Offline
- Thread Author
- #1
لڑکی لڑکی ہوتی ہے ۔
قسط نمبر 1
ایک بڑی اور انسیسٹ کہانی ??
بھائی بہن کے پیار کی کہانی ?
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے میٹرک کرلیا تھا یعنی اسوقت میری عمر اٹھارہ سال تھی ھماری فیملی چھ افراد پر مشتمل ہے پہلے نمبر بڑا بھائ جسکا نام فیصل ہے
کہانی کے روایت کے مطابق نام مقام چینج ہے
دوسرے نمبر پر بہن جس کا نام سائرہ ہے تیسرے نمبر جناب مابدولت ہیں اور چوتھے نمبر پربہن جسکانام مائرہ ہے اور امی ابو جب میں نے میٹرک کرلیا تھا اسوقت بڑے بھائ کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے اور ایک بچہ ہے جس کی عمر اس وقت ڈھیڑ سال تھی جبکے سائرہ کی شادی کوڈھیڑسال ہو
چلا تھا اور مائرہ کی منگنی ہوچکی تھی اور شادی ک تیاریاں ہورہی تھیں اورمیں ان دنوں فار غ تھا ابو سعودیہ میں تھے میں معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں جبکہ بڑا بھائ بس ایویں ہےھمارا گھرانہ نارمل گھرانہ ہےھم لوگ پنڈی کے نواح میں رہتے ہیں سائرہ کا سسرال جہلم میں ہے ایک دن میں باہر سے گھوم پھر کے گھر ایا تو امی نے کہا ادھر آو امی پریشان سی بیٹھی تھی میں نے کہا امی کیا بات ہے آپ پریشان ہیں بیٹاسائرہ کا فون ایا تھا کہ رہی تھی شہزاد(میرا نام) کو کل میرے پاس بھیجدو (اس وقت موبائل فون نیانیا آیا تھا 3310 1100 وغیرہ تو ابو نے سعودیہ سےدو سیٹ بھجوا دیے تھے ایک سائرہ کیلیے اور ایک گھر کیلیے)امی نے کہا وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی میں بہت پوچھا کہ کوئ پریشانی والی بات تو نہیں لیکن اس نے کہا نہیں ایسی کوئ بات نہیں بس آپ بھا ئ کو میرے پاس بھیج دیں تو امی نے کہا بیٹا تم کل صبح سویرے بہن کی طرف نکل جاو مجھے لگ رہا کہ پھر شوہر کے ساتھ کوئ گڑبڑ ہوگئ ہے
اس سے پہلے بھی وہ تین چار بار اس طرح روٹھ کے گھر آچکی تھی پھر وہ لوگ آکے معافی تلافی کر کے منا کے لے جاتے مین نے امی کو تسلی دی اور اگلے صبح جہلم جانے کیلیے کوچ میں سوار ہوگیا جانے سےپہلے میں نے فون پر اسے بتادیاتھاکہ میں 7بجے والی گاڑی پر آوں گاجہلم پہنچ کرجیسے
گاڑی سے اترا ایک دس بارہ سال کا لڑکا میری طرف بڑھا
کیا آپ کا شہزاد ہے اس نے پوچھا
جی میرا نام میرا شہذاد آپ کون؟
میرا نام اکرم ہےسائرہ آپی نے آپ کو لینے کیلئے بھیجا ہے
تم نے مجھے پہچانا کیسے
اپ کے سن گلاس کی وجہ سے آپی نے مجھے بتیاہا تھا
اوہ! اصل میں میری عادت ہے کہ جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو سن گلاس لگاتا ہوں چاہے موسم جیسا بھی ہو سوائے بارش کے
" کیوں خیر تو ہے نا باجی ٹھیک تو ہے"
"ہاں خیریت ہے آپی بھی ٹھیک ہے وہ پرسوں شام سے ھمارے گھر آئ ہوئ ہیں "
میں نے کہا کیوں
"مجھے نہیں پتا لیکن میں نے محسوس کیا ہے وہ کچھ پریشان ہیں"
میں نے ذیادا کرید مناسب نہ سمجھی اور اسکا اوراسکے گھر والوں کا حال احوال پوچھتا ہوا گھر چل پرےقریبا"آدھاگھنٹہ پیدل چلنے کے بعداسنے ایک خوب صورت گھر کی طرف اشارہ کرکے بتای کہ یہ ہمارا گھر ہے جس کی چھت پر چاردیواری ڈیزائن کے ساتھ بنی ہوئ تھی گھر پہنچ کراکرم کی امی نے ہمارا استقبال کیاجو تقریبا" میری امی کی ہم عمر ہیں میں نے سلام کیا
سائرہ بیٹی دیکھو کون آیاہے آنٹی میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے آواز دی ایک کمرے سے تین لڑکیاں باہر نکل ائین اور انھوں نے بھی سلام کیا
شہزاد بیٹا یہ میری بیٹیاں ہیں یہ جو سب سے بڑی ہے اسکا نام صائمہ ہے اس سے چھوٹی فائزہ ہے اور ان سے چھوٹی نائلہ ہے وہ تینوں خوب صورت ہیں لیکن جس پر دل آگیا وہ درمیان والی فائزہ ہے وہان دونوں سے زیادہ حسین ہےمیں نے تینوں کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا لیکن فائزہ کے ہاتھ کو ذرا زور سے دبایا اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مسکرا دی اتنی دیر میں باجی اندر کمرے سے نکلیں اور اتے ہی مجھے گلے لگا لیا اسکے بوبز میرےسینے میں چھب سے گئے جس سے میرے پورے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا چونکہ ھمارے درمیان ایساویسا کچھ نہیں تھا اس لئے باجی کے علیحدہ ہوتے ہی یہ بات ذہن سے محو ہوگئ ویسے میری باجی کا سائز 38 28 34 ہے جو کہ میرے نقطہ نظر سے بہت ہی سیکسی ہے میں نے باجی سے خیر خیریت پوچھی اتنے میں انٹی نے کہا ارے بیٹا اندر کمرے میں آجاو کیا کھڑے کھڑے خیرت پوچھ رہے ہو تھوڑا ریلیکس ہو جاو پھر باتیں کرو سمجھو یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنی صائمہ کو آواز دیکر کھا بنانے کیلئے کہہ دیا باجی مجھے اندر کمرے میں لے آئ بھیا یہاں بیٹھ جائیں باجی نے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئ چونکہ میری باجی کے ساتھ بچپن سے ہی بتکلفی تھی لیکن میں نےاسے کبھی بھی نام سے نہیں پکارتا تھا بلکہ باجی ہی کہتا تھا
"باجی اکرم کہہ رہا تھا کہ آپ پرسوں س یہاں ہو کہیں سسرال میں پھر کوئ مسلہ"
"اسی لیئے تو میں نے تم کو بلایا ہے"باجی نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا پھر کہنے لگی دیکھو بھائ یہ بات ایسی ہے کہ میں تمھارے سوا کسی سے نہیں کہہ سکتی اور امی ابو کو بھی تمہی نے سمجھانا ہے
میں سمجھ گیا ہوں باجی کہ اسنے تمھیں چھوڑ دیا ہے لیکن میں کمینے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا
مجھے اس کمینے پر شدید غصہ آگیا
تم ایسا کچھ نہیں کروگے کیوں کہ باجی کو پتا تھا ایسا کرنا میرے لیئے کچھ مشکل نہیں
" لیکن کیوں اگر ایسی کوئ بات تھی تو میں آکے سیدھا کردیتا"نہیں مجھے پتا ہے کہ یہ سیدھا ہونے والا آدمی نہیں ہے کہ تم آکے اس کو سیدھا کر لیتے پہلے میری پوری بات سنومیں نے خوداس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھاکیوں کہ میں روز روز کے بک بک سے تنگ آگئ تھی اور اس نے مجھے اپنا پوراحق دےدیاہے اور میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ تم تو سمجھ بوجھ رکھتے ہو اس لئے امی ابو کو تم سمجھا سکتے ہو کیوں کہ تمھارے ساتھ میرا تعلق دوستوں جیسا ہے
اور تمہیں پتہ ہے کہ میں روٹھ کے میکے کتنی بار آئ ہوں لیکن اس کے علاوہ ہر ہفتے یہی ہوتا تھا لیکن میں یہاں آجاتی پھر کبھی وہ لوگ مجھے منا کے لےجاتے کبھی اس گھر والے بیچ میں پڑ کے صلح صفائ کرالیتے اس اور
بیٹاہاتھ منہ دھولو کھانا تیار ہے
باجی کی بات آنٹی کی آواز سے ادھوری رہ گئ
چلو بھیا کھانا کھاتے ہیں اور پھر جانے کی تیاری کرتے ہیں
ہم دونوں باہر آئے تو دیکھا برآمدے میں دستر خوان لگا ہوا تھا بیٹھ کے کھانا شروع کیا تو آنٹی نے کہا بیٹا سائرہ کی بات تم نے سن لی
"جی آنٹی"
بیٹا سائرہ کو میں نے اپنی بیٹی بنائ ہوئ ہے
"بیٹا کوئ بھی لڑکی اپنا گھر نہیں اجاڑتی مگر جب مجبوری آجاتی ہے تو ایسے تلخ فیصلے کرنے پڑتے ہیں کوئ بھی ماں یہ نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کو طلاق ہو جائے لیکن میں خوش ہوں کہ سائرہ بیٹی نے درست فیصلہ کیا ہے اس کی زندگی تباہ ہونےسے بچ گئ ہے"
"جی آنٹی آپ نے درست کہا"
"اور اپنے گھر والوں کو تم نے یہ بات سمجھانی ھے "
"ٹھیک ہے آنٹی میں سمجھ گیا"
"بیٹا کھانا کھا کے نا اکرم کے ساتھ جاو اور گاڑی میں سیٹیں بک کرالو کیوں کہ عین ٹائم پر سیت ملنی مشکل ہو جاتی ہے"
