Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story معطّر فضاؤں کے راہی

Joined
Nov 24, 2024
Messages
446
Reaction score
31,316
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
تمہاری نیم وَا آنکھیں
مرے رخسار پر،
جب بھی غزل لکھیں
اموزِ عشق کے
اسرار،
مجھ پر منکشف ہوکر
سرور و کیف کی،
چاہت کی،
ساری بند گرہیں
کھولتی ہیں۔
ایک پھیلا ہوا بازو ہے محبت ۔ جس میں اہلِ نصیب سمیٹتے ہیں۔ پرکیف چاندنی میں، غسل ماہتاب روح میں جس سرور کو جنم دیتی ہے کڑی دھوپ میں بھی آدمی چھاؤں محسوس کرتا ہے۔ یہ سارے احساسات وہاں ہوتے ہیں۔ جہاں دو ذی روح دنیا کی تصدیق کے بغیر اپنی ذات کی اندرونی و بیرونی سچائیوں کے ساتھ موجود ہوں۔
ہم اکثر اپنے لمحہ موجود میں، پھولوں کی کنج میں بیٹھ کر اپنی روح کو سیراب کررہے ہوتے۔ ہمارے قدم کب اٹھ گئے۔ دل کی دنیا کب اور کیوں کہ اتھل پتھل ہوگئی یہ تب معلوم ہوا جب وہ میری زندگی میں رگوں میں خون کی طرح شامل ہوچکا تھا۔ محبت سے لبریز دل تو تھا ہی، آنکھیں، باتیں، ساعتیں بھی میری ہم راہ تھیں۔
میں اُسے محسوس کررہی ہوتی تو مجھ پر محبت بھری نظموں، غزلوں کے ایک ایک شعر کا مفہوم کھل رہا ہوتا۔ وہ کہتا، ”کچھ بولو، کچھ تو کہو۔” میں ہنس پڑتی۔ ”میں تو سامع ہوں، بولتی تو محبت ہے۔”
ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے، پارکوں میں کھلے پھولوں، کلیوں کی ان کہی گفتگو سنتے۔ کبھی کسی کانفرنس میں کسی سیمینار میں چائے کا سپ(sip)لیتے لیتے ہم دونوں ہی کہیں کھو جاتے۔

جب کوئی شگر لاکر دیتا کہ چائے میں ڈال لیں تو ہم دونوں کو تب ہی پتہ چلتا کہ چائے تو ہم نے پھیکی ہی پی لی ہے۔ پھر ہم خوب ہنستے۔
کبھی دوستوں کے گروپ کے ساتھ شاپنگ کرنے نکلے تو ایک دوسرے کے لئے ہی خریداری کرتے۔
یہ پین تمہارے لئے،
یہ ٹائی لے لو،
یہ کیچر ، یہ کلپ
یہ سوٹ،
کتابیں، پرفیوم ۔
دوست ہنستے۔ ایک دوسرے کو کہنی مارتے ، سہیلیاں ٹہوکے دیتیں۔ کہتیں، یہی تو محبت ہے۔
”اب چلو بس بہت ہوگیا۔ ”میں لائبریری میں ”امجد اسلام امجد” کو پڑھتے پڑھتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ٹھہرو نا، اتنی جلدی۔ ابھی تو تمہیں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں۔”
اس دن بھی ہم انسٹیٹیوٹ سے نکل کر بس اسٹاپ پر جاکر کھڑے ہوئے۔ اس نے حسبِ سابق کہا۔ ”اللہ کرے تمہاری بس لیٹ آئے۔” دونوں ہم آواز ہوکر یہی ایک فقرہ کہتے۔ پھر ہنس پڑتے۔ ہمارے ہنستے ہی دونوں کی بس ایک ساتھ ہی آجاتی۔
ہم ایک دوسرے سے جدا ہوکر کبھی اداس نہیں ہوتے۔ آئندہ کی امید اور خواب لئے جو روانہ ہورہے ہوتے۔ ہماری راتیں طویل اور دن مختصر ہوگئے تھے۔
اس دن سر تجمل غیر حاضر تھے۔ شہر کراچی کی سڑکوں پر موت اپنا ہدف ڈھونڈ رہی تھی۔ وحشت گلیوں میں ناچ رہی تھی۔ اور پریشان حال مائیں کھڑکیوں سے جھانک رہی تھیں۔ جب ہڑتال مزدوروں کے گھروں میں فاقے ڈالتی تو اشیائے ضروریہ کی دکانوں پر لٹکے تالے چلانے لگتے۔ جن کی چیخوں کو ضرورت مندوں کی آنکھیں سنتیں۔ تب شام ڈھلے ویران سڑکوں پر بچے گیند بلّا لے کر زندگی کو بیدار کرنے لگتے۔ تب ہم جو ذرائع مواصلات کی بجائے آنکھوں اور ہونٹوں سے گفت و شنید کے عادی ہوچکے تھے۔ جانہتھیلی پہ لئے ساحل سمندر پر پہنچ کر اپنی ناختم ہونے والی گفتگو کا سلسلہ پھر سے جوڑلیتے۔
ساحل پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو گھنٹوں گھنٹوں پانی میں اتر کر ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ جب واپسی ہوتی تو وہ بس ایک ہی بات کہتا۔
”لگتا ہے وقت تھم گیا۔”
”وقت بھلا کیسے تھم سکتا ہے؟” میں پوچھتی۔
”وہ ہماری محبت کی کہانی دیکھ رہا ہے۔” اس کے اس جواب پر میں کہتی ، عجیب فلسفہ ہے تمہارا۔” پھر دونوں اتنا ہنستے کہ ہمارے قہقہے بھی آپس میں گھل مل جاتے۔
اس دن ویسا ہی ہوا جیسا اس نے کہا تھا یعنی وقت کی رفتار رک گئی۔ پھولوں کے کنج میں، میں بیٹھی شراب محبت گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔ ہمارے اطراف میں طالب علموں کا گروپ بیٹھا اٹھکھیلیاں کررہا تھا۔ گویا ہر طرف خوب رونق تھی کہ یکا یک اُدھم مچ گیا۔
سازِ محبت ٹوٹ گیا۔
نغمہ ٔ عشق اہم انگیز ہوگیا۔
پھر کیا ہوا… میں کچھ سمجھ نہیں سکی ۔ آنکھوں کی پتلیوں میں اس کا چہرہ تھم گیا۔ اس کی آواز کی نغمگی کہیں فضاؤں میں ڈولنے لگی۔ میرے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ چھوٹ گیا۔
کب صبح ہوئی، کب شام گئی، معلوم نہیں، امی ، نرس، بہنوں ، ڈاکٹرز اور جانے کس کس کی آوازیں سنائی دے جاتیں۔ ممی کی آواز پر آنکھ کھلی تو وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھیں۔
”شکر ہے سب ٹھیک ہے بیٹا۔”
”شاکر۔” میں نے پکارا۔
”وہ بھی ٹھیک ہے چار گولیاں اس کے جسم سے نکال لی گئی ہیں۔”
میرے دل میں آٹھ بار ٹیسیں اٹھیں۔
”بہت اسٹوڈنٹس زخمی ہوئے ہیں اس دھماکے میں۔شکر ہے تم ٹھیک ہو۔” امی کے ہاتھ دعاکے لئے دراز تھے۔
٭…٭…٭
نرس بتارہی تھی کچھ زخمی بہت سیریس کنڈیشن میں تھے انہیں بیرون ملک روانہ کردیا گیا ہے۔
”اور شاکر؟” میں نے کراہتے ہوئے پوچھا تو نرس بولی۔
”شاکر نامی نوجوان کا نام تو مرنے والے کی لسٹ میں ہے۔”
میرے دل نے کئی بار سسکی بھری۔
پندرہ دن آئی سی یو میں رہنے کے بعد زندگی نے مجھے دعا دی۔ جو قبول بھی ہوگئی۔ اب میں تہی داماں تھی۔ کچھ بھی نہیں رہا میرا۔ سب کچھ ایک دھماکے میں اڑ چکا تھا۔ جو کچھ میرے پاس تھا وہ بے مقصد زندگی اور بس۔
میں بیٹھے بٹھائے چیخ پڑتی۔ کبھی اُسے آواز دینے لگتی۔ کبھی بالکل نارمل ہوجاتی اور گھر کے کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹانے لگتی۔ مگر اس کا کیا کیا جاتا کہ شاکر، چائے کی پیالی، سے لے کر پانی کے گلاس تک میں اپنی یادیں پیوست کرگیا تھا۔
٭…٭…٭
لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایک کی کمی دوسرا پوری کرہی دیتا ہے۔ ہنہ… لڑکیاں کوئی کاٹھ کا الّو ہوتی ہیں نا کہ کسی کے بھی ساتھ کردو۔ خوشی خوشی چلی جائیں۔ جو دل میں گھس جائیں نا وہ سانسوں میں بھی اٹک جاتے ہیں۔ آنکھوں میں بس جائیں وہ رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں۔ مشامِ جاں میں خوشبو بن کر اتر جاتے ہیں۔ کبھی نہ نکلنے کے لئے۔ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ یہی تو محبت ہوتی ہے۔
اب شاکر بھی سایہ بن کر میرے ساتھ رہنے لگا تھا۔ روز و شب، شام ڈھلے، رات گئے۔ میں سوتی ۔ وہ بھی سوجاتا۔ میں جاگتی، وہ بھی بیدار ہوجاتا۔ میں روتی ، وہ بھی آنکھیں جلاتا۔ میں چلتی ، وہ بھی میرے ہم قدم ہوتا۔ میں رکتی، وہ بھی اپنے بڑھتے قدم روک لیتا۔
بقول ممی کے ان دنوں مجھے سہارے کی اشد ضرور ت ہے۔ ممی اور ان کی ایک دیرینہ سہیلی آئے دن گھر میں سرگوشیاں کرتی دکھائی دیتیں۔بالا آخر وہ کامیاب ہو ہی گئیں کسی مرحومہ خالہ بی کے فرزند کو ڈھونڈ نکالا گیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ممی ان پر صدقے واری گئیں۔ اور دھیرے دھیرے اپنے متوقع داماد کے لئے میرا برین واش کرنا شروع کردیا۔ مجھ پر پڑھ پڑھ کر پھونکا جاتا۔ پانی میں گھول گھول کر پلایا جاتا۔ بات کہیں کی ہو آکر ان ہی لیکچرر صاحب پر ختم ہوتی جن کا نام نامی شہزاد تھا۔ کھانے کی میز پر جب امی اس کی خوبیاں بیان کرتیں۔ تو میں ہنستی کیونکہ میرے برابر میں پہلے ہی شاکر بیٹھا ماحضرتناول کررہا ہوتا۔ وہ سوتے وقت اس کی بات کر تیں تو شاکر کا ہیولا کمرے کے باہر ٹہلتا ہوا مجھے صاف دکھائی دیتا۔ جیسے وہ ممی کا کمرے سے باہر جانے کا منتظر ہو۔ وہ لان میں شام کے وقت اس کی گفتگو کرتیں۔ شاکر وہاں پہلے ہی چمبیلی کے پھول میرے بالوں میں اٹکا رہا ہوتا۔
آخر میں نے تنگ آکر کہہ دیا۔ ”ممی… میں اب کسی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوں گی۔”
”یہ تو تمہیں کرنا ہوگا۔ خیالی دنیا سے نکل آؤ بیٹا… خود کو سنبھالو۔”
تمہیں اپنے مزاجی خدا کا ساتھ دینا ہوگا۔” وہ بڑے پیار سے بولیں۔
”کوئی نہیں ممی… نہ مزاجی نہ خدا۔ میں نہیں جانتی کچھ۔” میں نے بے زاری سے کہا۔
”وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا بیٹا۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گی۔ تم ہمیشہ سکھی اور آباد رہو۔” ممی کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
”ممی اتنی جلدی نہ کریں۔کیا دنیا میں شادی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے۔ مجھے سنبھلنے تو دیں امی۔ میرے زخم ابھی تازہ ہیں۔”
”ان ہی زخموں کا مرہم تو تلاش کیا ہے میں نے تمہارے لئے۔کسی کا ساتھ ہوگا تو ماضی بھول جاؤگی۔”
”اور میرے ہونٹوں سے اس کے نام کے بجائے شاکر نکلے گا تب…؟”
”ہوش کے ناخن لو… تمہیں بہت سمجھ دلری سے کام لینا ہوگا۔ ایسی احمقانہ باتیں نہ کرو… کوئی شخص آخری نہیں ہوتا… ممی نے اس قدر ڈوب کر کہا کہ جی چاہا ان کی تمام باتوں پر ایمان لے آؤں۔”
”میں منافقت نہیں کرسکتی ممی… جھوٹی زندگی کب تک گزاروں گی۔” میری آنکھیں برسنے لگیں۔
”جھوٹی زندگی کیوں بیٹا… اپنے شوہر کی خوبیاں تلاش کرنا۔ سب کچھ تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ میری زندگی بڑھ جائے گی اگر تم سنبھل جاؤگی۔
”مجھ میں آپ جیسا حوسلہ ہے نہ ہمت۔”
”کوئی مشکل تمہیں پیش نہیں آئے گی۔ میری دعائیں تمہیں اپنے حصار میں رکھیں گی۔ میں ہر دم تمہارے ساتھ ہوں۔” ممی نے میری زلفیں سنواریں۔
”پل پل ہم رکاب تو شاکر رہتا ہے۔”
”اب اپنی زبان پر شہزا د کا نام سجا لو۔ شہزاد کا۔”
”اور شاکر کا کیا ہوگا۔”
ممی تلملاگئیں۔ جانے کیسے مجھے برداشت کررہی تھیں بولیں۔ ”لگتا ہے تمہارا مینٹل ٹریٹ منٹ کروانا پڑے گا۔”
”میں بے سدھ ہوکر صوفے پر گر گئی۔”
طبیعت سنبھلی تو دونوں بہنیں آس پاس بیٹھی تھی۔ وہ مجھے سدا کی بیمار سمجھ رہی تھیں۔ مجھ سے ہمدردی کررہی تھیں۔ مگرمجھے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔ میں تو بس ڈوبی ہوئی تھی۔ پانی میں ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کررہی تھی۔
”آپی آپ کس کلر کا شرارہ پہنیں گی؟
اور جیولری۔ میک اپ کس پارلرسے ہوگا؟
کوئی آپ کا پسندیدہ ڈیزائنر ہے تو بتادیں۔”
وہ دونوں بیٹھی یہی باتیں کررہی تھیں۔ ”اس نے دوبارہ پوچھا۔ شرارے کا کلر بتادیں ہمیں۔”
”وہی جو شاکر کو پسند تھا۔”
”شاکر بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ جنت میں چلے گئے ہیں۔ آپ انہیں یاد کرکرکے بے سکون نہ کریں۔ بلکہ اپنی جنت دنیا میں بنائیں… آپ زندہ ہیں آپی۔” یہ نرمین تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا۔
”اوں… ہاں… اچھا۔” میں کیا جواب دیتی۔
”وہ بہت اچھی جگہ چلے گئے ہیں۔ اب آپ اپنا سوچیں۔ خوش رہیں تاکہ شاکر بھائی کو خوشی ہو۔ آپ دکھی رہیں گی تو وہ بھی … یعنی ان کی روح بھی بے تاب و بے چین رہے گی۔” نرمین مجھ سے پانچ چھوٹی تھی مگر بڑی بڑی باتیں کررہی تھی۔
”آپی شہزاد بھائی بہت اچھے ہیں۔ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ آپ بہت خوش رہیں گی۔ وہ یقینا آپ کے احساسات کا جذبات کا خیال رکھیں گے۔” دونوں ایک ساتھ مجھے سمجھا رہی تھیں۔
میں نے اس شام ممی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے گلابی سوٹ پہناکر بٹھا دیا گیا۔ گلاب کی خوشبو جیسے مجھ پر انڈیل دی گئی ہو۔ پھولوں سے لدی گردن دکھنے لگی تھی۔ نکاح اور رخصتی کے وقت بھی میں سکون آور دواوؑں کے زیر اثر رہی۔
اٹھایا گیا تو میں اٹھ گئی۔ چلایا گیا تو چل پڑی۔ ویسے ہی کون سا مجھے ہی چلنا تھا۔ دلہن کو تو اس کا بازو پکڑنے والے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں بٹھایا وہاں گر گئی۔ ایک گھر سے نکل کر ایک دوسرے سجے ہوئے گھر میں پہنچادی گئی ۔ تیرے ہی دن ہم کسی سفر پر بھی روانہ ہوگئے۔ ایک نسبتاً مہذب شخص مسلسل میرے ساتھ رہا۔ کبھی وہ مجھے شاکر لگتا کبھی شہزاد۔ اس نے زیادہ بات بھی نہیں کی۔ ائیر پورٹ سے باہر نکل کر اس نے کہا۔
”مجھے نہیں معلوم تمہیں کون سی جگہ پسند ہے۔لیکن لوگ یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ جبھی میں تمہیں یہاں لے آیا۔ یہ اٹلی ہے۔” میں نے اور مریم نے کئی بار یہاں آنے کا پلان بنایا تھا… تم سن رہی ہونا… مریم… میری سابقہ منگیتر… اس کی کہیں اور شادی کردی گئی۔”
”مریم۔” میری آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔
”تم برا مت ماننا… ابھی میرا درد نیا نیا ہے۔ تمہارے ساتھ کی خوشی میں مٹ جائے گا۔ آہستہ آہستہ سب ذہن سے محو ہوجائے گا۔” اس کی آواز کی نرماہٹ و دلکشی نے میری سماعتوں کوبھی بیدار کردیا۔
