Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
چودھری افضل اپنے چھوٹے بھائی چودھری انور اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ جب نذیرا ایک کتے کو لیے اس کے قریب آیا۔ اسی وقت ایک بوڑھا شخص جو پھٹے پرانے لباس میں ہاتھ جوڑے چودھری افضل کے قریب آیا۔
’’تو تو پیچھے مر۔‘‘ اس نے غصے سے اسے دیکھا۔
’’ہاں تو بتا وہ اس کا کیا مانگ رہے ہیں؟‘‘ چودھری افضل نے نذیرے سے پوچھا۔
’’دو لاکھ مانگ رہا ہے چودھری صاحب، مگر میرا خیال ہے ڈیڑھ میں سودا ہو جائے گا۔‘‘ نذیرے نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔
’’سن نذیرے اس کی تیاری تیری ذمہ داری ہو گی۔ اس بار ہماری ہار نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’خوراک آپ کی، محنت میری پھر کیسے ہارے گا؟ نسل دار کتا ہے چودھری صاحب۔‘‘ نذیرے نے عاجزی سے کہا۔
’’کیا خیال ہے نکے؟‘‘ اس نے چھوٹے بھائی انور کی طرف دیکھا۔
’’لگتا تو ٹھیک ہے بھائی! میرا خیال ہے یہ آپ کو پسند آ گیا ہے۔ ایسا کر نذیرے اگر وہ ڈیڑھ میں نہ مانے تو کچھ اوپر دے دینا، مگر سودا آج ہی کر لینا۔‘‘ نذیرے نے سر ہلایا۔ بوڑھا جو پاس ہی کھڑا تھا دوبارہ چودھری افضل کے قریب آیا۔
’’اس کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘افضل نے کڑے تیوروں سے ایک ملازم سے پوچھا۔
’’اس کی بیٹی بیمار ہے سرکار کچھ پیسے لینے آیا ہے۔‘‘ملازم نے کہا۔
’’منشی بابا جان کے ساتھ شہر گیا ہوا ہے۔ بغیر کھاتے میں اندراج کیے کیسے دے دیں اسے پیسے؟‘‘
’’چل بھئی پیچھے ہٹ آج تجھے پیسے نہیں مل سکتے۔ سنا نہیں منشی شہر گیا ہوا ہے۔‘‘ ملازم نے بوڑھے کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور پیچھے دھکیل دیا۔
’’نکے ایک تو یہ کمی ہمیں سا نئیں لینے دیتے جہاں بھی دیکھو منہ اٹھائے اور جھولی پھیلائے چلے آتے ہیں۔‘‘ افضل نے ناگواری سے کہا۔
’’آپ کے مزارعے ہیں چودھری صاحب! آپ کے پاس نہیں آئیں تو اورکہاں جائیں؟‘‘ بوڑھا رندھی ہوئی آواز میں بولا۔
’’جا جا یہاں سے، جان چھوڑ ہماری۔ جگو لے کر جا اسے ۔‘‘ انور نے ایک ملازم کو اشارہ کیا۔ جگو اس کے قریب گیا اور کہا:
’’سنا نہیں چودھری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ کملے بڑے لوگوں کے بڑے خرچے ہوتے ہیں۔ منشی آ جائے گا تو مل جائیں گے پیسے ۔ آ میرے ساتھ۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا۔
افضل جو کتے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔
’’دیکھ نذیرے! اس کی تیاری بہت اچھی ہونی چاہے۔ سمجھ گیا نہ تو۔‘‘
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر چودھری صاحب!‘‘ نذیر نے کہا۔
’’چل اب لے جا اسے۔‘‘ نذیرے نے زنجیر کھینچی اور اسے لے کر چلا گیا۔ افضل دور تک اسے جاتے دیکھتا رہا۔
دو تین دن گزرے تھے جب بڑے چودھری صاحب اس سہ پہر حویلی پہنچے۔ ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ تقریباً ساٹھ سالہ چودھری غفور نے جو سفید براق شلوار قمیص اور بڑی سی اونچے شملے والی پگڑی باندھے زمین پر اس طرح قدم رکھا کہ اِن کا کرو فر ہی نرالا تھا۔ پچاس سالہ دبلا پتلا، لیکن پھرتیلا منشی بھی لپک کر پچھلی سیٹ سے اترا اور ان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’زمین کے کاغذات والا بیگ سنبھال لیا منشی؟‘‘چودھری غفور نے کہا۔
’’جی چودھری صاحب! یہ رہا بیگ۔‘‘ اس نے ہاتھ میں تھا ما بریف کیس دکھاتے ہوئے کہا ۔
وہ جیسے ہی مہمان خانے میں داخل ہوئے۔ دونوں بیٹے لپک کر ان کے قریب آ گئے۔
’’اسلام و علیکم بابا جان!‘‘ افضل ان سے بغلگیر ہوتا ہوا بولا۔
و علیکم السلام! سب خیریت ہے نا؟‘‘چودھری غفور ان دونوں سے مل کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’یہاں سب خیریت ہے۔ ہم تو آپ کی طرف سے فکر مند تھے۔ ایک ہفتہ ہو گیا آپ کو شہر گئے کچھ خیر خبر ہی نہیں تھی۔‘‘ افضل نے کہا۔
’’دو دن سے آپ کا فون بھی نہیں مل رہا تھا۔‘‘ انور نے کہا۔
’’تم دونوں کے لیے ہی تو شہر گیا تھا۔ کچہری کے معاملات آسان نہیں ہوتے۔ میں نے تمام جاگیر اور زمینیں تقسیم کر دی ہیں۔‘‘ پھر کچھ دیر ٹھہر کر انہوں نے کہا۔
’’تم لوگ اپنی مرضی سے اپنی بہن کا حصہ اسے دے دیتے تو اچھا تھا۔‘‘
’’بابا جان یہ ہماری روایت کے خلاف ہے۔ عورتوں کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا پھر آپ نے بھی تو…‘‘
’’بس! گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہی بوڑھا اندر داخل ہوا اور چودھری غفور کی جانب بڑھا۔
’’اوئے، تو پھر آ گیا۔ سا تو لینے دے بابا جان کو۔ جگو، شیرا کہاں مر گئے سارے ۔ نکالو اسے یہاں سے۔ کس نے اسے اندر آنے دیا؟‘‘ افضل پھرتی سے اٹھ کر بوڑھے کے قریب گیا۔
’’میری بات تو سنو چودھری! مجھے بڑے چودھری صاحب سے بات کرنے دو۔‘‘ وہ گھگیا تا ہوا بولا۔
’’سنتے ہیں، ابھی سنتے ہیں۔ کہہ دیا نا کچھ کرتے ہیں۔ اُدھر بیٹھو جا کر۔‘‘ اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھا مایوسی سے سر جھکائے دیوار کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
’’چمٹ ہی جاتے ہیں جان کو ۔‘‘ وہ بڑ بڑاتا ہوا بڑے چودھری صاحب کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ اسی وقت اچانک حویلی کے اندر سے چیخنے چلانے کی بلند آوازیں آنے لگیں۔
’’اللہ خیر کرے۔‘‘ چودھری غفور مضطرب انداز میں کھڑے ہو گئے۔ وہاں موجود سب افراد ہکا بکا تھے۔ حویلی کے اندر سے ایک ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور الفاظ صحیح طور سے اس کے منہ سے نہیں نکل رہے تھے۔ وہ پورے وجود سے کانپ رہی تھی۔
’’بڑے چودھری صاحب! وہاں حویلی میں میراں بی بی…‘‘
’’کیا ہوا میراں کو؟‘‘ وہ تیزی سے اندر بھاگے۔ ان کے پیچھے افضل اور انور بھی متوحش انداز میں لپکے۔ جوں جوں وہ حویلی کی سمت بڑھ رہے تھے۔ چیخ و پکار اور آہ و بکا کی صدائیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی صحن میں پہنچے وہاں ایک جانب حویلی کی عورتوں اور ملازمین کا جمگھٹا نظر آیا۔ وہ تیزی سے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ ان کی بیٹی میراں زمین پر پڑی تھی اس طرح کہ اس کے آس پاس خون کا چھوٹا سا تالاب بن گیا تھا۔
’’کیا ہوا میری میراں کو؟‘‘ وہ تیورا کر وہیں گرنے والے تھے کہ افضل نے انہیں سنبھال لیا۔ انور میراں کے قریب بیٹھ گیا اور اسے ہلایا جلایا اس کی نبض چیک کی، مگر وہاں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میراں مر چکی تھی۔
’’میراں گئی بھائی، میراں مر گئی۔ سارے جھگڑے ختم ہو گئے۔‘‘ میراں کی لاش کے پاس بیٹھی ایک ادھیڑ عمرعورت چودھری غفور کی طرف دیکھ کر چلائی تھی۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میراں اس کی واحد بیٹی تھی۔
’’اس نے چھت سے کود کر جان دے دی۔ سارے جھگڑے مک گئے۔ ہائے میری بچی تو نے یہ کیا کیا؟‘‘ بوڑھی عورت دوبارہ بین کرنے لگی۔ وہ زا ر و قطار رو رہی تھی۔ دیگر عورتیں بھی آہ و بکا کر رہی تھیں۔ افضل اور انور کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔ پھر افضل نے چونک کر بوڑھی عورت سے کہا۔
’’ایسی بات نہ کر پھوپھی ، وہ غلطی سے گری ہو گی۔‘‘
’’وہ غلطی سے نہیں گری۔‘‘ چودھری غفور نے گمبھیر مگر دھیمے لہجے میں آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
ذرا سی دیر میں پوری حویلی آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی اور آن کی آن میں یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ چودھری غفور کی بیٹی اور چودھری افضل اور انور کی اکلوتی بہن حویلی کی چھت سے گر کر مر گئی۔ رات گئے تک اسے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر میراں کا شوہر اس کی ساس اور اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی موجود تھا۔ اس کی جوان سال موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ رات کا وہ نہ جانے کون سا پہر تھا جب چودھری غفور گاؤں کے اس واحد تھانے میں آیا تھا۔ ایک حوالدار وہاں موجود تھا جو زمین پر چادر بچھائے سو رہا تھا۔ چودھری جھکا اور اسے جگانے کے لیے اس کا کندھا ہلایا۔
