ اس نے کاظم اور عاصم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور انہی کو اپنا ہمدرد کہا۔ وہ ان کے ساتھ جانے پر رضا مند تھی۔ اب معاملہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ بہرحال، محلے کے ان بزرگوں نے ان سے کہا کہ اس طرح لڑکی کو ساتھ لے جانے میں بدنامی ہے۔آپ اپنے فرزند کے سر پر سہرا باندھ کر لے آئیے، ہم محلے دار باراتی بن جائیں گے اور لڑکی کو عزت کے ساتھ رخصت کر دیں گے۔جب پڑوسن نے یہ قصہ سنایا تو والدہ کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جو جیسا کرتا ہے، ویسا ہی بھگتنا پڑتا ہے۔احمد نے خالد کے ساتھ زیادتی کی تھی، اب ان کی عزت پر آنچ آ گئی ہے۔
یادیں مجھے ماضی کے دنوں میں لے گئیں۔ یاد آیا، خالد نامی نوجوان برسوں پہلے ہمارے محلے میں رہا کرتا تھا۔ اس کے والد حبیب کا کھالوں کا کاروبار تھا۔ حبیب کی طبیعت خراب رہنے لگی، تو اس نے اپنا بزنس بیٹے کے حوالے کر دیا اور خود گھر پر بیٹھ گیا۔ بیٹے کو کاروبار میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ بہت شوقین مزاج تھا۔ اسے کمانے سے زیادہ روپے اُڑانے میں لطف آتا تھا۔ اس نے باپ کی محنت سے کمائی دولت کو اپنی فضول خرچیوں پر اڑانا شروع کر دیا۔والدین کو اس پر اندھا اعتماد تھا اور بیٹے کی کوتاہیاں بھی خوبیاں نظر آتی تھیں۔ حبیب نے خالد سے حساب کتاب بھی نہ کیا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کاروبار کیسے چلا رہا ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ خالد باپ کا روپیہ بے دردی سے لٹا رہا ہے، تو کچھ خیرخواہوں نے آ کر حبیب کو سمجھایا کہ تمہارا لڑکا عیاشی کر رہا ہے، ذرا اس کی باگیں کھینچو، جوانی دیوانی ہوتی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ حبیب بجائے بات کو سنجیدگی سے لینے کے، ان خیرخواہوں کو اپنے بیٹے کا حاسد سمجھنے لگا۔ وہ بولا کہ یہی چار دن تو عیش کے ہوتے ہیں۔ میرے پاس دولت اتنی ہے کہ اگر بیٹا دو چار ہزار اپنی خوشیوں پر خرچ کر لیتا ہے، تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔باپ کے منہ سے ایسی نامعقول باتیں سن کر آنے والے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، پھر خاموش ہو گئے۔ جب کوئی بری راہ پر چل پڑے، تو پھر اپنوں اور بیگانوں کا ہوش کہاں رہتا ہے؟ خالد نے بھی حد کر دی کہ محلے میں ہی برائی کی جرات کر لی۔محلے کے ہی ایک شخص، صوفی صاحب، عرصہ ہوا وفات پا چکے تھے۔ وہ نیک اور شریف آدمی تھے۔ ان کی بیوہ اپنی جوان بیٹی تسلیم کے ساتھ رہتی تھی۔ دونوں بے سہارا عورتوں کا کوئی نہ تھا، لہٰذا محلے والے ہی مل جل کر ان کی کفالت کرتے تھے۔ حبیب بھی ہر ماہ کچھ رقم اس غریب گھرانے کو دے دیا کرتے تھے۔ جب خالد نے کاروبار سنبھالا، تو وہ ہر ماہ خالہ شمیم کے گھر جا کر مالی مدد پہنچانے لگا، کیونکہ باپ کی ہدایت تھی کہ بیٹا امداد اپنے ہاتھوں سے دیا کرو۔بیوہ شمیم کا گھرانہ شریف تھا۔ ان کی عزت کی حفاظت محلے داروں کے ذمے تھی، لیکن جانے کیا ہوا کہ لوگوں نے خالد اور تسلیم کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کرنا شروع کر دیں، یوں ایک غریب اور بے سہارا لڑکی کا اسکینڈل لوگوں میں مشہور ہو گیا۔ پہلے تو لوگوں نے یقین نہ کیا، لیکن پھر راز کھل گیا۔تسلیم، خالد کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر شادی کے وعدوں میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھی تھی، بلکہ اس کے ساتھ قابل اعتراض تصویریں بھی کھنچوا لیں۔