"اور سائرہ بیٹی تم دل چھوٹا نا کرو قسمت نے ساھ دیا تو اس سے اچھا رشتہ ملے گا"
"نہیں آنٹی میری جوتی کو بھی ان کی پروا نہیں ہے"
کھانا کھانے کے بعد میں اکرم کو لیکے اڈے پر چلا گیا دو سیٹیں بک کیں زات گیارہ بجے والی گاڑی پر اس کے بعد ھم واپس گھر آگئے وہاں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے آنٹی نے چائے دی
"بیٹا یہ آپ لوگوں کااپنا گھر ہے تم لوگوں کو بھجوانے کو دل تونہیں کر رہا ہے لیکن وہاں تمھاری امی پریشان ہورہی ہونگی پھر جب دل کرے آجانا ویسے میں بھی چکر لگاونگی اس دوران ھم نے چائے ختم کی اور ان کےساتھ گپ شپ لگانے لگےانٹی کی فیملی بھی چھ افراد پر مشتمل ہے اس کا خاوند فوج میں ہے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے تھوڑی دیر بعد ھم یوں گھل مل گئے جیسے ایک ہی گھر افراد ہوتے ہیں آنٹی کی درمیان والی بیٹی سب سے خوب صورت ہے میں اس کی طرف چوری چوری دیکھتا جب وہ مجھے اپنی طرف متوجھ پاتی ایک دلفریب مسکراہٹ سے مجھے نواز دیتی جب اس نے اپنے آپ میری دلچسپی دیکھی تو میری طرف مائل ہونے لگی بات بات پہ میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگی اس کی ہنسی بڑی دل کش ہے اس نے پنک کلر کا میچنگ خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا جس سے وہ میرے دل پر اور قیامت ڈھا رہی تھی
فائزہ جی آپکاسوٹ بہت خوب صورت ہے میں نے کہا
صرف سوٹ؟ اس نے شوخی سے کہا
ارے میرا مطلب ہے سوٹ آپ نے پہنا ہے تو اس لیئے خوب صورت لگ رہا ہے میری بات سن سب ہنس پڑے لیکن اس کی ہنسی میرے دل کا چین لوٹ رہی تھی میری والہانہ نگاھیں اس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں باجی نے میری وارفتگی نوٹ کی تو اس نے مجھے ٹہوکا دیا میں نے بےاختیار نظریں ہٹالیں اور ہم ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہوگئے
صائمہ تم سائرہ کے ساتھ پیکنگ میں مدد کرو آنٹی نے صائمہ کو ہدایت کی اور مجھ سے کہا بیٹا میں نائلہ کے ساتھ ذرا ان کے ماموں کی عیادت کو جارہی ہوں
ٹھیک ہے آنٹی اور وہ نائلہ کو لیکر چلی گئ اکرم بھی ادھر ادھر ہو گیا میں فائزہ کے ساتھ اکیلا رہ گیا میں اٹھ کے اس کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا میں نے کہا ایک بات کہوں آپ ناراض تو نہیں ہونگی میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
نہیں میں بھلا آپ سے کیوں ناراض ہوں گی بلاجھجک کہیں اس نے اپنا ہاتھ چھڑا نے کوشش نہیں کی جس سے میرا حوصلہ بڑھ گیا فائزہ جی آئ لو یو میں نے بلا جھجک کہہ دیا اس نے شرما کرچہرہ دوسی طرف کرلیا اور آہستگی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور کرسی اٹھ گئ میں نے کہا فائزہ جی کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو
"ہاں"
اور اندر کی طرف بھاگ گئ مجھے اپنی منزل مل گئ مجھے اس پر ڈھیروں پیار ایا میں اٹھ کے کمرے کمرے کے اندر گیا جہاں صائمہ باجی کے ساتھ پیکنگ میں ہیلپ کررہی تھی شہزاد امی کے ساتھ بات یہاں سے فون پر کروگے یا گھر جا کے باجی نے مجھ س پوچھا
نہیں وہاں جاکے بات کروں گا لیکن جیسے میں کہونگا ویسے آپ نے کرنا ہے باجی نے اثبات میں سر ہلا دیا تھوڑی دیر اسی موضوع پربات کرکے میں وہاں سے نکل آیا کچن میں سے کھڑ پڑ کی آوازیں سن کر میں نے جا کےکچن میں جھانک کر دیکھا تو میری جان من برتن دھوتی نظرآئ میری تو عید ہوگئ میں چپکے سے اندر داخل ہوگیا اور جاکے پیچھے سے جپھی ڈالی ا
وہ اچھل پڑی مڑ کر مجھے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئ
اوہ! تم چھوڑو مجھے کوئ دیکھ لے گا وہ کسمسائ دکھنا ہے تو دیکھنے دو میں تو نہیں چھوڑنے والا میں نےہلکا سا جھٹکا دےکے بازوں کا حصار اور ٹائیٹ کیا جس سے اس کی گانڈ میرے لن کے ساتھ ٹچ ہوگئ اور میرا لن آہستہ آہستہ اٹھنے لگا جس کو اس نے بھی محسوس کیا کیوں کہ لن دراڑھ مچھبنے لگا اسنے چھڑانے کوشش ترک کردی اور میں نے اس کی گردن کا بوسہ لیا تو اس پر بھی مستی چھانے لگی
کیا واقعی میں بہت خوب صورت ہوں اس نے مستی بھرے لہجے میں پوچھا میں نے یک دم ہاتھوں کے حصار سے آزاد کیا اور اپنی طرف گھما کے سینے سے لگا کے کہا میری جان تم میری آنکھوں سے اپنے آپ کو تو میرے دل میں جو کچھ ہے وہ جان لو پھر اس نے منت بھرے لہجے میں کہا پلیز چھوڑدو کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی
ایک شرط پر چھوڑوںگا میرے کان میں کہہ دو آئ لو یو تواس کو شرارت سوجھی اسنے کہا اوکے پھر اپنا منہ کان کے پاس لےجاکے اہستہ سے میرےکان پر کاٹ لیا
اب تو اس کا بدلہ میں لوں گا نہیں تو نہیں چھوڑوںگا
تو اس نے کہا کیا بدلہ میں نے کہا لے لوں تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا تو میں ایک دم سے اپنے ہونٹ اس کے گلاب کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھ دیے وہ تھوڑی سی کانپی لیکن پھر پر سکون ہوگئ ایک لمبی کس کےبعد میں نے اس کو چھوڑ دیا
بڑے بدمعاش ہو تم اس نے شوخی سے بھر پور لہجے میں کہا اور ہنس پڑی
اب جاو تم اس نے کہا اور میں بھی ہنستا ہوا باہر آگیا جیسے ہی میں باہر آیا تو ادھر دروازے سےآنٹی اندر داخل ہورہی تھی اس نے مجھے کچن سے باہر آتے ہوئے دیکھ لیا میری تو بنڈ پھٹ کے ہاتھ میں آگئ۔
کیا ہورہا ہے بیٹا آنٹی کی نرم آواز میرےکانوں میں پڑی تو جان میں جان آئی میں نےکہاآنٹی اکرم کودیکھ رہا تھا پتہ نہیں کہاں چلا گیا فائزہ برتن دھورہی ہے اس سے پوچھنے گیاتھا تو آنٹی نےکہا آجائے گا یہیں کہیں ہوگا پھر میں آنٹی کے ساتھ بڑے کمرے میں جاکےبیٹھ گیا تھوڑی دیر بعدفائزہ بھی آگئی سب بیٹھ کےگپ شپ لگانے لگے کافی دیر کےبعدآنٹی نے اپنی بیٹیوں سے کہا اے لڑکیو تم لوگ تو بیٹھ کے گپیں ہانک رہے ہو کھانے پکانے کی بھی کوئی فکر ہے کہ نہیں ٹائم دیکھوشام ہونےوالی ہے فائزہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا ہاں تو جناب کھانے کیلئے کیاپکائیں پالک مبارک یا کدوشریف یا بھنڈی نقشبندی یاپھر آلوصاحب میں نے کہا مجھ جیسا گنہگار ان کےکھانے کے قابل تو نہیں البتہ کوئی بےغیرت اوارہ سا مرغا ذبح کرکے پکالیں میرے اس جواب پر جیسے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا ہو سب بےتحاشہ ہنس پڑے فائزہ تو جیسے دل کی گہرائی سے ہنس رہی تھی امی میں نے وہ آپ کو ساس داماد والاجوک سنایا تھانا انہوں آج پریکٹیکل میں سنا دیا ہے صائمہ نے ہنستے ہوئے کہا آنٹی بھی ہنس رہی تھی ہاں میں سمجھ گئی ہوں آنٹی نے کہا دراصل فائزہ بیحد ذہین ہے اس نے درپردہ مجھے یہ جتا دیا کہ میں تمھاری بیوی اور میری امی تمھاری ساس کیونکہ میرے اس جواب پر سب سے دلکش ہنسی فائزہ کی تھی پھرصائمہ اٹھی اور باجی سے کہا آ ہم دونوں کچن میں چلتی ہیں تو آنٹی نے کہا اے صائمہ یہ کیا کررہی ہو سائرہ ہماری مہمان ہے باجی بھی صائمہ کے ساتھ ہی اٹھ گئی اورکہانہیں آنٹی میں یہاں مہمان تھوڑی ہوں یہ میرا اپنا گھر ہے اور پھر وہ دونوں کچن میں چلی گئیں اور میں آنٹی کے ساتھ باتیں کرنے لگا آنٹی نے کہا سامان تو ان لوگوں نے پیک کرلیا ہے کیونکہ ایک کونے میں دو بیگ انٹی نے دیکھ لیے ایک درمیانے سائز کا تھا اور ایک چھوٹاتھا میں نے کہاہاں آنٹی سامان سے یاد آیا باجی کا اور سامان کہاں ہے وہ ہم نے کل شام کو ہی ان کے گھر سے اٹھا کر یہاں لا کے رکھ دیا ہے ابھی تم لوگ جاو میں بعد میں اچھی