’’کون …کون ہے رات کے اس پہر ؟‘‘وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
’’میں ہوں چودھری غفور ۔‘‘
’’اوہ! چودھری صاحب آپ؟‘‘ وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیے آئیے سرکار۔‘‘ حوالدار نے انہیں کرسی پیش کی۔
’’بیٹھیے، سب خیر تو ہے نا؟‘‘
’’تھانیدار کہاں ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
’’وہ جی…وہ تو اس وقت اپنے کوارٹر میں ہیں۔ میں ابھی انہیں بلواتا ہوں۔ دین محمد!او دین محمد۔‘‘ اس نے کسی کو آواز دی تھی۔
’’آیا جی۔‘‘ دور کہیں سے کسی کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔
’’چھیتی جا، تھانیدار صاحب کو بتا۔ چودھری غفور آئے ہیں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔
’’آپ بیٹھیں نا چودھری صاحب۔‘‘حوالدار کی آواز اُن کی سماعت تک پہنچی ہی نہیں تھی۔ وہ تو دور کہیں اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
’’چودھری صاحب۔‘‘ اس بار اس نے تیز آواز میں اسے پکارا تو وہ چونکے تھے۔
’’آپ بیٹھیں میں تھانیدار صاحب کو خود بلا کر لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ چودھری کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح کرسی پر ڈھے سا گیا اور اپنا سر سامنے میز پر ٹکا دیا۔
’’چودھری صاحب! آپ… اتنی رات گئے؟ اور آپ نے خود آنے کی زحمت کیوں کی کوئی بندہ بھیج دیا ہوتا۔ میں حاضر ہو جاتا۔‘‘ تھانیدار نے کہا اور تیزی سے چودھری کے مقابل کرسی پر بیٹھ گیا۔ چودھری یونہی میز پر سر ٹکائے بیٹھا رہا۔
’’چودھری صاحب سب خیر تو ہے ؟‘‘ اس نے فکر مندی سے کہا، تو چودھری غفور نے سر اٹھا کر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔
’’سوالات نہ کر …ایف آئی آر کاٹ قتل کی۔‘‘ چودھری کا لہجہ خاصا بھاری تھا۔
’’ایف آئی آر…قتل کی؟ مگر کس کے خلاف اور کس کے قتل کی؟‘‘ تھانیدار حیرانی سے بولا۔
’’تو لکھ…میں تجھے بتاتا ہوں کہ قاتل کون ہے؟‘‘
’’میں سمجھ نہیں پایا چودھری صاحب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ حیران رہ گیا تھا۔
’’آپ ذرا مجھے تفصیل سے بتائیں۔‘‘
’’کاغذ قلم اٹھا ۔‘‘چودھری صاحب کی آواز اسے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے روزنامچہ کھولا۔
’’جی فرمائیے۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
’’تھانیدار یہ کہانی بیس سال پرانی ہے۔ جب میں دولت اور جوانی کے نشے میں مست تھا۔‘‘
’’چودھری غفور اُن دنوں چوبیس سال کا گھبرو جوان تھا اور میری چھوٹی بہن دلشاد اٹھارہ سال کی۔ دولت کی ریل پیل نے مجھے لاابالی، بے پروا اور عیاش بنا دیا تھا۔ میں تمام وقت اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ موج مستی میں گزارتا تھا۔ اس دن شام ڈھلے جب میں حویلی پہنچا، تو مہمان خانے میں پڑوسی گاؤں کے ملک دلاور کی ماں کواپنے والد سے گفتگو کرتے پایا۔ السلام و علیکم۔ کہتا وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔
وعلیکم السلام! اس کے والد اور دلاور کی ماں بیک وقت بولے۔ میں والد صاحب کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ پھر جڑ گیا جو میری آمد سے منقطع ہوا گیا تھا۔
’’بس چودھری صاحب ہمیں تو آپ کی بیٹی چاہیے اور کچھ نہیں۔ ایک ہی تو میرا بیٹا ہے دلاور اور اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔‘‘
چودھری صاحب مسکرائے تھے۔
’’میں جانتا ہوں بہن آپ لوگ جدی پشتی رئیس ہیں، مگر ہم اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ تو رخصت نہیں کریں گے نا…جو اس کا حق ہے اسے دیا جائے گا۔ اس کے حصے کی جائیداد اور زمینیں اس کو ملیں گی۔ دو ہی تو میرے بچے ہیں غفور اور دلشاد ساری جائیداد ان دونوں کی ہی تو ہے۔‘‘
جائیداد کی تقسیم کا سن کر مجھے اچنبھا ہوا۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بہن کی شادی ہو گی، تو اپنے حصے کی جائیداد بھی لے جائے گی۔یہ مجھے کسی طرح گوارا نہیں تھا۔
’’اچھا آپ یہ بتائیں رشتہ تو پکا ہے نا ؟‘‘
’’ہاں ہاں! غفور مٹھائی لے کر آ۔‘‘ چودھری صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں ناگواری کا احساس لیے اٹھ گیا۔ بے حد خوبصورت میری بہن شادو کا رشتہ گھبرو جوان ملک دلاور سے پکا ہو گیا تھا۔ حویلی میں شادی کی تیاریاں جاری تھیں، مگر مجھے ان تیاریوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مجھے تو کسی لمحے چین نہیں آرہا تھا۔ ہماری آبائی زمینیں شادو اپنے ساتھ غیر خاندان میں لے جا رہی تھی، لیکن میں سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ چودھری صاحب زبان دے چکے تھے۔
شادی کے دن قریب تھے جب ملک دلاور نے اپنی کزن کو شادو کے پاس بھیجا۔
’’دلاور شادی کی شاپنگ کرنے کل شہر جا رہا ہے۔ اس نے پوچھا ہے کہ تمہاری کوئی خاص پسند ہو تو بتا دو۔‘‘ کزن نے اس سے کہا تھا۔
’’میں کیا بتاؤں اُن سے کہنا اپنی پسند سے لے آئیں۔‘‘ شا دو نے شرماتے ہوئے کہا۔میں کمرے کے قریب سے گزر رہا تھا جب انہیں یہ گفتگو کرتے سنا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے میں تمہاری طرف سے اسے بہت سی چیزوں کی فرمائش کر دوں گی۔‘‘ اس نے شرارت سے شادو کو کہا۔
’’ہائے اللہ وہ کیا سوچیں گے، ایسا نہیں کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔
’’وہ کچھ نہیں سوچے گا بلکہ خوش ہوگا۔‘‘ دلاور کی کزن نے ہنستے ہوئے کہا پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے چلی گئی۔
ملک دلاور کو آخری بار گاؤں کے اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوتے دیکھا گیا تھا۔ پھر اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ اسے شہر میں اپنے جس دوست کے پاس ٹھہرنا تھا، وہاں بھی نہیں پہنچا تھا۔ شادی کے دونوں گھر ماتم کدہ بن گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی نے اسے پیسے کی خاطر مار ڈالا ہے کیونکہ اس کے پاس اچھی خاصی رقم تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور جلد ہی تاوان کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ پولیس بھی حرکت میں آ گئی اور دونوں طرف کے افراد اور اس کے دوست وغیرہ بھی اسے تلاش کر رہے تھے۔ ان میں، میں اور میرے دوست بھی شامل تھے، مگر وہ تو ایسا غائب ہوا کہ کہیں سراغ نہ ملا۔ ملک دلاور کی اور اس کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔
پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا پرچہ درج کر لیا۔ اسی سلسلے میں تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے اور میرے دوستوں سے بھی پوچھ گچھ شروع کردی جس کا میں نے بہت برا منایا۔ بہرحال دلاور کا کچھ پتا نہیں چلا کہ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی تھی۔ شا دو کا رو رو کر برا حال تھا۔ اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔
وقت کچھ آگے سرکا اور کئی سال بیت گئے۔ شادو نے پھر کبھی شادی کے لیے ہامی نہیں بھری۔ اس نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد چودھری غفور یعنی میری بھی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شادو نے اپنے بھائی کے بچوں پر اپنی محبتیں نچھاورکر دی تھیں۔ حویلی اور ڈیرے کے تمام انتظامات شادو کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے حصے کی زمینیں بھی اس کے پاس تھیں۔ میں پہلے سے بڑھ کر اُس کا خیال رکھنے لگا تھا۔
انہی دنوں میری بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا اور اسی دوران کچھ ایسی پیچیدگی ہوئی کہ وہ جان کی بازی ہار گئی۔ نومولود بچی کو پھوپھی شا دو نے سینے سے لگالیا پھر اسے ماں بن کربڑے ناز و نعم سے پالا۔ وقت گزرتا رہا اور میراں بڑی ہوتی گئی۔ وہ اپنی پھوپھی کو ہی اپنی ماں سمجھتی تھی۔ شادو اب بیمار رہنے لگی تھی۔میں اس کی صحت کی طرف سے بہت پریشان رہتا تھا۔ اس کا بخار ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ایک دن میراں اس کے سرہانے بیٹھی سر دبا رہی تھی۔ میں بھی قریب ہی بیٹھا تشویش سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’شہر چلنے کی تیاری کرو۔‘‘ میں نے بہن سے کہا۔
