Story Lover
VIP+
Online
- Thread Author
- #1
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میری شادی کی بات چل رہی تھی، لیکن میں اس بندھن کو قبول نہیں کر رہی تھی کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتی تھی۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ لڑکی کسی اور گھر کی بہو بننا چاہتی ہے اور رخصتی کسی اور گھر میں ہو جاتی ہے، تو اسے صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔
منیب میری پھپھو کا بیٹا تھا۔ وہ ابو کو مجبور کر رہی تھیں کہ شاہدہ مجھے دے دو۔ ابو راضی تھے، مگر امی آڑے آ گئیں، کیونکہ ان کی اپنی پھپھو سے نہیں بنتی تھی۔ تبھی انہوں نے ماموں کو خط لکھا جو حیدرآباد میں رہتے تھے۔ اچانک وہ میرے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آ گئے۔ یوں امی کی مانی گئی اور ایک ماہ کے اندر اندر میری شادی ہو گئی، کیونکہ امی اور ابو کو ڈر تھا کہ کہیں میں انکار نہ کر دوں۔ میں امی کو بتا چکی تھی کہ میں محلے کے ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں۔ بہرحال، اس طرح امی ابو نے میرے خواب توڑ کر مجھے بیاہ دیا۔
میں کافی خوبصورت تھی۔ جو مجھے ایک بار دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ ماموں کے بیٹے، شریف، کو بھی میں اسی وجہ سے پسند آ گئی۔ میری شادی تو ہو گئی، لیکن میں خوش نہ تھی اور حیدرآباد جانے کو تیار نہ تھی۔ اس مرحلے پر بزرگوں نے سمجھا بجھا کر مجھے شریف کے ہمراہ بھیج دیا اور میں روتی ہوئی مجبوراً نئے گھر آ گئی۔ یہاں آ کر کافی دن دل بجھا رہا۔ دل ہی نہیں لگتا تھا، دم گھٹا گھٹا رہتا تھا۔
ماموں اور ممانی ایک ہفتہ رہ کر گاؤں چلے گئے۔ شریف کی نوکری یہاں تھی، اور مجھے اکیلے اس کے ساتھ رہنا تھا۔ یہاں مجھ سے بات کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ شریف مختلف مزاج کا آدمی تھا۔ اسے گھر پر رہنا اچھا نہ لگتا تھا۔ کام سے آ کر وہ دوستوں میں وقت گزارنا پسند کرتا۔ اس کی دوستی بھی اچھے لوگوں سے نہ تھی۔ یہ اوباش قسم کے نوجوان تھے، جو شام کو اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ یہ سب لوگ ایک دوست کی بیٹھک میں اکٹھے ہوتے، وہاں وی سی آر پر غلط قسم کی فلمیں دیکھتے اور پھر رات گئے نشے کی حالت میں شریف گھر آتا تو مجھ سے اچھا سلوک نہ کرتا۔
سوچتی ہوں کہ اگر میرے شوہر اچھے کردار کے ہوتے، تو شاید میرے دل سے ماضی کی محبت نکل جاتی۔ ان کا پیار پا کر میں ان کی ہو جاتی اور گھر میں دل لگ جاتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ شریف کو میں پسند تو تھی، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ مجھے تو ان دنوں ایک ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جو ہمہ وقت مجھے توجہ دے، میری جھولی میں اعتماد ڈال دے، تاکہ میں بےفکری سے زندگی گزار سکوں۔
شادی کے بعد ایک عجیب سی زندگی بسر کرنے لگی۔ شوہر بھی اپنا محسوس نہ ہوتا، میکے والے بھی نہ آتے۔ تنہائی سانپ بن کر ڈسنے لگی۔ میں سارا دن اکیلی پڑی چھت کو گھورتی یا روتی رہتی۔ پاس پڑوس میں بھی ایسا کوئی نہ تھا جس سے دو گھڑی بات کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی۔
میرے والدین پڑھے لکھے نہ تھے۔ ان کو تو بس اس بات کی خوشی تھی کہ شاہدہ اپنے گھر کی ہو گئی ہے۔ ان کے کندھوں سے بوجھ اتر گیا ہے۔ میں نے ان کو کئی خط لکھے۔ امی ابو نے جواب دیا، بیٹی، اب وہی تمہارا گھر ہے اور اسی کو اپنا سمجھو۔ میکے بار بار آنے والی لڑکیاں گھر نہیں بسایا کرتیں۔ ہم خود عید پر آ کر تمہیں لے جائیں گے۔ تم ایسے آ کر یہاں رہو گی تو تمہارے شوہر کو طعنہ سننا پڑے گا۔
