Master Mind
Premium
Offline
- Thread Author
- #1
اپنے سفید جوتوں پر پالش کررہا تھا کہ میری بیوی نے کہا، ’’زیدی صاحب آئے ہیں!‘‘
میں نے جوتے اپنی بیوی کے حوالے کیے اور ہاتھ دھو کر دوسرے کمرے میں چلا آیا جہاں زیدی بیٹھا تھا میں نے اس کی طرف غورسے دیکھا، ’’ارے ! کیا ہوگیا ہے تمہیں؟‘‘ زیدی نے اپنے چہرے کو شگفتہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جوا ب دیا، ’’بیمار رہا ہوں۔‘‘ میں اس کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا، ’’بہت دبلے ہوگئے ہو یار۔ میں نے تو پہلے پہچانا ہی نہیں تھا تمہیں۔۔۔ کیا بیماری تھی؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
زیدی نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا بیماری ہے؟‘‘
’’ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘
’’کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔‘‘
زیدی خاموش رہا تو میں نے پھر اس سے کہا،’’کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
زیدی پھر خاموش رہا۔ جواب دینے کے بجائے اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں، ’’میرا خیال ہے زیدی !تمہارا نروس سسٹم خراب ہوگیا ہے وٹامن بی کے انجکشن لگوانا شروع کردو، بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ پچھلے برس زیادہ وسکی پینے سے میرا یہی حال ہوگیا تھا، لیکن بارہ انجکشن لینے سے کمزوری دور ہوگئی تھی۔ مگر تم کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کیوں نہیں لیتے؟‘‘زیدی نے اپنا چشمہ اتار کررومال سے صاف کرنا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا، ’’کیا رات کو نیند نہیں آتی؟‘‘
’’بہت کم۔‘‘
’’دماغ میں خشکی ہوگی۔‘‘
’’جانے کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک دم سنجیدہ ہوگیا، ’’دیکھو سعادت میں تمہیں ایک عجیب و غریب بات بتانے آیا ہوں۔ مجھے بیماری ویماری کچھ نہیں۔ رات کو نیند اس لیے نہیں آتی کہ میں ڈرتا رہتا ہوں۔‘‘
’’ڈرتے رہتے ہو۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگایا اور بجھی ہوئی تیلی کو توڑنا شروع کردیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں سن کر تم کیا کہو گے۔ مگر یہ واقعہ یہ، بلے سے۔۔۔‘‘
میں شاید مسکرا دیا تھا کیونکہ زیدی نے فوراً ہی بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’ہنسو نہیں۔۔۔ یہ حقیقت ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ انسانی نفسیات سے تمہیں دلچسپی کافی ہے۔ شاید تم میرے ڈر کی وجہ بتا سکو۔‘‘
میں نے کہا،’’لیکن یہاں تو سوال ایک حیوان کا ہے۔‘‘ زیدی خفا ہوگیا، ’’تم مذاق اڑاتے ہوتو میں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں زیدی! مجھے معاف کردو۔۔۔ میں پوری توجہ سے سنوں گا، جو تم کہو گے۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے اور نیا سگریٹ سلگانے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا،’’تمہیں معلوم ہے جہاں میں رہتا ہوں، دو کمرے ہیں، پہلے کمرے کے اس طرف چھوٹی سی بالکنی ہے جس کے کٹہرے میں لوہے کی سلاخیں لگی ہیں۔ اپریل اور مئی کے دو مہینے چونکہ بہت گرم ہوتے ہیں اس لیے فرش پر بستر بچھا کر میں اس بالکنی میں سویا کرتا ہوں۔۔۔ یہ جون کا مہینہ ہے۔ اپریل کی بات ہے میں صبح ناشتے سے فارغ ہو کر دفتر جانے کے لیے باہر نکلا دروازہ کھولا تو دہلیز کے پاس ایک موٹا بِلّا آنکھیں بند کیے لیٹا نظر آیا۔ میں نے جوتے سے اسے ٹہوکا دیا۔ اس نے ایک لحظے کے لیے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف بے پروائی سے، جیسے میں کچھ بھی نہیں، دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔
مجھے بڑا تعجب ہوا ،چنانچہ میں نے بڑے زور سے اس کے ٹھوکر ماری۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف پھر اسی نظر سے دیکھا اور اٹھ کر کچھ دور سیڑھیوں کے پاس لیٹ گیا۔ جس انداز سے اس نے چند قدم اٹھائے تھے، اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے مرعوب نہیں ہوا۔ مجھے سخت غصّہ آیا۔ آگے بڑھ کر اب کی میں نے زور سے ٹھوکر ماری۔ دس پندرہ زینوں پر وہ لڑکھڑاتا ہوا چلا گیا۔ جب چار پیروں پر سنبھلا تو اس نے نیچے سے اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گردن موڑ کر کوئی آواز پیدا کیے بغیر ایک طرف چلا گیا۔۔۔ تم دلچسپی لے رہے ہو یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں!‘‘
