zoyajmk
Well-known member
Online
- Thread Author
- #1
ممتا کی تکمیل
قِسط نمبر 1
آج کا دن
عمران کی سوچ: یہ میں کیا کر بیٹھا...
یہ پہلی سوچ تھی جو عمران کے دل میں آئی۔
احساس گناہ نے اسے گھیر لیا۔ خالی خالی نگاہوں سے چھت کو گھورتے ہوئے اپنے کئے پر پچھتانے لگا۔ پچھتاوا اس قدر شدید تھا کہ اس کا دل کرتا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
جو کچھ اس نے کیا تھا اس کی سزا اسی بات کی متقاضی تھی۔ شرم سے ڈوب مرنا ایک محاورہ ہے لیکن اس لمحے عمران کو واقعی اس قدر شرم محسوس ہو رہی تھی اگر پانی میسر ہوتا تو ڈوب ہی مرتا۔
بات ہی ایسی سنگین تھی۔
دراصل ہوا ایہ تھا کہ عمران نیا نیا جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہا تھا اور گزشتہ کچھ عرصے سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے کام کر بیٹھا تھا جس پر اسے خود سے گھن آتی تھی۔ لیکن چونکہ جوان خون تھا اور چڑھتی جوانی میں لڑکوں کا جوش بے قابو ہوا رہتا ہے اس لئے جب جب خون جوش مارتا ہے تو لذت کے حسین سراب میں کھو کر وہ کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ جس پر بعد میں وقتی پچھتاوا ہوتا ہے۔
عمران کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
جوانی کے جوش میں اس قدر بہہ گیا تھا کہ عضو تناسل کو ہاتھ میں لے کر مسلسل مسلنے اور ہلانے اور رگڑنے سے مادہ منویہ خارج کر بیٹھا تھا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو کوئی ایسا عمل نہیں کہ اس قدر شرم اور گھن آئے۔ ہر جوان لڑکا اس عمل سے گزرتا ہے۔ آپ کی سوچ غلط نہیں۔ یہ واقعی ایک قدرتی عمل ہے لیکن عمران کا معاملہ مختلف یوں تھا کہ جہاں باقی لڑکے کسی حسین لڑکی کے برہنہ سراپے کو سوچ کر یہ عمل سر انجام دیتے ہیں، عمران نے یہی عمل اپنی والدہ کے جسم کو تخیل میں لا کر کیا تھا۔
عضو تناسل پر تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے اس کے ذہن میں اس کی والدہ کا ننگا بدن گھوم رہا تھا اور زبان پر بھی امی آہ اوہ امی اف۔۔ اس قسم کے کلمات جاری رہے تھے۔ تب تو وہ اس قدر لذت میں تھا کہ کسی چیز کا ہوش نا تھا لیکن اب جب کہ ساری لذت ہوا ہو گئی تھی تو بہت برا محسوس کر رہا تھا۔ وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب پہلی پہلی بار اس کے دل میں یہ گھناؤنا خیال آیا تھا۔
وہ دن اس کے خیالات میں لوٹ آیا جب وہ اپنی کریانے کی دکان میں بیٹھا کسی گاہک کی راہ تک رہا تھا۔ وہ سب کچھ آج بھی اس کے ذہن میں اس کی یادداشت میں اس طرح تروتازہ تھا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو حالانکہ اس بات کوئی کئی ماہ بیت چکے تھے۔
شاید مرتے دم تک عمران کو یہ سب یاد ہی رکھنا تھا۔ شاید یہی اس کی سزا تھی۔ اس دن عمران بہت اچھے موڈ میں تھا اور گاہکوں کا رش بھی کم تھا۔ وہ دکان میں چیزیں ڈسپلے میں لگانے میں مشغول تھا جب اس کی نظر ردی کاغذوں کے اس بنڈل پر پڑی جو اشیا کو پیک کرنے کیلئے اس نے کباڑیے سے خریدا تھا۔ سامان لگانے سے پہلے اس نے سوچا بنڈل کو ہی ٹھکانے پر رکھ دیا جائے۔ رسی سے بندھے اس بنڈل کو چاقو کی مدد سے کھولا اور ترتیب سے نیچے دراز میں رکھنے لگا جہاں سے نکالنے میں آسانی ہو۔ بنڈل کافی بڑا تھا اس لئے عمران تھوڑے تھوڑے کر کے کاغذ رکھ رہا تھا۔ ایسے ہی جب اس نے چند کاغذ اٹھائے تو نیچے کاغذ پر بنی تصویر کو دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا۔ بے اختیار پیچھے ہٹ گیا اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔
گاہگ تو کوئی نہیں تھا لیکن پھر بھی عمران نے مکمل تسلی کی اور دکان کا وہ دروازہ جو اس کے گھر میں کھلتا تھا، وہ بھی بند کر کے کنڈی لگا دی۔ اس کا دل اس تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا سینہ چیر کر باہر آ جائے گا۔ کانپتے ہاتھوں سے وہ صفحہ اٹھایا اور دیکھنے لگا۔ اس صفحے پر ایک جوان لڑکے کی ایک عورت کے ہمراہ برہنہ تصویر تھی۔ دونوں بستر پر لیٹے تھے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے بدن کو ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کے دل میں ایک دوجے کیلئے چاہت ہے لیکن عورت لڑکے سے بڑی عمر کی لگ رہی تھی۔