خدا جانے کیسے اس ناعاقبت اندیش نے اسے شیشے میں اتارا۔ بد معاش خالد نے یہ تصویریں اپنے دوستوں کو بڑے فخریہ انداز میں دکھایا، اور دوستوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی چند تصویریں بزرگوں تک پہنچ گئیں۔ان کو بہت دکھ ہوا، کیونکہ مرحوم صوفی صاحب کی سارا محلہ عزت کرتا تھا اور تسلیم ان کی بیٹی تھی۔ بزرگوں نے خالد کے والدین کو آ کر سمجھایا کہ اب اس کا حل یہی ہے کہ اس لڑکی کی شادی خالد سے کر دی جائے، ورنہ اس کی زندگی برباد ہو جائے گی اور کوئی اسے قبول نہ کرے گا، مگر وہ نہ مانے اور سارا الزام لڑکی پر ڈال دیا۔انہوں نے کہا کہ دولت کے لالچ میں اگر اس لڑکی نے ہمارے بیٹے کو اپنی زلفوں کا اسیر کیا ہے اور برے راستے پر ڈالا ہے، تو ہم کیونکر اس لڑکی کو بہو بنا کر لائیں۔سمجھانے والے ناکام واپس آ گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد کسی شریف انسان نے اس بدنصیب لڑکی کو قبول کر لیا اور اس کی زندگی تباہ ہونے سے بچ گئی۔پھر خدا کی لاٹھی اس خاندان پر برسی کہ دن دیہاڑے ایک پڑوسی نے اپنے گھر کی چھت سے عجیب نظارہ دیکھ لیا، حالانکہ خالد کی شادی انہی دنوں ایک آزاد خیال گھرانے کی دولت مند لڑکی سے ہو گئی تھی۔پڑوسی نے دیکھا کہ احمد اور خالد کی بیوی رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔ اس نے چھت سے چھلانگ لگائی اور احمد کو پکڑ لیا تاکہ وہ دیوار سے کودنے نہ پائے۔اس بات کا چرچا ہوا، تو خالد کی بیوی نے سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ اس نے کہا کہ میں نے خود احمد کو بلایا تھا، کیونکہ ہم دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔لوگوں نے لعن طعن کی کہ گھر کے اندر بلا لیا اور وہ بھی خود؟ یہ کون سا طریقہ ہے دوستی نبھانے کا؟اس نے جواب دیا کہ خالد بھی تو عیاشیاں کرتا ہے، اگر میں نے کسی سے بات کر لی، تو قیامت کیوں ڈھا رہے ہو؟ پہلے میرے میاں کو پکڑو، پھر مجھے پکڑنا۔لوگ اس عورت کی جرات پر حیران ہو گئے۔ اب خالد اور اس کے والدین کو تسلیم کی بدنامی اور بے بسی یاد آئی۔ اپنی بدنامی پر اُن کی حالت قابلِ دید تھی۔لوگ خالد کو مارنے پر تیار تھے اور حبیب زمین میں گڑھے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی نئی نویلی بہو، جسے بیاہ کر لائے سال بھی نہ ہوا تھا، گھر سے نکال دیا، لیکن احمد کو کچھ نہ کہا۔یوں وہ اور زیادہ شیر ہو گیا اور محلے میں اکڑ کر چلنے لگا، مونچھوں کو بل دینے لگا کہ کسی نے اس کا کیا بگاڑ لیا؟ الٹا ہم لوگوں نے اس پڑوسی کو جیل کروا دیا ہے۔ کسی میں ہمت ہے، تو اسے رہا کروا دے۔لوگ سمجھاتے کہ تم نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا، جس پر فخر کیا جائے۔ یہ تو شرم کا مقام ہے۔خیر، دن گزرتے گئے۔ یہ واقعہ بھی لوگوں کے ذہن سے محو ہو گیا۔احمد کی ایک بہن بھی تھی، جس کا نام میمونہ تھا۔ وہ اسکول جایا کرتی تھی۔ اسی دوران اس کی ملاقات دوسرے محلے کے لڑکے عاصم سے ہو گئی۔
