Shehla69
Elite writer
Offline
- Thread Author
- #1
عمار کیا کرتے ہیں پلیز تھوڑی دیر کے لئے کمرہ خالی کردیں مجھے ڈسٹنگ کرنی ہے، اتوار کا دن ہو تو آپ کا اٹھنا محال ہوجاتا ہے- ناشتہ کرنے کے بعد بھی دوبارہ بستر میں جانے کی کوئی تک ہے بھلا- دوپہر کے گیارہ بجنے والے ہیں اور ابھی تک صفائی بھی نہیں ہوئی اس کے بعد مجھے کھانا بھی پکانا ہے پھر آپ ہی بھوک بھوک کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس نے مسلسل عمار کے سر سے چادر کا کونا کھینچتے ہوۓ ان کا دھیان گھڑی کی طرف دلایا تو وہ منہ بناتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھ گئے اور پہلے ایک زور دار انگڑائی کے ساتھ جمائی لی جسے عنیزہ نے ناگواری سے دیکھا، اس کی نفاست پسند طبیعت پر یہ سب گراں گزا تھا۔ کیا ہوا- کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ عمار بیڈ سے اتر کر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں چیزیں الٹ پلٹ کر کے جانے کیا تلاش کر رہے تھے۔ یہ لو، دراز سے ان کا ہاتھ باہر آیا تو ان کے ہاتھ میں اسکاچ ٹیپ تھا-کل اس نے ان سے ٹیپ ڈھونڈنے کی فرمائش کی تھی کیونکہ کل جب گھر میں چائے کی پتی ختم ہوئی تو اس نے پڑوس کے بچے سے قریبی دکان سے لانے کا کہا اور سو روپے کا نوٹ پرس سے جلدی سے کھینچنے کی وجہ سے دوٹکڑے ہو گیا اسے جوڑنے کے لیے ٹیپ درکار تھا اتفاق سے اس وقت ایک وہی نوٹ موجود تھا اور چائے کی پتی کا آخری دانا تک ختم ہوگیا تھا. اس نے عمار سے کہا کہ مجھے ٹیپ ڈھونڈ دیں شاید اسی وجہ سے وہ ٹیپ دے رہے تھے۔ یہ مجھے کل مل گیا تھا جب ہی آپ نے چائے نوش فرمائی تھی جناب عنیزہ نے مسکراتے ہوئے ان کی معلومات میں اضافہ فرمایا۔ نہیں یہ میں نے تمہیں اس لیے دیا ہے تاکہ تم اپنا منہ بند رکھ سکو عمار نے باچھیں چیرتے ہوۓ کہا اور جلدی سے باتھ روم میں غائب ہوگئے۔ عنیزہ نے بھناتے ہوۓ باتھ روم کے بند دروازے کو دیکھا اور بڑ بڑاتے ہوۓ اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔ عنیزہ ٹاول دینا ذرا۔ اندر سے عمار کی آواز آئی۔ افوہ، آپ کب سدھریں گے عمار ذرا ذرا سے کام کے لیے آوازیں دینے لگتے ہیں۔ یہ نہیں ہوا کہ تولیہ ساتھ ہی لے جاتے ۔ اس نے جھنجھلاتے ہوۓ تولیہ اسٹینڈ سے اٹھا کر انہیں باتھ روم کے دروازے پر آکر تھمایا ان کے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے اور اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کسی کام سے پکارتے وہ کمرے سے باہر آ گئی۔ عنیزہ یاد ہے آج حمزہ اور معاذ کی فیملی کی دعوت ہے- تم ایسا کیوں نہیں کرلیتیں اپنی فرینڈز کو بھی بلا لوعمارنہا کر آنے کے بعد کچن کے دروازے میں کھڑے ہوتے ہوۓ بولے۔ حمزہ اور معاذ عمار کے بے حد قریبی دوست تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا دونوں ہی اچھی نفیملی کے خوش مزاج انسان تھے ان کی بیگم سے عنیزہ کی اچھی دوستی تھی اور پچھلے ایک ہفتے سے گھر میں اس دعوت کی بات ہورہی تھی جب عمار نے صرف اپنے دوستوں کی فیملی کے بارے میں کہا تھا اور اس وقت اگر عنیزہ اپنی دوستوں کا ذکر چھیڑ دیتی تو یقینا اس کو بچت پراچھا خاصا لیکچر سنے کومل جا تا ورنہ اس کی بہت خواہش تھی اپنی دوستوں کو مدعو کرنے کی- اب اچانک سے عمار کا شاہانہ انداز لوٹ کر آیا وہ اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی اس نے جلدی جلدی تو ثوبیہ اور حمنہ کو کال ملائی اور معذرت کرتے ہوۓ اچانک سے گھر میں ہونے والی گیٹ ٹو گیدر کی دعوت دی- وہ دونوں بھی شاید عنیزہ سے ملنے کوترسی ہوئی تھیں جب ہی فوراً آنے کی ہامی بھر لی۔