صنم ساقی
VIP+
Offline
- Thread Author
- #1
قفس کی چڑیا.۔
پیش لفظ۔
پرانے گندھے غلیظ فرسودہ رسم ورواج کو
اجا گر کرنے کی اک سبق آموز کاوش ۔
قفس کی چڑیا۔
پیش لفظ۔
پرانے گندھے غلیظ فرسودہ رسم ورواج کو
اجا گر کرنے کی اک سبق آموز کاوش ۔
قفس کی چڑیا۔
دو دن سے لگاتار دن رات زور و شورسے کالےسیاہ گھنے گھنگور طوفانی گرجتےبادلون سے مینہ برس رہا تھا۔۔۔
ایئسے طوفانی موسم مین صوبہ سرحد کے ایک دور دراز کے گاؤن کوٹ ہاشم خان کے باہر بنےجدید طرز کے بنگلے کی دوسری منزل کی کھڑکی کے دونوں پٹ کھولے ساکت و جامد کھڑا وہ تہناوجود برستی بوندوں کو اپنی گہری سوچون مین گم دیکھے جا رہا تھا۔ ۔
برستی تیز بارش نے ہر شے دھو ڈالی تھی۔اور اس کاوجود بھی اندر ہی اندر سے بھیگا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔
چھاجوں مینہ برس کر تھم گیا تھا۔۔مگر اس کے اندر ابھی بھی کہیں بہت دور اودھم مچا ہوا تھا۔۔۔۔۔
کہتے ہین دل بڑا منہ زور ہوتا ہے۔۔۔ہمیشہ ہی اپنی من مانی کرتا ہے اور اس میں انگڑائی لیتی محبت اپنا آپ منوا کر ہی دم لیتی ہے۔مگر یہی محبت یک طرفہ ہو تو پھر تکلیف ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔۔
اس کا دل جس کا اسیر ہو چکا تھا اسے اس کے وجود میں زرا دلچسپی نہ تھی۔اوریہ احساس ہی اس کی روح چھلنی کرنے کے لیے کافی تھا۔ ۔۔۔
اس کا دل چاندکی تمنا کر بیٹھا تھا۔مگر چاند کب کسی کا مقدر بنتا ہے۔۔۔اس کی چمک دھمک بس آنکوں کو خیرہ کرنے اور دل لبھانے کے لیے ہوتی ہے۔۔ مانگ میں بھرنے کے لیے نہیں۔۔۔ مگر دل یہ سارے حساب کتاب کی پرواہ ہی کب کرتا ہے۔۔۔ اپنی اسی ازلی بے پرواہی سے وہ روح تک کو گھائل کر دیتا ہے۔۔۔
اور یہی سب اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔ اس کی یک طرفہ محبت نے اس کی روح تک کو چھلنی کر دیا تھا مگر مجال ہے جو وہ مجسمہ حسن اس کی بے غرض اور پاکیزہ محبت کی گرمائش سےپگھل کر موم ہوا ہو۔
اپنی زندگی کے اُس المیہ رونما ہونے والے واقعہ کو سوچ کر ہی اس کی سانسیں تھمنے لگیں تھیں۔۔سارے قبیلے کے سامنے جب خان جی نے اپنے فیصلے کا اظہار کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایئسی کوئی ڈیمانڈ بھی کر سکتا ہے
اس کے دل کو جیسے کسی نے اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔۔۔ دروازے کے پیچھے چھپی اپنا دل اس کی راہوں میں بچھاۓ کھڑی وہ ساکت رہ گی تھی۔۔۔ وہ اس کی بے لوث محبت اور اس کے جذبات کی پرواہ کے بغیر اسےاس کی نظروں میں گرا کر دو کوڑی کا کر چکا تھا۔۔ وہ خان جی کے سب گھر والون سے نظریں چراتی اپنا مفلوج جسم گھسیٹتی کمرے میں بند ہو گی تھی۔۔۔۔
ساری رات اس نے سوچوں کی گرداب میں الجھ کر گزاری تھی ۔ ۔ ۔ کچھ پل میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر زمیں بوس ہو چکی تھی۔ ۔
طوفان اندر کا ہو یا باہر کا ہمیشہ تباہی ہی پھیلاتا ہے۔ اور اب ایسی ہی ایک تباہی” خان ولا پیلس“ کی منڑیروں پر منڈلا رہی تھی۔وہ اپنی سوچون کے گرداب مین جکڑی چند سال پہلے گزری یادون کی بھل بھلیون مین اترنے لگی۔
جب وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔اور تب
چرڑ۔۔۔رڑ۔۔۔۔رڑ۔۔۔۔ڑ کی تیز آواز کیساتھ بیسمنٹ( تہہ خانے ) کا دروازہ کھلا۔
اس نے قدموں کی ابھرتی چاپ سن کر بھی سر نہ اٹھایا۔۔۔۔۔
تمہیں۔۔۔۔۔چھوٹے خان جی بلا رہے ہیں اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔آنے والی ملازمہ نے پیغام دیا
اس پیغام پر پلوشہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔اور غصے سے چنگاڑی۔
کہہ دو اپنے خان جی سے۔۔۔۔۔میں نہیں آؤں گی جو بھی کہنا ہے یہاں آ کر کہہ سن لیں۔
دیکھو تم چھوٹے خان جی کا غصہ دیکھ چکی ہو اس لیے ضد مت کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔
پلوشہ:میں کہیں نہیں جا رہی میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی کیا۔
تم اپنی زبان کو ہتھیار بنا کر اپنے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہو...
پلوشہ:تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔دو ٹوک انداز مین جواب آیا۔جا کر کہ دو ان سے۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی میں چھوٹے خان جی کو جا کر تمہارا انکار۔۔۔۔۔۔
سکینہ تم جاؤ۔۔۔۔۔زریاب آفریدی کی آواز نے نہ۔صرف سکینہ پر کپکی طاری کی بلکہ پلوشہ بھی اس آواز پر خوفزدہ ہو گئی۔۔۔
جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔چھوٹے خان جی۔۔۔۔۔سکینہ گھبراتی ہوئی جلدی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
پلوشہ ہلکا ہلکا لزرتی ہوئی جھکے سر سے زریاب آفریدی کی خون چھلکاتی نظریں کو خود پر گڑے ہوئے محسوس کر رہی تھی
……………………………………………………………….
دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پنچائیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ۔۔۔۔
ہمیں خون بہا چاہیے۔۔۔۔نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف۔۔۔۔۔۔زریاب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سربراہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا
خاقان آفریدی نے پرشکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا۔
پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیا۔
جاؤ پلوشہ کو لے آؤ۔۔۔۔۔وہ مدھم شکستہ آواز میں بولے
شمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا
دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی۔۔۔۔۔۔
یہ فیصلہ صرف اور صرف زریاب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے
……………….…..…………………...……….….……
میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا بابا جان۔۔۔۔زریاب ،خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوا
میں نے تمہیں اسلام آباد اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آ کر تم بھی ہم پرانے پٹھانون کی طرح قتل و غارت شروع کر دو۔۔۔۔
قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا۔
ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا۔۔۔۔وہ بضد تھا۔
زریاب بچے تیرے باباجان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے۔۔۔۔
بی بی جان پلیز۔۔۔۔۔آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا۔۔۔۔۔مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا۔۔۔۔اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔دیٹس اٹ۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیا۔
باباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی زریاب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
زریاب چیزوں کی اٹھا پٹھک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہرو کمرے میں داخل ہوئی۔
زریاب بیٹا۔۔۔۔۔۔وہ اس پکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیزیں الٹنے لگا
زریاب چندا۔۔۔۔
بھابھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا۔۔۔میں لالہ کا خون کبھی معاف نہیں کرنے والا۔۔۔۔۔
بیٹا۔ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔؟؟؟
زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی۔
تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر۔۔۔۔۔؟؟؟
نہین۔۔۔۔۔
تو ۔۔۔۔۔۔۔تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھا
بھابھی أپ۔۔۔۔۔
کیا میں۔۔۔۔بولو زریاب کیا میں۔۔۔۔تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لو گے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔۔۔
بھابھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں۔۔۔۔وہ ڈٹا رہا
ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی لڑکی سے تمہیں کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے۔۔۔۔۔مہرو غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی
بھابھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔میں صرف اور صرف شمس خان کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی۔۔۔
اسے بھی تو پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری۔
_________________. . . ___
اسے چادر اوڑھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا
مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ۔۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔بابا۔۔۔۔بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔پلوشہ پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی۔۔۔۔
پپ پلوشہ۔۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں لالہ آپ۔۔۔۔آپ اپنی پلوشہ اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کر دیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں نا کہیں ۔۔۔۔۔۔میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپا لیں مجھے۔۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی
شمس نے بہت ضبط سے پلوشہ کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادر پکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجانب بڑھا
لالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بھوج کر سہراب خان کا خون نہیں کیا یہ۔۔۔۔یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔۔۔۔۔۔پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔پلوشہ روتی ہوئی گھسیٹتی جا رہی تھی
وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے جاتے دیکھا مگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی
……………………………………………………………….
پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائی
پلوشہ نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازو پکڑا
لالہ مجھے بچا لیں۔۔۔۔۔میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے ملتجی ہوئی
شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر گاڑی سے نکل گیا
دوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔۔۔۔۔
اگر تمہارا لالہ تمہیں بچا سکتا تو کبھی بھی اپنی لاڈلی کو اپنی عزت کو اس پنچائیت کی زینت نہ بننے دیتا۔۔۔۔۔وہ بہت سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا
……………………………….…...….…………………..……
خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں۔۔۔پہلی شادی بی بی جان (صوریہ خانم) سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی چچا زاد گل بانو سے کروا دی ۔۔۔گل بانو نےخاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سال بعد حویلی کے پہلےوارث سہراب خان آفریدی کو جنم دیا۔۔۔جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔۔۔۔مگر بدقسمتی سے گل بانو سہراب کی پیدائش کے چھ سال بعد زریاب خان کو جنم دےکراس دنیا سے رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔
یوں سہراب اور زریاب کی ذمہ داری بی بی جان پرآ پڑی انہوں نے پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوں بھائیوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی
چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہرو کو سہراب آفریدی کی دلہن بنا لائیں تھیں۔۔۔۔مہرو اور سہراب کا چار سالہ بیٹا حدید آفریدی بھی تھا۔
زریاب چند ماہ پہلے ہی اسلام آباد سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا
سہراب آفریدی کو ان سب سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے۔۔۔۔۔
…………………………………………………………………
میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں۔۔۔۔دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا
مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں۔۔زریاب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا۔۔۔۔۔۔خاقان آفریدی نے ٹہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی
بابا جان یہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔زریاب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولا۔میں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا۔۔۔۔
ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہو گا۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھے
زریاب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی۔۔۔۔اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہن کو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دے
سکے ۔۔وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں۔۔۔۔۔
نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔مگر بابا جان نے بیچ میں آ کر سارا قصہ ہی پلٹ دیا تھا
وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آ کر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا
ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے ناکہ بیوی اور بہو۔۔۔۔۔۔وہ غرایا
تو تمہیں کیا لگتا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ۔۔۔۔۔بابا جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں طنز کیا
نکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتے۔
ہوش کرو زریاب۔
ہوش میں ہی تو آ چکا ہوں۔۔۔۔۔اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا۔۔۔۔۔وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی پلوشہ کیطرف بڑھا۔
چھو۔۔۔۔چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی
زریاب چھوڑو بچی کو۔۔۔ہوش کرو زریاب کیا پاگل پن ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔بابا جان زریاب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ پلوشہ کی گردن دبوچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم۔۔۔۔۔
زریاب۔۔۔۔۔۔بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ پلوشہ کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کی۔
پلوشہ اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیارنہ تھی اس لیےتوازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گری۔
گرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا۔
زریاب سر جھٹکتا ہال سے نکل گیا
مہرو بیٹا دیکھو بچی کو۔۔۔۔۔بابا جان مہرو کو کہتے مردانے کی طرف چلے گئے۔
مہرو نے پلوشہ کو صوفے پر بیٹھایا اور جلدی سے فسٹ ایڈ باکس لے آئی۔۔۔۔زخم صاف کر کے بینڈیج کی اور ہال سے نکل گئی
اب ہال میں پلوشہ اور تخت پر بی بی جان موجود تھیں
یہاں آؤ۔۔۔۔۔۔انہوں نے پلوشہ کو اپنے پاس بلایا
وہ آہستگی سے چلتی ہوئی پاس آ کر کھڑی ہو گئی
پلوشہ زمین پر بیٹھنے لگی تھی جب بی بی جان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہا
وہ انکے سامنے صوفے پر ٹک گئی
کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔؟؟؟
پلوشہ خانم۔۔۔
دلاور خان کی بیٹی ہو یا بھتیجی۔۔۔۔۔؟؟؟
بیٹی ۔۔۔
ہون ۔۔۔۔اکلوتی۔۔۔ ہو۔۔۔؟؟
جج۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔شم۔۔۔۔۔شمس لالہ بھی ہیں
ہوں۔۔۔۔۔بی بی جان نے لمبی سی سانس خارج کی
زریاب کا غصہ یہاں کے روایتی مردوں کے جیسا ہی ہے مگر دل کا برا نہیں وہ۔۔۔۔
اصل میں سہراب نہ صرف اسکا بڑا بھائی تھا بلکہ بہت اچھا دوست بھی تھا۔۔۔اور وہ اسی صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔۔۔۔بی بی جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
بیگ۔۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔شمس لالہ نے سہراب آفریدی کو جان بوجھ کر نہیں مارا وہ بس اچانک۔۔۔۔
اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بچے۔۔۔۔جانے والا تو چلا گیا۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیں
مم۔۔۔۔میں معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔پلوشہ نے اچانک ان کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
ارےے تم کیوں معافی مانگ رہی ہو بچے۔۔۔۔اس سب میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔۔
اتنے میں مہرو دودھ کا گلاس لے کر وہاں آئی
یہ لو یہ پین کلر لے کر یہ ہلدی ملا دودھ پی لو۔۔۔۔۔سکون ملے گا
پلوشہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔حویلی کا ایک فرد زخم دے رہا ہے تو دوسرا مرہم رکھ رہا ہے
مہرو نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے آہستگی سے گلاس اسکے ہاتھ میں دے کر ہاتھ تھپتھپایا
پی لو۔۔۔۔
ہاں بچے لے لو آرام ملے گا۔۔۔۔۔۔اچھا مہر میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔تم کھانا کھلا دینا۔۔اسے۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جی بی بی جان۔۔۔۔۔۔مہرو نے ہاں میں سر ہلا دیا
_______________
زریاب آ گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟بی بی جان نے مہرو سے پوچھا جو انہیں گرم دودھ کا گلاس دینے آئی تھی۔
۔۔۔
نہیں ابھی تک تو نہیں آیا۔۔۔۔۔
پلوشہ کہان ہے۔۔۔؟؟
گیسٹ روم مین۔۔۔
اسےکھانا کھلا دیا کیا۔؟؟
جی۔۔۔۔تھوڑا سا ہی کھلایا ہے وہ بھی زبردستی
ہوں۔۔۔۔۔ایسا کرو اسے زریاب کے کمرے میں چھوڑ آؤ
بی بی جان وہ زریاب کا غصہ وہ؟۔۔۔۔۔
غصہ ٹھنڈا کر کے ہی واپس آئے گا۔۔۔۔پھر آ کر نیا ہنگامہ مچا دے گا اس لیے بہتر ہے پلوشہ کو چھوڑ آؤ۔۔۔۔وہی لانے والا ہے اسے۔۔۔۔۔اب رکھے بھی خود۔۔۔۔وہ دو ٹوک بولیں