’’نہیں مجھے شہر نہیں جانا۔‘‘ شا دو نے نحیف آواز میں کہا۔
’’بس بس…زیادہ باتیں نہ کرو ہمیں تسلی کرنے دو۔ میراں بیٹا اپنی پھوپھی کو تیار کرو ہم انہیں ابھی شہر کے بڑے اسپتال لے کر جائیں گے۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ میری دونوں بہوویں اس بات پر بہت ناراض رہتی تھیں کہ حویلی اور ڈیرے وغیرہ کے تمام انتظامات میری بہن کے ہاتھ میں تھے۔ اسی لیے وہ پھوپھی کو دشمن سمجھتی تھیں۔ بہرحال میں شا دواور میراں کو لیے شہر کے ایک بڑے اور مشہور اسپتال لے کر آیا جہاں شادو کا علاج شروع ہو گیا۔
اک رات ڈاکٹر نے میراں سے کہا۔
’’میں کچھ میڈیسن لکھ رہی ہوں یہ منگوا لیں۔‘‘
’’ملازم کھانا کھانے گئے ہیں میں لے آتی ہوں۔ اس نے نسخہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میراں تو اکیلی نہ جا شیرا آجائے گا، تو منگوا لیں گے۔‘‘ پھوپھی نے جلدی سے کہا۔
’’میں بس یوں گئی اور یوں آئی پھوپھی دوائیوں کا اسٹور اسپتال کے اندر ہی ہے۔‘‘
’’اچھا دھیان سے جانا اور جلدی آنا۔‘‘ شادو نے کہا۔ وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ میراں اسٹور سے دوائیاں خرید رہی تھی جب اس کی نظر اس کے گاؤں کے ایک نوجوان پر پڑی تھی جو اسے ہی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ دوائیاں لے کر تیزی سے مڑی کہ اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔
’’سنیے!‘‘ وہ رکی اور پلٹ کر دیکھا وہی نوجوان کھڑا تھا۔
’’آپ میراں بی بی ہیں نا چودھری صاحب کی بیٹی۔‘‘ وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔ میراں نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے قدم بڑھا دیے۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’سب خیر تو ہے کون بیمار ہے؟‘‘
’’پھوپھی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘
’’اوہ کون سے وارڈ میں ہیں؟‘‘
’’پرائیویٹ ونگ روم نمبر پانچ میں۔‘‘
’’میری امی بھی ایڈمٹ ہیں۔ میں کسی وقت آؤں گا آپ کی پھوپھی کو دیکھنے۔ اس نے کہا۔ میراں نے سر اٹھا کر اس خوبرو نوجوان کو دیکھا پھر سر جھکائے آگے بڑھ گئی۔ وہ دور تک اس حسین میراں کو دیکھتا رہا۔
مجھے کچھ اہم معاملے نمٹانے تھے۔ اسی لیے بہن کے پاس میراں اور دو ملازم کو چھوڑ کر گاوؑں چلا گیا۔ حویلی میں بیٹے اور بہوویں خوش گپیوں میں مشغول تھے جب میں وہاں پہنچا۔
’’تم لوگ اپنی پھوپھی کے پاس شہر چلے جاوؑ وہاں میراں اکیلی ہے۔‘‘
’’اکیلی کہاں ہے بابا ملازم ہیں ان کے ساتھ۔ پھر ان کا علاج بھی طویل ہے ہم سب کام دھندے چھوڑ کر وہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘
’’تمہاری بیویاں تو جا سکتی ہیں؟‘‘
’’بابا یہاں حویلی اور ڈیرے کا انتظام کون سنبھالے گا؟‘‘ بڑی بہو نے کہا تھا۔
’’اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر ہم کیسے جائیں؟‘‘چھوٹی بہو نے کہا۔
’’انہیں ساتھ لے کر تو نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ہاں بھئی سب کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی مجبوریاں بتا دی تھیں۔ میں دکھی دل سے اٹھ گیا۔ شادو کو اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے دو ہفتے ہو گئے تھے۔ شیراز اور اس کی ماں نے ان دونوں کا بڑا خیال رکھا اور بہت کام آئے تھے۔ میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا تھا۔ میراں پھوپھی کے پاوؑں دبانے لگی۔
’’سدا خوش رہو، اللہ نصیب سوہنے کرے۔ پھوپھی نے اسے دعا دی تھی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ میراں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے شیراز اور اس کی ماں کھڑے تھے۔ وہ دونوں آگئے۔
’’کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟‘‘شیراز کی ماں نے شا دو سے پوچھا۔
’’شکر ہے اللہ کا کافی بہتر ہے۔‘‘ میراں اور شیراز کچھ فاصلے پر بیٹھے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جبکہ دونوں خواتین نہ جانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ شیراز کی ماں نے میراں کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تو یہ سن کر شادو سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے فی الحال یہ کہہ کر ٹا ل دیا کہ وہ بھائی سے بات کرے گی۔ شیراز معزز گھرانے کا چشم و چراغ اور کھاتے پیتے کاروباری لوگ تھے مگر ہماری ٹکر کے نہیں تھے۔
شادو صحت مند ہو کر حویلی آ گئی اور میرے کان میں اس رشتے کی بات ڈال دی۔ کچھ عرصہ گزرا تھا جب شیراز کی ماں حویلی آئی۔ شادو اور میں نے ان کا استقبال بڑی گرمجوشی سے کیا۔
’’آپ کے بیٹے نے جو خدمت میری بہن کی کی ہے وہ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘
’’یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ اس نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ہم اس تعلق کو رشتے میں بدلنے کے لیے آپ کے در پر آئے ہیں۔ میرا مطلب ہے شیراز کو اپنا بیٹا بنا لیں۔‘‘ انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا، تو چودھری غفور نے سنبھل کر کہا ۔
’’میں اپنے بیٹوں سے مشورہ کروں گا۔ اگر وہ راضی ہوئے تو مجھے اس رشتے پر کوئی اعترض نہیں ہے۔‘‘
’’شیراز بڑا نیک بچا ہے۔‘‘ شا دو نے انہیں چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے وہ کہنے لگیں۔
’’ہم آپ کی ہاں کا انتظار کریں گے۔ اب اجازت دیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئیں۔
’’نا بابا جان نا… وہ لوگ ہماری ذات کے ہیں اور نہ ہمارے جوڑ کے۔ ہم اپنی بہن کی شادی اس سے نہیں ہونے دیںگے۔ ہم تو کتا بھی نسل دیکھ کر خریدتے ہیں اور مجھے تو یہ لالچی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا ، تو چودھری افضل نے جواب دیا تھا۔
’’شیراز بہت شریف اور نیک لڑکا ہے اور وہ گھرانہ اتنا گیا گزرا بھی نہیں۔ انہیں دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے۔‘‘میں نے افضل اور انور سے کہا۔
’’بابا جان آپ بہت سادہ ہیں۔ یہ دیکھیں کہ چند دنوں میں وہ اتنا متاثر ہوئے کہ رشتے کے لیے گھر پہنچ گئے۔ ان کی نظر ہماری زمینوں پر ہے۔‘‘
’’او بد نصیبوں! اتنی بڑی جائیداد میں سے کچھ تمہاری بہن لے جائے گی، تو کیا قیا مت آجائے گی۔؟‘‘ میں نے دکھی لہجے میں کہا۔
’’بابا جان اگر جائیداد اسی طرح تقسیم کرتے رہے، تو تیسری پیڑھی تک ایک کنال بھی نہیں بچے گی۔‘‘ چھوٹا بیٹا بولا تھا۔
’’کیوں لڑ رہے ہو تم لوگ؟‘‘ پھوپھی شادو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
’’کس بات کا جھگڑا ہے؟‘‘
’’زمین اور جائیداد ہی ان کے لیے سب کچھ ہے بہن سے انہیں کوئی محبت نہیں۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں بھائی مجھے معلوم ہے وہ لوگ لالچی نہیں ہیں اور نہ ہی میراں کو زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا چاہیے جس پر نفرت کی فصل اُگتی ہو۔ میں تم لوگوں کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں جائیداد کو مسئلہ نہ بناوؑ بس اس شادی پر سب راضی ہو جا ۔میراں کی شادی نہ روکو۔‘‘
’’پھر تو جھگڑا ہی مک گیا پھوپھی ۔‘‘ افضل خوش ہوتے ہوئے بولا شادی کی تیاری کریں بابا۔‘‘
میراں بہت خوش تھی۔ شادی کے بعد ایک سال تو بہت ہنسی خوشی گزرا۔ وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ شیراز کو کاروبار میں زبردست خسارہ ہو گیا۔ اسے سنبھالا دینے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی جو اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ ان دنوں بہت پریشان تھا۔