اب اس کا کام بھی یقینا آدھا ہوجانے والا تھا کیونکہ وہ دونوں اسے کچن میں بھی اکیلا نہیں چھوڑتیں اور جب تک کام پورا سمٹ نا جاتا اپنے گھر بھی نہیں جاتی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد عنیزہ نے سامان کی فہرست بنا کر عمار کے سپرد کی اور جلدی جلدی تیاریوں میں جت گئی۔ عمار اور ان کے دوست صاحبان کافی خوش خوراک واقع ہوۓ تھے کھانے میں چار سے پانچ ڈش یقینی ہونا تھی ،حمنہ اور ثوبیہ اس کی مدد کے خیال سے شام میں جلدی آ گئی تھیں ان کے شوہر صاحبان مقررہ وقت پر نہ اۓ تھے۔ مجھے تو پتا ہے تم سب کچھ کیلے تیار کر سکتی ہولیکن جلدی آنے کا کوئی بہانہ بھی تو چاہیے تھا۔ ثوبیہ نے مذاقا کہا اور کھلکھلا کر ہنس دی۔ ہاں واقعی ورنہ گھر کے بکھیڑوں سے کہاں جان چھوٹتی ہے۔ ذرا اور دیر کرتی تو ساس محترمہ نے حکم صادر فرمانا تھا ہانڈی پکا کر جانا جبکہ ماریہ اور عنایہ فارغ ہی ہوتی ہیں۔ حمنہ نے منہ بناتے ہوۓ اپنی نندوں کا نام لیا۔ کیوں وہ دونوں کچھ نہیں کرتیں کیا؟ اس نے حمنہ سے پوچھا۔ دل چاہتا ہے تو کرتی ہیں ورنہ ادھورا چھوڑ کر کہ دیتی ہیں مجھ سے نہیں ہوگا۔ اس نے نندوں کی نقل اتاری۔ اب جب ایک نوکرانی موجود ہے بھابی کی شکل میں تو ان شہزادیوں کو ضرورت بھی کیا ہے کام کرنے کی حمنہ نے تلخی سے کہا۔ تم تو آرام میں ہو جو ساس نندوں کے بکھیڑوں سے دور ہو۔ یہ ثوبیہ تھی ، عنیزہ اسے دیکھ کررہ گئی اب کیا بتاتی کہ عمار اکیلے ہی کافی ہیں ان سب کی کمی پوری کرنے کے لیے، ابھی کل شام ہی کی بات ہے جب وہ آفس سے آۓ تو وہ جلدی سے ان کے لیے پانی لائی تھی۔ یہ کیا ہے تمہیں تمیز ہے یا نہیں گلاس دھویا نہیں تھا۔ پانی پینے کے بعد وہ گلاس میں موجود نمی کو ہاتھ سے صاف کرتے ہوۓ کہا رہے تھے- اب ٹھنڈے پانی کے بخارات گلاس پہ جم ہی جاتے ہیں اب بندہ پوچھے کہ اتنا گندہ لگ رہاتھا تو پانی پیاہی کیوں لیکن وہ بس انہیں دیکھ کر گئی٠ کچھ بولنا مزید اپنی شامت بلانے کے مترادف تھا۔ اس نے مسکراتے ہوۓ ثوبیہ کودیکھا اور کام میں مصروف ہوگئی۔ انہی باتوں اور کاموں میں وقت گزرگیا۔ شام میں سب کے آنے پر اچھا سا ماحول بن گیا حمنہ اور ثوبیہ کے شوہر احمد اور فیض بھی بے حد ملنسارطبیعت کے مالک تھے۔ اپنائیت اور پرخلوص ماحول میں کھانا کافی پرلطف رہا سب نے تعریف کی تھی۔ اب گھر جا کر میری شامت آ جانی ہے۔ ثوبیہ نے اس کے کان میں کہا۔ وہ کیوں؟ عنیزہ نے حیرت سے پوچھا۔ اتنا اچھا کھانا جو تم نے کھلایا ہے، یہ ذائقہ اب کم از کم بھی ایک مہینے تک احمد کو بھولنے والانہیں ہے۔ اس نے بیچارگی سے کہا۔ عنیزہ تمہارے ہاتھ میں جادو ہے قسم سے جب ہی تو عمار بھائی تمہاری مٹھی میں ہیں۔ اس نے مزید کہا تو اس نے بے ساختہ نظر اٹھا کر عمار کی طرف دیکھا جو بہت خوش اخلاقی سے سب کو ایک ایک ڈش کی طرف متوجہ کر رہے تھے اسے دوپہر کے کھانے کے وقت کی ان کی بات یاد آئی۔ یہ کیا عجیب ملغوبہ بنایا ہے۔ عمار نے سبزی کی ڈش کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مکس ترکاری ہے عمار- اس نے ڈرتے ہوۓ کہا۔ الله کا واسطہ ہے عنیزہ یہ جوتم عجیب وغریب قسم کے کھانے پکا کر سامنے رکھ دیتی ہو شام کوکوئی ایکسپریمنٹ مت کرنا- ایسا نہ ہو کہ میری بے عزتی ہو جاۓ ،ثمینہ بھابی کو دیکھا ہے کتنا ذائقہ ہے ان کے ہاتھ میں بندہ انگلیاں ہی چاٹتا رہ جاۓ۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ شاید دنیا بھر کے مردوں کا محبوب مشغلہ ہے دوسروں کے پکائے کھانوں کی تعریف کرنا اور انگلیاں چاٹنے والی مثال تو اس کی نفاست پسند طبیعت پر بڑی گراں گزرتی تھی اس مثال پر تو مجھے لوگوں کی انگلیاں کھانوں میں لتھڑی ہوئی محسوس ہوتی تھیں اور اس کے ذہن میں یہی خیال آتا تھا کہ بندہ انسانوں کی طرح تمیز کے دائرے میں رہ کر بھی تو کھالیتا ہے نہ انگلیوں پہ اتنا کھانا لگے نہ کھاناچاٹنے کی نوبت آۓ گی۔ یہ پانی کا جگ اٹھانا ذرا عنیزہ حمنہ کی آواز اسے چونکنے پہ مجبور کرگئی جبکہ عمار اسے گھور کر دیکھ رہے تھے- ایک اور شامت اس نے سوچا۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا جو کہ حمنہ نے بنائی، چاۓ کی سب ہی نے تعریف کی اس کے بعد سب ایک ایک کر کے رخصت ہوگئے تھے۔ میں رک جاتی لیکن ان کو صبح جلدی آفس کے لیے نکلنا ہے اور ذرا بھی دیر اور رکنے کا کہوں گی تو موڈ اور زیادہ خراب ہو جاۓ گا۔ ثوبیہ نے برتنوں کے ڈھیروں ڈھیر دیکھ کر شرمندگی سے کہا۔ اورمیرا تو جانتی ہی ہو میری ساس کو زیادہ دیر تک باہر رہنا پسند نہیں وہ فیض کو عیاشیوں کے طعنے دینے شروع کردیں گی اور اگلے ایک ہفتے تک فیض کے ماتھے کے بل نہیں نکلیں گے۔ حمنہ نے بھی بیچارگی سے کہا۔ ارے کوئی بات نہیں میں کرلوں گی۔ اس نے مسکراتے ہوۓ دونوں کواللہ حافظ کہا ان کے جانے کے بعد وہ کچن میں آئی جبکہ عمار ریموٹ سنبھال کر بیٹھ گئے ، اسے برتن دھوتے اور کچن سمیٹتے ہوۓ رات کا ایک بج گیا تھا۔ اللہ تھک گئی میں ۔ اس نے تھکے ہوۓ انداز میں عمار کے برابر میں بیٹھ کر کہا۔ آخر کیا ہی کیا ہے جو تھک گئیں، دو پہر سے تو تمہاری سہلیاں آگئی تھیں اچھا خاصا کام نمٹا دیا انہوں نے تمہارا، اس وقت بس یہ ذرا سے برتن ہی اکیلے دھوۓ ہیں۔ انہوں نے کچن کے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور اس کی آنکھیں ابلنے کو ہوئیں۔ ذرا سے برتن، اور اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ سارا کچھ اکیلے ہی کیا تھا بس سلاد بنانا یا کھانا لگوانا کوئی اتنا بڑا کام تو نہیں ہوتا ہاں شادی سے پہلے کی بات اور تھی جب آدھے سے زیادہ کام وہ منٹوں میں نمٹا دیا کرتی تھی اب تو خود گھر داری میں الجھ کر ان کاموں سے دور رہنے کے بہانے تلاشتی مگر عمارکوکون سمجھاۓ ۔ صبح اٹھنے کے بعد اس کے جسم کے جوڑ جوڑ میں درد ہورہا تھا،سر میں الگ دروکی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، وہ جلدی سے اٹھی مگر چکرا گئی،اچانک ابکائی آنے سے وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر تیزی سے واش روم کی طرف بھاگی۔ اف صبح ہی صبح یہ کیا مصیبت ہوگئی۔ وہ واش بیسن کے پاس کھڑی درد سے دوہری ہوگئی،سر الگ گھوم رہا تھا، کچھ ہی دیر بعد تولیے سے منہ تھپتھپاتی باہر آئی، اکیلے ہونے کی وجہ سے سارا کام مجھے ہی کرنا تھا میں نے عمارکو آواز دی اور خود جلدی سے کچن کارخ کیا۔ یہ عمار ابھی تک اٹھے کیوں نہیں۔ وہ دوبارہ سے عمار کواٹھانے کے لیے کمرے میں آئی وہ پہلے سے جاگ رہے تھے اورفون پرکسی سے بات کر رہے تھے باتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ دوسری طرف ان کی امی ہیں، فون بند کر کے وہ میری طرف مڑے اور خوشی سے بولے۔ امی آرہی ہیں عنیزہ ان کے لہجے میں بہت گرم جوشی تھی- ان کی امی ان کے بڑے بھائی کے گھر میں رہتی تھیں جب کہ اس نے اور عمار نے کافی کوشش بھی کی تھی وہ ان کے یہاں رہیں مگر وہ اپنا آبائی شہر چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتی تھیں- لیکن سال چھ مہینے میں کچھ دنوں کے لیے رہنے ضرور آ جاتی تھیں۔ کیا ہوا عنیزہ ؟ ناشتے کی میز پر وہ اس کے چہرے کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے وہ خوش ہوئی کہ چلو انہیں کچھ تو میرا خیال ہے۔ کچھ نہیں بس، اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں جب سے میں نے تمہیں امی کے آنے کی خبر سنائی ہے تب سے تمہارا موڈ خراب ہے۔ تم چاہتی کیا ہو آخر میری امی تو عام ساسوں کی طرح ہیں بھی نہیں- وہ تو تمہارا اتنا خیال کرتی ہیں اور میں نے بھی کبھی کوئی کسر نہیں رکھی ابھی کل کی ہی بات لے لو اپنے دوستوں کی دعوت کی تو تمہیں بھی کہا کہ اپنی دوستوں کو بلالو… تمہارے گھر والوں کے آنے پہ بھی کبھی منہ نہیں بنایا پھر تم کیوں ایسا کر رہی ہو تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ وہ جو سمجھ رہی تھی کہ شاید اس کے چہرے سے میری خرابی طبیعت کاراز پاگئے ہیں وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا وہ حیران ہوکر ان کے الزامات سن رہی تھی اور اس وقت شدت سے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جو ٹیپ کل وہ اسے دے رہے تھے وہ کس کر ان کے منہ سے چپکا دے لیکن کرنا تو دور کی بات ایسا کہنا بھی وہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی بس سوچ ہی سکتی تھی- مرد حضرات جوعورتوں کو زیادہ بولنے کا طعنہ دیتے ہیں جب بولنے پہ آئیں تو ان سے زیادہ بولنے والیوں کی بولتی بھی بند ہوجاتی ہے- بس ٹکر ٹکر ان کا منہ دیکھ رہی تھی۔
☆☆☆
پاتا نہیں یہ مردوں پر فوقیت رکھنے والی عورتوں کے لطیفے کسی شخص نے ایجاد کیے ہیں اگر وہ شخص مجھے کہیں مل جاۓ تو بھرے چوک میں الٹا لٹکا کر اسے ایسی مار لگاؤں کہ ہوش ٹھکانے آجائیں محترم کے جس نے ہم عورتوں کے دل جلانے کا اتنا گھٹیا سامان کیا،نجانے کون سے مردہوتے ہیں جو عورتوں کے سامنے بھیگی بلی بنے دن کو رات اور رات کو دن کہتے ہیں، یہاں تو بنابات کے بھی وہ وہ باتیں سہنی پڑتی ہیں جو کہ ہمارے فرشتوں کو بھی پتا نہیں ہوتا۔ عنیزہ غصہ سے کھولتی سوچ رہی تھی۔ شام ہوئی تھی مگر وہ شوہر محترم کے مزاج ٹھکانے پر ہی نہیں آۓ تھے، امی کو لینے ایئر پورٹ بھی اکیلے ہی چلے گئے واپس آنے کے بعد بھی بس امی کے ساتھ ہی باتوں میں لگے رہے، وہ جب امی سے ان کا حال چال پو چھنے لگی تو طنزیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے رہے جیسے کہہ رہے ہوں بی بی اپنا یہ دکھاوا کہیں اور جا کر دکھاؤ یہاں تمہاری کوئی دال نہیں گلنے والی ، وہ کڑھتی رہی اور سوچ کر رہ گئی۔ وہ چاۓ اور اسنیکس پر خوب ہاتھ صاف کر رہے تھے اور کیوں نہ کرتے وہ ایسا آخر سب انہی کے کمائے گئے پیسوں سے تو آیا تھا اور عنیزہ ٹہری بے دام کی غلام دہ غلام جسے تین بول پڑھوا کر گھر کے سیاہ وسفید کا مالک بنایا جاتا ہے، اب مالک سمجھنا نہ سمجھنا یہ مردوں کا شیوہ ہے چاہیں تو سر پہ بٹھائیں چاہیں پیروں تلے روندیں انہیں کون پوچھنے والا ہے۔ چلیں امی آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ دوں آپ اب آرام کر لیں سفر سے آئی ہیں تھک گئی ہوں گی۔ عمار نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔ ارے نہیں بیٹا- ایسی کوئی بات نہیں تم نے تو بالکل مجھے بچہ بنادیا ہے، مجھے ذرا بھی تھکن نہیں ہورہی تم جاؤ اپنا کام کرو، میں تو اب اپنی بہو سے ڈھیر ساری باتیں کروں گی۔امی کی بات پہ عمار نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہ رہے ہوں دیکھا میری ماں کو تم جیسی بہو کا بھی کتنا خیال ہے اور گھورتے ہوۓ وہاں سے چلے گئے، پتا نہیں کیا مزاج پایا ہے محترم نے وہ سوچ رہی تھی کہ ایک دم اسے پھر سے ابکائی آئی اور وہ کچن سے ملحق واش بیسن کی طرف دوڑی، امی نے بہت غور سے اسے دیکھا- کیا ہوا عنیزہ میں بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں تمہاری کیا عمار سے کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ دوبارہ ان کے پاس آ کر بیٹھی تو امی نے بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوۓ پوچھا۔ نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں۔ وہ ان کی بات پر گڑ بڑائی، میری بات پہ ان کے چہرے پہ ایک عجیب سی مسکراہٹ آ گئی جیسے کسی بچے کی چوری پکڑ لی گئی ہو اور اس کی چھپانے کی کوشش پر ہنسی آ گئی ہو۔ تم نہ بتانا چاہو وہ الگ بات ہے لیکن تم دونوں کے رویے چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ کچھ بھی نارمل نہیں ہے۔ امی نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ شش و پنج میں پڑگئی کہ آیا بتانا ٹھیک ہوگا بھی یا نہیں- لا کھ وہ اچھی ساس ہوں مگر پھر بھی بیٹے اور بہوکی لڑائی میں وہ ایک ماں کا کردار نبھائیں گی، طرف داری تو وہ اپنے بیٹے کی ہی کریں گی۔ کیا ہوا کیا سوچنے لگیں؟ تم نہیں بتانا چاہتیں تو کوئی زبردستی نہیں مگر پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں، میں ایک صالح کا کردار کرسکوں۔ انہوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوۓ کہا، وہ پر سوچ نظروں سے ان کے چہرے کو تک رہی تھی پھر اس نے ایک دم سے انہیں بتانے کا فیصلہ کرلیا۔ ہماری شادی کو دوسال کا عرصہ ہوگیا تھا اور ان کا اور میرا کبھی معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہوا تھا۔ اس نے الف سے لے کر ی تک ساری باتیں ڈرتے ڈرتے ان کے گوش گزار کردیں اور وہ سوچ رہی تھی وہ عمار کی ماں ہیں اور مائیں تو اپنے بچوں کی ساری اداؤں سے واقف ہوتی ہیں عمار کے رویے کو سمجھنے میں وہ اہم کردارادا کرسکتی ہیں۔ امی دو سال کا عرصہ ہوگیا میں انہیں بالکل بھی سمجھ نہیں پارہی ہوں، انہیں کب کیا اچھا لگتا ہے،کیا برا لگ سکتا ہے مجھے کچھ بھی نہیں پتا، ان کا موڈ پل پل بدلتا ہے ذراسی دیر میں عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی، جو خود بھی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔انہوں نے اس کا ہاتھ دھیرے سے دبایا- جانتی ہوں بیٹا سب جانتی ہوں، میں خودبھی تم سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہ رہی تھی، بہت سی باتیں ہیں جو مجھے بہت پہلے ہی تمہیں بتادینی چاہیے تھیں مگرتم اسے میری خود غرضی کہو یا کچھ اور مجھے بھی بھی کوئی مناسب موقع نہیں ملا۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔ میں اصل میں چاہتی تھی کہ تم خود مجھ سے پوچھو میں تب تمہیں بتاؤں، اگر یہ سب باتیں میں خود سے تمہیں بتاتی تو تم بہت الجھ جاتیں۔ انہوں نے نرمی سے اس کے گالوں کو چھوا جب کہ اس کی حیرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ پتا ہے عمار کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں میں نے بہت وقت لیا مگر اللہ کا شکر ہے کہ دیر آید درست آید، اور تم ہمیں مل گئیں تمہیں پہلی نظر میں دیکھتے ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ صرف ایک تم ہی ہو جو میرے اس اکھٹر بیٹے کو سنبھال سکتی ہو، ؟پتا ہے عمار شروع سے ہی بہت ضدی رہا ہے، اسے اپنے آگے کبھی کسی کی تکلیف بھی نظر نہیں آتی ،کافی حد تک لا پروا اور بے حس ہی کہ لو۔ عنیزہ کی حیرت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ اس معاملے میں اپنی ماں تک کا لحاظ نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتی کم از کم ایک طرح کا پردہ تو ہے، وہ کم از کم جو چاہتا ہے منہ پہ کہ لیتا ہے دوسروں کوذرہ برابر بھی اس کے کرخت رویوں کا انداز نہیں ہوتا۔ ان کی بات پہ اسے کرنٹ سا لگا، وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔ تم مجھے غلط مت سمجھنا بیٹا لیکن ماں ہوں ناں اس لیے اور کچھ کر بھی نہیں سکتی، یہ نہیں ہے کہ میں نے اس کی ٹھیک سے تربیت نہیں کی ،تم نے تو دیکھا ہے ناں میرے اور بھی بچوں کو لیکن عمار کی پرورش میں نجانے کہاں کیا کمی رہ گئی کہ اس کی شخصیت اتنی پیچیدگی کا شکار ہوگئی، مجھے پتا ہے تم یہی سوچ رہی ہوگی کہ اسے خود سے دور رکھ کر میں مزیدغلطی کر رہی ہوں مگر کیا کروں بیٹا میں جانتی ہوں والدین کی نافرمانی کرنے والی اولادوں کے لیے سخت عذاب ہے، میں کیسے اس کے لیے جانتے بوجھتے جہنم کا سامان کرسکتی ہوں ۔ انہوں نے اشک بار آنکھوں سے کہا۔ کیا تم ایک ماں کی اتنی سی خودغرضی کو معاف نہیں کرسکتیں جو ہر حال میں اپنی اولاد کا بھلا چاہتی ہو؟ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کی پشت پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودیں اور عنیزہ جو واقعی اسی قسم کی سوچوں میں غلطاں تھی کچھ شرمندہ سی ہوگئی۔ نہیں- پلیز امی آپ روئیں مت، میں ایسا کچھ نہیں سوچ رہی۔ اس نے جلدی سے سامنے میز پر موجود جگ سے گلاس میں پانی نکال کر ان کے ہونٹوں سے لگایا وہ انہوں نے گلاس اسے دیتے ہوۓ پیار سے کہا۔ وہ ٹھیک ہو جاۓ گا بیٹا، جب خود باپ بنے گا ناں تو دیکھنا بالکل بدل جاۓ گا، انسان کسی کے لیے بدلے نہ بدلے مگر اپنی اولاد کے لیے ضرور بدل جاتا ہے، سخت سے سخت دل انسان کو بھی نرمی نصیب ہو جاتی ہے- یہ رشتہ ہی ایسا ہے۔ ان کی بات پر اسے کچھ گد گدا ہٹ کا احساس ہوا اور وہ شرمگیں احساس تلے گھر کے مسکرا دی، اسے صبح کی اپنی طبیعت خرابی کی کیفیت یاد آئی، اس نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا، وہ ایک جہاندیدہ خاتون تھیں بہت کچھ بھانپ گئی تھیں- وہ حیرت سے اپنے کھلے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھے نہیں دیکھ رہی تھی ،وہ اس کی اس حرکت پہ کھل کے مسکرا دیں۔ کتنا خوب صورت احساس ہوتا ہے ناں، بالکل ماورائی سا، ایک ننھے گل گوتھنے سے بچے کے ہونے کا احساس، مامتا کا احساس، جیسے دنیا سے کوئی انوکھا کام کرنے چلے ہوں، ماں بننے کے خیال سے ہی چہرے پر روشن کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں، تو جب یہ اعزاز ایک عورت کو ودیت کیا جا تا ہوتو کیونکر نہ وہ خود کو اس دنیا کی خوب صورت ترین اور خوش نصیب ترین عورت سمجھے اور اسے تو یہ اعزاز ایک آس اور ایک امید کی صورت بھی مل رہا تھا اور تھوڑی دیر پہلے جواسے تھوڑا بہت بھی امی سے گلہ ہور ہا تھا وہ بھی دور ہوگیا تھا اوروہ مجھے مامتا کی بلندیوں پرکھڑی محسوس ہورہی تھیں، اس نے سوچا۔ ابھی اس کی مامتا نے بس اپنے وجود میں پلنے والے کا لمس محسوس ہی کرنا شروع کیا تھا اور رب نے اس کی جھولی کو مامتا سے بھر دیا تھا اور وہ تو نجانے کب سے اس رتبے پر فائز تھیں، اس ایک خوشی کے ملنے پر تو وہ لوگوں کی کیا کیا خطائیں معاف کر سکتی تھی، وہ ابھی سے اس ننھی جان کی خوشیوں کے لیے دعا گو تھی- تو وہ تو یہ سب کرنے میں حق بجانب تھیں، یہ ممتا ہی تو دنیا کی سب سے بڑی دلکشی ہے..(ختم شد)
☆☆☆
پاتا نہیں یہ مردوں پر فوقیت رکھنے والی عورتوں کے لطیفے کسی شخص نے ایجاد کیے ہیں اگر وہ شخص مجھے کہیں مل جاۓ تو بھرے چوک میں الٹا لٹکا کر اسے ایسی مار لگاؤں کہ ہوش ٹھکانے آجائیں محترم کے جس نے ہم عورتوں کے دل جلانے کا اتنا گھٹیا سامان کیا،نجانے کون سے مردہوتے ہیں جو عورتوں کے سامنے بھیگی بلی بنے دن کو رات اور رات کو دن کہتے ہیں، یہاں تو بنابات کے بھی وہ وہ باتیں سہنی پڑتی ہیں جو کہ ہمارے فرشتوں کو بھی پتا نہیں ہوتا۔ عنیزہ غصہ سے کھولتی سوچ رہی تھی۔ شام ہوئی تھی مگر وہ شوہر محترم کے مزاج ٹھکانے پر ہی نہیں آۓ تھے، امی کو لینے ایئر پورٹ بھی اکیلے ہی چلے گئے واپس آنے کے بعد بھی بس امی کے ساتھ ہی باتوں میں لگے رہے، وہ جب امی سے ان کا حال چال پو چھنے لگی تو طنزیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے رہے جیسے کہہ رہے ہوں بی بی اپنا یہ دکھاوا کہیں اور جا کر دکھاؤ یہاں تمہاری کوئی دال نہیں گلنے والی ، وہ کڑھتی رہی اور سوچ کر رہ گئی۔ وہ چاۓ اور اسنیکس پر خوب ہاتھ صاف کر رہے تھے اور کیوں نہ کرتے وہ ایسا آخر سب انہی کے کمائے گئے پیسوں سے تو آیا تھا اور عنیزہ ٹہری بے دام کی غلام دہ غلام جسے تین بول پڑھوا کر گھر کے سیاہ وسفید کا مالک بنایا جاتا ہے، اب مالک سمجھنا نہ سمجھنا یہ مردوں کا شیوہ ہے چاہیں تو سر پہ بٹھائیں چاہیں پیروں تلے روندیں انہیں کون پوچھنے والا ہے۔ چلیں امی آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ دوں آپ اب آرام کر لیں سفر سے آئی ہیں تھک گئی ہوں گی۔ عمار نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔ ارے نہیں بیٹا- ایسی کوئی بات نہیں تم نے تو بالکل مجھے بچہ بنادیا ہے، مجھے ذرا بھی تھکن نہیں ہورہی تم جاؤ اپنا کام کرو، میں تو اب اپنی بہو سے ڈھیر ساری باتیں کروں گی۔امی کی بات پہ عمار نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہ رہے ہوں دیکھا میری ماں کو تم جیسی بہو کا بھی کتنا خیال ہے اور گھورتے ہوۓ وہاں سے چلے گئے، پتا نہیں کیا مزاج پایا ہے محترم نے وہ سوچ رہی تھی کہ ایک دم اسے پھر سے ابکائی آئی اور وہ کچن سے ملحق واش بیسن کی طرف دوڑی، امی نے بہت غور سے اسے دیکھا- کیا ہوا عنیزہ میں بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں تمہاری کیا عمار سے کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ دوبارہ ان کے پاس آ کر بیٹھی تو امی نے بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوۓ پوچھا۔ نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں۔ وہ ان کی بات پر گڑ بڑائی، میری بات پہ ان کے چہرے پہ ایک عجیب سی مسکراہٹ آ گئی جیسے کسی بچے کی چوری پکڑ لی گئی ہو اور اس کی چھپانے کی کوشش پر ہنسی آ گئی ہو۔ تم نہ بتانا چاہو وہ الگ بات ہے لیکن تم دونوں کے رویے چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ کچھ بھی نارمل نہیں ہے۔ امی نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ شش و پنج میں پڑگئی کہ آیا بتانا ٹھیک ہوگا بھی یا نہیں- لا کھ وہ اچھی ساس ہوں مگر پھر بھی بیٹے اور بہوکی لڑائی میں وہ ایک ماں کا کردار نبھائیں گی، طرف داری تو وہ اپنے بیٹے کی ہی کریں گی۔ کیا ہوا کیا سوچنے لگیں؟ تم نہیں بتانا چاہتیں تو کوئی زبردستی نہیں مگر پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں، میں ایک صالح کا کردار کرسکوں۔ انہوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوۓ کہا، وہ پر سوچ نظروں سے ان کے چہرے کو تک رہی تھی پھر اس نے ایک دم سے انہیں بتانے کا فیصلہ کرلیا۔ ہماری شادی کو دوسال کا عرصہ ہوگیا تھا اور ان کا اور میرا کبھی معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہوا تھا۔ اس نے الف سے لے کر ی تک ساری باتیں ڈرتے ڈرتے ان کے گوش گزار کردیں اور وہ سوچ رہی تھی وہ عمار کی ماں ہیں اور مائیں تو اپنے بچوں کی ساری اداؤں سے واقف ہوتی ہیں عمار کے رویے کو سمجھنے میں وہ اہم کردارادا کرسکتی ہیں۔ امی دو سال کا عرصہ ہوگیا میں انہیں بالکل بھی سمجھ نہیں پارہی ہوں، انہیں کب کیا اچھا لگتا ہے،کیا برا لگ سکتا ہے مجھے کچھ بھی نہیں پتا، ان کا موڈ پل پل بدلتا ہے ذراسی دیر میں عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی، جو خود بھی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔انہوں نے اس کا ہاتھ دھیرے سے دبایا- جانتی ہوں بیٹا سب جانتی ہوں، میں خودبھی تم سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہ رہی تھی، بہت سی باتیں ہیں جو مجھے بہت پہلے ہی تمہیں بتادینی چاہیے تھیں مگرتم اسے میری خود غرضی کہو یا کچھ اور مجھے بھی بھی کوئی مناسب موقع نہیں ملا۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔ میں اصل میں چاہتی تھی کہ تم خود مجھ سے پوچھو میں تب تمہیں بتاؤں، اگر یہ سب باتیں میں خود سے تمہیں بتاتی تو تم بہت الجھ جاتیں۔ انہوں نے نرمی سے اس کے گالوں کو چھوا جب کہ اس کی حیرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ پتا ہے عمار کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں میں نے بہت وقت لیا مگر اللہ کا شکر ہے کہ دیر آید درست آید، اور تم ہمیں مل گئیں تمہیں پہلی نظر میں دیکھتے ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ صرف ایک تم ہی ہو جو میرے اس اکھٹر بیٹے کو سنبھال سکتی ہو، ؟پتا ہے عمار شروع سے ہی بہت ضدی رہا ہے، اسے اپنے آگے کبھی کسی کی تکلیف بھی نظر نہیں آتی ،کافی حد تک لا پروا اور بے حس ہی کہ لو۔ عنیزہ کی حیرت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ اس معاملے میں اپنی ماں تک کا لحاظ نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتی کم از کم ایک طرح کا پردہ تو ہے، وہ کم از کم جو چاہتا ہے منہ پہ کہ لیتا ہے دوسروں کوذرہ برابر بھی اس کے کرخت رویوں کا انداز نہیں ہوتا۔ ان کی بات پہ اسے کرنٹ سا لگا، وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔ تم مجھے غلط مت سمجھنا بیٹا لیکن ماں ہوں ناں اس لیے اور کچھ کر بھی نہیں سکتی، یہ نہیں ہے کہ میں نے اس کی ٹھیک سے تربیت نہیں کی ،تم نے تو دیکھا ہے ناں میرے اور بھی بچوں کو لیکن عمار کی پرورش میں نجانے کہاں کیا کمی رہ گئی کہ اس کی شخصیت اتنی پیچیدگی کا شکار ہوگئی، مجھے پتا ہے تم یہی سوچ رہی ہوگی کہ اسے خود سے دور رکھ کر میں مزیدغلطی کر رہی ہوں مگر کیا کروں بیٹا میں جانتی ہوں والدین کی نافرمانی کرنے والی اولادوں کے لیے سخت عذاب ہے، میں کیسے اس کے لیے جانتے بوجھتے جہنم کا سامان کرسکتی ہوں ۔ انہوں نے اشک بار آنکھوں سے کہا۔ کیا تم ایک ماں کی اتنی سی خودغرضی کو معاف نہیں کرسکتیں جو ہر حال میں اپنی اولاد کا بھلا چاہتی ہو؟ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کی پشت پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودیں اور عنیزہ جو واقعی اسی قسم کی سوچوں میں غلطاں تھی کچھ شرمندہ سی ہوگئی۔ نہیں- پلیز امی آپ روئیں مت، میں ایسا کچھ نہیں سوچ رہی۔ اس نے جلدی سے سامنے میز پر موجود جگ سے گلاس میں پانی نکال کر ان کے ہونٹوں سے لگایا وہ انہوں نے گلاس اسے دیتے ہوۓ پیار سے کہا۔ وہ ٹھیک ہو جاۓ گا بیٹا، جب خود باپ بنے گا ناں تو دیکھنا بالکل بدل جاۓ گا، انسان کسی کے لیے بدلے نہ بدلے مگر اپنی اولاد کے لیے ضرور بدل جاتا ہے، سخت سے سخت دل انسان کو بھی نرمی نصیب ہو جاتی ہے- یہ رشتہ ہی ایسا ہے۔ ان کی بات پر اسے کچھ گد گدا ہٹ کا احساس ہوا اور وہ شرمگیں احساس تلے گھر کے مسکرا دی، اسے صبح کی اپنی طبیعت خرابی کی کیفیت یاد آئی، اس نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا، وہ ایک جہاندیدہ خاتون تھیں بہت کچھ بھانپ گئی تھیں- وہ حیرت سے اپنے کھلے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھے نہیں دیکھ رہی تھی ،وہ اس کی اس حرکت پہ کھل کے مسکرا دیں۔ کتنا خوب صورت احساس ہوتا ہے ناں، بالکل ماورائی سا، ایک ننھے گل گوتھنے سے بچے کے ہونے کا احساس، مامتا کا احساس، جیسے دنیا سے کوئی انوکھا کام کرنے چلے ہوں، ماں بننے کے خیال سے ہی چہرے پر روشن کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں، تو جب یہ اعزاز ایک عورت کو ودیت کیا جا تا ہوتو کیونکر نہ وہ خود کو اس دنیا کی خوب صورت ترین اور خوش نصیب ترین عورت سمجھے اور اسے تو یہ اعزاز ایک آس اور ایک امید کی صورت بھی مل رہا تھا اور تھوڑی دیر پہلے جواسے تھوڑا بہت بھی امی سے گلہ ہور ہا تھا وہ بھی دور ہوگیا تھا اوروہ مجھے مامتا کی بلندیوں پرکھڑی محسوس ہورہی تھیں، اس نے سوچا۔ ابھی اس کی مامتا نے بس اپنے وجود میں پلنے والے کا لمس محسوس ہی کرنا شروع کیا تھا اور رب نے اس کی جھولی کو مامتا سے بھر دیا تھا اور وہ تو نجانے کب سے اس رتبے پر فائز تھیں، اس ایک خوشی کے ملنے پر تو وہ لوگوں کی کیا کیا خطائیں معاف کر سکتی تھی، وہ ابھی سے اس ننھی جان کی خوشیوں کے لیے دعا گو تھی- تو وہ تو یہ سب کرنے میں حق بجانب تھیں، یہ ممتا ہی تو دنیا کی سب سے بڑی دلکشی ہے..(ختم شد)