Offline
- Thread Author
- #1
کہانی کا نیا نام مٹی کا قرض رکھ دیا گیا ہے
اپنی آرا کا اظہار لازمی کیجیے گا
منتظر ہارڈ ٹارگٹ
حا ضرِ خذمت ہے پہلی اپڈیٹ
قسط نمبر 1 :۔
میں تیز قدموں سے خالہ کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا ۔۔۔شام ہوچلی تھی ۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو خالہ نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ گھر میں داخل ہوا اور ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگا ۔دروازہ کھول کر اندر جا کر بیٹھا۔۔دو راتیں پہلے والا منظر میرے سامنے پھر سے لہرایا تھا.......بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور سکون کی سانس لینے لگا ۔۔ خالہ پانی لے ڈرائنگ روم میں پہنچی ......پانی پینے کے بعد میں نے ثناء کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔وہاں کوئی دعوت ہو رہی تھی ۔۔میں نے پوچھا کہ آپ نہیں گئیں ۔۔انہوں نے کہا کہ نہیں وقار نے آج رات آنا تھا تو میں یہیں رکی ہوئی تھیں......ہم آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے اور یقینا خالہ کے ذہن میں بھی وہ پچھلی رات گذر رہی تھی ۔خالہ نے چائے کا پوچھا اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا .......مجھے اپنی کار کا خیال آیا جو میں سعدیہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا اور سعدیہ کی گاڑی رانا ہاؤس میں کھڑی تھی ......پہلے سعدیہ کو فون کیا اسے ہلکی پھلکی بات بتا کر واپسی کا بتایا اور گاڑی کا کہا کہ میں پہنچواتا ہوں کسی زریعے سے .......۔وہ بھی کچھ دن بعد فارغ ہو رہی تھی اور واپس آنے کا کہ رہی تھی ......فون بند کیا تو مجھے زارا کا خیال آیا جو کہ یہیں پر تھی اور شاید میری منتظر بھی تھی ......وقار کو فون کیا کہ کب تک آ رہے ہو......اس نے جواب دیا کہ آ ج رات میں نکلوں گا ......میں نے سعدیہ کا نمبر اور ایڈریس دیا کہ یہاں سے میری کار لے لو اورصبح آرام سے آ جاؤ ۔۔۔ وقار نے ہامی بھر لی۔۔اور میرا پوچھ کر فون بند کر دیا ۔۔۔۔خالہ چائے لے کر پہنچ چکی تھیں ۔۔اور میرے برابر میں ہی بیٹھیں تھیں ۔۔۔۔جیسے اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے کا ارادہ ہو ۔۔۔میں نے گہری نظر سے ان کا جائزہ لیا تو وہ بھی کچھ بے چین ہی تھیں .......ان کی آنکھوں سے محبت جھلک رہی تھی ۔۔اک لگاوٹ سی تھی ۔۔۔۔اک انداز دلبرانہ تھا ۔۔۔ میرا پوچھا کہ دو دن کیسے گذارے .......میں نے مختصرا بتایا اور وقار کا بھی کہ وہ شہر میں ایک اچھا گھر خرید رہا ہے ۔۔۔۔خالہ تھوڑی اور قریب ہوئی تھیں ۔۔۔ مجھے ان کے جسم کی گرمی ٹکرائی تھی ۔۔۔۔جس کے ساتھ ان کے جسم کی مہک بھی شامل تھی ۔۔۔میں نے جلدی سے چائے کا کپ اٹھا لیا ۔۔۔اور چائے کے سپ بھرنے لگا .......۔۔مجھے عجیب سے گھبراہٹ شرو ع ہو گئی تھی ۔۔۔
اٌس رات کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔ثناء کی طرف سے ادھوری خواہش سی تھی ۔۔۔۔مگر اب ہوش میں ہی تھا ۔۔۔ مگر چائے خالہ کو کتنی دیر تک روک پاتی۔۔۔۔اِدھر چائے ختم اورمیں نے کپ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔ادھر خالہ کچھ اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔ان کے جسم کی مہک مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک نظر ڈالی ۔۔ان کا بے چین جسم اور دھڑکن ان کے سینے کو حرکت دے رہی تھی .......۔سینے کے بڑے سے ابھار تھوڑا بھی ہلتے تو مجھے گھبراہٹ کا ایک تیز جھٹکا سا لگتا .......میں نے ان کے سینے سے نظریں چْراتے ہوئے سامنے دیکھا تو خالہ کا گورا سفید چہرہ ایک پیاسی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا .......۔ان کی براؤن آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی ۔۔۔۔اب شاید میری بھی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔خالہ میں چلتا ہوں ۔۔۔کچھ دنوں میں چکر لگاتا ہوں .......خالہ بھی میری ہچکچاہٹ سمجھ گئی تھیں ۔۔۔کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے مگر چکر لگا لینا ۔۔۔۔بھول مت جانا ۔۔۔ میں نے جلدی سے سر ہلا دیا .......اٹھ کر باہر نکلا ۔تو رخصت ہوتے ہوئے خالہ نے ایک مرتبہ پھرمیرا ہاتھ پکڑ کر دبایا ۔۔۔
میں باہر آیا اوراپنے گھر کی طرف چل پڑا .......دروازے سے داخل ہوا تو ہلچل مچ چکی تھی ۔۔۔نیا نویلا دلہا دوسری رات کے بعد دو دن بعد گھر واپس پہنچا تھا .......امی سے ملا ۔۔اس کے بعد بہنیں سامنے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھیں .......۔بھائی ہمارا خیال نہیں تو بھابھی کا ہی خیال کر لو ، ، دیکھو کیسی اداس ہو گئیں ہیں ۔۔۔ثناء پیچھے کھڑی شرما رہی ہے ۔۔۔۔چاچی اور بھابھی بھی نیچے ہی تھیں ۔۔۔سب میری دْرگت بنتے دیکھ رہی تھیں ....... اور مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔میں درمیان میں مجرم بنا کھڑا ہوا تھا ۔۔آخر چاچی کو خیال آیا ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر لانے لگیں .......کہ آرام کرو ، تھکے ہوئے لگ رہے ہو .......اور پھر مڑتے ہوئے ثناء سے کہا کہ کچھ کھانے کو بھی لے آؤ .......میں چاچی کے ہاتھوں کھینچتا ہواہوا اوپر پہنچا تھا .......اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاچی مجھے میں سمائی تھیں ....... میں نے بھی جواب میں انہیں بانہوں میں بھرا تھا ۔۔۔۔چاچی بھی اداس لگ رہی تھیں .......۔ ۔ ہمارے درمیان ایک انجان سا تعلق تھا جو مضبوط ہوتا جا رہا تھا .......۔وہ میری ہر بات کہے بغیر جان لیتی تھیں ۔۔۔۔اور چہرہ دیکھ کر دل کا حال پڑھ لیتی تھیں .......کچھ دیر ایسے ہی وہ میرے ساتھ لپٹی رہیں ۔۔۔اور پھر پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی .......میں نے جلدی سے چہرہ صاف کیا اور بیڈ پر بیٹھنے لگا .......سیڑھیوں پر قدموں کی آواز آنے لگیں تھی۔۔۔چاچی بھی سائیڈ پر ہو کر بیٹھیں اور ہم نارمل بات کرنے لگے .......۔اتنے میں ثناء کمرے کا دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر رونق آ گئی تھی ۔۔۔یا پھرنیچے شاید مناہل اور ربیعہ کی باتوں میں آ کر مصنوعی اداسی خود پر طاری کرلی تھی۔۔۔۔ثناء جوس لے کر آئی تھی۔۔۔۔چاچی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر دیکھا اور کھانے کا پوچھ کر باہر جانے لگیں .......۔ثناء سے جوس لیتے ہوئے میں نے کہا ۔۔تم میری بغیر اداس ہو گئیں تھیں کیا ۔۔۔ ؟
اور نہیں ہوتی کیا ۔۔ ؟ ثناء کے جواب نے میرے دل میں گھنٹی بجا دی تھی ۔۔۔۔اچھا کتنی یاد آئی تھی ۔بتانا ..... زرا ۔۔۔میں بیڈ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا .......وہ بھی سمجھدار تھی ، کہنےلگی پہلے یہ جوس پی لیں ، پھر بتاتی ہوں ۔۔۔۔میں جوس لئے بیڈ پر بیٹھااور وہ غڑاپ سے باہر نکل گئی .......میں بے اختیار ہنسنے لگا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نیچے سے کھانے کی آواز آئی اور میں نیچے چلا آیا تھا ۔۔۔۔کھانا کھا کر نیچے ہی بیٹھے رہے تھے ۔۔۔چاچا بھی ساتھ تھے ۔۔ہم نے چائے ساتھ پی ۔۔۔۔بھیا اور ابا جان شہر میں ہی تھے ۔۔۔کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔چاچا مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کھیتوں کی طرف چکر لگاؤ گے ۔۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ شاید کل آؤں گا ۔۔اور پھر اوپر اوپر کی طرف چل دیا .......