’’کاروبار ختم ہو گیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ تم کہیں سے رقم کا انتظام کرو۔‘‘ شیراز کی ماں نے کہا۔
’’کہاں سے انتظام کروں میرے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے؟‘‘ شیراز نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
’’اپنی عقل استعمال کرو۔ اگر بہو چاہے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میراں اور شیراز بیک وقت بولے تھے۔
’’وہ ایسے کے بہو اپنے باپ اور بھائیوں کے پاس جا کر زمینوں میں سے اپنا حصہ لے آئے۔ اس کی قیمت اتنی تو ہو گی کہ تم اپنے کاروبار کو سنبھالا دے سکو گے۔‘‘
’’ہاں بھائی جان یہ ہو سکتا ہے۔‘‘ شیراز کی بہن نے کہا تھا۔
’’نہیں …یہ میں نہیں کر سکتی۔‘‘ میراں نے کہا۔
’’کیوں نہیں کر سکتیں بھابھی۔‘‘ نند نے تیزی سے کہا۔
’’آپ کے حصے کی جائیداد آپ کے بھائیوں کے قبضے میں ہے اور آپ آرام سے بیٹھی ہیں۔ یہ موقع ایسا ہے کہ آپ کو اپنے شوہر اور بیٹے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کو کیا بتاوؑں۔‘‘ میراں نے بے چارگی سے کہا تھا۔
’’ہاں ہاں بتا نہ کیا مجبوری ہے۔‘‘ اس کی ساس نے کہا۔
’’شادی کے موقع پر بھائیوں نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ میرا حصہ مجھے نہیں دیں گے۔ اسی شرط پر وہ راضی ہوئے تھے۔‘‘
’’ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تمہیں تمہارے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ دیکھو میراں انسان کو اپنا حق کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تم ابھی وہاں جاوؑ اور اپنے حصے کا مطالبہ کرو۔ یہ میرا حکم ہے۔‘‘ اس کے محبوب شوہر کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔ وہ حیرت سے اسے تک رہی تھی۔ وہ جا نتی تھی کہ بھائی اس کی بات کبھی نہیں مانیں گے۔ بہرحال وہ حویلی آ گئی اور جب اس نے اپنے سسرال والوں کا مطالبہ مجھ سے بیان کیا ،تو میں اپنے بیٹوں کے پاس آیا۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں وہ لوگ؟ ایسا سبق دوں گا کہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔‘‘ چودھری افضل یہ سب سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’ہم نے انہیں اپنی بیٹی دی ہے اور بیٹی کا سر اس کے سسرال کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔‘‘ میں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہم اپنا سر ان کے سامنے نہیں جھکائیں گے اور اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیں گے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لالچی لوگ ہیں۔‘‘
’’افضل جائیداد کی خاطر اپنی بہن کا گھر مت اجاڑوتھوڑی سی زمین اس کے حصے کی چلی جائے گی تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔‘‘ میں غصے سے بولا تھا۔
’’میرا منہ نہ کھلوانا بابا۔ آپ نے بھی تو اپنی بہن کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ بے چاری آج تک کنواری بیٹھی ہے۔ اس کے حصے کی جائیداد آپ ہڑپ کر چکے۔ کبھی آپ کا دل تو نہیں پسیجا اس کے لیے۔‘‘میں یہ سنتے ہی غصے سے کانپنے لگا۔
’’میں تم سب کو عاق کر دوں گا اوراپنی بیٹی کا حق اسے ضرور دوں گا۔‘‘ میں نے چلاتے ہوئے کہا۔
’’کسی بھول میں نہ رہنا بابا ،ا گر آپ نے ایسا کیا ،تو ہم عدالت میں جائیں گے۔‘‘
’’بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں بابا جان۔‘‘ انور نے کہا۔
’’چل نکے۔‘‘افضل نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ میں جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔
’’نہیں، نہیں میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گا۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’ہار تو ہو چکی بھائی۔‘‘ شادو نہ جانے کب وہاں آئی تھی۔
’’آپ کے ما ننے یا نہ ماننے سے کیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’وقت بڑا ظالم ہوتا ہے بھائی! سب کو سبق پڑھاتا ہے۔کسی کا سر بلند نہیں رہنے دیتا۔‘‘
’’میں اتنا کمزور نہیں ہوا کے میرے بیٹے میرے مدمقابلکھڑے ہو جائیں۔‘‘
’’کمزور… کمزور تو میں تھی بھائی۔ ہمارے والد تھے ، ہمیں سب پتا تھا۔‘‘
’’کک …کیا پتا تھا؟‘‘
میں اچنبھے سے بولا۔
’’یہی کے دلاور کے غائب ہونے میں کس کا ہاتھ تھا۔‘‘
میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
’’کیا تمہیں مجھ پر شک تھا؟‘‘
’’مجھے تو کیا بابا کو بھی شک نہیں پورا یقین تھا، مگر نہ وہ اپنا بیٹا کھونا چاہتے تھے اور نہ میں اپنا بھائی… ہم تو خاموش رہے، مگر اللہ تو ظالم کو نہیں چھوڑتا نا ۔ اپنا انتقام لے کر رہتا ہے۔‘‘
’’اللہ نے انتقام لینا ہے، تو مجھ سے لے۔ شا دو میری بیٹی تو معصوم ہے …نہیں نہیں میں اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
میراں کے سسرال والوں نے اس کا جینا مشکل کر دیا تھا اور اس کا بیٹا بھی چھین لیا تھا۔ وہ حویلی میں اپنے باپ بھائیوں کے در پر آ پڑی تھی۔ اس کے شوہر نے کہہ دیا تھا کے جب تک وہ اپنی جائیداد لے کر نہیں آئے گی اس کے دروازے اس پر بند رہیں گے۔ ادھر حویلی میں بھی اس کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔ دونوں بھابھیاں اس سے خارکھاتی اور اسے باتیں سناتی تھیں۔ اس پر بچے کی جدائی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ شوہر کی دھمکیاں الگ تھیں۔ ایک پھوپھی کا دم غنیمت تھا جو اسے دلاسے دیتی رہتی تھیں۔ ان دنوں میں شہر گیا ہوا تھا۔ بھائیوں اور بھابھیوں نے اس کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ وہ ساری ساری رات روتی رہتی۔ کب صبح ہوتی اور کب شام اسے پتا نہیں چلتا اور اس دن افضل نے اسے خوب بے نقط سنائی تھیں۔ وہ اتنی دل برداشتہ ہوگئی کہ اسے صرف موت میں ہی پناہ نظر آئی اور اس نے حویلی کی چھت سے کود کر جان گنوا دی تھی۔ جوان بیٹی کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔
’’تجھے بہت جلدی تھی میراں …میرا انتظار تو کیا ہوتا۔ یہ دیکھ میں تیری زمین لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے کاغذات اس کی لاش کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
’’اٹھ میراں، شا دو یہ اٹھتی کیوں نہیں؟ جرم میں نے کیا اور سزا ملی میری بیٹی کو یا اللہ یہ کیسا انصاف ہے؟‘‘ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’دلاور کا قتل میرے حکم پر ہوا تھا۔ میں قاتل ہوں انسپکٹر مجھے گرفتار کرو ۔‘‘ میں پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر اقرار کررہا ہوں۔ ‘‘ تھانیدار پوری روداد سن کر بولا:
’’چودھری صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی آپ کی بیٹی کی چھت سے گرنے کی اطلاع ہمیں ملی تھی اور آپ برسوں پرانا قصہ سنا رہے ہیں۔‘‘ اسی وقت غفور کے دونوں بیٹے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔
’’بابا جان آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم آپ کو پورے گاوؑں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ چلیں گھر چلیں۔‘‘ چودھری افضل تیزی سے ان کے قریب آیا اور انہیں تھام کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’چھوڑ مجھے۔‘‘ انہوں نے اس کے ہاتھ جھٹکے۔
’’انسپکٹر! تو ایف آئی آر لکھ… پرچہ درج کر …میرا اقبالی بیان لکھ میں قاتل ہوں۔‘‘
’’ارے تھانیدار صاحب بیٹی کی اچانک موت کے صدمے سے بابا کا دماغی توازن…‘‘ انور نے اپنی کنپٹی پر انگلی گھمائی۔ انسپکٹر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا ۔
’’آپ لوگ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی ۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
دونوں بیٹوں نے چودھری غفور کو بازووؑں سے پکڑ کر اٹھایا اور زبردستی کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔ اس طرح کے وہ گھسٹتا ہوا ان کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔
’’میں قاتل ہوں… میں قاتل ہوں۔‘‘ اور تھانیدار بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بیٹی کے صدمے سے بوڑھے باپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔
(ختم شد)
’’تو تو پیچھے مر۔‘‘ اس نے غصے سے اسے دیکھا۔
’’ہاں تو بتا وہ اس کا کیا مانگ رہے ہیں؟‘‘ چودھری افضل نے نذیرے سے پوچھا۔
’’دو لاکھ مانگ رہا ہے چودھری صاحب، مگر میرا خیال ہے ڈیڑھ میں سودا ہو جائے گا۔‘‘ نذیرے نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔
’’سن نذیرے اس کی تیاری تیری ذمہ داری ہو گی۔ اس بار ہماری ہار نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’خوراک آپ کی، محنت میری پھر کیسے ہارے گا؟ نسل دار کتا ہے چودھری صاحب۔‘‘ نذیرے نے عاجزی سے کہا۔
’’کیا خیال ہے نکے؟‘‘ اس نے چھوٹے بھائی انور کی طرف دیکھا۔
’’لگتا تو ٹھیک ہے بھائی! میرا خیال ہے یہ آپ کو پسند آ گیا ہے۔ ایسا کر نذیرے اگر وہ ڈیڑھ میں نہ مانے تو کچھ اوپر دے دینا، مگر سودا آج ہی کر لینا۔‘‘ نذیرے نے سر ہلایا۔ بوڑھا جو پاس ہی کھڑا تھا دوبارہ چودھری افضل کے قریب آیا۔
’’اس کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘افضل نے کڑے تیوروں سے ایک ملازم سے پوچھا۔
’’اس کی بیٹی بیمار ہے سرکار کچھ پیسے لینے آیا ہے۔‘‘ملازم نے کہا۔
’’منشی بابا جان کے ساتھ شہر گیا ہوا ہے۔ بغیر کھاتے میں اندراج کیے کیسے دے دیں اسے پیسے؟‘‘
’’چل بھئی پیچھے ہٹ آج تجھے پیسے نہیں مل سکتے۔ سنا نہیں منشی شہر گیا ہوا ہے۔‘‘ ملازم نے بوڑھے کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور پیچھے دھکیل دیا۔
’’نکے ایک تو یہ کمی ہمیں سا نئیں لینے دیتے جہاں بھی دیکھو منہ اٹھائے اور جھولی پھیلائے چلے آتے ہیں۔‘‘ افضل نے ناگواری سے کہا۔
’’آپ کے مزارعے ہیں چودھری صاحب! آپ کے پاس نہیں آئیں تو اورکہاں جائیں؟‘‘ بوڑھا رندھی ہوئی آواز میں بولا۔
’’جا جا یہاں سے، جان چھوڑ ہماری۔ جگو لے کر جا اسے ۔‘‘ انور نے ایک ملازم کو اشارہ کیا۔ جگو اس کے قریب گیا اور کہا:
’’سنا نہیں چودھری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ کملے بڑے لوگوں کے بڑے خرچے ہوتے ہیں۔ منشی آ جائے گا تو مل جائیں گے پیسے ۔ آ میرے ساتھ۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا۔
افضل جو کتے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔
’’دیکھ نذیرے! اس کی تیاری بہت اچھی ہونی چاہے۔ سمجھ گیا نہ تو۔‘‘
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر چودھری صاحب!‘‘ نذیر نے کہا۔
’’چل اب لے جا اسے۔‘‘ نذیرے نے زنجیر کھینچی اور اسے لے کر چلا گیا۔ افضل دور تک اسے جاتے دیکھتا رہا۔
دو تین دن گزرے تھے جب بڑے چودھری صاحب اس سہ پہر حویلی پہنچے۔ ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ تقریباً ساٹھ سالہ چودھری غفور نے جو سفید براق شلوار قمیص اور بڑی سی اونچے شملے والی پگڑی باندھے زمین پر اس طرح قدم رکھا کہ اِن کا کرو فر ہی نرالا تھا۔ پچاس سالہ دبلا پتلا، لیکن پھرتیلا منشی بھی لپک کر پچھلی سیٹ سے اترا اور ان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’زمین کے کاغذات والا بیگ سنبھال لیا منشی؟‘‘چودھری غفور نے کہا۔
’’جی چودھری صاحب! یہ رہا بیگ۔‘‘ اس نے ہاتھ میں تھا ما بریف کیس دکھاتے ہوئے کہا ۔
وہ جیسے ہی مہمان خانے میں داخل ہوئے۔ دونوں بیٹے لپک کر ان کے قریب آ گئے۔
’’اسلام و علیکم بابا جان!‘‘ افضل ان سے بغلگیر ہوتا ہوا بولا۔
و علیکم السلام! سب خیریت ہے نا؟‘‘چودھری غفور ان دونوں سے مل کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’یہاں سب خیریت ہے۔ ہم تو آپ کی طرف سے فکر مند تھے۔ ایک ہفتہ ہو گیا آپ کو شہر گئے کچھ خیر خبر ہی نہیں تھی۔‘‘ افضل نے کہا۔
’’دو دن سے آپ کا فون بھی نہیں مل رہا تھا۔‘‘ انور نے کہا۔
’’تم دونوں کے لیے ہی تو شہر گیا تھا۔ کچہری کے معاملات آسان نہیں ہوتے۔ میں نے تمام جاگیر اور زمینیں تقسیم کر دی ہیں۔‘‘ پھر کچھ دیر ٹھہر کر انہوں نے کہا۔
’’تم لوگ اپنی مرضی سے اپنی بہن کا حصہ اسے دے دیتے تو اچھا تھا۔‘‘
’’بابا جان یہ ہماری روایت کے خلاف ہے۔ عورتوں کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا پھر آپ نے بھی تو…‘‘
’’بس! گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہی بوڑھا اندر داخل ہوا اور چودھری غفور کی جانب بڑھا۔
’’اوئے، تو پھر آ گیا۔ سا تو لینے دے بابا جان کو۔ جگو، شیرا کہاں مر گئے سارے ۔ نکالو اسے یہاں سے۔ کس نے اسے اندر آنے دیا؟‘‘ افضل پھرتی سے اٹھ کر بوڑھے کے قریب گیا۔
’’میری بات تو سنو چودھری! مجھے بڑے چودھری صاحب سے بات کرنے دو۔‘‘ وہ گھگیا تا ہوا بولا۔
’’سنتے ہیں، ابھی سنتے ہیں۔ کہہ دیا نا کچھ کرتے ہیں۔ اُدھر بیٹھو جا کر۔‘‘ اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھا مایوسی سے سر جھکائے دیوار کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
’’چمٹ ہی جاتے ہیں جان کو ۔‘‘ وہ بڑ بڑاتا ہوا بڑے چودھری صاحب کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ اسی وقت اچانک حویلی کے اندر سے چیخنے چلانے کی بلند آوازیں آنے لگیں۔
’’اللہ خیر کرے۔‘‘ چودھری غفور مضطرب انداز میں کھڑے ہو گئے۔ وہاں موجود سب افراد ہکا بکا تھے۔ حویلی کے اندر سے ایک ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور الفاظ صحیح طور سے اس کے منہ سے نہیں نکل رہے تھے۔ وہ پورے وجود سے کانپ رہی تھی۔
’’بڑے چودھری صاحب! وہاں حویلی میں میراں بی بی…‘‘
’’کیا ہوا میراں کو؟‘‘ وہ تیزی سے اندر بھاگے۔ ان کے پیچھے افضل اور انور بھی متوحش انداز میں لپکے۔ جوں جوں وہ حویلی کی سمت بڑھ رہے تھے۔ چیخ و پکار اور آہ و بکا کی صدائیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی صحن میں پہنچے وہاں ایک جانب حویلی کی عورتوں اور ملازمین کا جمگھٹا نظر آیا۔ وہ تیزی سے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ ان کی بیٹی میراں زمین پر پڑی تھی اس طرح کہ اس کے آس پاس خون کا چھوٹا سا تالاب بن گیا تھا۔
’’کیا ہوا میری میراں کو؟‘‘ وہ تیورا کر وہیں گرنے والے تھے کہ افضل نے انہیں سنبھال لیا۔ انور میراں کے قریب بیٹھ گیا اور اسے ہلایا جلایا اس کی نبض چیک کی، مگر وہاں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میراں مر چکی تھی۔
’’میراں گئی بھائی، میراں مر گئی۔ سارے جھگڑے ختم ہو گئے۔‘‘ میراں کی لاش کے پاس بیٹھی ایک ادھیڑ عمرعورت چودھری غفور کی طرف دیکھ کر چلائی تھی۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میراں اس کی واحد بیٹی تھی۔
’’اس نے چھت سے کود کر جان دے دی۔ سارے جھگڑے مک گئے۔ ہائے میری بچی تو نے یہ کیا کیا؟‘‘ بوڑھی عورت دوبارہ بین کرنے لگی۔ وہ زا ر و قطار رو رہی تھی۔ دیگر عورتیں بھی آہ و بکا کر رہی تھیں۔ افضل اور انور کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔ پھر افضل نے چونک کر بوڑھی عورت سے کہا۔
’’ایسی بات نہ کر پھوپھی ، وہ غلطی سے گری ہو گی۔‘‘
’’وہ غلطی سے نہیں گری۔‘‘ چودھری غفور نے گمبھیر مگر دھیمے لہجے میں آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
ذرا سی دیر میں پوری حویلی آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی اور آن کی آن میں یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ چودھری غفور کی بیٹی اور چودھری افضل اور انور کی اکلوتی بہن حویلی کی چھت سے گر کر مر گئی۔ رات گئے تک اسے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر میراں کا شوہر اس کی ساس اور اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی موجود تھا۔ اس کی جوان سال موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ رات کا وہ نہ جانے کون سا پہر تھا جب چودھری غفور گاؤں کے اس واحد تھانے میں آیا تھا۔ ایک حوالدار وہاں موجود تھا جو زمین پر چادر بچھائے سو رہا تھا۔ چودھری جھکا اور اسے جگانے کے لیے اس کا کندھا ہلایا۔