چند لمحات سے ذیادہ وہ اس پر نظریں نہیں ٹکا پا رہا تھا۔ بار بار اس کے ضمیر سے آواز آتی کہ یہ غلط ہے، یہ گناہ ہے جو وہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود عمران دیکھنے بنا رہ بھی نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ صفحہ اٹھایا اور تہہ کر کے الماری کے اوپر پیچھے کر کے چھپا دیا تاکہ اگر کوئی گاہک اچانک آ جائے تو وہ رنگے ہاتھوں نہ پکڑا جائے۔ ایک طرف ضمیر ملامت کر کر رہا تھا اور دوسری طرف ٹانگوں کے بیچ موجود سرکش گھوڑا اسے وہ صفحہ دوبارہ دیکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
عمران نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور شلوار میں ابھار کے باوجود خود کو وہ صفحہ دیکھنے سے روکے رکھا۔ لیکن کب تک آخر۔ گاہکوں کا رش ویسے ہی کم تھا اور فرصت میں اس کا دل للچانے لگتا کہ ایک بار تو دیکھنا ہی چاہئے۔ اب اسے آپ شیطان کا بہکاوا سمجھ لیں یا عمران کی اپنی ہوس، جب جب اس صفحے کا خیال آتا، اس کا عضو تناسل ایک دم اتنا سخت ہو جاتا کہ عمران بے اختیار ہاتھ قمیض کے نیچے کر کے اسے سہلانے لگتا۔
اگر اسے گاہکوں کا ڈر نہ ہوتا تو وہ شلوار اتار کر کب کا اپنی ہوس کی پیاس بجھا چکا ہوتا۔ ضمیر اور ہوس کی اس کشمکش کا انجام بلاآخر ہوس کی جیت پر ہوا اور احساس گناہ کو ختم کرنے کیلئے عمران نے سوچا کہ وہ ایک بار دیکھ کر پھر توبہ کر لے گا۔
رات کو جب دکان بند کرنے کے بعد وہ گھر آ کر اپنی والدہ نزہت کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہا تو اس کی والدہ نے اس کی طبیعت میں بے چینی بھانپ لی۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا تھا اور ان کی باتوں کا جواب بس ہوں ہاں میں ہی دے رہا تھا۔
اس کی والدہ نے آج اس کا من پسند سالن پکایا تھا لیکن عمران کی توجہ کہیں اور ہی تھی۔ والدہ کے پوچھنے کے باوجود عمران نے انہیں مبہم سا جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ احتیاط سے دروازہ اندر سے بند کیا اور پھر جیب سے وہی صفحہ نکالا اور بستر میں لیٹ کر دیکھنے لگا۔ بے اختیار اس کا ایک ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان پہنچ گیا اور نظریں تصویر پر گاڑے وہ اپنا عضو تناسل مسلنے لگا۔
عمران تصویر میں موجود لڑکے کی جگہ خود کو تصور کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ وہ برہنہ اس خاتون کے ہمراہ لیٹا ہے، اس خاتون کے بڑے بڑے پستان اس کے چہرے کے بالکل قریب ہیں۔ اتنے قریب کہ چاہے تو منہ بڑھا کر چوم لے یا چوس لے۔ اس خاتون کی ٹانگوں کے درمیان بالوں سے پاک چکنی نظر آنے والی پھدی بھی اس کی پہنچ میں ہے اور وہ چاہے تو اسے بھی چھو سکتا ہے، یا پھر اس عورت کو چت لٹا کر اس کی پھدی میں اپنا عضو تناسل داخل کر سکتا ہے۔ ان سب تصورات نے عمران کے جذبات پر جیسے پٹرول چھڑک دیا۔
عمران تصویر میں اتنا محو تھا کہ پلک جھپکنا بھی بھول گیا تھا۔ ہاتھ تھا کہ مشین کی سی تیزی سے عضو تناسل پر اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ جب اس نے یہ تصور کیا کہ وہ اپنا عضو تناسل اس خاتون کی پھدی میں ڈال رہا ہے تو اس کا صبر جواب دے گیا اور وہ ایک زوردار جھٹکے سے شلوار میں ہی منی خارج کر بیٹھا۔ ایک کے بعد ایک جھٹکا لگا لیکن عمران کو ہر جھٹکے میں نیا سواد نیا مزہ ملا۔ پہلے بھی بیسیوں مرتبہ عضو تناسل سہلایا تھا، مشت زنی کی تھی لیکن ایسا مزہ تو کبھی نہ آیا تھا۔
عمران کے ہاتھ اب بھی عضو تناسل پر تھے۔ جب تک آخری قطرہ نکل نہ گیا وہ اسے تھامے رہا حتیٰ کہ اس کے اپنے ہاتھ بھی منی میں لتھڑ گئے اور شلوار بھی۔