دو دن کی ذہنی اورجسمانی تھکان نے مجھے تھکا دیا تھا ۔۔۔۔بستر پر لیٹے میں جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔رات کو 2 بجے میری آنکھ کھلی تھی ۔۔میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی ۔۔۔کمرے کی ہلکی مدھم لائٹ میں بستر پرتھوڑی سی آڑھی ترچھی ثناء لیٹی ہوئی تھی .......سیاہ بالوں میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔۔۔بند آنکھوں میں چہرے پر معصومیت بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ بازو پھیلائے ہوئے سیدھ لیٹی وہ کسی دلکش پینٹنگ جیسی لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے سینے کا مدھم زیروبم اس کی گہری نیند کو ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔میں نے بے اختیار اس کے چہرے کو چوما تھا ۔۔۔ماتھے کو چومتے ہوئے میں واپس اپنی جگہ پر آیا تھا ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کی نیند خراب کرتا ۔۔۔کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کردیں ۔اور سونے لگا .......اچانک ایک ہاتھ میرے ہاتھوں سے ٹکرا یا تھا ۔۔۔میں نے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ثناء میرے لمس سے جاگ چکی تھی ۔۔۔مگر اب بھی آنکھیں جھکی جھکی سی تھی ۔۔۔میں نے اس کا بازو پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور خود سے لپٹا لیا .......۔نرم و ملائم نازک سی ثناء اْسی نزاکت کے ساتھ مجھ سے آن لگی تھی ۔۔۔۔میں نے
اس کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھا ۔۔۔شرم اور لاج نے اس کے چہرے کو مزید دہکا دیا تھا .......جھکی ہوئی پلکیں لرز رہی تھیں ۔۔میں نے بے اختیاراس کی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے .......پھر اس کی پیشانی پر ہونٹ ثبت کیے ۔۔۔اورپھر بھر ے بھرے گالوں کو چومنے لگا .......اس کا پورا بدن مجھے سے لپٹا ہوا تھا ۔۔۔چاہت اور لذت کی ایک لہر ہم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔۔کشش کی ایک قوت ہمیں گھیرے ہوئے تھی ۔۔۔۔میں نے اسے اور شدت سے خود سے لپٹا دیا ۔۔۔ساتھ ہی پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ جاری تھی .......جو ثناء کے چہرے کو گیلا کئے جا رہی تھی .......وہ بھی جھینپ سی گئی تھی ۔۔۔مگر میری شدت اسی تیزی سے جاری تھی .......میں پورے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لپکا تھا .......پتلے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کےدرمیان دبا کر کھینچنے لگا تھا .......جس سے ہونٹ مزید سرخ ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔میں اسے خود میں سمائے ہوئے تھا اور ہاتھ پیچھے اس کی کمر پر گردش کر رہے تھے ۔۔۔۔اور پیچھے سے اس کے نرم و نازک چوتڑ پر ہاتھ رکھے ۔وہ تھوڑی سی آگے کو ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ہلکےہاتھوں سے اس کےچوتڑ کو دبانا شروع کر دیا تھا .......اور ساتھ ہی اپنی طرف زور بھی دیتا تھا ۔۔۔۔میرا ہتھیار بھی انگڑائی لیتا اٹھ رہا تھا .......۔جو آگے سے ثناء کو ٹچ ہو کر اور تیزی دکھاتا .......اس کے نرم و نازک سے ممے میرے سینے سے کچھ ہی دور تھے ، جب و ہ آگے کو ہوتی یا میں بڑھتا وہ بڑے نرم انداز میں مجھے ٹچ ہو تے تھے ۔۔۔۔جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں ......اور میں نے اس کی موجودگی محسوس کر لی تھی .......۔اس کے ممے درمیانے سائز کے گول مٹول سے تھے ۔۔۔مگر اس فٹنگ والی قمیض میں وہ بھی قیامت ڈھا رہے تھے......میں نے اسے تھوڑا سے بٹھایا اور ہاتھ اوپر کرتے ہوئے قمیض اتارنے لگا......وہ مزید خود میں سمٹنے لگی تھی .......قمیض اترتے ہی بے حد سفید نازک سا چمکتا ہوا جسم میرے سامنے تھا ۔۔۔۔سرخ رنگ کی برا میں اس کے ممے چھپے ہوئے تھے ......صرف اوپر ی حصہ اور گہری سی کلیویج نظر آتی تھی .......میں نے اس کی برا کھولتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹا دیا تھا ۔گورے چٹے ممے اٹھ کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔میرے نظریں اس کے چہرے پر تھیں اور ہاتھ اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیے ۔۔۔ جو سفید میدے کے پیڑے جیسے لگ رہے تھے ۔۔۔۔پنک گلابی نپلز اپنی نزاکت کے ساتھ ہلکے سے لرز رہے تھے ۔۔میں بے اختیار اسے پکڑ کرمنہ میں لے جانے لگا ۔۔۔۔نپلز کواپنے زبان سے رگڑتا ہوا ۔۔۔ممے کا کچھ حصہ میرے منہ میں جا چکا تھا ۔۔۔میں بےصبری سے ممے منہ میں لئے ہوئے چوس رہا تھا ۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے میری پیاس مٹنے کے انتظار میں تھی ۔۔نپلز بھی میرے تھوک میں گیلے ہو کر چمکنے لگے تھے ...... میں انصاف کے ساتھ دونوں مموں کو برابر ٹائم دے رہا تھا ......اور کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر ثناء کو دیکھتا جو مجھے ہی دیکھی جا رہی تھی......اس کی سیاہ آنکھوں میں محبت کا سمندر بڑھتا جا رہا تھا .......۔۔اور چمک اس سے بھی زیادہ تھی .......
ایک ہاتھ سے میں اس کے مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی شلوار کے اوپر سے اس کی نازک رانوں کو دبا رہا تھا ۔۔۔میراہاتھ نرم ہی تھا ۔۔۔ثناء کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اس کا پورا سینہ میرے تھوک سے گیلا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔ممے پہلے سے سختی میں تھے ۔۔اور نپلز بھی ہوشیاری کا بھرپورمظاہر ہ کر رہے تھے ۔۔۔۔میرے نچلے حصے میں بھی میٹھا سا درد ہوئے جا رہاتھا ۔۔ہتھیار اپنی سختی پر آنا چاہ رہا تھا ۔۔مگر پینٹ اسے اجازت نہیں دے رہی تھی .......۔۔میں ثناء کی سائیڈ سے کچھ درمیان کی طر ف آیا اور اس کی پیٹ کو چومتے ہوئے مزید نیچے بڑھا ۔۔۔نازک کمر کےاوپر ایک سڈول سا پیٹ تھا جس کے درمیاں ناف کا ایک چھوٹا سے گڑھا تھا ۔۔۔۔میں اس کے اندر زبان گھمانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر پیروں کے بل کھڑی کر دی ۔۔۔وہ لیٹی ہوئی تھی مگر ٹانگیں اوپر کو مڑی ہوئی اور پیر بیڈ پر تھے ۔۔۔اور ان سب کے درمیان نیچے کو سفر کرتا ہو ا میرا چہرہ تھا .......۔میرے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔۔میں ناف سے نیچے آیا اور شلوار کو پکڑ کر نیچے کھسکانے لگا .......ساتھ ہی میری زبان بھی سفر کرتی ہوئی نیچے آئی ۔۔۔جتنی شلوار نیچے ہو رہی تھی ۔۔اتنے ہی فاصلے سے زبان بھی نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔ثناء بے چینی سے ہلنے لگے تھی ۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا اور شلوار کو نیچے تک کھینچی اور ایک ٹانگ اٹھاکر ایک پائینچہ نکالا اور اسی طرح دوسری سائیڈ سے بھی ۔۔۔اس کی نازک پنڈلیاں اور مناسب رانیں دمک رہی تھی ۔۔۔بغیر بالوں کے چاندی جیسی رنگت والی۔۔۔پینٹی بھی اتار کر ۔۔۔میں ایک ہاتھ اس کی پنڈلیوں پر پھیرتا ہوا اوپر آیا تھا اور وہی پوزیشن سمبھال چکا تھا۔۔۔اس کی نازک سیپی جیسی چوت میرے سامنے تھی .......میں اپنے دونوں ہاتھ کو اس کی رانوں اور چوتڑ پرباری باری لے جا کر دبا رہا تھا ۔۔۔اور ہونٹ اس کی چوت پر رکھ دئے ۔۔۔ثناء نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا ۔۔۔۔اس نے بے اختیار دونوں ٹانگیں سیدھی کرنے کی کوشش کی تھی .......میں کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے اس کی چوت کو چومنے کے بعد پھر اوپر ہوا تھا ۔۔