’’کون …کون ہے رات کے اس پہر ؟‘‘وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
’’میں ہوں چودھری غفور ۔‘‘
’’اوہ! چودھری صاحب آپ؟‘‘ وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیے آئیے سرکار۔‘‘ حوالدار نے انہیں کرسی پیش کی۔
’’بیٹھیے، سب خیر تو ہے نا؟‘‘
’’تھانیدار کہاں ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
’’وہ جی…وہ تو اس وقت اپنے کوارٹر میں ہیں۔ میں ابھی انہیں بلواتا ہوں۔ دین محمد!او دین محمد۔‘‘ اس نے کسی کو آواز دی تھی۔
’’آیا جی۔‘‘ دور کہیں سے کسی کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔
’’چھیتی جا، تھانیدار صاحب کو بتا۔ چودھری غفور آئے ہیں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔
’’آپ بیٹھیں نا چودھری صاحب۔‘‘حوالدار کی آواز اُن کی سماعت تک پہنچی ہی نہیں تھی۔ وہ تو دور کہیں اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
’’چودھری صاحب۔‘‘ اس بار اس نے تیز آواز میں اسے پکارا تو وہ چونکے تھے۔
’’آپ بیٹھیں میں تھانیدار صاحب کو خود بلا کر لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ چودھری کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح کرسی پر ڈھے سا گیا اور اپنا سر سامنے میز پر ٹکا دیا۔
’’چودھری صاحب! آپ… اتنی رات گئے؟ اور آپ نے خود آنے کی زحمت کیوں کی کوئی بندہ بھیج دیا ہوتا۔ میں حاضر ہو جاتا۔‘‘ تھانیدار نے کہا اور تیزی سے چودھری کے مقابل کرسی پر بیٹھ گیا۔ چودھری یونہی میز پر سر ٹکائے بیٹھا رہا۔
’’چودھری صاحب سب خیر تو ہے ؟‘‘ اس نے فکر مندی سے کہا، تو چودھری غفور نے سر اٹھا کر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔
’’سوالات نہ کر …ایف آئی آر کاٹ قتل کی۔‘‘ چودھری کا لہجہ خاصا بھاری تھا۔
’’ایف آئی آر…قتل کی؟ مگر کس کے خلاف اور کس کے قتل کی؟‘‘ تھانیدار حیرانی سے بولا۔
’’تو لکھ…میں تجھے بتاتا ہوں کہ قاتل کون ہے؟‘‘
’’میں سمجھ نہیں پایا چودھری صاحب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ حیران رہ گیا تھا۔
’’آپ ذرا مجھے تفصیل سے بتائیں۔‘‘
’’کاغذ قلم اٹھا ۔‘‘چودھری صاحب کی آواز اسے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے روزنامچہ کھولا۔
’’جی فرمائیے۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
’’تھانیدار یہ کہانی بیس سال پرانی ہے۔ جب میں دولت اور جوانی کے نشے میں مست تھا۔‘‘
’’چودھری غفور اُن دنوں چوبیس سال کا گھبرو جوان تھا اور میری چھوٹی بہن دلشاد اٹھارہ سال کی۔ دولت کی ریل پیل نے مجھے لاابالی، بے پروا اور عیاش بنا دیا تھا۔ میں تمام وقت اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ موج مستی میں گزارتا تھا۔ اس دن شام ڈھلے جب میں حویلی پہنچا، تو مہمان خانے میں پڑوسی گاؤں کے ملک دلاور کی ماں کواپنے والد سے گفتگو کرتے پایا۔ السلام و علیکم۔ کہتا وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔
وعلیکم السلام! اس کے والد اور دلاور کی ماں بیک وقت بولے۔ میں والد صاحب کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔ ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ پھر جڑ گیا جو میری آمد سے منقطع ہوا گیا تھا۔
’’بس چودھری صاحب ہمیں تو آپ کی بیٹی چاہیے اور کچھ نہیں۔ ایک ہی تو میرا بیٹا ہے دلاور اور اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔‘‘
چودھری صاحب مسکرائے تھے۔
’’میں جانتا ہوں بہن آپ لوگ جدی پشتی رئیس ہیں، مگر ہم اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ تو رخصت نہیں کریں گے نا…جو اس کا حق ہے اسے دیا جائے گا۔ اس کے حصے کی جائیداد اور زمینیں اس کو ملیں گی۔ دو ہی تو میرے بچے ہیں غفور اور دلشاد ساری جائیداد ان دونوں کی ہی تو ہے۔‘‘
جائیداد کی تقسیم کا سن کر مجھے اچنبھا ہوا۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بہن کی شادی ہو گی، تو اپنے حصے کی جائیداد بھی لے جائے گی۔یہ مجھے کسی طرح گوارا نہیں تھا۔
’’اچھا آپ یہ بتائیں رشتہ تو پکا ہے نا ؟‘‘
’’ہاں ہاں! غفور مٹھائی لے کر آ۔‘‘ چودھری صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں ناگواری کا احساس لیے اٹھ گیا۔ بے حد خوبصورت میری بہن شادو کا رشتہ گھبرو جوان ملک دلاور سے پکا ہو گیا تھا۔ حویلی میں شادی کی تیاریاں جاری تھیں، مگر مجھے ان تیاریوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مجھے تو کسی لمحے چین نہیں آرہا تھا۔ ہماری آبائی زمینیں شادو اپنے ساتھ غیر خاندان میں لے جا رہی تھی، لیکن میں سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ چودھری صاحب زبان دے چکے تھے۔
شادی کے دن قریب تھے جب ملک دلاور نے اپنی کزن کو شادو کے پاس بھیجا۔
’’دلاور شادی کی شاپنگ کرنے کل شہر جا رہا ہے۔ اس نے پوچھا ہے کہ تمہاری کوئی خاص پسند ہو تو بتا دو۔‘‘ کزن نے اس سے کہا تھا۔
’’میں کیا بتاؤں اُن سے کہنا اپنی پسند سے لے آئیں۔‘‘ شا دو نے شرماتے ہوئے کہا۔میں کمرے کے قریب سے گزر رہا تھا جب انہیں یہ گفتگو کرتے سنا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے میں تمہاری طرف سے اسے بہت سی چیزوں کی فرمائش کر دوں گی۔‘‘ اس نے شرارت سے شادو کو کہا۔
’’ہائے اللہ وہ کیا سوچیں گے، ایسا نہیں کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔
’’وہ کچھ نہیں سوچے گا بلکہ خوش ہوگا۔‘‘ دلاور کی کزن نے ہنستے ہوئے کہا پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے چلی گئی۔
ملک دلاور کو آخری بار گاؤں کے اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوتے دیکھا گیا تھا۔ پھر اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ اسے شہر میں اپنے جس دوست کے پاس ٹھہرنا تھا، وہاں بھی نہیں پہنچا تھا۔ شادی کے دونوں گھر ماتم کدہ بن گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی نے اسے پیسے کی خاطر مار ڈالا ہے کیونکہ اس کے پاس اچھی خاصی رقم تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور جلد ہی تاوان کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ پولیس بھی حرکت میں آ گئی اور دونوں طرف کے افراد اور اس کے دوست وغیرہ بھی اسے تلاش کر رہے تھے۔ ان میں، میں اور میرے دوست بھی شامل تھے، مگر وہ تو ایسا غائب ہوا کہ کہیں سراغ نہ ملا۔ ملک دلاور کی اور اس کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔
پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا پرچہ درج کر لیا۔ اسی سلسلے میں تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے اور میرے دوستوں سے بھی پوچھ گچھ شروع کردی جس کا میں نے بہت برا منایا۔ بہرحال دلاور کا کچھ پتا نہیں چلا کہ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی تھی۔ شا دو کا رو رو کر برا حال تھا۔ اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔
وقت کچھ آگے سرکا اور کئی سال بیت گئے۔ شادو نے پھر کبھی شادی کے لیے ہامی نہیں بھری۔ اس نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد چودھری غفور یعنی میری بھی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شادو نے اپنے بھائی کے بچوں پر اپنی محبتیں نچھاورکر دی تھیں۔ حویلی اور ڈیرے کے تمام انتظامات شادو کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے حصے کی زمینیں بھی اس کے پاس تھیں۔ میں پہلے سے بڑھ کر اُس کا خیال رکھنے لگا تھا۔
انہی دنوں میری بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا اور اسی دوران کچھ ایسی پیچیدگی ہوئی کہ وہ جان کی بازی ہار گئی۔ نومولود بچی کو پھوپھی شا دو نے سینے سے لگالیا پھر اسے ماں بن کربڑے ناز و نعم سے پالا۔ وقت گزرتا رہا اور میراں بڑی ہوتی گئی۔ وہ اپنی پھوپھی کو ہی اپنی ماں سمجھتی تھی۔ شادو اب بیمار رہنے لگی تھی۔میں اس کی صحت کی طرف سے بہت پریشان رہتا تھا۔ اس کا بخار ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ایک دن میراں اس کے سرہانے بیٹھی سر دبا رہی تھی۔ میں بھی قریب ہی بیٹھا تشویش سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’شہر چلنے کی تیاری کرو۔‘‘ میں نے بہن سے کہا۔