زیدی نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور سلسلہ کلام جاری کیا، ’’دفتر پہنچ کر میں سب کچھ بھول گیا لیکن شام کو جب گھر لوٹا اور کمرے کی دہلیز کے پاس پہنچا جہاں وہ بِلّا لیٹا ہوا تھا تو صبح کا واقعہ دماغ میں تازہ ہوگیا۔ نہاتے، چائے پیتے، رات کا کھانا کھاتے کئی دفعہ میں نے سوچا۔ تین دفعہ میں نے اس کی پسلیوں میں زور سے ٹھوکرماری، مجھ سے وہ ڈرا کیوں نہیں؟ میاؤں تک بھی نہ کی اس نے اور پھر کیا انداز تھا اس کے چلنے، آنکھیں بند کرنے اور کھولنے کا، ایسا لگتا تھا جیسے اسے کچھ پروا ہی نہیں۔ جب میں ضرورت سے زیادہ اس بلے کے بارے میں سوچنے لگا تو بڑی الجھن ہوئی۔ ایک معمولی سے حیوان کو اتنی اہمیت آخر میں کیوں دے رہا تھا، اس کا جواب نہ مجھے اس وقت ملا اور نہ اب، حالانکہ پورے تین مہینے گزر چکے ہیں۔‘‘ اس قدر کہہ کر زیدی خاموش ہوگیا۔ میں نے پوچھا، ’’بس!‘‘
’’نہیں۔‘‘ زیدی نے سگریٹ کو ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے کہا،’’میں صرف تم سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس بِلّے کو میں نے اتنی اہمیت کیوں دی ہے، میں اتنا خوف کیوں کھاتا ہوں۔ یہ معما ابھی تک مجھ سے حل نہیں ہوسکا۔ شاید تم مجھ سے بہتر سوچ سکو۔ ‘‘میں نے کہا،’’ مجھے پورے واقعات معلوم ہونے چاہئیں۔‘‘
زیدی نے ایش ٹرے پر سے سگریٹ اٹھایا اور ایک کش لے کر کہا،’’میں بتا رہا ہوں۔ اس روز کے بعد کئی دن گزر گئے مگر وہ بلا نظر نہ آیا۔ شاید ہفتے کی رات تھی۔ میں باہر بالکنی میں سورہا تھا۔ دو بجے کے قریب کمرے میں کچھ شور ہوا جس سے میری نیند کھل گئی۔ اٹھ کر روشنی کی تو میں نے دیکھا کہ وہی بِلا کھانے والی میز پر کھڑا ڈش کا سر پوش اتار کر پڈنگ کھا رہا ہے۔ میں نے شُش، شُش کی مگر وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ میری طرف اس نے بالکل نہ دیکھا۔ میں نے چپل کا ایک پیر اٹھایا اور نشانہ تان کر زور سے مارا۔ چپل اس کے پیٹ پر لگا مگر وہ اس چوٹ سے بے پروا پڈنگ کھاتا رہا۔ میں نے غصے میں آکر مسہری کا ڈنڈا اٹھایا اور پاس جا کر اس کی پیٹھ پر مارا۔
اس نے اور زیادہ بے پروائی سے میری طرف دیکھا۔ بڑے آرام سے کرسی پر کودا۔ آواز پیدا کیے بغیر فرش پر اترا اور آہستہ آہستہ ٹہلتا بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ میں حیران وہیں کھڑا رہا اور سوچنے لگا یہ کیسا حیوان ہے جس پر مار کا کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ سعادت! میں تم سے سچ کہتا ہوں بڑا خوفناک بلا ہے۔ یہ موٹا سر، رنگ سفید ہے، لیکن اکثر میلا رہتا ہے۔ میں نے ایسا غلیظ بلا اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔‘‘
زیدی نے ایش ٹرے میں سگریٹ بجھایا اور خاموش ہوگیا۔میں نے کہا، ’’بلّے بِلّیاں تو خود کو بہت صاف ستھرا رکھتے ہیں۔‘‘
’’رکھتے ہیں۔‘‘ زیدی اٹھ کھڑا ہوا، ’’لیکن یہ بلا شاید جان بوجھ کر خود کو غلیظ رکھتا ہے۔ لیٹتا ہے کوڑے کرکٹ کے پاس۔ کان سے لہو بہہ رہا ہے پر مجال ہے، اسے چاٹ کرصاف کرے۔۔۔ سر پھٹا ہوا ہے، پر اسے کچھ ہوش نہیں۔ بس، سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’لیکن اس میں خوف کھانے کی کیا بات ہے؟‘‘
زیدی بیٹھ گیا، ’’یہی تو میں خود دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ ڈر کی یوں تو ایک وجہ ہو بھی سکتی ہے۔ وہ یہ کہ دس پندرہ راتیں متواتر وہ مجھے جگاتا رہا۔ مجھ سے ہر دفعہ اس نے مار کھائی۔ بہت بری طرح پٹا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ میرے گھر کا رخ نہ کرتا کیونکہ آخرحیوانوں میں بھی عقل ہوتی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ کسی روز ایسا نہ ہو مجھ پر جھپٹ پڑے اور آنکھ وانکھ نوچ لے۔ سننے میں آیا ہے کہ اگر کسی بلے یا بلی کو گھیر کر مارا جائے تو وہ ضرور حملہ کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ڈرنے کی یہ وجہ تو معقول ہے۔‘‘ زیدی پھر اٹھ کھڑا ہوا، ’’لیکن اس سے میری تسکین نہیں ہوتی۔‘‘