اور اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔اٌدھر ثناء میری زبان چوسنا شروع کر رہی تھی......اِدھر میری ایک انگلی اس کی چوت میں داخل ہوئی تھی ۔۔ثناء نے سریلی آواز میں ایک سکاری بھری اور پھر میری زبان کو چوسنے لگی .......لذت کی ایک لہر اس کے نرم ہونٹوں سے نکل کر میرے بدن میں سرائیت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے بھی اپنی انگلی کو حرکت دینے شروع کر دی تھی ۔۔۔۔اس کی چوت حد سے زیادہ تنگ تھی ۔۔انگلی بھی بڑی دقت کے ساتھ جارہی تھی ۔۔جس کے ساتھ ثناء کی سسکیاں بھی میرے منہ میں پہنچتیں ۔۔۔۔میں نہایت نرمی کے ساتھ اپنی انگلی کو آگے پیچھے کررہا تھا .......ساتھ ہی انگوٹھے کو اس کی چوت کے اوپر مسلنےلگا۔۔۔ثناء کی ٹانگوں میں بھی حرکت بڑھ رہی تھی ۔۔۔وہ ہلکے سے کمر کو بھی گردش کرتی ۔۔۔میری انگلی اندر ایڈ جسٹ ہونے لگی تو دوسری انگلی بھی میں نے ملا دی ۔۔۔۔ثناء کی ایک تیز آواز نکلی تھی ۔۔اوئی ۔۔۔سس......۔اس کا پیٹ ایک دم نیچے گیا اور پھر باہر آیا ۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی آہستگی سے آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔اور اوپر اب میں ثناء کی زبان کو چوس رہا تھا .......اس کی آنکھیں قدرے لال سی ہونے لگیں تھی .......میری دونوں انگلیاں اپنا کام بخوبی کر رہی تھیں.......ثناء کی ٹانگوں میں بھی لرزش سی تھی .......اس نے منہ سے سسکیاں اور بڑھا دی تھی .......مناسب انداز کی یہ گرم گرم سسکیاں میرے چہرے پر ہی پڑ رہی تھی .......جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی تھیں .......کچھ دیر اور گذری تھی کہ ثناء کی ٹانگوں نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا .......اور گرم پانی میرے انگلیوں کو چھوتا ہوا گزرا تھا .......میں کچھ دیر اورہاتھ کو حرکت دے کر روک چکا تھا ۔۔۔۔
میں اوپر ہوتے ہوئے ثناء کے برابر میں آیا تھا ۔۔۔۔اور اسے خود سے چپکا چکا تھا ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب نیچے کو بڑھا تھا ۔۔اپنی پینٹ کا بٹن کھولتے ہوئے میں نے پینٹ نیچے کھسکائی ۔۔۔اوردونوں ہاتھوں سے اسے نیچے دھکیلنے لگا .......۔۔آگے سے اچھلتا ہوا ہتھیار باہر آیا تھا ۔۔۔اور ثناء کی رانوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔۔ثناء نے بے اختیار میری طرف دیکھا تھا .......گرم گرم ہتھیار اسے بتا چکا تھا کہ اگلا مرحلہ کیا ہے .......ہتھیار باہر آکر پہلے سے زیادہ تننے لگا .......۔میں نے سائیڈ ٹیبل سے ویزلین اٹھاتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسے ہتھیار پر ملنے لگا .......ثناء مجھے جھکی جھکی نظروں سے دیکھ رہی تھی.......میں نے ویزلین سائیڈ پر رکھی.......اور اس کی سائیڈ پر ایسے کروٹ لے کر لیٹا اور کہ آدھا اس کے اوپر اور آدھا بیڈ پر تھا ۔۔۔ہتھیار اپنے گیلے پن کے ساتھ اسے چھو رہا تھا .......۔میں نے اوپر ثناء کے چہرے کی طرف نظر ڈالی ۔۔۔تو وہ بھی بے چین سی نظر آ رہی تھی .......میں اسی طرح ٹوپے کو سمبھال کر اس کی چوت کے اوپر رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹے ہونے کی وجہ سے ہتھیار کافی فاصلے پر ہی تھا ۔بس ٹوپا اوردو انچ ہی اس کے اند ر داخل ہو پاتا ۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومنے لگا ۔۔اور نیچے سے تھوڑا اور کھسک کر آگے ہوا تھا .......اورٹوپے کو چوت کے اوپر رکھ کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ثناء نے تھوڑی سی ٹانگیں ہلائیں تھیں ، پھیلائیں تھیں ۔۔۔اور دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دبانے لگی تھی .......میں نے دباؤ برقرار رکھا تھا ۔۔۔۔اوررگڑ کھاتا ہوا ٹوپا اندر پہنچا تھا ۔۔۔ثناء کی ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔۔اس نے ٹانگیں نیچے کو دبا کر اوپر اٹھنا چاہا تھا ۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی کمر سے نیچے پھرتا ہوا چوتڑ تک جاتا اور پھر واپس کمر تک آتا ۔۔۔۔میں نرم ہاتھوں سے مساج کر رہاتھا ۔۔ٹوپا وہیں رکا ہوا تھا .......ثناء کی چیخ کے بعد اب اوئی ۔۔۔اف۔۔۔ کی سریلی سی آواز نکل رہی تھی ۔۔۔میں نے ٹوپے کو ایسے ہی کچھ دیر رکھا اور ہاتھ اوپر لے جا کر اس کے ممے پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔اب کی بار میری پکڑ میں دباؤ زیادہ تھا ۔۔۔اور اس کے نپلز کو کھینچتا ہوا۔۔۔چھوڑتا تھا .......ثناء کی درد بھری سسکاری اب بھی جاری تھی ۔اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔وہ درد برداشت کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔میری کمر کا حصہ ساکت ہی تھا ۔۔۔اور اوپر سے چھیڑ خانی جاری تھی ۔۔۔اس کے ممے کھینچ کھینچ کر لال ہونے لگے تھے ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے نیچے سے کمر کو تھوڑا آگے بڑھایا تھا ۔۔۔۔ثناء ایک مرتبہ پھر پیچھے کو ہتنے کے لئےہلی تھی ۔۔۔اور منہ سے پھر سریلی چیخ نکالی تھی ۔۔۔اس کے چہرہ کی سرخی برداشت کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں مستقل مجھے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔میں رک رک کر اسے بہلا رہا تھا ۔۔۔وہ کچھ تھمی تھی ۔۔جب میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھا یا ۔۔۔اس کی پھرتیز آواز نکلی تھی ۔۔۔میں خاموشی سے اس کے ہونٹوں کو چومتا رہا .......۔اس کے مموں کو تیزی سے مسلتے ہوئے مجھے 3 منٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے تھوڑا اور آگے آیا تھا ۔۔اور ہتھیار ثناء کی چوت میں پھنستا ہوا آگے کو بڑھا تھا .......۔۔ثناء نے پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا ۔۔راجہ بس کی درد بھری آواز آئی تھی ۔۔۔۔ثناء کی آواز میں کچھ تھا ۔۔۔۔۔میں نے بھی وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد آہستگی سے باہر لانے لگا ۔۔۔۔باہر بھی اتنی ہی مشکل سے گھسٹتا ہو ا آتا تھا ۔۔۔۔۔میں ٹوپے تک باہر لا کر دوبارہ سے گھسانے لگا ۔۔۔۔۔وہ پھر سے ۔۔۔سس ۔۔اوئی کرتی ہوئی ہلی تھی ۔۔۔۔میں پھر اتنا ہی اندرڈال کر واپس نکالنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ویزلین سے میرا ہتھیار بھرا ہوا تھا ۔۔اور یہ ویزلین اس کی چوت کے اوپر اورنیچے حصے پر بھی لگ چکی تھی ۔۔۔میں دوبارہ سے ہتھیار کو لبریکیٹ کیا ۔۔۔۔۔۔اور پوزیشن تبدیل کرنے لگا ۔۔۔۔۔ثناء کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسے سینے پر لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب بھی بے چارگی اور درد کے آثار تھے ۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار اس کے چہرے پر جھکا اور چومنے لگا ۔