تب اور اب میں فرق صرف اتنا تھا کہ تب عمران صرف اس میگزین کے صفحے پر اپنی ہوس نکال رہا تھا جبکہ اب وہ اپنی سگی والدہ کے بدن کو سوچ کر مٹھ مار بیٹھا تھا۔
منی میں لتھڑی شلوار پہنے بستر پر لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے وہ سوچتا رہا کہ آخر بد سے بدتر کا سفر اتنی جلدی کیسے طے ہو گیا۔ آخر وہ کیوں گناہوں کی دلدل میں اس قدر دھنستا جا رہا ہے۔
اس کا ضمیر ہر بار مٹھ مارنے کے بعد ایسے ہی جاگ جایا کرتا تھا لیکن اب جبکہ والدہ کے بدن کو خراج تحسین پیش کیا تھا تو ضمیر کی بیداری بھی غیر معمولی تھی۔ عمران بے سدھ لیٹا رہا اور ذہن میں ماضی کے واقعات اس کے ضمیر پر کچوکے لگاتے رہے۔ آج نہ جانے کیوں اسے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ کیسے قدم بہ قدم وہ اس دلدل میں اترا تھا۔
اسے یاد آنے لگا کہ جب اس نے پہلی بار اس میگزین کے پھٹے ہوئے صفحے کو دیکھ کر مٹھ ماری تھی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن اس عورت کی جگہ اپنی سگی ماں کا تصور کرے گا۔ وہ ماں جس نے اسے جنم دیا، اس دنیا میں لائی اسی کے بدن کا سوچ کر مشت زنی کرے گا۔ تب تو اس نے یہی سوچا تھا کہ جوان لڑکا اور ادھیڑ عمر عورت کی جوڑی خوب ہے، جوان لڑکا جس میں گھوڑے کی سی طاقت ہو اور عورت جس کا تجربہ ہو جوان گھوڑے کو رام کرنے کا۔
ایسے میں یقیناً لذت دوبالا ہو جاتی ہو گی۔
یہ اور اس قسم کے دیگر خیالات ہی تھے جنہوں نے عمران کو وہ صفحہ پھاڑ کر پھینکنے یا تلف کرنے سے باز رکھا تھا۔ اس دن مشت زنی کے بعد عمران نے ضمیر کی ملامت کے باوجود اس صفحے کو اپنے کمرے میں الماری کے اوپر چھپا دیا تھا تاکہ اگر کبھی دل کرے تو وہ پھر سے دیکھ سکے لیکن یہ اگر بہت جلدی آ گیا۔ اتنی جلدی کہ اسے خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ ایک تصویر سے اس قدر متاثر ہو گیا ہے کہ دیکھے بغیر رہا نہیں جا رہا۔
اس رات جب مشت زنی کے نتیجے میں وہ گند مچا بیٹھا تھا تو اسے نہانا پڑا۔ والدہ حیران تھیں کہ اسے کیا رات کے اس پہر نہانے کی سوجھ رہی ہے لیکن وہ خاموش رہیں۔ عمران نہا دھو کر واپس کمرے میں آیا اور ****** پڑھ کر سو گیا۔ اگلی صبح اس کی آنکھ دستک سے کھلی۔ دروازے پر والدہ تھیں جو حسب معمول اسے **** فجر کیلئے جگانے آئی تھیں۔ انہیں اٹھنے کی تسلی دے کر عمران نے ہمت کی اور بستر سے اٹھ بیٹھا۔ *** فجر اس کا معمول تھا اور شاذ و نادر ہی وہ **** فجر قضا کیا کرتا تھا۔ ایسا عموماً تب ہوتا تھا جب وہ رات دیر سے سویا ہو یا بہت تھکا ہوا ہو اور ہمت نہ ہو اٹھنے کی۔ آج تو ایسی کوئی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کا دل **** کیلئے ****** جانے کی بجائے الماری کے اوپر رکھی تصویر میں اٹکا ہوا تھا۔
شلوار میں لن ایسے سخت ہو رہا تھا جیسے پھاڑ کر باہر ہی نکل آئے گا۔ بہت مشکل سے خود کو کنٹرول کیا اور کسی نہ کسی طرح کمرے سے نکل کر غسل خانے میں پہنچا جہاں وضو کر کے **** میں *** پڑھ کر واپس آیا۔ اس کا معمول تھا کہ **** پڑھ کر واپس آتا تو ایک آدھ گھنٹا مزید سوتا تاکہ نیند پوری ہو جائے اور طبیعت ٹھیک رہے کیونکہ سارا دن دکان میں بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور اگر طبیعت ٹھیک نہ ہو تو گاہکوں سے رویہ خود بخود ہی ٹھیک نہیں رہتا۔
آج البتہ وہ *** فجر پڑھ کر لوٹا تو نیند کا نام و نشان بھی اس کی آنکھوں میں نہیں تھا۔ ایک عجیب سی ہوس تھی اس کی آنکھوں میں۔ اللہ جانے ضمیر سو رہا تھا یا پھر عمران نے خود اسے تھپکی دے کر سلا دیا تھا کیونکہ **** سے واپسی پر عمران دروازہ لاک کر کے فوراً اس الماری کی جانب بڑھا تھا جس کے اوپر اس نے کل والی تصویر چھپا رکھی تھی۔
اس کے انداز میں ذرا جھجک نہیں تھی۔
