Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Cute محبت کی انوکھی داستان

Joined
Jan 9, 2023
Messages
149
Reaction score
5,722
Points
93
Location
Lahore
Gender
Male
Offline
محبت کی انوکھی داستان
یہ کہانی چمبہ (بھارت) کی خوبصورت پہاڑیوں میں پنپنے والی ایک محبت کی داستان کی کہانی ہے۔ کہانی کے کردار کہانی کے ساتھ ساتھ کہانی میں شامل ہوتے جائیں گے۔ یہ کہانی ہے تو چمبہ کی وادیوں کی لیکن اس کی شروعات پنجاب کے علاقے پٹھان کوٹ میں ہوئی۔ روی شرما ایک 35 سال کا کسان تھا اور اس کی ایک خوشحال زندگی تھی۔ وہ پٹھان کوٹ کے ایک گاؤں کا رہائشی تھا۔ اس کے پاس صرف گاؤں میں اپنا گھر تھا جب کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت محنت مزدوری کرتے ہوئے گزارتا تھا۔ اس کی شادی وملا نام ی ایک لڑکی سے ہوئی تھی جس کی عمر 30 سال تھی۔ دونوں کا ایک بیٹا تھا جس کی عمر چار سال تھی اور یہ چھوٹا سا خاندان اس کام ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔ وملا ایک خوبصورت عورت تھی جس کا رنگ گورا تھا صحت کے لحاظ سے بھی وہ ایک بہترین عورت تھی جس کا جسم نہ تو زیادہ پتلا تھا اور نانی زیادہ موٹا۔ گاؤں دیہات میں خواتین عام طور پر پن گھٹ یا تالاب میں کپڑے دھونے جایا کرتی تھی چنانچہ وہ بھی اپنے اور اپنے بیٹے اور شوہر کے کپڑے وہیں دھوتی تھی۔ اس گاؤں میں ایک زمیندار تھا جس کا نام سیٹھ کرشن لال تھا۔ کرشن لال ایک نیک اور دریا دل انسان تھا لیکن اس کا بیٹا موہن لال بگڑا ہوا امیر زادہ تھا اور ہر وقت شراب اور عورت کی طلب اس کو لگی رہتی تھی اور باپ کی کمائی کو انہی چیزوں میں اڑاتا تھا۔ لیکن ہن موہن جیسا بھی تھا کم از کم اپنے گاؤں کی عورتوں پر بری نظر نہیں ڈالتا تھا۔ کہتے ہیں کہ برا وقت بتا کر نہیں آتا اور ایسا ہی روی کی زندگی میں ہوا کیونکہ ایک دن اس کی بیوی کپڑے دھونے تالاب پر گئی اور اس وقت تالاب سے کچھ دور ایک جگہ موہن لال اور اس کا شہر سے آیا ہوا ایک دوست گردھاری چھپ کر بیٹھے ہوئے عورتوں کو تار رہے تھے۔ اسی وقت ان کی نظر روی کی بیوی وملہ پر پڑی۔ موہن پہلے تو اپنے گاؤں کی خواتین کو تاڑنے کے حق میں نہیں تھا لیکن اپنے دوست کے مجبور کرنے پر وہ اس کام پر راضی ہو گیا لیکن وملا کو دیکھتے ہی اس کے دوست کی نیت بدل گئی اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ موج مستی کریں لیکن موہن اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ مگر کہتے ہیں کہ خوبصورت عورت اور شراب کے پیچھے انسان زیادہ دیر تک خود کو روک نہیں سکتا اور خاص طور پر وہ انسان جو اس طرح کے کاموں میں شامل ہو چنانچہ ایسا ہی کچھ موہن لال کے ساتھ بھی ہوا اور وہ اپنے دوست کے مجبور کرنے پر روی شرما کے گھر کی طرف چل پڑا اور وہ لوگ گھر میں داخل ہو گئے۔ وملا کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ لوگ اس کے ساتھ زبردستی کرنے ائے ہیں چنانچہ اس نے مزاحمت کی اور ساتھ ساتھ اس کے بیٹے نے بھی مزاحمت کی تو انہوں نے سب سے پہلے اس کے بیٹے کو اٹھا کر دیوار میں پھینکا اور بچے کا سر دیوار سے لگتے ہی پھٹ گیا اور وہ وہیں پر دم توڑ گیا۔ اپنے بچے کی موت دیکھ کر وملا دنگ رہ گئی اور اس کی زبان جیسے کنگ سی ہو گئی اور وہ کچھ بھی بولنے کہنے کی حالت میں نہ رہی۔ گردھاری پر اس حد تک جنون طاری ہو چکا تھا کہ بچے کو مارنے کے بعد اس نے وملا کے کپڑے پھاڑ دیے اور اس کو یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ کب اس کے جسم سے اس کے تمام کپڑے الگ ہو گئے اور کس وقت وہ دونوں مل کر اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چومتے چاٹتے کاٹتے اور نوچتے رہے اور یہاں تک کہ اس کی ٹانگیں کھلیں اور ان دونوں کی ہتھیار باری باری اس کی چوت میں داخل ہوتے اور پانی چھوڑتے رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس منظر کو کوئی دیکھ نہیں رہا تھا لیکن کوئی بھی کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھا کیونکہ یہ ایسا وقت تھا جب گاؤں کے عام لوگ گاؤں کے زمیندار کی رعایا تصور کیے جاتے تھے۔ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سب کو روک سکے۔ ان لوگوں نے یہ بربریت اتنی شدت سے کی کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ ان کا اس کا گلا دبانے کی وجہ سے کب کی اس کی موت بھی ہو چکی ہے۔ شراب کے نشے میں دو تو وہ دونوں یہ ساری کاروائی کر کے وہاں سے نکل گئے۔ لوگوں میں اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ کوئی جا کر لاشوں پر کپڑا ہی ڈال دے۔ روی شرما جب واپس لوٹا تو اس کا چمن اجڑ چکا تھا اور اس کی بیوی اور بیٹے کی لاشیں اس کا منہ چڑا رہی تھیں۔ اس کے بعد کچھ گاؤں والوں نے اس کو تسلی دینے کی کوشش کی اور ان دونوں لاشوں کے کفن اور چتا کا انتظام کیا اور اس کو جلانے میں اس کی مدد کی۔ لوگوں کی کھسر پھسر اور باتوں سے اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ سب کچھ کیا کس نے ہے۔ چنانچہ اس نے انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا۔ شراب کا نشہ اترتے ہی موہن لال اور گردھاری کو بھی احساس ہو چکا تھا کہ وہ دو لوگوں کی جان لے چکے ہیں لیکن جب روی شرما سے پولیس نے اس حوالے سے بیان لینا چاہا تو اس نے نامعلوم افراد کا نام لے کر معاملہ ختم کر دیا۔ وہ دونوں یہ سوچ کر مطمئن ہو چکے تھے کہ یا تو وہ جانتا نہیں کہ یہ سب کچھ انہوں نے کیا ہے یا اگر وہ جانتا بھی ہے تو اس حد تک ڈر چکا ہے کہ وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کرے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دل میں کیا سوچ چکا ہے۔ چنانچہ اگلی دوپہر جب وہ دونوں حویلی کے صحن میں بیٹھے ہوئے شراب کے مزے لوٹ رہے تھے اس وقت وہ اپنے کندھے پر کلہاڑا رکھے حویلی میں داخل ہوا۔ ایک دو ملازموں نے اس کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے ان ملازموں کو زخمی کر دیا ہے لیکن کسی کو شدید نقصان نہیں پہنچایا۔ روی شرما کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ دونوں بری طرح سے چونک اٹھے لیکن اس نے ان دونوں کو بھاگنے کا موقع نہیں دیا اور ایک رسی سے ان دونوں کو باندھ لیا اور گھسیٹتا ہوا گاؤں کے چوک میں لے آیا۔ اس نے ان دونوں کو چوک میں ہی ذبح کر دیا اور ان دونوں کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے وہیں پھینک گیا اور پھر سب گاؤں والوں کے سامنے اپنے گھر میں جا کر اپنے کپڑے بدلے اور خون کے دھبے صاف کر کے وہاں سے نکل گیا اور کسی نے بھی اس کا پیچھا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اتفاق سے اس وقت زمیندار اور اس کے بیشتر ملازم گاؤں میں نہیں تھے چنانچہ زمیندار کے وفاداروں نے بھی اس کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ سکون سے اسٹیشن تک گیا اور پہلی ٹرین میں چڑھ گیا۔ یہ ٹرین اس کو چمبہ تک لے گئی۔ وہاں یہ ٹرین رک گئی اور وہ اس سے اتر گیا۔ اچانک ایک طرف سے اواز آئی " پکڑ لو اس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگنے نہ پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" لوگوں کا رخ اور پولیس کے سپاہیوں پر کی طرف تاجنا جو اس کو یہی غلط فہمی ہوئی کہ وہ لوگ اس کو پکڑنے والے ہیں چنانچہ وہ بھی بھاگ اٹھا لیکن وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکا کہ اس کے علاوہ ایک اور شخص بھاگ رہا ہے اور لوگ اس کے پیچھے ہیں۔ وہ بھاگتا ہوا ایک گاؤں میں داخل ہوا اور ایک گھر میں گھس گیا۔ گھر میں داخل ہونے سے کھٹکا ہوا اور ایک عورت باہر نکلی تو اس نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی کی " میرا تو میں نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولیس میرے پیچھے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو جانے دو اور پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس عورت نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے ہاتھ ہٹا لیا اور وہ دونوں وہاں کھڑے تھے جب باہر سے کسی کو پیٹنے کی اور لوگوں کے شور کرنے کی اواز آئی۔ اور اپنے اس کی طرف اپنا چہرہ موڑ کر کہا " اگر تم مجھ پر بھروسہ کرو تو مجھے باہر جا کر صورتحال دیکھنے دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر مت کرو میں تمہیں پکڑواؤں گی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا کہ اب بچنے کے لیے اس کے پاس بچا ہی کیا ہے۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا تو اور ایک باہر گئی اور کچھ دیر بعد واپس آئی اور بولی " تمہیں واقعی لگتا ہے کہ وہ لوگ تمہیں پکڑنے آئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے چونک کر کہا " کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بولی " وہ لوگ تمہیں نہیں بلکہ ایک چور کو پکڑنے آئے تھے اور پکڑ کر چلے بھی گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ کچھ دیر تک یہ بات سن کر حیران رہ اور پھر بولا " مجھے لگا وہ لوگ میرے پیچھے ہیں اس لیے میں یہاں داخل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ وہاں سے جانے لگا تو اس عورت نے روکتے ہوئے کہا " پولیس کو دیکھ کر تم بھاگے ہو اس کا مطلب ہے کہ تم نے کچھ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے پولس تمہارے پیچھے لگ سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس نے اس کی طرف دیکھا اور کہا " ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیوی اور اپنے بچے کے قاتلوں کو سب کے سامنے کلہاڑی سے قتل کیا ہے میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس نے کہا " تو تم وہاں سے اس لیے بھاگ کر آئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس نے کہا " ہاں میرا تعلق پٹھان کوٹ کے پاس ایک گاؤں سے ہے اور میں نے اس گاؤں کے زمیندار کے بیٹے اور اس کے دوست کو تمام لوگوں کے سامنے قتل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نے اتنی بے رحمی سے میری بیوی اور میرے بچے کو مارا اور گاؤں والوں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر جنون سوار ہو گیا تھا اور بس میں نے وہ کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سب کا کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ عورت کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر بولی " میں نہیں جانتی کہ میں یہ سب کیوں کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم آدھی رات کے وقت میں یوں چوروں کی طرح میرے گھر میں گھسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اس وقت محسوس کیا کہ تم ایک اچھے انسان ہو جب تم نے کہا کہ تم مجھے نقصان نہیں پہنچاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں نے کہا کہ میں باہر جا کر صورتحال دیکھ کر آتی ہوں تو تم نے مجھ پر بھروسہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی لیکن اگر چاہو تو کچھ عرصہ یہاں چھپ جاؤ تاکہ یہ معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد جہاں جانا چاہو چلے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " روی کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر بولا " آپ کو کشٹ (پریشانی) ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ مسکراتی ہوئی آواز میں بولی " نہیں ایسا ویسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس ٹرین سے تم اترے ہو یہ ٹرین چار پانچ دن بعد یہاں سے گزرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ٹرین میں بیٹھ کر اندرونی بھارت کی طرف نکل جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہارا نام اور تمہاری تصویر نہیں پھیلی تو پھر تم اپنی زندگی کہیں اور دوبارہ شروع کر سکتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر اس نے محسوس کیا کہ اس عورت کی بات ماننے میں ہی بھلائی ہے چنانچہ اس نے ہاں میں سر جاتے ہوئے کہا " ٹھیک ہے اگر تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا ہے تو تمہارا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہاں کچھ دن چھپ کر ٹرین کے واپس لوٹنے کا انتظار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس عورت نے اس کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا تو وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان علاقوں میں بجلی نام کی کسی چیز کے بارے میں کوئی جانتا ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی پہاڑی علاقہ تھا اور یہاں اس وقت تک بجلی کے کھمبے نہیں پہنچے تھے۔ روی اس عورت کے پیچھے اندر داخل ہوا تو اندر ایک چھوٹا سا چراغ روشن تھا اور اس کی تھوڑی سی روشنی میں اس نے دیکھا کہ اس عورت نے ساڑھی پہن رکھی ہے اور اس کی مانگ میں سے سندور بھی تھا اس کا مطلب واضح تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ وہ یقینی طور پر 30 سال سے اوپر کی ایک عورت تھی اور اس تھوڑی سی روشنی میں اسے یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ عورت ٹھیک ٹھاک خوبصورت ہے جیسے پہاڑی علاقے کی خواتین ہوتی ہیں۔ اس نے بیڈ کی طرف دیکھا تو وہاں ایک بچہ سو رہا تھا جس کو دیکھ کر اس کو یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ بچہ اسی عورت کا ہے۔ بچے کی عمر سات آٹھ سال تھی۔ اس عورت نے اس کو اشارہ کیا تو وہ اس کی طرف دیکھنے لگا اور کونے میں ایک چھوٹی سی سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ وہ اس عورت کے ساتھ اس سیڑھی کے ذریعے لکڑی کے بنے ہوئے گھر کے اوپر والی منزل پر آیا تو یہاں سٹور روم جیسا احساس ہوا لیکن وہ جگہ بالکل صاف تھی اور اس عورت نے وہاں ایک بستر لگا کر اس کو دیتے ہوئے کہا " اس جگہ میں اپنی چیزیں سنبھالتی ہوں اور ساتھ میں ہی مہمانوں کے لیے اس جگہ کو استعمال کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا تو تم بھی سمجھ گئے ہو گے کہ میں ایک عام سی غریب عورت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے فی الحال یہی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یہاں بیٹھو اور میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینی طور پر تم نے کچھ بھی نہیں کھایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر میں وہ غسل خانہ تو نہیں ہے لیکن صحن کے کونے میں ایک جگہ بنی ہوئی ہے جہاں تم پیشاب کر سکتے ہو اور رات میں چوری چھپے کھیت میں جا کر دوسرا کام بھی کر لینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں میں نے نہانے کے لیے چھوٹا سا غسل خانہ بنا رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بیٹھو اور میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ وہاں پر بیٹھ گیا اور کچھ دیر بعد وہ عورت اس کے لیے کھانے کو روٹی اور گرم دودھ لے آئی۔ کھانا کھاتے ہوئے روی نے اس عورت سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے دکھ بھری داستان سناتے ہوئے بتایا کہ اس کا نام سر لا ہے اور اس کی عمر واقعی میں 32 33 سال ہے۔ سرلا ایک غریب گھر کی لڑکی تھی اور اس نے اپنے بہن بھائیوں کو پالنے میں اپنا بچپن اور لڑکپن کا وقت گزار دیا۔ وہ 23 24 سال کی تھی جب اس کے باپ نے ایک امیر انسان سے پیسے لے کر اس کی شادی اس سے کردی۔ وہ شخص عمر میں اس سے دوگنا تھا اور باہر کسی ملک کا رہنے والا تھا۔ اس شخص نے ایک مہینے تک سرلا کے ساتھ پوری عیاشی کی اور پھر جاتے ہوئے اس کو کچھ رقم دیتے ہوئے یہ بات واضح طور پر بتا گیا کہ وہ جس ملک سے آیا ہے وہاں اس نے پہلے سے شادی کر رکھی ہے اور اس کے بچے بھی ہیں۔ سرلا اب اس کی طرف سے آزاد ہے۔ ویسے بھی اس نے اس ایک مہینے میں عیاشی کرنی تھی اور اس لیے اسے ایک کنواری لڑکی کی ضرورت تھی جبکہ اس نے اس گاؤں میں گھومتے ہوئے سرلا کو لیا تھا اور اس کا دل اس پر آگیا تھا اس لیے اس نے اس کے باپ کو پیسے دے کر اس کو ایک مہینے کے لیے خرید لیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ سرلا کا باپ سب کچھ جانتا تھا۔ یہ سن کر اس کو بہت دکھ ہوا کہ اس نے جس باپ اور جن بہن بھائیوں کے لیے اتنا کچھ کیا انہوں نے اس کی ذرا سی پرواہ نہیں کی اور اس کو ایک شخص کیا عیاشی کا سامان سمجھ کر کچھ پیسوں کے لیے بیچ دیا۔ وہ اس حد تک دکھی تھی کہ اپنے اس شوہر کے جانے کے بعد اس نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن تب اس کو احساس ہوا کہ اس کی کوکھ میں ایک اور جان پرورش پا رہی ہے چنانچہ اس نے اس جان کی خاطر اپنے ارادے کو ترک کر کے اپنے بچے کو دنیا میں لانے اور پالنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا علاقہ چھوڑ دیا اور اس کے پاس رقم موجود تھی چنانچہ اس نے اس کام میں پہنچ کر ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا اور یہاں رہ کر محنت مزدوری کرنے لگی۔ گاؤں میں اس نے یہ بات مشہور کر دی کہ اس کا شوہر باہر کے ملک میں کمانے کے لیے گیا ہے۔ بعد میں اس نے یہ بات مشہور کر دی کہ اس کے شوہر نے وہاں کسی اور عورت کو پسند کر لیا ہے اور اس کو یہاں رہنے کے لیے چھوڑ دیا ہے لیکن وہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہے اس لیے وہ اس کا انتظار کرے گی۔ اس وقت تک اس کے بچے کی عمر دو تین سال ہو چکی تھی۔ ایسی عورتوں کو ہمدردی کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتی ہے چنانچہ گاؤں کے تمام لوگ اس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ روی کو یہ سب جان کر دکھ ہوا اور وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ وہ عورت اس کی مدد کیوں کر رہی ہے کیونکہ وہ خود اسی طرح کے ظلم کا شکار ہے۔ اس کے بعد وہ وہیں بستر پر سو گیا جب کہ وہ عورت یعنی سرلا نیچے جا کر اپنے بیٹے کے ساتھ سو گئی۔ رات کے وقت روی کو حاجت محسوس ہوئی تو وہ اٹھ کر نیچے چلا گیا اور اس کے چلنے پھرنے سے وہاں کھٹکا ہوا جس سے وہ بچہ جاگ گیا۔ بچے کا نام چندر تھا۔ بچہ اپنی ماں سے سوال کرنے لگا تو اس کی ماں نے اس کو ٹال کر سلا دیا۔ لیکن وہ دونوں اگلے دن اس بات کو چھپانے میں ناکام رہے جب وہ صبح اس کے لیے کھانا لائی تو بچہ بھی اس کے پیچھے اوپر پہنچ گیا اور وہاں بیٹھے روی کو ناشتہ کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ہو گیا۔ وہ بولا " ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سرلا ابھی کچھ بول نہ سکی تھی اور سوچ ہی رہی تھی جب روی نے اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کہا " چندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم اپنے پتا جی سے نہیں ملو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " یہ سب اتنا اچانک تھا کہ سرلا اس کو ریکھتی رہ گئی۔ چندر یہ سن کر اتنا خوش ہوا کہ وہ بھاگ کر اس سے لپٹ گیا اور پھر کافی دیر تک اس سے لپٹا ہی رہا۔ روی نے اس کو پچکارتے ہوئے یہ بات کسی کو بھی باہر بتانے سے منع کر دیا کہ اس کا باپ واپس آ چکا ہے کیونکہ اس نے بچے کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ اس کے باپ کے کچھ دشمن ہیں اور وہ ان کی وجہ سے چھپ رہا ہے۔ اندر بچہ تھا لیکن وہ یہ بات سمجھتا تھا کہ دشمنی کیا ہوتی ہے کیونکہ اس نے گاؤں کے ماحول میں کچھ دشمنیاں دیکھی تھیں۔ اس کے جانے کے بعد سرلا نے کہا " تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چند دن بعد تم یہاں سے چلے جاؤ گے تب یہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں کیا جواب دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " روی نے کہا " اس وقت کی اس وقت دیکھی جائے گی لیکن ابھی تم اس کی خوشی خراب مت کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " مجبور ہو کر اس کو یہ بات ماننی پڑی اور چندر سارا دن روی کے ساتھ کھیلتا رہا یہاں تک کہ رات کو سو بھی اس کے ساتھ گیا۔ سرلا جب چندر کو اٹھانے کے لیے اوپر آئی تو تھوڑی سی روشنی تھی اور اس میں اس کا پیر ہلکا سا پھسل گیا اور وہ روی پر گر گئی۔ روی نے سرگوشی میں کہا " کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچہ سو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس نے کہا " اسی لیے تو اس کو اٹھا کر یہاں سے لے جانے آئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس کو غلط عادت مت ڈالو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تم نے اس کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ تم اس کے باپ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارا دن وہ تمہارے ساتھ رہا اور اب تم نے اس کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ تم اس کو چھوڑ کر نہیں جاؤ گے اس لیے وہ تمہارے ساتھ سو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد یہ مجھے بہت تنگ کرے گا اس لیے ایسا مت کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ابھی تک اس کے اوپر گری ہوئی تھی اور اس کا جسم اس کے جسم سے چھو رہا تھا۔ اتنے دن پریشان رہنے کے بعد ایک عورت کے لمس نے روی کے اندر کے مرد کو جگا دیا اور اچانک اس نے اپنا ہاتھ اس کی کمر کے گرد کرتے ہوئے کہا " اگر تم کہو تو اس کا باپ اس کو چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " یہ سب اتنا اچانک تھا کہ وہ حیران پریشان ہو گئی۔ اس نے ساڑھی پہن رکھی تھی تو اس کی کمر ننگی تھی اور اتنے سالوں بعد ایک مردانہ ہاتھ کے اس پر پڑنے پر وہ بری طرح سے چونک گئی اور حیران پریشان ہو گئی۔ وہ کچھ کہہ نہ پائی کیونکہ کنگ سی تھی۔ روی نے اچانک اس کو اپنے نیچے لٹایا اور اس کو چومنے لگا تو وہ مزید جزبز ہوگئی۔ چومتے چومتے اس نے کپڑوں کے اوپر سے ہی چھاتیاں دبانی شروع کر دیں اور روی کے چومنے کی وجہ سے اس کی آہیں منہ میں ہی رہ گئیں۔ روی کا ہتھیار ایک دم سیدھا کھڑا ہو گیا اور اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اب خود کو روکنا نہ ممکن ہے چنانچہ اس نے چومتے چومتے ہی اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر اپنی دھوتی کھول دی اور نیچے سے ننگا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سرلا کی ساڑھی کا پیثی کوٹ اوپر اٹھانا شروع کیا اور جیسے ہی اس نے اس کی چوت پر ہاتھ رکھا تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس نے نیچے سے کچھ نہیں پہنا ہوا چنانچہ یک دم اس نے اس کو چھوڑا اور اس کا پیٹی کوٹ اوپر کر کے اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا۔ سرلا ابھی تک حیران پریشان تھی اور عین اس وقت اس کی چوت پر ایک گرم مردانہ ہتھیار کی ٹوپی لگی تو اس کے منہ سے بھی اختیار آہ نکل گئی۔ اس کی چوت روی کے چھونے سے تھوڑی بہت گیلی ہو چکی تھی اور جب روی نے اپنے ہتھیار پر زور ڈالا تو ہتھیار تھوڑا سا اندر چلا گیا اور اس کے منہ سے ایک دفعہ پھر آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ نکل گئی۔ اس نے اپنی ایک طرف لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ وہ یہ سمجھ چکی تھی کہ اب جو شروع ہو چکا ہے اس کو روکا نہیں جا سکتا نہ ہی روی رکے گا اور نہ ہی اب اس کو روکنے کا کوئی فائدہ ہے چنانچہ اس نے اپنی ساڑھی کا پلو اوپر اٹھایا اور اپنے منہ میں لے لیا اور شاید اس نے ٹھیک وقت پر اپنے منہ کو بند کر لیا کیونکہ عین اسی وقت روی نے ایک زوردار دھکا مارا اور اس کا ہتھیار کافی سارا اندر چلا گیا اور اب اس کو درد ہوا کیونکہ ایک تو اس نے کئی سالوں سے وہاں کچھ لیا نہیں تھا اور دوسرا اس کے شوہر کا ہتھیار بھی کوئی خاص بڑا نہیں تھا چنانچہ اب کی بار اس کے منہ سے گھوں گھوں کی آواز نکلی۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل گئے۔ لیکن نہ تو روی کو اس کے آنسو دکھے اور نہ ہی دیکھنے کے باوجود وہ رکنے والا تھا کیونکہ اس نے اگلے دھکے میں آدھے سے زیادہ ہتھیار اس کے اندر کر دیا۔ اب کی بار اس کا ہتھیار وہاں سے آگے چلا گیا تھا جہاں تک اس کے شوہر کا ہتھیار کبھی گیا تھا کیونکہ روی کا ہتھیار خاصہ بڑا تھا اور اب کی بار وہ درد سے جھٹپٹانے لگی اور اس نے روی کی کمر کو زور سے پکڑ لیا لیکن روی نے اسی دوران اپنے ہتھیار کو تھوڑا سا پیچھے کیا اور پوری شدت سے دھکا لگا کر پورے کا پورا ہتھیار اس کے اندر گھسا دیا اور وہ ایک دفعہ پھر درد سے تڑپنے لگی۔ روی کچھ دیر تک ہلکا ہلکا اندر باہر کرتا رہا اور اسی دوران سرلا کی چوت کی دیواروں اس کے پانی سے ایک دفعہ پھر بھیگ گئیں اور شاید اسی کا روی کو انتظار تھا کیونکہ اس کے بعد اس نے تیز دھکے لگانا شروع کر دیے۔ کمرے میں ہلکی ہلکی تھپ تھپ اور سرلا کے منہ سے نکلنے والی دبی دبی آہیں گونجنے لگیں۔ اب روی کے دھکوں میں شدت بڑھنے لگی اور پھر اپنے جسم کا خون اس کو اپنے ہتھیار کی طرف دوڑتا ہوا محسوس ہوا اور جیسے جیسے خون کی رفتار بڑھتی گئی ویسے ویسے اس کی رفتار بھی بڑھنے لگی اور پھر ایک ایسا لمحہ آیا جب اس کے منہ سے بے اختیار آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ نکلا اور اس کے ہتھیار سے نکلنے والے گرم گرم لاوے نے سرلا کی چوت کو منہ تک بھر دیا۔ روی لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا اس کے اوپر گرتا چلا گیا جبکہ اس کو بھی درد کے ساتھ ساتھ سکون محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد روی نے اپنے ہتھیار کو اس کی چوت سے نکال لیا اور ان دونوں کا ملا جلا پانی باہر نکل کر سرلا کی گانڈ کے سوراخ کو بھگونے لگا۔ روی ساتھ میں لیٹا تو سرلا سے اٹھا نہ گیا اور نہ ہی اس میں اب اٹھنے کی ہمت تھی چنانچہ وہ بھی اس کے ساتھ ہی وہیں سو گئی جبکہ روی کے ایک طرف سرلا اس سے لپٹی ہوئی تھی تو دوسری طرف چندر۔ صبح جب سرلا کی آنکھ کھلی تو اس کو شرم سی آئی کیونکہ وہ اب تک روی کی بانہوں میں سو رہی تھی۔ اس کی ٹانگیں کھلی تھیں اور ان دونوں کا ملا جلا پانی اب اس چوت کے ارد گرد جم چکا تھا۔ سرلا نے روی اور چندر کو وہیں لیٹے رہنے دیا اور اٹھ کر نیچے چلی گئی۔ جس وقت وہ اپنی چوت کو صاف کررہی تھی۔ رات کے واقعات اور روی کے ہتھیار کے لمس کو یاد کر کے شرماتی جا رہی تھی۔ روی جب اٹھا تو اس نے چندر کو اپنے ساتھ سوۓ ہوے پایا۔ وہ مسکرا اٹھا۔ اس نے چندر کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ بھی اٹھ گیا اور اس کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے لپٹ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ نیچے گیا اور حاجت کرنے کے بعد لوٹا تو سرلا کچن میں اس کو برتن دھوتے ہوئے دکھائی دی۔ کچن کیا ایک ہی کمرے میں چھوٹا سا حصہ تھا جس کو باورچی خانے جیسا بنا رکھا تھا۔ روی نے جا کر پیچھے سے سرلا کو تھاما اور اپنے ہاتھ اس کے ننگے پیٹ پر رکھ دیے تو وہ کراہ کر بولی " آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اس نے پیچھے سے اپنے ہونٹ اس کے کندھے پر رکھے تو وہ کراہ کر بولی " مت کیجیے روی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل رات جو کچھ ہمارے بیچ ہو چکا وہ ٹھیک نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل رات ہم نے سماج کے نییم توڑ دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل رات جو رشتہ ہمارے بیچ بنا اس کو سماج ناجائز سمبندھ اور ایسی عورت کو لوگ گالی مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے پہلے ہی غلط کیا کہ چندر کو یہ یقین دلایا کہ اس کے پتا آپ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہم دونوں کے بیچ جو رات ہوا وہ صحیح نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " روی خاموشی سے اس کے پاس کڑائی