طرح پیک کرکے بھجوادونگی تم کوئی فکر مت کرو اور ہاں وہاں جاکے اپنی باجی کا خیال رکھنا کیونکہ وہ بہت دکھی ہیں آنٹی نے کہا اس دوران فائزہ میری طرف دیکھ کے دلنشیں انداز میں مسکرا رہی تھی جب آنٹی اس کی طرف نظر کرتی تووہ بھی مجھ سے نظریں چرا لیتی جاو تم بھی جاکے ان کے ساتھ کھانا بنانے میں مدد کرو شائد آنٹی نے محسوس کیا تب ہی اس کو یہاں سے بھگادیا میں نے کہا آنٹی آپ لوگ بہت اچھے ہیں مجھےیہ کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی غیر کے گھر آیا ہوں مجھے ایسا لگ رہاہے جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں پھر میں آنٹی کے ساتھ اسی طرح کافی دیر تک باتیں کرتارہا اس دوران اکرم بھی جانے کہاں سے گھوم پھر آگیا رات کے آٹھ بجے کے قریب اسی کمرے میں بیٹھ کے سب نے کھانا کھایا کیونکہ رات کو کافی ٹھنڈ پڑجاتی تھی وہ اکتوبرکےاخری تاریخیں تھیں کھانے کے بعد آنٹی نے اکرم سے کہا جاو بیٹا ظہور انکل سے کہو کہ اپناسوزوکی وین ساڑھے دس بجے ہمارے گھر لے آئے مہمانوں کو لاری اڈا چھوڑنا ہے اکرم سر ہلاتا و ہوا اٹھ کے چلا گیا پھر آنٹی نے مجھ سے کہا چائے کونسی بنائیں میں نے کہا قہوہ بنالیں آنٹی نے فائزہ سے قہوہ بنانے کیلیے کہا قہوہ پینے کے بعد باتوں کا دور چلنے لگا دس بجے کے قریب فائزہ اٹھ کے باہر جانے لگی میں چونکہ دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا وہ جیسے ہی میرے قریب سے گزرنے لگی لڑکھڑا سی گئی سہارےکےلیے میرےکاندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور ساتھ ہی میرے کاندھے پر زور سے چٹکی بھرکر باہر نکل گئی باہر نکلنے کے بعد باقی سب کی نظروں سے تو اوجھل ہوگئی لیکن مجھے نظر آرہی تھی اس نے مجھ آنے کا اشارہ کیا اور چلی گئی کسی کو یہ محسوس بھی نہ ہوا کہ اس نے مجھے کوئی اشارہ کیا ہے خیر دو تین منٹ کے بعد میں نے آنٹی سے کہا میں ذرا باتھ روم جارہا ہوں اور اٹھ کے نکل آیا وہ برآمدے کے آخر والے کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی کمرے کے اندر چلی گئی میں اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوگیا اسنے میرے لیے بانہیں کھول دیں میں نے اسے بانہوں بھر لیا وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے لگی میں نے اس کا چہرہ اٹھاکر دیکھا اس کے آنکھوں میں آنسو تھے کمرے کی لائیٹ بند تھی چونکہ برآمدے کی لائیٹ کی وجہ سے تھوڑی روشنی تھی اس لیے نظر آرہی تھی میں نےاس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے کس کے بعد میں نے کہا ارے پگلی کیوں رو رہی ہو میں تمہیں چھوڑ کے تھوڑی جارہا ہوں میں پھر آوں گا اور آنٹی سے مانگ کر تمہیں ہمیشہ کےلیے اپنے ساتھ لےجاوں گا تم تو میری جان ہو اور ساتھ ساتھ اس کے گردن گالوں اور ہونٹوں پر کس کررہاتھا میں نے انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسو صاف کیے وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی تم نے کچن میں کہا تھا نا میں تمھارے کان میں کہہ دوں آئی لو یو پھر وہ سرگوشی میں آئی لو یو آئی لو یو کی گردان کرنے لگی اور مجھ پر جوابی حملہ کردیا اور مجھےدیوانہ وار چومنے لگی اور مجھے اپنے ساتھ کس کے چمٹالیا میں اس کے کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور دونوں ہاتھوں کونیچے لے جا کر گانڈ پر پھیرنے لگا اف کیا روئی کی نرم گانڈ کی پہاڑیاں ہیں میں ان کو دبانے لگا اس دوران لن تن کے میزائل کی طرح کھڑا ہوچکا تھا میں نے گانڈ پر دباو ڈال کے اپنی طرف جھٹکا دےکے کس لیا جس سے میرا لن اس کی چوت کو سلامی دینے لگا وہ لن کے ساتھ چوت کو رگڑنے لگی میں اس کے بوبز دبانے لگا تھوڑی دیر بعد اس کی دیوانگی سے میں گھبرا گیا دس منٹ سے ہم کسنگ کررہے تھے موقع نازک تھا کوئی کسی بھی وقت آسکتاتھا میں نے اس کو تسلی دی اور آہستگی سے اس سے الگ ہوگیا میں نے کہا میری جان اپنی حالت درست کرلو تم تھوڑی دیر بعد میرے پیچھے آجاو ٹھیک ہے میں نے آخری بار اس کے ہونٹوں پر کس کیا اور جاکر وہاں سب کے ساتھ بیٹھ گیا آنٹی نے کہا بیٹا اپنی امی کو فون تو کرلو کہ ہم گیارہ بجے والی گاڑی میں آرہے ہیں میں نے ہاں آنٹی آپ نے اچھا کیا مجھے یاد دلادیا پھر میں نے امی کو اطلاع دی اور ساتھ ہی بتادیا کہ ہم کس وقت پہنچیں گے اس دوران فائزہ آکر بیٹھ گئی میں نے دیکھا اس نے پوری طرح میری ہدایت پر عمل کیا ہے کیونکہ وہ پوری طرح فریش دکھائی دے رہی تھی البتہ آنکھوں میں تھوڑی سرخی تھی تھوڑی دیر بعد اکرم نے اندر آکے اطلاع دی کہ گاڑی باہر کھڑی ہے میں نے ٹائم دیکھا تو ساڑھے دس سے اوپر تھا میں نے اور باجی نے ان سے اجازت لی آنٹی نے باجی کو گلے سے لگالیا باجی آنٹی کے گلے لگ کر رونے لگی آنٹی نے باجی کو تسلی دی فائزہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی جیسے کہہ رہی ہوکہ دیکھو جو کام تم میرے ساتھ کررہےتھے وہی اب امی باجی کے ساتھ کررہی ہیں نا بیٹا نا رو مت ہم سب آئیں گے تمھارے گھر اور یہ آنا جانا لگا رہے گا جب تمھارا دل کرے شہزاد تمھیں لے کے آیا کرے گا آنٹی نے باجی کے آنسو پونچھے پھر باجی فردا" فردا" تینوں لڑکیوں کے ساتھ گلے لگ کر ملی پھر میں نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا اب کی بار فائزہ نے میرے ہاتھ کو زور سے دبایا میں بے اختیار مسکرا دیااس دوران اکرم دونوں بیگ گاڑی میں پہنچاچکاتھا تقریبا" پونے گیارہ بجے سوزوکی وین نے ہمیں اڈے پر چھوڑ دیا وہاں کوچ جانے کے لیے تیار تھی لوگ سوار ہورہے تھے اکرم نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور باجی کو سلام کرکےرخصت ہوگیا ہم بھی گاڑی میں چڑھے کنڈیکر نے ٹکٹ دیکھ کے اخری سیٹ کے آگے والی سیٹ کی طرف اشارہ کیا آپ وہاں بیٹھ جائیں میں نے دونوں بیگ سیٹ کے نیچے رکھے باجی کو شیشے کی طرف بٹھا دیا اور خود ساتھ بیٹھ گیا گاڑی اپنے ٹائم پر چل پڑی میں نے گاڑی میں نظر دوڑائی گاڑی فل سیٹڈ تھی ہماری لائن کے ساتھ والی سیٹ پر ایک چھوٹی عمر کا لڑکا اور بابا ٹائپ کا آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اس کی اگلی سیٹ پر ایک جوان جوڑا بیٹھا تھا دونوں میاں بیوی لگتےتھے ہمارے اگے والی سیٹ پردو معمر حضرات بیٹھے ذرا اونچی آواز میں گپیں ہانک رہے شائد دونوں اونچا سنتے تھے ہم دونوں بھی باتیں کررہےتھے باجی نے کہا شہزاد آنٹی لوگ بہت اچھے ہیں میں نے کہا باجی ان کے ساتھ آپکی واقفیت کیسے ہوئی؟ آنٹی کا ایک بھائی ہمارا پڑوسی ہے بلکہ اب تو تھا ہوگیا آنٹی وہاں اپنے بھائی کے ہاں آتی جاتی رہتی ہیں اور اس کے بچے بھی اس طرح میری ان کے ساتھ جان پہچان ہوگئی بلکہ صائمہ تو میری اچھی دوست بن گئی پھر صائمہ نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اس طرح میرا انکے گھر آناجانا شروع ہوا آنٹی بہت دردمند دل رکھنے والی خاتون ہیں ایک دن جب میرا سسرال والوں کےساتھ جھگڑا ہوگیا تو میں آنٹی کے ہاں آگئی سب کو بہت خوشی ہوئی لیکن آنٹی میرے انررونی حالت کو بھانپ گئی اس نے کہا کیا بات ہے آج ہماری سائرہ بیٹی پریشان لگ رہی ہے مجھے بتاو ہمدردی کے دو بول سنتے ہی میری ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی آنٹی نے دیکھا تو بےاختیار اٹھاکے مجھے اپنے گلے سے لگالیا نا میری بیٹی رو مت مجھے بتاو کیا شوہر کےساتھ جھگڑا ہو گیا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا آنٹی نے مجھے تسلی دی تم فکر مت کرو میں سب سنبھال لوں گی آج سے تم میری صائمہ کی طرح بیٹی ہو پھر آنٹی نے اکرم سے کہا جاو اپنے ماموں کو بلا کے لے او پھر جب آنٹی کا بھائی آیا تو آنٹی نے پورا قصہ سنایا اس نے کہا میں ابھی جاکے ان سے بات کرتا ہوں اور چلا گیا پھر شام کو آنٹی کا بھائی ان لوگوں کو ساتھ لےکے آگیا اور اسی بڑے کمرے میں بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے آنٹی بھی ساتھ بیٹھ کے بات چیت میں شریک ہوگئی بہرحال آنٹی اور اس کے بھائی نے معاملہ سنبھال لیا اور میں رات کو گھر چلی گئی پھر تو جب بھی اس طرح ہوتا میں یہاں آجاتی اور پھر یہ لوگ معاملہ رفع دفع کردیتے باجی نے مجھے پوری صورت حال بتادی اور تم بتاو فائزہ کے ساتھ سیٹنگ ہوگئی باجی نے اچانک کہا میں گڑبڑا سا گیا کیسی سیٹنگ باجی نے کہا بچو مجھ سے کوئی بات چھپی نہیں ہے جب سے تم یہاں آئے ہو تمھاری ایک ایک حرکت میری نظر سے چھپی نہیں ہے میں نےتو صائمہ کو اپنی بھابھی بنانے کا سوچا تھا پھر باجی نے اچانک میرا کان پکڑ کر کہا سچ سچ بتا جب فائزہ باہر گئی تو تم اس کے پیچھے باتھ روم کا بہانہ کر کے گئے میں نےکہا ہاں باجی میں فائزہ سے ملنے باہر آگیا لیکن آپ نے کیسے نوٹ کیا باجی نے کہا بچو میں نے تمھاری آنکھوں میں فائزہ کے لیےاور فائزہ کی آنکھوں میں تمھارے لیے والہانہ پن دیکھ لیا تھا جب میں نے تمھیں ٹہوکا دیا تھا اور آتے وقت فائزہ کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ روتی رہی ہے بہرحال صائمہ نہ سہی فائزہ سہی میں نےلجاجت سے کہا باجی پھر آنٹی سے مانگ لو نا فائزہ کو میرے لیے تو باجی نے میرے کان پر چٹکی بھر کہا ارے بدھو تمھیں یہاں میں نے کیوں بلایا تاکہ آنٹی تمھیں دیکھ لے اور میں نے آنٹی کے ساتھ تمھارے رشتے کے بارے میں بات چیت بھی کی ہے لیکن وہ صائمہ کےلیے تھی ابھی فائزہ کے لیے کروں گی اوہ یو آر گریٹ باجی میں خوشی سے مغلوب ہوگیا پھر میں نے پوچھا باجی آنٹی نے پھر کیا کہا باجی بولیں آنٹی تو راضی ہے پر اس کے شو ہر سے بات کرنے کے لیے امی ابو کو آنا پڑے گا لیکن تم فکر مت کرو میں خود اپنے پیارے بھائی کے لیے یہ رشتہ کروں گی باجی نے میری طرف پیار سے دیکھا لیکن میرے بارے میں امی ابو سے کیا بات کروگے باجی نے فکر مندی سے کہاآپ فکر نہ کریں میں سب سنبھال لوں گا میں نے باجی کو تسلی دی میں نے محسوس کیا کہ باجی کی آنکھیں بھاری ہورہی تھیں میں نے دونوں بیگ سیٹ کے نیچے سے نکال کر باجی کے پیروں والی جگہ رکھ دیے اور باجی سے کہا آپ اپنا سر میرے گود میں رکھ دیں اور دونوں گھٹنے موڑ کر بیگوں کے اوپر کروٹ کے بل لیٹ جائیں باجی نے ایسا ہی کیا میں نے گاڑی میں نظر دوڑائی تقریبا" سب سو رہےتھے سوائے چند ایک کے ہماری سیٹ کے اردگرد تو سب سو رہےتھے البتہ ہماری لائن کے ساتھ والی سیٹ کے اگلی سیٹ پر جوان جوڑا خوش فعلیوں میں مصروف تھا میں نے دھیان سے دیکھا تو میرے لن میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ویسے تو گاڑی میں اندھیرا تھا لیکن دوسری گزرنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اچھی خاصی روشنی ہوتی رہتی وہ آدمی اپنی ہمسفر کے ممے دبارہاتھا لڑکی کے ہاتھ بھی ہل رہے تھے میں نے غور سےدیکھا تو وہ اس کےشلوار اندر ہاتھ ڈال کر لن سے کھیل رہی تھی کیونکہ قمیص کا دامن ہاتھ کی حرکت سے اچھل رہا تھا ادھر میرا لن تن گیا پھر اس آدمی نے آگے بڑھ کے اس کے ہونٹوں پر کسنگ کرنے لگا میرے لن نے اوپر کی طرف جھٹکا کھایا میں یہ بھول گیاتھا کہ میری گود میں باجی سر رکھے سو رہی تھی اور اس کا گال لن کے اوپر تھا تو لن سیدھا باجی کے گال پر لگا جوش کی وجہ سے دوسری بار پھر لن نے گال پر ضرب لگائی باجی تھوڑی کسمسائی پھر اس نے ہاتھ سے ٹٹولا کہ کسی چیز نے گال پر تھپتھپایاہے میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے جب باجی کے ہاتھ میں میرالن آگیا اور مجھے بہت زیادہ مزہ آیا کیونکہ زندگی میں پہلی بار کسی دوسرے کے ہاتھ کی لمس سے آشنا ہوا تھا اور اس کے ٹچ کرنے سے جو کرنٹ پورے بدن میں دوڑ گیا وہ مزہ بیان سے باہر ہے میں گھبرا گیا کہ اب کیا ہوگا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب باجی نے میرے لن کو سہلانا شروع کیا میں ساکت بیٹھا تھا مجھے بےانتہا مزہ آرہاتھا باجی میرے لن کو باقاعدہ ٹٹولنے لگی کبھی اس کی لمبائی رخ کبھی مٹھی میں لے کے موٹائی جانچتی تو کبھی ٹوپےکو انگلیوں سے محسوس کرتیں میں تو مزے کی بلندیوں میں پرواز کررہا تھا میرا لن لوہے کی طرح سخت ہوچکاتھا جب کافی دیر گزر گئی تو میں سمجھ گیا کہ باجی مزہ لے رہی تھی لیکن یہ میری غلط فہمی تھی اس کی وجہ آپ کو آگے چل کر سمجھ آئےگی خیر پھر میں نے ہمت کی اور اپنا ہاتھ باجی کے بغل کے نیچے آہستگی سے رکھ دیا اور نرمی سے سرکا کر اوپر والے ممے پر رکھ دیا باجی کچھ نہ بولی میرا حوصلہ اور بڑھا میں نے ممے کو ہلکا سا دبایا تب باجی کے بدن کو جھٹکا لگا جیسے کوئی سویا ہوا آدمی کسی کی لمس محسوس کر کے جھٹکے سے جاگ اٹھتا ہے اور لن پر حرکت کرتا ہوا اس کا ہاتھ رک گیا باجی نے سر گھما کر میری طرف دیکھا اور ہلکی سی سرگوشی کی کیا کررہے ہو میں نے جھک کر سرگوشی کی جو آپ کررہی ہیں میرے اوسان بحال ہو گئے تھے میں نے بھی باجی کے مموں سے کھیلنا شروع کردیا باجی بھی چند سیکنڈ رک کر پھر سے لن کی پیمائش کرنے لگی میں نے باجی کا دوپٹہ باجی کے جسم پر ڈال دیا تاکہ کوئی میرے ہاتھ کی حرکت نہ دیکھ سکے اور ہاتھ قمیص کے نیچے سے لے جاکے باجی کے ممے رکھ دیا اس نے برا پہنی ہوئی تھی میں نے برا اوپر کیا اور ننگے ممے کودبانے لگا اف کیا مزو تھا ننگے ممے کو ہاتھ سے دبانے میں باجی کے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکل گئی باجی کو بھی مزا آنے لگا تب ہی وہ میرے لن سے کھل کر کھیلنے لگی میں نےجھک کر دوسرے ہاتھ سے باجی کے سر کو تھوڑا اونچا کیا اور اس کے ہونٹوں پر کس کرنے لگا باجی بھی کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگی میں ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ممے باری باری دبا رہا تھا باجی کےممے پہاڑ وں کے چوٹیوں کے مانند سخت اور تنے ہوئے ہیں لگتا تھا کہ اس کے شوہر نے اس کے مموں کو چھوا تک نہیں تھا اور بات تھی بھی اسی طرح یہ آپکو بعد میں پتہ چلے گی مموں کو دبانے کےساتھ ساتھ پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا میں ہاتھ کو نیچے کی طرف لے جانے لگا ناف کے نیچے شلوار کے ناڑے تک پہنچ گیا یہ محسوس کر کے کہ باجی ناڑے کی بجائے شلوار میں الاسٹک پہنتی ہے خوشگوار حیرت ہوئی الاسٹک کے نیچے سے آرام سے ہاتھ گزار کر باجی کی چوت پر پھیرنے لگا باجی کے جسم میں ہلچل ہوئی اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکال لیا ہم دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے اور گردو پیش سے بےخبر تھے میں نے ویسے بھی اپنا ماتھا اگلی سیٹ کے پشت پر رکھا ہوا تھا باجی نے سر اٹھا کر میرے ہونٹوں پر کس کیا اور سرگوشی کی گھر جاکے کریں گے کہ اچانک ایک تیز آواز ہمارے کانوں میں پڑی
تم دونوں کو یہی جگہ ملی تھی بے حیائی کا کام کرنے کے لیے ہم دونوں ہڑبڑا اٹھے....