کل کی بہ نسبت آج ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس نے خود کو مطمئن کر لیا ہے کہ تصویر دیکھ کر مزے لینا کوئی ایسا غلط کام بھی نہیں۔ وہ کئی لڑکوں کو جانتا تھا جو انٹرنیٹ پر ننگی تصاویر اور فلمیں بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے اور انہیں ذرا بھی احساس شرمندگی نہیں تھا۔ عمران جو کر رہا تھا وہ ان لڑکوں کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ محض ایک تصویر ہی تو تھی۔ عمران نے بڑے اطمینان سے تصویر الماری کے اوپر سے اتاری۔ اس کے اوپر ذرا سی گرد جم گئی تھی۔
عمران نے وہ گرد ہاتھ سے صاف کی اور پھر تصویر کو بستر پر رکھ کر پیچھے ہٹ کر اپنے کپڑے اتارنے لگا۔ شاید وہ کل کی طرح اپنی شلوار گندی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کل بھی اس نے والدہ کے سوالات سے بچنے کیلئے نہاتے ہوئے خود ہی اپنی شلوار دھو ڈالی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی والدہ کو اس کی گھناؤنی حرکات کا علم ہو۔ پہلے قمیض اتاری پھر شلوار اور الف ننگا ہو کر بستر پر چڑھ گیا۔
جاتی گرمیوں کا موسم تھا اس لئے کچھ ایسی ٹھنڈ بھی نہیں تھی۔ عمران بستر پر چڑھنے سے پہلے ایک ردی کپڑے کا ٹکڑا ساتھ رکھنا نہیں بھولا تھا۔ کل کے عمران اور آج کے عمران میں فرق واضح تھا۔ کل کا عمران پشیمان تھا, خوفزدہ تھا۔ آج کا عمران خود اعتماد اور مکمل منصوبہ بند معلوم ہوتا تھا۔ ایک ہاتھ میں تصویر تھام کر دوسرا ہاتھ اپنے لن پر رکھ لیا اور دھیرے دھیرے مسلنے لگا۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔ تصویر پر نظر گئی تو پھر اس کا ہاتھ لن پر بھی رک گیا اور وہ جیسے تصویر میں کھو کر رہ گیا۔ آج چونکہ کوئی جلدی نہیں تھی کوئی ڈر نہیں تھا تو بہت اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔
عورت کی جسامت ذرا پھولی پھولی تھی لیکن موٹی ہر گز نہیں تھی۔ عمر بھی شاید کوئی چالیس کے پیٹے میں ہو گی اس کی یا پھر پچاس کے قریب قریب۔ اس عمر کی عورتوں میں اس حد تک تو موٹاپا ہوتا ہی ہے کہ بازو اور ٹانگیں ذرا موٹی ہو جاتی ہیں اور پیٹ پر بھی چربی ہوتی ہے تھوڑی۔ بڑے بڑے پستان اس کے علاؤہ۔ عمران نے تصویر پر اس عورت کو بہت غور سے دیکھا۔ اوپر سے نیچے تک۔ ایک ایک جگہ کو اپنی آنکھوں سے زوم کر کے دیکھا۔
عمران اس قدر محو تھا کہ پلکیں جھپکنا تک بھول گیا تھا۔
سر کے بال لمبے کالے گھنے، بھونیں ستواں ترشی ہوئی، چہرہ خوبصورت جس پر ڈھلتی عمر کا تجربہ جیسے تحریر ہو گیا ہو۔ گردن دیکھی تو دل کیا چوم ہی لے۔ عمران نے تصویر ہونٹوں سے لگا لی اور ایک بھرپور بوسہ اس پر ثبت کر دیا۔ اس کا لن اتنا شدید سخت ہو چکا تھا کہ درد ہونے لگا تھا۔ انگوٹھے کی مدد سے وہ تصویر پر عورت کے پستان والی جگہ مسلنے لگا اور تصور کرنے لگا کہ وہ اس کا پاس موجود ہے اور اصل میں اس کے پستان مسل رہا ہے، نپلز مسل رہا ہے اور چوس رہا ہے۔ یہ تصور کرنے کی دیر تھی کہ اس کے لن سے منی کا فوارہ نکل پڑا۔ چونکہ وہ بیٹھا ہوا تھا اور لن کا رخ اوپر کی طرف تھا اس لئے منی کا پہلا جھٹکا بھی اوپر فضا میں بلند ہوا اور بستر پر کہیں جا گرا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے لن پر ہاتھ چلانے لگا اور اس کے جذبات چند سیکنڈز کیلئے بے حد برانگیختہ ہو گئے۔
اس کی ٹانگوں پر بھی منی کے چھینٹے لگ گئے تھے اور لن تو پہلے کی طرح منی میں لتھڑ گیا تھا کیونکہ اس نے ڈسچارج ہوتے وقت ہاتھ نہیں ہٹایا تھا بلکہ مسلتا ہی چلا گیا تھا۔ یہ اس تصویر پر عمران کی دوسری مشت زنی تھی۔ اس کے بعد مشت زنی کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ بات عمران کے بس سے باہر ہو گئی۔ سوتے جاگتے اس کے حواس پر وہ عورت سوار رہنے لگی۔ دکان میں بیٹھے وہ اسی کے بارے سوچتا رہتا۔ سامان لینے بازار جاتا تو سارا راستہ اسی عورت کا خیال رہتا۔ گھر میں آتا تو بھی وہی خواب و خیال پر سوار رہتی۔
والدہ سے بات چیت کم سے کم تر ہوتی گئی اور صبح شام عمران اس عورت کے نام کی مٹھ مارنے لگا۔
- جاری ہے
قِسط نمبر 1
آج کا دن
عمران کی سوچ: یہ میں کیا کر بیٹھا...
یہ پہلی سوچ تھی جو عمران کے دل میں آئی۔
احساس گناہ نے اسے گھیر لیا۔ خالی خالی نگاہوں سے چھت کو گھورتے ہوئے اپنے کئے پر پچھتانے لگا۔ پچھتاوا اس قدر شدید تھا کہ اس کا دل کرتا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
جو کچھ اس نے کیا تھا اس کی سزا اسی بات کی متقاضی تھی۔ شرم سے ڈوب مرنا ایک محاورہ ہے لیکن اس لمحے عمران کو واقعی اس قدر شرم محسوس ہو رہی تھی اگر پانی میسر ہوتا تو ڈوب ہی مرتا۔
بات ہی ایسی سنگین تھی۔
دراصل ہوا ایہ تھا کہ عمران نیا نیا جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہا تھا اور گزشتہ کچھ عرصے سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے کام کر بیٹھا تھا جس پر اسے خود سے گھن آتی تھی۔ لیکن چونکہ جوان خون تھا اور چڑھتی جوانی میں لڑکوں کا جوش بے قابو ہوا رہتا ہے اس لئے جب جب خون جوش مارتا ہے تو لذت کے حسین سراب میں کھو کر وہ کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ جس پر بعد میں وقتی پچھتاوا ہوتا ہے۔
عمران کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
جوانی کے جوش میں اس قدر بہہ گیا تھا کہ عضو تناسل کو ہاتھ میں لے کر مسلسل مسلنے اور ہلانے اور رگڑنے سے مادہ منویہ خارج کر بیٹھا تھا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو کوئی ایسا عمل نہیں کہ اس قدر شرم اور گھن آئے۔ ہر جوان لڑکا اس عمل سے گزرتا ہے۔ آپ کی سوچ غلط نہیں۔ یہ واقعی ایک قدرتی عمل ہے لیکن عمران کا معاملہ مختلف یوں تھا کہ جہاں باقی لڑکے کسی حسین لڑکی کے برہنہ سراپے کو سوچ کر یہ عمل سر انجام دیتے ہیں، عمران نے یہی عمل اپنی والدہ کے جسم کو تخیل میں لا کر کیا تھا۔
عضو تناسل پر تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے اس کے ذہن میں اس کی والدہ کا ننگا بدن گھوم رہا تھا اور زبان پر بھی امی آہ اوہ امی اف۔۔ اس قسم کے کلمات جاری رہے تھے۔ تب تو وہ اس قدر لذت میں تھا کہ کسی چیز کا ہوش نا تھا لیکن اب جب کہ ساری لذت ہوا ہو گئی تھی تو بہت برا محسوس کر رہا تھا۔ وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب پہلی پہلی بار اس کے دل میں یہ گھناؤنا خیال آیا تھا۔
وہ دن اس کے خیالات میں لوٹ آیا جب وہ اپنی کریانے کی دکان میں بیٹھا کسی گاہک کی راہ تک رہا تھا۔ وہ سب کچھ آج بھی اس کے ذہن میں اس کی یادداشت میں اس طرح تروتازہ تھا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو حالانکہ اس بات کوئی کئی ماہ بیت چکے تھے۔
شاید مرتے دم تک عمران کو یہ سب یاد ہی رکھنا تھا۔ شاید یہی اس کی سزا تھی۔ اس دن عمران بہت اچھے موڈ میں تھا اور گاہکوں کا رش بھی کم تھا۔ وہ دکان میں چیزیں ڈسپلے میں لگانے میں مشغول تھا جب اس کی نظر ردی کاغذوں کے اس بنڈل پر پڑی جو اشیا کو پیک کرنے کیلئے اس نے کباڑیے سے خریدا تھا۔ سامان لگانے سے پہلے اس نے سوچا بنڈل کو ہی ٹھکانے پر رکھ دیا جائے۔ رسی سے بندھے اس بنڈل کو چاقو کی مدد سے کھولا اور ترتیب سے نیچے دراز میں رکھنے لگا جہاں سے نکالنے میں آسانی ہو۔ بنڈل کافی بڑا تھا اس لئے عمران تھوڑے تھوڑے کر کے کاغذ رکھ رہا تھا۔ ایسے ہی جب اس نے چند کاغذ اٹھائے تو نیچے کاغذ پر بنی تصویر کو دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا۔ بے اختیار پیچھے ہٹ گیا اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔
گاہگ تو کوئی نہیں تھا لیکن پھر بھی عمران نے مکمل تسلی کی اور دکان کا وہ دروازہ جو اس کے گھر میں کھلتا تھا، وہ بھی بند کر کے کنڈی لگا دی۔ اس کا دل اس تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا سینہ چیر کر باہر آ جائے گا۔ کانپتے ہاتھوں سے وہ صفحہ اٹھایا اور دیکھنے لگا۔ اس صفحے پر ایک جوان لڑکے کی ایک عورت کے ہمراہ برہنہ تصویر تھی۔ دونوں بستر پر لیٹے تھے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے بدن کو ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کے دل میں ایک دوجے کیلئے چاہت ہے لیکن عورت لڑکے سے بڑی عمر کی لگ رہی تھی۔