اس کے چہرے کو چومتے ہوئے ہونٹوں پر آیا اور خود کے ہونٹوں سے پکڑتا ہوا کھینچنے لگا ۔۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی چومتے ہوئے نیچے سے ہتھیار کو چوت پر ٹکانے لگا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار پہلے سے زیادہ لبیریکیٹ ہوا وا تھا ۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ٹوپ اوپر رکھتے ہوئے اندر زور دیا ۔۔۔۔ثناء تھوڑی سی ہلی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینے پر جکڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔خود سے لپٹانے لگی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سااور ہتھیار ڈآل کر ہلانے لگا ۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں اور سینہ مستقل ہل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے سر کو اٹھاتے ہوئے اس کو دیکھا اور ہونٹ چومنے لگا تھا ۔۔۔تین سے چار منٹ میں ثناء کی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اس کی سسکیاں تیز ہونے لگی ۔۔۔۔۔کراہیں بلند ہونے لگیں تھیں۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی اسپیڈ کم کردی تھی ۔۔۔۔ثناء نے مجھے تشکر سے دیکھا ۔۔۔۔اور مجھے چومنے لگی ۔۔۔۔مجھے پانچ منٹ ایسے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں ویسے ہی ہلتا ہوا تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔ثناء کی ٹانگیں اس کے سینے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اسی حال میں کروٹ دے دی ۔۔۔وہ مڑی ٹانگوں کے ساتھ کروٹ لے چکی تھی ۔۔۔پیچھے سے اس کی گوری گانڈ مڑی ہوئی مزید خوبصور ت نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اس کےپیچھے بیٹھا دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں کچھ ہو گئیں ۔۔۔تو میں نے اسپیڈ بڑھانے کا سوچا ۔۔۔۔۔۔اور اپنی اسپیڈ کو درمیانہ کر دیا ۔۔۔۔ثناء پھر سے کراہی تھی ۔۔۔۔اور اوئی ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔افف۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔کی سریلی آواز میں پکارنے لگی ۔۔۔۔۔۔اب کی بار اس کی آواز میں درد بہت ہی کم تھا ۔۔اسلئے میں بھی مطمئن تھا ۔۔اور اپنی اسپیڈ سے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ثناء کے نازک سے گول مٹول سے ممے تھام لئے تھے ۔۔اور اسے پکڑتے ہوئے اسپیڈ تھوڑی اور تیز کردی ۔۔۔ثناء کی سسکیاں بھی تیز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔اوئی ۔۔۔کے ساتھ وہ تھوڑی سی ٹانگ اٹھا کر فاصلہ پیدا کرتی اور ٹانگ واپس رکھ دیتی ۔۔۔۔۔۔ثناء کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے فارغ ہونے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ پیچھے بڑھا کر اپنی چوتڑ پر جمے میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کرتے ہوئے ایک دو جھٹکے بھی دے دیئے ۔۔۔۔ثناء کراہی اور تیز سسکی کے ساتھ پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہتھیار کو ہلاتا رہا ۔۔۔اور پھر اس کے برابر میں لیٹ گیا ۔۔۔۔ثناء کو پتا تھا کہ میں اب تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔مگر اب اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔وہ کچھ دیر سانس برابر کرکے اٹھی اورمیرے ہتھیار کو تھامتی ہوئی اپنے ہاتھ ہلانے لگی ۔۔۔ویزلین کے ساتھ اب اسکی چوت کا پانی بھی اس پر لگا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ کافی دیر تک ہاتھ ہلاتی رہی ۔۔۔۔پھر بے بسی سے مجھے دیکھتی ۔۔۔۔۔آخر کافی دیر بعد میرے ہتھیار کو رحم آ گیا اور اس نے بارش برسانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار سیدھا ہی تھا ۔۔۔۔برابر میں ثناء بیٹھی تھی ۔۔۔۔پہلی چھینٹ کافی اوپر تک اچھل کر نیچے گری ۔۔۔کچھ بیڈ پر ۔۔۔کچھ مجھ پر اور کچھ ثناء پر ۔۔۔اور اس کے بعد کئی سیکنڈ تک ایسے ہی بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ثناء نے ٹشو سے صاف کیا اور میرے برابر میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ویسے ہی روشن تھی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو ثناء جاگی ہوئی تھی اور میرے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔آنکھ کھولتے ہی نظر اس کے مسکراہٹ بھرے چہرے پر پڑی تھی ۔۔دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔جسے وہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔کچھ قریب آتے ہوئے بولی ، یہیں سے کہیں ! کیا بات ہے .......۔میں نے کہا کہ پاس تو آؤ کان میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔وہ وہیں کھڑی مجھے اٹھنے کا اشارہ کرنے لگی تھی ۔۔۔میں جلد ی سےاٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔اس کے گالوں پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ثناء کا چہرہ شرماہٹ میں لال ہو گیا تھا ۔۔وہ خود کو چھڑوانے لگی اور کہا کہ جلدی سے تیار ہو جائیں ، سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں ایک اور بوسہ دیتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
فریش ہو کر نیچے پہنچا تو سب ڈآئننگ ٹیبل پر بیٹھے انتظار میں ہی تھے .......۔ناشتہ شروع ہو گیا تھا ۔۔ہلکی پھلکی نونک جھونک کے ساتھ ناشتہ ختم کیا ۔۔۔چاچابھی وہیں ناشتے پر تھے ۔۔اور حسب معمول انہوں نے ناشتے کے بعد کھیتوں کی طرف جانا تھا ۔۔۔میں چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آ گیا ۔۔۔چائے کے دوران ہی فون کی گھنٹی بجی تھی ۔۔۔وقار کا فون تھا ، وہ کار لے کہ پہنچ چکا تھا ۔۔۔میں نےاسے اسکول جاتے ہوئے گھر سے مجھے لینے کا کہا ۔۔ثناء سے پوچھا کہ یہیں رہنا ہے یاخالہ کے گھر جاؤ گی ۔۔۔اس نے کہا کہ ابھی مجھے وہیں چھوڑدیں ۔۔شام میں واپسی پر لے لیجئے گا ۔۔میں اسے تیار ہونے کا کہ کر اوپر آگیا ۔اور خود بھی تیار ہونے لگا .......۔آدھے گھنٹے میں وقار نیچے آ چکا تھا .......میں اور ثناء نیچے امی کو بتا کر کار میں بیٹھے اور خالہ کی طرف جانے لگے .......۔ثناء کو ڈراپ کر کے میں وقار کے ساتھ ہی اسکول جا پہنچا ۔۔۔۔وہاں اس نے مجھے شہر کی صورت حال بتائی ۔۔۔پیمنٹ کر دی تھی ۔اور اب کچھ دنوں میں اس کے نام پر جگہ ہونی تھی ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا کہ میرے ذہن میں زارا کا خیال آیا ۔سعدیہ نے بتایا تھا کہ وہ یہیں ہاسٹل میں ہے اور سعدیہ کی جگہ پر ہے .......میں نےزارا کو ٹیکسٹ کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا ۔۔وقار کو میں نے زارا کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر میں زارا کا میسج آ گیا تھا ۔۔وہ فارغ ہی تھی ۔۔۔میں نے اسے تیار ہونے کا کہا ۔۔۔زارا نے مجھ سے آدھا گھنٹہ مانگا تھا .......۔میں کچھ دیر اور انتظار کرنے لگا ۔۔۔وقار بھی کاروبار کی بات ختم کر کے اپنے مزاحیہ موڈ میں تھا ۔۔۔چاچا کے بارے میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔میں نے کہا کہ فوزیہ کی یاد آ رہی ہے جو آج تمہیں چاچا کی یاد آ ئی ہے ۔۔۔۔وہ ہنسنے لگا کہ ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے .......میں نے کہا کہ اچھا خالہ سے بات کر کے تمہارا مستقل بندوبست کرنا پڑے گا ۔۔۔وہ کچھ سنجیدہ ہوا اور کہنے لگا کہ بس یار یہ گھر کا کام مکمل ہو جائے تو پھر شادی کروں گا ۔۔امی بھی پیچھے پڑی ہوئی ہے .......اتنے میں زارا کا میسج آ گیا وہ تیار تھی ۔۔میں نے اسکول کے قریب ایک جگہ کا ایڈریس اور اپنی کار کا نمبر بتا دیا .......اور وقار سے چابی لے کر باہر نکل پڑا ۔۔۔گاڑی میں بیٹھ کر مطلوبہ جگہ پہنچا ۔۔۔زارا ابھی تک نہیں پہنچی تھی .......میں نے سعدیہ کو فون ملایا ، وہ ابھی سو کر اٹھی تھی ۔۔۔میں نے اسے بتایا کہ زارا سے بات ہوئی ہے وہ ملنے آ رہی ہے ۔۔۔کس ٹائپ کی ہے ۔۔کچھ بتاؤ .......سعدیہ نے جواب دیا کہ راجہ میں تمہارا تعارف کرواچکی ہوں ۔۔۔۔ہم بہت پرانے دوست ہیں ۔اورا یکدوسرے کے رازدار بھی ہیں .......وہ آئی تو مجھ سے ملنے تھی مگر تمہیں پتا ہے کہ مجھے اچانک آنا پڑا ہے ۔۔اس لئے ہو سکے تو اسے کچھ ٹائم دے دو ۔۔۔۔میں نے کچھ اور پوچھ کرکال کاٹ دی ۔۔۔۔اتنے میں ساتھ والی سیٹ کے شیشے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھلاتھا ۔۔ساتھ ایک اک خوش بدن ،خوش مہک لہراتی ہوئی اندر بیٹھنے لگی .......۔۔۔سعدیہ کے بتائے ہوئے فگر سے کہیں زیادہ حسین تھی ۔۔جسم کچھ فربہ تھا ۔۔مگر یہ فربہی اسے اور زیادہ خوبصور ت بنا رہی تھی ۔۔میں بلا تکلف اسے تکتا چلا گیا ۔۔۔سرخ شرٹ کے ساتھ بلیک ٹراؤز پہنے وہ بلا کی حسین تھی ۔۔۔چہرے پر ایک نازک سی گلاسز لگی ہوئی تھی ۔۔۔بھرے بھرے گالوں کے ساتھ سیاہ کالی آنکھیں ۔۔تھوڑی سی دائروی ناک ۔۔اور ٹھوڑی میں پڑتا ہو گڑھا.......۔وہ مجھے خود کو دیکھتے ہوئے مسکرائی ۔۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہےہیں .......میں ہڑبڑایا تھا ۔۔۔۔اور کہا ۔۔۔