”نہیں… ایسا نہیں ہوتا… دل میں بسنے والوں کو بھولنا آسان نہیں ہوتا۔”… تمہیں شاکر کا معلوم ہے نا۔”
میں نے پوچھا تو اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”وہ تو سارے زمانے کو پتہ ہے۔”
”پھر۔”
”پھر کیا… کیا فائدہ اجنبی مرد یا اجنبی عورت کو دل میں رکھنے کا۔”
”اگر میری زبان پر شاکر کا نام آجائے تو…؟”
”اور اگر میں تمہیں مریم کہہ دوں تو…؟” ہم دونوں ہی شاید اپنے اپنے دکھوں سے ایک دوسرے کو واقفیت دے رہے تھے۔ یا اپنا درد بانٹنے کی کوشش کررہے تھے۔
”تم شاکر ہوسکتے ہو نہ میں… مریم۔” مگر ہم دونوں ایک دوسرے کو اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دل میں اٹھنے والی ٹیسوں کو دباتے رہیں؟ اور ہمیشہ کے لئے مریض بن جائیں۔”
”مریم کے بعد میں نے کتابوں میں پانہ ڈھونڈی ہے۔”
”اور مجھے تو کوئی پناہ گاہ ملی ہی نہیں۔” دل کہاں کہاں اور کیسے کیسے کٹتا ہے۔”
”تم اس رشتے کی پناہ میں آجاؤ جو میرا اور تمہارا جڑا ہے۔”
”اپنے لئے نہ سہی ان کے لئے جینے کا سوچو جن کا کوئی نہیں ہوتا۔ جن سے کوئی پیار نہیں کرتا۔” اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہا تو میری پلکیں بھیگنے لگیں۔ مجھے لگا جیسے میں دنیا میں اکیلی ہوں۔ بالکل تنہا۔
ہم روز خوب گھومتے، ہم میں متوفی تھی نہ شرارت۔ سڑکوں ، بازاروں، پارکوں میں پھرتے پھرتے تھک گئے تو وہاں کے ”اولڈ ہاؤسز” اور ”اورفن ہاؤسز” میں جانے لگے۔ واقعی شہزاد کا آئیڈیا اچھا تھا۔ ان بے آسرا لوگوں کو دیکھ کر مجھ میں جینے کی امنگ پیدا ہوئی۔ اپنے ہونے کا احساس ہوا۔کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ دنیا میں واقعی کرنے کو بہت کچھ ہے۔
”لوگوں کتنے بے حال ہیں۔ ہمارے وطن میں تو اور برا حال ہے۔ چلو وہاں چل کے کچھ کام کرتے ہیں۔” ایک دن جب میں نے شہزاد کو یہ کہا تو اس کے ہونٹوں پر تبسم کھیلتی نظر آئی۔ اس نے پوچھا۔
”لوگ تو یہاں آکر یہیں بس جانے کی آرزو کرتے ہیں اور تم واپس جانے کی بات کررہی ہو؟”
”ہاں… تو کیا ہمارا وطن صرف ہماری۔”محبت کا مدفن” ہوگا…؟”
محبت ہمیشہ زندہ رہنے والا جذبہ ہے۔ جس سر زمین سے جذبات جڑے ہوں۔ اسے کبھی الوداع نہیں کہنا چاہیے۔”
”ایسا کرو… نورین اور شہزاد کو اسی دیارغیر میں چھو ڑ جاؤ۔ مریم اور شاکر کو زندہ جاوید رکھنا ہی ٹھیک ہے… ہم دونوں کا یہی علاج ہے۔”
اس طرح ہماری ادھوری محبتوں نے ہمیں مریم اور شاکر میں تبدیل کردیا۔
”تم شاکر کا صدقہ مجھے اپنا سچا جذبہ عطا کردینا۔” شہزاد کی آنکھیں بھیگی بھیگی محسوس ہوئیں۔
”محبت، بھیک ، صدقہ ، خیرات، عطیہ نہیں ہوتی۔ یہ بن مانگے دی جانے والی شے ہے۔ اسے زبردستی کسی پر لاگو بھی نہیں کرتے۔ میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔”… میں نے زبردستی اپنے لبوں پر مسکراہٹ بکھیری۔
”تم بھی خود مختار ہو۔میں محبت میں آزلوں کا قائل ہوں تاکہ محبت پھلے پھولے اور اسے دوام حاصل رہے۔ پابندی، قیدو بند، اور زبردستی ، مجبوری یہ زندگی کو کھا جاتی ہیں۔ تم جس راستے پر چاہو چلو۔ جو چاہے کرو۔ جس سے چاہے ملو۔ اگر میری محبت میں وارفتگی ہوگی تو تمہارے سارے نشان، سارے نقش میری محبت کی جانب کھینچے چلے آئیں گے۔ تمہارا میرا تعلق بدن کا نہیں روح کا رہے گا۔”
”شاکر بھی یہی کہتا تھا کہیں تم… شاکر کا دوسرا روپ تو نہیں ہو۔” میں نے بے قراری کے ساتھ اسے چھو کر دیکھا۔ میری انگلیاں اس کے چہرے کو چھو کر اس کے ہاتھوں تک گئیں تو اس نے اُسے اسی طرح تھام لیا جیسے شاکر کا انداز تھا۔ بالکل وہی۔
”نہیں میں شاکر کا روپ نہیں ہوں۔ میں پروفیسر شہزاد ازل ہوں۔ جس طرح محبت اپنے اصل کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا دوسرا روپ نہیں ہوسکتا۔ مگر لوگ تشبیہ دیتے ہیں۔”
”یہ فلسفہ مجھے نہیں معلوم۔” میں نے بے زاری سے کہا۔
”میں تمہیں سمجھا بھی نہیں سکتا۔ لیکن پروفیسر کے ساتھ رہوگی تم تو سمجھنے لگوگی ۔” وہ مسکرائے۔ اس کی مسکراہٹ بہت دھیمی تھی۔ مگر بہت من موہنی۔
٭…٭…٭
اس نے قریب رکھے اخبار کو اٹھا کر الٹنا پلٹنا شروع کیا۔ کچھ دیر ایک خبر کی جانب توجہ مرکوز رہی، پھر بولی۔ ”یہ دیکھو شاکر یہ اخبار میں کیسی خبر ہے، اس ملزم کی بیوی تعلیم یافتہ اور باشعور ہے۔ ان دونوں کی لو اسٹوری بھی شائع ہوئی ہے۔ اسے پیار کرنے والی بیوی کا شوہر قتل وغارت گری کے رستے پر کیسے چل پڑا۔
کہیں تو کوئی کمی ہوگی۔ والدین کی تربیت میں ، گھر کے ماحول میں لازماً کمی ہوگی۔”
سزائے موت سنائی جانے کے بعد یہ زندگی کی تمنا کررہا ہے۔ بیوی اس کی جانب سے صفائیاں پیش کررہی ہے۔
”کیا تعلیم ، کیسی تربیت، کون سا ماحول اور کیسا محلہ۔ ہر جگہ بس اسی چار حرفی لفظ”محبت” کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے ۔
جو کچھ بھی ہے جہاں میں
محبت کا ہی پھیلاؤ ہے ۔
زندگی میں محبت داخل رہے تو تبھی وہ زندگی رہتی ہے۔ ورنہ صرف شرمندگی۔ یہ کائنات محبت کی بنیاد پر ہی بنی ہے۔”
”بس چلو خطبہ محبت ختم۔ اب ان لوگوں سے مل آئیں جن کی پیاسی نگاہیں محبت بھرے دلوں کی منتظر ہیں۔ ہم تو اپنی ایک کھوئی ہوئی محبت کا رونا رو رہے ہیں نا یہ بچارے تو اس معاملے میں بالکل متلاش ہیں بالکل مفلس۔ یہ کہتے ہوئے شہزاد کے چہرے پر بے چارگی تھی۔ ”یہ زندگی سے نوچ کر پھینکے گئے لوگ ہوتے ہیں۔”
٭…٭…٭

پہلا ہفتہ میک اے وش کے لئے تھا۔ اپنی بیماری سے زندگی کی جنگ لڑنے والے باہمت بچے جنہیں ہر صورت ہارنا ہی ہے۔ وہ جو آخری خواہش کریں۔ اسے پورا کیا جاتا ہے۔ نورین کو جیسے ہی ان کے بارے میں علم ہوا وہ بے چین ہوگئی۔ ”چلو شاکر ! ابھی تو یہ بچے دنیا میں ہیں ان کی آرزو پوری کریں۔ ان کے ساتھ کھیلیں۔ انہیں کہانیاں سنائیں۔ دور دیس کے پریوں کی۔ میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی۔ کیا تم پہلے بھی یہاں آئے ہو؟”
”ہاں کبھی کبھار جب دل دنیا کے ہجوم سے گھبرا جاتا ہے تب۔” جب خالقِ کائنات کا تہہ دل سے شکر کرنے کا جی چاہتا ہے تب۔ اور اس وقت بھی جب مرجانے کو جی چاہتا ہے۔اور تب بھی جب خود کو تنہائی کاٹنے لگتی ہے۔”
”اوہ… پھر تم مشکل باتیں کرنے لگے۔”
٭…٭…٭
دوسرا ہفتہ، خون کے امراض میں مبتلا بچوں کے ساتھ گزارنا تھا۔
”اف… دنیا بہت بیمار ہے۔بہت علیل ہے۔ یہ جو بچے ہیں نا یہی زندگی کا نشان ہیں۔ زندگی کی شناخت ہیں۔ انہیں ایسی بیماریاں کیسے لگ جانی ہیں۔” نورین فکر مند ہورہی تھی۔
ایک ہفتے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کے ساتھ مل کر بچوں کی خوب خوب دیکھ بھال کی دونوں نے۔ اس کے بعد مزید انہیں رہنے کی اجازت نہیں ملی کہ یہ بچے آپ کے عادی ہوجائیں گے۔ آپ کو تلاش کریں گے اور اس وقت آپ اپنی زندگی میں گم ہوچکے ہوں گے۔ لہٰذا آتے جانے میں وقفہ ہونا چاہیے۔”
گھر آکر شہزاد نے پوچھا۔ ”سنو کہیں تم تھک تو نہیں گئیں۔ اتنی خدمت نئی دلہن سے تو سسرال والے بھی نہیں کرواتے۔”
”لیکن تم یہ تو دیکھو۔ خدمت بھی کیسی بہترین ہے۔ جس کے بعد بے پایاں سکون ملا ہے۔ اندرونی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اب جبکہ آرام کررہے ہیں تب وہ تھکن بدن کو محسوس ہورہی ہے اور یہی تھکن زندگی کا اثاثہ ہے۔”
٭…٭…٭
تیسرا ہفتہ آبشار میں گزارنا ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے والوں کا گھر ۔ زندہ رہ کے بھی زندگی سے منہ موڑ لینے والوں کا گھر، پاک ذہن، نیک روح والے معصگ۔ جو زمانے کی بے ثباقی کو جھیل نہ سکے اور اپنے حواس کھو بیٹھے۔
وہ دونوں دور ایک چبوترے پر بیٹھے آس پاس موجود ان لوگوں کو دیکھتے رہے۔ کیونکہ انہیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔
”شاکر ! اگر تم مجھے نہ ملتے تو شاید میں بھی یہاں ہی ہوتی، کسی پتے سے کسی پھول سے تمہاری باتیں کررہی ہوتی۔”
”میں تو کتابوں سے باتیں کیا کرتا تھا۔ پھر انہیں ہی تکیہ بناکر سوجاتا۔”
”اوہ… مگر کتابوں سے ہی کیوں؟”
”مجھے کتابوں نے ہی اپنے آغوش میں پناہ دی تھی۔
٭…٭…٭
چوتھا ہفتہ ایدھی ہوم میں گزارنا تھا۔
”ایسا کرو تم چھوٹے بچوں کے ساتھ رہو۔”
”اگر وہ میری گود سے سلپ ہوگئے تو۔ میں نے کبھی کسی بچے کو وہ بھی شیر خوار بچے کو نہیں سنبھالا۔”
”پھر تو تم بچیوں کے پاس چلی جاؤ۔”
وہ خوش ہوگئی۔ ”یہ ٹھیک ہے میں آج کھلونے سے کھیلوں گی۔ جھولا جھولوں گی سب کے ساتھ۔ ایک دن گڑیا گڈے کی شادی بھی کروں گی خوب دھوم دھڑکے کے ساتھ۔ سچ بہت مزہ آئے گا۔”
”اور تم۔”
میں بارات لے کر آؤں گا۔” وہ ہنس پڑا۔
”وہ تو تم آچکے ہو۔” اس نے کہنی مارتے ہوئے کہا۔
”ارے گڈے کی بارات کا کہہ رہا ہوں۔” ویسے میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلوں گا اور انہیں پڑھنا لکھنا سکھاؤں گا۔”
”اگر میری ضرورت پڑے تو بلا لینا۔”
”سنو! یہاں بچیوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ میں نئی دلہن ہوں۔ وہ سب مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔” نورین نے سیل فون پر شہزاد کو بتایا۔ تو وہ بولا۔ مجھے سب بھائی جان کہہ رہے ہیں۔ مجھے بہت اچھا لگا ورنہ تو سب مجھے ”سر، سر ” ہی کہتے رہتے ہیں۔ یہ سب مجھے روز آنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں نے پھر آنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے۔”
”مجھے بھی دوبارہ مدعو کیا ہے۔ شکر ہے ہم انہیں پسند آگئے۔”
”اب ہم دوبارہ بہت سارے تحفے لے کر آئیں گے۔”
٭…٭…٭
”پانچواں ہفتہ شروع ہونے والا ہے۔ آج کہیں جانے کا پلان نہیں ہے کیا۔”اس نے شہزاد کو نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی۔
”ہوں ں ں … نیند آرہی ہے سونے دو۔”اس نے کروٹ بدلی۔
یہ سرہانے کتابوں کا ڈھیر ہے پروفیسر، اسے پڑھ لیا ہے تو شیلف میں رکھ دوں۔” اس نے کتابوں کو الٹتے پلٹتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں پڑھا… یہ پورا ہفتہ کتابوں میں گزاروں گا۔ خریدوں گا بھی پڑھوں گا بھی۔”
”اوکے۔”
”چلو تم اپنی نیند پوری کرلو۔ میں کتابوں کو ترتیب سے رکھ دیتی ہوں۔”
”انہیں بے ترتیب تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔”
”ہاں اور گرد آلود بھی نہیں ہونا چاہیے مریم۔”
ارے کیا تم مریم کو خواب میں دیکھ رہے ہو۔” اس نے پوچھا۔
”خواب ہوا ہوئے، مریم تو اب تعبیر ہے۔ تعبیر ہمیشہ سامنے ہوتی ہے۔ تمہاری طرح۔”
”ہوں۔ یہ مریم شاکر ۔ یہ نام سوٹ کر گیا ہم دونوں پر۔”
”آج کتابیں اور کھلونے کی خریداری کریں گے۔”
”ہاں میں یتیم خانے کے بچوں کے لئے ڈھیروں کھلونے خریدوں گی۔… سچی میرا اب بھی جی چاہتا ہے خوب کھلونے خریدوں، ان سے کھیلوں، سائیکل چلاؤ، جھولا جھولوں، پارک میں گھوموں، تتلیوں کے پیچھے دوڑوں۔ سچ زندگی کا مزہ اسی میں ہے۔”
”کس کے ساتھ کھیلو گی۔” اس نے نیند میں ہی پوچھا۔
”اکیلی کیوں… یہ جو اتنے پیارے پیارے ننھے منے بچے ہیں ان کے ساتھ کھیلوں گی۔ انصار برنی ٹرسٹ، ایدھی ٹرسٹاوریہ جو اسپیشل بچوں کا اسکول ہے۔ یہی تو ہے محبت بانٹنے کی جگہ۔ یہ جو ہمارے دلوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے نا۔ اسے ان ہی جگہوں پر جاکر تقسیم کروں گی۔” اس کے چہرے سے معصومیت چھلک رہی تھی۔
”محبت تقسیم نہیں ہوتی مریم… بلکہ اس کا حساب کتاب ہی نہیں ہوتا۔ یہ حساب کا موضوع نہیں ہے۔ یہ صرف محبت ہے۔ اس کاکوئی متبادل نہیں۔ ہاں یہ تبرک ضرور ہوسکتی ہے۔”
وہ مزید بولا۔
”مجھے پہلے سے معلوم تھا تمہاری اورشاکر کی محبت کے بارے میں … پھر بھی میں نے تمہیں اپنی زندگی کا ساتھی بنالیا… ورنہ اس معاشرے میں لوگ دوسرے مرد کے ساتھ انوالو لڑکی کے ساتھ وقت تو گزارنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں اپنی ذاتی زندگی میں قبول نہیں کرتے۔”
وہ اس کی بات کو بغور سن رہی تھی۔
”بے وقوف جو ہوتے ہیں۔” اس نے سلسلہ کلام جوڑا،محبت کرنے والا بہت سادہ معصوم ہوتے ہیں۔ دنیا کے خرافات سے الگ انہیں چالاکیاں، مکاریاں، دکھاوا ، منافقت ، جھوٹ کا پتاہ ہی نہیں ہوتا۔ تم اہلِ دل… اہلِ محبت،میں بھی اسی راستے کا مسافر ۔ ہمیں زندگی کو کائنا نہیں ہے۔ نہ ہی گزارنا ہے۔ ہم تو زیست کو تھامنے والے لوگ ہیں۔”
فلسفے کے پروفیسر… ہی ہی ہی ۔ وہ ہنسی دبانے لگی۔
وہ گنگنانے لگا:
بندگی تھام لو
زندگی تھام لو
سادگی تھام لو
عاشقی تھام لو
”اب تین ماہ ہونے والے ہیں۔ تمہاری چھٹیاں ختم ہوجائیں گی پھر تم کالج چلے جایا کروگے تو میں کیا کروں گی۔
”تم کھیلنا میں تمہیں بہت سے بچوں کے درمیان چھوڑ جاوؑں گا۔ کھلونے کھیلنا۔
ہا ہا ہا ہا ہاہا …ا س نے قہقہہ لگایا۔ گھر کی فضا فرحت انگیز ہوگئی۔
٭…٭…٭
”میں ٹشو پیپر نہیں ہوں کہ استعمال کیا اور پھینک دیا۔”