’’نہیں مجھے شہر نہیں جانا۔‘‘ شا دو نے نحیف آواز میں کہا۔
’’بس بس…زیادہ باتیں نہ کرو ہمیں تسلی کرنے دو۔ میراں بیٹا اپنی پھوپھی کو تیار کرو ہم انہیں ابھی شہر کے بڑے اسپتال لے کر جائیں گے۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ میری دونوں بہوویں اس بات پر بہت ناراض رہتی تھیں کہ حویلی اور ڈیرے وغیرہ کے تمام انتظامات میری بہن کے ہاتھ میں تھے۔ اسی لیے وہ پھوپھی کو دشمن سمجھتی تھیں۔ بہرحال میں شا دواور میراں کو لیے شہر کے ایک بڑے اور مشہور اسپتال لے کر آیا جہاں شادو کا علاج شروع ہو گیا۔
اک رات ڈاکٹر نے میراں سے کہا۔
’’میں کچھ میڈیسن لکھ رہی ہوں یہ منگوا لیں۔‘‘
’’ملازم کھانا کھانے گئے ہیں میں لے آتی ہوں۔ اس نے نسخہ ڈاکٹر کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میراں تو اکیلی نہ جا شیرا آجائے گا، تو منگوا لیں گے۔‘‘ پھوپھی نے جلدی سے کہا۔
’’میں بس یوں گئی اور یوں آئی پھوپھی دوائیوں کا اسٹور اسپتال کے اندر ہی ہے۔‘‘
’’اچھا دھیان سے جانا اور جلدی آنا۔‘‘ شادو نے کہا۔ وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ میراں اسٹور سے دوائیاں خرید رہی تھی جب اس کی نظر اس کے گاؤں کے ایک نوجوان پر پڑی تھی جو اسے ہی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ دوائیاں لے کر تیزی سے مڑی کہ اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔
’’سنیے!‘‘ وہ رکی اور پلٹ کر دیکھا وہی نوجوان کھڑا تھا۔
’’آپ میراں بی بی ہیں نا چودھری صاحب کی بیٹی۔‘‘ وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔ میراں نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے قدم بڑھا دیے۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’سب خیر تو ہے کون بیمار ہے؟‘‘
’’پھوپھی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘
’’اوہ کون سے وارڈ میں ہیں؟‘‘
’’پرائیویٹ ونگ روم نمبر پانچ میں۔‘‘
’’میری امی بھی ایڈمٹ ہیں۔ میں کسی وقت آؤں گا آپ کی پھوپھی کو دیکھنے۔ اس نے کہا۔ میراں نے سر اٹھا کر اس خوبرو نوجوان کو دیکھا پھر سر جھکائے آگے بڑھ گئی۔ وہ دور تک اس حسین میراں کو دیکھتا رہا۔
مجھے کچھ اہم معاملے نمٹانے تھے۔ اسی لیے بہن کے پاس میراں اور دو ملازم کو چھوڑ کر گاوؑں چلا گیا۔ حویلی میں بیٹے اور بہوویں خوش گپیوں میں مشغول تھے جب میں وہاں پہنچا۔
’’تم لوگ اپنی پھوپھی کے پاس شہر چلے جاوؑ وہاں میراں اکیلی ہے۔‘‘
’’اکیلی کہاں ہے بابا ملازم ہیں ان کے ساتھ۔ پھر ان کا علاج بھی طویل ہے ہم سب کام دھندے چھوڑ کر وہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘
’’تمہاری بیویاں تو جا سکتی ہیں؟‘‘
’’بابا یہاں حویلی اور ڈیرے کا انتظام کون سنبھالے گا؟‘‘ بڑی بہو نے کہا تھا۔
’’اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر ہم کیسے جائیں؟‘‘چھوٹی بہو نے کہا۔
’’انہیں ساتھ لے کر تو نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ہاں بھئی سب کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی مجبوریاں بتا دی تھیں۔ میں دکھی دل سے اٹھ گیا۔ شادو کو اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے دو ہفتے ہو گئے تھے۔ شیراز اور اس کی ماں نے ان دونوں کا بڑا خیال رکھا اور بہت کام آئے تھے۔ میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا تھا۔ میراں پھوپھی کے پاوؑں دبانے لگی۔
’’سدا خوش رہو، اللہ نصیب سوہنے کرے۔ پھوپھی نے اسے دعا دی تھی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ میراں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے شیراز اور اس کی ماں کھڑے تھے۔ وہ دونوں آگئے۔
’’کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟‘‘شیراز کی ماں نے شا دو سے پوچھا۔
’’شکر ہے اللہ کا کافی بہتر ہے۔‘‘ میراں اور شیراز کچھ فاصلے پر بیٹھے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جبکہ دونوں خواتین نہ جانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ شیراز کی ماں نے میراں کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تو یہ سن کر شادو سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے فی الحال یہ کہہ کر ٹا ل دیا کہ وہ بھائی سے بات کرے گی۔ شیراز معزز گھرانے کا چشم و چراغ اور کھاتے پیتے کاروباری لوگ تھے مگر ہماری ٹکر کے نہیں تھے۔
شادو صحت مند ہو کر حویلی آ گئی اور میرے کان میں اس رشتے کی بات ڈال دی۔ کچھ عرصہ گزرا تھا جب شیراز کی ماں حویلی آئی۔ شادو اور میں نے ان کا استقبال بڑی گرمجوشی سے کیا۔
’’آپ کے بیٹے نے جو خدمت میری بہن کی کی ہے وہ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘
’’یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ اس نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ہم اس تعلق کو رشتے میں بدلنے کے لیے آپ کے در پر آئے ہیں۔ میرا مطلب ہے شیراز کو اپنا بیٹا بنا لیں۔‘‘ انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا، تو چودھری غفور نے سنبھل کر کہا ۔
’’میں اپنے بیٹوں سے مشورہ کروں گا۔ اگر وہ راضی ہوئے تو مجھے اس رشتے پر کوئی اعترض نہیں ہے۔‘‘
’’شیراز بڑا نیک بچا ہے۔‘‘ شا دو نے انہیں چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے وہ کہنے لگیں۔
’’ہم آپ کی ہاں کا انتظار کریں گے۔ اب اجازت دیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئیں۔
’’نا بابا جان نا… وہ لوگ ہماری ذات کے ہیں اور نہ ہمارے جوڑ کے۔ ہم اپنی بہن کی شادی اس سے نہیں ہونے دیںگے۔ ہم تو کتا بھی نسل دیکھ کر خریدتے ہیں اور مجھے تو یہ لالچی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا ، تو چودھری افضل نے جواب دیا تھا۔
’’شیراز بہت شریف اور نیک لڑکا ہے اور وہ گھرانہ اتنا گیا گزرا بھی نہیں۔ انہیں دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے۔‘‘میں نے افضل اور انور سے کہا۔
’’بابا جان آپ بہت سادہ ہیں۔ یہ دیکھیں کہ چند دنوں میں وہ اتنا متاثر ہوئے کہ رشتے کے لیے گھر پہنچ گئے۔ ان کی نظر ہماری زمینوں پر ہے۔‘‘
’’او بد نصیبوں! اتنی بڑی جائیداد میں سے کچھ تمہاری بہن لے جائے گی، تو کیا قیا مت آجائے گی۔؟‘‘ میں نے دکھی لہجے میں کہا۔
’’بابا جان اگر جائیداد اسی طرح تقسیم کرتے رہے، تو تیسری پیڑھی تک ایک کنال بھی نہیں بچے گی۔‘‘ چھوٹا بیٹا بولا تھا۔
’’کیوں لڑ رہے ہو تم لوگ؟‘‘ پھوپھی شادو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
’’کس بات کا جھگڑا ہے؟‘‘
’’زمین اور جائیداد ہی ان کے لیے سب کچھ ہے بہن سے انہیں کوئی محبت نہیں۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں بھائی مجھے معلوم ہے وہ لوگ لالچی نہیں ہیں اور نہ ہی میراں کو زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا چاہیے جس پر نفرت کی فصل اُگتی ہو۔ میں تم لوگوں کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں جائیداد کو مسئلہ نہ بناوؑ بس اس شادی پر سب راضی ہو جا ۔میراں کی شادی نہ روکو۔‘‘
’’پھر تو جھگڑا ہی مک گیا پھوپھی ۔‘‘ افضل خوش ہوتے ہوئے بولا شادی کی تیاری کریں بابا۔‘‘
میراں بہت خوش تھی۔ شادی کے بعد ایک سال تو بہت ہنسی خوشی گزرا۔ وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ شیراز کو کاروبار میں زبردست خسارہ ہو گیا۔ اسے سنبھالا دینے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی جو اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ ان دنوں بہت پریشان تھا۔
’’کاروبار ختم ہو گیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ تم کہیں سے رقم کا انتظام کرو۔‘‘ شیراز کی ماں نے کہا۔