کچھ نہیں بس ۔۔۔سعدیہ نے آپ کی تعریف کچھ کم کی تھی ۔۔۔آپ اس سے زیادہ ہی ہیں ۔۔۔۔اس کی ہنسی بھی اْسی کی طرح خوبصورت تھی ۔۔۔کار میں ایک جلترنگ سی گونج اٹھی تھی .......میں دوبارہ سے اسے دیکھتا گیا .......پھر پوچھا کہ کیسا لگاآپ کو ہمارا گاؤں ۔۔
ابھی تک دیکھا ہی کہاں ہے۔۔جب سے آئی ہوں بس اسکول ، ہاسٹل اور قریبی ایک پارک میں دوست کے ساتھ گئی تھی ۔۔۔آپ کا انتظار تھا ۔۔۔۔میں نے اس سے تاریخی عمارات کا پوچھا ۔۔اور اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئے کار اس طرف گھما لی ۔زارا یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔اور آرٹ کی طرف رجحان تھا ۔۔۔یہاں سمر ویکیشن میں سعدیہ کے پاس آئی تھی .......۔زارا مجھے کافی ذہیں لگی تھی ۔۔ہر بات کا سلجھا ہوا جواب دیتی تھی ۔۔۔اور موقع پر اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں ہنسنا نہیں بھولتی تھی ۔۔کل ملا کر وہ ایک پڑھاکو اسٹوڈنٹ تھی .......اس نے مجھ سے میرے مشاغل پوچھے جو میں ساتھ ساتھ بتاتا گیا ۔۔۔۔جلد ہی میں اس تاریخی عمارت کی پارکنگ میں گاڑی لگا چکا تھا ۔۔۔ہم باہر نکلے اور پارکنگ ٹکٹ لیتے ہوئے اندر داخل ہوئے ۔۔۔اس عمارت کی کلاسیکل تعمیر کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک گھنٹے سے زائد ہوچلا تھا۔۔۔۔زارا اس عمارت کے بار ے میں مجھ سے زیادہ جانتی تھی ۔۔۔بجائے یہ کہ میں اسے بتاتا ۔۔وہ مجھے ہرحصے کا نام اور خصوصیت بتا رہی تھی ۔۔۔اس کے بتانے کا انداز بھی اْسی کی طرح ٹہرا ٹہرا سا تھا ۔۔دھیمے لہجے میں اس کی کھنکتی ہوئی آواز ایک سحر سے پھونکتی جا رہی تھی ۔۔۔۔جس میں مزید تاثیر اس کی کلائی میں چاندی جیسی چوڑی بھرتی تھی ۔۔۔اس کی آواز کے ساتھ ،اس کی اشارہ کرتی ہوئی کلائی، اور ساتھ ہی چوڑی کی کھنک .......کافی دیر تک گھومنے کے بعد ہم تھکنے لگے تھے ۔۔۔۔باہر نکل کر اور میں نے ایک قریبی ریسٹورنٹ کی طرف گاڑی گھما دی ۔۔۔فیملی روم کی طرف بڑھتے ہوئے میں کسی معمول کی طرح ہی اس کے پیچھے تھا ۔۔۔۔ہم نے سیٹ پر بیٹھ کر آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔ہم دونوں آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے .......جبھی اس کی دلکش آواز مجھ سے ٹکرائی تھی .......۔سعدیہ نے آپ کی کافی تعریف کی تھی .......۔۔میں نے جلدی سے اس کے چہرے پر نظرڈالی ، پتا نہیں تھا کہ کس سلسلے میں تعریف تھی ۔۔۔۔میں پھر سے گڑبڑا سا گیا تھا ....... کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔وہ پھر بولی تھی ۔۔۔اور یہ آپ مجھے دیکھ کر گم سم کیوں ہو جاتے ہیں .......میں جھینپ گیا اور کہا کہ بس ایسے ہی .......۔کچھ دیر بعد ویٹر آیا تھا ۔۔۔ہم نے ریفریشمنٹ کی تھی اور پھر کار کی طرف بڑھے .......۔۔
سعدیہ نے بتایا تھا کہ آپ کی کافی زمینیں بھی ہیں ۔۔۔کیا ہم وہاں جا سکتے ہیں ۔۔۔۔زارا نے پوچھا .......۔میں نے کہا ٹھیک ہے جانے کا مسئلہ نہیں اگر آپ کو شوق ہے تو چلتے ہیں .......۔
میں نے کار کا رخ اپنی زمینوں کی طرف کر دیا اور۔۔۔دس منٹ میں ہم زمینوں پر پہنچ گئے تھے .......وہاں کام کرنے والوں کےلئے زارا ایک شہری لڑکی تھی ۔۔۔جلد ہی وہاں کام کرنے والوں کا رش لگ چکا تھا جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھیں ۔۔۔چاچا ان کو کام پر واپس بھیجتے ہوئے آگے آئے تھے ۔۔میں نےزارا کا تعار ف کروایا .......چاچا نے جلدی سے ایک عورت کوکھانے پینے کا بندوبست کرنے کا کہا ۔۔۔کچھ دیر تک زارا اور میں کھیتوں میں گھومتے رہے۔۔۔فصلیں تیار تھیں اور چاروں طرف ہریالی تھی ۔۔زارا بہت خوش نظر آرہی تھی ۔۔یہ سب اس نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔۔۔کچھ دیر میں ہم پورے کھیت دیکھ چکے تھے ۔اتنے میں چاچا آئے۔۔۔۔اور ہمیں کہا کہ آؤ اندر بیٹھو ۔۔۔۔زارا چاروں طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔۔کچھ دیر میں.......ہم اندر بنی ہوئی بیٹھک میں پہنچے تھے ۔۔۔چاچا نے کچھ دیر تک زارا سے بات کی اور پھرکہا کہ تم لوگ آرام کر و ۔۔میں کچھ کھانے کو بھجواتا ہوں .......چاچا باہر چلے گئے تو میں نے زارا سے آرام سے بیٹھنے کا کہا اور خود بھی نیم دراز ہو گیا ۔۔۔۔یہ وہی کمرے تھا جہاں میں نے اور وقار نے چاچا کو دیکھا تھا ۔۔مگر اب یہاں کا رنگ و روپ بدل چکا تھا ۔۔یہ کسی شہر کے ڈرائنگ روم جیسا لگ رہا تھا ۔۔زارا سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں کرسی پر تھا ۔۔۔سامنے ہی بیڈ تھا۔۔۔اتنے میں میسج کی بیل بجی ۔۔سعدیہ کا میسج تھا ۔۔۔اس نے زارا کا پوچھا کہ کہاں تک پہنچی ہے ۔۔تم سے مانوس ہو گئی ہے یا ابھی تک دور دور ہو .......میں نے سعدیہ کو بتایا کہ بس اب کھیتوں پر ہیں ۔۔۔اور میں ابھی تک جھجک ہی رہا ہوں ۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے پہل کروں ۔۔۔اس نے کہا کہ میں نے زارا کو سب بتایا ہوا ہے ۔۔۔جیسے چاہو شروع کر دو ۔۔۔۔اتنے میں باہر سے آواز آئی تھی ۔۔۔میں موبائل رکھتا ہوا باہر گیا ۔۔۔چاچا کے ساتھ فوزیہ کھڑی تھی ۔۔ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں لسّی کے گلاس رکھے ہوئے تھے ۔۔۔مجھے دیکھ کر فوزیہ نے اسمائل دی اور ٹرے آگے بڑھا دی ۔۔۔میں نے چاچا کو اشارہ کر دیا کہ اب کسی کو نہ آنے دیں ۔۔۔۔ٹرے لے کراندر آیا تو زارا نے جلدی سے موبائل سائیڈ پر رکھا تھا .......میں نے اس کے چہرے کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ میسج پڑھ چکی ہے ۔۔۔اس کے چہرے پر ایک اسمائل تھی ۔۔۔میں نے ٹرے اس کے برابر میں رکھتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔اور موبائل ہاتھ میں اٹھایا ۔۔۔زارا کی طرف سے ایک میسج بھیجا گیاتھا ۔۔۔کہ اچھا ابھی کچھ کرتا ہوں ۔۔۔میں نے زارا کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی ۔۔آنکھوں کی شرارت صاف عیاں تھی ۔۔۔۔زارا نے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر لسّی کا گلاس اٹھا لیا ۔۔۔۔میں نے بھی اسے دیکھتے ہوئے دوسرا گلاس لے لیا ۔اور غٹا غٹ پی گیا ۔۔۔۔اس نے لسّی پی کر اپنا گلاس نیچے رکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔لسی کا سفید دائرہ اس کے ہونٹوں پر بنا ہوا تھا ۔۔۔۔مجھے ہنستا ہوا دیکھ زارا پوچھنے لگی کہ کیا ہوا کیوں ہنس رہے ہو.......۔میں نے بتایا کہ تمہاری مونچھیں بن گئیں ہیں ۔۔۔اس نے ٹشو سے صاف کرنا چاہا مگر پھر بھی کچھ حصہ رہ گیا تھا ۔۔۔میں بدستور ہنس رہا تھا ۔۔آخر اس نے ٹشو میرے ہاتھ میں دیا کہ خود صاف کر دو ۔۔۔میں ٹشو لیتا ہوا اس کے برابر میں جا بیٹھا .......۔۔۔