”مجھے ڈائیلاگ نہ سناوؑ میں کسی کہانی کا کاکردار نہیں۔ تمہارا شوہر ہوں۔”
”تو پھرشوہر کی طرح رہو۔”
”مجھ سے اس انداز میں بات نہ کیا کرو۔ طاہرہ میں نے تم سے شکل دیکھ کر نہیں تمہاری باتیں سن کر پیار کیا ہے۔”
”تو اب بھی باتیں ہی تو سنارہی ہوں ، سنو۔”
”ایسی جلی کٹی باتیں نہیں وہی پہلے والی باتیں ۔ ورنہ سوکام ہیں دنیا میں میرے جیسے آدمی کے لئے۔
”سو کام…؟ کون سے سو کام… ایک دو تو ذرا گنواوؑ۔”
”خدارا… ! مجھے جینے کی راہ دکھلاوؑ… ورنہ…؟”
”ورنہ کیا… آگے بھی کہو۔”
”طاہرہ … مجھے چور، ڈاکو، قاتل بنانے والے بہت ہیں۔ تم مجھے ان کی طرف نہ دھکیلو۔”
”کیا…” وہ دھک سے رہ گئی ۔ ”تم میں چور، ڈاکو، قاتل بننے کے جراثیم بھی موجود ہیں؟” اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”سیاسی وابستگیوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ پارٹی بازی آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ سیاسی پارٹیوں میں، نعرے بازی سے لے کر، غندہ گردی تک کے جراثیم تلاش کئے جاتے ہیں۔ کسی کو اس کے خصوصیات کے مطابق کسی راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔”
”اف خدایا … !!؟”
”بتاؤ… تم سے کیا کیا جراثیم کروائے گئے؟”
”ابھی صرف”بھتہ وصولی” میں شامل رکھا ہے۔”
”اف … تمہیں یاد ہے تمہارے گھر میں صرف ایک وقت کا کھانا ہوتا تھا؟”
”اچھی طرح یاد ہے… کبھی تو وہ بھی نہیں ہوتا تھا۔”
”تم لوگوں کی محنت کی کمائی، جمع پونجی چھین لیتے ہو۔”
”لیکن میرے ہاتھ تو خالی ہی رہتے ہیں۔ وہ سب مال تو پارٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔”
”جاوید… عقل کے ناخن لو… سنبھل جاؤ… یہ راستہ بدلو۔ آگے گلی بند ہے۔”
”معلوم ہے مجھے…مگر اب میں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔”
”میں نے نہیں چھوڑا… میں سنبھال لوں گی تمہیں۔آہستہ آہستہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلو۔
بہت مشکل ہے… پارٹی سے الگ ہونے والے کو زندگی سے الگ ہونا پڑتا ہے ۔ کسی دن شہزاد۔ بھیا کے پاس چلو۔ ان سے مل کر مشورہ کرتے ہیں۔ باہرنکلنے کا راستہ پوچھنتے ہیں۔”
”تمہارے بھیا کا ناکام عشق کا روناختم ہو تب نا۔”
”نہیں اب ایسا نہیں ہے بھیا بہت خوش ہیں۔ وہ تو نورین بھابھی کو مریم کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور بھابھی انہیں شاکرکہتی ہیں۔”
”ہیں… بڑے عجیب ہیں دونوں … یہاں تو ایسی باتوں پر قتل ہوجاتے ہیں۔”
”نہایت معصوم ہیں دونوں۔” طاہر نے کہا۔
”تم کب بھیا سے ملوگے۔”
”جب تم کہو۔”
لیکن وہ کیا سوچیں گے ان کو بہنوئی دہشت گرد ہے۔”
”دہشت گرد…؟” طاہرہ تذبذب میں مبتلا ہوگئی۔”
”ہاں… ایساکوئی کام تو نہیں کیا آج تک مگر نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔” اس کا لہجہ زہر خند تھا۔
”اسی لئے تو کہتی ہوں۔ بھیا سے ملنابہت ضرور ی ہے۔ میں ان سے التجا کروں گی کہ تمہارا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوادیں۔ان کی ہر جگہ جان پہچان ہے۔”
”طاہرہ … یہ مسئلہ معمولی نہیں ہے۔ اسے آسان مت سمجھو۔”
”آرزو کرنے میں کیا ہے۔ جاوید۔ سوچنے میں کیا خرچہ آتا ہے۔خواہش کی جائے تو کچھ حاصل ہوگا نا۔ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ یہی میرا ایمان ہے اور یہی میری محبت۔” طاہرہ بہت پرعزم تھی۔
”جبھی تو تمہارے ساتھ ہوں تمہیں دیکھ کر راستے روشن نظر آتے ہیں۔ جب راستے اجلے ہوں تو زندگی بھی روشن ہوتی ہے۔” وہ زیر لب گنگنانے لگا۔
”ہاں… تو تم مہدی حسن مرحوم کو خراج تحسین پیش کرو۔ میں چلی بھیا سے ٹائم لینے۔”
سیل فون یکا یک بج اٹھا۔
”ہیلو… جاوید بول رہا ہوں۔
”حاضری نہیں دی آج۔”
”چل بے… جلدی آجا۔ کام ہے۔”
”اچھا آتا ہوں۔” وہ اٹھا۔
”کہاں چل دیئے۔” طاہرہ نے بے چینی سے پوچھا۔
”کال آئی ہے۔ تو جانا پڑے گا۔ سلام بھائی نے بلایا ہے۔”
”نہ جاؤ۔ نہ ملو کسی سے۔ چھوڑ دو سب کو ، یہ لوگ تمہارے کچھ نہیں ہیں۔ صرف تمہیں استعمال کریں گے۔”
”ابھی تو میں جارہا ہوں ۔ تم یہاں بیٹھ کر میرے لئے پلان بناوؑ۔” وہ بے نیازی سے کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔
”بس یہی خرابی ہے تم میں بالکل کسی اجنبی کی طرح اچانک چل پڑتے ہو۔” اس نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
وہ ہاتھ چھڑا کر چل پڑا۔
طاہرہ نے فون ملایا۔ ادھر نورین نے فون ریسیو کیا۔ شہزاد واش روم میں تھے۔
”ہیلو… ! بھابی…” وہ رو دی۔
”کیا ہوا۔”
”بھیا کہاں ہیں؟ میں بہت پریشان ہوں۔”
نورین نے کہا۔ ”میں آتی ہوں۔”
”آپ یہاں نہ آئیں بھابی۔ میں آجاوؑں گی۔ آپ کے پاس۔”
”تو پھر ابھی آجاؤ، کیا میں لینے آجاؤ۔”
”نہیں میں رکشہ لے لیتی ہوں۔”
”اوکے۔ اللہ حافظ۔”
٭…٭…٭

”شہزاد…! طاہرہ کا فون تھا کوئی پرابلم ہے اسے۔”
شہزاد نے بال سکھاتے ہوئے (اپنی انگلیوں سے) اسے غور سے دیکھا ۔ آج اس نے اسے شاکر کے بجائے شہزاد (اس کا اصل نام) کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
”دوسروں کا دکھ اپنی تکالیف بھلا دیتا ہے۔” ا س نے زیر لب کہا۔
”ہوں… اس کا ہز بینڈپولیٹیکل ورکر ہے نا… وہی سب سے بڑا پرابلم ہے۔”
”اے ہے، اسے کیا کہہ رہے ہیں۔ محبت میں تو یہ سب نہیں دیکھا جاتا نا وہ تو چور ڈاکو سے بھی ہوسکتی ہے۔” نورین نے بڑی لجاجت سے کہا۔ ”کچھ پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔ یہاں تو کام کروانے کا یہی طریقہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاوید نے طاہرہ کے سارے زیورات یکے بعد دیگرے فروخت کردیئے ہیں۔”
”تو میرے لے لو۔” امی نے بہ وقت ضرورت کام آنے کے لئے ہی دیئے تھے ورنہ مجھے تو سونے کے زیورات پہننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ انہیں فروخت کرکے ان کے کام کردو۔”
”نہیں اس کی شاید ضرورت پیش نہ آئے۔ اللہ کرے بغیر پیسوں کے ہی بات بن جائے۔ میں بھی کیسے کیسے خواب دیکھتا رہتا ہوں… پھر سوچتا ہوں… خواب نہ دیکھا جائے تو تعبیر کیسے حاصل ہوگی… خیر اللہ مالک ہے۔ سب ٹھیک ہی ہوگا انشاء اللہ۔”
”یہ طاہرہ بھی نہ… بس عقل سے پیدل ہے۔”
”کیوں؟”
”تم جانتی ہو مجھے مریم اسی لئے نہیں مل سکی کہ میرے بہنوئی صاحب ”دہشت گردی” میں نام رکھتے ہیں۔”
”اے توبہ … ایسا بھی نہیں ہے۔” نورین نے برجستہ کہا۔
”یہی کہہ کہ مریم کے والد نے انکار کردیا تھا۔” اس نے گویا انکشاف کیا۔
”اوہ… نو!”
رئیلی… مجھے یقین نہیں آتا کہ جاوید ایسا ہے۔” نورین کو تشویش ہورہی تھی۔
”کچھ تو ہے…یونہی کسی کو بیٹھے بٹھائے دہشت گرد نہیں کہہ دیتے۔”
”یہ وہ سیاسی کارکن ہے جو اپنے آپ کو ”توپ” سمجھتے ہیں مگر ہوتے کچھ نہیں بے چارے ۔ کیا ہے طاہرہ کا مستقبل؟ کبھی اس سے پوچھنا۔”
”محبت تو ہے نا دونوں کو ایکدوسرے سے۔”
”بس… یہی محبت ہے، دونوں ایک دوسرے کو محبت بھرے گیت سناتے رہیں۔”
”کچھ کرو ان کے لئے… جاوید کو اس رستے سے ہٹاؤ۔ ورنہ ہم سب پس جائیں گے؟”
”پس جائیں گے؟!! پس چکا ہوں ۔ پہلا شکار تو میں ہی تھا۔ویسے میں کوشش میں ہوں اسے بیرون ملک روانہ کردوں۔ اس کے بائی بے چارے متفکر رہتے ہیں اس کی طرف سے۔ ابا اسی صدمے کو لے کر دنیا سے سدھارے ہیں یعنی طاہرہ کی جاوید سے شادی۔ وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔ مگر وہ مریم کے باپ والا رول ادا نہیں کرسکے۔”
”نورین … ہمارا خاندان علم سے، رشتوں سے وطن سے محبت کرنے والا خاندان ہے۔ہمارے یہاں اولاد کی تربیت کا آغاز شکم مادر سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ مائیں پل پل خود کو سنبھالتی ہیں۔ اچھا سوچتی ہیں اچھا کرتی ہیں، اچھا کھاتی ہیں تاکہ آنے والی نسل اعلیٰ ذہن، اچھی سوچ اور اچھی صحت لے کر پیدا ہو۔مائیں نشست و برخاست تک میں ادب و تہذیب کا خیال رکھتی ہیں۔” شہزاد نے تفصیلاً بتایا۔
”اور یہ شخص… گیارہ بہن بھائی ہیں۔بچاری ماں جان چھڑاتی آگئی ہوگی سب سے۔” شہزاد نے کتابوں کے شیلف کو درست کرتے ہوئے کہا۔ اس نے گفتگو ازسر نو جوڑتے ہوئے کہا۔
”اب تو یہ ماں باپ کے حدود و قیود سے نکل چکا ہے۔ اپنے آپ کو سنبھالے۔ طاہرہ جیسی شریک سفر لڑکی مل گئی ہے تو اس کی قدر کرے… مگر نہیں … جانتی ہو!… اس کا نام جاوید صدیقی ہے لیکن جاوید کوّا کہتے ہیں اسے۔”
وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ آج شہزاد پہلی بار اتنا بولے جارہے تھے۔ یقینا اپنی بہن، بہنوئی اور اس کے مستقبل کی فکر دامن گیر تھی۔ اور تھا بھی کون ان کا… لے دے کے دو ہی بہن بھائی تھے۔ والدین حیات نہیں تھے۔ جو رشتے بنے تھے وہ سب سہمے ہوئے تھے۔ جاوید کا خاندان اس کی حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی اس سے خائف رہتا تھا۔ لہٰذا وہ بھی ملنا ملانا پسند نہیں کرتا تھا اس سے۔ اب ادھر نورین کا میکہ تھا جنہوں نے شاکر کی یادوں کی وجہ سے احتیاطاً نورین سے دوری اختیار کررکھی تھی۔
مگر اپنے داماد پروفیسر شہزاد سے رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہم آنا جانا بالکل نہیں کرسکتے تاکہ نورین کو سوائے اپنے شوہر کے کسی اور کی یاد آئے۔ اس کا نیا ماحول ہو۔ اس لئے کہ نئی زندگی ہے۔ چلو… وہ بھی اپنے حساب سے ٹھیک ہی سوچتی ہوں گی۔
٭…٭…٭
”اور فن ہاؤس کا چکر بھی لگانا ہے۔ ورنہ وہ بچے اپنے ماحول میں بیٹھے ہمیں یاد کرتے رہیں گے۔ ان کے لئے کھلونے خریدنے ہیں… اس بار تنخواہ ان بچوں کی سمجھو ۔ اگر تمہاری اجازت ہو تو۔
”میں تو تیار ہوں۔ میری اجازت کی ضرورت کیا ہے۔ جو آپ سوچیں وہ ٹھیک ہے۔”
”ہاں… آئندہ ماہ… انشاء اللہ جاوید کے معاملات بھی سدھر جائیں گے… لڑکیوں کا سمجھ داری سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ ورنہ پورا خاندان تتر بتر ہوجاتا ہے۔ طاہرہ نے شادی کے معاملات میں بہت ناسمجھی سے کام لیا ہے۔ ہم سب کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے۔ سوچنے میں سب کچھ جتنا آسان ہوتا ہے عملی طور پر اتنا سہل نہیں ہوتا۔
شہزاد نے تاسف کا اظہار کیا۔
”کیا کہیں… یہی محبت ہے ۔” نورین مسکرائی۔
”سال بھر سے یہ ”محبت” اس نکاح کے بندھن کو سنبھالے ہوئے ہے۔
کب تک چلے گاایسے؟ تم طاہرہ کو سمجھاؤ ”
”کیا سمجھاؤں… علیحدگی لے لے… ہمارے یہاں یہ تو نہیں ہوتا۔”
”تو یہ بھی نہیں ہوتا جو ہو چکا ہے۔”
”محبت یہ سب کہاں دیکھتی ہے۔ محبت کا پھول تو کسی کانٹے دار شاخ پر بھی کھل سکتا ہے اور اردگرد کے ماحول کو معطر کرسکتا ہے۔”
”ہاں… ہے نا معطر اس کی زندگی۔” شہزاد نے گویا طنز اً کہا۔
”انشاء اللہ معطر ہوجائے گی۔ اس کی زندگی۔ طاہرہ میں حوصلہ بہت ہے۔”
٭…٭…٭
”سنو … آج بھابی سے بات ہوئی تھی میری۔”
”کس سے… نورین بھابی سے… اچھا… وہ بہت پیاری خاتون ہیں۔” جاوید نے اپنی رائے دی۔
”اور میں… طاہرہ نے جھٹ پوچھا۔ تم… تم تو گلاب ہو گلاب ۔ ہمیشہ مسکراتے رہنے والا گلاب، مہکتے رہنے والا گلاب، جو کبھی مرجھاتا نہیں ہے ۔ میرا گلاب۔”
”اونہہ… چھوڑ و مجھے بنانا۔”
”تو کیا جھوٹ بول رہا ہوں۔”
”نہیں… بولتے تو سچ ہو مگر… سچی راہ پر نہیں چلتے۔ آہستہ آہستہ اپنے یار دوستوں سے قدم پیچھے ہٹاؤ اور اس بے تکی زندگی سے نجات حاصل کرو۔ جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے… تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم بہت خوبصورت زندگی گزاریں گے۔”
”مجھے یاد ہے۔” اس نے سنجیدگی سے کہاو۔ ”ہے تو خوب صورت زندگی مسئلے مسائل سے الگ بیٹھے ہیں۔”
”مجھے خدشات ہیں جاوید… تحفظات ہیں۔” طاہرہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”خدشات، تحفظات، ان ساری ذات برادری کو چھوڑو۔ بس میں اور تم… اور ہماری محبت… آؤ چلو کمرے میں چلتے ہیں۔ یہاں پھول، پودے اور اڑتے پرندے ہمیں دیکھ لیں گے۔” اس نے طاہرہ کا ہاتھ پکڑ کر صحن سے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
”تم بہت اُجلی اُجلی ہو طاہرہ… تمہیں تو ہاتھ دھو کر چھونے کو جی چاہتا ہے۔”
”ڈھلے ہاتھوں سے چھوؤ یا میلے ہاتھوں سے مگر میری زندگی میں اجالا کردو۔”
اس کا لہجہ خواب ناک تھا۔
”بس یہی باتیں ہیں تمہاری جس نے مجھے باندھ رکھا ہے۔ دیوانہ کیا ہے۔ کبھی کبھی تو اپنی قسمت پر رشک بھی آتا ہے… میں نے سوچا ہے یہاں جسے کہیں دور نکل جاؤں ۔ تم بعد میں آجانا۔” جاوید نے اس کی بکھری زلفوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔ ”میں چاہتا ہوں ہمارا بے بی اس وقت آئے جب تمہیں کوئی خوف ، کوئی پریشانی نہ ہو۔”
”کیا ہم اس دن کا انتظار گن گن کر کریں گے؟”
”بے بی بہت ضروری ہے مگر سن لو… ایک دو سے زائد نہ ہو۔ ہمارے ماں باپ کی طرح۔ دس گیارہ… پیدا کرکے جمع رکھا۔ کسی کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ کون کس کو نے میں گھسا کیا کررہا ہے۔” جاوید نے بے زاری سے کہا۔