وہ بھی ایک امیر باپ کا بیٹا تھا اور خوبصورت بھی۔ وہ میمونہ پر روپیہ لٹانے لگا۔وہ میٹرک میں تھی کہ اس کا رشتہ آ گیا۔ والدین کو یہ رشتہ اتنا پسند آیا کہ فوراً ہاں کر دی۔جب لڑکی نے سنا، تو پریشان ہو گئی اور والدہ سے کہا کہ میں یہاں شادی نہیں کروں گی۔ اگر آپ نے زبردستی میری شادی کی، تو میں گھر سے بھاگ جاؤں گی۔ آپ پھپھو کو رشتے سے منع کر دیجئے۔بیٹی کی زبان سے یہ سن کر ماں حیران ہوئی، لیکن خاموش ہو گئی۔ یہ بات گھر کے مردوں سے کہنے کی نہ تھی، ورنہ میمونہ کو مارتے۔ بیٹی کو باپ اور بھائی کی مار سے بچانے کی خاطر ماں نے چپ سادھ لی۔ادھر اس کے والد نے رشتہ لانے والوں سے شادی کی تاریخ مانگ لی، تو میمونہ اس قدر پریشان ہوئی کہ اس نے عاصم کو خط لکھ دیا۔یہ رقعہ اس نے اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھ بھیجا تھا، جو بدقسمتی سے لڑکے کے باپ کاظم کے ہاتھ لگ گیا، جو ذرا شرپسند طبیعت کا تھا۔ اس کی احمد کے خاندان سے لگتی تھی۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور انہیں سبق سکھاؤں کہ ان کے گھر کی عزت اب میری مٹھی میں ہے۔جب یہ خالد کے گھر اس کی بیوی سے پرانی شناسائی کی تجدید کرنے گیا تھا، تب اسے شرم کیوں نہ آئی۔اس نے بیٹے سے پوچھا کہ کیا لڑکی نے اور خط بھی لکھے ہیں؟ اگر لکھے ہیں، تو لا کر مجھے دے دو، تبھی میں تمہاری شادی اس سے کر دوں گا اور رشتہ لینے جاؤں گا۔عاصم نے میمونہ کے تمام خطوط اپنے والد کو دے دیے۔ کاظم بیٹے کو لے کر احمد کے گھر چلا گیا۔یہ تھا اصل قصہ۔اس نے سیدھے طریقے سے رشتہ نہیں مانگا، کیونکہ اسے رشتہ مانگنا ہی نہ تھا، بلکہ وہ صرف ان لوگوں کی بے عزتی کرنا چاہتا تھا۔اس نے جان بوجھ کر شور مچایا اور محلے والوں کو اکٹھا کیا، جس کی وجہ سے احمد اور اس کے والد کی بے عزتی ہوئی، بالکل ویسے ہی جیسے احمد کی حرکت سے خالد اور اس کے گھرانے کی بے عزتی ہوئی تھی۔کل تک جو احمد بڑے فخر سے کہتا تھا کہ مرد ایسے ہی ڈھنگ دکھاتے ہیں، آج وہ شرمندہ تھا اور آنکھیں نہ اٹھتی تھیں، کیونکہ اپنی بہن کا معاملہ تھا۔
یہ ایسی بات تھی جس کو کوئی بھی شریف آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ لڑکی کسی کی بھی ہو، اور لینے غیر لوگ آ جائیں، یہ ناقابلِ قبول ہے۔میمونہ کے والد اور بھائی رقعہ دیکھ کر غصے میں آ گئے اور آنے والوں کو برا بھلا کہا کہ تم کون ہوتے ہو ہماری لڑکی کو لے جانے والے؟ یہ رقعہ ہماری بیٹی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے، لہٰذا ہم تمہیں تھانے لے جائیں گے۔ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اپنی لڑکی کو سامنے لے آؤ۔وہ بولے کہ لڑکی کہہ دے کہ یہ خط اس نے نہیں لکھا، تو ہم چلے جائیں گے، ورنہ ہم لڑکی کو لے کر ہی جائیں گے۔بات ایسی تھی کہ دب نہ سکی۔ جب دونوں طرف سے تکرار ہوئی اور شور اٹھا، تو آواز چار دیواری سے باہر گئی۔ ارد گرد کے ہمسائے وہاں جا پہنچے۔ باپ بیٹے کا اصرار تھا کہ وہ میمونہ کو ساتھ لے کر جائیں گے، جس نے ان کو ایسا خط لکھا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ لڑکی عاقل بالغ ہے، بات اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ہم سب سمجھانے لگے کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ اگر لڑکی نے ناسمجھی میں خط لکھ دیا ہے، تب بھی کسی کی بہن یا بیٹی کو یوں کوئی نہیں لے جا سکتا۔ تب ان باپ بیٹے نے بتایا کہ یہ پہلا خط نہیں ہے، بلکہ ایسے بہت سے خطوط اس بچی نے لکھے ہیں، اور وہ سب بہت دردناک ہیں۔اب ہم سب خاموش ہو گئے۔ وہ بولے کہ ہم وہ خط بھی گھر سے لے آتے ہیں، سب محلے والے دیکھ لیں کہ ہم یونہی نہیں آئے ہیں۔لوگوں نے کہا کہ آخر لڑکی نے انہی کو ایسے خطوط کیوں لکھے؟ جبکہ محلے میں اور بھی بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ اس نے ان سے مدد کیوں مانگی؟اس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ میمونہ کے عاصم سے دوستانہ مراسم ہیں، اور اس دوستی کی وجہ سے اس نے یہ خط لکھے ہیں کیونکہ وہ ان پر اعتماد کرتی ہے۔ اب بات سب کی سمجھ میں آ گئی، اور محلے والے کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ تب اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ لڑکی کو بلا کر اس سے دریافت کیا جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے، ورنہ ان بلیک میلر باپ بیٹے کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔دو بزرگوں نے میمونہ سے سوالات کیے۔ اس نے کاظم اور عاصم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور انہی کو اپنا ہمدرد کہا۔ وہ ان کے ساتھ جانے پر رضا مند تھی۔ اب معاملہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ بہرحال، محلے کے ان بزرگوں نے ان سے کہا کہ اس طرح لڑکی کو ساتھ لے جانے میں بدنامی ہے۔آپ اپنے فرزند کے سر پر سہرا باندھ کر لے آئیے، ہم محلے دار باراتی بن جائیں گے اور لڑکی کو عزت کے ساتھ رخصت کر دیں گے۔جب پڑوسن نے یہ قصہ سنایا تو والدہ کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جو جیسا کرتا ہے، ویسا ہی بھگتنا پڑتا ہے۔احمد نے خالد کے ساتھ زیادتی کی تھی، اب ان کی عزت پر آنچ آ گئی ہے۔
یادیں مجھے ماضی کے دنوں میں لے گئیں۔ یاد آیا، خالد نامی نوجوان برسوں پہلے ہمارے محلے میں رہا کرتا تھا۔ اس کے والد حبیب کا کھالوں کا کاروبار تھا۔ حبیب کی طبیعت خراب رہنے لگی، تو اس نے اپنا بزنس بیٹے کے حوالے کر دیا اور خود گھر پر بیٹھ گیا۔ بیٹے کو کاروبار میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ بہت شوقین مزاج تھا۔ اسے کمانے سے زیادہ روپے اُڑانے میں لطف آتا تھا۔ اس نے باپ کی محنت سے کمائی دولت کو اپنی فضول خرچیوں پر اڑانا شروع کر دیا۔والدین کو اس پر اندھا اعتماد تھا اور بیٹے کی کوتاہیاں بھی خوبیاں نظر آتی تھیں۔ حبیب نے خالد سے حساب کتاب بھی نہ کیا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کاروبار کیسے چلا رہا ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ خالد باپ کا روپیہ بے دردی سے لٹا رہا ہے، تو کچھ خیرخواہوں نے آ کر حبیب کو سمجھایا کہ تمہارا لڑکا عیاشی کر رہا ہے، ذرا اس کی باگیں کھینچو، جوانی دیوانی ہوتی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ حبیب بجائے بات کو سنجیدگی سے لینے کے، ان خیرخواہوں کو اپنے بیٹے کا حاسد سمجھنے لگا۔ وہ بولا کہ یہی چار دن تو عیش کے ہوتے ہیں۔ میرے پاس دولت اتنی ہے کہ اگر بیٹا دو چار ہزار اپنی خوشیوں پر خرچ کر لیتا ہے، تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔باپ کے منہ سے ایسی نامعقول باتیں سن کر آنے والے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، پھر خاموش ہو گئے۔ جب کوئی بری راہ پر چل پڑے، تو پھر اپنوں اور بیگانوں کا ہوش کہاں رہتا ہے؟ خالد نے بھی حد کر دی کہ محلے میں ہی برائی کی جرات کر لی۔محلے کے ہی ایک شخص، صوفی صاحب، عرصہ ہوا وفات پا چکے تھے۔ وہ نیک اور شریف آدمی تھے۔ ان کی بیوہ اپنی جوان بیٹی تسلیم کے ساتھ رہتی تھی۔ دونوں بے سہارا عورتوں کا کوئی نہ تھا، لہٰذا محلے والے ہی مل جل کر ان کی کفالت کرتے تھے۔ حبیب بھی ہر ماہ کچھ رقم اس غریب گھرانے کو دے دیا کرتے تھے۔ جب خالد نے کاروبار سنبھالا، تو وہ ہر ماہ خالہ شمیم کے گھر جا کر مالی مدد پہنچانے لگا، کیونکہ باپ کی ہدایت تھی کہ بیٹا امداد اپنے ہاتھوں سے دیا کرو۔بیوہ شمیم کا گھرانہ شریف تھا۔ ان کی عزت کی حفاظت محلے داروں کے ذمے تھی، لیکن جانے کیا ہوا کہ لوگوں نے خالد اور تسلیم کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کرنا شروع کر دیں، یوں ایک غریب اور بے سہارا لڑکی کا اسکینڈل لوگوں میں مشہور ہو گیا۔ پہلے تو لوگوں نے یقین نہ کیا، لیکن پھر راز کھل گیا۔تسلیم، خالد کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر شادی کے وعدوں میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھی تھی، بلکہ اس کے ساتھ قابل اعتراض تصویریں بھی کھنچوا لیں۔
خدا جانے کیسے اس ناعاقبت اندیش نے اسے شیشے میں اتارا۔ بد معاش خالد نے یہ تصویریں اپنے دوستوں کو بڑے فخریہ انداز میں دکھایا، اور دوستوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی چند تصویریں بزرگوں تک پہنچ گئیں۔ان کو بہت دکھ ہوا، کیونکہ مرحوم صوفی صاحب کی سارا محلہ عزت کرتا تھا اور تسلیم ان کی بیٹی تھی۔ بزرگوں نے خالد کے والدین کو آ کر سمجھایا کہ اب اس کا حل یہی ہے کہ اس لڑکی کی شادی خالد سے کر دی جائے، ورنہ اس کی زندگی برباد ہو جائے گی اور کوئی اسے قبول نہ کرے گا، مگر وہ نہ مانے اور سارا الزام لڑکی پر ڈال دیا۔انہوں نے کہا کہ دولت کے لالچ میں اگر اس لڑکی نے ہمارے بیٹے کو اپنی زلفوں کا اسیر کیا ہے اور برے راستے پر ڈالا ہے، تو ہم کیونکر اس لڑکی کو بہو بنا کر لائیں۔سمجھانے والے ناکام واپس آ گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد کسی شریف انسان نے اس بدنصیب لڑکی کو قبول کر لیا اور اس کی زندگی تباہ ہونے سے بچ گئی۔پھر خدا کی لاٹھی اس خاندان پر برسی کہ دن دیہاڑے ایک پڑوسی نے اپنے گھر کی چھت سے عجیب نظارہ دیکھ لیا، حالانکہ خالد کی شادی انہی دنوں ایک آزاد خیال گھرانے کی دولت مند لڑکی سے ہو گئی تھی۔پڑوسی نے دیکھا کہ احمد اور خالد کی بیوی رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔ اس نے چھت سے چھلانگ لگائی اور احمد کو پکڑ لیا تاکہ وہ دیوار سے کودنے نہ پائے۔اس بات کا چرچا ہوا، تو خالد کی بیوی نے سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ اس نے کہا کہ میں نے خود احمد کو بلایا تھا، کیونکہ ہم دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔لوگوں نے لعن طعن کی کہ گھر کے اندر بلا لیا اور وہ بھی خود؟ یہ کون سا طریقہ ہے دوستی نبھانے کا؟