قسط نمبر 1
ایک بڑی اور انسیسٹ کہانی ??
بھائی بہن کے پیار کی کہانی ?
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے میٹرک کرلیا تھا یعنی اسوقت میری عمر اٹھارہ سال تھی ھماری فیملی چھ افراد پر مشتمل ہے پہلے نمبر بڑا بھائ جسکا نام فیصل ہے
کہانی کے روایت کے مطابق نام مقام چینج ہے
دوسرے نمبر پر بہن جس کا نام سائرہ ہے تیسرے نمبر جناب مابدولت ہیں اور چوتھے نمبر پربہن جسکانام مائرہ ہے اور امی ابو جب میں نے میٹرک کرلیا تھا اسوقت بڑے بھائ کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے اور ایک بچہ ہے جس کی عمر اس وقت ڈھیڑ سال تھی جبکے سائرہ کی شادی کوڈھیڑسال ہو
چلا تھا اور مائرہ کی منگنی ہوچکی تھی اور شادی ک تیاریاں ہورہی تھیں اورمیں ان دنوں فار غ تھا ابو سعودیہ میں تھے میں معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں جبکہ بڑا بھائ بس ایویں ہےھمارا گھرانہ نارمل گھرانہ ہےھم لوگ پنڈی کے نواح میں رہتے ہیں سائرہ کا سسرال جہلم میں ہے ایک دن میں باہر سے گھوم پھر کے گھر ایا تو امی نے کہا ادھر آو امی پریشان سی بیٹھی تھی میں نے کہا امی کیا بات ہے آپ پریشان ہیں بیٹاسائرہ کا فون ایا تھا کہ رہی تھی شہزاد(میرا نام) کو کل میرے پاس بھیجدو (اس وقت موبائل فون نیانیا آیا تھا 3310 1100 وغیرہ تو ابو نے سعودیہ سےدو سیٹ بھجوا دیے تھے ایک سائرہ کیلیے اور ایک گھر کیلیے)امی نے کہا وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی میں بہت پوچھا کہ کوئ پریشانی والی بات تو نہیں لیکن اس نے کہا نہیں ایسی کوئ بات نہیں بس آپ بھا ئ کو میرے پاس بھیج دیں تو امی نے کہا بیٹا تم کل صبح سویرے بہن کی طرف نکل جاو مجھے لگ رہا کہ پھر شوہر کے ساتھ کوئ گڑبڑ ہوگئ ہے
اس سے پہلے بھی وہ تین چار بار اس طرح روٹھ کے گھر آچکی تھی پھر وہ لوگ آکے معافی تلافی کر کے منا کے لے جاتے مین نے امی کو تسلی دی اور اگلے صبح جہلم جانے کیلیے کوچ میں سوار ہوگیا جانے سےپہلے میں نے فون پر اسے بتادیاتھاکہ میں 7بجے والی گاڑی پر آوں گاجہلم پہنچ کرجیسے
گاڑی سے اترا ایک دس بارہ سال کا لڑکا میری طرف بڑھا
کیا آپ کا شہزاد ہے اس نے پوچھا
جی میرا نام میرا شہذاد آپ کون؟
میرا نام اکرم ہےسائرہ آپی نے آپ کو لینے کیلئے بھیجا ہے
تم نے مجھے پہچانا کیسے
اپ کے سن گلاس کی وجہ سے آپی نے مجھے بتیاہا تھا
اوہ! اصل میں میری عادت ہے کہ جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو سن گلاس لگاتا ہوں چاہے موسم جیسا بھی ہو سوائے بارش کے
" کیوں خیر تو ہے نا باجی ٹھیک تو ہے"
"ہاں خیریت ہے آپی بھی ٹھیک ہے وہ پرسوں شام سے ھمارے گھر آئ ہوئ ہیں "
میں نے کہا کیوں
"مجھے نہیں پتا لیکن میں نے محسوس کیا ہے وہ کچھ پریشان ہیں"
میں نے ذیادا کرید مناسب نہ سمجھی اور اسکا اوراسکے گھر والوں کا حال احوال پوچھتا ہوا گھر چل پرےقریبا"آدھاگھنٹہ پیدل چلنے کے بعداسنے ایک خوب صورت گھر کی طرف اشارہ کرکے بتای کہ یہ ہمارا گھر ہے جس کی چھت پر چاردیواری ڈیزائن کے ساتھ بنی ہوئ تھی گھر پہنچ کراکرم کی امی نے ہمارا استقبال کیاجو تقریبا" میری امی کی ہم عمر ہیں میں نے سلام کیا
سائرہ بیٹی دیکھو کون آیاہے آنٹی میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے آواز دی ایک کمرے سے تین لڑکیاں باہر نکل ائین اور انھوں نے بھی سلام کیا
شہزاد بیٹا یہ میری بیٹیاں ہیں یہ جو سب سے بڑی ہے اسکا نام صائمہ ہے اس سے چھوٹی فائزہ ہے اور ان سے چھوٹی نائلہ ہے وہ تینوں خوب صورت ہیں لیکن جس پر دل آگیا وہ درمیان والی فائزہ ہے وہان دونوں سے زیادہ حسین ہےمیں نے تینوں کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا لیکن فائزہ کے ہاتھ کو ذرا زور سے دبایا اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مسکرا دی اتنی دیر میں باجی اندر کمرے سے نکلیں اور اتے ہی مجھے گلے لگا لیا اسکے بوبز میرےسینے میں چھب سے گئے جس سے میرے پورے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا چونکہ ھمارے درمیان ایساویسا کچھ نہیں تھا اس لئے باجی کے علیحدہ ہوتے ہی یہ بات ذہن سے محو ہوگئ ویسے میری باجی کا سائز 38 28 34 ہے جو کہ میرے نقطہ نظر سے بہت ہی سیکسی ہے میں نے باجی سے خیر خیریت پوچھی اتنے میں انٹی نے کہا ارے بیٹا اندر کمرے میں آجاو کیا کھڑے کھڑے خیرت پوچھ رہے ہو تھوڑا ریلیکس ہو جاو پھر باتیں کرو سمجھو یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنی صائمہ کو آواز دیکر کھا بنانے کیلئے کہہ دیا باجی مجھے اندر کمرے میں لے آئ بھیا یہاں بیٹھ جائیں باجی نے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئ چونکہ میری باجی کے ساتھ بچپن سے ہی بتکلفی تھی لیکن میں نےاسے کبھی بھی نام سے نہیں پکارتا تھا بلکہ باجی ہی کہتا تھا
"باجی اکرم کہہ رہا تھا کہ آپ پرسوں س یہاں ہو کہیں سسرال میں پھر کوئ مسلہ"
"اسی لیئے تو میں نے تم کو بلایا ہے"باجی نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا پھر کہنے لگی دیکھو بھائ یہ بات ایسی ہے کہ میں تمھارے سوا کسی سے نہیں کہہ سکتی اور امی ابو کو بھی تمہی نے سمجھانا ہے
میں سمجھ گیا ہوں باجی کہ اسنے تمھیں چھوڑ دیا ہے لیکن میں کمینے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا
مجھے اس کمینے پر شدید غصہ آگیا
تم ایسا کچھ نہیں کروگے کیوں کہ باجی کو پتا تھا ایسا کرنا میرے لیئے کچھ مشکل نہیں
" لیکن کیوں اگر ایسی کوئ بات تھی تو میں آکے سیدھا کردیتا"نہیں مجھے پتا ہے کہ یہ سیدھا ہونے والا آدمی نہیں ہے کہ تم آکے اس کو سیدھا کر لیتے پہلے میری پوری بات سنومیں نے خوداس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھاکیوں کہ میں روز روز کے بک بک سے تنگ آگئ تھی اور اس نے مجھے اپنا پوراحق دےدیاہے اور میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ تم تو سمجھ بوجھ رکھتے ہو اس لئے امی ابو کو تم سمجھا سکتے ہو کیوں کہ تمھارے ساتھ میرا تعلق دوستوں جیسا ہے
اور تمہیں پتہ ہے کہ میں روٹھ کے میکے کتنی بار آئ ہوں لیکن اس کے علاوہ ہر ہفتے یہی ہوتا تھا لیکن میں یہاں آجاتی پھر کبھی وہ لوگ مجھے منا کے لےجاتے کبھی اس گھر والے بیچ میں پڑ کے صلح صفائ کرالیتے اس اور
بیٹاہاتھ منہ دھولو کھانا تیار ہے
باجی کی بات آنٹی کی آواز سے ادھوری رہ گئ
چلو بھیا کھانا کھاتے ہیں اور پھر جانے کی تیاری کرتے ہیں
ہم دونوں باہر آئے تو دیکھا برآمدے میں دستر خوان لگا ہوا تھا بیٹھ کے کھانا شروع کیا تو آنٹی نے کہا بیٹا سائرہ کی بات تم نے سن لی
"جی آنٹی"
بیٹا سائرہ کو میں نے اپنی بیٹی بنائ ہوئ ہے
"بیٹا کوئ بھی لڑکی اپنا گھر نہیں اجاڑتی مگر جب مجبوری آجاتی ہے تو ایسے تلخ فیصلے کرنے پڑتے ہیں کوئ بھی ماں یہ نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کو طلاق ہو جائے لیکن میں خوش ہوں کہ سائرہ بیٹی نے درست فیصلہ کیا ہے اس کی زندگی تباہ ہونےسے بچ گئ ہے"
"جی آنٹی آپ نے درست کہا"
"اور اپنے گھر والوں کو تم نے یہ بات سمجھانی ھے "
"ٹھیک ہے آنٹی میں سمجھ گیا"
"بیٹا کھانا کھا کے نا اکرم کے ساتھ جاو اور گاڑی میں سیٹیں بک کرالو کیوں کہ عین ٹائم پر سیت ملنی مشکل ہو جاتی ہے"
"اور سائرہ بیٹی تم دل چھوٹا نا کرو قسمت نے ساھ دیا تو اس سے اچھا رشتہ ملے گا"
