Bosses
VIP+
Offline
قسط نمبر ایک
زندگی اچانک سے تبدیل ہوگئی تھی۔
سب کچھ ایک دم سے بدل گیا تھا۔ بہاریں اچھی لگتی تھی اور نہ ہی کسی چیز میں کوئی مزہ آ رہا تھا۔
بیڈ روم کی کھڑکی سے آنے والی سورج کی روشنی پہلے کتنی اچھی لگا کرتی تھی لیکن اب اس روشنی میں بھی وہ خوبصورت نہیں رہی تھی۔
نینا ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ باہر سے شان کی زوردار آواز نے جیسے نینا کو ڈرا سا دیا۔
شان زور زور سے چلا رہے تھے کہ جلدی ناشتہ لگاو مجھے آفس سے دیر کرواوں گی کیا؟
یہ سنتے ہی نینا بھاگتی ہوئی کچن کی جانب بھاگی اور فوراً ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا۔
روز کی طرح آج بھی شان کا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔
ایک وہ دن تھا جب شان صبح کا آغاز نینا کے ہونٹوں پر ایک لانگ ڈیپ کس کے ساتھ کرتے تھے اور جب تک یہ کس نہ ہو جاتا شان کو ناشتہ کرنے کا مزہ نہ آتا تھا۔
اور ایک یہ دن تھے کہ شان اور نینا ناشتہ کی ٹیبل پر خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں۔
نینا عمر میں کوئی اٹھائیس برس کی تھی جسم بلکل بائیس سال کی جوان لڑکی کی مانند تھا۔
پتلی کمر کے دکھنے میں لگے کہ ابھی جھکنے سے جسم دو ٹکڑے ہو جائے گا۔
گانڈ بھری بھری ہوئی اور پستان ایسے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔
نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی نینا۔۔۔
شان بھی کوئی کم خوبصورت نہیں تھے پانچ سے دس انچ چوڑا سینا اور بہت ہی خوبصورت سمارٹ جسم کہ کوئی بھی لڑکی فدا ہو جائے
لیکن یہ خوبصورتی صرف باہر کے لوگوں کے لیے تھی نہ کہ ان دونوں کے آپس کے بیچ
ناشتہ کرتے ہوئے نینا نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا کہ آج آفس سے کتنے بجے واپسی ہوگی؟
شان نے غصے میں جواب دیا: کیوں؟؟؟
نینا: جی وہ مجھے کچھ کپڑے لینے بازار جانا تھا تو سوچا آپ آ جائیں تو اکٹھے چلیں گے۔
شان نے دوبارہ غصے کہا کہ تمہارا فضول خرچی کے علاوہ اور کوئی کام ہے بھی یا نہیں؟
اور غصے سے ناشتہ چھوڑتے ہوئے آفس کی طرف نکل گئے۔
نینا بس پیچھے سے جیسے آواز ہی دیتی رہ گئی کہ ناشتہ تو کرتے جائیں۔
نینا پھر وہاں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گئی اور کچھ سوچنے لگی۔
ایک وقت تھا کہ ناشتے کے ٹیبل پر شان کی باتیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں۔
صبح کا آغاز اس طرح سے ہوتا تھا کہ جیسے پورے سال کی خوشیاں آج ہی مل جائیں گی۔
آفس جانے سے پہلے شان نینا کو زور سے گلے لگاتے اور ڈیپ لپ کس کرنے کے بعد روانہ ہوتے۔
یہی سوچتے ہوئے نینا نے ٹیبل سے تمام برتن اٹائے اور کچن میں رکھ کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنا بستر ٹھیک کرنے لگی اور صفائی کے دوران بیڈ کے تکیے کے نیچے سے شان کی تصویر نکالی اور اس تصویر کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر نینا کہیں ماضی میں کھو گئی۔
یہ تصویر آج سے تین سال پرانی تھی جب شان کا رشتہ نینا کے لیے مانگا گیا تھا اور یہ تصویر نینا کو دکھانے کے لیے دی گئی تھی۔
شان تصویر میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ شان اور ان کے والدین آج سے تین سال پہلے نینا کی فیملی کے ساتھ ملے تھے اور انہیں پہلی نظر میں ہی نینا اچھی لگ گئی اور رشتہ مانگ لیا۔
نینا کی امی اور شان کی امی ایک ہی سکول اور کالج میں پڑھی تھیں اور شادی کے بعد پھر دوبارہ اس وقت ملی جب دونوں کے بچے جوان ہوچکے تھے۔
نینا اکلوتی بیٹی جبکہ شان بھی اکلوتا ہی بیٹا تھا۔ دونوں فیملیز کی ملاقات اچانک ایک دن ائیرپورٹ پر ہوگئی۔
شان کی فیملی امریکہ سے آ رہی تھی اور نینا اور اس کی فیملی نینا کے ابو کو سی آف کرنے گئے تھے۔