”جو کرنا ہے جلدی کرو۔ ایک برس بیت چکے ہیں ہماری شادی کو۔”
”تم حساب کرتی رہتی ہو۔ مجھے تو کل کی بات لگتی ہے۔” وہ گنگنانے لگا۔
”شکرہے تم نے ایسا محسوس کیا۔”
”تم نے کرایا ہے۔مجھے بیدار کیا ہے۔ میں نے بھی اس جذبے کا اقرار کیا جو میرے اندر کہیں دبا ہوا تھا۔ محبتوں کی کمی ہی ہوتی ہے جو لوگ غلط رستوں پر چل پڑتے ہیں۔ محبت ہو تو رستوں کی ، منزل کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔ محبت ویران رستے میں چراغ کی طرح ہوتی ہے۔ جو آدمی کو آگے بڑھاتی ہے۔”
”مگر …انسان کو سمجھ داری سے کام لینا چاہیے۔ سوچ بچار کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ انسان ہے۔ یہی غور و خوض کا عمل تو ہے جو اسے جانوروں سے ممتاز بناتا ہے۔ ” طاہرہ نے کہا۔
”ہے نا میری جیون ساتھی… بہت سمجھ دار… پھر مجھے کیا غم ہے۔”
جاوید نے شوخی سے کہتے ہوئے اسے اور اپنے قریب کرلیا۔
اپنے جذبات شیئر کئے۔ جب خمار ٹوٹا تو شام ڈھل چکی تھی۔ شب کے مسافروں کے اپنے سفر پر روانگی کی تیاری کا سمے تھا۔
طاہرہ بولی۔ ”آج دن کی طرح ساری رات میرے پاس رہو۔ فون بند کردو۔ کسی سے بات مت کرو۔ فقط میری سنو۔ میری پیار بھری گفتگو جس نے بقول تمہارے تمہیں میرا بنا رکھا ہے۔”
”جانے کیا کیا سوچتی رہتی ہو۔ جاوید نے انگڑائی کہتے ہوئے کہا۔
”یہ لو… اسے سنبھالو۔” اس نے پاسپورٹ جیب سے نکالتے ہوئے کہا۔
”یہ کل ہی بنا ہے۔”
صرف تمہارا… اور میں …؟” طاہرہ کے گلاب چہرے پر پریشانی بکھر گئی۔
”پہلے مجھے کوئی ٹھکا نہ مل جائے تو بعد میں تم بھی آکر بسیرا کرلینا۔”
”کاش ! ایسا ہی ہو۔” طاہرہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے۔
مری آنکھ کھلے… تم سامنے ہو
شب دن میں ڈھلے … تم سامنے ہو
کوئی دیپ جلے … تم سامنے ہو
کہیں پھول کھلے… تم سامنے ہو
”کبھی مجھے بھی بھیا کی طرح شاعری سے بے حد لگاؤ تھا۔ غم زیست نے اسے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی…سب ٹھیک ہوجائے گا۔ تم ذرا سی کوشش کرو۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارو۔ کسی کا کارندہ بن کر نہیں۔ یہ سیاستدان کسی کے نہیں ہوتے۔ اپنے آ پ کے بھی نہیں۔ انہیں خود سے پیار ہوگا تو اپنے آپ سے وابستہ ہر شے کا ، ہر شخص کا، ہر رشتے کا خیال کریں گے۔ یہ خود غرض، مفاد پرست لوگ ہوئے ہیں۔ ان کے ورکر فاقہ کشی۔ بچارے ان کے آگے اپنی زندگی بچھادیتے ہیں۔ پھر مٹ جاتے ہیں۔ تم انہیں چھوڑدو۔ کیا ملا ہے اب تک تمہیں۔”
”میں خواجہ وارثی کا بیٹا ہوں جس نے ایک سیاسی جماعت کو اپنے چالیس سال دے دیئے۔ اپنے حال میں ہی مست رہ کر دنیا سے گزر گئے نہ کوئی امتیاج نہ کچھ حاصل۔ وفا کشی کی آپ اپنی مثال تھے ابا۔ جاوید آب دیدہ ہوگیا۔ ”لیکن تم پر تو دہشت گردی، زمین فروشی، بھتہ وصولی کا الزام ہے جاوید۔ تم ایسے ہوئے تو بھلا میں یہاں تکلیف دہ وقت گزارتی۔ !! تمہاری اماں نے ابا کو نہ روکا۔ مگر میں تمہیں روکوں گی۔ اچھی زندگی گزارتا۔ میرا اور تمہارا حق ہے۔ میں کیوں اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے بیوہ کی زندگی کاٹیں۔ لوگ مجھ پر ترس کھائیں ۔ میں آئے دن تمہاری تلاش میں منہ پر نقاب ڈالے گلیوں گلیوں پھروں۔ تمہاری اماں بچاری اسی طرح رہیں نا۔” اس سے قبل تمہاری پارٹی کو تمہاری پلاننگ کی بھنک بھی پڑے یہ سرزمین چھوڑ دو۔ بعض صورتوں میں ہجرت ضروری ہے جاوید۔ میری اعلیٰ تعلیم و تربیت ، با علم و ہنر کا فائدہ کیا جب میں اپنے شوہر کو ہی ایک مثالی شخص کے طور پر دنیا کے سامنے نہ پیش کرسکوں… کچھ بھی ہو… میں تمہارا اور تم میرا حوالہ ہو۔ میں نے خود تمہاری ذمہ داری لے کر ہم کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے۔ ورنہ میری کوئی مجبور نہ تھی۔ اگر کچھ غلط کہا ہو میں نے تو مجھے بتاؤ۔ تصحیح کرو۔”
”تم فکر مند نہ ہو سب ٹھیک ہوجائے گا۔” جاوید کے چہرے پر طاہرہ کی باتوں کی طمانیت تھی۔
”محبت بولتی ہے۔ جاوید! اس کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے۔ محبت نامی پھول کی اپنی مہک ہوتی ہے۔ جسے بغیر ناک والے بغیر حس شامہ رکھنے والے بھی سونگھ لیتے ہیں… یہی موقع ہے زندگی کو سدھار نے کا۔”

یار … اتنا نہ ڈراؤ مجھے۔” وہ جذبذ ہونے لگا۔
”پارٹی نے تمہیں جو آفر کی تھی تم نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔” جاوید نے کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس پر بات نہیں ہوسکتی۔ تمہاری تعلیم یافتہ بیوی کو تمہاری پارٹی کیش نہیں کراسکتی۔ میں کسی کرپشن میں شامل نہیں ہوسکتی۔ مجھے کسی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں چاہیے۔ میں بچوں کو پڑھالوں گی۔ بے بی کیئر سینٹر کھول لوں گی مگر ان پارٹیوں کے ذریعے تباہی کا حصہ نہیں بنوں گی۔ صوبائی اسمبلی تو کیا سینیٹ کا ٹکٹ بھی دیں تو نامنظور ہے۔ کئی خاندانوں کو برباد کیا ہے ان پارٹیوں نے، نسلیںجان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ہیں۔ ایسے بھی محلے ہیں اس شہر ابتلا میں جس کے ہر دوسرے گھر میں ایک ”شہید” موجود ہے۔ ایسی شہادتوں سے توبہ جس کے بعد اہل خانہ فٹ پاتھ پر آجائیں اور پارٹی لیڈر، فوٹو بنوا کر بھول جائیں۔ خدارا میری بات کو سمجھو۔” طاہرہ نے جاوید کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
”اور سنو… ! تمہارے ملک سے باہر جانے کا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سمجھے۔ ورنہ کسی کی جان لینے کی ذمہ داری تمہیں سونپ کر جیل میں سڑنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔یا پھر دوسروں کی طرح راستے سے ہٹادیں گے… یہی ہوتا رہا ہے اب تک… تم تو سب جانتے ہی ہو۔ محبت تمہارے راستے میں بیٹھی ہے… اس کا بازو تھام لو اور چل پڑو۔سیدھی اور سچی راہ پر… پل پل پینترے بدلنا چھوڑ دو۔ اپنا ظاہر باطن ایک رکھو۔ وفا کیش آدمی کبھی کسی کودھوکا نہیں دیتا۔ تم بھی کبھی مجھے دغا نہیں دینا۔ ہم بہت مضبوط رشتے میں بندھے ہیں۔ یہ تعلق بہت نازک ہے مگر میرا اور تمہارا رشتہ پیار کے بندھن کے سبب بہت مضبوط ہے۔ اس نے دوبارہ سلسلہ ٔ تکلّم جوڑا۔
”تمہارے اند رجو جذبہ، عزم اور ہمت ہے اسے اللہ کا انعام سمجھ اور اسی کی بنا ء پر اپنا ایک ایسا خاندان تعمیر کرو۔ جو معاشرے میں ، ملک میں ، تعمیری سوچ کو ابھارے۔ اس ملک کو تعمیری سوچ رکھنے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ مگر افسوس سارے معاملات تخریب کی جانب جاتے محسوس ہورہے ہیں۔”
جاوید اس کی باتوں کو سرجھکائے سن رہا تھا۔
٭…٭…٭

”جی جناب… آج دن کیارہا کالج میں۔” نورین نے شہزاد کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
”سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی رہا۔” پھر بھی کچھ نیا نیا سالگ رہا تھا شاید میرے اندر نئی امنگ جاگی ہے۔ ورنہ نظام تو یہاں کا وہی پرانا ہے۔”
”تم بتاؤ آج میرے بغیر پہلا دن کیسے گزارا۔”
”ایسی جگہوں پر جاکر تووقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بے مقصد لوگوں کی زندگی بھی بامقصد ہوجاتی ہے اور فن ہاؤس کے بچے آپ کو بھی یاد کررہے تھے۔”
”آج تمہاری ممی کا بھی فون آیا تھا۔ انہیں بھی فکر تھی کہ میری چھٹیاں ختم ہوگئی ہوں گی اور تم گھر پہ اکیلی ہوگی۔ میں نے بتادیا تم اکیلی نہیں ہو اور بہت بزی ہو۔”
”آج پتا ہے اور فن ہاؤس کے بچے کیا پوچھ رہے تھے، وہ پوچھ رہے تھے آپ کے بچے ہیں۔ ہاہاہاہا۔”
”شہزاد مسکرایا۔ تم نے کیا کہا؟”
”میں نے کہا۔ ہاں تم سب میرے بچے ہو۔” وہ ہنسنے لگی۔
”اتنے سارے۔”
وہ بھی گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بے ساختہ نہیں پڑا۔”
”آج ایک خوش خبری ہے۔” شہزاد نے بتایا۔
”کیا؟ اس نے بے قراری سے پوچھا۔
جاوید کا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ہے۔ نہ ہی کسی اور طرح کی فراغات میں ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنے پکے کارکنوں کو اس طرح دھماکہ ڈرا کر رکھتی ہے کہ دہشت گردی یابھتہ وصول میں تمہارانام ہے۔ تاکہ وہ پھنسے رہیں ۔ جاوید کو بھی یہ سب خوف زدہ کرنے کے لئے بتایا گیا تھا۔
”شکر ہے۔ بہت بڑی ٹینشن ختم ہوگئی۔ وہ تو اللہ کا کرم سمجھو کہ کسی جہادی تنظیم کے ہاتھ نہیں لگا یہ لڑکا۔ ورنہ تو اب تک کہیں نہ کہیں بم باندھ کر پھٹ چکا ہوتا ۔ اور طاہرہ کو صبح تکیے کے نیچے سے پرچی ملنی۔ محبت الوداع ۔ میں چلا اللہ کی راہ میں پھٹ کر جنت میں حوروں سے ملاقات کرنے۔ طاہرہ تم بھی چاہو تو کسی حور کا روپ دھار کر وہیں آناملنا۔”
شہزاد کے تفصیلاً کہنے پر نورین قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔ عجیب عیب نمونے ہیں ہمارے خاندان میں۔”
”آج تم کچھ زیادہ نہیں بول رہے۔” نورین نے پوچھ ہی لیا۔
”ہاں میں آج کل بہت خوش ہوں تم نے مجھے میرے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے۔”
”ہاں… ذرا دیکھو… انجانے میں کیسی غلطی کر بیٹھی۔ زندہ شخص کو مرحوم کے نام سے پکارتی رہی۔ معاف کردو مجھے۔”
اس میں تمہارا کیا دوش ہے۔یہ دل کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آواز کسی کو دو ۔ لب پر کسی اور کا نام آجاتا ہے۔ لیکن وقت ہی بہت بڑا مرہم ہے۔ چلتا ہے سب چلتا ہے۔ محبت میں، یہی تو محبت کی نشانیاں ہیں۔”
”لیکن تم مجھے مریم کہہ سکتے ہو۔ مجھے یہ نام اچھا لگتا ہے۔ پاک، معصوم سا۔”
”اس معصوم کے ساتھ برا ہوا۔” شہزاد کے چہرے پر اداسی دکھائی دی۔
”کس کے۔” نورین نے جلدی سے پوچھا۔
”مریم کے۔ اس کا شوہر سال بھر سے لاپتہ ہے۔” شہزاد کا لہجہ دکھ بھرا تھا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہوا۔”
”کل جو مسنگ پرسن کے لئے احتجاج ہوا ہے ان میں مریم آگے ہی کھڑی تھی۔ اپنے شوہر کی تصویر اٹھائے۔ ساتھ دو بچے اور اس کے والدین بھی تھے۔ اخبارات میں تفصیل پڑھ لو۔”
”اف خدایا۔” نورین نے ماتھے پر ہاتھ پٹخا۔
”ہوا کیا؟ وہ کیسے لاپتہ ہوا؟ کس نے غائب کیا اسے؟ نورین نے کئی سوال ایک ساتھ داغ دیئے۔ پھر خود ہی بولی۔ چلو شہزاد ! اسے ہماری ضرورت ہے۔ وہ اکیلی ہے۔”
”میں نہیں جاسکتا ۔ تم چلی جانا۔ طاہرہ کو بھی ساتھ لے لو۔” اس سے وہ لوگ واقف ہیں۔اسی کا انکے گھر آنا جانا رہا ہے۔ میں اس کے والد کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔”
”اور طاہرہ! … کیا وہ اسے برداشت کرلیں گے اپنے گھر میں؟… کیونکہ اس کے شوہر پر ہی اعتراض تھا نا انہیں۔” نورین نے نکتہ بیان کیا۔
”ہاں اسے تو… برداشت کرلینا چاہیے کیونکہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ جانے کون کون سے ادا رے (خفیہ ایجنسی) کی ان پر نظر ہو۔ بلکہ ابھی چند دن ٹھہرجاؤ۔ جاوید چلا جائے تو پھر چلی جانا۔ کہیں ایسا نہ ہو اس کا معاملہ سلجھتے سلجھتے ڈور الجھ جائے۔ جاوید کو میں ایک دیر ینہ دوست کے پاس امریکا بھجوا رہا ہوں۔ اچھا بڑا پھولوں کا کاروبار ہے کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرلے گا اسے ۔ شکر ہے مشکل وقت میں کام آنے والے دوست ملے ہیں۔”
”این ں ں … ہوں ، ہوں ں… نورین نے کھنکھارنے کے انداز میں گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ ”اور مجھے بھی دعا دو میں بھی تمہیں بہت مشکل وقت میں ملی ہوں جب تم بن میں لیلیٰ لیلیٰ میرا مطلب ہے مریم مریم پکارتے پھر رہے تھے۔” نو رین نے اداکاری کی ۔
”جی نہیں میں اس وقت تک سنبھل چکا تھا۔ البتہ آپ شاکر شاکر پکارتی پھر رہی تھیں۔ تمہارا درد تھا ہی ایسا۔ یکا یک کوئی پیارا پہلو سے نوچ لیا جائے۔ وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ اف رگوں میں لہو سوکھجاتا ہے صدمے کے مارے ۔”
”اللہ کی مرضی سمجھ کر حالات کا مقابلہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اب اس کی مرضی وہ ہمیں جس حال میں رکھے۔ پھر بھی میں التجا کرتا ہوں کہ ”اے رب مجھ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتا، میں بہت ناتواں ہوں۔ کسی آزمائش کا وزن نہیں سہار سکتا۔ بس میرا دل تیری اور تیرے بندوں کی محبت سے سرشار رہے کافی ہے۔”
نورین نے جلدی سے آنچل سر پہ ڈال لیا۔ ”تم صدقِ دل سے دعا کررہے تھے بناء ہاتھ اٹھائے۔” نورین بولی۔
دل تو ہر دم اسی کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ہاتھ اٹھے نہ اٹھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭
جاوید سے کئی بار اسکائپ پر بات ہوچکی تھی۔ وہ امریکا جاکر خوش تھا۔ طاہرہ کرائے کا مکان چھوڑ کر اپنے بھائی شہزاد کے گھر شفٹ ہوگی۔جب اُسے مریم کی خیر خیر لینے کا کہا گیا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ اس کا موقف ایک طرح سے درست بھی تھا کہ جانے کون کون سی ایجنسیاں مریم کے گھر پہ نظر گاڑے بیٹھی ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ جاوید کی خاموشی سے امریکا روانگی سے کہیں اس کی پارٹی کو مسئلہ نہ کھڑا کردے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ وہ بھی اپنی روانگی تک کسی کونے میں دبک کر گزار دے۔
ادھر نورین جذبہ ہمدردی دل میں لئے مریم سے ملنے کے لئے بے چین تھی۔ بے چاری شوہر کے بغیر جانے کن کن مصائب سے گزری ہوگی۔ طاہرہ اسے بھی منع کررہی تھی کہ مریم کے گھر کا رخ نہ کرے مگر نورین کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ سوائے ان کے جن کے دلوں میں اللہ دوسرے کا احساس بیدار رکھتا ہے۔
”چلو شہزاد! ہم مریم کے ہزبینڈ کو تلاش کرنے میں اس کی ہیلپ (مدد) کرتے ہیں۔”
بھابی آپ بہت معصوم ہیں۔ مریم سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے۔ دنیا دیکھ دیکھ رہی ہے۔ آپ بھیا کے لئے کوئی مصیبت کھڑی نہ کریں۔ طاہرہ نے نورین کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔
”اچھا… تو اس کے بچوں کے لئے کچھ کرتے ہیں۔”
”بچے اپنی ماں کے ساتھ ہی بہتر ہیں۔” آپ ان کی کون ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ آجائیں گے۔”
”اوہ… ہاں … تم ٹھیک کہتی ہو مگر اسے ہمدردی کی ضرورت تو ہے نا۔”
”تو آپ فون کرلیں۔”
”اس کا فون کیا آزاد ہوگا؟ آبزرویشن میں ہوگا۔” شہزاد نے معلومات فراہم کی۔
”کہیں سے معلومات حاصل کریں۔” نورین نے مشورہ دیا۔
”بھابی ان کے ابا خود اسٹرونگ پرسن ہیں وہ کررہے ہوں گے کچھ نہ کچھ اپنی بیٹی کے لئے جدوجہد۔
٭…٭…٭
شام کو شہزاد ہاؤس میں رونق تھی۔ گھر کی دیواروں نے پہلی بار مہمانوں کو دیکھا تھا۔ جاوید کے تین بھائی اس کی تلاش میں پروفیسر شہزاد کے گھر آئے ہوئے تھے۔ طاہرہ نے ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کاکہنا تھا کہ جاوید دس دن سے لاپتہ ہے۔ اور طاہرہ بھابی کو شاید کچھ معلوم ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی تلاش شروع کی جائے۔”
”وہ سب شہزاد کے منتظر تھے(جو کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے) تاکہ ان کے مشورے کے بعد کوئی قدم اٹھایا جائے۔
طاہرہ پریشانی ہورہی تھی کہ اگر ان کو بتادیا جائے تو شاید خبر لیک ہوجائے اور اس کی روانگی میں کوئی رخنہ نہ پڑجائے۔ شہزاد نے انہیں بتایا کہ طاہرہ دو دن سے گھر میں اکیلی تھی لہٰذا ان کے گھر آگئی ہے۔ ابھی اپنے طور پر جاوید کو تلاش کیا جائے پھر اس کی بیوی یعنی طاہرہ کی مدعیت میں گم شدگی کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ آپ لوگ طاہرہ کے بغیر تھانے نہ جایئے گا۔ ورنہ پہلا شک پولیس کو طاہرہ پر ہی ہوگا۔ جاوید کے بھائی سیدھے سادھے لوگ تھے پروفیسر شہزاد کی عزت و تکریم کے لحاظ میں وہ پہلے ہی نگاہیں جھکائے ہوئے تھے۔ انہوں نے شہزاد سے اتفاق کیا اور رابطہ نمبر کا تبادلہ کرکے دوبارہ ملنے کا کہہ کر چلے گئے۔ ادھر شہزاد نے جلد از جلد طاہرہ کو روانہ ہونے کا عندیہ دے دیا۔ بصورت دیگر کوئی بھی رخنہ اندازی ہوسکتی ہے۔”
٭…٭…٭
طاہرہ کی ایسے شوہر کے پاس روانگی کے بعد شہزاد اور نورین نے جاوید کے بڑے بھائی کو بلا کر لذتِ کام و دھن کا انتظام کیا اور نورین نے انہیں خوش خبری سنائی کہ ، جاوید امریکا میں ہے اور طاہرہ کو بھی ہم نے شوہر کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ وہاں اطمینان وسکون کے ساتھ بے بی کو جنم دے سکے۔ شہزاد نے چند قانونی باریکیوں سے انہیں آگاہ کیا اور بتایا کہ ”جاوید کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ اپنی فیملی لائف سکون و اطمینان سے گزارے جو اس کے لئے یہاں ممکن نہیں تھا۔ اب آپ اس کے اور آنے والے بچے کے حق میں دعا کریں اور کسی کو جاوید کے بارے میں کچھ نہ بتائیں۔”
جاوید کے بھائی نے سکون کا سانس لیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شہزاد اورنورین کا شکریہ ادا کرکے روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
”شکر ہے طاہرہ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ خد اکرے وہ وہاں خوش رہے۔” شہزاد نے اپنی بہن کو دعا دی۔
”تم پریشان نہ ہو۔ طاہرہ بہت سمجھدار ہے۔ وہ سب کچھ سنبھال لے گی۔” نورین کی بات پر شہزاد نے کہا۔ ”دعاؤں کی ضرورت تو اپنی ہے ناکہ آنے والے ہر مشکل میں دعا ڈھال بن جاتی ہے۔”
”ہاں وہ تو ہے۔ میں تو بہت خوش ہوں بھئی… مرے ہم سفر تو صوفی منش ہیں… جناب کے پاس دعاؤں کا ذخیرہ ہے دوسروں کو دیتے رہتے ہیں۔” نورین نے فخریہ انداز میں کہا۔ سچ ایسے انسان کے زیر سایہ آدمی خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو بہت سیکور نپل کررہی ہوں۔ واقعی اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔”
٭…٭…٭
اس دنطاہرہ نے اسکائپ پر گفتگو کرتے ہوئے نورین کو بتایا کہ ”بھیا کو مریم کے معاملے سے الگ رکھیں اور آپ مریم کا نام بھی لینا چھوڑ دیں۔ آپ اسے نہیں جانتیں۔ وہ بہت چالاک عورت ہے۔ بھیا سادہ دل ہیں اور آپ ان سے بھی زیادہ۔
جب میں جاوید جیسے شخص سے سب کی مرضی کے خلاف شادی کرسکتی ہوں تو مریم نے ایسا کیوں نہ کیا۔ اس نے بھیا کو اپنے شوہر کے مقابلے میں چھوڑا ہے۔ وہ میری سہیلی تھی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں اس نے میرے پروفیسر بھائی کے بجائے ایک اعلیٰ عہدے دار شخص سے شادی کرلی۔ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اس کے خلاف مقدمات اخبارات میں آتے رہتے ہیں۔ اور درونِ خانہ کیا کیا معاملات ہیں ہمیں کیا معلوم ؟”
نورین ہکا بکا اسے سنتی رہی اور اثبات میں سرہلاتی رہی۔
”بھائی آپ بھیا کا خوب خیال رکھیں۔ بجائے یہ کہ وہ آپ کے لئے ناشتہ بنائیں آپ ان کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کریں۔ ان کے سر میں تیل لگائیں۔ وہ پڑھتے پڑھاتے میں دماغ پر زور تو پڑتا ہوگا۔ سوتے وقت تلوے میں بھی تیل کی مالش کیا کریں تبھی مریم ان کے دماغ سے نکلے گی۔”
”مریم ان کے دماغ میں کیسے گھسی رہے گی۔ ان کے ساتھ تو میں رہتی ہوں۔” نورین نے سادگی سے پوچھا۔
”بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساتھ رہنے والا ساتھ ہی رہ جاتا ہے اور دل و دماغ میں کوئی اور بسیرا کرلیتا ہے۔” بھابی عورت اگر اپنی اہمیت کو سمجھ لے نا تو ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ہر روپ میں کامیاب رہتی ہے۔ عورت مرد کو جنم دیتی ہے۔ اس کی کمان اسی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔جو عورتیں یہ باتیں سمجھتی ہیں وہ بے نام و نشان رہ کر بھی اپنی اپنی جگہ حکمرانی کررہی ہوتی ہیں۔ آپ خوش نصیب ہیں بھیا سادہ آدمی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا فلسفہ ہی اور ہے۔ ورنہ یہ جو آپ شادی کے دن سے ہی شاکر شاکر کی رٹ لگائے رکھتی تھیں نا کوئی اور ہوتا تو پہلے ہی دن کاغذ تھما کر نکال باہر کرتا۔
”لیکن شاکر تو اس دنیا میں نہیں ہے طاہرہ۔” نورین نے روہانسی ہوکر کہا۔
”یہ بھی آپ کی خوش نصیبی ہے کہ جس شخص کا آپ نام لیتی رہی ہیں وہ مر چکا ہے۔” طاہرہ نے وضاحت کی۔
”ویسے بھی بھیا آپ سے دس سال بڑے ہیں جبھی انہوں نے آپ کی نفسیات سمجھ لی۔”
”تم تو مجھے ڈرا رہی ہو۔ بہت مشکل و عجیب باتیں کررہی ہو۔ ” نورین نے کہا۔
”ہاں بھابی یہ تو جانتی ہیں نا کہ بھیا کالج میں پڑھاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں ہر وقت نظروں کے سامنے بنی سنوری موجود ہوتی ہیں۔”
”نہیں بھئی! میرے ہز بینڈ ایسے نہیں ہیں۔” نورین نے کہا۔
”وہ تو کسی کے نہیں ہوتے۔ مگر کچھ ہوتے پتہ ہی نہیں چلتا۔”نورین نے خدشات سے آگاہی دی۔
”بھئی میں تو اللہ کے سہارے چلتی ہوں۔ اسی کے آسرے پر ہوں۔ اپنے سارے معاملات اسی کے حوالے کرتی ہوں۔ وہ میرے حق میں ہمیشہ بہتر کرے گا۔” اتنا کہہ کر نورین نے خود کو پرسکون اور طاہرہ کو خاموش کردیا۔
٭…٭…٭
شام کو شہزاد ایک میٹنگ سے تاخیر سے پہنچے تو نورین کا چہرہ کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ گھر میں بھی کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ یعنی اس کے کپڑے تبدیل کرنے کے لئے الماری سے باہر رکھے تھے۔ پانی میز پر موجود تھا۔ چائے بھی تقریباً تیار تھی۔
وہ مسکرائے ۔ نورین نے بتایا۔ طاہرہ نے کہا ہے کہ اس کے بھیا کا خیال رکھا کروں ۔
وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔ ”اس کے بھیا اس کے لاابالی شوہر سے بہت مختلف ہیں۔” تم نے بتایا نہیں اُسے۔
”نہیں۔ میں خاموشی سے سنتی رہی۔” اس کا چہرہ ابھی تک پر فکر لگ رہا تھا۔ وہ اس کے قریب آئے اور اپنی محبت کی مہر اس کے رخسار پر ثبت کردی ۔ نورین گلنار ہوگئی۔ انہوں نے اپنی محبت کی سرخی ا سکے چہرے پر دوڑتی ہوئی محسوس کی۔ اس کی پلکیں اٹھ کر گریں اور وہ لپک کر شہزاد کے بازوؤں میں سمٹ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئی۔
٭…٭…٭
شام کے وقت لان میں پھولوں کے درمیان وہ بیٹھے چائے کا سپ لے رہے تھے۔ نورین نے کہا۔ ”طاہرہ کا بے بی دیکھنے چلیں گے نا؟”
شہزاد چونکے۔ ”وہ کب آیا؟”
”ابھی نہیں آیا۔ آنے والا ہے۔” نورین نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔
”پہلے آلینے دو۔ پھر پروگرام بنالیں گے۔”
”پروگرام پہلے بنالیں کیونکہ اُسے تو آنا ہی ہے ۔”
”آپ کا بے بی کب آئے گا؟” شہزاد نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”وہ جھینپ کر بولی۔ ”اس کے پاپا سے پوچھ کر بتادوں گی۔”
پھر دونوں ہی ہنس پڑے۔ لان میں کھلے پھول مسکرائے اور درختوں پر بیٹھے پرندے چہچہانے لگے۔
٭…٭…٭
گزشتہ دس یوم سے وہ گھر پر ہی تھی۔ شہزاد صبح سویرے کالج جاتے تو کبھی دوپہر کبھی شام کو واپسی ہوتی۔ وہ خود کو گھریلو کاموں میں مصروف رکھتی۔ گھر بھرا پُراہوتو کام بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر آرام۔ طاہرہ کی مریم کے بارے میں کہی گئیں باتیں اس کی سوچوں کو منتشر کرنے لگتیں۔ وہ خود کو سمجھاتی۔ مریم ایسا کیوں کرے گی۔ یعنی اس کے شہزاد کی جانب قدم کیوں بڑھائے گی؟ اس کا شوہر تو حیات ہے اس کے گلشن میں دو پھول بھی ہیں پھر وہ میرا چمن کیوں اجاڑے گی۔مجھے ایسا کوئی خیال اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھنا چاہیے۔ میں جب بے ایمان نہیں تو کوئی میرے ساتھ کیوں دھوکا کرے گا۔ وہ ان تمام خیالات کو جھٹک کر گنگنانے لگتی۔
بک شیلف کی صفائی عموماً شہزاد ہی کیا کرتے تھے آج اس نے خود ہی کتابوں کو جھاڑنا شروع کردیا۔ جابجا کتابوں میں کاغذ کے پرزے رکھے تھے۔ جن پر اشعار، غزل یا نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔ شاید بلکہ یقینا جب شہزاد پر آمد ہوتی تو وہ ان نظموں کو احائمہ تحریر میں لاتے اور بعد میں کتابوں کے اندر رکھ کر بھول جاتے۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔
ہاں یہی محبت ہے
ناشتے کے ٹیبل پر
تم کو سوچتے رہنا
چائے کی پیالی میں
چینی گھولتے رہنا
چپکے چپکے پھر ہنس کر
راز کھولتے رہنا
ہاں یہی محبت ہے
لڑکیوں کے جھمگٹ میں
تم کو ڈھونڈتے رہنا
کتنا اچھا لگتا ہوں
اس سے پوچھتے رہنا
اور روٹھ جانے پر
دل کا ڈولتے رہنا
کل بھی ملنے آؤ گی؟
اس سے پوچھتے رہنا۔
ہاں یہی محبت ہے (نوٹ : نظم فرازانہ روحی اسلم)
نظم پڑھ کر لمحے بھر کو دل کی دھڑکن تھمنے لگی۔ اس نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھر کر پیا اور صوفے پر گر گئی۔ بالآخر اس نے خود کو سنبھال ہی لیا۔ وہ خود کو سمجھانے لگی۔ ”میرا ہم سفر ایک شاعر بھی ہے۔” شام کو شہزاد گھر آئے تو اس نے بتایا کہ بک شیلف کی صفائی کے دوران اس نے نہایت دلکش نظمیں پڑھیں۔ ”آپ مشاعروں میں جایا کریں۔” اس نے وہ مشورہ دیا جس سے بیویاں چڑھتی ہیں۔
”مشاعرے رات گئے ہوتے ہیں۔ تم اکیلی کیا کروگی یہاں۔ ”مجھے بھی ساتھ لے چلنا۔”
”تھکن بھی ہوجاتی ہے۔ نیند الگ پوری نہیں ہو پاتی۔ مطالعے کے لئے ٹائم کم ملتا ہے۔ جو مجھے منظور نہیں۔ صبح کلاس لینی ہوتی ہے۔”
”تم سناؤ دن کیسے گزرا؟”
”بتایا تو ہے… آپ کی نظمیں پڑھ کر۔”
کھانے سے فارغ ہوکر آرام کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”کیا انسان کو زندگی میں دوبارہ محبت ہوسکتی ہے؟”
”ہاں…کیوں نہیں… محبت ہمارے اندر موجود رہتی ہے۔کبھی جب اسے اپنا ماخذ ملتا ہے تو ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ورنہ خاموش رہتی ہے۔ یا اپنا ساتھی تلاش کرتی ہے۔”