میرے دماغ میں ایک خیال آیا، ’’تم اس کے ساتھ محبت پیار سے تو پیش آکر دیکھو۔‘‘
’’میں ایسا کر چکا ہوں۔۔۔ میرا خیال تھا اس قدر پٹنے پر وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گا لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔ برعکس بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس نے میرے پیار کی بالکل پروا نہ کی۔ ایک روز میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ وہ پاس آکر فرش پر بیٹھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس نے آنکھیں میچ لیں۔ یہ بڑھا ہوا ہاتھ میں نے اس کی پیٹھ پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کیا۔۔۔ سعادت، تم یقین کرو وہ ویسے کا ویسا آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ پیار کا جواب بلے بلیاں اکثر دم ہلا کر دیتے ہیں لیکن اس کم بخت کی دم کا ایک بال بھی نہ ہلا۔۔۔ میں نے تنگ آکر اس کے سر پر کتاب دے ماری ،چوٹ کھا کر وہ اٹھا۔ بڑی بے پروائی، ایک نہایت ہی دل شکن بے اعتنائی سے میری طرف پیلی پیلی آنکھوں سے دیکھا اور بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ بس اس دن سے چوبیس گھنٹے وہ میرے دماغ میں رہنے لگا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر زیدی میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور زور زور سے اپنی ٹانگ ہلانے لگا۔
میں نے صرف اتنا کہا، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ لیکن اتنا ضرور سمجھ میں آتا تھاکہ زیدی کا خوف بے بنیاد نہیں۔زیدی دانتوں سے ناخن کاٹنے لگا۔ ’’میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے پاس آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد رکا اور ایش ٹرے میں بجھی ہوئی دیا سلائی اٹھا کر اس کے ٹکڑے کرنے لگا، ’’اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ رات بھر جاگتا رہتا ہوں۔ ذرا سی آہٹ ہوتی ہے تو سمجھتا ہوں وہی بلا ہے۔ لیکن آٹھ روز سے وہ کہیں غائب ہے۔ معلوم نہیں کسی نے مار ڈالا ہے، بیمار ہے یا کہیں اور چلا گیا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’تم کیوں سوچتے ہو۔ اچھا ہے جو غائب ہوگیا ہے۔‘‘
’’معلوم نہیں کیوں سوچتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس کم بخت کو بھول جاؤں مگر دماغ میں سے نکلتا ہی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر سر کے نیچے گدی رکھ کر لیٹ گیا۔ ’’عجیب ہی قصّہ ہے کوئی اور سنے تو ہنسے کہ ایک بلے نے میری یہ حالت کردی ہے۔ بعض اوقات مجھے خود ہنسی آتی ہے۔۔۔ لیکن یہ ہنسی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔‘‘
زیدی نے یہ کہا اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی اپنی بے بسی پر ہنستے ہوئے اسے بہت تکلیف ہوتی ہوگی جو کچھ، اس نے بیان کیا تھا، بظاہر مضحکہ خیز تھا۔ لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ اس بلے کے وجود میں زیدی کی زندگی کا کوئی بہت ہی اذیت دہ لمحہ پوشیدہ تھا۔ایسا لمحہ جو اسے اب بالکل یاد نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’زیدی تمہارے ماضی میں کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جس سے تم اس بلے کو متعلق کرسکو۔ میرا مطلب ہے کوئی ایسی چیز، کوئی ایسا واقعہ جس سے تم نے خوف کھایا ہو اور اس چیز یا واقعے کی شباہت اس بلے سے ملتی ہو؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے سوچا کہ واقعے کی شباہت بلے سے کیسے مل سکتی ہے۔ زیدی نے جوا ب دیا، ’’میں اس پر بھی غور کر چکا ہوں۔ میرے حافظے میں ایسا کوئی واقعہ یا ایسی کوئی چیز نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ممکن ہے کبھی یاد آجائے۔‘‘
’’ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر زیدی صوفے پر سے اٹھا۔ چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور مجھے اور میری بیوی کو اتوار کی دعوت دے کر چلا گیا۔