"نہیں آنٹی میری جوتی کو بھی ان کی پروا نہیں ہے"
کھانا کھانے کے بعد میں اکرم کو لیکے اڈے پر چلا گیا دو سیٹیں بک کیں زات گیارہ بجے والی گاڑی پر اس کے بعد ھم واپس گھر آگئے وہاں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے آنٹی نے چائے دی
"بیٹا یہ آپ لوگوں کااپنا گھر ہے تم لوگوں کو بھجوانے کو دل تونہیں کر رہا ہے لیکن وہاں تمھاری امی پریشان ہورہی ہونگی پھر جب دل کرے آجانا ویسے میں بھی چکر لگاونگی اس دوران ھم نے چائے ختم کی اور ان کےساتھ گپ شپ لگانے لگےانٹی کی فیملی بھی چھ افراد پر مشتمل ہے اس کا خاوند فوج میں ہے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے تھوڑی دیر بعد ھم یوں گھل مل گئے جیسے ایک ہی گھر افراد ہوتے ہیں آنٹی کی درمیان والی بیٹی سب سے خوب صورت ہے میں اس کی طرف چوری چوری دیکھتا جب وہ مجھے اپنی طرف متوجھ پاتی ایک دلفریب مسکراہٹ سے مجھے نواز دیتی جب اس نے اپنے آپ میری دلچسپی دیکھی تو میری طرف مائل ہونے لگی بات بات پہ میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگی اس کی ہنسی بڑی دل کش ہے اس نے پنک کلر کا میچنگ خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا جس سے وہ میرے دل پر اور قیامت ڈھا رہی تھی
فائزہ جی آپکاسوٹ بہت خوب صورت ہے میں نے کہا
صرف سوٹ؟ اس نے شوخی سے کہا
ارے میرا مطلب ہے سوٹ آپ نے پہنا ہے تو اس لیئے خوب صورت لگ رہا ہے میری بات سن سب ہنس پڑے لیکن اس کی ہنسی میرے دل کا چین لوٹ رہی تھی میری والہانہ نگاھیں اس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں باجی نے میری وارفتگی نوٹ کی تو اس نے مجھے ٹہوکا دیا میں نے بےاختیار نظریں ہٹالیں اور ہم ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہوگئے
صائمہ تم سائرہ کے ساتھ پیکنگ میں مدد کرو آنٹی نے صائمہ کو ہدایت کی اور مجھ سے کہا بیٹا میں نائلہ کے ساتھ ذرا ان کے ماموں کی عیادت کو جارہی ہوں
ٹھیک ہے آنٹی اور وہ نائلہ کو لیکر چلی گئ اکرم بھی ادھر ادھر ہو گیا میں فائزہ کے ساتھ اکیلا رہ گیا میں اٹھ کے اس کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا میں نے کہا ایک بات کہوں آپ ناراض تو نہیں ہونگی میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
نہیں میں بھلا آپ سے کیوں ناراض ہوں گی بلاجھجک کہیں اس نے اپنا ہاتھ چھڑا نے کوشش نہیں کی جس سے میرا حوصلہ بڑھ گیا فائزہ جی آئ لو یو میں نے بلا جھجک کہہ دیا اس نے شرما کرچہرہ دوسی طرف کرلیا اور آہستگی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور کرسی اٹھ گئ میں نے کہا فائزہ جی کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو
"ہاں"
اور اندر کی طرف بھاگ گئ مجھے اپنی منزل مل گئ مجھے اس پر ڈھیروں پیار ایا میں اٹھ کے کمرے کمرے کے اندر گیا جہاں صائمہ باجی کے ساتھ پیکنگ میں ہیلپ کررہی تھی شہزاد امی کے ساتھ بات یہاں سے فون پر کروگے یا گھر جا کے باجی نے مجھ س پوچھا
نہیں وہاں جاکے بات کروں گا لیکن جیسے میں کہونگا ویسے آپ نے کرنا ہے باجی نے اثبات میں سر ہلا دیا تھوڑی دیر اسی موضوع پربات کرکے میں وہاں سے نکل آیا کچن میں سے کھڑ پڑ کی آوازیں سن کر میں نے جا کےکچن میں جھانک کر دیکھا تو میری جان من برتن دھوتی نظرآئ میری تو عید ہوگئ میں چپکے سے اندر داخل ہوگیا اور جاکے پیچھے سے جپھی ڈالی ا
وہ اچھل پڑی مڑ کر مجھے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئ
اوہ! تم چھوڑو مجھے کوئ دیکھ لے گا وہ کسمسائ دکھنا ہے تو دیکھنے دو میں تو نہیں چھوڑنے والا میں نےہلکا سا جھٹکا دےکے بازوں کا حصار اور ٹائیٹ کیا جس سے اس کی گانڈ میرے لن کے ساتھ ٹچ ہوگئ اور میرا لن آہستہ آہستہ اٹھنے لگا جس کو اس نے بھی محسوس کیا کیوں کہ لن دراڑھ مچھبنے لگا اسنے چھڑانے کوشش ترک کردی اور میں نے اس کی گردن کا بوسہ لیا تو اس پر بھی مستی چھانے لگی
کیا واقعی میں بہت خوب صورت ہوں اس نے مستی بھرے لہجے میں پوچھا میں نے یک دم ہاتھوں کے حصار سے آزاد کیا اور اپنی طرف گھما کے سینے سے لگا کے کہا میری جان تم میری آنکھوں سے اپنے آپ کو تو میرے دل میں جو کچھ ہے وہ جان لو پھر اس نے منت بھرے لہجے میں کہا پلیز چھوڑدو کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی
ایک شرط پر چھوڑوںگا میرے کان میں کہہ دو آئ لو یو تواس کو شرارت سوجھی اسنے کہا اوکے پھر اپنا منہ کان کے پاس لےجاکے اہستہ سے میرےکان پر کاٹ لیا
اب تو اس کا بدلہ میں لوں گا نہیں تو نہیں چھوڑوںگا
تو اس نے کہا کیا بدلہ میں نے کہا لے لوں تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا تو میں ایک دم سے اپنے ہونٹ اس کے گلاب کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھ دیے وہ تھوڑی سی کانپی لیکن پھر پر سکون ہوگئ ایک لمبی کس کےبعد میں نے اس کو چھوڑ دیا
بڑے بدمعاش ہو تم اس نے شوخی سے بھر پور لہجے میں کہا اور ہنس پڑی
اب جاو تم اس نے کہا اور میں بھی ہنستا ہوا باہر آگیا جیسے ہی میں باہر آیا تو ادھر دروازے سےآنٹی اندر داخل ہورہی تھی اس نے مجھے کچن سے باہر آتے ہوئے دیکھ لیا میری تو بنڈ پھٹ کے ہاتھ میں آگئ۔
کیا ہورہا ہے بیٹا آنٹی کی نرم آواز میرےکانوں میں پڑی تو جان میں جان آئی میں نےکہاآنٹی اکرم کودیکھ رہا تھا پتہ نہیں کہاں چلا گیا فائزہ برتن دھورہی ہے اس سے پوچھنے گیاتھا تو آنٹی نےکہا آجائے گا یہیں کہیں ہوگا پھر میں آنٹی کے ساتھ بڑے کمرے میں جاکےبیٹھ گیا تھوڑی دیر بعدفائزہ بھی آگئی سب بیٹھ کےگپ شپ لگانے لگے کافی دیر کےبعدآنٹی نے اپنی بیٹیوں سے کہا اے لڑکیو تم لوگ تو بیٹھ کے گپیں ہانک رہے ہو کھانے پکانے کی بھی کوئی فکر ہے کہ نہیں ٹائم دیکھوشام ہونےوالی ہے فائزہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا ہاں تو جناب کھانے کیلئے کیاپکائیں پالک مبارک یا کدوشریف یا بھنڈی نقشبندی یاپھر آلوصاحب میں نے کہا مجھ جیسا گنہگار ان کےکھانے کے قابل تو نہیں البتہ کوئی بےغیرت اوارہ سا مرغا ذبح کرکے پکالیں میرے اس جواب پر جیسے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا ہو سب بےتحاشہ ہنس پڑے فائزہ تو جیسے دل کی گہرائی سے ہنس رہی تھی امی میں نے وہ آپ کو ساس داماد والاجوک سنایا تھانا انہوں آج پریکٹیکل میں سنا دیا ہے صائمہ نے ہنستے ہوئے کہا آنٹی بھی ہنس رہی تھی ہاں میں سمجھ گئی ہوں آنٹی نے کہا دراصل فائزہ بیحد ذہین ہے اس نے درپردہ مجھے یہ جتا دیا کہ میں تمھاری بیوی اور میری امی تمھاری ساس کیونکہ میرے اس جواب پر سب سے دلکش ہنسی فائزہ کی تھی پھرصائمہ اٹھی اور باجی سے کہا آ ہم دونوں کچن میں چلتی ہیں تو آنٹی نے کہا اے صائمہ یہ کیا کررہی ہو سائرہ ہماری مہمان ہے باجی بھی صائمہ کے ساتھ ہی اٹھ گئی اورکہانہیں آنٹی میں یہاں مہمان تھوڑی ہوں یہ میرا اپنا گھر ہے اور پھر وہ دونوں کچن میں چلی گئیں اور میں آنٹی کے ساتھ باتیں کرنے لگا آنٹی نے کہا سامان تو ان لوگوں نے پیک کرلیا ہے کیونکہ ایک کونے میں دو بیگ انٹی نے دیکھ لیے ایک درمیانے سائز کا تھا اور ایک چھوٹاتھا میں نے کہاہاں آنٹی سامان سے یاد آیا باجی کا اور سامان کہاں ہے وہ ہم نے کل شام کو ہی ان کے گھر سے اٹھا کر یہاں لا کے رکھ دیا ہے ابھی تم لوگ جاو میں بعد میں اچھی طرح پیک کرکے بھجوادونگی