ٹشو اس کے چہرے کی طرف بڑھایا ، مگر پھر ایک اور خیال آیا .......میں نے اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے تھے .......۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی پیچھے کو ہوئی تھی ۔۔۔مگر پھر میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے دیئے ۔۔۔اس کے ہونٹ اسی کی طرح ملائم اور نرم نرم تھے ۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے اوپر ی ہونٹ پر کِس کرنے لگا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر دی تھیں ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی کس کرتے ہوئے میں نےٹرےسامنے ٹیبل پر رکھی اور ۔۔۔واپس صوفے پرزارا کے پاس بیٹھے ہوئے اس کے سر کو اپنی گود میں رکھا اوراوپر جھک گیا ۔۔اس کا چشمہ اتار کر سائیڈ پر رکھا .......۔۔زارا کی آنکھیں اب بھی بند ہی تھیں ۔۔۔اس کی لمبی زلفیں صوفے پر بکھری ہوئی تھیں ۔۔اور ان کےدرمیاں اس کے چہرے پر جھکا ہوا میں چومے جا رہا تھا ۔۔۔اس کے بھرے بھرے گالوں پر میں اپنے ہونٹ رکھتا جو پھسلے پھسلے جاتے تھے .......سرخ و سفید گالوں کے اوپر ہی اس کی سیاہ بڑی سی آنکھیں تھی ۔۔۔۔جو اس وقت بند تھیں ۔۔۔میں اس کے پورے چہرے پر اپنے ہونٹوں کے نشان ثبت کر چکا تھا .......میں اسے سہارا دے کر اٹھانے لگا ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر اسےاپنی گود میں بٹھایا چکا تھا ۔اس کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں رکھتے ہوئے اس کو بڑی مشکل سے اٹھایا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے خود سے لپٹایا تھا .......اس کے جسم اتنا فربہ نہیں تھا جتنا اس کا سینہ تھا ۔۔۔۔موٹے اور بڑے سے ممے ،اپنے پوری اٹھان کے ساتھ ، سرخ رنگ کی شرٹ میں بری طرح سے پھنسے ہوئے تھے ........اور مجھے سے ٹچ ہوتے ہوئے اپنی سختی مجھے بتا چکے تھے ........میں نے اس کےہونٹوں کو چومتے ہوئے اسے بھی آمادہ کر رہا تھا ۔۔۔اپنے ہونٹوں اس کےہونٹوں پر رکھ کر اسے چومنے کا کہتا........کچھ دیر ایسے ہی رہی پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چھوا تو میرے پورے جسم میں ایک لذت کی لہر دوڑ گئی ........اس کی طرف سے شروعات ہو گئی تھی........ جس نے کہاں جا کر ختم ہونا تھا کچھ معلوم نہیں تھا ........ہم نے باری مقرر کر لی تھی .......دو سے تین بار وہ میرے ہونٹوں کو چومتی اور پھر میں جواب دیتا .......۔زارا کی بند آنکھیں کھلنے لگیں تھیں۔۔۔۔ جس میں اک عجیب سے چمک میں دیکھ رہا تھا ۔۔دو چمکیلی سیاہ آنکھیں مجھ پر پلکیں جھپکائے بغیر گڑ ی ہوئی تھی ........ہمارے جسموں میں جہاں لذت کی لہریں گھوم رہی تھی ۔۔۔وہیں پر سنسناہٹ کی ایک لہر بھی ہوتی .......جو میرے اوپر بیٹھی زارا کے جسم سے نکل کر میرے پور ے بدن میں پھیل رہی تھی ........میں نے اس کے چہرے کو چھوڑتے ہوئے ہاتھ کو پیچھے کی طرف لے گیا اور اس کے بالوں کو سمیٹتا ہوا اکھٹا کرنے لگا ۔۔ساتھ ہی اس کی نرم کمر پر میرا ہاتھ گردش کرنے لگا تھا .......زارا کی شدت بڑھ رہی تھی ، وہ اب تیزی سے ہونٹ چوسنےلگی ........میں نے اسے کہاکہ اپنی زبان نکالو اور اسے چوسنے لگا ...اسکی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی .....کچھ دیر بعد وہ بھی میری زبان کو چوس رہی تھی .......۔۔میں نے پیچھے پھیرتے ہوئے ہاتھ کو آگے لاتے ہوئے سینے کے ابھار پر لانے لگا ........زارا میرے ہاتھوں کو پکڑتی ہوئی آگے کو جھکی تھی ۔۔۔سرخ شرٹ میں اس کےممے بے تحاشہ باہر کر نکلے ہوئے تھے .......زارا نے مجھے اِس سے روکنے کے لئے بے تحاشہ بوسے شروع کر دئے تھے ........وہ بڑے جذباتی انداز میں میرے پورے چہرے ، ہونٹوں کو چومے جا رہی تھی........پرانی زارا کے اندر سے ایک نئی زارا نکلی تھی ........میرے ہاتھ اب بھی اس کے سینے پر ہی تھی، جس کے اوپر زارا نے اپنے ہاتھوں کو رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔ہلکے سے دباؤ کے ساتھ ........میں نے بھی آہستگی سے اس کےسینے پر دباؤ بڑھا نے لگا ........زارا نے اپنے ہاتھ ہٹا کر میرے سر پر رکھ دئیے تھے ........مجھے تو کھلی چھوٹ مل گئی تھی ........میں پوری آزادی سے اس کے مچلتے ہوئے مموں کو دبانے میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔اور اسے تھوڑا سا قریب لاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو اس کی شرٹ کے اوپر ہی پھیرنے لگا ........اور ہاتھوں کو نیچے لے جا کر اس کی کمر سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ........اس کی کمر زیادہ پتلی نہیں تھی ۔۔گوشت سے بھری پْری تھی ، اور نیچے سے اس کے بڑے سے چوتڑ تھے ۔۔۔میں بغیر کسی جھجک کے اس کے چوتڑ دبا رہا تھا ........زارا کاچہرہ اب بھی میرے چہرے پر گھوم رہا تھا ........مگر اب اس کی بے چینی میں محسوس کر رہاتھا ........چوتڑوں کے نیچے سے اس کی گرمی میرے ہتھیار پر بھی اثرا نداز ہو رہی تھی ........اور اب وہ بھی اٹھنے کی
تیار ی میں تھا ........میں نے زارا کو اِسی طرح گود میں بھر کے اٹھا لیا ........اٹھاتے ہوئے پہلے میں دروازے کی طرف گیا تھا ........دروازہ اندر سےلاک کرتے ہوئے میں بیڈ پر آنے لگا ........ زارا میرے گرد ٹانگیں لپیٹی ہوئی تھی ........بیڈ پر آ کر اسے اپنےبرابر میں لٹاتے ہوئے میں اس کی طرف کروٹ پر لیٹا تھا........مگربیڈ پر ہونے کے بجائے میں آدھا سے زیادہ اْسی کے اوپر ہی جھکا ہوا تھا ........اس کے چہرے کو پھر سے چومنا شروع کردیا تھا ۔۔۔نیچے سے ہاتھوں نے بھی من مانی شروع کر دی تھی........اور اس کے نیچے میں اپنی ایک ٹانگ اس کے اوپر رکھ چکا تھا .......۔۔جہاں اس کی صحت مند رانیں بڑی خوبصورتی سی بلیک ٹراؤزر میں ابھری ہوئی تھیں ........کچھ دیر تک اس کے چہرے کو گیلا کرنے کے بعد میں تھوڑا سا سیدھا ہو کر لیٹا اور اسے خود پر کھینچنے لگا ........اور تھوڑی سی زور آزمائی کے بعد وہ مجھ پر آ چکی تھی ........اس کے چہر ہ میرے چہر ہ پر تھا ........دونوں ہاتھوں کو میرے سر کے دائیں بائیں بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی ۔۔اس کے بڑے سے ممے میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔میں نے اسے تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھایا۔۔۔اور اپنے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا ۔۔اس کے بعد اس کی شرٹ کے نیچے حصے کو ہاتھوں میں پکڑا ۔۔۔میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی ۔۔۔سیاہ آنکھیں چمک رہی تھی........ ہونٹوں پرآرزو بھری مسکراہٹ تھی ۔۔۔اس نے اپنے ہاتھوں کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دیا ۔۔۔کھلا اشارہ ملتے ہی میں نے اپنے ہاتھوں کوحرکت دی تھی .......میں زیادہ اوپر اپنے ہاتھ نہیں اٹھا سکا ۔۔اس لئے باقی شرٹ اس نے خود ہی اتاری .......اور پھر گورے چٹے ، بھاری بھرکم ممے میرے سامنے تھے ۔۔۔۔میں نے برا کےاوپر سے ایک مرتبہ دباتے ہوئے انہیں اٹھایا ........زارا کچھ زیادہ ہی گرم ہوچکی تھی ........اس نےپیچھے ہاتھ بڑھا کرخود ہی برا کی ہک بھی کھول دی تھی ۔۔۔اورپھر ان مموں کو میں نے تھوڑا سا جھکتے دیکھا تھا .......گلابی نپلز جن کے ساتھ ایک بڑا سا تل بھی تھا ۔۔۔۔مجھے دعوت دینے لگا ۔۔۔۔زارا کی آنکھیں بھی یہیں کہ رہی تھیں ۔۔۔تو مجھے ماننے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔۔۔۔