نینا اس دن کالے شلوار قمیض میں تھی۔ ائیرپورٹ پر ہر بندہ بس نینا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔
جسم ایسا کہ جیسے کسی نے سنگ مرمر کو تراش کے ایک مورت بنا دی ہو۔ کالے لباس میں نینا کا صاف شفاف چہرہ سب کو واضح دکھ رہا تھا۔
پتلی کمر ، گول گانڈ، پستان ایسے کہ دل کرے کہ نظر ہی نہ ہٹے اور ایسے میں شان کی نظر اس پر پڑی تو بس جیسے دیوانہ سا ہوگیا اور ائیرپورٹ پر ہی اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے تو بس نینا سے ہی شادی کرنی ہے۔
نینا کو بھی شان ایک ہی نظر میں جیسے پسند آ گیا ہو اور اسی طرح ائیرپورٹ پر ڈیرھ ساری باتیں کرتے ہوئے دونوں فیملیز اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔
اگلے دن نینا سو کر اٹھی تو امی نے اسے بتایا کہ جلدی سے تیار ہو جاو تمہارے رشتے کے لیے آ رہے ہیں شان اور اس کی فیملی والے۔
یہ سوچ کر جیسے حیران سی ہوگئی کہ ابھی کل ہی ملاقات ہوئی اور آج رشتہ۔۔۔
اتنے میں نینا کی امی نے دوبارہ شان کی امی سے بات کی اور کہا کہ شان کی کچھ تصاویر بھی ساتھ لے آئیے گا فیملی والوں کو دکھانے کے لیے اور یہ کہہ کر کچن میں چلی گئیں۔
نینا ابھی اس تصویر کو لے کر خیالوں میں گم تھی کہ اچانک ڈور بیل بجی اور اسے خیال آیا کہ دودھ والا کب سے بیل دے رہا تھا اور وہ اس تصویر کو ماضی میں ہی گم ہوئی پڑی ہے۔
جلدی سے کچن سے برتن لیا اور دودھ لے کر کچن میں چولہے پر چڑھا آئی ابالنے کے لیے اور دوبارہ کمرے میں آ کر چیزیں سمیٹنے لگی۔
سارا کمرہ صاف کرنے کے بعد وہ فوٹو البم لے کر بیٹھ گئیں اور اپنی منگنی کی تصاویر دیکھنے لگی۔
رشتے سے تو انکار جیسے کیا ہی نہیں تھا نینا یا اس کی فیملی نے اور جٹ پٹ دونوں خاندان ایک ہوگئے تھے۔
اگلے ہفتے ہی منگی کی رسم رکھ دی۔ منگنی والے دن تو جیسے نینا نے قیامت ہی ڈھا دی تھی شان پر
گلابی رنگ کے جوڑے میں کسی گلاب سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ شان کا تو جیسے دل کر رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور یہاں سب کےسامنے نینا کو اپنی بانہوں میں لے لے دنیا سے بے خبر ہو کر پیار میں گم ہو جائے۔
لیکن ایسا ہو نہیں سکتا تھا نینا بھی شان کی آنکھوں میں یہ دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ شان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور دوپٹے سے اپنا سینہ چھپا لیا اور تھوڑا شرما سی گئی۔
وہ رات تو جیسے نینا اور شان کے لیے زندگی کی سب سے لمبی رات تھی ادھر شان نینا کو سوچ سو چ کر تڑپ رہا تھا اور ادھر نینا خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
بس وقت تھا کہ جیسے گزر ہی نہیں رہا تھا۔ ایک دم سے جیسے زندگی میں بہت کچھ حاصل ہوگیا ہو۔۔۔
نینا ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ کچن سے کوئی آواز آئی اور ایک دم سے دوڑتے ہوئے وہ کچن میں گئی اور دیکھا کہ دودھ بوائل ہو کر برتن سے باہر گر گیا تھا اور اپنے آپ کو کوستے ہوئے چولہا صاف کرنے لگی۔
نینا کچن سے واپس آئی اور دوبارہ تصاویر کو دیکھنے لگی اور ماضی میں کھو گئی۔
منگنی کے بعد شان کا نینا کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ شان کو ایک کمپنی میں پروجیکٹ منیجر کی پوسٹ پر نوکری مل گئی تھی اور نینا کا گھر اس کی کمپنی کے راستے میں ہی پڑتا تھا۔
شان ہر دوسرے دن آفس سے واپسی پر نینا کےگھر سے چکر لگاتا ہوا جاتا تھا۔
منگنی کو کوئی تین مہینے ہی گزرے تھے اور شان اب نینا کے گھر ایک فیملی ممبر کی طرح ہو گیا تھا۔
اس لیے اگر کبھی شان نینا کے کمرے میں چلا جائے یا دونوں اکیلے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں تو نینا کے والدین میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