جی۔۔۔۔۔ آپ یہ دودھ پی کر لیٹ جائیں۔۔۔۔میں چھوڑ آتی ہوں
ہوں۔۔۔۔سلامت رہو۔۔۔۔۔بی بی جان نے افسردہ سی نگاہ مہرو پر ڈالتے ہوئے دعا دی
پہلے وہ اسے سدا سہاگن رہو کی دعا دیتی تھیں مگر اب حالات کے پیش نظر۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی اپنی دعا بدل چکیں تھیں
_____________
رات ڈھائی ، تین کے قریب زریاب اپنے کمرے میں داخل ہوا
مگر بیڈ پر سوئے وجود کو دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑا
وہ غصے سے کھولتا بیڈ کے پاس آیا اور جھٹکے سے رضائی کھینچی
پلوشہ کی آنکھ بمشکل اتنی دیر رونے کے بعد اب جا کر لگی تھی کہ یہ طوفان آ گیا۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔مگر جیسے ہی نظر سامنے کھڑے زریاب آفریدی کی لال انگارہ آنکھوں پر پڑی۔
تو وہ جلدی سے لرزتی ،کانپتی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئی
کیا کر ہی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل غصہ ضبط کرتا ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا
وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔
کیا وہ۔۔۔۔وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔صاف اور سیدھی بات کرو۔۔۔۔۔۔وہ غراتا ہوا پاس آیا۔
پلوشہ ڈو قدم پیچھے ہٹی۔
زریاب مزید پاس چلا آیا۔۔
وہ پھر سے پیچھے ہٹتی دیوار سے جا لگی
تمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی۔۔۔پلوشہ دلاور خان۔۔۔۔واہ واہ۔۔۔۔وہ اتنا پاس آ کر بولا کہ ہیر کو اس کے سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی
نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں خود تو نہیں آئی۔۔۔۔۔وہ مجھے مہرو۔۔۔۔۔مہرو بھابھی چھوڑ کر گئیں ہیں۔
مہرو بھابھی۔۔۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا
کس رشتے سے وہ تمہاری بھابھی ہیں۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔زریاب نے سختی سے اسکا منہ جکڑا
تمہارے بھائی نے ان کے شوہر کو قبر میں اتار کر انہیں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور تم یہاں رشتے داریاں بناتی پھر رہی ہو
ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ پوری طاقت سے چلایا
مم۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں۔وہ؟؟
چپ۔۔۔۔۔۔زریاب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔۔بلکل یکدم سے چپ۔۔۔۔۔
آج کے بعد اگر یہ زبان بلا ضرورت ہلی تو پھر مین اسے کاٹ دوں گا سمجھی۔۔۔۔
اب چلو میں تمہیں تمہاری اصلی آرام گاہ دکھا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پلوشہ کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹا باہر لایا۔
پلوشہ اسکی قدموں کیساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی
زریاب اسے لے کر تہہ خانے میں آیا
یہ۔۔۔یہ ہے تمہارا اصل ٹھکانہ۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔وہ گھور کر کہتا وہاں سے چلا گیا
پیچھے پلوشہ اس تہہ خانے میں سسکتی اکیلی رہ گئی
__________________
پلوشہ کو تہہ خانے میں بند ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔نہ کوئی وہاں آیا اور نہ ہی اسے باہر بلایا گیا۔۔۔۔۔سکینہ نامی ملازمہ اسے کھانا پانی سب دے جاتی تھی۔۔۔۔۔
اور آج وہ بارہ دن کے بعدپلوشہ کے پاس زریاب آفریدی کا بلاوا لے کر آئی تھی کہ چھوٹے خان تمہیں اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں
پلوشہ کو رات کے اس پہر زریاب آفریدی کا اپنے کمرے میں بلانا نامناسب لگا اسی لیے وہ سکینہ کو منع کر چکی تھی جب زریاب آفریدی خود وہاں چلا آیا۔۔۔۔
سکینہ کے جانے کے بعد وہ مضبوط قدم اٹھاتا پلوشہ کے بلکل سامنے آ کھڑا ہوا
کیا سنانا چاہتی ہو۔تم۔۔۔۔۔؟؟
کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔پلوشہ نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا
ابھی کہہ رہی تھی ناں سکینہ سے خان سے کہو جو کہنا سننا ہے یہاں آ کر سن لیں۔۔۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔۔بات۔۔۔۔۔۔بھی نہیں ہے۔۔
میری بات یاد ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟
جج ۔۔۔۔جی۔۔
کونسی۔۔۔؟۔۔
اگر۔۔۔اگر بلاضرورت زبان ہلائی تو کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے اسکی بات دہرا گئی
گڈ۔۔۔۔۔تم تو بہت ذہین ہو۔۔۔۔۔تو بتاؤ جب میری بات یاد تھی تو پھر آنے سے منع کیوں کیا۔۔۔۔۔اب کے وہ اپنی مخصوص دھاڑ نما آواز سے غرایا
غلطی ہو گئی ۔۔۔۔معاف۔۔۔۔معاف۔۔۔۔کر دیں۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں بولی
معاف کیا۔۔۔۔اب چلو گی ساتھ یا پھر۔۔۔
چچ چلون گئی۔وہ فٹا فٹ بولی۔
گڈ۔۔۔۔چلو۔۔۔۔۔پھر
وہ زریاب آفریدی کے پیچھے پیچھے ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اسکے کمرے تک آئی
یہ دیکھ رہی ہو میرا کمرہ۔۔۔۔زریاب نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جی۔۔۔۔۔۔
آج سے تم اس کمرے میں رہو گی
زریاب کی بات پر پلوشہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تم اس کمرے کی مالکن نہیں بلکہ ملازمہ بن کر رہو گی۔۔۔۔۔انڈر اسٹینڈ۔
تمہیں اس کمرے میں رہنے کے عوض جو جو کرنا ہو گا وہ میں تمہیں ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔۔۔۔۔خود سے مجھے مخاطب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔رائٹ۔
جی۔۔۔۔پلوشہ نے ٹرانس میں سر ہلایا
اب فلحال تو تم ایسا کرو کبڈ سے اگر کوئی بستر ملتا ہے تو نکال کر یہاں زمین پر بچھا لو۔۔۔۔کیونکہ اب یہیں سویا کرو گی تم۔۔
اسکی بات پر پلوشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔۔۔۔اتنی ٹھنڈ میں زمین پر۔۔۔۔۔وہ بمشکل اپنی ٹانگیں گھسیٹتی کبڈ تک گئی۔
زریاب اپنی بات مکمل کرنے کے بعد واش روم میں گھس چکا تھا۔
وہ کبڈ میں اتنی کوشش کے بعد بھی صرف ایک شال نما موٹی چادر ہی تلاش کر پائی
اب وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چادر کو نیچے بچھائے یا پھر سردی سے بچنے کواوپر اوڑھے۔وہ اسی کشمکش میں تھی جب زریاب ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا۔
ایک سرسری نظر پلوشہ کے ساکت وجود پر ڈال کر بالوں کو برش کیا اور پلٹ کر بیڈ پر موجود خوبصورت سی شہنیل کی نرم وملائم رضائی میں گھسا ( یہ شہنیل کی رضائیاں بی بی جان کی نگرانی میں بنائی جانے والی اسپیشل سوغات تھی جنکو سردی کے موسم میں ہر کمرے میں موجود کمبل کو ہٹا کر پہنچا دیا جاتا تھا )
پلوشہ نے ایک للچاتی نظر رضائی پر ڈالی اور آگے بڑھ کر چادر کو بیڈ کے بائیں جانب ذرا فاصلے پر بچھایا ۔
اور بڑے حوصلے سے اس چادر پر لیٹ کر اپنی سر پر اوڑھی شال کو سارے جسم کے اردگرد لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں
اسکی بند آنکھوں کے سامنے اپنا کمرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔جہاں آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی اور اب وہ پلوشہ دلاور خان زمین پر پڑی تھی بنا کسی بستر اور لحاف کے۔
ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کے بند پپوٹے سے نکل کر زمین پر گرا مگر وہاں ان آنسوؤں کو دیکھنے اور انہین پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔
ہائے رےےےے۔۔ یہ قسمت۔۔
جو لمحوں میں بادشاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔۔قسمت۔۔۔جس سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔وہ صرف اپنی دعاؤں سے ہی قسمت کو بدلنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور پلوشہ بھی دعا گو تھی کہ اسکی قسمت ،، اسکی زندگی بھی پھر سے پہلے جیسی ہو جائے۔۔۔۔جہاں نہ تو کوئی دکھ تھا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔۔۔۔۔مگر اب دیکھنا یہ تھا کہ پلوشہ کی یہ خواہش پوری ہوتی بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