”آپ کو مجھ سے محبت ہے نا؟ ” نورین نے دھیرے سے پوچھا۔
”یہ تو تمہیں معلوم ہوگا۔” تبسم آمیز چہرے کے ساتھ انہوں نے اس کی جانب دیکھا۔
”کیسے معلوم ہوگا مجھے؟ ” نورین کا انداز سوالیہ تھا۔
”ہوجائے گا… سب معلوم ہوجائے گا۔ محبت کب خاموش رہتی ہے۔ یہ تو خاموشی میں بھی بولتی ہے۔ اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ احساسات کو جگاتی ہے۔ سانس کو معطر رکھتی ہے۔ زندگی کے چراغ کو مزید فروزاں کرتی ہے۔”
”اس نے اپنا سر اس کے بازوؤں پر رکھ کر کہا۔ مجھے کوئی اچھی سی نظم سنائیں۔” ایسی نظمیں تو تمہیں طاہرہ سنائے گی۔ اسی نے جاوید کے عشق میں ڈوب کر پروین شاکر بننے کی کوشش کی ہے۔” وہ ہنس پڑے۔
”آپ کی باتیں پہلے مجھے فلسفہ لگتی تھیں۔اب شاعری لگتی ہیں۔”
”ہوں… لوگ فرمائش کرکے سنتے ہیں تمہیں تو مفت سننے کو مل جاتی ہیں۔”
”آپ سے مل کر مجھے لگا کہ میں بہت بدھو ہوں۔”
”ہاہا ہا ہا … محبت بھی بدھوؤں کو ہی ہوا کرتی ہے… ارے نہیں میں تو مذاق کررہا تھا… تم بہت سادہ طبیعت اور معصوم ہو۔ تمہیں چالاکیاں، مکاریاں چھو کر بھی نہیں گزریں۔ زمانے کا تم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ تمہاری معصومیت نے میرے گھریلو ماحول کو بہت معطر کر رکھا ہے۔ یہاں کی فضا بہت پرسکون و پرکیف ہے… تم اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرو۔”
”نہیں… میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ گھر میں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گی۔”
”میں لڑکیوں کے علم و ہنر دونوں حاصل کرنے کا قائل ہوں۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ یا انٹیرئیر ڈیزائننگ میں ہی داخلہ لے لو… ویسے تم عجیب ہی ہو میکے جانے کا کبھی نام نہیں لیا تم نے۔”
”ممی نے کہا تھا میکے کا رستہ بھول کر اپنے شوہر کے دل میں راستہ بنانا۔ لہٰذا میں ادھر کبھی گئی ہی نہیں۔مجھے سب آپ کے حوالے کرکے بھول ہی گئے۔”
”تمہارے حق میں یہی بہتر تھا۔”
”شکر ہے آپ نے مجھے سنبھال لیا ۔ بہت شکریہ آپ کا۔”
اس نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔
٭…٭…٭
وہ ہر سٹرڈے نائٹ اپنے گھر میں ہی مناتے۔ جبکہ دن کہیں نہ کہیں بے سہارا بچوں کے ساتھ گزارتے۔ رات گئے تک آپس میں باتیں کرتے۔ اٹھکیلیاں کرتے۔ کبھی آئس کریم کھانے ، کبھی جوس پینے نکل جاتے۔ ان کے فلک شگاف قہقہے درو دیوار اپنے اندر جذب کرلیتے۔
مگر اس سٹرڈے نائٹ گھر میں خاموشی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے درودیوار بھی چپ سادھ لی ہے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ سمجھیں انہونی ہوگئی تھی۔یا پھر وہ جس کا طاہرہ کو خدشہ رہا کرتا تھا۔
اس ایک فون کال نے دونوں کو ہی امتحان میں ڈال دیا تھا۔
”ہیلو…” رات گئے فون پر ہونے والی گفتگو کو نورین بھی سن رہی تھی۔
”کون۔”
”شہزاد بات کررہا ہوں پروفیسر شہزاد ازل صدیقی۔ آپ کون؟”
”مریم۔” چند لمحے خاموشی کے بعد آواز آئی۔ ”مریم جو کبھی تمہاری تھی۔” نسوانی آواز نے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔
”اوہ… آ پ کیسی ہیں… آپ کے شوہر کے بارے میں جان کر دکھ ہوا۔” شہزاد نے افسوس کا اظہار کیا۔
”دکھ… آ پ کو کیوں دکھ ہونے لگا۔ آپ تو اپنی زندگی میں مگن ہیں۔”
”جی… میں دوسروں کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے والا آدمی ہوں۔ اگر آپ مجھے جانتی ہیں تو۔”
”مگر میرا ساتھ تو نہیں دیا۔ میں اس وقت بہت مشکل میں ہوں۔ محبت مشکل میں ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔” نسوانی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
”مجھے میری محبت سے دست بردار کیا جاچکا ہے اور اس وقت آپ کسی اور کے نکاح میں ہیں۔” پروفیسر نے جلدی جلدی بات ختم کی۔
”پھر بھی خوشگوار دنوں کے صدقے ہی کچھ سہارا دے دیتے مجھے۔”
”آپ کو میرے سہارے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب کچھ کہنے سے پہلے بہتر ہے کہ آپ اپنے والد گرامی سے اجازت لے لیں۔” شہزاد نے مشورہ دیا۔
”تم تو ایسے نہیں تھے شہزاد…!” نسوانی آواز نے شکوہ کیا۔
”مجھے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کیسا تھا۔ یا کیا ہوں۔آپ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ مجھ سے جو ہو سکے گا۔ میں آپ سے تعلق رکھے بناء ضرور کروں گا۔ اللہ حافظ۔” شہزاد نے فون رکھ کر ٹھنڈی سانس لی۔
”پوری گفتگو سننے کے بعد نورین کو کسی سوال جواب کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ کبھی اپنے شوہر کو اور کبھی درو دیوار کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے سائیڈ ٹیبل سے گلاس بھر کر شہزاد کے آگے بڑھایا۔
”جانے اب کون سا امتحان ہونے والا ہے۔” پروفیسر شہزاد کے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے۔ نورین بھی برابر میں آکر پڑ گئی۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد شہزاد نے کہا۔ ”تم کوئی ٹینشن مت لینا۔ میں کہیں نہیں جارہا۔”
”اب کیا ہوگا؟” نورین کی آواز میں فکری مندی تھی۔
”کیا ہوگا… ہمارا بچہ ہوگا اور ہم ہوں اورکیا ہوگا۔” شہزاد نے شرارتی انداز میں کہا تو نورین نے شرما کر تکیے میں منہ چھپا لیا۔
”سنیں آپ مریم کے شوہر کے بارے میں معلوم کریں نا۔” نورین نے جذبہ ہمدرد ی سے مغلوب ہوکر کہا۔
”کیا معلوم کروں… رشوت لئے بغیر تو وہ چھینک بھی نہیں مارتا تھا۔ سارے زمانے کومعلوم ہے۔ مجھے تو معاف رکھو۔”
”اور یہ مریم… اس نے کبھی اپنے شوہر کو سیدھاراستہ دکھانے کی کوشش نہیں کی؟”
”آپ کو کیسے معلوم کہ مریم نے ایسا نہیں کیا؟” نورین نے پوچھا۔
”کچھ بتایا ہوتا تو موجودہ صورت حال درپیش ہی نہ آتی اور اسے مجھ سے رابطے کی کیا ضرورت تھی۔”
”اسے آپ سے اب بھی محبت جو ہے۔” نورین نے کہا۔
”نہیں… اسے کیا خاک محبت ہوگی مجھ سے ۔ شوہر مشکل میں ہے تو سابقہ محبت یاد آگئی۔ سیدھے طریقے سے اس کے لئے جدوجہدکرے اور بس۔”
”ذرا دیکھو… دو بچوں کا بھی خیال نہیں ہے۔”
”اس کے دل میں تمہاری محبت زندہ ہے۔”
”ہاں تو اس کا شوہر اگر لاپتہ ہے مگر زندہ تو ہے نا۔ میں کسی کی بیوی کے بارے میں سوچ کر اپنا ذہن پر اگندہ نہیں کرسکتا۔ دین ایمان بھی کوئی چیز ہے… میرے دل و دماغ میں تم ہو… صرف تم۔”
شہزاد نے رومان پرور انداز میں کہا تو وہ اس کے مزید قریب آکر بیٹھ گئی۔
”آپ ایسا کریں۔ اس کے والد سے ملیں۔” نورین نے مشورہ دیا۔
”میں اتنا احمق نہیں ہوں۔ وہ سمجھیں گے آگیا میری بیٹی پر پھر ہاتھ صاف کرنے بلکہ تمہیں کیا معلوم وہ تو کہہ بھی دیں گے کہ ”ابھی میرا داماد لاپتہ ہوا ہے مرا نہیں ہے۔ تم کس چکر میں یہاں آگئے ہو۔”
”اچھا…” نورین حیران ہوئی۔
”اور کیا… وہ بہت منہ پھٹ شخص ہیں۔ تمہیں بہت زیادہ ہمدردی ہے تو اس کے شوہر کے مل جانے کی دعا کرو۔ اس حالت میں (پریگنینسی) دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔
٭…٭…٭
طاہرہ رات کو اسکائپ رپ آن لائن ہوئی تو اس نے بتایا کہ مریم کو اس نے کسی ٹی وی چینل پر احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہوشیار رہنا کہیں وہ بھیا تک دوبارہ رسائی نہ حاصل کرلے۔ تم نہیں جانتی ہو نورین ۔ مریم بہت مکار اور خودغرض عورت ہے۔ اس نے منگنی توڑنے میں لمحہ بھر نہیں لگائی تھی۔ اور اس (کرپٹ) بدعنوان افسر اعلیٰ سے شادی کرلیتھی۔ اسے اگر یہ اندازہ ہوگیا کہ تم بھی اللہ میاں کی گائے ہو تو تمہیں پہلی فرصت میں الٹی چھری سے ذبح کر ڈالے گی۔ اور اپنے شوہر کی دولت اور بھیا کے جذبات سے پھر کھیلنا شروع کردے گی۔
”اب آپ اپنا اور بھیا دونوں کا خیال رکھیں۔ ان کا ٹائم ٹیبل نوٹ کریں گھر سے باہر زیادہ وقت نہ گزارنے دیں کہ وہ کہیں اور جانے کا سوچیں۔”
”میں اتنی چوکیداری نہیں کرسکتی۔ نہ ہی ان پر کوئی پابندی لگاؤں گی۔ وہ سمجھدار آدمی ہیں کوئی غلطی نہیں کریں گے۔” طاہرہ کو نورین نے سمجھایا۔
”ہوں… بڑے بڑے سمجھدار مردوں کو میں نے چالاک عورتوں کے آگے پانی بھرتے دیکھا ہے۔” طاہرہ اسے مریم کے بارے میں ایک بار پھر خبردار کررہی تھی۔
”میں اپنے شوہر کو باندھ کر نہیں رکھ سکتی۔ میں محبت میں آزادی کی قائل ہوں۔ وہ جہاں چاہیں جائیں جس سے چاہیں ملیں۔ جو چاہیں سوچیں اور کریں۔ انہوں نے مجھے اس وقت برداشت کیا ہے جب میں نیم دیوانگی کے عالم میں تھی۔ ان کے نکاح میں رہ کر میرے لبوں پر شاکر کا نام رہتا تھا۔ انہوں نے کسی مہربان کی طرح مجھے سنبھالا۔ زندگی کا مطلب سمجھایا۔ زیست کے رستے پر گامزن کرایا اور اب میں خود ایک اور زندگی کو اپنے وجود میں سنبھالے ہوئی ہوں۔ جو بہت جلد ان کے پیار کی نشانی کے طور پر دنیا میں آنے والا ہے۔” نورین نے کہا۔
”وہ سب ٹھیک ہے بھابی… مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا اب میں آپ کے حق میں دعائے خیر ہی کرسکتی ہوں۔”
٭…٭…٭
مریم نے اپنی سابقہ عادت کا دوبارہ آغاز کردیا۔ یعنی روزانہ فونکرنا۔ وہ اسے پرانی محبت یاد دلاتی۔ کس نے کب کیا کیا تھا اسے سب یاد تھا۔ وہ آج بھی شہزاد سے ٹیلی فونک گفتگو میں مصروف تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”محبت صرف کسی وجود کے حصول کا نام نہیں۔ یہ تو ایک جذبہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ جو نہ ملے وہی محبت ہوتی ہے، خالص محبت۔ محبت کا حاصل شادی تو نہیں ہے نا۔”
”تو کیا اب تم مجھے دیوانہ کرکے چھوڑوگی۔” شہزاد نے پوچھا۔
”نہیں میں ایسا تو نہیں چاہتی۔”
”تو کیا چاہتی ہو؟”
”تم مجھے جذباتی سپورٹ تو دے سکتے ہو نا…؟” اس نے بڑے رسان سے کہا۔
”یہ تم مجھے کن راہوں میں بھٹکانا چاہتی ہو۔” شہزاد نے پوچھا۔
”کیسی کیسی رومان پرور نظمیں، غزلیں کہتے تھے میرے لئے… اب کہتے ہو میں تمہیں بھٹکانا چاہتی ہوں۔” وہ ناراضی سے بولی۔
”اور کچھ نہیں تو ہمدردی کے دو لفظ ہی کہہ دو۔ جس کے سہارے میں چند دن کاٹ لوں۔” مریم نے کہا۔
”سنو مریم…! جس وقت یعنی رات گئے۔ جب تم مجھے فون کرکے پرانی محبت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہو نا… اس وقت جائے نماز بچھا کر اپنے شوہر کی بخیر و عافیت واپسی کی دعا کرو۔ تو دعا قبول ہی ہوجائے گی۔ کیونکہ یہی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔”
”اور وہ میری محبت محض چند برسوں کی تھی۔” مریم نے الٹا سوال کردیا۔

”تو کیا اپنی داستانِ محبت تاحیات سلسلہ وار چلاتی رہوگی؟” شہزاد نے سخت لہجے سوال پوچھا
”کیسی باتیں کرتے ہو توبہ توبہ، جیسے کہ تمہیں تومحبت تھی ہی نہیں یاد کرو… تم نے کہا تھا کہ میری محبت کا چراغ تمہارے دل میں ہمیشہ روشن رہے گا۔”
”تمہارے ابا نے وہ چراغ پھونک میں بجھا دیا تھا۔ جس میں تمہاری بھی مرضی شامل تھی۔”
”تمہیں نہیں معلوم شہزاد…! اپنے شوہر کی قربت میں بھی تمہارا تصورمیرے ساتھ رہا ہے۔”
”تم بے ایمان عورت ہو۔”
”میرا ہی تو ایمان سلامت ہے۔ بزدل تم نکلے جس طرح جاوید طاہرہ کو لے بھاگا تھا تم بھی مجھے لے جاتے۔” اس نے عجیب بات کہہ دی۔
”طاہرہ کو کوئی نہیں لے بھاگا تھا محترمہ… ! اس کے نکاح میں گواہ میں بھی تھا۔”
میری بہن کو ذلیل کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو سنبھالو۔ ان کی فکر کرو۔ بھول جاؤ محبت ومحبت۔ تمہارے بچوں کے حق میں یہی بہتر ہے۔ مجھے معاف کرو۔ میں تمہاری باتوں میں آکر تمہیں رسوا نہیں کرسکتا۔ عقل کے ناخن لو۔ میں اب پہلے والا شہزاد نہیں ہوں۔”
”تو میں کیا سمجھوں… تم مجھے دھتکار رہے ہو۔” مریم نے روہانسی ہوکر پوچھا۔
”میں نے تمہیں نہ پہلے دھتکارا تھا نہ ہی اب ایسا کررہا ہوں۔ لیکن تم جو چاہتی ہو وہ نہیں ہوسکتا۔ خدانخواستہ تمہارا شوہر واپس بھی نہ آیا تب بھی تمہارا میرا کوئی تعلق نہیںجڑ سکتا۔ اب مجھے محبت کے واسطے نہ دینا اور اپنی بات یاد رکھنا کہ محبت کسی وجود کے حصول کا نام نہیں ہے… میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سامنے تمہارا نام احترام سے لوں۔ کیونکہ محبت تکریم کا پہرا نام ہے۔”
”یہ کیسی محبت ہے جو میرے کسی کام کی نہیں۔” مریم نے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
”مسنگ پرسن کی واپسی بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ قانونی باریکیاں ہیں اس میں… کوئی بچے کی گمشدگی نہیں ہے کہ جاکر مسجد میں اعلان کرادیا جائے۔”
”تم تو بالکل مجھ سے جان چھڑا رہے ہو۔” مریم نے بات آگے بڑھائی۔
”خدا کرے تمہارے شوہر کی جلد واپسی ہو۔” شہزاد نے بات ختم کرکے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭

”کیسی عورت ہے، شوہر کے غائب ہوتے ہی آپ کے پیچھے لگ گئی۔” نورین نے کہا۔
”اُسے خبر بھی ہے کہ میں بھی ہوں آپ کی زندگی میں شامل۔” نورین نے پوچھا۔
”ارے خود غرض لوگوں کو اس سے کیا مطلب کہ کون کسی کی زندگی میں شامل ہے۔ اور کون نہیں۔ انہیں تو فقط اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔” شہزاد کا لہجہ قدرے ترش تھا۔
”خدا جانے اسے کس بات کی ضد ہے۔” شہزاد سوچ میں پڑگیا۔
”وہ اپنی چاہت کو زندہرکھنا چاہتی ہے شاید۔” نورین نے کہا۔
”لیکن میں اپنے پارٹنر سے دغا نہیں کرتا۔ اسے یہ یاد نہ رہا۔”
”آپ اسے یہ یاد دلائیں۔”
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو بات ختم ہوگئی… ہوگئی… میرے لئے اب تم ہی سب کچھ ہو… اور تم سے وابستہ سارے دکھ سکھ میرے ہیں۔ میری خوش گوار زیست کا سب ہی تم ہو، ورنہ میں اس ادھوری محبت کے غم میں سلگتا ہی رہتا۔” شہزاد کی آواز دل کی گہرائی سے آرہی تھی۔
”تمہاری سادہ دلی اور مخلص نے مجھے زندگی کا نیا رخ دکھایا ہے۔ میں کتابوں کی دنیا میں رہنے والا آدمی ہوں۔ لفظوں کی حرمت کا مجھے پاس ہے۔ اور جذبوں کی کاملیت کا حساس تم نے میرے اندر ابھارا ہے۔ تمہاری سادہ دلی اور معصومیت نے۔محبت کا سبزہ معصوم لوگوں کے دلوں میں سر اٹھاتا ہے۔ جندلون میں چالاکی، مکاری، جھوٹ گھر کرلے وہاں محبت رخصت ہوجاتی ہے۔ جیسے مریم کے دل سے میری محبت رخصت ہوئی تھی۔” شہزاد نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”میں دعا کروں گی کہ وہ آپ کو بھول جائے۔” نورین نے صدقِ دل سے کہا۔
اب مریم کے فون وقت بے وقت آنے لگے۔ لیکچر کے دوران زیادہ تر شہزاد نے فون بند رکھنا شروع کردیا۔ تاکہ کلاس ڈسٹرب نہ ہو۔
اس رات انہوں نے جیسے ہی فون آن کیا، مریم کی کال آگئی۔
”تمہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔” اس نے سوال کیا۔
”آدمی رات کو تم ایک غیر مرد کو کیوں فون کررہی ہو۔” شہزاد تنگ آگیا۔
”تم ہی تو اپنے ہو… سنو تو… میں اس سے کبھی بھی خوش نہیں رہی۔”
”تم میرے پاس ہوتیں تب بھی خوش نہیں رہتیں کہ لفظ، جملے، نظمیں، غزلیں تمہاری ضروریات پوری نہیں کرسکتے تھے۔ جبھی تو تم اور تمہارے گھر والوں نے جانتے بوجھتے ایک بدعنوان افسر سے شادی طے کرلی تھی۔”
”تمہیں نہیں معلوم وہ اپنا زیادہ تر وقت دوسری عورتوں میں گزارتا ہے۔ میں تو پہلے ہی اس سے دور تھی۔ اس کے اغوا سے سمجھو مجھے سکون ملا ہے۔” مریم نے ایک نیا سوشا چھوڑا۔
”تم تو چاہ رہی ہو کہ میں بھی، اپنا وقت غیر عورتوں میں کاٹوں، میں علم بانٹتا ہوں۔ نسلوں کی تربیت کرتا ہوں۔ میرا ماضی اور حال نہایت شفاف ہے میرا مستقبل بھی داغ دار نہیں ہوگا۔”
”کیا میں غیر ہوں۔”مریم نے پوچھا۔
”بالکل شرعی و قانونی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی۔” شہزاد نے بتایا۔
”عشق لڑاتے وقت تمہاری شریعت کہاں تھی۔” مریم نے برجستہ سوال داغے۔
”تمہاری محبت میں تو میں سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ منگنی تک تو کرلی تھی۔ تم خود پیچھے ہٹی ہو۔” اور مجھے بھی دل گرفتہ کردیا تھا۔ تمہاری ٹھوکر نے میرا دل و دماغ سب بدل دیا۔ تم نے اپنے جذبات کی تشنگی دور کی اور مجھے خاموشی سے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے تو میرے اللہ نے سنبھالا۔ اس نے مجھے شریکِ سفر فراہم کیا۔ پھر اس نے ہمارے دلوں کو جوڑا۔ میں اب تمہاری دوسری ٹھوکر کے لئے تیار نہیں ہوں۔” شہزاد نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”میں تمہاری محبت کے لئے تڑپی ہوں شہزاد۔” اس نے گلو گیر آواز میں کہا۔
”غلط کیا… بہت غلط کیا… جس کے نکاح میں ہو۔ اسی سے وفا کرو۔” اس نے مشورہ دیا۔
”میں اب اس سے سارے تعلق ختم کرنا چاہتی ہوں۔ اور یہ تمہیں بتارہی ہوں۔” مریم نے ایک نئی بات کہی۔
”ابھی اسے لاپتہ ہوئے اتنا عرصہ نہیں گزرا کہ تم ابھی سے ایسے فیصلے خود کرلو۔”
شریعت اور قانون کو جاننا ضروری ہے۔” شہزاد نے سمجھایا۔
”مجھے تمہاری محبت کا حصار چاہیے۔” اس نے نیا پتہ پھینکا۔
”میری محبت کے حصار میں اور لوگ ہیں جس میں کسی کو میں حصہ دار نہیں بناسکتا۔ ہاں البتہ میری دعائیں تمہیں اپنے حصار میں رکھیں گی۔ اپنے بچوں کی طرف دیکھو مریم…! ان کا باپ لاپتہ ہے انہیں اپنے سینے سے لگا کر رکھو تاکہ باپ کی غیر موجودگی کا احساس نہ ہوپائے۔”
”مجھے تم پر بڑا مان تھا شہزاد۔” مریم نے کہا۔
”تو پھر اس مان کو قائم رہنے دو۔ اپنے اور میرے آنے والے کل کو شفاف رکھو آئینے کی طرح۔ تاکہ کوئی تمہاری اولاد پر انگشت نمائی نہ کرسکے۔”
”میں نے تمہاری یادوں کے سہارے ہی اپنی گزشتہ زندگی کاٹی ہے۔”مریم نے بتایا۔
”باقی جو زندگی بچی ہے وہ اللہ کے سہارے کاٹ لو۔ اسی کی محبت و رحمت کا سہارا پکڑو۔ تمہاری زندگی کی الجھی ڈور خود بخود سلجھنے لگے گی۔ اصل محبت یہی ہے۔ وہی (اللہ) تمہارے بڑھتے قدم کا منتظر ہے میں نہیں۔ تمہیں نیند کی دوا بھی وہ سکون نہیں دے گی جو اللہ کی محبت میں ملے گی۔ مجھ پر تو یہی منکشف ہو اہے تمہارے بعد۔”
”میں یہی کہوں گا کہ تم اپنی پوری توجہ اپنے دونوں بیٹوں کی دیکھ بھال اور شوہر کی واپسی کی طرف مبذول رکھو۔ اس کا تمہارے ساتھ کیسا رویہ تھا بھول جاؤ۔ اسکی سابقہ گرلز فرینڈ اس کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گی۔ یہ کام صرف تم کرسکتی ہو۔ اور تم یہ کرو۔ تاکہ تمہارا شوہر واپس آکر تمہاری قدر کرے۔”
”مجھے آج پھر تمہیں کھونے کا شدت سے احساس ہورہا ہے شہزاد۔” مریم کی آواز میں پچھتاوا شامل تھا۔
”شکر کرو کہ جس دولت کو تم نے اہمیت دی وہ اب تمہارے پاس ہے۔ ورنہ لوگ تو ایسے حالات میں مالی و معاشی مسائل کا بھی سامنا کرتے ہیں۔” شہزاد نے کہا۔
”جس محبت کو میں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں زندہ رکھا۔ اس نے آج مجھے ہر جھنڈی دکھا دی۔” مریم نے جواب دیا۔
”جسے تم ہری جھنڈی کہہ رہی ہو نا… وہ سیدھی راہ دکھانا ہے۔ تم اپنی زندگی کو پیچیدہ نہ بناؤ۔ مجھے تم جو چاہو کہو مگر یہی میری محبت ہے کہ میں تمہارے دعوتِ گناہ کو قبول نہیں کررہا۔ تم محبت کا مطالبہ سمجھ ہی نہیں سکی۔ تمہارے لئے تو یہ چار حرفی لفظ ہے۔ مگر یہی چار حرفی لفظ آدمی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ سنبھالو خود کو اور اپنے بچو ں کو بھی۔ اللہ تمہارا نگہبان رہے۔” اس نے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
آج کی صبح زیادہ فرحت بخش لگ رہی تھی۔ وہ دیر سے جاگا تھا۔ آنکھ کھلی تو نورین اپنے بستر پر موجود نہیں تھی۔ اٹھ کر دیکھا تو کچن میں جوس سرو ہونے کے لئے تیار رکھا تھا اور وہ آئینے میں اپنا حلیہ درست کررہی تھی۔ بے بی پنک کاٹن کے سوٹ میں وہ کوئی پنکی کی پری لگ رہی تھی۔ سادہ بھی رنگین بھی۔ ہلکا سا پاؤڈر کا ٹچ چہرے کو مزید تابناک بنا رہا تھا۔ نورین کو اس نے بہت کم میک اپ میں دیکھا تھا۔ مگر شادی کی رات وہ واحد رات تھی جب وہ روایتی دلہنوں کی طرح جگمگا رہی تھی۔
”میں نے کہیں پڑھاتھا کہ ماں میک اپ کرے تو لڑکی بہت سادہ مزاج پیدا ہوتی ہے۔” اس نے معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔
”کوئی نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔” وہ اٹھلائی
”ارے سنیں… طاہرہ کا فون آیا تھا۔ جاویدبھی ٹھیک ہے۔ اچھی گزر رہی ہے ۔ شکر ہے۔”
”ہاں مگر ایک مسئلہ سلجھتا ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔”
”کیا ہوا۔” اس نے مڑ کر تاسف سے پوچھا۔” مریم نے پھر تنگ کیا ہے کیا؟”
”ہاں۔ وہ تو کرتی ہی رہتی ہے ۔ مگر تم جس طرح تنگ کرتی ہو ایسے تو کوئی نہیں کرسکا۔”
”ہیں … کیامطلب؟”
”ارے کچھ نہیں میں یونہی تمہارا موڈ خوشگوار کررہا تھا۔”
”وہ تو پہلے ہی خوشگوار ہے۔ وہ اب کیا کہہ رہی تھی آپ کو… بتایئے۔”
”کیا کہے گی وہ … میں اسے بے وقوف نظر آرہا ہوں۔”
”آخر وہ چاہتی کیا ہے؟ محبت کا انتقام لے رہی ہے کیا۔”
”زچ کرنا چاہتی ہے۔ زیر کرنا چاہتی ہے۔محبت کے نام پر خود کو ذلیل کرنا چاہتی ہے۔”
”یہ دل کے معاملات کٹھن ہوتے ہیں۔ سمجھ نوک سناں پر قدم دھر دیا۔”
”ہاں مگر ان کے لئے ہے جو محبت کا بھرم رکھتے ہیں۔”
”کل تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ تمہاری خیریت پوچھ رہی تھیں۔”
”امی کو اب میرا خیال کیوں آیا؟”
”اچھا ہے نا… ہماری زندگی میں کسی کی مداخلت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جلد ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ وہ مائیں بہت عقلمند ہوتی ہیں جو بیٹیوں کی شادی کے بعد ان پر اپنا پہلا حق جتا کر ان کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتی ہیں۔”
”لگتا ہے اس برس خاندانی رشتے دوبارہ مضبوط ہوں گے۔” نورین بولی۔
”جب تک ہم اپنے خاندان والوں سے دور رہے۔ کیسے کیسے اچھے تعلق جوڑے۔ وہ بھی ان لوگوں سے جن کے رشتے ناتے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ جنہوں نے اپنوں سے کنارہ کیا انہیں ہم ملے۔ لوگ جنہیں لاوارث سمجھتے ہیں نا غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا بنانے والا تاجداران کا اصل وارث ہوتا ہے۔ بھلا ہم کبھی اورفن ہاؤس، ایدھی ہوم اور انصار برنی ٹرسٹ کے بچوں کو بھول سکیں گے۔ کبھی نہیں۔ ایک بار چلے جاؤ تو ان سے ہمیشہ کے لئے تعلق بن جاتا ہے۔ سمجھو اب یہی ہمارا خاندان ہے۔
٭…٭…٭
ہوگئی ہے تم کو مات
صاف کیسے ہوں گے ہات
دور یوں کے جنگل میں
درد کے لگے ہیں گھات
جاؤ بھول جاؤ اب
ڈھل گئی ہے کالی رات
صبح اب فروزاں ہے
ہاتھ میں تمہارا ہاتھ
نورین نے شہزاد کا تازہ کلام پڑھ کر کہا ۔ ”مجھے اب آپ کی شاعری سمجھ میں آنے لگی ہے۔”
”ساتھ رہنے کا اثر ہے۔” شہزاد نے کہا۔
٭…٭…٭
وہ لان میں سفید کرتا پاجامہ زیب تن کئے اخبارکے مطالعے میں مصروف تھے۔ آج کالج نہیں جانا تھا لہٰذا چہرہ شیو سے بے نیاز تھا۔ نورین پاس ہی لان میں پھولوں بھری ڈالیوں پر جھکی ان کی دلکشی اور مسحور کن خوشبو سے لطف انگیز ہورہی تھی۔
”نورین میں سوچ رہا ہوں۔ چند دن طاہرہ کے پاس امریکا گزار آئیں۔ اس سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور جاوید کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گا۔”
”مگر اب تو ہمارے بے بی کے استقبال کے دن قریب ہیں۔” نورین نے قدرے جھینپتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی کوئی یاد دلانے والی بات ہے۔ اس لئے تو کہہ رہا ہوں کہ ہم سب وہاں مل جل کر تمہارا خیال رکھیں گے۔ یہاں تو بڑے مسائل ہیں۔ ٹریفک کو ہی لے لو۔ اس میں پھنس کر سڑکوں میں جتنا وقت برباد ہوتا ہے نا۔ اس سے تو میں ہول کھانے لگتا ہوں ہوں۔ یہاں تو بچے رکشے اور ایمبولینس میں جنم لے رہے ہیں۔”
”توبہ توبہ… کیسی باتیں کررہے ہیں” … ”لو تمہیں خبر ہی نہیں۔ موجودہ تازہ ترین حالات و واقعات بتا رہا ہوں۔”
”جیسی مرضی آپ کی میں تو طاہرہ سے ملنے کے لئے بے قرار ہوں۔ ہاں اس طرح مریم سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس کا تو ذکر ہی نہ کرو۔کہیں آہی نہ جائے۔ ” شہزاد ہنسنے لگے۔
”آپ کی زندگی کی کتاب میں اسکے نام کا صفحہ بھی شامل ہے۔” نورین نے یاد دہانی کرائی۔
”ہاں مگر اس صفحے کو پھاڑا جاچکا ہے۔”
”یہ کیا بات ہوئی۔”
”آپ تو میرے لئے خدائی تحفہ ہیں۔ مجھے کیا کسی سے ڈرنا۔ مجھے ملے ہیں تو میرے مقدر میں تھے نا۔” نورین نے پیار سے کہا۔
”واہ بھئی… تم بھی فلاسفی پڑھانے والے شوہر کے ساتھ رہ کر فلاسفر ہوگئی ہو۔ اب تو ہمارے ہاں بقراط یا افلاطون کی پیدائش ہوگی۔” اس نے مذاقاً کہا۔
”جی نہیں… لیلیٰ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔”
”لیلیٰ کیسے ہوسکتی ہے بچے کا نہ باپ کالا ہے نہ ماں۔”
”کالا گورا نہیں میرا مطلب ہے ایک پیاری بچی ہے۔” نورین نے مسکرا کر کہا۔
”اوہو… ہاں ہم نے تو معلوم ہی نہیں کیا نا کہ بچہ ہے کہ بچی ، جبھی تو اس بحث کی نوبت آگئی… چھوڑو… کوئی بھی ہو، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ اولاد تو ہے نا۔” شہزادنے شکر ادا کیا۔
”سنیں! اب تو آپ غزلوں، نظموں کے بجائے بچوں کے لئے پیاری پیاری نظمیں لکھیں گے نا۔” نورین نے شہزاد کو کچھ لکھتے دیکھ کر پوچھا۔
”وہ تو میں کب کا لکھ چکا۔” شہزاد نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”اچھا کب مجھے بھی دکھائیں۔”
”اپنے لڑکپن میں چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتا تھا۔ باجی کی گڑیا۔ میرا اسکول۔ میری امی۔ منی کا طوطا وغیرہ۔”
ہاہاہاہاہاہا… نورین نے قہقہہ لگایا۔
(نظم) تمہاری آمد سے پہلے
منتظر آنکھیں مری ہر دم
استقبال کرنے کے لئے
بے چین رہتی ہیں
تم آؤ!