زندگی اچانک سے تبدیل ہوگئی تھی۔
سب کچھ ایک دم سے بدل گیا تھا۔ بہاریں اچھی لگتی تھی اور نہ ہی کسی چیز میں کوئی مزہ آ رہا تھا۔
بیڈ روم کی کھڑکی سے آنے والی سورج کی روشنی پہلے کتنی اچھی لگا کرتی تھی لیکن اب اس روشنی میں بھی وہ خوبصورت نہیں رہی تھی۔
نینا ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ باہر سے شان کی زوردار آواز نے جیسے نینا کو ڈرا سا دیا۔
شان زور زور سے چلا رہے تھے کہ جلدی ناشتہ لگاو مجھے آفس سے دیر کرواوں گی کیا؟
یہ سنتے ہی نینا بھاگتی ہوئی کچن کی جانب بھاگی اور فوراً ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا۔
روز کی طرح آج بھی شان کا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔
ایک وہ دن تھا جب شان صبح کا آغاز نینا کے ہونٹوں پر ایک لانگ ڈیپ کس کے ساتھ کرتے تھے اور جب تک یہ کس نہ ہو جاتا شان کو ناشتہ کرنے کا مزہ نہ آتا تھا۔
اور ایک یہ دن تھے کہ شان اور نینا ناشتہ کی ٹیبل پر خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں۔
نینا عمر میں کوئی اٹھائیس برس کی تھی جسم بلکل بائیس سال کی جوان لڑکی کی مانند تھا۔
پتلی کمر کے دکھنے میں لگے کہ ابھی جھکنے سے جسم دو ٹکڑے ہو جائے گا۔
گانڈ بھری بھری ہوئی اور پستان ایسے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔
نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی نینا۔۔۔
شان بھی کوئی کم خوبصورت نہیں تھے پانچ سے دس انچ چوڑا سینا اور بہت ہی خوبصورت سمارٹ جسم کہ کوئی بھی لڑکی فدا ہو جائے
لیکن یہ خوبصورتی صرف باہر کے لوگوں کے لیے تھی نہ کہ ان دونوں کے آپس کے بیچ
ناشتہ کرتے ہوئے نینا نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا کہ آج آفس سے کتنے بجے واپسی ہوگی؟
شان نے غصے میں جواب دیا: کیوں؟؟؟
نینا: جی وہ مجھے کچھ کپڑے لینے بازار جانا تھا تو سوچا آپ آ جائیں تو اکٹھے چلیں گے۔
شان نے دوبارہ غصے کہا کہ تمہارا فضول خرچی کے علاوہ اور کوئی کام ہے بھی یا نہیں؟
اور غصے سے ناشتہ چھوڑتے ہوئے آفس کی طرف نکل گئے۔
نینا بس پیچھے سے جیسے آواز ہی دیتی رہ گئی کہ ناشتہ تو کرتے جائیں۔
نینا پھر وہاں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گئی اور کچھ سوچنے لگی۔
ایک وقت تھا کہ ناشتے کے ٹیبل پر شان کی باتیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں۔
صبح کا آغاز اس طرح سے ہوتا تھا کہ جیسے پورے سال کی خوشیاں آج ہی مل جائیں گی۔
آفس جانے سے پہلے شان نینا کو زور سے گلے لگاتے اور ڈیپ لپ کس کرنے کے بعد روانہ ہوتے۔
یہی سوچتے ہوئے نینا نے ٹیبل سے تمام برتن اٹائے اور کچن میں رکھ کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنا بستر ٹھیک کرنے لگی اور صفائی کے دوران بیڈ کے تکیے کے نیچے سے شان کی تصویر نکالی اور اس تصویر کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر نینا کہیں ماضی میں کھو گئی۔
یہ تصویر آج سے تین سال پرانی تھی جب شان کا رشتہ نینا کے لیے مانگا گیا تھا اور یہ تصویر نینا کو دکھانے کے لیے دی گئی تھی۔
شان تصویر میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ شان اور ان کے والدین آج سے تین سال پہلے نینا کی فیملی کے ساتھ ملے تھے اور انہیں پہلی نظر میں ہی نینا اچھی لگ گئی اور رشتہ مانگ لیا۔
نینا کی امی اور شان کی امی ایک ہی سکول اور کالج میں پڑھی تھیں اور شادی کے بعد پھر دوبارہ اس وقت ملی جب دونوں کے بچے جوان ہوچکے تھے۔
نینا اکلوتی بیٹی جبکہ شان بھی اکلوتا ہی بیٹا تھا۔ دونوں فیملیز کی ملاقات اچانک ایک دن ائیرپورٹ پر ہوگئی۔
شان کی فیملی امریکہ سے آ رہی تھی اور نینا اور اس کی فیملی نینا کے ابو کو سی آف کرنے گئے تھے۔
