Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
عورتوں کی عمومی عادت کے مصداق، محفل میں گپ شپ جاری تھی۔ دلہن اور دولہا کی خوبصورت جوڑی پر جہاں رشک کیا جا رہا تھا، وہیں زیورات اور لباس پر ملی جلی کیفیات کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔ زمل کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ تھی، اور کیوں نہ ہوتی؟ آخر سال بھر کی منگنی کے دوران، سسرال کی طرف سے جو عزت اور محبت ملی، اس نے زمل کی خوداعتمادی کو چار چاند لگا دیے تھے۔تمام کزنز زمل کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں، اور کیوں نہ کرتیں؟ وہ ایک مختصر مگر شاندار فیملی کے اکلوتے بیٹے کی دلہن بن گئی تھی۔ جاسم، جو دو بہنوں کا لاڈلا اور سب کا چہیتا تھا، بہنوں سے چھوٹا تھا اور دونوں بہنیں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھیں۔ جاسم کے گھرانے میں کل تین افراد تھے: ساس، سسر، اور جاسم خود۔ جبکہ زمل ایک بڑی جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھتی تھی، جہاں ہر وقت گھر میں ایک بارات کا سماں رہتا تھا۔زمل کے والد کے چھ بھائیوں کی بڑی فیملی تھی، اور ہر وقت کسی نہ کسی کا مہمان آنا جانا لگا رہتا تھا۔ زمل کی چار بڑی بہنیں بھی اکثر اپنے بچوں سمیت بھائیوں کے گھر مقیم رہتی تھیں۔ ایسے ماحول میں زمل کا گریجویشن مکمل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔رشتے کے لیے جاسم کو دیکھ کر زمل نے زیادہ وجاہت کی امید تو نہیں کی تھی، لیکن اس کی شرافت اور سادگی نے سب کو متاثر کیا۔ یہ شادی مکمل طور پر ایک ارینج میرج تھی۔ جاسم اور زمل نے سب کی رضامندی سے ایک دوسرے کو صرف ایک بار دیکھا، تاکہ شرعی تقاضے پورے ہو سکیں۔زمل، اپنے گھرانے کی سب سے بڑی اولاد تھی اور اس کے قریب تمام کزنز اس سے چھوٹے تھے۔ یوں بہت خوبصورت انداز میں اس کی منگنی جاسم کے ساتھ طے پا گئی۔ منگنی کے سال بھر کے دوران عید، شب برات اور دیگر مواقع پر زمل کے سسرال سے قیمتی تحائف آتے رہے، اور ان ہی مواقع پر زمل اور جاسم کی ملاقات بھی ہوتی تھی۔زمل کی والدہ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ شادی سے پہلے فون پر بات چیت یا اکیلے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔ والدہ نے جاسم کو بھی باور کرایا تھا کہ زمل جیسی بہو ڈھونڈنے میں انہوں نے کافی محنت کی ہے، اور وہ کسی قیمت پر اس رشتے کو خراب کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ جاسم نے والدہ کی خواہش کا احترام کیا، لیکن اس دوران جو قربانی جاسم نے دی، اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا تھا۔چاہتے ہوئے بھی جاسم اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا جس سے وہ گزر رہا تھا۔ وہی جانتا تھا کہ اس وقت وہ کن مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک ہی وقت میں وہ وہاں موجود بھی تھا اور غیر موجود بھی۔ جب بھی کوئی مہمان آ کر سلامی کی رسم ادا کرتا، تو اسے زبردستی مسکرانا پڑتا۔ وہ اپنی اضطرابی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن شاید ناکام ہو رہا تھا۔ کچھ جہاندیدہ نظروں نے اس کی پریشانی کو بھانپ لیا تھا، جو چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔تقریب میں بہترین کھانا، خوبصورت سجاوٹ، شاندار بینکوئٹ ہال، اور دلہن والوں کی بے پناہ پذیرائی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ قیمتی تحائف سے گھر بھرا ہوا تھا، اور سلامی میں جاسم کو ایک قیمتی گاڑی بھی دی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اتنا مضطرب کیوں تھا؟
☆☆☆
عروسی کمرے کی تزئین و آرائش بے حد شاندار تھی۔ نئے پردے، قیمتی فرنیچر، اور پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بیڈ سے دروازے تک گلاب کی پتیاں بچھائی گئی تھیں، جن پر قدم رکھتے ہی زمل نے ایک خوبصورت خواب جیسا احساس پایا۔ رسموں کے مختصر سلسلے کے بعد، زمل کی نندوں نے اسے کمرے تک پہنچا دیا۔کمرے میں سفید پھولوں اور گلابوں کی خوشبو زمل کے مہندی اور پرفیوم کی مہک کے ساتھ مل کر ایک سرور انگیز فضا پیدا کر رہی تھی۔ زمل نے اپنے بھاری لہنگے کو بیڈ پر پھیلایا اور جہیز کے ساتھ آئی ہوئی خوبصورت سنہری تکیے سے سر ٹکا لیا۔ اس کے دل میں خوشی اور جوش کے ملے جلے جذبات تھے۔ وہ اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی، جب وہ جاسم کے ساتھ وہ سب باتیں کرے گی، جو اس نے منگنی کے عرصے میں اپنے دل میں جمع کر رکھی تھیں۔جاسم کے آنے کی آہٹ سن کر زمل سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ جاسم کو معلوم تھا کہ اندر اس کی خوابوں جیسی دلہن اس کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا، لیکن زمل کے معصوم حسن نے اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا۔ وہ بے اختیار بیڈ کے پاس بیٹھ گیا اور دھیرے سے زمل کا ہاتھ تھام لیا۔اچانک، جیسے کوئی خیال اس کے ذہن میں آیا،اس نے اپنی شیروانی کی جیب سے ایک دل کی شکل کی مخملی ڈبیا نکالی۔ ڈبیا کھول کر اس میں موجود خوبصورت انگوٹھی نکالنے لگا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ زمل کے حسن کے سحر سے جیسے باہر نکل آیا۔ انگوٹھی پہنانے کے بجائے، اس نے انگوٹھی زمل کے قدموں کے قریب گرا دی اور بغیر کچھ کہے الٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گیا۔ زمل حیران و پریشان کبھی انگوٹھی کو دیکھتی، تو کبھی کھلے دروازے کی طرف، جہاں سے ابھی جاسم عجیب انداز میں نکل کر گیا تھا۔ پہلی رات کی یہ فسوں خیز گھڑیاں دھیرے دھیرے بیت گئیں۔ زمل، جو اس غیر متوقع رویے سے ششدر تھی، آہستہ آہستہ رونے لگی۔ روتے روتے اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب رات ختم ہوئی اور کب صبح کی روشنی نمودار ہوئی۔زمل کی آنکھ کھلی تو دروازے کی مسلسل دستک نے اسے چند لمحوں کے لیے گہری سوچ میں ڈالا۔ وہ کچھ دیر کے لیے بھول گئی تھی کہ وہ کہاں ہے اور رات کو کیا ہوا تھا، لیکن اگلے ہی لمحے اس کی نظر بینڈ پر اور دائیں جانب جاسم پر پڑی۔ اس نے دھیرے سے جاسم کا کندھا ہلایا، جو گہری نیند میں نہیں تھا اور فوراً جاگ گیا۔اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں مسلسل دستک ہو رہی تھی۔ آپ دروازہ کھول دیں، میں واش روم جا رہی ہوں۔رات کو جو بھی ہوا تھا، اس کے پیچھے جو بھی راز چھپے تھے، بہرحال وہ اپنا تماشہ نہیں بنوانا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے لہنگے کو سنبھالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کی رات والی حالت میں دلہن کے روپ میں دیکھے۔ جاسم، جو نہ جانے کب واپس آ کر سو گیا تھا، شاید صبح تک سونے کی کوشش کر رہا تھا۔زمل سوچتی ہوئی واش روم پہنچی اور وہاں جا کر اپنی آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔ رونے اور جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، اور وہ کوشش کر رہی تھی کہ ان کا بوجھ کم ہو سکے۔
☆☆☆
شام کو دلیمہ کی تقریب مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان عالی شان ہوٹل میں منعقد تھی اور سب اس شادی کی یادگار تقریبات کی تعریف کر رہے تھے۔ ذیل کے سارے خاندان کے چہروں پر فخریہ مسکراہٹ تھی اور زمل کے والدین تو پھولے نہیں سما رہے تھے۔ کل کی نسبت آج جاسم نے اپنے آپ پر قابو پا لیا تھا، لیکن بے انتہا خوبصورت میک اپ، مہنگے اور خوبصورت لہنگوں، اور بے شمار جیولری کے باوجود وہ پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی کزنز اس سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں، تو وہ زبردستی کی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجا کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، وہ وہی چیزیں پہن رہی تھی جو کل جاسم نے اسے پہنانے کے بجائے اس کے قدموں کی نذر کر دی تھیں۔ اس نے یہ سب اس لیے پہن لیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سب اسے منہ دکھائی کے تحفے کے طور پر لازمی کچھ پوچھیں گے۔سب جاسم کی پسند کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس کی اسٹرمنی بہت ہی نازک تھی اور اس میں جڑے ہوئے ڈائمنڈ کی چمک ہر چیز پر حاوی ہو رہی تھی۔ شاید اس کی چمک میں ہی زمل کے آنسو بھی چھپے ہوئے تھے۔
☆☆☆
ایک اجنبیت کی دیوار ہے سامعہ، جو ہم دونوں کے درمیان ہے اور وہ ہٹ ہی نہیں پا رہی۔ آج اس نے دل کڑا کر کے اپنی قریبی دوست سے فون پر بات کی۔ کیا تم دونوں بھی اسی طرح رو رہے ہو؟ سامعہ ساری تفصیلات سن کر شدید جھٹکے میں آ گئی۔نہیں یار! شادی کے ان دنوں میں تو احمد مجھے اپنی نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔ حتیٰ کہ جہاں بھی میں جاتی، وہ بھی میرے پیچھے ہی رہتے تھے۔ بعض اوقات تو میری ساس کو بھی برا لگتا تھا کہ لڑکا بیوی کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے۔ اور تو اور، مجھے میکے بھی لے جاتے ہیں، اب تک۔ روزانہ گجرے لاتے ہیں، خود اپنے ہاتھوں سے پہنانا اور جب میں تیار ہوتی ہوں تو سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ کر مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی بار تو میں انہیں ناراض ہو جاتی ہوں، انہیں جھنجھلا کر کمرے سے نکالتی ہوں، لیکن وہ پھر بہانے سے واپس آ جاتے ہیں۔ اب دو سال بعد اتنی دیوانگی تو نہیں ہے، مگر ابھی بھی جب گھر آتے ہیں تو مجھے ڈھونڈتے ہیں اور جب تک بانہوں کا حصار نہ ڈالیں، فریش بھی نہیں ہوتے۔ سامعہ آگے کچھ اور کہتی، مگر شرم کے مارے رک گئی۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تو ہے جو غلط ہے؟جاسم کا رویہ بس ایسا ہے جیسے ہم روم میٹ ہوں، بس حقوقِ زوجیت کا رشتہ ہے ہم دونوں کے درمیان۔ باقی دو ماہ سے ہم اجنبی ہیں، اتنے ہی جتنے منگنی کے وقت تھے۔ مجھے نہیں پتا جاسم کو کیا ہوا؟ اس نے سرد آہ بھری، اوردوسری طرف سامعہ کو بھی تشویش ہونے لگی۔کیا تمہیں کوئی نفسیاتی گرہ محسوس ہو رہی ہے؟ہرگز نہیں! اگر ایسا ہوتا تو منگنی کے وقت جاسم کی طرف سے کارڈ، چاکلیٹس، آنکھوں میں اشتیاق کا جہان آباد رہتا تھا۔ تو پھر تم سوچو، منگنی سے شادی تک کے عرصے میں کچھ تو ایسا ہوا ہے جس نے جاسم کو بدل دیا۔ تم اکیلے میں سوچو، کہاں پہ غلط ہوا؟ یا پھر خدا نا خواستہ، کوئی اور لڑکی؟ سامعہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔زمل نے فون بند کر دیا اور سوچنے لگی کہ کیا ہوا ہوگا جس نے جاسم کو بدل ڈالا؟
☆☆☆
سنیے – جاسم نے زمل کی جانب غور سے دیکھا۔ اگر وہ اپنے خول میں بند تھا تو زمل نے بھی اسے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پھر کیا تھا جو وہ آج اسے اتنے استحقاق سے مخاطب کر رہی تھی؟ اس نے استفہامیہ انداز میں اسے دیکھا، گویا پوچھ رہا ہو، کیا کہتا ہے؟آنکھوں سے کہنے کے بجائے آپ مجھے منہ سے بھی پوچھ سکتے تھے، لیکن آپ ایسا رویہ کیوں رکھتے ہیں مجھ سے؟ زمل روہانسی ہو گئی، اس کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔بولو، کیا کہنا ہے؟ تمہیں مجھ سے کچھ نہیں کہنا؟ میرے خیال میں میں نے تمہاری ساری ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی، پھر بھی اگر تمہیں مجھ سے کوئی گلہ ہے یا کچھ محسوس ہوتا ہے تو وہ بھی بتا دو۔ اس کے لہجے میں صدیوں کی تھکن تھی، جیسے کسی مسافر کو منزل کے درمیان راستہ بھول جائے۔ اسے پہلی بار لگا کہ جاسم پریشان ہے، لیکن آخر کس بات سے؟ جاسم، ہم کہیں ہنی مون کے لیے نہیں گئے ہیں، سب مجھ سے پوچھ رہے تھے، تم لوگگھومنے کے لیے نہیں گئے، تمہاری اماں نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے تو تم سے کہا تھا جانے کے لیے لیکن تم نے منع کر دیا کہ ضروری نہیں ہے۔ ہاں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ضروری ہے، اور اگلے ہفتے سے میں اتوار کو بھی گھر میں نہیں رہوں گا، نہ ہی عام دنوں کی طرح شام کو جلد گھر آؤں گا۔ جاسم نے سرد لہجے میں اسے اطلاع دی۔ لیکن کیوں؟ کہاں جاؤ گے آپ؟ کچھ مسئلے مردوں کو خود حل کرنے ہوتے ہیں، اس کے لیے ضروری نہیں کہ عورتوں کو بھی پریشان کیا جائے یا لازمی ہو کہ ہر بات انہیں بتائی جائے۔ تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ میں تمہاری کسی ضرورت سے غافل نہیں ہوں۔ بہت جلد شاید تمہیں لے جاؤں گا، ان شاء اللہ۔اب سو جاؤ۔ یہ کہتے ہوئے جاسم نے لیمپ کی لائٹ بند کر دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔اس کے رویے پر زمل دیر تک سوچتی رہی، لیکن اس بے دردی کی بے خبری پر اسے جی بھر کے غصہ آیا، مگر خاموشی سے آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ شادی کے نو ماہ بعد بھی وہ دونوں دوست نہ بن سکے تھے، نہ ہی وہ جان پائی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے جو جاسم آج بھی سرد مہر ہے۔ ان ہی دنوں بڑے چاچی کی عبیرہ کی شادی کا غلغلہ اٹھا۔ اس کی مایوں کی تقریب بھی تھی، جاسم نے تو آنے سے معذرت کر لی تھی لیکن اسے اچھی خاصی رقم دے دی تھی تقریب کی شاپنگ اور لین دین کے لیے۔ وہ جانتی تھی جاسم کی مصروفیات کہ وہ رات کو گیارہ بارہ بجے سے پہلے گھر نہیں آ پاتا تھا اور چھٹی کے دن بھی اسے شام کو جانا ہوتا تھا۔ سسرال میں سب اچھے تھے، نندیں بہت کم میکے آتی تھیں اور ساس سسر بہت محبت کرنے والے تھے۔ بس جاسم میں والہانہ پن نہیں رہا تھا۔ اس نے بھی کڑھنا تو نہیں چھوڑا، بس سمجھوتا کر لیا تھا۔ جاسم میں والہانہ پن نہیں تھا۔ اس نے بھی روم میں داخل ہو کر ویسی ہی رونق محسوس کی، جیسی اس کی منگنی پر ہر طرف تھی۔ لڑکے کی تصویر وہ دیکھ چکی تھی، وہ بہت ہینڈسم تھا اور اس کی زندگی کو پر سکون دیکھ کر وہ عبیرہ کے لیے بھی ویسا ہی گھرانہ دیکھنا چاہتی تھی۔ لڑکا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، نہ کوئی بہن تھی، نہ بھائی۔ وہ سب گھر کو سجا کر اب تک مکمل طور پر تیار تھے۔لڑکے کے لیے تحائف کا ڈھیر تھا، بالکل ویسے ہی جیسے جاسم کے لیے سب لائے تھے۔ وہ خاموشی سے دیکھ رہی تھی، تو اسے احساس ہوا کہ بڑی فیملی بھی ایک نعمت ہے۔ بے شک چھوٹی فیملی میں سکون زیادہ اور مسائل کم ہوتے ہیں، لیکن کیا اس کی نندوں کی شادی میں بھی اسی طرح رونق ہوئی ہو گی جتنی کہ اس کے میکے میں لڑکی کی شادی میں ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں، وہ تو شادیوں کی سادگی بھی دیکھ چکی تھی۔ بہت ہی سادگی اور خاموشی سے شادیاں کی جاتی تھیں، مختصر مہمانوں کے ساتھ گھر میں ہی مایوں اور بارات بھی آ جاتی تھی۔لڑکے والوں کے آنے کا شور اٹھا، تو وہ بھی نوٹوں والا ہار اور گلاب کی پتیوں والی پلیٹ اٹھا کر سامنے سے آتے تین لوگوں کو دیکھ کر، آج پہلی بار اسے بہت عجیب لگا۔ لیکن سر جھٹک کر آگے بڑھ کر استقبال میں مشغول ہو گئی۔
☆☆☆
تقریب بہت جلد اختتام پذیر ہو گئی تھی۔ چچی کا موڈ سخت آف لگ رہا تھا، وہ ایک ایک کا منہ دیکھ رہی تھیں۔ بڑی چچی بضد تھیں کہ منگنی توڑ دی جائے، لیکن بڑے چچا اور زمل کے ابو کو یہ غیر مناسب لگ رہا تھا۔ منگنی کی حیثیت ہی کیا ہے، شرعی طور پر تو کچھ بھی نہیں ہے، بھائی صاحب، بڑی چچی نے ابو کو ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔بھائی، بات منگنی کی شرعی حیثیت کی نہیں، زبان کی ہے۔یہ سب تو منگنی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔منگنی پر ایک ٹوکر مٹھائی کا، ایک جوڑا، اور ایک سونے کی چمکدار انگوٹھی لا کر وہ لوگ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ہم نے تو یہ بھی آپ کے لیے کیا ہے، ورنہ ہم تو رسم و رواج کے قاتل ہی ہیں۔ اب یہ بھی کوئی بات تھی جو بڑی بی نے کر ڈالی، چچی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے مبشرہ، دیکھیں تو ہمارے تو گفٹ ہی ہزاروں کے تھے۔ بچے بچے نے بھی دیے، کھانا الگ، اپنا سارا بنوایا، اوپر سے لڑکے کے لیے ہیرے کی انگوٹھی، چار جوڑے، وہ بھی برانڈڈ! کچھ اندازہ ہے صرف گفٹ پر ہی کتنا کچھ کیا ہم نے، اور ان لوگوں نے تو منگنی کو ڈ ھنگنی بنا دیا۔مزمل کی امی نے بھی چچی کی حمایت میں تابڑ توڑ حملے کیے۔جمیلہ خانم، یہ سب آپ نے اپنی مرضی سے کیا۔ آپ کو ان لوگوں نے یہ سب کرنے کو نہیں کہا تھا۔نہ جی! میں نے تو پھر آگے کی باتیں بھی کر لی ہیں کہ ابھی سب بات صاف ہو جائے۔ ہم بیٹی کو اتنا زیادہ جہیز دیں گے تو ان کو بھی پچاس تولے سونا ڈالنا ہو گا۔ زمل کے لہنگے لاکھوں کے تھے، تو عبیرہ کے سسرالیوں کو تو اس سے بڑھ کر کرنا ہو گا۔ بڑے ہوٹل میں ولیمہ ہو گا ہم بھی تو بارات برداشت کریں گےنا بڑے ہوٹل میں ۔ انہوں نے تو سرے سے انکار کر دیا۔ بڑے میاں بولے ہم شادی بہت سادگی سے کریں گے۔ جتنی ہماری توفیق ہو گی اتنا ہی خرچا کریں گے، یہ بھی کوئی بات ہے۔ مجھے نہیں کرنی ان لوگوں میں عبیرہ کی شادی سب سن لیں ۔ عبیرہ جو زمل کے پاس ساکت بیٹھی تھی اٹھ کر آنسو روکتی اندر کو بھاگی۔دیکھو بیگم! ان کی بات بھی ٹھیک ہے ہم اگر اتنا زیادہ خرچا کرتے ہیں تو اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے تو جہیز سے بھی منع کر دیا تھا اور ہم پر یہ سب اس لیے یہ چیزیں بوجھ نہیں بنتی ہیں کہ ہم سارے بہن بھائی شادی کا خرچ مل کر کرتے ہیں بانٹ لیتے ہیں آپس میں۔ آپ کو یاد تو ہو گا زمل کی دفعہ ہم نے عیدیاں بھی اسی طرح شاندار بھیجی تھیں کیونکہ ہم جو ائنٹ فیملی میں یہ سب مل کر کر لیتے ہیں جبکہ وہ لوگ اپنے اوپر انحصار کر کے جو کر سکتے ہیں کریں گے ۔چچا نے دھیرے سے چچی کو سمجھایا۔ لیکن زمل کے سسرال والے بھی تو مختصر فیملی کے لوگ تھے انہوں نے تو سب کام ہماری مرضی کے مطابق کر دیے تھے۔ چچی نے احتجاج کیا۔آپ بھول رہی ہیں کہ سونے کی بات پہ زمل کے سسر بھی پریشان ہو گئے تھے۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا نہیں ہے۔ وہ تو اس وقت جمیلہ خانم نے ہم سے بالا ہی بالا جاسم کی اماں کو دھمکی دے دی تھی کہ ہم رشتہ توڑ دیں گے تو وہ بے چاری ہر خرچ کے لیے تیار ہوگئی تھیں اور تو اور پارلر کے بھی ساٹھ ہزار دے ڈالے تھے تب ہی تو جاسم اب قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ خود دار ہے میری مدد بھی نہیں لینا چاہتا ہے حالانکہ میں نے خود اسے آفر کی تھی۔ ہمیں اب ہوش سے کام لینا چاہیے، ہمیشہ لڑکی والے ہی مظلومیت کا رونا روتے ہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اکثر لڑکے والوں پہ بھی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور یہ فضول کی رسومات کا بھی اب میں خاتمہ چاہتا ہوں۔ میں اپنی باقی بیٹیوں کی دفعہ بہت سادگی سے نکاح کروں گا بس ۔ ابو جان بولتے جارہے تھے اور زمل کو لگ رہا تھا اس کی آنکھوں پہ پڑے سارے پردے چاک ہوتے جارہے ہیں وہ ایک دم اٹھی ۔اماں میرا سارا زیور آپ کے پاس ہے نادہ مجھے دیں اور ابو پلیز مجھے آپ کی ضرورت ہے میری مدد کر دیں ۔ آج وہ گڑ گڑائی۔
☆☆☆
وہ کب سے فائلوں میں سرکھپا رہا تھا گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے اس کا دھیان روز کی طرح زمل کی طرف چلا گیا۔ وہ روزانہ اس کے لیے دیر رات تک بھو کی رہتی تھی آج شاید تقریب میں کچھ کھا لیا ہوگا، میں کیا کروں کہ اپنے آپ کو نارمل کر سکوں پہلے کی طرح، جیسے میں منگنی کے وقت تھا کتنی پیاری لگی تھی مجھے زمل، راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں اس نے اور اب جب وہ میرے پاس ہے میری بن کر تو میں اس کو وہ محبت کیوں نہیں رہے پا رہا ہوں جو میرے دل میں اس کے لیے ٹھاٹھیں مارتا سمندر آئس برگ کیوں بن گیا میرے احساسات پر برف کیوں جم گئی ہے۔ روز ارادہ کرتا ہوں اسے اپنی پریشانی بتا کر معافی مانگ لوں گا جو ہوا اس میں اس کا کیا قصور؟اماں بھی تو برابر کی قصور وار ہیں ان کو بھی تو ہر حالت میں یہ امیر خاندان کی خوب صورت لڑکی بھا گئی تھی اور ان کے دیے تحائف پہ پھولے نہیں سماتی تھیں۔کتنے قدردان ہوں گے داماد کے جو ہر موقع پر اتنا کچھ کرتے ہیں ۔اس نے درد کرتی کنپٹی پہ ہاتھ رکھا اور کرسی پر جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔اور میں بھی تو زمل کے علاوہ کسی کو تصور میں بھی نہ لا سکتا تھا اگر وہ مجھ سے چھن جاتی تو میں کیا کرتا ؟ اس نے خود سے سوال کیا، ہرگز نہیں میں اس کو نہیں کھو سکتا تھا، نہ اب اسے تکلیف دے سکتا ہوں- بہت جلد یہ لاکھوں کے ہی سہی میں قرض اتار دوں گا پھر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی پھر میں اپنی زمل کے لیے وہی جاسم بنوں گا جس سے اسے محبت کا والہانہ اعتبار چاہیے،میں میں آج ہی اسے سب بتا کر معافی مانگ لوں کا غلطی اس کی نہیں ہے ہماری بھی ہے ہمیں شروع میں ہی اس کے ابو سے بات کر لینی چاہیے تھی۔ اب اپنے اور اس کی امی کے کیے کی سزا اسے کیوں دوں ۔ وہ سوچتے ہوئے جلدی سے فائلیں سمیٹنے لگا۔
☆☆☆
وہ گھر میں داخل ہوا تو خلاف معمول سب ہی جاگ رہے تھے اسے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی سب لاؤنج میں جمع تھے۔ ایک کونے میں زمل کے ابو اور امی بھی موجود تھیں، اس نے سلام کیا تو دونوں بڑھ کر اسے ملے ۔ اس نے کونے میں کھڑی زمل کی طرف دیکھا وہ کامدانی سوٹ میں قیامت لگ رہی تھی۔ ذیل بھی اس کی طرف متوجہ تھی اس کی آنکھوں میں اپنے لیے منگنی کے وقت والے رنگ دیکھ کر زمل کی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرانی نے ڈیرے ڈال لیے۔لاؤنج کی درمیانی میز پر پڑے بریف کیس کو زمل کے ابو نے اس کی طرف بڑھایا۔یہ لو بیٹا سارا نہ کیسہی بہت سا بوجھ ان پیسوں سے تمہارے کندھوں سے ہٹ جائے گا۔ جاسم نے ہاتھ اس طرح پیچھے کیے جسے کرنٹ لگا ہو۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا میں خود سب کرلوں گا میں کسی کا بھی احسان نہیں یہ کسی کا احسان نہیں ہے جاسم ا یہ زیور بیچ کر میں نے پیسے لیے ہیں جو آپ کی کمائی سے تھے آپ نے میرے دن کو خاص بنایا آپ کا شکر آپ کی زندگی کا حصہ ہوں آپ کی پریشانی ، دکھ ، خوشی ہر چیز کا حصہ ہوں میری خوشی اسی میں ہے کہ میں آپ کی پریشانی بننے کے بجائے پریشانی کو دور کردوں ۔ جاسم نے اپنے ابا کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ اس کو سب کی بات مان لینی چاہیے- اس نے بریف کیس کو اٹھا کر زمل کو پکڑا دیا کہ اسے تم سنبھال کر رکھو، کل ہی میں قرض ادا کر دوں گا ۔ سب نے مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا ملزمل کے والدین نے رخصت کی اجازت چاہی۔ رات بہت ہو چکی تھی ان کے رخصت ہونے کے بعد جاسم اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
☆☆☆
شرمیلی مسکان چہرے پہ لیے وہ جاسم کے مد مقابل تھی اس کی نرم کلائیاں جاسم کے مضبوط اور گرم ہاتھوں میں تھیں ۔ ابھی ابھی جاسم نے اپنے لیپ ٹاپ کے بیگ میں چھپائے گجرے اس کی کلائیوں میں پہنائے تھے۔ وہ گھنیری پلکوں کی چلمن اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کرتی تھی اور نا کام ہو کر شرم سے دوبارہ پلکیں گرا لیتی تھی ۔پلیں پلیز جانے دیں بھوک لگی ہے، کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اس کی گرفت میں کسمسائی تھی۔ کیا مطلب تم نے کھانا نہیں کھایا ؟ وہ حیران ہوا۔کیسے کھا لیتی آپ کے بغیر ؟ اس نے معصومیت سے جاسم کو دیکھا ، وہ اس کی ادا پہ فدا ہو گیا اور اس کے گرد بازووں کی گرفت ڈھیلی کی تو وہ فورا بھاگ کر کمرے سے نکلی اور چکن میں جا کر اپنے دھڑکتے دل کی رفتار کو قابو میں کرنے لگی تو پیچھے سے جاسم نے ایک خوبصورت شرارت کر ڈالی۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ روز کی طرح ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھیں میں کھانا لاتی ہوں ۔اس نے شاکی لہجے میں کہا۔ نہ جی ، اب آپ جہاں ہم وہاں ۔ وہ کہہ کر زور سے ہنسا تو زمل نے بھی اپنی ہنسی اس کی بے ساختہ ہنسی میں ملا دی۔ دونوں کی ہنسی میں جہان بھر کے زر و جواہر قربان ہو ر ہے تھے اور پھولوں کے گجروں کی خوشبو سونے کے کھیتوں کو مات دینے چلی تھی۔ زندگی اس طرح مسکراتی ہے۔(ختم شد)
☆☆☆
عروسی کمرے کی تزئین و آرائش بے حد شاندار تھی۔ نئے پردے، قیمتی فرنیچر، اور پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بیڈ سے دروازے تک گلاب کی پتیاں بچھائی گئی تھیں، جن پر قدم رکھتے ہی زمل نے ایک خوبصورت خواب جیسا احساس پایا۔ رسموں کے مختصر سلسلے کے بعد، زمل کی نندوں نے اسے کمرے تک پہنچا دیا۔کمرے میں سفید پھولوں اور گلابوں کی خوشبو زمل کے مہندی اور پرفیوم کی مہک کے ساتھ مل کر ایک سرور انگیز فضا پیدا کر رہی تھی۔ زمل نے اپنے بھاری لہنگے کو بیڈ پر پھیلایا اور جہیز کے ساتھ آئی ہوئی خوبصورت سنہری تکیے سے سر ٹکا لیا۔ اس کے دل میں خوشی اور جوش کے ملے جلے جذبات تھے۔ وہ اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی، جب وہ جاسم کے ساتھ وہ سب باتیں کرے گی، جو اس نے منگنی کے عرصے میں اپنے دل میں جمع کر رکھی تھیں۔جاسم کے آنے کی آہٹ سن کر زمل سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ جاسم کو معلوم تھا کہ اندر اس کی خوابوں جیسی دلہن اس کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا، لیکن زمل کے معصوم حسن نے اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا۔ وہ بے اختیار بیڈ کے پاس بیٹھ گیا اور دھیرے سے زمل کا ہاتھ تھام لیا۔اچانک، جیسے کوئی خیال اس کے ذہن میں آیا،اس نے اپنی شیروانی کی جیب سے ایک دل کی شکل کی مخملی ڈبیا نکالی۔ ڈبیا کھول کر اس میں موجود خوبصورت انگوٹھی نکالنے لگا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ زمل کے حسن کے سحر سے جیسے باہر نکل آیا۔ انگوٹھی پہنانے کے بجائے، اس نے انگوٹھی زمل کے قدموں کے قریب گرا دی اور بغیر کچھ کہے الٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گیا۔ زمل حیران و پریشان کبھی انگوٹھی کو دیکھتی، تو کبھی کھلے دروازے کی طرف، جہاں سے ابھی جاسم عجیب انداز میں نکل کر گیا تھا۔ پہلی رات کی یہ فسوں خیز گھڑیاں دھیرے دھیرے بیت گئیں۔ زمل، جو اس غیر متوقع رویے سے ششدر تھی، آہستہ آہستہ رونے لگی۔ روتے روتے اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب رات ختم ہوئی اور کب صبح کی روشنی نمودار ہوئی۔زمل کی آنکھ کھلی تو دروازے کی مسلسل دستک نے اسے چند لمحوں کے لیے گہری سوچ میں ڈالا۔ وہ کچھ دیر کے لیے بھول گئی تھی کہ وہ کہاں ہے اور رات کو کیا ہوا تھا، لیکن اگلے ہی لمحے اس کی نظر بینڈ پر اور دائیں جانب جاسم پر پڑی۔ اس نے دھیرے سے جاسم کا کندھا ہلایا، جو گہری نیند میں نہیں تھا اور فوراً جاگ گیا۔اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں مسلسل دستک ہو رہی تھی۔ آپ دروازہ کھول دیں، میں واش روم جا رہی ہوں۔رات کو جو بھی ہوا تھا، اس کے پیچھے جو بھی راز چھپے تھے، بہرحال وہ اپنا تماشہ نہیں بنوانا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے لہنگے کو سنبھالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کی رات والی حالت میں دلہن کے روپ میں دیکھے۔ جاسم، جو نہ جانے کب واپس آ کر سو گیا تھا، شاید صبح تک سونے کی کوشش کر رہا تھا۔زمل سوچتی ہوئی واش روم پہنچی اور وہاں جا کر اپنی آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔ رونے اور جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، اور وہ کوشش کر رہی تھی کہ ان کا بوجھ کم ہو سکے۔
☆☆☆
شام کو دلیمہ کی تقریب مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان عالی شان ہوٹل میں منعقد تھی اور سب اس شادی کی یادگار تقریبات کی تعریف کر رہے تھے۔ ذیل کے سارے خاندان کے چہروں پر فخریہ مسکراہٹ تھی اور زمل کے والدین تو پھولے نہیں سما رہے تھے۔ کل کی نسبت آج جاسم نے اپنے آپ پر قابو پا لیا تھا، لیکن بے انتہا خوبصورت میک اپ، مہنگے اور خوبصورت لہنگوں، اور بے شمار جیولری کے باوجود وہ پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی کزنز اس سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں، تو وہ زبردستی کی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجا کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، وہ وہی چیزیں پہن رہی تھی جو کل جاسم نے اسے پہنانے کے بجائے اس کے قدموں کی نذر کر دی تھیں۔ اس نے یہ سب اس لیے پہن لیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سب اسے منہ دکھائی کے تحفے کے طور پر لازمی کچھ پوچھیں گے۔سب جاسم کی پسند کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس کی اسٹرمنی بہت ہی نازک تھی اور اس میں جڑے ہوئے ڈائمنڈ کی چمک ہر چیز پر حاوی ہو رہی تھی۔ شاید اس کی چمک میں ہی زمل کے آنسو بھی چھپے ہوئے تھے۔
☆☆☆
ایک اجنبیت کی دیوار ہے سامعہ، جو ہم دونوں کے درمیان ہے اور وہ ہٹ ہی نہیں پا رہی۔ آج اس نے دل کڑا کر کے اپنی قریبی دوست سے فون پر بات کی۔ کیا تم دونوں بھی اسی طرح رو رہے ہو؟ سامعہ ساری تفصیلات سن کر شدید جھٹکے میں آ گئی۔نہیں یار! شادی کے ان دنوں میں تو احمد مجھے اپنی نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔ حتیٰ کہ جہاں بھی میں جاتی، وہ بھی میرے پیچھے ہی رہتے تھے۔ بعض اوقات تو میری ساس کو بھی برا لگتا تھا کہ لڑکا بیوی کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے۔ اور تو اور، مجھے میکے بھی لے جاتے ہیں، اب تک۔ روزانہ گجرے لاتے ہیں، خود اپنے ہاتھوں سے پہنانا اور جب میں تیار ہوتی ہوں تو سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ کر مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی بار تو میں انہیں ناراض ہو جاتی ہوں، انہیں جھنجھلا کر کمرے سے نکالتی ہوں، لیکن وہ پھر بہانے سے واپس آ جاتے ہیں۔ اب دو سال بعد اتنی دیوانگی تو نہیں ہے، مگر ابھی بھی جب گھر آتے ہیں تو مجھے ڈھونڈتے ہیں اور جب تک بانہوں کا حصار نہ ڈالیں، فریش بھی نہیں ہوتے۔ سامعہ آگے کچھ اور کہتی، مگر شرم کے مارے رک گئی۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تو ہے جو غلط ہے؟جاسم کا رویہ بس ایسا ہے جیسے ہم روم میٹ ہوں، بس حقوقِ زوجیت کا رشتہ ہے ہم دونوں کے درمیان۔ باقی دو ماہ سے ہم اجنبی ہیں، اتنے ہی جتنے منگنی کے وقت تھے۔ مجھے نہیں پتا جاسم کو کیا ہوا؟ اس نے سرد آہ بھری، اوردوسری طرف سامعہ کو بھی تشویش ہونے لگی۔کیا تمہیں کوئی نفسیاتی گرہ محسوس ہو رہی ہے؟ہرگز نہیں! اگر ایسا ہوتا تو منگنی کے وقت جاسم کی طرف سے کارڈ، چاکلیٹس، آنکھوں میں اشتیاق کا جہان آباد رہتا تھا۔ تو پھر تم سوچو، منگنی سے شادی تک کے عرصے میں کچھ تو ایسا ہوا ہے جس نے جاسم کو بدل دیا۔ تم اکیلے میں سوچو، کہاں پہ غلط ہوا؟ یا پھر خدا نا خواستہ، کوئی اور لڑکی؟ سامعہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔زمل نے فون بند کر دیا اور سوچنے لگی کہ کیا ہوا ہوگا جس نے جاسم کو بدل ڈالا؟
☆☆☆
سنیے – جاسم نے زمل کی جانب غور سے دیکھا۔ اگر وہ اپنے خول میں بند تھا تو زمل نے بھی اسے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پھر کیا تھا جو وہ آج اسے اتنے استحقاق سے مخاطب کر رہی تھی؟ اس نے استفہامیہ انداز میں اسے دیکھا، گویا پوچھ رہا ہو، کیا کہتا ہے؟آنکھوں سے کہنے کے بجائے آپ مجھے منہ سے بھی پوچھ سکتے تھے، لیکن آپ ایسا رویہ کیوں رکھتے ہیں مجھ سے؟ زمل روہانسی ہو گئی، اس کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔بولو، کیا کہنا ہے؟ تمہیں مجھ سے کچھ نہیں کہنا؟ میرے خیال میں میں نے تمہاری ساری ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی، پھر بھی اگر تمہیں مجھ سے کوئی گلہ ہے یا کچھ محسوس ہوتا ہے تو وہ بھی بتا دو۔ اس کے لہجے میں صدیوں کی تھکن تھی، جیسے کسی مسافر کو منزل کے درمیان راستہ بھول جائے۔ اسے پہلی بار لگا کہ جاسم پریشان ہے، لیکن آخر کس بات سے؟ جاسم، ہم کہیں ہنی مون کے لیے نہیں گئے ہیں، سب مجھ سے پوچھ رہے تھے، تم لوگگھومنے کے لیے نہیں گئے، تمہاری اماں نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے تو تم سے کہا تھا جانے کے لیے لیکن تم نے منع کر دیا کہ ضروری نہیں ہے۔ ہاں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ضروری ہے، اور اگلے ہفتے سے میں اتوار کو بھی گھر میں نہیں رہوں گا، نہ ہی عام دنوں کی طرح شام کو جلد گھر آؤں گا۔ جاسم نے سرد لہجے میں اسے اطلاع دی۔ لیکن کیوں؟ کہاں جاؤ گے آپ؟ کچھ مسئلے مردوں کو خود حل کرنے ہوتے ہیں، اس کے لیے ضروری نہیں کہ عورتوں کو بھی پریشان کیا جائے یا لازمی ہو کہ ہر بات انہیں بتائی جائے۔ تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ میں تمہاری کسی ضرورت سے غافل نہیں ہوں۔ بہت جلد شاید تمہیں لے جاؤں گا، ان شاء اللہ۔اب سو جاؤ۔ یہ کہتے ہوئے جاسم نے لیمپ کی لائٹ بند کر دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔اس کے رویے پر زمل دیر تک سوچتی رہی، لیکن اس بے دردی کی بے خبری پر اسے جی بھر کے غصہ آیا، مگر خاموشی سے آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ شادی کے نو ماہ بعد بھی وہ دونوں دوست نہ بن سکے تھے، نہ ہی وہ جان پائی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے جو جاسم آج بھی سرد مہر ہے۔ ان ہی دنوں بڑے چاچی کی عبیرہ کی شادی کا غلغلہ اٹھا۔ اس کی مایوں کی تقریب بھی تھی، جاسم نے تو آنے سے معذرت کر لی تھی لیکن اسے اچھی خاصی رقم دے دی تھی تقریب کی شاپنگ اور لین دین کے لیے۔ وہ جانتی تھی جاسم کی مصروفیات کہ وہ رات کو گیارہ بارہ بجے سے پہلے گھر نہیں آ پاتا تھا اور چھٹی کے دن بھی اسے شام کو جانا ہوتا تھا۔ سسرال میں سب اچھے تھے، نندیں بہت کم میکے آتی تھیں اور ساس سسر بہت محبت کرنے والے تھے۔ بس جاسم میں والہانہ پن نہیں رہا تھا۔ اس نے بھی کڑھنا تو نہیں چھوڑا، بس سمجھوتا کر لیا تھا۔ جاسم میں والہانہ پن نہیں تھا۔ اس نے بھی روم میں داخل ہو کر ویسی ہی رونق محسوس کی، جیسی اس کی منگنی پر ہر طرف تھی۔ لڑکے کی تصویر وہ دیکھ چکی تھی، وہ بہت ہینڈسم تھا اور اس کی زندگی کو پر سکون دیکھ کر وہ عبیرہ کے لیے بھی ویسا ہی گھرانہ دیکھنا چاہتی تھی۔ لڑکا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، نہ کوئی بہن تھی، نہ بھائی۔ وہ سب گھر کو سجا کر اب تک مکمل طور پر تیار تھے۔لڑکے کے لیے تحائف کا ڈھیر تھا، بالکل ویسے ہی جیسے جاسم کے لیے سب لائے تھے۔ وہ خاموشی سے دیکھ رہی تھی، تو اسے احساس ہوا کہ بڑی فیملی بھی ایک نعمت ہے۔ بے شک چھوٹی فیملی میں سکون زیادہ اور مسائل کم ہوتے ہیں، لیکن کیا اس کی نندوں کی شادی میں بھی اسی طرح رونق ہوئی ہو گی جتنی کہ اس کے میکے میں لڑکی کی شادی میں ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں، وہ تو شادیوں کی سادگی بھی دیکھ چکی تھی۔ بہت ہی سادگی اور خاموشی سے شادیاں کی جاتی تھیں، مختصر مہمانوں کے ساتھ گھر میں ہی مایوں اور بارات بھی آ جاتی تھی۔لڑکے والوں کے آنے کا شور اٹھا، تو وہ بھی نوٹوں والا ہار اور گلاب کی پتیوں والی پلیٹ اٹھا کر سامنے سے آتے تین لوگوں کو دیکھ کر، آج پہلی بار اسے بہت عجیب لگا۔ لیکن سر جھٹک کر آگے بڑھ کر استقبال میں مشغول ہو گئی۔
☆☆☆
تقریب بہت جلد اختتام پذیر ہو گئی تھی۔ چچی کا موڈ سخت آف لگ رہا تھا، وہ ایک ایک کا منہ دیکھ رہی تھیں۔ بڑی چچی بضد تھیں کہ منگنی توڑ دی جائے، لیکن بڑے چچا اور زمل کے ابو کو یہ غیر مناسب لگ رہا تھا۔ منگنی کی حیثیت ہی کیا ہے، شرعی طور پر تو کچھ بھی نہیں ہے، بھائی صاحب، بڑی چچی نے ابو کو ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔بھائی، بات منگنی کی شرعی حیثیت کی نہیں، زبان کی ہے۔یہ سب تو منگنی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔منگنی پر ایک ٹوکر مٹھائی کا، ایک جوڑا، اور ایک سونے کی چمکدار انگوٹھی لا کر وہ لوگ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ہم نے تو یہ بھی آپ کے لیے کیا ہے، ورنہ ہم تو رسم و رواج کے قاتل ہی ہیں۔ اب یہ بھی کوئی بات تھی جو بڑی بی نے کر ڈالی، چچی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے مبشرہ، دیکھیں تو ہمارے تو گفٹ ہی ہزاروں کے تھے۔ بچے بچے نے بھی دیے، کھانا الگ، اپنا سارا بنوایا، اوپر سے لڑکے کے لیے ہیرے کی انگوٹھی، چار جوڑے، وہ بھی برانڈڈ! کچھ اندازہ ہے صرف گفٹ پر ہی کتنا کچھ کیا ہم نے، اور ان لوگوں نے تو منگنی کو ڈ ھنگنی بنا دیا۔مزمل کی امی نے بھی چچی کی حمایت میں تابڑ توڑ حملے کیے۔جمیلہ خانم، یہ سب آپ نے اپنی مرضی سے کیا۔ آپ کو ان لوگوں نے یہ سب کرنے کو نہیں کہا تھا۔نہ جی! میں نے تو پھر آگے کی باتیں بھی کر لی ہیں کہ ابھی سب بات صاف ہو جائے۔ ہم بیٹی کو اتنا زیادہ جہیز دیں گے تو ان کو بھی پچاس تولے سونا ڈالنا ہو گا۔ زمل کے لہنگے لاکھوں کے تھے، تو عبیرہ کے سسرالیوں کو تو اس سے بڑھ کر کرنا ہو گا۔ بڑے ہوٹل میں ولیمہ ہو گا ہم بھی تو بارات برداشت کریں گےنا بڑے ہوٹل میں ۔ انہوں نے تو سرے سے انکار کر دیا۔ بڑے میاں بولے ہم شادی بہت سادگی سے کریں گے۔ جتنی ہماری توفیق ہو گی اتنا ہی خرچا کریں گے، یہ بھی کوئی بات ہے۔ مجھے نہیں کرنی ان لوگوں میں عبیرہ کی شادی سب سن لیں ۔ عبیرہ جو زمل کے پاس ساکت بیٹھی تھی اٹھ کر آنسو روکتی اندر کو بھاگی۔دیکھو بیگم! ان کی بات بھی ٹھیک ہے ہم اگر اتنا زیادہ خرچا کرتے ہیں تو اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے تو جہیز سے بھی منع کر دیا تھا اور ہم پر یہ سب اس لیے یہ چیزیں بوجھ نہیں بنتی ہیں کہ ہم سارے بہن بھائی شادی کا خرچ مل کر کرتے ہیں بانٹ لیتے ہیں آپس میں۔ آپ کو یاد تو ہو گا زمل کی دفعہ ہم نے عیدیاں بھی اسی طرح شاندار بھیجی تھیں کیونکہ ہم جو ائنٹ فیملی میں یہ سب مل کر کر لیتے ہیں جبکہ وہ لوگ اپنے اوپر انحصار کر کے جو کر سکتے ہیں کریں گے ۔چچا نے دھیرے سے چچی کو سمجھایا۔ لیکن زمل کے سسرال والے بھی تو مختصر فیملی کے لوگ تھے انہوں نے تو سب کام ہماری مرضی کے مطابق کر دیے تھے۔ چچی نے احتجاج کیا۔آپ بھول رہی ہیں کہ سونے کی بات پہ زمل کے سسر بھی پریشان ہو گئے تھے۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا نہیں ہے۔ وہ تو اس وقت جمیلہ خانم نے ہم سے بالا ہی بالا جاسم کی اماں کو دھمکی دے دی تھی کہ ہم رشتہ توڑ دیں گے تو وہ بے چاری ہر خرچ کے لیے تیار ہوگئی تھیں اور تو اور پارلر کے بھی ساٹھ ہزار دے ڈالے تھے تب ہی تو جاسم اب قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ خود دار ہے میری مدد بھی نہیں لینا چاہتا ہے حالانکہ میں نے خود اسے آفر کی تھی۔ ہمیں اب ہوش سے کام لینا چاہیے، ہمیشہ لڑکی والے ہی مظلومیت کا رونا روتے ہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اکثر لڑکے والوں پہ بھی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور یہ فضول کی رسومات کا بھی اب میں خاتمہ چاہتا ہوں۔ میں اپنی باقی بیٹیوں کی دفعہ بہت سادگی سے نکاح کروں گا بس ۔ ابو جان بولتے جارہے تھے اور زمل کو لگ رہا تھا اس کی آنکھوں پہ پڑے سارے پردے چاک ہوتے جارہے ہیں وہ ایک دم اٹھی ۔اماں میرا سارا زیور آپ کے پاس ہے نادہ مجھے دیں اور ابو پلیز مجھے آپ کی ضرورت ہے میری مدد کر دیں ۔ آج وہ گڑ گڑائی۔
☆☆☆
وہ کب سے فائلوں میں سرکھپا رہا تھا گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے اس کا دھیان روز کی طرح زمل کی طرف چلا گیا۔ وہ روزانہ اس کے لیے دیر رات تک بھو کی رہتی تھی آج شاید تقریب میں کچھ کھا لیا ہوگا، میں کیا کروں کہ اپنے آپ کو نارمل کر سکوں پہلے کی طرح، جیسے میں منگنی کے وقت تھا کتنی پیاری لگی تھی مجھے زمل، راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں اس نے اور اب جب وہ میرے پاس ہے میری بن کر تو میں اس کو وہ محبت کیوں نہیں رہے پا رہا ہوں جو میرے دل میں اس کے لیے ٹھاٹھیں مارتا سمندر آئس برگ کیوں بن گیا میرے احساسات پر برف کیوں جم گئی ہے۔ روز ارادہ کرتا ہوں اسے اپنی پریشانی بتا کر معافی مانگ لوں گا جو ہوا اس میں اس کا کیا قصور؟اماں بھی تو برابر کی قصور وار ہیں ان کو بھی تو ہر حالت میں یہ امیر خاندان کی خوب صورت لڑکی بھا گئی تھی اور ان کے دیے تحائف پہ پھولے نہیں سماتی تھیں۔کتنے قدردان ہوں گے داماد کے جو ہر موقع پر اتنا کچھ کرتے ہیں ۔اس نے درد کرتی کنپٹی پہ ہاتھ رکھا اور کرسی پر جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔اور میں بھی تو زمل کے علاوہ کسی کو تصور میں بھی نہ لا سکتا تھا اگر وہ مجھ سے چھن جاتی تو میں کیا کرتا ؟ اس نے خود سے سوال کیا، ہرگز نہیں میں اس کو نہیں کھو سکتا تھا، نہ اب اسے تکلیف دے سکتا ہوں- بہت جلد یہ لاکھوں کے ہی سہی میں قرض اتار دوں گا پھر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی پھر میں اپنی زمل کے لیے وہی جاسم بنوں گا جس سے اسے محبت کا والہانہ اعتبار چاہیے،میں میں آج ہی اسے سب بتا کر معافی مانگ لوں کا غلطی اس کی نہیں ہے ہماری بھی ہے ہمیں شروع میں ہی اس کے ابو سے بات کر لینی چاہیے تھی۔ اب اپنے اور اس کی امی کے کیے کی سزا اسے کیوں دوں ۔ وہ سوچتے ہوئے جلدی سے فائلیں سمیٹنے لگا۔
☆☆☆
وہ گھر میں داخل ہوا تو خلاف معمول سب ہی جاگ رہے تھے اسے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی سب لاؤنج میں جمع تھے۔ ایک کونے میں زمل کے ابو اور امی بھی موجود تھیں، اس نے سلام کیا تو دونوں بڑھ کر اسے ملے ۔ اس نے کونے میں کھڑی زمل کی طرف دیکھا وہ کامدانی سوٹ میں قیامت لگ رہی تھی۔ ذیل بھی اس کی طرف متوجہ تھی اس کی آنکھوں میں اپنے لیے منگنی کے وقت والے رنگ دیکھ کر زمل کی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرانی نے ڈیرے ڈال لیے۔لاؤنج کی درمیانی میز پر پڑے بریف کیس کو زمل کے ابو نے اس کی طرف بڑھایا۔یہ لو بیٹا سارا نہ کیسہی بہت سا بوجھ ان پیسوں سے تمہارے کندھوں سے ہٹ جائے گا۔ جاسم نے ہاتھ اس طرح پیچھے کیے جسے کرنٹ لگا ہو۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا میں خود سب کرلوں گا میں کسی کا بھی احسان نہیں یہ کسی کا احسان نہیں ہے جاسم ا یہ زیور بیچ کر میں نے پیسے لیے ہیں جو آپ کی کمائی سے تھے آپ نے میرے دن کو خاص بنایا آپ کا شکر آپ کی زندگی کا حصہ ہوں آپ کی پریشانی ، دکھ ، خوشی ہر چیز کا حصہ ہوں میری خوشی اسی میں ہے کہ میں آپ کی پریشانی بننے کے بجائے پریشانی کو دور کردوں ۔ جاسم نے اپنے ابا کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ اس کو سب کی بات مان لینی چاہیے- اس نے بریف کیس کو اٹھا کر زمل کو پکڑا دیا کہ اسے تم سنبھال کر رکھو، کل ہی میں قرض ادا کر دوں گا ۔ سب نے مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا ملزمل کے والدین نے رخصت کی اجازت چاہی۔ رات بہت ہو چکی تھی ان کے رخصت ہونے کے بعد جاسم اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
☆☆☆
شرمیلی مسکان چہرے پہ لیے وہ جاسم کے مد مقابل تھی اس کی نرم کلائیاں جاسم کے مضبوط اور گرم ہاتھوں میں تھیں ۔ ابھی ابھی جاسم نے اپنے لیپ ٹاپ کے بیگ میں چھپائے گجرے اس کی کلائیوں میں پہنائے تھے۔ وہ گھنیری پلکوں کی چلمن اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کرتی تھی اور نا کام ہو کر شرم سے دوبارہ پلکیں گرا لیتی تھی ۔پلیں پلیز جانے دیں بھوک لگی ہے، کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اس کی گرفت میں کسمسائی تھی۔ کیا مطلب تم نے کھانا نہیں کھایا ؟ وہ حیران ہوا۔کیسے کھا لیتی آپ کے بغیر ؟ اس نے معصومیت سے جاسم کو دیکھا ، وہ اس کی ادا پہ فدا ہو گیا اور اس کے گرد بازووں کی گرفت ڈھیلی کی تو وہ فورا بھاگ کر کمرے سے نکلی اور چکن میں جا کر اپنے دھڑکتے دل کی رفتار کو قابو میں کرنے لگی تو پیچھے سے جاسم نے ایک خوبصورت شرارت کر ڈالی۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ روز کی طرح ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھیں میں کھانا لاتی ہوں ۔اس نے شاکی لہجے میں کہا۔ نہ جی ، اب آپ جہاں ہم وہاں ۔ وہ کہہ کر زور سے ہنسا تو زمل نے بھی اپنی ہنسی اس کی بے ساختہ ہنسی میں ملا دی۔ دونوں کی ہنسی میں جہان بھر کے زر و جواہر قربان ہو ر ہے تھے اور پھولوں کے گجروں کی خوشبو سونے کے کھیتوں کو مات دینے چلی تھی۔ زندگی اس طرح مسکراتی ہے۔(ختم شد)