اتوار کو میں اور میری بیوی سنٹا کروز گئے۔ میں نے شاید آپ کو پہلے نہیں بتایا، زیدی میرا پرانا دوست ہے،انٹرنس تک ہم دونوں ایک ہی اسکول میں تھے۔ کالج میں بھی ہم دو برس ایک ساتھ رہے۔ میں فیل ہوگیا اور وہ ایف اے پاس کرکے امرتسر چھوڑ کر لاہور چلا گیا،جہاں اس نے ایم اے کیا اور چار پانچ برس بے کار رہنے کے بعد بمبئی چلا آیا۔ یہاں وہ ایک برس سے جہازوں کی ایک کمپنی میں ملازم تھا۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد۔۔۔ ہم دیر تک نئے اور پرانے فلموں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ زیدی کی بیوی اور میری بیوی،دونوں ’’بہت فلم دیکھو‘‘ قسم کی عورتیں ہیں، چنانچہ اس گفتگو میں زیادہ حصّہ انہی کا تھا۔ دونوں اٹھ کر دوسرے کمرے میں جانے ہی والی تھیں کہ بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں سے ایک موٹا بلا اندر داخل ہوا۔میں نے اور زیدی نے بیک وقت اس کی طرف دیکھا۔ زیدی کے چہرے سے مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ وہی بلا ہے۔
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ سر پر کانوں کے پاس ایک گہرا زخم تھا جس پر ہلدی لگی ہوئی تھی۔ بال بے حد میلے تھے۔ چال میں جیسا کہ زیدی نے کہا تھا کہ ایک عجیب قسم کی بے پروائی تھی۔ ہم چار آدمی کمرے میں موجود تھے مگر اس نے کسی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ جب میری بیوی کے پاس سے گزرا تووہ چیخ اٹھی، ’’یہ کیسا بلا ہے سعادت صاحب۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘ میری بیوی نے جواب دیا۔ ’’پورا بدمعاش لگتا ہے۔‘‘ زیدی نے بوکھلا کر کہا، ’’بدمعاش۔‘‘ میری بیوی شرما گئی، ’’جی ہاں، ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘
زیدی کچھ سوچنے لگا۔ دونوں عورتیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد زیدی اٹھا، ’’سعادت، ذرا ادھر آؤ۔‘‘ مجھے بالکنی میں لے جا کر اس نے کہا، ’’معمہ حل ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تمہاری بیوی نے حل کردیا ہے۔۔۔ تم بھی سوچو کیا اس بلے کی شکل مس ٹین والے سے نہیں ملتی؟‘‘
’’مس ٹین والے سے؟‘‘
’’ ہاں ہاں۔ اس بدمعاش سے جو ہمارے اسکول کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ مصطفےٰ جسے مس ٹین والا کہا کرتے تھے۔‘‘
مجھے یاد آگیا۔ زیدی پر جو لڑکپن میں بہت خوبصورت تھا، مس ٹین والے کی خاص نظر تھی۔ لیکن میں سوچنے لگا بلے سے اس کی شکل کیسے ملتی ہے،نہیں ملتی تھی، اس کی چال میں بھی کچھ ایسے ہی بے پروائی تھی۔ سر اکثر پھٹا رہتا تھا۔ کئی دفعہ ہیڈماسٹر صاحب نے اسے لوگوں سے پٹوایا کہ وہ اسکول کے دروازے کے پاس نہ کھڑا رہا کرے، مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ ایک لڑکے کے باپ نے اسے ہاکی سے اتنا مارا، اتنا مارا کہ لوگوں کا خیال تھا ہسپتال میں مر جائے گا، مگر دوسرے ہی روز وہ پھر اسکول کے گیٹ کے باہر موجود تھا۔یہ سب باتیں ایک لحظے کے اندر اندر میرے دماغ میں ابھریں۔ میں نے زیدی سے کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو، مس ٹین والا بھی مار کھا کر خاموش رہا کرتا تھا۔‘‘
زیدی نے جواب نہ دیا، اس لیےکہ وہ کچھ یاد کررہا تھا۔چند لمحات خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، ’’میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ پڑھنے کے لیے ایک دفعہ اکیلا کمپنی باغ چلا گیا، ایک درخت کے نیچے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک مس ٹین والا نمودار ہوا۔ ہاتھ میں ایک خط تھا ،مجھ سے کہنے لگا،’’بابو جی، خط پڑھ دیجیے۔‘‘ میری جان ہوا ہو گئی۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔
مس ٹین والے نے خط میری ران پر بچھا دیا۔ میں اٹھ بھاگا۔ اس نے میرا پیچھا کیا۔ لیکن میں اس قدر تیز دوڑا کہ وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ گھر پہنچتے ہی مجھے تیز بخار چڑھا۔ دو دن تک ہذیانی کیفیت رہی۔ میری والدہ کا خیال تھا کہ جس درخت کے نیچے میں پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا۔ آسیب زدہ تھا۔
زیدی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ بلا ہماری ٹانگوں میں سے گزر کر کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکلا اور چھجے پر کود گیا۔ چھجے پر چند قدم چل کر اس نے مڑکر پیلی پیلی آنکھوں سے ہماری طرف اپنی مخصوص بے پروائی سے دیکھا۔میں نے مسکرا کرکہا:
’’مس ٹین والا!‘‘ زیدی جھینپ گیا۔
میں نے جوتے اپنی بیوی کے حوالے کیے اور ہاتھ دھو کر دوسرے کمرے میں چلا آیا جہاں زیدی بیٹھا تھا میں نے اس کی طرف غورسے دیکھا، ’’ارے ! کیا ہوگیا ہے تمہیں؟‘‘ زیدی نے اپنے چہرے کو شگفتہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جوا ب دیا، ’’بیمار رہا ہوں۔‘‘ میں اس کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا، ’’بہت دبلے ہوگئے ہو یار۔ میں نے تو پہلے پہچانا ہی نہیں تھا تمہیں۔۔۔ کیا بیماری تھی؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
زیدی نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا بیماری ہے؟‘‘
’’ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘
’’کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔‘‘
زیدی خاموش رہا تو میں نے پھر اس سے کہا،’’کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
زیدی پھر خاموش رہا۔ جواب دینے کے بجائے اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں، ’’میرا خیال ہے زیدی !تمہارا نروس سسٹم خراب ہوگیا ہے وٹامن بی کے انجکشن لگوانا شروع کردو، بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ پچھلے برس زیادہ وسکی پینے سے میرا یہی حال ہوگیا تھا، لیکن بارہ انجکشن لینے سے کمزوری دور ہوگئی تھی۔ مگر تم کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کیوں نہیں لیتے؟‘‘زیدی نے اپنا چشمہ اتار کررومال سے صاف کرنا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا، ’’کیا رات کو نیند نہیں آتی؟‘‘
’’بہت کم۔‘‘
’’دماغ میں خشکی ہوگی۔‘‘
’’جانے کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک دم سنجیدہ ہوگیا، ’’دیکھو سعادت میں تمہیں ایک عجیب و غریب بات بتانے آیا ہوں۔ مجھے بیماری ویماری کچھ نہیں۔ رات کو نیند اس لیے نہیں آتی کہ میں ڈرتا رہتا ہوں۔‘‘
’’ڈرتے رہتے ہو۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگایا اور بجھی ہوئی تیلی کو توڑنا شروع کردیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں سن کر تم کیا کہو گے۔ مگر یہ واقعہ یہ، بلے سے۔۔۔‘‘
میں شاید مسکرا دیا تھا کیونکہ زیدی نے فوراً ہی بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’ہنسو نہیں۔۔۔ یہ حقیقت ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ انسانی نفسیات سے تمہیں دلچسپی کافی ہے۔ شاید تم میرے ڈر کی وجہ بتا سکو۔‘‘
میں نے کہا،’’لیکن یہاں تو سوال ایک حیوان کا ہے۔‘‘ زیدی خفا ہوگیا، ’’تم مذاق اڑاتے ہوتو میں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں زیدی! مجھے معاف کردو۔۔۔ میں پوری توجہ سے سنوں گا، جو تم کہو گے۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے اور نیا سگریٹ سلگانے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا،’’تمہیں معلوم ہے جہاں میں رہتا ہوں، دو کمرے ہیں، پہلے کمرے کے اس طرف چھوٹی سی بالکنی ہے جس کے کٹہرے میں لوہے کی سلاخیں لگی ہیں۔ اپریل اور مئی کے دو مہینے چونکہ بہت گرم ہوتے ہیں اس لیے فرش پر بستر بچھا کر میں اس بالکنی میں سویا کرتا ہوں۔۔۔ یہ جون کا مہینہ ہے۔ اپریل کی بات ہے میں صبح ناشتے سے فارغ ہو کر دفتر جانے کے لیے باہر نکلا دروازہ کھولا تو دہلیز کے پاس ایک موٹا بِلّا آنکھیں بند کیے لیٹا نظر آیا۔ میں نے جوتے سے اسے ٹہوکا دیا۔ اس نے ایک لحظے کے لیے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف بے پروائی سے، جیسے میں کچھ بھی نہیں، دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔
مجھے بڑا تعجب ہوا ،چنانچہ میں نے بڑے زور سے اس کے ٹھوکر ماری۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف پھر اسی نظر سے دیکھا اور اٹھ کر کچھ دور سیڑھیوں کے پاس لیٹ گیا۔ جس انداز سے اس نے چند قدم اٹھائے تھے، اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے مرعوب نہیں ہوا۔ مجھے سخت غصّہ آیا۔ آگے بڑھ کر اب کی میں نے زور سے ٹھوکر ماری۔ دس پندرہ زینوں پر وہ لڑکھڑاتا ہوا چلا گیا۔ جب چار پیروں پر سنبھلا تو اس نے نیچے سے اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گردن موڑ کر کوئی آواز پیدا کیے بغیر ایک طرف چلا گیا۔۔۔ تم دلچسپی لے رہے ہو یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں!‘‘