تم کوئی فکر مت کرو اور ہاں وہاں جاکے اپنی باجی کا خیال رکھنا کیونکہ وہ بہت دکھی ہیں آنٹی نے کہا اس دوران فائزہ میری طرف دیکھ کے دلنشیں انداز میں مسکرا رہی تھی جب آنٹی اس کی طرف نظر کرتی تووہ بھی مجھ سے نظریں چرا لیتی جاو تم بھی جاکے ان کے ساتھ کھانا بنانے میں مدد کرو شائد آنٹی نے محسوس کیا تب ہی اس کو یہاں سے بھگادیا میں نے کہا آنٹی آپ لوگ بہت اچھے ہیں مجھےیہ کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی غیر کے گھر آیا ہوں مجھے ایسا لگ رہاہے جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں پھر میں آنٹی کے ساتھ اسی طرح کافی دیر تک باتیں کرتارہا اس دوران اکرم بھی جانے کہاں سے گھوم پھر آگیا رات کے آٹھ بجے کے قریب اسی کمرے میں بیٹھ کے سب نے کھانا کھایا کیونکہ رات کو کافی ٹھنڈ پڑجاتی تھی وہ اکتوبرکےاخری تاریخیں تھیں کھانے کے بعد آنٹی نے اکرم سے کہا جاو بیٹا ظہور انکل سے کہو کہ اپناسوزوکی وین ساڑھے دس بجے ہمارے گھر لے آئے مہمانوں کو لاری اڈا چھوڑنا ہے اکرم سر ہلاتا و ہوا اٹھ کے چلا گیا پھر آنٹی نے مجھ سے کہا چائے کونسی بنائیں میں نے کہا قہوہ بنالیں آنٹی نے فائزہ سے قہوہ بنانے کیلیے کہا قہوہ پینے کے بعد باتوں کا دور چلنے لگا دس بجے کے قریب فائزہ اٹھ کے باہر جانے لگی میں چونکہ دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا وہ جیسے ہی میرے قریب سے گزرنے لگی لڑکھڑا سی گئی سہارےکےلیے میرےکاندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور ساتھ ہی میرے کاندھے پر زور سے چٹکی بھرکر باہر نکل گئی باہر نکلنے کے بعد باقی سب کی نظروں سے تو اوجھل ہوگئی لیکن مجھے نظر آرہی تھی اس نے مجھ آنے کا اشارہ کیا اور چلی گئی کسی کو یہ محسوس بھی نہ ہوا کہ اس نے مجھے کوئی اشارہ کیا ہے خیر دو تین منٹ کے بعد میں نے آنٹی سے کہا میں ذرا باتھ روم جارہا ہوں اور اٹھ کے نکل آیا وہ برآمدے کے آخر والے کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی کمرے کے اندر چلی گئی میں اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوگیا اسنے میرے لیے بانہیں کھول دیں میں نے اسے بانہوں بھر لیا وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے لگی میں نے اس کا چہرہ اٹھاکر دیکھا اس کے آنکھوں میں آنسو تھے کمرے کی لائیٹ بند تھی چونکہ برآمدے کی لائیٹ کی وجہ سے تھوڑی روشنی تھی اس لیے نظر آرہی تھی میں نےاس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے کس کے بعد میں نے کہا ارے پگلی کیوں رو رہی ہو میں تمہیں چھوڑ کے تھوڑی جارہا ہوں میں پھر آوں گا اور آنٹی سے مانگ کر تمہیں ہمیشہ کےلیے اپنے ساتھ لےجاوں گا تم تو میری جان ہو اور ساتھ ساتھ اس کے گردن گالوں اور ہونٹوں پر کس کررہاتھا میں نے انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسو صاف کیے وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی تم نے کچن میں کہا تھا نا میں تمھارے کان میں کہہ دوں آئی لو یو پھر وہ سرگوشی میں آئی لو یو آئی لو یو کی گردان کرنے لگی اور مجھ پر جوابی حملہ کردیا اور مجھےدیوانہ وار چومنے لگی اور مجھے اپنے ساتھ کس کے چمٹالیا میں اس کے کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور دونوں ہاتھوں کونیچے لے جا کر گانڈ پر پھیرنے لگا اف کیا روئی کی نرم گانڈ کی پہاڑیاں ہیں میں ان کو دبانے لگا اس دوران لن تن کے میزائل کی طرح کھڑا ہوچکا تھا میں نے گانڈ پر دباو ڈال کے اپنی طرف جھٹکا دےکے کس لیا جس سے میرا لن اس کی چوت کو سلامی دینے لگا وہ لن کے ساتھ چوت کو رگڑنے لگی میں اس کے بوبز دبانے لگا تھوڑی دیر بعد اس کی دیوانگی سے میں گھبرا گیا دس منٹ سے ہم کسنگ کررہے تھے موقع نازک تھا کوئی کسی بھی وقت آسکتاتھا میں نے اس کو تسلی دی اور آہستگی سے اس سے الگ ہوگیا میں نے کہا میری جان اپنی حالت درست کرلو تم تھوڑی دیر بعد میرے پیچھے آجاو ٹھیک ہے میں نے آخری بار اس کے ہونٹوں پر کس کیا اور جاکر وہاں سب کے ساتھ بیٹھ گیا آنٹی نے کہا بیٹا اپنی امی کو فون تو کرلو کہ ہم گیارہ بجے والی گاڑی میں آرہے ہیں میں نے ہاں آنٹی آپ نے اچھا کیا مجھے یاد دلادیا پھر میں نے امی کو اطلاع دی اور ساتھ ہی بتادیا کہ ہم کس وقت پہنچیں گے اس دوران فائزہ آکر بیٹھ گئی میں نے دیکھا اس نے پوری طرح میری ہدایت پر عمل کیا ہے کیونکہ وہ پوری طرح فریش دکھائی دے رہی تھی البتہ آنکھوں میں تھوڑی سرخی تھی تھوڑی دیر بعد اکرم نے اندر آکے اطلاع دی کہ گاڑی باہر کھڑی ہے میں نے ٹائم دیکھا تو ساڑھے دس سے اوپر تھا میں نے اور باجی نے ان سے اجازت لی آنٹی نے باجی کو گلے سے لگالیا باجی آنٹی کے گلے لگ کر رونے لگی آنٹی نے باجی کو تسلی دی فائزہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی جیسے کہہ رہی ہوکہ دیکھو جو کام تم میرے ساتھ کررہےتھے وہی اب امی باجی کے ساتھ کررہی ہیں نا بیٹا نا رو مت ہم سب آئیں گے تمھارے گھر اور یہ آنا جانا لگا رہے گا جب تمھارا دل کرے شہزاد تمھیں لے کے آیا کرے گا آنٹی نے باجی کے آنسو پونچھے پھر باجی فردا" فردا" تینوں لڑکیوں کے ساتھ گلے لگ کر ملی پھر میں نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا اب کی بار فائزہ نے میرے ہاتھ کو زور سے دبایا میں بے اختیار مسکرا دیااس دوران اکرم دونوں بیگ گاڑی میں پہنچاچکاتھا تقریبا" پونے گیارہ بجے سوزوکی وین نے ہمیں اڈے پر چھوڑ دیا وہاں کوچ جانے کے لیے تیار تھی لوگ سوار ہورہے تھے اکرم نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور باجی کو سلام کرکےرخصت ہوگیا ہم بھی گاڑی میں چڑھے کنڈیکر نے ٹکٹ دیکھ کے اخری سیٹ کے آگے والی سیٹ کی طرف اشارہ کیا آپ وہاں بیٹھ جائیں میں نے دونوں بیگ سیٹ کے نیچے رکھے باجی کو شیشے کی طرف بٹھا دیا اور خود ساتھ بیٹھ گیا گاڑی اپنے ٹائم پر چل پڑی میں نے گاڑی میں نظر دوڑائی گاڑی فل سیٹڈ تھی ہماری لائن کے ساتھ والی سیٹ پر ایک چھوٹی عمر کا لڑکا اور بابا ٹائپ کا آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اس کی اگلی سیٹ پر ایک جوان جوڑا بیٹھا تھا دونوں میاں بیوی لگتےتھے ہمارے اگے والی سیٹ پردو معمر حضرات بیٹھے ذرا اونچی آواز میں گپیں ہانک رہے شائد دونوں اونچا سنتے تھے ہم دونوں بھی باتیں کررہےتھے باجی نے کہا شہزاد آنٹی لوگ بہت اچھے ہیں میں نے کہا باجی ان کے ساتھ آپکی واقفیت کیسے ہوئی؟ آنٹی کا ایک بھائی ہمارا پڑوسی ہے بلکہ اب تو تھا ہوگیا آنٹی وہاں اپنے بھائی کے ہاں آتی جاتی رہتی ہیں اور اس کے بچے بھی اس طرح میری ان کے ساتھ جان پہچان ہوگئی بلکہ صائمہ تو میری اچھی دوست بن گئی پھر صائمہ نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اس طرح میرا انکے گھر آناجانا شروع ہوا آنٹی بہت دردمند دل رکھنے والی خاتون ہیں ایک دن جب میرا سسرال والوں کےساتھ جھگڑا ہوگیا تو میں آنٹی کے ہاں آگئی سب کو بہت خوشی ہوئی لیکن آنٹی میرے انررونی حالت کو بھانپ گئی اس نے کہا کیا بات ہے آج ہماری سائرہ بیٹی پریشان لگ رہی ہے مجھے بتاو ہمدردی کے دو بول سنتے ہی میری ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی آنٹی نے دیکھا تو بےاختیار اٹھاکے مجھے اپنے گلے سے لگالیا نا میری بیٹی رو مت مجھے بتاو کیا شوہر کےساتھ جھگڑا ہو گیا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا آنٹی نے مجھے تسلی دی تم فکر مت کرو میں سب سنبھال لوں گی آج سے تم میری صائمہ کی طرح بیٹی ہو پھر آنٹی نے اکرم سے کہا جاو اپنے ماموں کو بلا کے لے او پھر جب آنٹی کا بھائی آیا تو آنٹی نے پورا قصہ سنایا اس نے کہا میں ابھی جاکے ان سے بات کرتا ہوں اور چلا گیا پھر شام کو آنٹی کا بھائی ان لوگوں کو ساتھ لےکے آگیا اور اسی بڑے کمرے میں بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے آنٹی بھی ساتھ بیٹھ کے بات چیت میں شریک ہوگئی بہرحال آنٹی اور اس کے بھائی نے معاملہ سنبھال لیا اور میں رات کو گھر چلی گئی پھر تو جب بھی اس طرح ہوتا میں یہاں آجاتی اور پھر یہ لوگ معاملہ رفع دفع کردیتے باجی نے مجھے پوری صورت حال بتادی اور تم بتاو فائزہ کے ساتھ سیٹنگ ہوگئی باجی نے اچانک کہا میں گڑبڑا سا گیا کیسی سیٹنگ باجی نے کہا بچو مجھ سے کوئی بات چھپی نہیں ہے جب سے تم یہاں آئے ہو تمھاری ایک ایک حرکت میری نظر سے چھپی نہیں ہے میں نےتو صائمہ کو اپنی بھابھی بنانے کا سوچا تھا پھر باجی نے اچانک میرا کان پکڑ کر کہا سچ سچ بتا جب فائزہ باہر گئی تو تم اس کے پیچھے باتھ روم کا بہانہ کر کے گئے میں نےکہا ہاں باجی میں فائزہ سے ملنے باہر آگیا لیکن آپ نے کیسے نوٹ کیا باجی نے کہا بچو میں نے تمھاری آنکھوں میں فائزہ کے لیےاور فائزہ کی آنکھوں میں تمھارے لیے والہانہ پن دیکھ لیا تھا جب میں نے تمھیں ٹہوکا دیا تھا اور آتے وقت فائزہ کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ روتی رہی ہے بہرحال صائمہ نہ سہی فائزہ سہی میں نےلجاجت سے کہا باجی پھر آنٹی سے مانگ لو نا فائزہ کو میرے لیے تو باجی نے میرے کان پر چٹکی بھر کہا ارے بدھو تمھیں یہاں میں نے کیوں بلایا تاکہ آنٹی تمھیں دیکھ لے اور میں نے آنٹی کے ساتھ تمھارے رشتے کے بارے میں بات چیت بھی کی ہے لیکن وہ صائمہ کےلیے تھی ابھی فائزہ کے لیے کروں گی اوہ یو آر گریٹ باجی میں خوشی سے مغلوب ہوگیا پھر میں نے پوچھا باجی آنٹی نے پھر کیا کہا باجی بولیں آنٹی تو راضی ہے پر اس کے شو ہر سے بات کرنے کے لیے امی ابو کو آنا پڑے گا لیکن تم فکر مت کرو میں خود اپنے پیارے بھائی کے لیے یہ رشتہ کروں گی باجی نے میری طرف پیار سے دیکھا لیکن میرے بارے میں امی ابو سے کیا بات کروگے باجی نے فکر مندی سے کہاآپ فکر نہ کریں میں سب سنبھال لوں گا میں نے باجی کو تسلی دی میں نے محسوس کیا کہ باجی کی آنکھیں بھاری ہورہی تھیں میں نے دونوں بیگ سیٹ کے نیچے سے نکال کر باجی کے پیروں والی جگہ رکھ دیے اور باجی سے کہا آپ اپنا سر میرے گود میں رکھ دیں اور دونوں گھٹنے موڑ کر بیگوں کے اوپر کروٹ کے بل لیٹ جائیں باجی نے ایسا ہی کیا میں نے گاڑی میں نظر دوڑائی تقریبا" سب سو رہےتھے سوائے چند ایک کے ہماری سیٹ کے اردگرد تو سب سو رہےتھے البتہ ہماری لائن کے ساتھ والی سیٹ کے اگلی سیٹ پر جوان جوڑا خوش فعلیوں میں مصروف تھا میں نے دھیان سے دیکھا تو میرے لن میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ویسے تو گاڑی میں اندھیرا تھا لیکن دوسری گزرنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اچھی خاصی روشنی ہوتی رہتی وہ آدمی اپنی ہمسفر کے ممے دبارہاتھا لڑکی کے ہاتھ بھی ہل رہے تھے میں نے غور سےدیکھا تو وہ اس کےشلوار اندر ہاتھ ڈال کر لن سے کھیل رہی تھی کیونکہ قمیص کا دامن ہاتھ کی حرکت سے اچھل رہا تھا ادھر میرا لن تن گیا پھر اس آدمی نے آگے بڑھ کے اس کے ہونٹوں پر کسنگ کرنے لگا میرے لن نے اوپر کی طرف جھٹکا کھایا میں یہ بھول گیاتھا کہ میری گود میں باجی سر رکھے سو رہی تھی اور اس کا گال لن کے اوپر تھا تو لن سیدھا باجی کے گال پر لگا جوش کی وجہ سے دوسری بار پھر لن نے گال پر ضرب لگائی باجی تھوڑی کسمسائی پھر اس نے ہاتھ سے ٹٹولا کہ کسی چیز نے گال پر تھپتھپایاہے میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے جب باجی کے ہاتھ میں میرالن آگیا اور مجھے بہت زیادہ مزہ آیا کیونکہ زندگی میں پہلی بار کسی دوسرے کے ہاتھ کی لمس سے آشنا ہوا تھا اور اس کے ٹچ کرنے سے جو کرنٹ پورے بدن میں دوڑ گیا وہ مزہ بیان سے باہر ہے میں گھبرا گیا کہ اب کیا ہوگا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب باجی نے میرے لن کو سہلانا شروع کیا میں ساکت بیٹھا تھا مجھے بےانتہا مزہ آرہاتھا باجی میرے لن کو باقاعدہ ٹٹولنے لگی کبھی اس کی لمبائی رخ کبھی مٹھی میں لے کے موٹائی جانچتی تو کبھی ٹوپےکو انگلیوں سے محسوس کرتیں میں تو مزے کی بلندیوں میں پرواز کررہا تھا میرا لن لوہے کی طرح سخت ہوچکاتھا جب کافی دیر گزر گئی تو میں سمجھ گیا کہ باجی مزہ لے رہی تھی لیکن یہ میری غلط فہمی تھی اس کی وجہ آپ کو آگے چل کر سمجھ آئےگی خیر پھر میں نے ہمت کی اور اپنا ہاتھ باجی کے بغل کے نیچے آہستگی سے رکھ دیا اور نرمی سے سرکا کر اوپر والے ممے پر رکھ دیا باجی کچھ نہ بولی میرا حوصلہ اور بڑھا میں نے ممے کو ہلکا سا دبایا تب باجی کے بدن کو جھٹکا لگا جیسے کوئی سویا ہوا آدمی کسی کی لمس محسوس کر کے جھٹکے سے جاگ اٹھتا ہے اور لن پر حرکت کرتا ہوا اس کا ہاتھ رک گیا باجی نے سر گھما کر میری طرف دیکھا اور ہلکی سی سرگوشی کی کیا کررہے ہو میں نے جھک کر سرگوشی کی جو آپ کررہی ہیں میرے اوسان بحال ہو گئے تھے میں نے بھی باجی کے مموں سے کھیلنا شروع کردیا باجی بھی چند سیکنڈ رک کر پھر سے لن کی پیمائش کرنے لگی میں نے باجی کا دوپٹہ باجی کے جسم پر ڈال دیا تاکہ کوئی میرے ہاتھ کی حرکت نہ دیکھ سکے اور ہاتھ قمیص کے نیچے سے لے جاکے باجی کے ممے رکھ دیا اس نے برا پہنی ہوئی تھی میں نے برا اوپر کیا اور ننگے ممے کودبانے لگا اف کیا مزو تھا ننگے ممے کو ہاتھ سے دبانے میں باجی کے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکل گئی باجی کو بھی مزا آنے لگا تب ہی وہ میرے لن سے کھل کر کھیلنے لگی میں نےجھک کر دوسرے ہاتھ سے باجی کے سر کو تھوڑا اونچا کیا اور اس کے ہونٹوں پر کس کرنے لگا باجی بھی کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگی میں ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ممے باری باری دبا رہا تھا باجی کےممے پہاڑ وں کے چوٹیوں کے مانند سخت اور تنے ہوئے ہیں لگتا تھا کہ اس کے شوہر نے اس کے مموں کو چھوا تک نہیں تھا اور بات تھی بھی اسی طرح یہ آپکو بعد میں پتہ چلے گی مموں کو دبانے کےساتھ ساتھ پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا میں ہاتھ کو نیچے کی طرف لے جانے لگا ناف کے نیچے شلوار کے ناڑے تک پہنچ گیا یہ محسوس کر کے کہ باجی ناڑے کی بجائے شلوار میں الاسٹک پہنتی ہے خوشگوار حیرت ہوئی الاسٹک کے نیچے سے آرام سے ہاتھ گزار کر باجی کی چوت پر پھیرنے لگا باجی کے جسم میں ہلچل ہوئی اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکال لیا ہم دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے اور گردو پیش سے بےخبر تھے میں نے ویسے بھی اپنا ماتھا اگلی سیٹ کے پشت پر رکھا ہوا تھا باجی نے سر اٹھا کر میرے ہونٹوں پر کس کیا اور سرگوشی کی گھر جاکے کریں گے کہ اچانک ایک تیز آواز ہمارے کانوں میں پڑی
تم دونوں کو یہی جگہ ملی تھی بے حیائی کا کام کرنے کے لیے ہم دونوں ہڑبڑا اٹھے....