میرے والدین روایتی لوگ تھے۔ وہ خود بھی بیٹی کے گھر آ کر رہنا پسند نہیں کرتے تھے، پھر ان کو میری مشکلات کا کیونکر اندازہ ہوتا۔ بہرحال، اسے بھی قسمت کا لکھا ہی کہوں گی کہ نہایت مجبوری میں وقت گزرتا رہا، اور دو سال گزر گئے۔ میں میکے بھی سال میں صرف عید پر جاتی تھی اور ہفتے سے زیادہ نہیں رہ پاتی تھی۔
ان دو سالوں میں ساس سسر ایک بار ہفتے بھر کے لیے آئے۔ پھر خدا نے مجھ پر رحم کیا اور بیٹی کی صورت میں تنہائی کا ساتھی دے دیا۔ گھر میں رونق آ گئی، دل بھی لگنے لگا۔ ننھی بچی ہونے کے باوجود میں شریف کا بہت خیال رکھتی تاکہ اسے مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔سوچتی تھی کہ بچے ہوں گے، تو میرے خاوند کا دل گھر میں لگے گا۔ مجھے بڑی حسرت تھی کہ وہ دفتر سے وقت پر سیدھے گھر آیا کریں، پھر باقی وقت گھر میں رہیں، لیکن وہ صرف آدھ گھنٹہ رکتے، کھانا کھاتے، کبھی آرام کی غرض سے لیٹتے تو دروازے پر دستک ہوتی اور وہ کسی نہ کسی دوست کے ساتھ چلے جاتے۔
مجھے اعتراف ہے کہ شریف سے مجھے محبت نہیں تھی، لیکن اگر وہ توجہ دیتے اور اچھا سلوک کرتے، تو میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہو سکتی تھی، جس کی شریف نے کبھی ضرورت نہ سمجھی۔ ان کے نزدیک بیوی کا کام صرف گھر سنبھالنا اور بچے پیدا کرنا تھا۔ انہیں شاید اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ عورت کے لیے محبت کتنی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے باوجود میں نے ایک فرض شناس بیوی کا کردار بخوبی ادا کیا۔ کم سنی اور ذہنی ناپختگی کے باوجود، اپنی والدہ کی تربیت کی وجہ سے مجھے یہ شعور تھا کہ شوہر کے آرام کا خیال رکھنا، وقت پر کھانا دینا اور اسے سکون پہنچانا ہر بیوی کا فرض ہوتا ہے، اور میں اس فرض کو اچھی طرح نباہ رہی تھی۔ تب میرا بھی حق بنتا تھا کہ وہ مجھے پیار اور توجہ دیتے۔
جب انسان کی زندگی میں خلا پیدا ہو جائے، تو وہ کچھ عجیب حرکت کر گزرتا ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے اجنبی لوگوں پر بھروسہ کرنے لگتا ہے۔ اب میں بیٹی کی طرف ان کی توجہ دلاتی کہ اسے تمہارے پیار کی ضرورت ہے، لیکن عیاش ذہن مرد کا دل باہر کی رنگینیوں میں ہی لگتا ہے۔ گھر کی پاکیزہ فضا میں ان کا دم گھٹتا تھا۔ میرے احتجاج پر بھی شریف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ جب میں گھر پر رہنے پر اصرار کرتی، تو وہ وی سی آر گھر پر ہی لے آتے اور غلط فلمیں لگا کر بیٹھ جاتے۔ تب مجھے اور زیادہ کوفت ہوتی۔ میں اپنے گھر میں ان خرافات کو داخل نہ ہونے دینا چاہتی تھی۔
برابر والا گھر بھی ہمارا ہی تھا، لیکن مکان کی بناوٹ ایسی تھی کہ اندر آنے کا راستہ ایک ہی تھا، البتہ اندر دو پورشن تھے جیسے دو الگ الگ مکان ہوں، اور یہ کرائے پر دیے جاتے تھے۔ جو پورشن ہمارے گھر کی دیوار سے متصل تھا، وہاں نئے کرایہ دار آ گئے۔ شوہر کا نام زبیر اور بیوی کا نام رقیہ تھا۔ رقیہ معمولی شکل و صورت کی تھی، جبکہ شوہر بہت خوبصورت تھا اور اسے اپنے حسن کا بخوبی احساس تھا۔ اس کی شادی مرضی سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ رقیہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا، لیکن وہ اس کی خالہ کی بیٹی تھی، اس لیے ماں نے زبردستی شادی کر دی کیونکہ وہ اس کی بچپن کی منگیتر تھی۔ ان کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے تھے۔ مجبوری میں شادی تو ہو گئی، مگر مزاج کا فرق اتنا تھا کہ آپس میں نباہ نہ ہو سکا۔ روز لڑائی جھگڑے ہوتے، جن کی آوازیں ہم سنتے رہتے۔
میں شریف سے کہتی کہ تم نے کیسے لوگوں کو مکان دیا ہے؟ انہوں نے ہمارا سکون برباد کر دیا ہے۔ کبھی جھگڑا زیادہ بڑھ جاتا تو شریف زبیر کو سمجھانے چلے جاتے، اور کبھی مجھے کہتے کہ تم رقیہ کو سمجھا دو کہ عورت کو اتنی بلند آواز میں بات نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی آواز باہر جائے۔ میرے سمجھانے پر وہ لڑائی بند کر دیتی، لیکن پھر رونے لگتی، اور مجھے اس کو چپ کرانے میں کافی وقت لگتا۔ ایسا متعدد بار ہوا۔