زیدی نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور سلسلہ کلام جاری کیا، ’’دفتر پہنچ کر میں سب کچھ بھول گیا لیکن شام کو جب گھر لوٹا اور کمرے کی دہلیز کے پاس پہنچا جہاں وہ بِلّا لیٹا ہوا تھا تو صبح کا واقعہ دماغ میں تازہ ہوگیا۔ نہاتے، چائے پیتے، رات کا کھانا کھاتے کئی دفعہ میں نے سوچا۔ تین دفعہ میں نے اس کی پسلیوں میں زور سے ٹھوکرماری، مجھ سے وہ ڈرا کیوں نہیں؟ میاؤں تک بھی نہ کی اس نے اور پھر کیا انداز تھا اس کے چلنے، آنکھیں بند کرنے اور کھولنے کا، ایسا لگتا تھا جیسے اسے کچھ پروا ہی نہیں۔ جب میں ضرورت سے زیادہ اس بلے کے بارے میں سوچنے لگا تو بڑی الجھن ہوئی۔ ایک معمولی سے حیوان کو اتنی اہمیت آخر میں کیوں دے رہا تھا، اس کا جواب نہ مجھے اس وقت ملا اور نہ اب، حالانکہ پورے تین مہینے گزر چکے ہیں۔‘‘ اس قدر کہہ کر زیدی خاموش ہوگیا۔ میں نے پوچھا، ’’بس!‘‘
’’نہیں۔‘‘ زیدی نے سگریٹ کو ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے کہا،’’میں صرف تم سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس بِلّے کو میں نے اتنی اہمیت کیوں دی ہے، میں اتنا خوف کیوں کھاتا ہوں۔ یہ معما ابھی تک مجھ سے حل نہیں ہوسکا۔ شاید تم مجھ سے بہتر سوچ سکو۔ ‘‘میں نے کہا،’’ مجھے پورے واقعات معلوم ہونے چاہئیں۔‘‘
زیدی نے ایش ٹرے پر سے سگریٹ اٹھایا اور ایک کش لے کر کہا،’’میں بتا رہا ہوں۔ اس روز کے بعد کئی دن گزر گئے مگر وہ بلا نظر نہ آیا۔ شاید ہفتے کی رات تھی۔ میں باہر بالکنی میں سورہا تھا۔ دو بجے کے قریب کمرے میں کچھ شور ہوا جس سے میری نیند کھل گئی۔ اٹھ کر روشنی کی تو میں نے دیکھا کہ وہی بِلا کھانے والی میز پر کھڑا ڈش کا سر پوش اتار کر پڈنگ کھا رہا ہے۔ میں نے شُش، شُش کی مگر وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ میری طرف اس نے بالکل نہ دیکھا۔ میں نے چپل کا ایک پیر اٹھایا اور نشانہ تان کر زور سے مارا۔ چپل اس کے پیٹ پر لگا مگر وہ اس چوٹ سے بے پروا پڈنگ کھاتا رہا۔ میں نے غصے میں آکر مسہری کا ڈنڈا اٹھایا اور پاس جا کر اس کی پیٹھ پر مارا۔
اس نے اور زیادہ بے پروائی سے میری طرف دیکھا۔ بڑے آرام سے کرسی پر کودا۔ آواز پیدا کیے بغیر فرش پر اترا اور آہستہ آہستہ ٹہلتا بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ میں حیران وہیں کھڑا رہا اور سوچنے لگا یہ کیسا حیوان ہے جس پر مار کا کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ سعادت! میں تم سے سچ کہتا ہوں بڑا خوفناک بلا ہے۔ یہ موٹا سر، رنگ سفید ہے، لیکن اکثر میلا رہتا ہے۔ میں نے ایسا غلیظ بلا اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔‘‘
زیدی نے ایش ٹرے میں سگریٹ بجھایا اور خاموش ہوگیا۔میں نے کہا، ’’بلّے بِلّیاں تو خود کو بہت صاف ستھرا رکھتے ہیں۔‘‘
’’رکھتے ہیں۔‘‘ زیدی اٹھ کھڑا ہوا، ’’لیکن یہ بلا شاید جان بوجھ کر خود کو غلیظ رکھتا ہے۔ لیٹتا ہے کوڑے کرکٹ کے پاس۔ کان سے لہو بہہ رہا ہے پر مجال ہے، اسے چاٹ کرصاف کرے۔۔۔ سر پھٹا ہوا ہے، پر اسے کچھ ہوش نہیں۔ بس، سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’لیکن اس میں خوف کھانے کی کیا بات ہے؟‘‘
زیدی بیٹھ گیا، ’’یہی تو میں خود دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ ڈر کی یوں تو ایک وجہ ہو بھی سکتی ہے۔ وہ یہ کہ دس پندرہ راتیں متواتر وہ مجھے جگاتا رہا۔ مجھ سے ہر دفعہ اس نے مار کھائی۔ بہت بری طرح پٹا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ میرے گھر کا رخ نہ کرتا کیونکہ آخرحیوانوں میں بھی عقل ہوتی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ کسی روز ایسا نہ ہو مجھ پر جھپٹ پڑے اور آنکھ وانکھ نوچ لے۔ سننے میں آیا ہے کہ اگر کسی بلے یا بلی کو گھیر کر مارا جائے تو وہ ضرور حملہ کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ڈرنے کی یہ وجہ تو معقول ہے۔‘‘ زیدی پھر اٹھ کھڑا ہوا، ’’لیکن اس سے میری تسکین نہیں ہوتی۔‘‘
میرے دماغ میں ایک خیال آیا، ’’تم اس کے ساتھ محبت پیار سے تو پیش آکر دیکھو۔‘‘