اس نے جواب دیا کہ خالد بھی تو عیاشیاں کرتا ہے، اگر میں نے کسی سے بات کر لی، تو قیامت کیوں ڈھا رہے ہو؟ پہلے میرے میاں کو پکڑو، پھر مجھے پکڑنا۔لوگ اس عورت کی جرات پر حیران ہو گئے۔ اب خالد اور اس کے والدین کو تسلیم کی بدنامی اور بے بسی یاد آئی۔ اپنی بدنامی پر اُن کی حالت قابلِ دید تھی۔لوگ خالد کو مارنے پر تیار تھے اور حبیب زمین میں گڑھے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی نئی نویلی بہو، جسے بیاہ کر لائے سال بھی نہ ہوا تھا، گھر سے نکال دیا، لیکن احمد کو کچھ نہ کہا۔یوں وہ اور زیادہ شیر ہو گیا اور محلے میں اکڑ کر چلنے لگا، مونچھوں کو بل دینے لگا کہ کسی نے اس کا کیا بگاڑ لیا؟ الٹا ہم لوگوں نے اس پڑوسی کو جیل کروا دیا ہے۔ کسی میں ہمت ہے، تو اسے رہا کروا دے۔لوگ سمجھاتے کہ تم نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا، جس پر فخر کیا جائے۔ یہ تو شرم کا مقام ہے۔خیر، دن گزرتے گئے۔ یہ واقعہ بھی لوگوں کے ذہن سے محو ہو گیا۔احمد کی ایک بہن بھی تھی، جس کا نام میمونہ تھا۔ وہ اسکول جایا کرتی تھی۔ اسی دوران اس کی ملاقات دوسرے محلے کے لڑکے عاصم سے ہو گئی۔
وہ بھی ایک امیر باپ کا بیٹا تھا اور خوبصورت بھی۔ وہ میمونہ پر روپیہ لٹانے لگا۔وہ میٹرک میں تھی کہ اس کا رشتہ آ گیا۔ والدین کو یہ رشتہ اتنا پسند آیا کہ فوراً ہاں کر دی۔جب لڑکی نے سنا، تو پریشان ہو گئی اور والدہ سے کہا کہ میں یہاں شادی نہیں کروں گی۔ اگر آپ نے زبردستی میری شادی کی، تو میں گھر سے بھاگ جاؤں گی۔ آپ پھپھو کو رشتے سے منع کر دیجئے۔بیٹی کی زبان سے یہ سن کر ماں حیران ہوئی، لیکن خاموش ہو گئی۔ یہ بات گھر کے مردوں سے کہنے کی نہ تھی، ورنہ میمونہ کو مارتے۔ بیٹی کو باپ اور بھائی کی مار سے بچانے کی خاطر ماں نے چپ سادھ لی۔ادھر اس کے والد نے رشتہ لانے والوں سے شادی کی تاریخ مانگ لی، تو میمونہ اس قدر پریشان ہوئی کہ اس نے عاصم کو خط لکھ دیا۔یہ رقعہ اس نے اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھ بھیجا تھا، جو بدقسمتی سے لڑکے کے باپ کاظم کے ہاتھ لگ گیا، جو ذرا شرپسند طبیعت کا تھا۔ اس کی احمد کے خاندان سے لگتی تھی۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں اور انہیں سبق سکھاؤں کہ ان کے گھر کی عزت اب میری مٹھی میں ہے۔جب یہ خالد کے گھر اس کی بیوی سے پرانی شناسائی کی تجدید کرنے گیا تھا، تب اسے شرم کیوں نہ آئی۔اس نے بیٹے سے پوچھا کہ کیا لڑکی نے اور خط بھی لکھے ہیں؟ اگر لکھے ہیں، تو لا کر مجھے دے دو، تبھی میں تمہاری شادی اس سے کر دوں گا اور رشتہ لینے جاؤں گا۔عاصم نے میمونہ کے تمام خطوط اپنے والد کو دے دیے۔ کاظم بیٹے کو لے کر احمد کے گھر چلا گیا۔یہ تھا اصل قصہ۔اس نے سیدھے طریقے سے رشتہ نہیں مانگا، کیونکہ اسے رشتہ مانگنا ہی نہ تھا، بلکہ وہ صرف ان لوگوں کی بے عزتی کرنا چاہتا تھا۔اس نے جان بوجھ کر شور مچایا اور محلے والوں کو اکٹھا کیا، جس کی وجہ سے احمد اور اس کے والد کی بے عزتی ہوئی، بالکل ویسے ہی جیسے احمد کی حرکت سے خالد اور اس کے گھرانے کی بے عزتی ہوئی تھی۔کل تک جو احمد بڑے فخر سے کہتا تھا کہ مرد ایسے ہی ڈھنگ دکھاتے ہیں، آج وہ شرمندہ تھا اور آنکھیں نہ اٹھتی تھیں، کیونکہ اپنی بہن کا معاملہ تھا۔