Urdu Story World
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Moral Story معافی کا طاقت

Shehla69

Elite writer
Joined
Jan 19, 2023
Messages
249
Reaction score
3,194
Location
Dubai
Gender
Female
Offline
وہ بہت حسین صورت تھی ۔ جن کے لیے کہا جاتا ہے لاکھوں میں ایک۔ پہلی نظر میں وہ چینی سی گڑیا کوثر کو بڑی من موہنی سی لگی – انسان کی اصل خوب صورتی اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ تو کچھ ہی دنوں میں اس ساری خوب صورتی کا پردہ چاک ہو گیا۔ اس کی اصل خوب صورتی بھی سامنے آ ہی گئی۔ چند بالشت کی بڑی من موہنی چینی کی گڑیا جیسی نازک چھٹانک بھر لڑکی کی فٹوں لمبی زبان۔ اس کا نام نیلم تھا۔ وہ اک چلنی پرزہ لڑکی تھی۔ کوثر کو یہ بات کچھ دنوں میں جا کر سمجھ آئی۔ کوثر کا شوہر اسلم والدین کے گزرنے کے بعد اس دو منزلہ مکان کا اکلوتا وارث تھا۔ اس کا کیا کیا جائے کہ مہنگائی کے اس دور میں ایک تنخواہ پر گزارا ممکن ہی نہ تھا۔ اسلم کی اک کمائی ۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ۔ سو نچلا پورشن کرایہ پر اٹھانا بھی ان کی مجبوری ٹھہری۔ اگر چہ کوثر کرایہ دار کے معاملہ میں انصاف سے چلتی ۔ نچلے پورشن میں کرایہ دار کے لیے۔ مقدور بھر ہر آرام و سہولت میسر تھی ، گیس اور بجلی کے بل میں ساجھا تھا ۔ گرمیوں میں پانی کی تنگی پڑ جاتی ۔ کرائے کے مکان اک اک کر کی خالی ہوتے چلے جاتے ۔ اب کرایہ دار تو منہ اٹھا کر جہاں مرضی چلے جائیں، مکان دار کہاں جائیں۔ کرایہ دار کے گھر پر اگر نیلم جیسی مکار اور چالباز لڑکی کی اجارہ داری تھی۔ تو لے دے کیوں نہ ہوتی ۔ ماں بیٹیوں سمیت گھر کا گھر کمانے جاتا۔ دن بھر گھر میں نیلم رہتی ۔ اور گھر بھر کی باگ دوڑ اس کے ہاتھوں میں تھی۔ تنخواہیں ساری کی ساری اس کے ٹھپہ میں جاتیں۔ شاید اسی لیے گھر بھر میں اس کی چلتی ۔اور اس کا راج – الامان الحفیظ۔ ماں بیٹیوں سمیت گھر کا گھر کمانے جاتا۔ دن بھر گھر میں نیلم رہتی ۔ اور گھر بھر کی باگ دوڑ اس کے ہاتھوں میں تھی۔ تنخواہیں ساری کی ساری اس کے ٹھپہ میں جاتیں۔ شاید چوپٹ اماں کو دکھائی تو پڑتا۔ سنائی نہ دیتا۔ اس پر کانوں کی کچی نیلم ان کو جو چابی بھر دیتی۔ وہ اسی پر پھد کتی پھرتیں۔ نکمے ابا۔ بیٹیوں کی کمائی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر کھاتے ۔ کام کے نام پر دنیا زمانے کی خاک چھان کر گھر لوٹتے تنخواہ کے نام پر منہ چڑا جاتے تو شور مچتا۔ ماں بیٹیوں کے کمانے کے سبب گھر میں نکے ابا کی حیثیت صفر تھی۔ تب بھی وہ چھاتی پرچڑھ کے دندناتے – کبھی جو فساد پڑتا، رات میں دن نکل آتا۔ دنیا تماشا دیکھتی۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی گوارا تھی۔ ان کی زبانوں کا پھرنا ، دھاندلی ، اور اس پر دھوکا بازی، ڈھٹائی الامان الحفیظ۔ ایک پنکھا…. دو بلب بتا کر مکان لیا گیا تھا ۔ کچھ ہی دنوں میں کایا پلٹ گئی۔ اک ایک بجلی کے سب آئٹمز آگئے ۔ صاف کھلی دھو کہ بازی تھی۔ گھر بھر کے کام پرجانے پر بھی۔ بجلی کی بچت کہاں سے ہوتی تھی ۔ صبح کا ناشتا ڈ کار … دو پہر کی روٹی باندھ کر ہی تو ٹلتے۔ کیس کا چولہا دھڑا دھڑ جلتا ۔ دن رات پنکھے فریج اور بلب جلتے یونٹ تین سو سے بڑھ کر بنے تو بجلی کا بل دگنا۔ گرمی کی شدت میں پانی کی تنگی پڑی تو ٹینکر ڈلوایا اور ٹینکر کے پیسے کرائے سے کاٹ لیے تو وہی نیلم کا طوطے کی طرح آنکھیں پھیرنا کہ کرایہ پانی بجلی گیس سمیت بنتا ہے۔ گیس بجلی کے بل آئے تو کوثر نے سر پیٹ لیا۔ آدھے سے زیادہ کرایہ بلوں میں پھنک گیا۔


کچھ دنوں میں دیکھنے میں آیا کہ چھ افراد کا تو بس اک نام تھا۔ در حقیقت ایک گھر میں دو کنبے پلتے – دن بھر پیاری بیٹی کا پڑاؤ یہیں رہتا۔ وہ خود کرایہ کے گھر کی مکین کسی فیکٹری میں کام کرنے جاتی ۔ دن بھر بچہ نیلم کے پاس رہتا۔ صبح اسے فیکٹری ڈراپ کر کے داماد صاحب دن بھر بچہ نیلم کے پاس رہتا۔ صبح اسے فیکٹری ڈراپ کر کے داماد صاحب کی بائیک سسرال کے آنگن میں آن کھڑی ہوتی ۔ بچے کے بہانے ۔ وہ خود بھی وہیں پڑا نظر آتا۔ تو ان کا اپنا تو بجلی گیس و دیگر خرچ بچتا ۔ پھر سننے میں آیا۔ نیلم کا رشتہ کسی بڑھیا گھرانے کے لائق وفائق سپوت سے اس داماد صاحب کے توسط سے طے پایا تھا۔ شاید اس احسان کا خراج وصولنے کو وہ دن رات سسرالیوں کے جھرمٹ میں راجا اندر بنا چمپی کراتا رہتا۔ گھر بھر پر داماد کی دھاک ہی نہیں راج بھی چلتا تھا۔ اک لفظ اسے کہنے کی دیر تھی ساس سسر سمیت سالیاں تک میدان میں اتر آتیں۔ پھر اسی پر بس نہ رہی۔ کچھ دن گزرے کرایہ داروں کے گھر کا مختصر سامان ایک کمرے میں سمٹ گیا۔ آنے بہانے پہلے بہن بہنوئی کا بوریا بستر آیا۔ اور پھر مکمل پڑاؤ۔ اب بھلا آسان بات ہے۔ چھ افراد کی جگہ نو افراد کا خرچ ۔ دیگر معاملات تو رہے ایک طرف بائیک کا پہیہ گھسیٹ گھسیٹ کر داماد صاحب نے صدر دروازہ کی چولیں ہلا دیں۔ اک روز دروازہ کٹے ہوئے شہتیر کی مانند زمین بوس ہوا۔ لوجی چھٹی ہوئی۔ معرکہ تو ہونا ہی تھا۔ کوثر کے پڑھانے پر اسلم نے ان کا گھیراؤ کیا۔ اور وہی، نکمے ابا کا طوطے کی مانند آنکھیں پھیرنا ۔ ہمارے گھر ہماری بہن بیٹی نہ رہے گی تو کیا آپ کی رہے گی۔ پرلے درجے کا عامیانہ انداز تھا۔ اسلم کا خون کھول کر رہ گیا۔ کہانی صاف تھی۔ نکمے داماد ، کرایہ اور گھر کا خرچ بچانے کو سسرال کے ٹکڑوں پر آ پڑے تھے۔ ان کے گھر کا کارخانہ سسرال ، بیگم اور سالی کے دم سے چلتا تھا ۔ بیگم گھر کی دال روٹی چلانے کو فیکٹری سدھارتی ۔ تو بچہ نیلم سنبھالتی ۔ اور اب تو صاف بے روزگاری کا بہانہ لے کر ، سسرال کے در پر آ پڑے۔ اسی داماد کی نظر عنایت سے نیلم کا رشتہ اس کے جگری دیرینہ دوست سے طے پایا تھا۔ گھرانہ کھاتا پیتا تھا۔ سوزمین پر دھنسے، گڑ ا ہلتے ، اپنے گھر کی جگہ صاف ستھرے علاقے میں گھر لینا بھی ان کی مجبوری ٹھہری۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ کوثر کا سارا کرایہ بلوں کی مد میں پھنک جاتا ۔ صدر دروازہ، داغ مفارقت دے گیا تو خرچ ہزاروں کا بنتا تھا۔ وہاں پر واہ کس کا فر کو تھی۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی چلتی ۔ مگر بات سے بات نکلتی تھی۔ سواک اور بات سامنے آئی۔
☆☆☆


اس روز کسی کام سے کوثر نے نچلے پورشن میں جھانکا نیچے کا منظر دیکھ کر کوثر کی آنکھیں کھل گئیں – سالی بہنوئی کی ایسی محبت کہیں دیکھی نہ سنی – نیلم مزے سے پیر پسارے، کان میں ہینڈ فری ٹھونسے، پیر ہلا رہی تھی اور بہنوئی صاحب انہی قدموں پر مزے سے سر رکھے نجانے کون سے راز و نیاز میں مصرو ف تھے – پھر یہ مناظر آئے روز نظر آنے لگے۔ بیوی کو فیکٹری ڈراپ کر کے یہاں سب سرالیوں کے سارھانے کے بعد سسر سے چار ہاتھ بڑھ کر نکمے بہنوئی صاحب کا ٹھکانا یونہی سالی کے قدموں میں رہتا۔ اس دوران بھی جو کوئی بھولا بھٹکا نکل ہی آتا ۔ وہ دم دبا یہ جا وہ جا۔ اب یہ تو کہنے والی بات ہی نہ تھی اندھے کو بھی نظر آتا تھا کہ بہنوئی صاحب کی نکل پڑی تھی۔ یہاں تو اندھیر نگری والا معاملہ تھا۔ کسی کی کوئی کل ٹھکانے پر نہ تھی۔ اس پر ان کے مزاج، الامان الحفیظ ۔ مکان کا کرا یہ کیا دیتے ۔ مانو مالک مکان کو اس کے مکان سمیت خرید رکھا ہو۔ گھر کا گھر چھاتی پر چڑھ کردند تا نظر آتا اور سب سے بڑھ کر ڈھائی فٹ کی فتنی نیلم ۔ اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو۔ ہم مالک مکان کو اتنا سر نہیں چڑھاتے ۔ وہ یوں بولی جیسے مالک مکان سے گھر کی جھاڑو لگواتی رہی ہو۔ سو غضب کی ٹھنی اور ایسی ٹھنی کہ محلہ والوں نے بھی تما شا دیکھا۔ اور نیلم کی باون گز کی زبان ایک طرف اور ساری دنیا ایک طرف پھر کوثر بھلا کیسے پیچھے رہتی۔ سورج کے لتے لیے۔ وہ کہاں خاطر میں لاتے تھے۔ جائیے جائیے کرایہ دے کے رہتے ہیں۔ کوئی مفت میں نہیں رہتے اس گھر میں ۔ تو کس نے کہا ہے کہ کرایہ بھرو- کوئی تمہیں مفت میں رکھتا ہے تو مفت میں رہ اور کس سے پوچھ کے تم نے دوسری فیلی ساتھ رکھی ہے۔ مل بانٹ کے کرایہ دو گے تو فائدہ تمہارا ہی ہے نا۔ ایسی تیسی تو ہماری ہو گئی۔ یوں ہے تو یونہی سہی ۔ آپ اپنے کرائے سےمطلب رکھے۔ مکان خالی کرو میرا ایسے بے ایمان کرایہ دار ہم نہیں رکھتے ۔کیوں خالی کر دیں ۔ مکان کیا دو چار مہینے کے لیے کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ نیا مکان ڈھونڈنا۔ سامان ڈھونا ۔سستا کام ہے کیا ۔ جب خالی کرنا ہو گا بتادیں گے ۔ گیس پانی بجلی سب کنکشن او پر تھے۔ کوثر نے سارے وال بند کرنے کی دھمکی دی۔ وہاں پروا کس کافر کو تھی۔ آپ کر کے دکھائیے ۔ پھر کرایہ کس سے وصول کریں گی۔ یہ اسی چھٹانک بھر کی آفت کی پر کالا کی زبان تھی۔ لیجے جناب ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ کرایہ نامہ میں صاف درج تھا کہ کرایہ دار ساجھا کرنے کا پابند ہے۔ اس بار زمانے بھر کے نمکے ابا میدان میں اتر آئے۔ تو جائیے۔ تھانہ پولیس آپ جیسے شریف لوگوں کے لیے ہی تو ہیں۔ جائیے۔ پولیس کی مدد لیجیے۔ وہیں فیصلہ ہو جائے گا۔ کوثر نے سر پیٹ لیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھا نہ پولیس سے دبنے والے لوگ نہیں ہیں اور اس پر وہی ڈھٹائی و دھاندلی۔ تم سے مکان خالی کرایا جائے تو کرا کے دکھاؤ۔ چپ کر اپنی اوقات میں رہ۔ دو بالشت کی لڑکی ہو کر سر کو چڑھتی ہے ۔ کوثر کو غصہ آ گیا۔ تو چپ کرہڈی نہیں ملی تو بھونک رہی ہے ۔ ادھر جواب دو بدو تھا۔ کوثر کی سماعتوں کو کوئی سنسنا تا ہوا تیر چھید تا گزرتا چلا گیا۔ ادھر نیلم کے فرشتوں کو بھی کیا خبر تھی کہ یہ گالی خود اس کے گلے پڑ جائے گی۔ کوثر نے اوپر کی منزل کا سارا ملبہ کاٹھ کباڑ نیچے کھینچ مارا۔ اک ہا ہا کار مچ گئی۔ مگر اس کے اندر کی کھولن نہ مٹی۔ نہ اس گالی کا ازالہ ہو سکا۔ کانوں میں بار بار وہ گالی سائیں سائیں گونجتی ۔ اک زمانہ ان کی عظمت و شرافت کو سلام کرتا تھا۔ اور اس بالشت بھر کی لڑکی کی یہ مجال۔ بعد ازاں اسلم بار بار اسے تسلی دیتا رہا۔ جانے بھی دو۔ گالی تمہارے چپک تو نہیں گئی نا تم نے بھی تو حد کر دی۔ اوپر سے اینٹیں پتھر، اور جانے کیا الا بلا نیچے کھینچ مارا۔ کسی کے لگ جاتی تو لینے کے دینے پڑ جاتے ۔ مگر کوثرکے کلیجے میں جیسے برچھی سی اتر گئی تھی۔ – اس کے اندر کی کھولن نہ مٹتی ۔ کانوں میں وہ گالی بار بار گو نجتی ۔ اس کے اندر آگ ہی آگ بھر جاتی ۔ بس نہ چلتا سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دے۔ قریب تھا کہ نوبت تھا نہ پولیس پر آجاتی کہ پرلے درجے کی گھنی مسینی اماں اور نکمے ابا نے جانے کن وقتوں میں موقع تاک کر اسلم کو جالیا اور جانے کیا کچھ کہا کہ وہ الٹا کوثر کو ہی سمجھانے بیٹھ گیا۔ جانے بھی دو فساد تو تمہارا نیلم سے ہے نا۔ اور وہ بے چاری ہے کتنے دن کی ۔ اگلے مہینے تو شادی ہے ۔ اور کوثر تو جیسے بھری ہی بیٹھی تھی -مت کہیں اسے بے چاری ۔ فتنی ہے فتنی ۔ چھٹا نک بھر کی لڑکی نے سارے گھر کو مٹھی میں کس رکھا ہے۔ گھر بھر کے منہ میں اس کی زبان بولتی ہے ۔اگر ایسا ہے بھی تو وہ جانیں ۔ ہمارا کیا لینا دینا ۔ہاں تو میں بھی دیکھوں گی نا۔ اس کی فٹوں لمبی زبان اور مکار فطرت کو کون جگر والا بھگتے گا۔ چار دن میں چٹیا پکڑ کر باہر نہ نکال دیے تو میرا نام بدل دینا- اوہو کوثر تم بھی حد کرتی ہو۔ یہ ان کے معاملات ہیں۔ وہ جانیں ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔ اچھا اور وہ جو آئے بہانے ماں کے کان بھر کے سو بار مجھ پر چڑھائی کروانے کی کوشش کر چکی مجھے ہے یہ قطامہ -ہاں تو تم کون سا ادھار رکھتی ہو۔ منٹوں میں لتاڑ کے باہر کا رستہ دکھا دیتی ہو۔ اور چھوٹتے ہی مکان خالی کرنے کا الٹی میٹم ۔ تو اور کیا ان کے پیر پڑ جاؤں ۔ میں تو کہتی ہوں تھا نہ پولیس کے ذریعے نکال باہر کروان کم بختوں کو-اب دیکھو انسان کو نرمی اور جھکاؤ تو رکھنا ہی پڑتا ہے نا۔ اس طرح بات بات پر تھانے پولیس پر اتر آئیں تو گھر بد نام ہو گا۔ کوئی کرایہ دار نہیں ٹھہرے گا۔ ارے بھاڑ میں جائے ۔ پڑا رہے خالی ۔ ان بدبختوں سے تو جان چھوٹے ۔ اور یہ پرلے درجے کی فتنی چالباز نیلم خود کو کسی ریاست کی مہارانی سمجھے لگی ہے۔ دیکھوں گی۔اس کی یہ اکڑ دوسروں کے گھر کیسے چلتی ہے ۔ کسی کی مجبوری سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کے رشتے کے لیے مناسب گھر لینا کوئی نرالی بات تو نہیں ہے۔ وہ بتارہے تھے کہ ان کے اپنے گھر پر اثرات ہیں۔ اس کا بکنا بھی مشکل ہے۔ کوثر کے تلوؤں کو لگی سر پر بھجی۔ پرلے درجے کے جھوٹے ، مکار اور فریبی لوگ ہیں۔ اور ایسے کوئی لعل نہیں جڑے ہیں۔ ہمارے گھر میں ۔ انہیں مکان بہت ہمیں کرایہ دار بہت – اللہ سے سو بار معافی کے ساتھ …. ان کے گٹر ا بلتے زمین میں دھنسے گھر سے تو لاکھ درجے بہتر ہی ہے تا۔ اب تم جیسی عورت کو یہ سمجھانے والی بات تو نہیں کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو تو رب تمہیں آسانیاں فراہم کرے گا۔ نیلم کے بعد کرن …. اور کرن کے بعد عالی تم دیکھ لیتا، یہ سالوں سال یہاں سے کہیں سرکنے والے نہیں ہیں۔ یونہی ہماری چھاتی پر چڑھے مونگ دلتے نظر آئیں گے۔ اگر ایسا ہے بھی تو کیا برا ہے۔ نچلے پورشن کے تین کمرے ان کے لیے زیادہ ہیں۔ گھر کا سامان کم ہے۔ رہے بل تو یہ معاملات تم مجھ پر چھوڑ دو۔ ہر مسئلےکا کوئی نہ کوئی حل تو ہوتا ہی ہے نا ۔ ارے مجھ سے پوچھو۔ انہیں کرایہ بھاری پڑرہا ہے۔ نکمے داماد کماؤ بیٹی کو گھر میں ڈال لیا۔ تو کرایہ میں ساجھا بن گیا۔ ہماری ایسی تیسی ہوگئی۔ دونوں ہی کو ایک دوسرے کا آسرا ہے۔ کرایہ خرچ میں سہولت ہوگئی وہ الگ ۔ بیگم دن رات نوٹ چھا پتی ہیں تو یوں کہ بچہ نیلم کے ہاتھوں میں پل رہا ہے۔ لگے ہاتھوں بہنوئی صاحب بھی چلتی گنگا میں ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں ۔ روانی و جذبات میں کوثر کے منہ سے سچ نکل گیا۔اسلم اسلم ٹھٹکا .. چلتی گنگا؟ ناچار اسے بتانا ہی پڑا۔ اور اسلم کی وہی ازلی شرافت و اعلیٰ اوصاف جن پر ریجھ کر کوثر کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ اب دیکھو اگر بات سچ نہ نکلی بہتان ہی ہوا نا ۔ اور اگر ایسا تھا بھی تو تم نے ان پر کان یا نظر رکھ کر کچھ اچھا کیا ؟ مگر کوثر کو پکا یقین تھا معاملہ کچھ اور ہے۔
☆☆☆


نہ نہ کرتے۔ اسلم کی بات اس کی عقل میں سماہی گئی۔ کچھ دنوں میں بات آئی گئی ہوگئی۔ نیلم کی شادی سے کچھ پہلے اسلم نے دوڑ دھوپ کر کے پچھلے پورشن کے لیے بجلی کا الگ کنکشن لگوا دیا تھا۔ لو جی گل ای مک گئی۔ نیچے دو فیملیز کے سبب ۔ گیس کے بل کی مد میں دو – حصہ ان کی طرف لگائے گئے۔ اسلم نے ہر معاملہ چار لوگوں میں بیٹھ کر نمٹایا تھا۔ پھر شادی کا ہنگامہ جاگ پڑنے سے قبل کوثر و نیلم کو گلے ملوادیا تھا۔ مگر گلے ملنے سے دلوں کی کدورتیں مٹ جاتیں تو کیا ہی کہنے۔ پھر اسی ماہ شادی پر جو طوفان بدتمیزی نہ مچنا تھا۔ مچا۔ ساری ساری رات فل والیوم میں ریکارڈنگ،کوثر لہو کے سوسو گھونٹ پی کے جلتی۔ اسلم کا پڑھایا در گزر کا سبق اپنی جگہ درست نہیں۔ مگر اس کے دل و دماغ سے وہ گالی نہ نکلتی۔ جب بھی یہ لفظ اس کی۔ سماعتوں میں گونجتا اس کے اندر اک غبار سا بھر جاتا۔ تسلیم کی شادی میں کوثر نے مارے باندھے شرکت کی تھی۔ دولہا پر نظر پڑتے ہی کوثر کی تمام امیدوں پر پانی پر پڑ گیا۔ شکل سے ہی دبو، زن مرید سا نظر آتا تھا۔ نیلم جیسی مکار چالباز ، چینی پرزہ لڑکی ، جلد ہی اس کی لگا میں کس لے گی۔ گمان پختہ تھا۔ کھانے سے فراغت کامیرپاتے ہی ۔ جب دلہن سج دھج کر اسٹیج پر آرہی تھی۔ کوثر بچوں کے سونے کا بہانہ لے کر اٹھ گئی تھی۔ ک دلہن بڑی نازک پیاری سی ہے۔ یہ کسی باراتی خاتون کا نیلم کے لیے تبصرہ تھا۔ کوثر نے گزرتے ہوئے سنا تو دل ہی دل میں ہنسی ۔ جب گز بھر کی زبان سے پالا پڑے گا تو پوچھوں گی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ کچھ خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ گمان بھی اوندھے منہ چاپڑتے ہیں۔ سو یہ معاملہ بھی کوثر کی امید و توقعات کے برخلاف الٹا پڑ گیا تھا۔نیلم کی سسرال میں گھر بھر پر ساس صاحبہ کا راج تھا۔ سو سب سے پہلی تان میکے آمد پر ٹوٹی۔ وہ جوان سب کا خیال تھا کہ پہلی پیاری بیٹی کی طرح نیلم بھی بہانے بہانے میکے پڑی رہے گی۔ مالدار گھرانے میں بیٹی بیاہ کر چاروں ہاتھوں سے چوری چھپے کی کاروائیاں بھگتائی جائیں گی – لگے ہاتھوں بہنوئی صاحب بھی برسوں پرانی دوستی کی آڑ میں اپنا الوسیدھا کرتے رہیں گے۔ مگر وہ جو کہتے ؟ سیر کو سواسیر . تو وہی بات رہی۔ بات نیلم کے میکے آنے پر آ تی تو سو بہانے تیار- کبھی جو ساس نند کے جھرمٹ میں چلی ہی آتی تو وہ سب چپل کی طرح اس کی چوکیداری کرتیں۔ موبائل فون کی اجازت نہ تھی۔ سنا کہ گھر بھر کی نوکرانی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں سارے کس بل نکل گئے تھے۔ باون گز کی زبان حلق میں جا پڑی تھی۔ اب ان ماں بیٹیوں کا زیادہ وقت نیلم کی بڑھیا ساس کی شان میں قصیدہ خوانی میں گزرتا۔ یہ تو کہنے والی بات ہی نہ تھی۔ ان کا گھر او ندھا پڑ گیا تھا۔ وہ سب نیلم کی شکل کو ترس گئے تھے۔ کچھ دنوں میں سننے میں آیا کہ بہنوئی صاحب پر بھی بین لگ گیا۔ وہ جلبلا کر، وقت بے وقت فون گھماتے ۔ نیلم کے شوہر کے دماغ میں شک کا کیڑا کلبلاتا ۔ انہوں نے برسوں پرانی دوستی کی شرم دلائی ۔ نیلم کے میاں نے اس دوستی پر ہی مٹی ڈال دی ۔ لوکر لوگل – کوثر نے سنا تو خوب ہیں مزا لیا۔ جیسے کو تیسا ۔ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ والا معاملہ تھا۔ نیلم کی ساری بھوں پھاں ناک کے راستے نکل گئی تھی -سسرال والوں نے اس کی لگامیں کس لیں تھیں۔
☆☆☆


نیلم کا ولیمہ، اگلے ماہ ، نند کی رخصتی کے ساتھ تھا ۔ اور ہائے ر ی عورت کی چٹخارہ باز فطرت – کوثر کھنچی چلی گئی تھی۔ ڈنر سے کچھ پہلے جب اسلم سگریٹ پینے کے لیے شادی ہال سے باہر نکلا۔ کوثر کا گود والا بیٹا باپ کے لیے مچلنے لگا۔ کوثر اسے لیے باہر آئی تو اسلم نیلم کے شوہر کے ساتھ کھڑا پایا۔ اسلم بچے کو آئس کریم دلانے نکل گیا۔ اور کوثر کی ایک رسمی سی احوال پوچھنے کی کی دیر تھی ، وہ پھٹ پڑا۔ پرلے درجے کی مکار اور سیاست دان ہے یہ نیلم، گھر میں قدم رکھتے ہی میرے کان بھر کے گھر میں پھوٹ ڈالوا کر گھر بھر سے میرا دل پھیرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ اللہ بھلا کرے اماں کا انہیں بہوؤں کو سنبھالنے کا ہنر آتا ہے۔ اب عورت گھر کے کام کاج نہ کرے گی تو کیا کرے گی۔ اس کا دھیان جانے کہاں سفر کرتا ہے۔ اپنی اوقات سے بڑھیا زندگی نصیب ہے مگر اس کا دل نہ جانے کہاں پڑا رہتا ہے۔ مجھے تو دال میں کالا لگتا ہے۔ آپ تو مکان دار ہیں۔ آپ کو تو پتا ہوگا ؟ وہ بری طرح بھرا ہوا اور چڑا ہوا لگتا تھا۔ کوثر کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نیلم کی گالی کانوں میں سائیں سائیں گونجنے لگی۔ لوہا گرم تھا۔ بس اک چنگاری کے ہوا دینے کی دیر تھی۔ آگ ہی آگ پھیل جاتی سب کچھ بھسم ہو جاتا۔ بس ایک ثانیہ کا عمل تھا۔ آریا پار، مگر اسی ساعت نے فیصلہ دیا تھا۔ بدلہ لینے کی قدرت رکھتے ہوئے معافی دینا افضل ہے۔ بھلا دیتا ہی کیا ہے۔ یہ بدلہ انسان کو۔ اک دلی تسکین اور کمینی سی خوشی ۔ یہ خوشی کسی کی زندگی سے بڑھ کر تو نہیں۔ بے شک سزا و جزا کا مختار پرودگار ہے۔ جس عیب پر وہ پردہ ڈال رہا ہے۔ اسے افشا کرنا۔ کہاں کا انصاف ہے۔کوثر بے ساختہ نفی میں گردن ہلا کر اندر کی طرف مڑ گئی تھی۔ ایک یقین تھا۔ اس کی یہ نیکی کسی اچھے صلہ کی صورت میں ضرور لوٹائی جائے گی۔
 
Back
Top