اب میں زبیر کے سامنے بھی جانے لگی تھی۔ اس کی مردانہ وجاہت نے مجھے بہت متاثر کیا، جب کہ رقیہ اس کے مقابلے میں بہت معمولی لگتی تھی۔ ہم میاں بیوی کی ہزار کوشش کے باوجود ان کا جھگڑا ختم نہ ہو سکا، اور آخرکار رقیہ جھگڑ کر میکے چلی گئی۔ اب شریف مجھ سے کہنے لگے کہ زبیر بیچارہ اکیلا ہے، اس کو کھانا دے دیا کرو۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور زبیر کو رات کا کھانا دینا شروع کر دیا۔ زبیر صبح جلدی نکل جاتا، ناشتہ خود بناتا، دوپہر کا کھانا باہر کھاتا، البتہ رات کا کھانا میں شام پانچ بجے پکا کر دروازے پر دے دیتی تھی۔ چھٹی کے دن وہ مجھے سبزیاں لا کر دے دیتا کہ بھابی، پکانے کے لیے دے دیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ میں شوہر کی لاپرواہیوں سے دکھی تھی، اور وہ بیوی کی زبان درازی سے۔ رفتہ رفتہ ہم میں بات چیت ہونے لگی، تو وہ کھانا لینے گھر تک آنے لگا۔مجھے معلوم نہ تھا کہ ایسا دن بھی میری زندگی میں آئے گا۔ ایک روز میں کھانا پکا رہی تھی کہ خدا جانے کیا ہوا، چکر آیا اور میں بے ہوش ہو کر فرش پر گر گئی۔ اسی وقت وہ مجھے سبزی کا تھیلا دینے آیا اور میرے گرنے کی آواز سن لی۔ اس نے کئی بار آواز دی، لیکن میں بے ہوش تھی۔ چھٹی کا دن تھا اور حسبِ معمول شریف اپنے دوستوں کے پاس جا چکے تھے۔
میرے جواب نہ دینے پر زبیر نے دروازے سے جھانک کر دیکھا، تو میں اندر فرش پر پڑی نظر آئی۔ وہ دوڑ کر آیا اور مجھے اٹھا کر بستر پر لٹایا۔ میرے سر پر چوٹ آئی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ اسے شریف کے معمولات کا اندازہ تھا، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے ایک ٹیکسی کی اور مجھے قریبی کلینک لے گیا۔ میں اب بھی بے ہوش تھی۔ اس نے مجھے ٹیکسی کی پچھلی نشست پر لٹایا۔ جب وہ مجھے اٹھا کر باہر لایا، تو مجھے کچھ ہوش آنے لگا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگایا، اور سر پر چھ ٹانکے لگے۔ شدید تکلیف ہوئی۔ اب میں پوری طرح ہوش میں آ چکی تھی۔ میری بیٹی بھی زبیر کے پاس تھی۔ دو گھنٹے کلینک میں رہنے کے بعد جب واپس آئی، تو مکمل ہوش میں تھی۔ زبیر نے مجھے سہارا دے کر بستر تک پہنچایا۔ میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ دل بہت دُکھا کہ آج چھٹی کا دن تھا، اگر شریف گھر پر ہوتے، تو وہی میری دیکھ بھال کرتے۔ میں ایک غیر مرد کے سہارے پر کیوں تھی؟ سارا دن زبیر نے میری خدمت کی۔
رات کو ڈھائی بجے شریف نشے میں دھت گھر آئے اور میرا حال جانے بغیر سو گئے۔ صبح سرسری بات کر کے دفتر چلے گئے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ زبیر نے میری خاطر چھٹی کی، وہ کام پر نہیں گیا تاکہ اگر مجھے کسی وقت ضرورت ہو تو مجھے تکلیف نہ ہو۔ اس کی یہی ہمدردی اور توجہ بعد میں میری بربادی کا سبب بنی۔ تکلیف میں، میں چاہتی تھی کہ کوئی اپنا ہو جو میرا دکھ بانٹ لے — اور وہ پھر اپنا ہو گیا۔ میں پیار کو ترسی ہوئی ایک زخمی عورت تھی، اپنے شوہر کی توجہ سے محروم۔ جب ایک غیر مرد میرے زخموں کا مرہم لایا، تو وہی میرے لیے مسیحا بن گیا۔
میں اس کے ساتھ پٹی کروانے جاتی، سر کے ٹانکے بھی اس نے ہی کھلوائے، دوائیں لا کر دیں، اور چند دن اپنا اور میرا کھانا بازار سے لے آتا۔ خود بھی کھاتا اور مجھے بھی کھلاتا۔ اب وہ بے جھجک میرے گھر آجاتا، کیونکہ گھر کا مالک تو غفلت کے اندھیروں میں گم ہو چکا تھا۔ خدا معاف کرے، شادی شدہ عورت کو بہکنا نہیں چاہیے، لیکن میرے قدم بہک گئے۔ زبیر تو مرد تھا، مگر مجھے اپنے شوہر کی امانت کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں شوہر سے مایوس ہو کر زبیر کی محبت میں کھو گئی۔