چند لمحات سے ذیادہ وہ اس پر نظریں نہیں ٹکا پا رہا تھا۔ بار بار اس کے ضمیر سے آواز آتی کہ یہ غلط ہے، یہ گناہ ہے جو وہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود عمران دیکھنے بنا رہ بھی نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ صفحہ اٹھایا اور تہہ کر کے الماری کے اوپر پیچھے کر کے چھپا دیا تاکہ اگر کوئی گاہک اچانک آ جائے تو وہ رنگے ہاتھوں نہ پکڑا جائے۔ ایک طرف ضمیر ملامت کر کر رہا تھا اور دوسری طرف ٹانگوں کے بیچ موجود سرکش گھوڑا اسے وہ صفحہ دوبارہ دیکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
عمران نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور شلوار میں ابھار کے باوجود خود کو وہ صفحہ دیکھنے سے روکے رکھا۔ لیکن کب تک آخر۔ گاہکوں کا رش ویسے ہی کم تھا اور فرصت میں اس کا دل للچانے لگتا کہ ایک بار تو دیکھنا ہی چاہئے۔ اب اسے آپ شیطان کا بہکاوا سمجھ لیں یا عمران کی اپنی ہوس، جب جب اس صفحے کا خیال آتا، اس کا عضو تناسل ایک دم اتنا سخت ہو جاتا کہ عمران بے اختیار ہاتھ قمیض کے نیچے کر کے اسے سہلانے لگتا۔
اگر اسے گاہکوں کا ڈر نہ ہوتا تو وہ شلوار اتار کر کب کا اپنی ہوس کی پیاس بجھا چکا ہوتا۔ ضمیر اور ہوس کی اس کشمکش کا انجام بلاآخر ہوس کی جیت پر ہوا اور احساس گناہ کو ختم کرنے کیلئے عمران نے سوچا کہ وہ ایک بار دیکھ کر پھر توبہ کر لے گا۔
رات کو جب دکان بند کرنے کے بعد وہ گھر آ کر اپنی والدہ نزہت کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہا تو اس کی والدہ نے اس کی طبیعت میں بے چینی بھانپ لی۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا تھا اور ان کی باتوں کا جواب بس ہوں ہاں میں ہی دے رہا تھا۔
اس کی والدہ نے آج اس کا من پسند سالن پکایا تھا لیکن عمران کی توجہ کہیں اور ہی تھی۔ والدہ کے پوچھنے کے باوجود عمران نے انہیں مبہم سا جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ احتیاط سے دروازہ اندر سے بند کیا اور پھر جیب سے وہی صفحہ نکالا اور بستر میں لیٹ کر دیکھنے لگا۔ بے اختیار اس کا ایک ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان پہنچ گیا اور نظریں تصویر پر گاڑے وہ اپنا عضو تناسل مسلنے لگا۔
عمران تصویر میں موجود لڑکے کی جگہ خود کو تصور کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ وہ برہنہ اس خاتون کے ہمراہ لیٹا ہے، اس خاتون کے بڑے بڑے پستان اس کے چہرے کے بالکل قریب ہیں۔ اتنے قریب کہ چاہے تو منہ بڑھا کر چوم لے یا چوس لے۔ اس خاتون کی ٹانگوں کے درمیان بالوں سے پاک چکنی نظر آنے والی پھدی بھی اس کی پہنچ میں ہے اور وہ چاہے تو اسے بھی چھو سکتا ہے، یا پھر اس عورت کو چت لٹا کر اس کی پھدی میں اپنا عضو تناسل داخل کر سکتا ہے۔ ان سب تصورات نے عمران کے جذبات پر جیسے پٹرول چھڑک دیا۔
عمران تصویر میں اتنا محو تھا کہ پلک جھپکنا بھی بھول گیا تھا۔ ہاتھ تھا کہ مشین کی سی تیزی سے عضو تناسل پر اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ جب اس نے یہ تصور کیا کہ وہ اپنا عضو تناسل اس خاتون کی پھدی میں ڈال رہا ہے تو اس کا صبر جواب دے گیا اور وہ ایک زوردار جھٹکے سے شلوار میں ہی منی خارج کر بیٹھا۔ ایک کے بعد ایک جھٹکا لگا لیکن عمران کو ہر جھٹکے میں نیا سواد نیا مزہ ملا۔ پہلے بھی بیسیوں مرتبہ عضو تناسل سہلایا تھا، مشت زنی کی تھی لیکن ایسا مزہ تو کبھی نہ آیا تھا۔
عمران کے ہاتھ اب بھی عضو تناسل پر تھے۔ جب تک آخری قطرہ نکل نہ گیا وہ اسے تھامے رہا حتیٰ کہ اس کے اپنے ہاتھ بھی منی میں لتھڑ گئے اور شلوار بھی۔