’’میں ایسا کر چکا ہوں۔۔۔ میرا خیال تھا اس قدر پٹنے پر وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گا لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔ برعکس بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس نے میرے پیار کی بالکل پروا نہ کی۔ ایک روز میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ وہ پاس آکر فرش پر بیٹھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس نے آنکھیں میچ لیں۔ یہ بڑھا ہوا ہاتھ میں نے اس کی پیٹھ پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کیا۔۔۔ سعادت، تم یقین کرو وہ ویسے کا ویسا آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ پیار کا جواب بلے بلیاں اکثر دم ہلا کر دیتے ہیں لیکن اس کم بخت کی دم کا ایک بال بھی نہ ہلا۔۔۔ میں نے تنگ آکر اس کے سر پر کتاب دے ماری ،چوٹ کھا کر وہ اٹھا۔ بڑی بے پروائی، ایک نہایت ہی دل شکن بے اعتنائی سے میری طرف پیلی پیلی آنکھوں سے دیکھا اور بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ بس اس دن سے چوبیس گھنٹے وہ میرے دماغ میں رہنے لگا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر زیدی میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور زور زور سے اپنی ٹانگ ہلانے لگا۔
میں نے صرف اتنا کہا، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ لیکن اتنا ضرور سمجھ میں آتا تھاکہ زیدی کا خوف بے بنیاد نہیں۔زیدی دانتوں سے ناخن کاٹنے لگا۔ ’’میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے پاس آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد رکا اور ایش ٹرے میں بجھی ہوئی دیا سلائی اٹھا کر اس کے ٹکڑے کرنے لگا، ’’اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ رات بھر جاگتا رہتا ہوں۔ ذرا سی آہٹ ہوتی ہے تو سمجھتا ہوں وہی بلا ہے۔ لیکن آٹھ روز سے وہ کہیں غائب ہے۔ معلوم نہیں کسی نے مار ڈالا ہے، بیمار ہے یا کہیں اور چلا گیا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’تم کیوں سوچتے ہو۔ اچھا ہے جو غائب ہوگیا ہے۔‘‘
’’معلوم نہیں کیوں سوچتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس کم بخت کو بھول جاؤں مگر دماغ میں سے نکلتا ہی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر سر کے نیچے گدی رکھ کر لیٹ گیا۔ ’’عجیب ہی قصّہ ہے کوئی اور سنے تو ہنسے کہ ایک بلے نے میری یہ حالت کردی ہے۔ بعض اوقات مجھے خود ہنسی آتی ہے۔۔۔ لیکن یہ ہنسی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔‘‘
زیدی نے یہ کہا اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی اپنی بے بسی پر ہنستے ہوئے اسے بہت تکلیف ہوتی ہوگی جو کچھ، اس نے بیان کیا تھا، بظاہر مضحکہ خیز تھا۔ لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ اس بلے کے وجود میں زیدی کی زندگی کا کوئی بہت ہی اذیت دہ لمحہ پوشیدہ تھا۔ایسا لمحہ جو اسے اب بالکل یاد نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’زیدی تمہارے ماضی میں کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جس سے تم اس بلے کو متعلق کرسکو۔ میرا مطلب ہے کوئی ایسی چیز، کوئی ایسا واقعہ جس سے تم نے خوف کھایا ہو اور اس چیز یا واقعے کی شباہت اس بلے سے ملتی ہو؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے سوچا کہ واقعے کی شباہت بلے سے کیسے مل سکتی ہے۔ زیدی نے جوا ب دیا، ’’میں اس پر بھی غور کر چکا ہوں۔ میرے حافظے میں ایسا کوئی واقعہ یا ایسی کوئی چیز نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ممکن ہے کبھی یاد آجائے۔‘‘
’’ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر زیدی صوفے پر سے اٹھا۔ چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور مجھے اور میری بیوی کو اتوار کی دعوت دے کر چلا گیا۔