یونہی دن گزرتے گئے۔ زبیر اسکول ٹیچر تھا۔ وہ دوپہر دو بجے آجاتا۔ کھانا میرے گھر کھاتا، پھر ہم باتوں میں مشغول ہو جاتے۔ وقت اچھا گزرنے لگا، بلکہ وقت کا احساس بھی نہ رہا اور ہماری دوستی گہری ہوتی گئی۔ اب مجھے شریف سے شدید نفرت ہو گئی تھی — وہ مرد جو اپنی بیوی کو محبت نہ دے سکا۔ چھ سال زبیر ہمارا کرایہ دار رہا، چھ سال ہماری دوستی قائم رہی۔ اس دوران شریف کو ایک بار بھی یہ احساس نہ ہوا کہ اس کی بیوی جوان ہے، اور ایک غیر مرد گھر آتا جاتا ہے، سودا سلف لاتا ہے، ہر گھریلو کام کرتا ہے۔ ان کے لیے یہ سب معمول کی بات تھی، اور یہی بے پرواہی ہمارے قدم بہکانے کا سبب بنی۔
ان چھ سالوں میں میں ایک بیٹے اور پھر ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ میری دیکھ بھال زبیر ہی کرتا رہا۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہ تھی، جبکہ شریف نام کا شوہر تھا۔ اس کی اصل رفاقت اپنے اوباش دوستوں سے تھی، جن کے بغیر وہ ایک قدم نہ چلتا۔ پھر اچانک زبیر کی دوستی ایک غیر مذہب شخص راج سے ہو گئی۔ وہ اس کے گھر آنے جانے لگا۔ میں نے اسے منع کیا کہ تم اس آدمی سے زیادہ میل جول نہ بڑھاؤ، مجھے یہ ٹھیک نہیں لگتا۔ لیکن اس نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔
راج ایک ڈاکٹر تھا، مگر بہت شکی مزاج کا۔ اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی۔ زبیر نے اُسے اپنی بہن بنایا ہوا تھا۔ ایک دن راج کی بیوی نے زبیر کو مٹھائی بھجوائی، راج نے دیکھ لیا۔ اُسے شک ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ اس دن تو وہ لوگ دیوالی منانے گاؤں چلے گئے، لیکن واپسی پر راج نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی کہ اس نے ہمارے گھر میں چوری کی ہے اور گھر کو جلایا ہے۔ زبیر یہ سن کر پریشان ہو گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی ناگہانی مصیبت میں پھنس جائے گا۔
میں پہلے ہی اسے راج سے دوستی سے منع کر چکی تھی کیونکہ وہ لالچی اور شکی مزاج کا انسان تھا۔ زبیر ایسا نہیں تھا، میں اُسے جانتی تھی۔ لیکن جب ایف آئی آر کٹ جائے تو حالات سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پولیس زبیر کو گرفتار کرنے آئی۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ جب آیا تو میں نے اسے سب کچھ بتا دیا اور کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ پولیس تمہیں گرفتار کر لے گی۔ اُس نے میری بات مانی اور کہیں روپوش ہو گیا۔ اُس کا سامان ہمارے گھر ہی پڑا تھا۔
ایک دن اچانک بارش ہوئی، تو مکان کے اُس حصے میں پانی بھر گیا جہاں زبیر رہتا تھا۔ شریف نے اس کا سامان نکالا تو اس میں میری تصویر بھی رکھی تھی۔ پھر جو ہونا تھا وہی ہوا۔ اپنی بیوی کی تصویر کسی غیر مرد کی ڈائری سے نکل آئے، تو کیا ہوتا ہے؟ ہماری شدید لڑائی ہوئی اور بات طلاق تک جا پہنچی۔ دونوں طرف سے بزرگ بلائے گئے۔ میں نے کہا کہ تصویر رقیہ نے دیکھنے کے لیے لی تھی اور واپس کرنا بھول گئی۔ شریف نے کہا کہ اگر رقیہ تصدیق کر دے، تو میں مان لوں گا ورنہ طلاق دے دوں گا۔
رقیہ کو تلاش کیا گیا، مگر وہ کہیں نہ ملی۔ شکر ہے کہ وہ نہ ملی، ورنہ معاملہ سنگین ہو سکتا تھا۔ شریف کا کہنا تھا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں، کیونکہ رقیہ کو گئے چھ سال ہو چکے اور تصویر اتنی پرانی نہیں ہے۔ اس نے زبیر کو بھی تلاش کیا، مگر وہ بھی روپوش ہو چکا تھا۔
خیر، بزرگوں نے بڑی مشکل سے شریف کو سمجھایا کہ صرف تصویر کی بنیاد پر بیوی پر بدچلنی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ خود بھی کامل انسان نہیں تھا۔ انہوں نے اُسے سمجھایا کہ یہ بیچاری تمہارے ساتھ نباہ کر رہی ہے، کم از کم بچوں کا خیال کرو۔ کسی نہ کسی طرح سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کے بعد زندگی روکھی پھیکی سی ہو گئی۔ میں بچوں کی خاطر جبر سہہ رہی ہوں، مگر اپنے شوہر سے شدید نفرت ہو چکی ہے — اُس شخص سے جو مجھے محبت سے محروم رکھ کر ایک بے جان چیز کی طرح گھر میں رکھ کر بھول گیا۔