تب اور اب میں فرق صرف اتنا تھا کہ تب عمران صرف اس میگزین کے صفحے پر اپنی ہوس نکال رہا تھا جبکہ اب وہ اپنی سگی والدہ کے بدن کو سوچ کر مٹھ مار بیٹھا تھا۔
منی میں لتھڑی شلوار پہنے بستر پر لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے وہ سوچتا رہا کہ آخر بد سے بدتر کا سفر اتنی جلدی کیسے طے ہو گیا۔ آخر وہ کیوں گناہوں کی دلدل میں اس قدر دھنستا جا رہا ہے۔
اس کا ضمیر ہر بار مٹھ مارنے کے بعد ایسے ہی جاگ جایا کرتا تھا لیکن اب جبکہ والدہ کے بدن کو خراج تحسین پیش کیا تھا تو ضمیر کی بیداری بھی غیر معمولی تھی۔ عمران بے سدھ لیٹا رہا اور ذہن میں ماضی کے واقعات اس کے ضمیر پر کچوکے لگاتے رہے۔ آج نہ جانے کیوں اسے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ کیسے قدم بہ قدم وہ اس دلدل میں اترا تھا۔
اسے یاد آنے لگا کہ جب اس نے پہلی بار اس میگزین کے پھٹے ہوئے صفحے کو دیکھ کر مٹھ ماری تھی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن اس عورت کی جگہ اپنی سگی ماں کا تصور کرے گا۔ وہ ماں جس نے اسے جنم دیا، اس دنیا میں لائی اسی کے بدن کا سوچ کر مشت زنی کرے گا۔ تب تو اس نے یہی سوچا تھا کہ جوان لڑکا اور ادھیڑ عمر عورت کی جوڑی خوب ہے، جوان لڑکا جس میں گھوڑے کی سی طاقت ہو اور عورت جس کا تجربہ ہو جوان گھوڑے کو رام کرنے کا۔
ایسے میں یقیناً لذت دوبالا ہو جاتی ہو گی۔
یہ اور اس قسم کے دیگر خیالات ہی تھے جنہوں نے عمران کو وہ صفحہ پھاڑ کر پھینکنے یا تلف کرنے سے باز رکھا تھا۔ اس دن مشت زنی کے بعد عمران نے ضمیر کی ملامت کے باوجود اس صفحے کو اپنے کمرے میں الماری کے اوپر چھپا دیا تھا تاکہ اگر کبھی دل کرے تو وہ پھر سے دیکھ سکے لیکن یہ اگر بہت جلدی آ گیا۔ اتنی جلدی کہ اسے خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ ایک تصویر سے اس قدر متاثر ہو گیا ہے کہ دیکھے بغیر رہا نہیں جا رہا۔
اس رات جب مشت زنی کے نتیجے میں وہ گند مچا بیٹھا تھا تو اسے نہانا پڑا۔ والدہ حیران تھیں کہ اسے کیا رات کے اس پہر نہانے کی سوجھ رہی ہے لیکن وہ خاموش رہیں۔ عمران نہا دھو کر واپس کمرے میں آیا اور ****** پڑھ کر سو گیا۔ اگلی صبح اس کی آنکھ دستک سے کھلی۔ دروازے پر والدہ تھیں جو حسب معمول اسے **** فجر کیلئے جگانے آئی تھیں۔ انہیں اٹھنے کی تسلی دے کر عمران نے ہمت کی اور بستر سے اٹھ بیٹھا۔ *** فجر اس کا معمول تھا اور شاذ و نادر ہی وہ **** فجر قضا کیا کرتا تھا۔ ایسا عموماً تب ہوتا تھا جب وہ رات دیر سے سویا ہو یا بہت تھکا ہوا ہو اور ہمت نہ ہو اٹھنے کی۔ آج تو ایسی کوئی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کا دل **** کیلئے ****** جانے کی بجائے الماری کے اوپر رکھی تصویر میں اٹکا ہوا تھا۔
شلوار میں لن ایسے سخت ہو رہا تھا جیسے پھاڑ کر باہر ہی نکل آئے گا۔ بہت مشکل سے خود کو کنٹرول کیا اور کسی نہ کسی طرح کمرے سے نکل کر غسل خانے میں پہنچا جہاں وضو کر کے **** میں *** پڑھ کر واپس آیا۔ اس کا معمول تھا کہ **** پڑھ کر واپس آتا تو ایک آدھ گھنٹا مزید سوتا تاکہ نیند پوری ہو جائے اور طبیعت ٹھیک رہے کیونکہ سارا دن دکان میں بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور اگر طبیعت ٹھیک نہ ہو تو گاہکوں سے رویہ خود بخود ہی ٹھیک نہیں رہتا۔
آج البتہ وہ *** فجر پڑھ کر لوٹا تو نیند کا نام و نشان بھی اس کی آنکھوں میں نہیں تھا۔ ایک عجیب سی ہوس تھی اس کی آنکھوں میں۔ اللہ جانے ضمیر سو رہا تھا یا پھر عمران نے خود اسے تھپکی دے کر سلا دیا تھا کیونکہ **** سے واپسی پر عمران دروازہ لاک کر کے فوراً اس الماری کی جانب بڑھا تھا جس کے اوپر اس نے کل والی تصویر چھپا رکھی تھی۔
اس کے انداز میں ذرا جھجک نہیں تھی۔