میں اسی طر ح اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔اور گود ی میں بیٹھی زارا کے مموں کو پکڑتے ہوئے منہ میں ڈالنے لگا .......اس کی ایک سسکاری سی نکلی تھی .......ممے درمیانے سائز کے تھے .......مگر گولائی میں کافی ابھرے ہوئے تھے .......میں ایک ہاتھ میں اسے کسی آم کی طرح تھامتا اورمنہ میں ڈالے چوسنے لگتا .......۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی بیک پر تھا ۔۔اور دوسرا ہاتھ باری باری دونوں مموں کو منہ میں پہنچا رہا تھا ۔۔۔۔زارا نے میری شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دئے تھے ۔۔زارا اب کھل کر سامنے آ چکی تھی .......شرم و حیا کے ساتھ ساتھ وہ گرم لڑکی بھی تھی ۔۔جو ہر مزے کو ہر انداز سے انجوائے کرنے کی کوشش کرنا چاہ رہی تھی .......۔اور اب برا کھلنے کے ساتھ ہی وہ اور بھی کھل کر سامنے آئی تھی .......اس کی آنکھوں میں شہوت کے ڈورے تیر نے لگے تھے .......۔وہ میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے مموں پر دباؤ ڈالنے لگی تھی ۔۔۔۔میرے اندر کا راجہ بھی باہر آنے لگا تھا .......۔۔میں نے بھی دباؤ بڑھا دیا .......زارا کی ایک تیز بھنچی ہو ئی چیخ نکلی تھی .......میرے ہاتھوں کی پکڑ میں اس کے بھاری بھرکم ممے پھنسے ہوئے تھے ۔۔۔میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور پیچھے سے اس کا ٹراؤزر بھی کھینچنے لگا ۔۔۔آدھا ٹراوزر اتر چکا تھا ۔۔۔اور وہ گھوڑی بنی ہوئی میرے اوپر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔میں نے اسی دباؤ سے اس کے چوتڑ پر دباؤ بڑھا یا تھا .......وہ سسکیاں بھرنے لگی تھی ۔۔ساتھ ہی ہلکی سی چیخ بھی مارتی ۔۔۔جس میں واضح اشارہ تھا کہ ابھی اور گنجائش ہے ۔۔۔اور میں اور دباؤ بڑھا دیتا ۔۔۔میں اس کے مموں سے اب سیراب ہو چکا تھا .......گورے گورے ممے اب لال سرخ ہوئے تھے ، کہیں کہیں میرے دانتوں کے نشان بھی تھے .......میں نے اٹھتے ہوئے زارا کو بیڈ پر لٹایا تھا .......لیٹتے ساتھ ہی اس نے ٹانگیں بھی اٹھا لیں تھیں ۔۔۔۔میں اس کا اشارہ سمجھ کر ادھ اترا ٹراؤزر کھینچ دیا ۔۔۔اب اس کی موٹی بھری ہوئی رانیں ۔۔جس کے درمیانی حصے پر سرخ پینٹی لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔میں اسے بھی اتارتا چلا گیا .......زارا کے حرکتیں شوخ ہوتی جا رہی تھی .......اور وہ مجھے اسی قدر ابھار رہی تھی.......اس نے اپنے پیر میرے سینے پر رکھتے ہوئے مجھے خود سے دور رکھنے کی کوشش کی .......میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو شرارت سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے درمیان میں آیا تھا .......اور اس کے سینے پر جھکا تھا ۔۔۔جہاں ممے اب پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔ان کے درمیان سرخ نپلز مچل رہے تھے ۔۔۔۔پھیلی ہوئی حالت میں اس کے ممے سینے پر کافی اوپر تک پہنچے ہوئے تھے .......۔گول گول سے ، چاروں طرف یکساں گولائی کے ساتھ ۔۔۔۔میں اپنے لیفٹ ہاتھ سے اس کے مموں سمبھال رہا تھا ۔.......اور سیدھا ہاتھ نیچے لے جار کر پینٹ اتار نے لگا ۔۔۔۔جلد ہی ہتھیار قید سے باہر تھا ۔۔۔۔کھلی فضاء میں آ کر ہتھیار نے بھی جان پکڑ لی تھی ۔۔۔اورچند ہی سیکنڈ میں تن چکا تھا .......۔ٹوپا غصے میں تھا ۔۔اور ہلکی سی لرزش کے ساتھ پھول رہا تھا .......میں نے زارا کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ بھی میرے چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیاماجرہ ہے .......۔میں نےا س کی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے موڑ دی تھی ۔۔اور پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے پوزیشن سمبھال لی تھی .......اس کی بھری بھری ٹانگوں کے درمیان میرا ہتھیار بھی بھرا بھرا سا لگ رہا تھا ۔۔پھولا پھولا سا لگ رہا تھا .......۔۔مگر چوت کے اوپر رکھتے ہوئے چوت بے چاری چھپ سی گئی تھی ۔۔زارا نے اپنی ٹانگوں کو تھامتے ہوئے مجھے اشارہ کر دیا تھا .......میں نے بھی ٹوپا سمبھال کر چوت پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔زارا نے اب تک ہتھیار نہیں دیکھا تھا ۔۔۔وہ شاید مزے کو انجوائے کرنے کے چکر میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔یا شاید کوئی نارمل سائز ایکسپکٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔جب ٹوپا اسےٹچ ہو ا تھا ۔۔۔تبھی اس کی نظر نیچے کو پڑی تھی ۔۔۔اس نے کہنے کو منہ بھی کھولا تھا ۔۔۔مگر میں اسکے بڑے سے مموں کو جکڑنے کے لئے آگے آیا تھا ۔۔اور ساتھ ہی ٹوپے نے دستک دے تھی .......زارا نے سانس روک کر پھر سے نیچے دیکھا تھا .......۔ٹوپے کے لئے راستہ تنگ تھا ۔۔۔۔مگر میں نے پیچھے سے دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کی دونوں دیواروں کو چیرا تھا ۔۔اور تباہی مچاتا ہوا اندرلپکا ۔۔۔زارا کی ایک بلند چیخ نکلی تھی ۔۔۔میں نے ممے چھوڑتے ہوئے اس کی ٹانگوں کو تھام لیا ۔۔جو اٹھ کر اس کے سینے پر لگ رہی تھی ۔۔۔ابھی ٹوپا ہی اندر پھنسا تھا ۔۔۔۔اور زارا کی ہائے ہائے شروع تھی ۔۔۔جتنی سریلی آواز تھی ۔۔۔اتنی ہی سریلی آہیں بھی تھیں ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے دباؤ بڑھاتا گیا اور آدھا ہتھیار اندر اتار دیا .......۔۔زارا کی پہلے سے زیادہ کراہیں نکلی تھیں ۔۔۔ٹانگیں بھی اتنی تیزی سے ہلی تھیں ۔۔۔مگر پورے طریقے سے میرے قابو میں تھی .......وہ مجھے دیکھتے ہوئے بار بار منہ کھولے اور بند کئے جا رہی تھی .............شاید کچھ کہنا چاہ رہی تھی ............دونوں ہاتھوں سے مجھے رکنے کا اشارہ بھی کر رہی تھی ............میں نے دوبارہ سے ہتھیار باہر گھسیٹا اور دوبارہ اندر دھکیل دیا ۔۔وہ پھر سے لرزی تھی...........ممے بھی باؤنس ہوئے ........مگر اس کا منہ اب بھی کھلا ہی تھا .......میں نے کچھ دیر رکنے کے بعد اب اِن آؤٹ شروع کر دیا تھا ..........ہتھیار اٌسی طرح سے پھنستا پھنساتا آنے جانے لگا .......۔زارا کی چوت نے کافی سے زیادہ پانی چھوڑ کر راستہ صاف کرنے کی کوشش کی تھی .......مگر ہتھیار کی موٹائی کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھی ۔۔۔وہ اسی طرح اس کی چوت میں پھنستا ہوا گزرتا جا رہا تھا ۔۔زارا آدھا ہتھیار سمیٹ چکی تھی .......۔موٹے سے ہتھیار میں اس کی چوت برے طریقے سے پھنسی ہوئی تھی .......اس کی آواز اب تک لوٹ کر نہیں آئی تھی .......میں کچھ دیر اور ہتھیار آگے پیچھے کر تا رہا .......۔۔زارا کا منہ کچھ بند ہوا تھا ۔۔۔۔اس نے ایک نظر نیچے کو دیکھا اور پھر ایک زور دار آہ نکالی ۔۔اف.......ہائے ........اوئی........
سعدیہ نے اسے جو کہانی سنائی ہو گی .........حقیقت اس سے مختلف تھی........سعدیہ نے مزے کی داستان سنائی تھی.......اور ....یہاں درد کا سبق تھا ...........وہاں سسکیاں اور مزے کے قصے تھے .........اور یہاں پر آہوں اور ہائے کا طوفان تھا .....زارا ........اب کچھ دھیرے ہونے لگی تھی ...........نارمل ہونے لگی تھی ............نیچے دیکھنے کا بعد اسے پتا چل گیا کہ آدھا ہتھیار ابھی باہر ہی ہے ...........اس نے مجھے کہا کہ راجہ بس ابھی کچھ دیر اتنا ہی کرتے رہو...........مجھے کیا اعتراض تھا........میں اپنی نارمل اسپیڈ سے ان آؤٹ کرنے لگا.......اور کچھ ہی دیر میں زارا کی چوت نے ہار مانی اور پانی چھوڑنے لگی ........میں کچھ دیر تک ہتھیار ہلاتا رہا پھر باہرکھینچ لیا ........