منیب میری پھپھو کا بیٹا تھا۔ وہ ابو کو مجبور کر رہی تھیں کہ شاہدہ مجھے دے دو۔ ابو راضی تھے، مگر امی آڑے آ گئیں، کیونکہ ان کی اپنی پھپھو سے نہیں بنتی تھی۔ تبھی انہوں نے ماموں کو خط لکھا جو حیدرآباد میں رہتے تھے۔ اچانک وہ میرے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آ گئے۔ یوں امی کی مانی گئی اور ایک ماہ کے اندر اندر میری شادی ہو گئی، کیونکہ امی اور ابو کو ڈر تھا کہ کہیں میں انکار نہ کر دوں۔ میں امی کو بتا چکی تھی کہ میں محلے کے ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں۔ بہرحال، اس طرح امی ابو نے میرے خواب توڑ کر مجھے بیاہ دیا۔
میں کافی خوبصورت تھی۔ جو مجھے ایک بار دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ ماموں کے بیٹے، شریف، کو بھی میں اسی وجہ سے پسند آ گئی۔ میری شادی تو ہو گئی، لیکن میں خوش نہ تھی اور حیدرآباد جانے کو تیار نہ تھی۔ اس مرحلے پر بزرگوں نے سمجھا بجھا کر مجھے شریف کے ہمراہ بھیج دیا اور میں روتی ہوئی مجبوراً نئے گھر آ گئی۔ یہاں آ کر کافی دن دل بجھا رہا۔ دل ہی نہیں لگتا تھا، دم گھٹا گھٹا رہتا تھا۔
ماموں اور ممانی ایک ہفتہ رہ کر گاؤں چلے گئے۔ شریف کی نوکری یہاں تھی، اور مجھے اکیلے اس کے ساتھ رہنا تھا۔ یہاں مجھ سے بات کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ شریف مختلف مزاج کا آدمی تھا۔ اسے گھر پر رہنا اچھا نہ لگتا تھا۔ کام سے آ کر وہ دوستوں میں وقت گزارنا پسند کرتا۔ اس کی دوستی بھی اچھے لوگوں سے نہ تھی۔ یہ اوباش قسم کے نوجوان تھے، جو شام کو اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ یہ سب لوگ ایک دوست کی بیٹھک میں اکٹھے ہوتے، وہاں وی سی آر پر غلط قسم کی فلمیں دیکھتے اور پھر رات گئے نشے کی حالت میں شریف گھر آتا تو مجھ سے اچھا سلوک نہ کرتا۔
سوچتی ہوں کہ اگر میرے شوہر اچھے کردار کے ہوتے، تو شاید میرے دل سے ماضی کی محبت نکل جاتی۔ ان کا پیار پا کر میں ان کی ہو جاتی اور گھر میں دل لگ جاتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ شریف کو میں پسند تو تھی، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ مجھے تو ان دنوں ایک ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جو ہمہ وقت مجھے توجہ دے، میری جھولی میں اعتماد ڈال دے، تاکہ میں بےفکری سے زندگی گزار سکوں۔
شادی کے بعد ایک عجیب سی زندگی بسر کرنے لگی۔ شوہر بھی اپنا محسوس نہ ہوتا، میکے والے بھی نہ آتے۔ تنہائی سانپ بن کر ڈسنے لگی۔ میں سارا دن اکیلی پڑی چھت کو گھورتی یا روتی رہتی۔ پاس پڑوس میں بھی ایسا کوئی نہ تھا جس سے دو گھڑی بات کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی۔
میرے والدین پڑھے لکھے نہ تھے۔ ان کو تو بس اس بات کی خوشی تھی کہ شاہدہ اپنے گھر کی ہو گئی ہے۔ ان کے کندھوں سے بوجھ اتر گیا ہے۔ میں نے ان کو کئی خط لکھے۔ امی ابو نے جواب دیا، بیٹی، اب وہی تمہارا گھر ہے اور اسی کو اپنا سمجھو۔ میکے بار بار آنے والی لڑکیاں گھر نہیں بسایا کرتیں۔ ہم خود عید پر آ کر تمہیں لے جائیں گے۔ تم ایسے آ کر یہاں رہو گی تو تمہارے شوہر کو طعنہ سننا پڑے گا۔
میرے والدین روایتی لوگ تھے۔ وہ خود بھی بیٹی کے گھر آ کر رہنا پسند نہیں کرتے تھے، پھر ان کو میری مشکلات کا کیونکر اندازہ ہوتا۔ بہرحال، اسے بھی قسمت کا لکھا ہی کہوں گی کہ نہایت مجبوری میں وقت گزرتا رہا، اور دو سال گزر گئے۔ میں میکے بھی سال میں صرف عید پر جاتی تھی اور ہفتے سے زیادہ نہیں رہ پاتی تھی۔