اتوار کو میں اور میری بیوی سنٹا کروز گئے۔ میں نے شاید آپ کو پہلے نہیں بتایا، زیدی میرا پرانا دوست ہے،انٹرنس تک ہم دونوں ایک ہی اسکول میں تھے۔ کالج میں بھی ہم دو برس ایک ساتھ رہے۔ میں فیل ہوگیا اور وہ ایف اے پاس کرکے امرتسر چھوڑ کر لاہور چلا گیا،جہاں اس نے ایم اے کیا اور چار پانچ برس بے کار رہنے کے بعد بمبئی چلا آیا۔ یہاں وہ ایک برس سے جہازوں کی ایک کمپنی میں ملازم تھا۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد۔۔۔ ہم دیر تک نئے اور پرانے فلموں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ زیدی کی بیوی اور میری بیوی،دونوں ’’بہت فلم دیکھو‘‘ قسم کی عورتیں ہیں، چنانچہ اس گفتگو میں زیادہ حصّہ انہی کا تھا۔ دونوں اٹھ کر دوسرے کمرے میں جانے ہی والی تھیں کہ بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں سے ایک موٹا بلا اندر داخل ہوا۔میں نے اور زیدی نے بیک وقت اس کی طرف دیکھا۔ زیدی کے چہرے سے مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ وہی بلا ہے۔
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ سر پر کانوں کے پاس ایک گہرا زخم تھا جس پر ہلدی لگی ہوئی تھی۔ بال بے حد میلے تھے۔ چال میں جیسا کہ زیدی نے کہا تھا کہ ایک عجیب قسم کی بے پروائی تھی۔ ہم چار آدمی کمرے میں موجود تھے مگر اس نے کسی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ جب میری بیوی کے پاس سے گزرا تووہ چیخ اٹھی، ’’یہ کیسا بلا ہے سعادت صاحب۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘ میری بیوی نے جواب دیا۔ ’’پورا بدمعاش لگتا ہے۔‘‘ زیدی نے بوکھلا کر کہا، ’’بدمعاش۔‘‘ میری بیوی شرما گئی، ’’جی ہاں، ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘
زیدی کچھ سوچنے لگا۔ دونوں عورتیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد زیدی اٹھا، ’’سعادت، ذرا ادھر آؤ۔‘‘ مجھے بالکنی میں لے جا کر اس نے کہا، ’’معمہ حل ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تمہاری بیوی نے حل کردیا ہے۔۔۔ تم بھی سوچو کیا اس بلے کی شکل مس ٹین والے سے نہیں ملتی؟‘‘
’’مس ٹین والے سے؟‘‘
’’ ہاں ہاں۔ اس بدمعاش سے جو ہمارے اسکول کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ مصطفےٰ جسے مس ٹین والا کہا کرتے تھے۔‘‘
مجھے یاد آگیا۔ زیدی پر جو لڑکپن میں بہت خوبصورت تھا، مس ٹین والے کی خاص نظر تھی۔ لیکن میں سوچنے لگا بلے سے اس کی شکل کیسے ملتی ہے،نہیں ملتی تھی، اس کی چال میں بھی کچھ ایسے ہی بے پروائی تھی۔ سر اکثر پھٹا رہتا تھا۔ کئی دفعہ ہیڈماسٹر صاحب نے اسے لوگوں سے پٹوایا کہ وہ اسکول کے دروازے کے پاس نہ کھڑا رہا کرے، مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ ایک لڑکے کے باپ نے اسے ہاکی سے اتنا مارا، اتنا مارا کہ لوگوں کا خیال تھا ہسپتال میں مر جائے گا، مگر دوسرے ہی روز وہ پھر اسکول کے گیٹ کے باہر موجود تھا۔یہ سب باتیں ایک لحظے کے اندر اندر میرے دماغ میں ابھریں۔ میں نے زیدی سے کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو، مس ٹین والا بھی مار کھا کر خاموش رہا کرتا تھا۔‘‘
زیدی نے جواب نہ دیا، اس لیےکہ وہ کچھ یاد کررہا تھا۔چند لمحات خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، ’’میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ پڑھنے کے لیے ایک دفعہ اکیلا کمپنی باغ چلا گیا، ایک درخت کے نیچے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک مس ٹین والا نمودار ہوا۔ ہاتھ میں ایک خط تھا ،مجھ سے کہنے لگا،’’بابو جی، خط پڑھ دیجیے۔‘‘ میری جان ہوا ہو گئی۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔
مس ٹین والے نے خط میری ران پر بچھا دیا۔ میں اٹھ بھاگا۔ اس نے میرا پیچھا کیا۔ لیکن میں اس قدر تیز دوڑا کہ وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ گھر پہنچتے ہی مجھے تیز بخار چڑھا۔ دو دن تک ہذیانی کیفیت رہی۔ میری والدہ کا خیال تھا کہ جس درخت کے نیچے میں پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا۔ آسیب زدہ تھا۔
زیدی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ بلا ہماری ٹانگوں میں سے گزر کر کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکلا اور چھجے پر کود گیا۔ چھجے پر چند قدم چل کر اس نے مڑکر پیلی پیلی آنکھوں سے ہماری طرف اپنی مخصوص بے پروائی سے دیکھا۔میں نے مسکرا کرکہا:
’’مس ٹین والا!‘‘ زیدی جھینپ گیا۔