اور میں تم کو
محلیتے بازوؤں میں سمیٹوں
خوب چوموں
گد گداؤں
ننھے منے، نرم و نازک
ہاتھ میں انگلی تھماؤں
اور تم اوہ آں کی آوازیں نکالو
پھر تمہیں میں دیکھ کر
جینے کے سب رستے نکالوں
واہ بھئی واہ… بچے کی آمد سے پہلے ہی نظم موزوں ہوگئی۔ اسے فریم کراکے گھر میں آویزاں کردو۔ جب بچہ بڑا ہوگا تو پڑھے گا۔” دونوں نے مشترکہ قہقہہ لگایا۔
٭…٭…٭
”ہیلو… شہزاد! مجھ سے ایک بار مل لو۔”
”تمہیں میرے بارے میں اتنی خوش گمانی کیوں ہے؟” شہزادنے پوچھا۔
”میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔” مریم نے انکشاف کیا۔
”ابھی کہہ دو اگر کچھ رہ گیا ہو تو… میں تم سے مل نہیں سکتا۔”
”فون پر نہیں… تمہارے روبرو بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے سلمان سے کیوں شادی کی۔”
”مجھے تمہاری ذاتی باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔”
”جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ کسی کی بیٹی کے ساتھ نہ ہو۔”
”میرا ان باتوں سے کیا تعلق ہے۔” اس نے فون بند کردیا۔
دوسرے دن وہ کالج سے گھر کے لئے روناہ ہونے ہی والا تھا کہ گاڑی میں بیٹھتے وقت ایک برقع پوش عورت نے تیزی سے دروازہ کھولا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ کچھ سمجھنے کی کوشش میں ہی تھا کہ عورت نے نقاب الٹ دیا۔ وہ ششدر رہ گیا۔ وہ مریم تھی۔
”تم مجھے غلط نہ سمجھو… میں تم سے تمہاری محبت کی بھیک نہیں مانگ رہی۔ گاڑی میں بیٹھ کر میری بات سن لو۔”
وہ خاموش سے بیٹھ کر بلا مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑانے لگا اور وہ بولتی رہی۔

”سلمان نے مجھے شادی کی رات بتایا کہ اس نے مجھے پھانسا تھا۔ تاکہ پاپا سے کسی دیرینہ رنجش کا بدلہ لے سکے۔ میں اسے اپنے باپ کا دوست سمجھتی رہی۔ اور وہ مجھے پھنسانے کے لئے جال بنتا رہا۔ کب کیا اور کیسے ہوا مجھے معلوم ہی نہ ہوگا۔ جب مجھے ہوش آیا تب تک میری شکم میں اسکا بچہ پرورش پارہا تھا۔ میں تڑپ کر رہ گئی اور اس سے شادی کرنا بہتر سمجھا۔ کیونکہ تمہارا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ تمہیں کیسے یقین دلاتی کہ میں تمام حالات سے ناواقف تھی۔ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور عورت کو خبر ہی نہ ہو اس بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا۔ میں تمہیں دھوکا بھی نہیں دے سکتی تھی۔ سلمان کو میری اور تمہاری محبت کا بھی علم تھا۔ وہ اب تک اکیلے میں تمہارے نام کے کچھ کے لگاتا تھا۔ کہتا تھا وہ تو منگیتر تھا۔ اس کے آگے تو سر جھاک دیتی ہوگی۔ بتاؤ کب اور کہاں ، کن ہوٹلوں میں رنگ رلیاں بناتے تھے تم لوگ۔ میں تو بے موت ماری گئی ہوں۔ میری زندیگ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہاری خوش گوار یادوں کے سوا۔ یہ تو میں جانتی ہوں کہ اس کے لاپتہ ہونے سے میں نے سکون کا سانس لیا ہے۔”
وہ ہکا بکا سنتا ہی رہا… پھربولا… ”میں کچھ سمجھ ہی نہیں سکا۔ تم کوئی ننھی بچی تو تھی نہیں کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہ چلا ہو کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے۔”
”اگر دھوکے سے نشہ آور شے پلادی جائے تو کون ہوش میں رہتا ہے۔”
”اسے رات گئے کسی فارم ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا پھر اس کا پتہ نہ چل سکا۔”
”بتاؤ … تمہیں کہاں ڈراپ کروں… مجھے ضروری کام سے کہیں اور جانا ہے۔”
”تم سے بس اتنی گزارش ہے کہ مجھے دھوکے باز مت سمجھنا۔”
”اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ تم نے شادی کی حامی بھری تھی۔”
”یہ بالکل سچ ہے… میں تمہیں دھوکا کیوں دیتی۔”
”مجھے کچھ بتاتی تو… تم نے میری محبت پر بھروسہ نہ کیا۔”
”نہیں ایسا نہیں تھا۔ میں نے تمہاری محبت کے قابل خود کو نہیں سمجھا۔ میں کس منہ سے تمہارا سامنا کرتی۔ میں تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ نہ ہی شرمساری کی زندگی کاٹ سکتی تھی۔ یہ سب باتیں جان کر بتاؤ اب کیا تمہیں میں قصور وار لگتی ہوں۔ یا تم مجھے ہی قصور وار سمجھتے ہو؟”
”واللہ اعلم۔”
”میں تو محبت کی پگڈنڈیوں پر تمہارے ساتھ رواں دواں تھی۔ اس نے کسی طرح گھات لگایا مجھے آج تک معلوم نہ ہوسکا۔جب دوسری بار اس نے مجھے کھلے الفاظ میں شب سری کے لئے مدعو کیا اور میں نے انکار کردیا تو اس نے بتایا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوچکا ہے جب میں ہوش میں نہیں تھی۔ کسی تقریب میں اسنے جوس میں نشہ آور شے ملا کر مجھے کسی کمرے میں پہنچوا دیا اور پھر وہاں مجھے انجکشن کے سہارے تین گھنٹے تک مدہوش رکھا۔ یہی سب بتانے کے لئے دوبارہ بلاکر پہلے والے کام کئے۔ اس دن اس نے خوب مجھے نوچا کھسوٹا۔ اور تیسری بار آنے کے لئے اصرار کیا۔ میں دم بخود رہ گئی۔ ابو پر بھی اس نے شادی کے لئے بہت دباؤ ڈالا۔”
”تم مجھے توبتاتی۔” شہزاد نے رنجیدہ ہوکر کہا۔
”یہ ساری باتیں کون مرد برداشت کرے گا۔”
”تو اب مجھے کیوں بتارہی ہو؟”
”تاکہ تم میری وفا پر الزام نہ دھرو۔”
”کیا تمہارے والدین کو بھی کچھ نہیں معلوم؟”
”نہیں کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو ورنہ میری میڈیکل رپورٹ سب کو دکھا دے گا۔ اور شادی سے انکار کی صورت میں ابو اور تمہیں قتل کروا دے گا۔”
”انہی دنوں میں اپنی سب سے اچھی سہیلی طاہرہ سے بھی کٹ گئی۔ میں نے جان کر طاہرہ سے کنارہ کیا اور اپنے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگا کر خود کو حالات کے حوالے کردیا۔
”تمہیں ہار نہیں ماننی چاہیے تھی۔ سچائی تو ڈٹ جایا کرتی ہے۔ مقابلہ کرتی ہے حالات کا ۔ تم نے کیوں نہ ہمت سے کام لیا؟”
”میرے ساتھ اس نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط تھا بھلا عورت کی مرضی کے بغیر سب کچھ باربار ہوسکتا ہے۔ میں کسی سے کس طرح تذکرہ کرسکتی تھی۔”
”تمہیں کم از کم اپنی ماں کو اعتماد میں ضرور لینا چاہیے تھا۔ مائیں بیٹیوں کے لئے کٹھن حالا ت میں ڈھال بن جایا کرتی ہیں۔”
”میں شدید کرب و اذیت سے گزری ہوں۔ جائزہ و ناجائز ، پاکی و ناپاکی جیسے مسائل نے مجھے نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ لڑکیوں کو کبھی اکیلے نہیں رہنا چاہیے۔ کبھی بھی نہیں ۔ جانے کون جال لئے بیٹھا انتظار کررہا ہوتا ہے۔
جب ہم جیسی پڑھی لکھی، مضبوط عورتوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے تو اس معاشرے کی پسی ہوئی، غریب عورتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔”
”آئندہ کا سوچو۔”
‘کیا سوچنا ہے۔ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے۔ میرے دونوں بچوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ تم سے زیادہ مخلص آدمی میری زندگی میں اور کوئی نہیں ہے۔”
”اللہ حافظ… اس نے تیزی سے دروازہ کھولا اور سامنے سے آتے رکشے کو ہاتھ دے کر روکا اور اس میں بیٹھ کر چلی گئی۔
وہ گاڑی میں اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک رکشہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا اور اس کے حواس بحال نہ ہوگئے۔
اس کے سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ کیا کرے۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس پر دکھی بھی نہیں ہوا جاسکتا تھا، وقت اتنا گزر چکا تھا اور بات اتنی پرانی ہوچکی تھی کہ غصے کا اظہار بھی بے کار تھا۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا بھی مشکل تھا۔ وہ طرح طرح کے سوالوں میں الجھنے ذہن کو جھٹک کر اور لمبے لمبے سانس لے کر اپنی سوچوں سے الگ کرتا رہا پھر گھر کی جانب گاڑی موڑ لی۔ جہاں اس کے جنت نما آشیانے میں وفا شعار بیوی یقینا اس کی قدموں کی آہٹ سننے کی منتظر تھی۔ جسے تاخیر کی صورت میں خدشے ستانے لگتے۔ اس نے اپنے ذہن کو آنے والے بچے کی طرف مبذول کرلیا ۔
”یہ مریم کیوں میری زندگی میں دوبارہ آگئی ہے؟ خدا یا مجھے ہر امتحان سے سرخرو نکالنا۔ خدا جانے وہ میری ہمدردی کیوں حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ مجھے یہ سب کیوں بتارہی ہے۔ اسے کیوں یہ ضرورت پیش آگئی کہ میں اسے بے وفا نہ سمجھو؟” اسی طرح کی سوچوں میں گھرا وہ گھر پہنچ گیا۔ پہلے سوچا کہ سارا احوال نورین کے گوش و گلزار کرکے اس سے مشورہ مانگے… مگر نہیں… جیسے نازک حالات سے وہ گزر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ کوئی مشکل پیش آسکتی ہے۔ دل میں مریم کے لئے سوائے اجنبیت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے یا اسے دھتکارنے کی بھی ہمت نہیں۔
ایسا کر بھی کیسے سکتا تھا۔ کبھی جس کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ اب اس کے آگے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ نگاہیں جھکائے رکھے، مبادا پرانی محبت دوبارہ نہ سر اٹھالے۔
وہ دوراہے پر کھڑا تھا۔ نورین کی طبیعت کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔ اس معاملے میں وہ تنہا ہوگیا تھا۔ وہ ڈر رہا تھا کہ نورین کو مریم کے بارے میں جان کرکوئی شاک نہ پہنچے کہ بچے کی ولادت میں پیچیدگی پیدا ہو۔ بہتر یہی تھا کہ چھٹی لے کر جلد از جلد طاہرہ کے گھر امریکا چلا جائے۔
وہ آج ڈسٹرب تھا لہٰذا گھر جانا مناسب نہ سمجھا اور نورین کو فون کردیا کہ ویزے کے سلسلے میں ایک ضروری ملاقات کرنی ہے۔ لہٰذا وہ کوئی ٹینشن نہ لے۔ ایک کو لیگ کے پاس ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گاڑی کو دوبارہ گھر کے رستے پر ڈال دیا۔
”آپ نے ایمبیسی جانے کا یکا یک پلان بنالیا؟”
”ہاں وہاں ایک صاحب سے بھی ملنا تھا۔ مگر آج وہ بہت بزی ہوگئے۔”
”کھانا کھایا؟” نورین نے پوچھا۔
”نہیں… میں ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔ لنچ ٹائم رستے میں ہی گزر گیا۔ لہٰذا یونہی واپس آگیا۔۔ ترکھانا لگاؤ۔ میں شاورلے لوں۔” شہزاد کے نہاکر فارغ ہونے تک اس نے میز پر کھانا چن دیا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کھانے پر نورین کا ساتھ دیا۔ پھر حسب عادت لیٹ گیا۔وہ سوناچاہ رہا تھا پر نیند کی پری مہربان ہونے کو تیار نہیں تھی۔ کروٹیں بدلنا اسے خود بھی محسوس ہورہا تھا۔
”کوئی کام اٹک گیا ہے کیا؟” نورین نے پوچھا۔
”نہیں ایسا توکچھ نہیں ہے مگر امریکا جانا آسان نہیں ہوتا۔ تم طاہرہ سے رابطے میں رہنا۔ اگلے ہفتے تک ہمارے سارے کام مکمل ہوجائیں گے۔ وہاں ہاسپٹل میں تمہاری رجسٹریشن وغیرہ بھی کروانی ہے۔”
”اس کی فکر آپ نہ کریں۔ طاہرہ ہے نا وہ سنبھال لے گی۔” نورین نے تسلی دی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن کالج سے واپسی کے بعد اس نے چند جوڑے اپنے نورین اور بچے کے لئے خریدے اور پیکنگ بھی خود ہی کی۔
شکاگو پہنچتے ہی جاوید اور طاہرہ نے خوش آمدید کہا۔ جاوید کودیکھ کر ہی دل مطمئن ہوگیا۔ طاہرہ نے اسے خوب سنوارا سدھارا تھا۔ اب وہ کہیں سے بھی پہلے والا لاابالی اور غیر ذمہ دار جاوید نہیں لگ رہا تھا۔ گھر کے کاموں میں بھی وہ طاہرہ کا پورا ساتھ دیتا۔ بیٹے کے ساتھ کھیلتا۔ پہلے کے مقابلے میں وہ اب ایک خود اعتماد شخص لگ رہا تھا۔ دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔ شہزاد نے اپنی تسلی کی خاطر اپنے دوست سے بات کی جوکہ جاوید کا باس تھا۔ تو معلوم ہوا کہ دفتری معاملات میں بھی وہ ٹھیک جارہا ہے۔ اور ذہنی طور پر کافی شاپ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ طاہرہ سکھی تھی۔ ورنہ جاوید سے شادی کے بعد اس نے پریشانیاں دیکھی تھیں۔
نورین طاہرہ کے گھر آکر بہت خوش تھی۔ گھر کے قریب ہاسپیٹل میں نورین کا چیک اپ اور رجسٹریشن بھی ہوگیا۔ دونوں مل کر خوشی خوشی سارے کام کررہی تھیں۔ شام کو جب سب اکٹھے بیٹھتے تو گھر کا ماحول خوشگوار ہوجاتا۔ وقت تیزی سے پر لگائے بغیراڑا جارہا تھا۔
طاہرہ نے کہا۔ ”بھیا آپ بھی یہاں شفٹ ہونے کا سوچیں۔ میرا بے بی کیئر سینٹر کھولنے کا ارادہ ہے۔ سچ میں اور نورین مل کر اچھی طرح چلا لیں گی۔بلکہ اس کے مطابق اس نے تحریری پلاننگ تک کرلی ہے۔ رقم بھی میں انداز کی ہوئی ہے۔
٭…٭…٭
اس نے امریکا جاکر بھی بہت کوشش کی کہ اس کے خیال کوجھٹکنے کی مگر چھٹکارہ نہ مل سکا۔ اس نے اپنے دل سے پوچھا کہ مریم جھوٹی ہے یاسچی؟ ہر بار نورین کامعصوم چہرہ اس کے سامنے آجاتا۔ گویامریم کے خیال پر نورین کا تصور حاوی تھا۔ اور پھر اپنا ہمکتا ہوا نومولوداس کے خیالوں پر چھاجاتا ۔ طاہرہ بار بار یاد دہانی کرا رہی تھی کہ ”بھیا یہیں شفٹ ہوجائیں میں اورجاوید اکیلے ہیں۔” دراصل وہ اپنے بھائی اور بھابی کو مریم کے سائے سے بھی دور رکھنا چاہتی تھی۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبرنہیں تھی کہ مریم اس کے بھائی سے ملاقات بھی کرچکی ہے اور اس کا بھیا اسی کے گھرمیں بیٹھ کر مریم کے خیال کوجھٹکنے کی کئی بارناکام کوشش کرچکا ہے۔ اس کی پوری توجہ نورین کی جانب تھی۔ تاکہ وہ مریم کے بھوت سے چھٹکارہ حاصل کرسکے۔ نورین کو اسپتال میں داخل کرانے کے بعد وہ زیادہ تر اسپتال کے چکر لگاتا رہتا۔ حالانکہ وہاں اس کی ضرورت نہ تھی مگرپھر بھی اس کے پاس بیٹھا گفتگو کے ذریعے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا رہتا تاکہ اسے اپنی تکلیف کا احساس کم ہوتا محسوس ہو کیونکہ مصیبت یا تکلیف کے وقت پہلا مرہم تو کسی اپنے کا سہارا یاقربت ہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ بے بی رات تک اس کی گود میں آجائے گا۔ اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ وہ نورین کی تکلیف کے احساس کو کم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے سرہانے بیٹھا کبھی اس کے بال سہلاتا، کبھی ہتھیلی تھپتھپاتا۔ کبھی تسلی بھرے جملے فقرے کہتا۔ کبھی پاؤں دبائے بیٹھ جاتا۔
وہاں کے میڈیکل اسٹاف نے اسے ”لو گرو” کہنا شروع کردیا۔ شام سے کچھ دیر قبل ہی ایک گلابی گلابی نرم و ملائم بچی اس کی بانہوں میں آگئی۔ جلد ہی اسپتال سے چھٹی مل گئی۔ گھرجاکر سب نے بچی کے گرد جھمگٹالگالیا۔ کبھی کوئی اس کا معائنہ کررہا ہوتا کبھی کوئی۔ طاہرہ کا بیٹا پہلی بار بے بی کو دیکھتے ہی خوش ہوگیا۔ تمہارے گھر ڈول آئی ہے۔” خوب شور مچایا۔ کھلونوں سے کمرہ بھر گیا اور یہ سارے کھلونے بڑے پھیلائے بیٹھے تھے۔ جیسے بے بی ابھی ان سے کھیلنا شروع کردے گی۔ بس وہ شہزاد کی سنائی ہوئی لوری کی آواز پر کسی کسی وقت آنکھیں کھولتی تھی۔
گلشن میں پھول کھلا
تتلی کو رنگ، ملا
پھولوں کے سنگ چلا
بادل بھی جھوم اٹھا
اترائی باد صبا
آنچل بھی خوب اڑا
تاروں کے اور چلا
آجا آجا نند یا
بے بی کولوری سنا
نندیا بھیلے کے آ۔
شہزاد نے یہ لوری سوئی ہوئی بچی کو اتنی بار سنائی کہ اب یہ لوری سبھی کی زبان پر تھی۔ اور یکے بار دیگرے کوئی نہ کوئی بندہ اسے بے بی کو سنا ہی رہا ہوتا تھا۔ وہ سب مل کر نورین اور بچی کا خیال رکھ رہے تھے۔ طاہرہ گھر کے تمام معاملات دیکھتی اور جاوید اور بھیا اس کے اسسٹنٹ بنے پھرتے۔ ان کا بیٹا مہران تینوں کے پیچھے پیچھے گھومتا رہتا۔ بچی کو آئے چھ دن ہونے والے تھے کہ سب نے مل کر چھٹی منائی طاہرہ نے ہلدی والے چاول یعنی لمہاری پکائی، لڈو منگوائے گئے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کو کھلاتے رہے۔ اسی طرح انجوائے کرتے ہوئے دو ماہ گزر گئے۔ اب شہزاد کو جانے کی فکرہوئی۔ چھٹیاں ختم ہونے میں دس دن رہ گئے تھے۔ شہزاد نے پیکنگ کرنا شروع کردی۔ اُدھر طاہرہ بار بار یاد دلاتی ”بھیا جاتے ہی یہاں سیٹل ہونے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردیجئے گا۔ آپ میرے پاس رہیں گے تو ایک سے دو بھلے۔”
”تو کیا جاوید کی طرف سے اب بھی کوئی پریشانی کے امکانات ہیں؟”
”نہیں بھیا۔ مگر اسے بھی معلوم ہونا کہ میرا بھی کوئی ہے۔ دس واقف کا ر آس پاس رہتے ہوں تو بھی عورت ایک طرح سے محفوظ اور مضبوط رہتی ہے۔ یونہی کک مارنا آسان نہیں رہتا کہ آجائیں گے اس کے والی وارث۔”
”اوہ اچھا… حفظ ماتقدم۔” شہزاد مسکرایا۔
”ہاں یوں ہی سمجھ لیں۔” اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ ”کراچی میں مجھے زندگی غیر محفوظ لگتی تھی یہاں تو قدرے سکون ہے۔”
”شکر ہے۔” شہزاد نے کہا۔ اور اسے تسلی دی۔
٭…٭…٭
(جاری ہے)
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat