Story Lover
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
چھوٹی چچی کی طبیعت کا بہت دنوں سے سن رکھا تھا۔ لیکن اتنی دور جانے کا تصور کر کے ہی رہ جاتی۔ راستوں کا اتنا غم نہیں تھا۔ جہاں جانا ہوتا انوار ہی لے جاتے۔ فون پر تو ہر تھوڑے دن بعد خیریت معلوم کر لیتی ۔ آخری دفعہ فون کیا تو چچی کی بہو نے اتنی سرد مہری سے طبیعت بتائی کہ دوبارہ فون کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی ، جانے کا ہی ارادہ کر بیٹھی ۔ اسی لیے اللہ نے بھی راستے بنادیے ۔ انوار نے آج آفس کی چھٹی کی تھی۔ انہیں کسی کام سے جانا تھا۔ اتفاق سے علاقے کا نام سنا تو میں خوش ہو گئی ارے قریب ہی چچی کا گھر ہے۔ آج چچی کی عیادت کر آتی ہوں۔ چچی سے ملنے کی خوشی میں جلدی جلدی کام نمٹایا اور انوار کو کہا کہ آپ چھوڑ دیں اور جب کم ختم ہو تو آ جائیے گا۔ آج کا دور ایسا ہے کہ عیادت کے لیے بھی جاؤ تو فون کر کے ہی جانا پڑتا ہے۔ فون کیا تو منصور بھائی نے اٹھایا بتایا تو خوش ہو گئے اور کہنے لگے۔ میاں کو بھی بول دینا کھانا ہمارے ساتھ کھائے۔ بہت منع کیا کہ موقع نہیں ہے پر منصور بھائی کہنے لگے۔ امی خوش ہو جائیں گی۔ راستے سے فروٹ لیے اور بیکری سے چچی کی پسند کا سادہ کیک بچپن سے ہمیشہ ہم نے چچی کو کبھی کریم والا کیک کھاتے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ سادہ کیک کھاتی تھیں۔ گلی کے کونے پر انوار نے چھوڑا اور منصور بھائی کو فون کر دیا۔ منصور بھائی گلی کے کونے تک لینے آئے۔ انوار کو دیر ہو رہی تھی اسی لیے واپسی میں آنے کا کہہ کر انوار نکل گئے۔ منصور بھائی اتنی محبت اور اپنائیت سے ملے سر پر ہاتھ رکھا پوچھا گڑیا خیریت سے ہو بچوں کو نہیں لائیں ۔ بے اختیار آنکھوں میں نمی اتر آئی کہ اس نام سے تو اب کوئی نہیں پکارتا ۔ نہیں منصور بھائی دونوں بچے کالج سے دیر سے آتے ہیں پھر منصور بھائی گرمی میں نکلنا بڑا مشکل لگتا ہے۔ ہاں یہ تو ہے! آنا پھر کبھی بچوں کو لے کر۔ چچی کے کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے چچی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ دل دکھ سے بھر گیا کہ چچی اتنی کمزور ہوگئی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی چچی کی آنکھوں میں ایسی چمک آئی۔ گلے لگایا ، ماتھا چوما اور دعائیں دینے لگیں بچوں کا پوچھا۔ تھوڑی دیر میں چچی کی بہو لوازمات اور چائے لے آئی بہت اچھی طرح ملی۔ فون پر سرد مہری سے بات کرنے کا شائبہ تک نہ تھا میں بھی اچھے سے ملی۔ ارے منصور بھائی نے کھانے کا کہا تھا تو چائے کے ساتھ اتنا اہتمام کیوں کیا۔ میں مہمان تھوڑی ہوں اتنے عرصے بعد آئی ہیں شاہینہ آپی تو مہمان ہی ہوئی ناں ! اور میں خاموشی ہوگئی۔ واقعی آٹھ مہینے سے چچی کی بیماری کا سن رہی تھی۔ ہسپتال میں دیکھ کر آئی تو پھر گھر کی مصروفیات کی وجہ سے نکل ہی نہیں سکی۔
چچی کے پاس دنیا جہان کی باتیں تھیں کرنے کو میرے پاس بھی بہت کچھ تھا دل کا حال کہنے کے لیے۔ چچی نے باتوں باتوں میں بتایا منصور کی دلہن بہت اچھی ہے۔ بیٹیوں کی طرح میرا خیال رکھتی ہے۔ چچی نہ بھی بتاتیں تو اندازہ تو ہو ہی گیا تھا۔ سلیقہ طریقہ گھر بار اور ناشتے کی سرونگ دیکھ کر پتا چل رہا تھا۔ چچی بتانے لگیں کہ جب سے طبیعت خراب ہوئی ہے۔ اپنے میکے بھی نہیں جاتی ، میکے صبح جاتی ہے شام میں آجاتی ہے کہ گھر میں کوئی اور تو ہے نہیں۔ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے دل ڈرتا تھا نہ جانے کیسی بہو ہو لیکن دلہن بہت اچھی ہے۔ بس اللہ جلد اس کی گود بھرے۔ چچی نے کچھ بھی نہیں کھایا معدے کی تکلیف کی وجہ سے بس لیکویڈ ہی کھا رہی تھیں بغیر مسالے کے۔ بہونے اصرار کر کے چائے کے ساتھ رکھے لوازمات سرو کیے اور باتیں کرنے لگی کہ منصور اور امی بتاتے ہیں کہ تائی امی ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھیں ۔ امی اور تائی کی بہت بنتی تھی۔ میں بھی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی کہ وہ بھی کیا دن تھے۔ عید، بقر عید، شادی سب شاپنگ امی چچی کے ساتھ کرتی تھیں۔ امی کے ذکر پر میں آب دیدہ ہوگئی تو چچی کہنے لگیں کہ یہ بھی میکہ ہے تمہارا – نورین، فرحین کی طرح – آیا کرو ، رہنے آؤ بچوں کو – لے کر آؤ، جب دل کرے۔ اتنا دل بڑا ہوا۔ باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ انوار بھی آگئے چچی کی بہونے کھانا لگایا کھانے پر بھی بے انتہا اہتمام تھا۔ شرمندگی ہونے لگی۔ اس پر منصور بھائی کا خلوص اور محبت مان کیا کچھ نہیں تھا ان کے لہجے میں۔ چچی نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ دلیہ دلہن نے لاکر دیا تو بس آدمی پلیٹ کھائی اور واپس کرنے لگیں۔ میں نے اصرار کر کے باتوں باتوں میں چچی کو پورا دلیہ کھلایا۔ چچی انوار سے باتیں کرنے لگیں۔ میں چچی کی بہو کے ساتھ برتن سمیٹنے لگی۔ بہت منع کرنے کے باوجود میں نے کچن میں برتن رکھے اور پلٹنے لگی تو چچی کی بہو فضا نے مجھے مخاطب کیا۔ شاہینہ آپی آپ کو فون پر میرا انداز برا لگا تھا؟ میں نے بھی دل میں رکھنا مناسب نہ سمجھا تصدیق میں گردن ہلا دی۔ آنٹی کو معدے کا کینسر ڈائیگنوس ہوا ہے۔ پچھلے دنوں بھی بہت تکلیف سے گزری ہیں۔ لاسٹ اسٹیج ہے ڈاکٹر بہت زیادہ ٹریٹمنٹ کے حق میں نہیں ہیں۔ آپ سب کو آنٹی اتنا یاد کرتی ہیں۔ منصور نے سب کو فون کر کے بتایا بھی تھا۔ آپ سے تو آنٹی اتنا پیار کرتی ہیں۔ منصور کو بھی چھوٹی بہنوں والا مان تھا۔ ان آٹھ مہینوں میں آپ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ آپ کا تو بچپن گزرا ہے آنٹی کے ساتھ۔ آج دیکھیں آنٹی کتنا خوش ہیں۔ دلیہ بھی کھا لیا ورنہ دو چمچے کھا کر واپس کر دیتی ہیں ۔ فروٹ بھی کھایا اور چہرہ خوشی سے پرانی باتوں کو یاد کر کے دمک رہا ہے۔ میں اور منصور آنٹی کا بہت خیال رکھتے ہیں منصور کا تو بس نہیں چلتا۔ اپنی امی کے منہ سے نکلی ہر بات پوری کر دیں۔ یہ خوشی تو آپ ہی دے سکتی تھیں پھر اتنی دیر کیوں لگائی۔ میں نے آپ سے اس لیے روڈ ہو کر بات کی کہ جس طرح آنٹی آپ سے بہت پیار کرتی ہیں آپ بھی ضرور آئیں گی۔ آپ کو برا لگا ہو تو معاف کیجیے گا میرا مقصد آپ کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ بس ! میں چاہتی تھی کہ ایک دفعہ تو آپ آ کر آنٹی سے ملیں ۔ منصور بہت اکیلے پڑ گئے تھے۔
پھر باتیں کرتے ہم کمرے میں آئے تو انوار جانے کا کہنے لگے۔ چچی کو خدا حافظ کرنے بیٹھی تو اتنی حسرت سے دیکھنے لگیں اور پوچھنے لگیں۔ اور پھر کب آؤ گی۔ میں کہہ رہی تھی منصور سے شاہینہ بال بچوں میں مصروف ہوگی۔ فرصت ملے گی تو دوڑی ہوئی آئے گی اور دیکھو، تم آئیں۔ اب آتی رہنا۔ میں نے بھی وعدہ کیا کہ آتی جاتی رہوں گی۔ بچوں کے ساتھ پروگرام بناؤں گی۔ مٹھی میں پیسے دے کر کہنے لگیں۔سہاگنوں کے ہاتھ خالی اچھے نہیں لگتے۔ آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اب یہ جملے سنے زمانہ ہوا۔ چچی کا ماتھا چوما اور منصور بھائی سے معذرت کے الفاظ کہنے چاہے تو سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے۔ نہیں بیٹا کوئی بات نہیں زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے دور کا سفر بھی ہے۔ ہاتھ میں پیسے دیے اور کہنے لگے کہ بیٹیاں میکے سے خالی ہاتھ نہیں جاتیں۔ بے اختیار چچی کی بہو سے نظر ملی اور شرمندگی ہوئی کہ اتنے محبت بھرے، مان بھرے رشتوں کو دکھ دیا۔ واقعی کبھی کبھی ہم وقت نکالتے بہت دیر کر دیتے ہیں کہ چاہنے والے رشتے جو ہم سے صرف ہمارا وقت مانگتے ہیں۔ وقت نکالتے نکالتے شکر ہے کہ بہت دیر نہیں ہوئی۔ جلدی سے دوبارہ آنے کا عہد کیا اور خدا حافظ کہہ کر انوار کے ساتھ گلی کا موڑ کاٹا۔
چچی کے پاس دنیا جہان کی باتیں تھیں کرنے کو میرے پاس بھی بہت کچھ تھا دل کا حال کہنے کے لیے۔ چچی نے باتوں باتوں میں بتایا منصور کی دلہن بہت اچھی ہے۔ بیٹیوں کی طرح میرا خیال رکھتی ہے۔ چچی نہ بھی بتاتیں تو اندازہ تو ہو ہی گیا تھا۔ سلیقہ طریقہ گھر بار اور ناشتے کی سرونگ دیکھ کر پتا چل رہا تھا۔ چچی بتانے لگیں کہ جب سے طبیعت خراب ہوئی ہے۔ اپنے میکے بھی نہیں جاتی ، میکے صبح جاتی ہے شام میں آجاتی ہے کہ گھر میں کوئی اور تو ہے نہیں۔ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے دل ڈرتا تھا نہ جانے کیسی بہو ہو لیکن دلہن بہت اچھی ہے۔ بس اللہ جلد اس کی گود بھرے۔ چچی نے کچھ بھی نہیں کھایا معدے کی تکلیف کی وجہ سے بس لیکویڈ ہی کھا رہی تھیں بغیر مسالے کے۔ بہونے اصرار کر کے چائے کے ساتھ رکھے لوازمات سرو کیے اور باتیں کرنے لگی کہ منصور اور امی بتاتے ہیں کہ تائی امی ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھیں ۔ امی اور تائی کی بہت بنتی تھی۔ میں بھی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی کہ وہ بھی کیا دن تھے۔ عید، بقر عید، شادی سب شاپنگ امی چچی کے ساتھ کرتی تھیں۔ امی کے ذکر پر میں آب دیدہ ہوگئی تو چچی کہنے لگیں کہ یہ بھی میکہ ہے تمہارا – نورین، فرحین کی طرح – آیا کرو ، رہنے آؤ بچوں کو – لے کر آؤ، جب دل کرے۔ اتنا دل بڑا ہوا۔ باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ انوار بھی آگئے چچی کی بہونے کھانا لگایا کھانے پر بھی بے انتہا اہتمام تھا۔ شرمندگی ہونے لگی۔ اس پر منصور بھائی کا خلوص اور محبت مان کیا کچھ نہیں تھا ان کے لہجے میں۔ چچی نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ دلیہ دلہن نے لاکر دیا تو بس آدمی پلیٹ کھائی اور واپس کرنے لگیں۔ میں نے اصرار کر کے باتوں باتوں میں چچی کو پورا دلیہ کھلایا۔ چچی انوار سے باتیں کرنے لگیں۔ میں چچی کی بہو کے ساتھ برتن سمیٹنے لگی۔ بہت منع کرنے کے باوجود میں نے کچن میں برتن رکھے اور پلٹنے لگی تو چچی کی بہو فضا نے مجھے مخاطب کیا۔ شاہینہ آپی آپ کو فون پر میرا انداز برا لگا تھا؟ میں نے بھی دل میں رکھنا مناسب نہ سمجھا تصدیق میں گردن ہلا دی۔ آنٹی کو معدے کا کینسر ڈائیگنوس ہوا ہے۔ پچھلے دنوں بھی بہت تکلیف سے گزری ہیں۔ لاسٹ اسٹیج ہے ڈاکٹر بہت زیادہ ٹریٹمنٹ کے حق میں نہیں ہیں۔ آپ سب کو آنٹی اتنا یاد کرتی ہیں۔ منصور نے سب کو فون کر کے بتایا بھی تھا۔ آپ سے تو آنٹی اتنا پیار کرتی ہیں۔ منصور کو بھی چھوٹی بہنوں والا مان تھا۔ ان آٹھ مہینوں میں آپ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ آپ کا تو بچپن گزرا ہے آنٹی کے ساتھ۔ آج دیکھیں آنٹی کتنا خوش ہیں۔ دلیہ بھی کھا لیا ورنہ دو چمچے کھا کر واپس کر دیتی ہیں ۔ فروٹ بھی کھایا اور چہرہ خوشی سے پرانی باتوں کو یاد کر کے دمک رہا ہے۔ میں اور منصور آنٹی کا بہت خیال رکھتے ہیں منصور کا تو بس نہیں چلتا۔ اپنی امی کے منہ سے نکلی ہر بات پوری کر دیں۔ یہ خوشی تو آپ ہی دے سکتی تھیں پھر اتنی دیر کیوں لگائی۔ میں نے آپ سے اس لیے روڈ ہو کر بات کی کہ جس طرح آنٹی آپ سے بہت پیار کرتی ہیں آپ بھی ضرور آئیں گی۔ آپ کو برا لگا ہو تو معاف کیجیے گا میرا مقصد آپ کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ بس ! میں چاہتی تھی کہ ایک دفعہ تو آپ آ کر آنٹی سے ملیں ۔ منصور بہت اکیلے پڑ گئے تھے۔
پھر باتیں کرتے ہم کمرے میں آئے تو انوار جانے کا کہنے لگے۔ چچی کو خدا حافظ کرنے بیٹھی تو اتنی حسرت سے دیکھنے لگیں اور پوچھنے لگیں۔ اور پھر کب آؤ گی۔ میں کہہ رہی تھی منصور سے شاہینہ بال بچوں میں مصروف ہوگی۔ فرصت ملے گی تو دوڑی ہوئی آئے گی اور دیکھو، تم آئیں۔ اب آتی رہنا۔ میں نے بھی وعدہ کیا کہ آتی جاتی رہوں گی۔ بچوں کے ساتھ پروگرام بناؤں گی۔ مٹھی میں پیسے دے کر کہنے لگیں۔سہاگنوں کے ہاتھ خالی اچھے نہیں لگتے۔ آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اب یہ جملے سنے زمانہ ہوا۔ چچی کا ماتھا چوما اور منصور بھائی سے معذرت کے الفاظ کہنے چاہے تو سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے۔ نہیں بیٹا کوئی بات نہیں زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے دور کا سفر بھی ہے۔ ہاتھ میں پیسے دیے اور کہنے لگے کہ بیٹیاں میکے سے خالی ہاتھ نہیں جاتیں۔ بے اختیار چچی کی بہو سے نظر ملی اور شرمندگی ہوئی کہ اتنے محبت بھرے، مان بھرے رشتوں کو دکھ دیا۔ واقعی کبھی کبھی ہم وقت نکالتے بہت دیر کر دیتے ہیں کہ چاہنے والے رشتے جو ہم سے صرف ہمارا وقت مانگتے ہیں۔ وقت نکالتے نکالتے شکر ہے کہ بہت دیر نہیں ہوئی۔ جلدی سے دوبارہ آنے کا عہد کیا اور خدا حافظ کہہ کر انوار کے ساتھ گلی کا موڑ کاٹا۔