ان دو سالوں میں ساس سسر ایک بار ہفتے بھر کے لیے آئے۔ پھر خدا نے مجھ پر رحم کیا اور بیٹی کی صورت میں تنہائی کا ساتھی دے دیا۔ گھر میں رونق آ گئی، دل بھی لگنے لگا۔ ننھی بچی ہونے کے باوجود میں شریف کا بہت خیال رکھتی تاکہ اسے مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔سوچتی تھی کہ بچے ہوں گے، تو میرے خاوند کا دل گھر میں لگے گا۔ مجھے بڑی حسرت تھی کہ وہ دفتر سے وقت پر سیدھے گھر آیا کریں، پھر باقی وقت گھر میں رہیں، لیکن وہ صرف آدھ گھنٹہ رکتے، کھانا کھاتے، کبھی آرام کی غرض سے لیٹتے تو دروازے پر دستک ہوتی اور وہ کسی نہ کسی دوست کے ساتھ چلے جاتے۔
مجھے اعتراف ہے کہ شریف سے مجھے محبت نہیں تھی، لیکن اگر وہ توجہ دیتے اور اچھا سلوک کرتے، تو میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہو سکتی تھی، جس کی شریف نے کبھی ضرورت نہ سمجھی۔ ان کے نزدیک بیوی کا کام صرف گھر سنبھالنا اور بچے پیدا کرنا تھا۔ انہیں شاید اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ عورت کے لیے محبت کتنی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے باوجود میں نے ایک فرض شناس بیوی کا کردار بخوبی ادا کیا۔ کم سنی اور ذہنی ناپختگی کے باوجود، اپنی والدہ کی تربیت کی وجہ سے مجھے یہ شعور تھا کہ شوہر کے آرام کا خیال رکھنا، وقت پر کھانا دینا اور اسے سکون پہنچانا ہر بیوی کا فرض ہوتا ہے، اور میں اس فرض کو اچھی طرح نباہ رہی تھی۔ تب میرا بھی حق بنتا تھا کہ وہ مجھے پیار اور توجہ دیتے۔
جب انسان کی زندگی میں خلا پیدا ہو جائے، تو وہ کچھ عجیب حرکت کر گزرتا ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے اجنبی لوگوں پر بھروسہ کرنے لگتا ہے۔ اب میں بیٹی کی طرف ان کی توجہ دلاتی کہ اسے تمہارے پیار کی ضرورت ہے، لیکن عیاش ذہن مرد کا دل باہر کی رنگینیوں میں ہی لگتا ہے۔ گھر کی پاکیزہ فضا میں ان کا دم گھٹتا تھا۔ میرے احتجاج پر بھی شریف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ جب میں گھر پر رہنے پر اصرار کرتی، تو وہ وی سی آر گھر پر ہی لے آتے اور غلط فلمیں لگا کر بیٹھ جاتے۔ تب مجھے اور زیادہ کوفت ہوتی۔ میں اپنے گھر میں ان خرافات کو داخل نہ ہونے دینا چاہتی تھی۔
برابر والا گھر بھی ہمارا ہی تھا، لیکن مکان کی بناوٹ ایسی تھی کہ اندر آنے کا راستہ ایک ہی تھا، البتہ اندر دو پورشن تھے جیسے دو الگ الگ مکان ہوں، اور یہ کرائے پر دیے جاتے تھے۔ جو پورشن ہمارے گھر کی دیوار سے متصل تھا، وہاں نئے کرایہ دار آ گئے۔ شوہر کا نام زبیر اور بیوی کا نام رقیہ تھا۔ رقیہ معمولی شکل و صورت کی تھی، جبکہ شوہر بہت خوبصورت تھا اور اسے اپنے حسن کا بخوبی احساس تھا۔ اس کی شادی مرضی سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ رقیہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا، لیکن وہ اس کی خالہ کی بیٹی تھی، اس لیے ماں نے زبردستی شادی کر دی کیونکہ وہ اس کی بچپن کی منگیتر تھی۔ ان کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے تھے۔ مجبوری میں شادی تو ہو گئی، مگر مزاج کا فرق اتنا تھا کہ آپس میں نباہ نہ ہو سکا۔ روز لڑائی جھگڑے ہوتے، جن کی آوازیں ہم سنتے رہتے۔
میں شریف سے کہتی کہ تم نے کیسے لوگوں کو مکان دیا ہے؟ انہوں نے ہمارا سکون برباد کر دیا ہے۔ کبھی جھگڑا زیادہ بڑھ جاتا تو شریف زبیر کو سمجھانے چلے جاتے، اور کبھی مجھے کہتے کہ تم رقیہ کو سمجھا دو کہ عورت کو اتنی بلند آواز میں بات نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی آواز باہر جائے۔ میرے سمجھانے پر وہ لڑائی بند کر دیتی، لیکن پھر رونے لگتی، اور مجھے اس کو چپ کرانے میں کافی وقت لگتا۔ ایسا متعدد بار ہوا۔
اب میں زبیر کے سامنے بھی جانے لگی تھی۔ اس کی مردانہ وجاہت نے مجھے بہت متاثر کیا، جب کہ رقیہ اس کے مقابلے میں بہت معمولی لگتی تھی۔ ہم میاں بیوی کی ہزار کوشش کے باوجود ان کا جھگڑا ختم نہ ہو سکا، اور آخرکار رقیہ جھگڑ کر میکے چلی گئی۔ اب شریف مجھ سے کہنے لگے کہ زبیر بیچارہ اکیلا ہے، اس کو کھانا دے دیا کرو۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور زبیر کو رات کا کھانا دینا شروع کر دیا۔ زبیر صبح جلدی نکل جاتا، ناشتہ خود بناتا، دوپہر کا کھانا باہر کھاتا، البتہ رات کا کھانا میں شام پانچ بجے پکا کر دروازے پر دے دیتی تھی۔ چھٹی کے دن وہ مجھے سبزیاں لا کر دے دیتا کہ بھابی، پکانے کے لیے دے دیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ میں شوہر کی لاپرواہیوں سے دکھی تھی، اور وہ بیوی کی زبان درازی سے۔ رفتہ رفتہ ہم میں بات چیت ہونے لگی، تو وہ کھانا لینے گھر تک آنے لگا۔مجھے معلوم نہ تھا کہ ایسا دن بھی میری زندگی میں آئے گا۔ ایک روز میں کھانا پکا رہی تھی کہ خدا جانے کیا ہوا، چکر آیا اور میں بے ہوش ہو کر فرش پر گر گئی۔ اسی وقت وہ مجھے سبزی کا تھیلا دینے آیا اور میرے گرنے کی آواز سن لی۔ اس نے کئی بار آواز دی، لیکن میں بے ہوش تھی۔ چھٹی کا دن تھا اور حسبِ معمول شریف اپنے دوستوں کے پاس جا چکے تھے۔
میرے جواب نہ دینے پر زبیر نے دروازے سے جھانک کر دیکھا، تو میں اندر فرش پر پڑی نظر آئی۔ وہ دوڑ کر آیا اور مجھے اٹھا کر بستر پر لٹایا۔ میرے سر پر چوٹ آئی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ اسے شریف کے معمولات کا اندازہ تھا، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے ایک ٹیکسی کی اور مجھے قریبی کلینک لے گیا۔ میں اب بھی بے ہوش تھی۔ اس نے مجھے ٹیکسی کی پچھلی نشست پر لٹایا۔ جب وہ مجھے اٹھا کر باہر لایا، تو مجھے کچھ ہوش آنے لگا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگایا، اور سر پر چھ ٹانکے لگے۔ شدید تکلیف ہوئی۔ اب میں پوری طرح ہوش میں آ چکی تھی۔ میری بیٹی بھی زبیر کے پاس تھی۔ دو گھنٹے کلینک میں رہنے کے بعد جب واپس آئی، تو مکمل ہوش میں تھی۔ زبیر نے مجھے سہارا دے کر بستر تک پہنچایا۔ میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ دل بہت دُکھا کہ آج چھٹی کا دن تھا، اگر شریف گھر پر ہوتے، تو وہی میری دیکھ بھال کرتے۔ میں ایک غیر مرد کے سہارے پر کیوں تھی؟ سارا دن زبیر نے میری خدمت کی۔
رات کو ڈھائی بجے شریف نشے میں دھت گھر آئے اور میرا حال جانے بغیر سو گئے۔ صبح سرسری بات کر کے دفتر چلے گئے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ زبیر نے میری خاطر چھٹی کی، وہ کام پر نہیں گیا تاکہ اگر مجھے کسی وقت ضرورت ہو تو مجھے تکلیف نہ ہو۔ اس کی یہی ہمدردی اور توجہ بعد میں میری بربادی کا سبب بنی۔ تکلیف میں، میں چاہتی تھی کہ کوئی اپنا ہو جو میرا دکھ بانٹ لے — اور وہ پھر اپنا ہو گیا۔ میں پیار کو ترسی ہوئی ایک زخمی عورت تھی، اپنے شوہر کی توجہ سے محروم۔ جب ایک غیر مرد میرے زخموں کا مرہم لایا، تو وہی میرے لیے مسیحا بن گیا۔
میں اس کے ساتھ پٹی کروانے جاتی، سر کے ٹانکے بھی اس نے ہی کھلوائے، دوائیں لا کر دیں، اور چند دن اپنا اور میرا کھانا بازار سے لے آتا۔ خود بھی کھاتا اور مجھے بھی کھلاتا۔ اب وہ بے جھجک میرے گھر آجاتا، کیونکہ گھر کا مالک تو غفلت کے اندھیروں میں گم ہو چکا تھا۔ خدا معاف کرے، شادی شدہ عورت کو بہکنا نہیں چاہیے، لیکن میرے قدم بہک گئے۔ زبیر تو مرد تھا، مگر مجھے اپنے شوہر کی امانت کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں شوہر سے مایوس ہو کر زبیر کی محبت میں کھو گئی۔