_________. . . . . _______
پلوشہ تہہ خانے سے نکل کر اب اس کمرے میں قید ہو چکی تھی
وہ زریاب آفریدی کے حکم کے مطابق خود کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھی
تین دن سے وہ اس کمرے میں تھی جہاں کی ایک ایک چیز اسے ازبر ہو چکی تھی اب تو وہ آنکھیں بند کر کے بھی بتا سکتی تھی کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہے
اس رات وہ زمین پر لیٹ تو گئی تھی مگر سو نہیں پائی تھی۔۔۔۔
ٹھنڈ تلوار کی مانند ہڈیوں میں گھسے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔دو گھنٹے کے کھٹن صبر کے بعد وہ بلآخر اٹھ بیٹھی
کمرے میں مدھم روشنی کیساتھ زریاب آفریدی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے
خود تو مزے سے سو رہا ہے جنگلی اور مجھے یہاں مرنے کو لٹا دیا۔۔۔۔
میرے مالک مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے آخر۔۔۔کونسا گناہ ہو گیا مجھ سے کہ اتنی بھیانک سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی کھڑی ہوئی۔
پلوشہ مدھم روشنی میں صوفہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس پر لیٹ سکے
آنکھوں کو اچھی طرح کھول کر دیکھنے پر وہ صوفہ تلاشتی آگے بڑھی ہی تھی کہ زریاب آفریدی کے پشاوری چپل میں اڑ کر زمین بوس ہوئی۔
کھٹکے کی آواز پر زریاب بھی آنکھیں مسلتا لیمپ آن کر چکا تھا
پلوشہ کو زمین پر اوندھے منہ گرے دیکھ کر وہ مسکراہٹ روکتا اٹھ بیٹھا
یہ آدھی رات کو کس فلم کی ریہرسل ہو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟
پلوشہ اسکی آواز پر شرمندگی کے مارے اٹھ ہی نہ پائی۔
اٹھ جاؤ اب یا پھر کرین منگواؤں۔۔۔۔؟؟
زریاب نےپلوشہ کی بھری بھری جسامت پر چوٹ کی۔
وہ شرمندہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی۔
کیا کر رہی تھی تم آدھی رات کو۔۔۔۔۔۔؟؟
مم۔۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے
اوہ تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔؟؟؟یشب نے سیگرٹ سلگاتے پوچھا..۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔صوفے پر...
میں نے تمہاری جگہ تمہیں بتا دی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں بولا
سر۔۔۔سردی بہت۔۔۔ہے۔۔۔۔میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی۔۔۔۔وہ سر جھکائے جلدی سے بولی۔
کافی سے زیادہ چالاک ہو اپنے بھائی کیطرح۔۔۔۔طنز کیا گیا۔
میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔پلوشہ زریاب کی بات پر چلا کر بولی
زریاب اسکے چلانے پر رضائی ہٹاتا اس تک آیا
تمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے سہراب خان کو ہوں۔۔۔۔
لالہ نے جان بھوج کر نہیں۔۔۔۔غلطی سے۔۔۔۔
پلوشہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی زریاب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑ اسکی بولتی بند کروا گیا
میرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ پلوشہ کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی بولی
ورنہ کیا کریں گے۔۔۔۔مجھے ماریں گے۔۔۔۔ پیٹیں گے۔۔۔۔۔۔یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔۔۔۔مار دیں مجھے۔۔۔۔۔میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔۔
زریاب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا۔۔۔
مجھے روتی ،بلکتی عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شو کرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا
پلوشہ اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی اور روتے روتے ناجانے کب نیند کی پری اس پر مہربان ہوئی کہ وہ وہیں زمین پر ہی سو گئی۔۔۔
جاری ہے۔۔