نینا اس دن کالے شلوار قمیض میں تھی۔ ائیرپورٹ پر ہر بندہ بس نینا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔
جسم ایسا کہ جیسے کسی نے سنگ مرمر کو تراش کے ایک مورت بنا دی ہو۔ کالے لباس میں نینا کا صاف شفاف چہرہ سب کو واضح دکھ رہا تھا۔
پتلی کمر ، گول گانڈ، پستان ایسے کہ دل کرے کہ نظر ہی نہ ہٹے اور ایسے میں شان کی نظر اس پر پڑی تو بس جیسے دیوانہ سا ہوگیا اور ائیرپورٹ پر ہی اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے تو بس نینا سے ہی شادی کرنی ہے۔
نینا کو بھی شان ایک ہی نظر میں جیسے پسند آ گیا ہو اور اسی طرح ائیرپورٹ پر ڈیرھ ساری باتیں کرتے ہوئے دونوں فیملیز اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔
اگلے دن نینا سو کر اٹھی تو امی نے اسے بتایا کہ جلدی سے تیار ہو جاو تمہارے رشتے کے لیے آ رہے ہیں شان اور اس کی فیملی والے۔
یہ سوچ کر جیسے حیران سی ہوگئی کہ ابھی کل ہی ملاقات ہوئی اور آج رشتہ۔۔۔
اتنے میں نینا کی امی نے دوبارہ شان کی امی سے بات کی اور کہا کہ شان کی کچھ تصاویر بھی ساتھ لے آئیے گا فیملی والوں کو دکھانے کے لیے اور یہ کہہ کر کچن میں چلی گئیں۔
نینا ابھی اس تصویر کو لے کر خیالوں میں گم تھی کہ اچانک ڈور بیل بجی اور اسے خیال آیا کہ دودھ والا کب سے بیل دے رہا تھا اور وہ اس تصویر کو ماضی میں ہی گم ہوئی پڑی ہے۔
جلدی سے کچن سے برتن لیا اور دودھ لے کر کچن میں چولہے پر چڑھا آئی ابالنے کے لیے اور دوبارہ کمرے میں آ کر چیزیں سمیٹنے لگی۔
سارا کمرہ صاف کرنے کے بعد وہ فوٹو البم لے کر بیٹھ گئیں اور اپنی منگنی کی تصاویر دیکھنے لگی۔
رشتے سے تو انکار جیسے کیا ہی نہیں تھا نینا یا اس کی فیملی نے اور جٹ پٹ دونوں خاندان ایک ہوگئے تھے۔
اگلے ہفتے ہی منگی کی رسم رکھ دی۔ منگنی والے دن تو جیسے نینا نے قیامت ہی ڈھا دی تھی شان پر
گلابی رنگ کے جوڑے میں کسی گلاب سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ شان کا تو جیسے دل کر رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور یہاں سب کےسامنے نینا کو اپنی بانہوں میں لے لے دنیا سے بے خبر ہو کر پیار میں گم ہو جائے۔
لیکن ایسا ہو نہیں سکتا تھا نینا بھی شان کی آنکھوں میں یہ دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ شان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور دوپٹے سے اپنا سینہ چھپا لیا اور تھوڑا شرما سی گئی۔
وہ رات تو جیسے نینا اور شان کے لیے زندگی کی سب سے لمبی رات تھی ادھر شان نینا کو سوچ سو چ کر تڑپ رہا تھا اور ادھر نینا خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
بس وقت تھا کہ جیسے گزر ہی نہیں رہا تھا۔ ایک دم سے جیسے زندگی میں بہت کچھ حاصل ہوگیا ہو۔۔۔
نینا ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ کچن سے کوئی آواز آئی اور ایک دم سے دوڑتے ہوئے وہ کچن میں گئی اور دیکھا کہ دودھ بوائل ہو کر برتن سے باہر گر گیا تھا اور اپنے آپ کو کوستے ہوئے چولہا صاف کرنے لگی۔
نینا کچن سے واپس آئی اور دوبارہ تصاویر کو دیکھنے لگی اور ماضی میں کھو گئی۔
منگنی کے بعد شان کا نینا کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ شان کو ایک کمپنی میں پروجیکٹ منیجر کی پوسٹ پر نوکری مل گئی تھی اور نینا کا گھر اس کی کمپنی کے راستے میں ہی پڑتا تھا۔
شان ہر دوسرے دن آفس سے واپسی پر نینا کےگھر سے چکر لگاتا ہوا جاتا تھا۔
منگنی کو کوئی تین مہینے ہی گزرے تھے اور شان اب نینا کے گھر ایک فیملی ممبر کی طرح ہو گیا تھا۔
اس لیے اگر کبھی شان نینا کے کمرے میں چلا جائے یا دونوں اکیلے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں تو نینا کے والدین میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