’’کہاں سے انتظام کروں میرے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے؟‘‘ شیراز نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
’’اپنی عقل استعمال کرو۔ اگر بہو چاہے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میراں اور شیراز بیک وقت بولے تھے۔
’’وہ ایسے کے بہو اپنے باپ اور بھائیوں کے پاس جا کر زمینوں میں سے اپنا حصہ لے آئے۔ اس کی قیمت اتنی تو ہو گی کہ تم اپنے کاروبار کو سنبھالا دے سکو گے۔‘‘
’’ہاں بھائی جان یہ ہو سکتا ہے۔‘‘ شیراز کی بہن نے کہا تھا۔
’’نہیں …یہ میں نہیں کر سکتی۔‘‘ میراں نے کہا۔
’’کیوں نہیں کر سکتیں بھابھی۔‘‘ نند نے تیزی سے کہا۔
’’آپ کے حصے کی جائیداد آپ کے بھائیوں کے قبضے میں ہے اور آپ آرام سے بیٹھی ہیں۔ یہ موقع ایسا ہے کہ آپ کو اپنے شوہر اور بیٹے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کو کیا بتاوؑں۔‘‘ میراں نے بے چارگی سے کہا تھا۔
’’ہاں ہاں بتا نہ کیا مجبوری ہے۔‘‘ اس کی ساس نے کہا۔
’’شادی کے موقع پر بھائیوں نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ میرا حصہ مجھے نہیں دیں گے۔ اسی شرط پر وہ راضی ہوئے تھے۔‘‘
’’ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تمہیں تمہارے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ دیکھو میراں انسان کو اپنا حق کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تم ابھی وہاں جاوؑ اور اپنے حصے کا مطالبہ کرو۔ یہ میرا حکم ہے۔‘‘ اس کے محبوب شوہر کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔ وہ حیرت سے اسے تک رہی تھی۔ وہ جا نتی تھی کہ بھائی اس کی بات کبھی نہیں مانیں گے۔ بہرحال وہ حویلی آ گئی اور جب اس نے اپنے سسرال والوں کا مطالبہ مجھ سے بیان کیا ،تو میں اپنے بیٹوں کے پاس آیا۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں وہ لوگ؟ ایسا سبق دوں گا کہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔‘‘ چودھری افضل یہ سب سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’ہم نے انہیں اپنی بیٹی دی ہے اور بیٹی کا سر اس کے سسرال کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔‘‘ میں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہم اپنا سر ان کے سامنے نہیں جھکائیں گے اور اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیں گے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لالچی لوگ ہیں۔‘‘
’’افضل جائیداد کی خاطر اپنی بہن کا گھر مت اجاڑوتھوڑی سی زمین اس کے حصے کی چلی جائے گی تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔‘‘ میں غصے سے بولا تھا۔
’’میرا منہ نہ کھلوانا بابا۔ آپ نے بھی تو اپنی بہن کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ بے چاری آج تک کنواری بیٹھی ہے۔ اس کے حصے کی جائیداد آپ ہڑپ کر چکے۔ کبھی آپ کا دل تو نہیں پسیجا اس کے لیے۔‘‘میں یہ سنتے ہی غصے سے کانپنے لگا۔
’’میں تم سب کو عاق کر دوں گا اوراپنی بیٹی کا حق اسے ضرور دوں گا۔‘‘ میں نے چلاتے ہوئے کہا۔
’’کسی بھول میں نہ رہنا بابا ،ا گر آپ نے ایسا کیا ،تو ہم عدالت میں جائیں گے۔‘‘
’’بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں بابا جان۔‘‘ انور نے کہا۔
’’چل نکے۔‘‘افضل نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ میں جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔
’’نہیں، نہیں میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گا۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’ہار تو ہو چکی بھائی۔‘‘ شادو نہ جانے کب وہاں آئی تھی۔
’’آپ کے ما ننے یا نہ ماننے سے کیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’وقت بڑا ظالم ہوتا ہے بھائی! سب کو سبق پڑھاتا ہے۔کسی کا سر بلند نہیں رہنے دیتا۔‘‘
’’میں اتنا کمزور نہیں ہوا کے میرے بیٹے میرے مدمقابلکھڑے ہو جائیں۔‘‘
’’کمزور… کمزور تو میں تھی بھائی۔ ہمارے والد تھے ، ہمیں سب پتا تھا۔‘‘
’’کک …کیا پتا تھا؟‘‘
میں اچنبھے سے بولا۔
’’یہی کے دلاور کے غائب ہونے میں کس کا ہاتھ تھا۔‘‘
میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
’’کیا تمہیں مجھ پر شک تھا؟‘‘
’’مجھے تو کیا بابا کو بھی شک نہیں پورا یقین تھا، مگر نہ وہ اپنا بیٹا کھونا چاہتے تھے اور نہ میں اپنا بھائی… ہم تو خاموش رہے، مگر اللہ تو ظالم کو نہیں چھوڑتا نا ۔ اپنا انتقام لے کر رہتا ہے۔‘‘
’’اللہ نے انتقام لینا ہے، تو مجھ سے لے۔ شا دو میری بیٹی تو معصوم ہے …نہیں نہیں میں اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
میراں کے سسرال والوں نے اس کا جینا مشکل کر دیا تھا اور اس کا بیٹا بھی چھین لیا تھا۔ وہ حویلی میں اپنے باپ بھائیوں کے در پر آ پڑی تھی۔ اس کے شوہر نے کہہ دیا تھا کے جب تک وہ اپنی جائیداد لے کر نہیں آئے گی اس کے دروازے اس پر بند رہیں گے۔ ادھر حویلی میں بھی اس کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔ دونوں بھابھیاں اس سے خارکھاتی اور اسے باتیں سناتی تھیں۔ اس پر بچے کی جدائی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ شوہر کی دھمکیاں الگ تھیں۔ ایک پھوپھی کا دم غنیمت تھا جو اسے دلاسے دیتی رہتی تھیں۔ ان دنوں میں شہر گیا ہوا تھا۔ بھائیوں اور بھابھیوں نے اس کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ وہ ساری ساری رات روتی رہتی۔ کب صبح ہوتی اور کب شام اسے پتا نہیں چلتا اور اس دن افضل نے اسے خوب بے نقط سنائی تھیں۔ وہ اتنی دل برداشتہ ہوگئی کہ اسے صرف موت میں ہی پناہ نظر آئی اور اس نے حویلی کی چھت سے کود کر جان گنوا دی تھی۔ جوان بیٹی کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔
’’تجھے بہت جلدی تھی میراں …میرا انتظار تو کیا ہوتا۔ یہ دیکھ میں تیری زمین لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے کاغذات اس کی لاش کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
’’اٹھ میراں، شا دو یہ اٹھتی کیوں نہیں؟ جرم میں نے کیا اور سزا ملی میری بیٹی کو یا اللہ یہ کیسا انصاف ہے؟‘‘ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’دلاور کا قتل میرے حکم پر ہوا تھا۔ میں قاتل ہوں انسپکٹر مجھے گرفتار کرو ۔‘‘ میں پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر اقرار کررہا ہوں۔ ‘‘ تھانیدار پوری روداد سن کر بولا:
’’چودھری صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی آپ کی بیٹی کی چھت سے گرنے کی اطلاع ہمیں ملی تھی اور آپ برسوں پرانا قصہ سنا رہے ہیں۔‘‘ اسی وقت غفور کے دونوں بیٹے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔
’’بابا جان آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم آپ کو پورے گاوؑں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ چلیں گھر چلیں۔‘‘ چودھری افضل تیزی سے ان کے قریب آیا اور انہیں تھام کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’چھوڑ مجھے۔‘‘ انہوں نے اس کے ہاتھ جھٹکے۔
’’انسپکٹر! تو ایف آئی آر لکھ… پرچہ درج کر …میرا اقبالی بیان لکھ میں قاتل ہوں۔‘‘
’’ارے تھانیدار صاحب بیٹی کی اچانک موت کے صدمے سے بابا کا دماغی توازن…‘‘ انور نے اپنی کنپٹی پر انگلی گھمائی۔ انسپکٹر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا ۔
’’آپ لوگ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی ۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
دونوں بیٹوں نے چودھری غفور کو بازووؑں سے پکڑ کر اٹھایا اور زبردستی کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔ اس طرح کے وہ گھسٹتا ہوا ان کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔
’’میں قاتل ہوں… میں قاتل ہوں۔‘‘ اور تھانیدار بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بیٹی کے صدمے سے بوڑھے باپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔
(ختم شد)