کی بات سنتا رہا اور پاس پڑی چھری اٹھا کر اپنی انگلی پر کٹ لگایا اور تھوڑا سا خون اس کی مانگ میں سندور والی جگہ لگاتے ہوئے بولا " تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تماہرے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر رشتہ بنا لیا تو تمہیں یوں چھوڑ دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لو اب تم میری دھرم پتنی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ پریشان ہو کر بولی " یہ کیا انرت کردیا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے شادی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ پیچھے ہٹ کر بولا " شادی شدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے تمہارا پتی کوئی جانتا ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں ذرا سی بھی امید ہے کہ وہ واپس لوٹے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمہیں بھی معلوم ہے کہایسا کبھی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ تڑپ کر بولی " روی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ بولا " سرلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہتر ہوگا سچ کو تسلیم کر لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا اب کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنی زندگی سے ہار چکا ہوں اور شاید اپنی زندگی ختم ہی کر دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پہلے چندر اور اب تم میں مجے امید محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی جینے کا مقصد سمجھ آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو چندر کو باپ کی ضرورت ہے اور تمہیں پتی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے پریوار کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنا سامان سمیٹ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم آج رات یہاں سے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج رات ایک اور ٹرین سٹیشن پر رکے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات تک سوچ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں دل سے اپنی پتنی اور چندر کو اپنی اولاد مان چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " یہ بول کر روی وہاں سے چلا گیا۔ سرلا نے خوب سوچا باہر شام تک اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ روی کے ساتھ جاۓ گی جہاں بھی وہ لے جاۓ۔ رات کو وہ لوگ ایک ٹرین میں سوار ہوگئے اور دو روز بعد اتر پردیش کے ایک گاؤں میں ایک زمیندار کے پاس پہنچ گئے۔ روی ان دنوں سامان اٹھانے کا کام کرتا تھا جب یہ زمیندار گھومنے کے لیے ان علاقوں میں آیا تھا۔ اس کا ایک بیٹا پانی میں گر گیا تھا اور روی نے اس کی جان بچائی تھی۔ زمیندار روی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ روی نے تو کام ہی مانگا مگر اس نے اپنی زمین سے پانچ ایکڑ زمین روی کو دے دی اور اس پر بنا ہوا گھر زمین سمیت اس کے نام کردیا۔ اگلی رات چندر ایک کمرے میں سو رہا تھا جبکہ دوسرے کمرے میں چارپائی کی چوں چوں اور سرلا کی گھٹی گھٹی آہیں گونج رہی تھیں۔ اس نے چندر کی وجہ سے پلو منہ میں دبایا ہوا تھا لیکن اب وہ مکمل ننگی تھی روی اس کی چھاتیاں چوستے ہوئے اسے چود رہا تھا۔ محبت کی یہ داستان ایک خوشگوار منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ ایک سال بعد سرلا نے ایک بیٹی اور پھر اگلے سال ایک بیٹے کو جنم دیا لیکن چندر کے لیے روی کی محبت کبھی کم نہ ہوئی۔ سرلا تو کبھی دوسرے بچوں کو زیادہ اہمیت دے بھی دیتی لیکن روی ہمیشہ چندر کو اہمیت دیتا۔ چندر یہ بات کبھی جان ہی نہ پایا کہ روی اس کا اصل باپ نہیں ہے اور یوں روی اور سرلا کی محبت بھری زندگی خوشی سے گزرتی رہی۔
ختم شد
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top