کل کی بہ نسبت آج ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس نے خود کو مطمئن کر لیا ہے کہ تصویر دیکھ کر مزے لینا کوئی ایسا غلط کام بھی نہیں۔ وہ کئی لڑکوں کو جانتا تھا جو انٹرنیٹ پر ننگی تصاویر اور فلمیں بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے اور انہیں ذرا بھی احساس شرمندگی نہیں تھا۔ عمران جو کر رہا تھا وہ ان لڑکوں کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ محض ایک تصویر ہی تو تھی۔ عمران نے بڑے اطمینان سے تصویر الماری کے اوپر سے اتاری۔ اس کے اوپر ذرا سی گرد جم گئی تھی۔
عمران نے وہ گرد ہاتھ سے صاف کی اور پھر تصویر کو بستر پر رکھ کر پیچھے ہٹ کر اپنے کپڑے اتارنے لگا۔ شاید وہ کل کی طرح اپنی شلوار گندی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کل بھی اس نے والدہ کے سوالات سے بچنے کیلئے نہاتے ہوئے خود ہی اپنی شلوار دھو ڈالی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی والدہ کو اس کی گھناؤنی حرکات کا علم ہو۔ پہلے قمیض اتاری پھر شلوار اور الف ننگا ہو کر بستر پر چڑھ گیا۔
جاتی گرمیوں کا موسم تھا اس لئے کچھ ایسی ٹھنڈ بھی نہیں تھی۔ عمران بستر پر چڑھنے سے پہلے ایک ردی کپڑے کا ٹکڑا ساتھ رکھنا نہیں بھولا تھا۔ کل کے عمران اور آج کے عمران میں فرق واضح تھا۔ کل کا عمران پشیمان تھا, خوفزدہ تھا۔ آج کا عمران خود اعتماد اور مکمل منصوبہ بند معلوم ہوتا تھا۔ ایک ہاتھ میں تصویر تھام کر دوسرا ہاتھ اپنے لن پر رکھ لیا اور دھیرے دھیرے مسلنے لگا۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔ تصویر پر نظر گئی تو پھر اس کا ہاتھ لن پر بھی رک گیا اور وہ جیسے تصویر میں کھو کر رہ گیا۔ آج چونکہ کوئی جلدی نہیں تھی کوئی ڈر نہیں تھا تو بہت اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔
عورت کی جسامت ذرا پھولی پھولی تھی لیکن موٹی ہر گز نہیں تھی۔ عمر بھی شاید کوئی چالیس کے پیٹے میں ہو گی اس کی یا پھر پچاس کے قریب قریب۔ اس عمر کی عورتوں میں اس حد تک تو موٹاپا ہوتا ہی ہے کہ بازو اور ٹانگیں ذرا موٹی ہو جاتی ہیں اور پیٹ پر بھی چربی ہوتی ہے تھوڑی۔ بڑے بڑے پستان اس کے علاؤہ۔ عمران نے تصویر پر اس عورت کو بہت غور سے دیکھا۔ اوپر سے نیچے تک۔ ایک ایک جگہ کو اپنی آنکھوں سے زوم کر کے دیکھا۔
عمران اس قدر محو تھا کہ پلکیں جھپکنا تک بھول گیا تھا۔
سر کے بال لمبے کالے گھنے، بھونیں ستواں ترشی ہوئی، چہرہ خوبصورت جس پر ڈھلتی عمر کا تجربہ جیسے تحریر ہو گیا ہو۔ گردن دیکھی تو دل کیا چوم ہی لے۔ عمران نے تصویر ہونٹوں سے لگا لی اور ایک بھرپور بوسہ اس پر ثبت کر دیا۔ اس کا لن اتنا شدید سخت ہو چکا تھا کہ درد ہونے لگا تھا۔ انگوٹھے کی مدد سے وہ تصویر پر عورت کے پستان والی جگہ مسلنے لگا اور تصور کرنے لگا کہ وہ اس کا پاس موجود ہے اور اصل میں اس کے پستان مسل رہا ہے، نپلز مسل رہا ہے اور چوس رہا ہے۔ یہ تصور کرنے کی دیر تھی کہ اس کے لن سے منی کا فوارہ نکل پڑا۔ چونکہ وہ بیٹھا ہوا تھا اور لن کا رخ اوپر کی طرف تھا اس لئے منی کا پہلا جھٹکا بھی اوپر فضا میں بلند ہوا اور بستر پر کہیں جا گرا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے لن پر ہاتھ چلانے لگا اور اس کے جذبات چند سیکنڈز کیلئے بے حد برانگیختہ ہو گئے۔
اس کی ٹانگوں پر بھی منی کے چھینٹے لگ گئے تھے اور لن تو پہلے کی طرح منی میں لتھڑ گیا تھا کیونکہ اس نے ڈسچارج ہوتے وقت ہاتھ نہیں ہٹایا تھا بلکہ مسلتا ہی چلا گیا تھا۔ یہ اس تصویر پر عمران کی دوسری مشت زنی تھی۔ اس کے بعد مشت زنی کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ بات عمران کے بس سے باہر ہو گئی۔ سوتے جاگتے اس کے حواس پر وہ عورت سوار رہنے لگی۔ دکان میں بیٹھے وہ اسی کے بارے سوچتا رہتا۔ سامان لینے بازار جاتا تو سارا راستہ اسی عورت کا خیال رہتا۔ گھر میں آتا تو بھی وہی خواب و خیال پر سوار رہتی۔
والدہ سے بات چیت کم سے کم تر ہوتی گئی اور صبح شام عمران اس عورت کے نام کی مٹھ مارنے لگا۔
- جاری ہے