یونہی دن گزرتے گئے۔ زبیر اسکول ٹیچر تھا۔ وہ دوپہر دو بجے آجاتا۔ کھانا میرے گھر کھاتا، پھر ہم باتوں میں مشغول ہو جاتے۔ وقت اچھا گزرنے لگا، بلکہ وقت کا احساس بھی نہ رہا اور ہماری دوستی گہری ہوتی گئی۔ اب مجھے شریف سے شدید نفرت ہو گئی تھی — وہ مرد جو اپنی بیوی کو محبت نہ دے سکا۔ چھ سال زبیر ہمارا کرایہ دار رہا، چھ سال ہماری دوستی قائم رہی۔ اس دوران شریف کو ایک بار بھی یہ احساس نہ ہوا کہ اس کی بیوی جوان ہے، اور ایک غیر مرد گھر آتا جاتا ہے، سودا سلف لاتا ہے، ہر گھریلو کام کرتا ہے۔ ان کے لیے یہ سب معمول کی بات تھی، اور یہی بے پرواہی ہمارے قدم بہکانے کا سبب بنی۔
ان چھ سالوں میں میں ایک بیٹے اور پھر ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ میری دیکھ بھال زبیر ہی کرتا رہا۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہ تھی، جبکہ شریف نام کا شوہر تھا۔ اس کی اصل رفاقت اپنے اوباش دوستوں سے تھی، جن کے بغیر وہ ایک قدم نہ چلتا۔ پھر اچانک زبیر کی دوستی ایک غیر مذہب شخص راج سے ہو گئی۔ وہ اس کے گھر آنے جانے لگا۔ میں نے اسے منع کیا کہ تم اس آدمی سے زیادہ میل جول نہ بڑھاؤ، مجھے یہ ٹھیک نہیں لگتا۔ لیکن اس نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔
راج ایک ڈاکٹر تھا، مگر بہت شکی مزاج کا۔ اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی۔ زبیر نے اُسے اپنی بہن بنایا ہوا تھا۔ ایک دن راج کی بیوی نے زبیر کو مٹھائی بھجوائی، راج نے دیکھ لیا۔ اُسے شک ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ اس دن تو وہ لوگ دیوالی منانے گاؤں چلے گئے، لیکن واپسی پر راج نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی کہ اس نے ہمارے گھر میں چوری کی ہے اور گھر کو جلایا ہے۔ زبیر یہ سن کر پریشان ہو گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی ناگہانی مصیبت میں پھنس جائے گا۔
میں پہلے ہی اسے راج سے دوستی سے منع کر چکی تھی کیونکہ وہ لالچی اور شکی مزاج کا انسان تھا۔ زبیر ایسا نہیں تھا، میں اُسے جانتی تھی۔ لیکن جب ایف آئی آر کٹ جائے تو حالات سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پولیس زبیر کو گرفتار کرنے آئی۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ جب آیا تو میں نے اسے سب کچھ بتا دیا اور کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ پولیس تمہیں گرفتار کر لے گی۔ اُس نے میری بات مانی اور کہیں روپوش ہو گیا۔ اُس کا سامان ہمارے گھر ہی پڑا تھا۔
ایک دن اچانک بارش ہوئی، تو مکان کے اُس حصے میں پانی بھر گیا جہاں زبیر رہتا تھا۔ شریف نے اس کا سامان نکالا تو اس میں میری تصویر بھی رکھی تھی۔ پھر جو ہونا تھا وہی ہوا۔ اپنی بیوی کی تصویر کسی غیر مرد کی ڈائری سے نکل آئے، تو کیا ہوتا ہے؟ ہماری شدید لڑائی ہوئی اور بات طلاق تک جا پہنچی۔ دونوں طرف سے بزرگ بلائے گئے۔ میں نے کہا کہ تصویر رقیہ نے دیکھنے کے لیے لی تھی اور واپس کرنا بھول گئی۔ شریف نے کہا کہ اگر رقیہ تصدیق کر دے، تو میں مان لوں گا ورنہ طلاق دے دوں گا۔
رقیہ کو تلاش کیا گیا، مگر وہ کہیں نہ ملی۔ شکر ہے کہ وہ نہ ملی، ورنہ معاملہ سنگین ہو سکتا تھا۔ شریف کا کہنا تھا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں، کیونکہ رقیہ کو گئے چھ سال ہو چکے اور تصویر اتنی پرانی نہیں ہے۔ اس نے زبیر کو بھی تلاش کیا، مگر وہ بھی روپوش ہو چکا تھا۔
خیر، بزرگوں نے بڑی مشکل سے شریف کو سمجھایا کہ صرف تصویر کی بنیاد پر بیوی پر بدچلنی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ خود بھی کامل انسان نہیں تھا۔ انہوں نے اُسے سمجھایا کہ یہ بیچاری تمہارے ساتھ نباہ کر رہی ہے، کم از کم بچوں کا خیال کرو۔ کسی نہ کسی طرح سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کے بعد زندگی روکھی پھیکی سی ہو گئی۔ میں بچوں کی خاطر جبر سہہ رہی ہوں، مگر اپنے شوہر سے شدید نفرت ہو چکی ہے — اُس شخص سے جو مجھے محبت سے محروم رکھ کر ایک بے جان چیز کی طرح گھر میں رکھ کر بھول گیا۔