میں زارا کے ساتھ لیٹا تھا ۔۔ زارا اٹھی اور اپنی ٹانگوں کے درمیان ہاتھ رکھتی ہوئی بولی ...........اف راجہ کیا گھسا دیا تھا تم نے...........مجھے ایسا درد کبھی نہیں ہوا ...........میں کیا بولتا کہ بس خاموش ہی رہا .......ہتھیار اسی طرح کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔زارا میرے ساتھ بیٹھتی ہوئی اسے تھامنے لگی ۔۔۔اس کے ہاتھ جتنے صحت مند تھے ۔۔۔۔اس سے زیادہ میرا ہتھیار کھاتا پیتا لگ رہا تھا ۔۔۔اس نے اپنی مٹھی میں موٹائی کو سمبھالنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر ابھی آدھا ہتھیار اس کی مٹھی سے باہر تھا ۔۔۔زارا دوسرا ہاتھ لا کر اس تھامنے لگی .......۔اور پھر اسی دونوں ہاتھوں کو اوپر نیچے کرنے لگی تھی .......۔میں لیٹا اس کے حرکت کرتے ہوئے بازؤوں کے درمیان اس کے موٹے سے مموں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔جو ہلتے ہوئے مجھے خراج تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر انہیں تھاما اور کھینچنے لگا ۔۔۔اِدھر زارا میرے ہتھیار سے کھیلنے کے بعد اب منہ میں لینے کی کوشش میں تھی .......۔جو اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔آخر چاروں طرف سے چاٹ چاٹ کر اسے نہلانے لگی ۔۔۔۔میں اسے بھی دیکھتا ۔۔۔اس کے مموں کو بھی دیکھتا .......پیچھے سے بھری ہوئی کمر اور بڑی سے گانڈ کو بھی دیکھتا .......۔زارا نے ہتھیار کو اور زیادہ ہوشیار کر دیا تھا ۔۔۔۔جبھی میں نے اسے کہا کہ آ جاؤ ۔۔۔۔گھوڑی بنو ۔۔۔۔اور کھسک کر اسے جگہ فراہم کرنے لگا ۔۔۔وہ بھی کمال فرمانبرداری سے اسی جگہ گھوڑی بنی تھی ۔۔میں اٹھ کر اس کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔۔دونوں چوتڑ گوشت سے بھر ے پرے تھے .......۔میں ان کے درمیان ہتھیار رکھتا ہوا دبانے لگا .......۔نیچے سے زارا نے بھی سمت کی رہنمائی کی اور چوت پر ٹکانے لگی ۔۔۔میں آگے کو جھکا تھا .......۔اور اپنے ہاتھ اس کے کندھے پررکھ کر باقی کہنی اس کی کمر پر رکھ دی تھی ۔۔۔۔کوشش تھی کہ کہنی کی نوک نہ چبھے ۔۔۔۔بس اپنے اگلے بد ن کا وزن اس کی کمر پر ڈالوں .......اور میں اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوا تھا ۔۔۔زارا تھوڑی سی نیچے کو بیٹھی اور پھر وزن سمبھال کر اٹھی تھی .......۔زارا اکافی صحت مند تھی اور مجھے اندازہ تھا کہ وہ میرے اوپر بدن کا وزن برداشت کر لے گی ۔۔۔اگلے حصہ کنٹرول میں آتے ہی میرے دونوں ٹانگیں قدرے جھک کر پیر اس کے آس پاس جم چکے تھے .......۔میراہتھیار اب تک اس کی ٹانگوں کے درمیان ہی پھسنا ہوا اس کی چوت کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔میں نے اگلے حصے پر وزن بڑھاتے ہوئے اپنی کمر کو ہلا یا ۔۔۔ہتھیار نیچے کو پھسلا تھا .......اور اس پر بھی زارا کی اووئی ۔۔۔نکل چکی تھی .......میں نے ایک ہاتھ پیچھے لے کر گیا اور دوبارہ سے ٹوپے کا نشانہ فکس کیا ۔۔۔۔اور ہاتھ اوپر لا کر اس کی کمر پر وزن ڈال دیا ۔۔۔۔اور پھر سے کمر کودھکا لگایا .......زارا کے منہ سے پھر ایک کراہ ۔۔۔اور .......اووئی مر گئی کی آواز نکلی تھی ۔۔۔۔وہ آگے ہوتی مگر میرا وزن اچھا خاصا تھا .......۔۔جو اسے آگے بڑھنے سے روکتا تھا .......اور پیچھے سے گھوڑا تھا ۔۔۔جس نے ابھی دوڑ لگانی تھی .......۔میں نے پیر جما کر پیچھے سے پھر ایک دھکا دیا اور آدھا ہتھیار اندر پہنچ گیا تھا .......زارا۔۔۔ برے طریقے سے ہلی تھی ۔۔۔اور شاید بیلنس کھو کر دائیں بائیں گر بھی پڑتی مگر میں نے تیزی سے اس کے اوپر کا وزن کم کیا .......۔۔۔۔جب وہ سیٹ ہو گئی تو پھر وزن دیتے ہوئے دھکا لگانے لگا ۔۔۔۔زارا لرزنے کے ساتھ ساتھ ہل رہی تھی ۔۔۔۔ہلنے کے ساتھ سسکیاں بھر رہی تھی ۔۔۔۔سسکیاں بھرنے کے ساتھ کچھ کانپ بھی رہی تھی .......
میں نے اسی طرح دھکے دیتے ہوئے اپنی اسپیڈ بڑھا دی .......زارا کی ایک تیز آہ نکلی ۔۔۔اوئی ۔۔ہائے ۔۔اف.......نیچے سے اس کے لٹکے ہوئے ممے بھی اچھلے ہوں گے ......میں نے اس کے اوپر سے ہاتھ ہٹا کر اور جھکا اور اس کے ممے تھام لئے ۔۔زارا کاوزن کم ہو چکا تھا......وہ تھوڑی سی اوپر کو اٹھی تھی ......گانڈ بھی تھوڑی سی اٹھا لی تھی ......جس سے میرا مزہ بڑھ گیا تھ......میں قریب آتے ہوئے اس کی گانڈ سے ٹکراتا تھا ۔میں اسی سوچ میں تھا کہ اچانک ۔۔میں جو پہلے آدھے ہتھیار کو گھساتا تھا ۔۔۔۔ممے پکڑنے کے چکر میں جو جھٹکا مارا تھا ۔۔تو پورا اندر اترا تھا .......زارا ایک مرتبہ بھی بلند چیخ نکالتے ہوئے آگے گئی تھی......ممے میرے ہاتھ میں ہی تھے ......میں نے واپسی کا راستہ دکھا دیا ۔۔۔۔اسی اسپیڈ سے وہ واپس آئی تھی ۔۔۔اس کے بعد میں نےپورے ہتھیار پر ہی اس رکھا تھا ۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ اس کی کمر اور گانڈ بھی اوپر کو جھٹکا کھاتے تھے .......اس کی نان اسٹاپ ہائے ہائے مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔زارا کی آگے نکلنے کی کوشش ناکام تھی ۔۔۔اور پیچھے سے پھنسا ہواہتھیار اسے سکون نہیں دے رہا تھا .......۔وہ راجہ راجہ کی گردان بھی لگائے ہوئے تھی .......۔میں نے پھر سے پورا ہتھیار باہر نکالا اور واپس دھکیل دیا تھا ۔۔۔وہ اوئی کی آواز کے ساتھ پھر کمر اچھالتی گانڈ نیچے کو ہوتی ۔۔۔۔اتنے میں دوسرا جھٹکا پڑتا اور اسی طرح اس کی کمر اوپر اور گانڈ نیچے کو ہوتی .......۔زارا کی اب بھی ہمت تھی جو پورا ہتھیار اس نے سہہ لیا تھا ۔۔۔پہلی مرتبہ میں تو چاچی نے بھی پورا نہیں لیا تھا .......۔۔زارا کی اوئی .......اوئی .......اور ہائے پورے کمرے میں گونج رہی تھی .......میں نے ممے اب تک سمبھالے ہوئے تھے ۔۔۔میر ے جھٹکے تیز ہورہے تھے ۔۔۔۔زارا آگے کو ہوتی تو مموں پر زور پڑتا ۔۔۔جس سے درد بڑھ جاتا ۔۔۔۔میں نے پوزیشن بدلنے کا سوچا اور ہتھیار باہر نکال لیا .......۔اٌسے بیڈ کے کنارے پر لا کر خود نیچے اتر گیا .......زارا بیڈ کے درمیانی حصے میں کنارے پر تھی ۔۔۔ٹانگیں بیڈ پر تھیں ۔۔۔۔میں نے اس اور آگے کو کھینچا اور بالکل کنارے پر لا کر دونوں ٹانگیں سیدھی پھیلا دی۔۔۔۔اس کی دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھیں .......درمیان میں میں تھا .......ہتھیار ابھی تک لشکارے مار رہا تھا.......میں ایک ایک ہاتھ دونوں ٹانگوں پر رکھتے ہوئے انہیں کھول چکا تھا ..............اور اب درمیانی لکیر تھی پانی میں گیلی ہوئی......۔ جس کے سامنے میرا ہتھیار نئی صف بندی کر رہا تھا ......زارا اب دونوں مموں کو اپنے ہاتھو ں میں دبوچے ہوئے یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس نے اپنا سر تھوڑا سا اٹھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔زبان باہر نکلتی اور ہونٹوں پر گھوم کر واپس چلی جاتی......میں نے ٹوپے کو اوپر رکھ کر دباؤ بڑھنے لگا......زارا کی ٹانگیں پوری پھیلی ہوئی تھیں ۔۔میں نے ہاتھ اس کے رانوں کے اندرونی سائیڈ پر رکھ کر تھام لی تھیں ۔۔۔۔ہتھیار کا ٹوپا مخصوص آواز نکالتا ہوا تھا......زارا اوپر کو اٹھی تھی......پیٹ اندر جا کر باہر آیا تھا ......اس نے اپنے مموں پر اپنی پکڑ مضبوط کر لی تھی ۔۔۔۔۔میں نے رانوں کو تھامتے ہوئے دباؤ بڑھانے لگا ......اس کی سسکاری نکل رہی تھی......وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہی تھی ......اور میں دباؤ بڑھاتے ہوئے مزید اندر گھسانے کی کوشش میں تھا ......زارا نے آدھا ہتھیار لے لیا تھا......میں نے اس کی ٹانگیں سمیٹ کر سیدھی اوپر کو اٹھا دی تھیں......اور اپنے بازؤوں میں دبوچ چکا تھا ......نیچے سے ہتھیار نے بھی اسپیڈ پکڑنی چاہی تھی ......زارا کی گرم گرم سسکاریاں پھر سے گونجنے لگی تھی ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔۔ہائے ۔۔سس۔۔میں اب پورا ہتھیار کھینچ کر باہرنکالتا اور پھر اسی اسپیڈ سے اندر بھیجتا......جس کے ساتھ ہی اس کی آواز بلند ہوتی ......میر ی حرکت تیز ہوتی جا رہی تھی......جس کا اندازہ زارا کی اونچی اور بلند سسکیوں سے بھی ہو رہا تھا ......اس کا پورا جسم لرزش کر رہا تھا......۔میرے جھٹکےاور تیز ہوئے تھے......اس کے بعد طوفانی جھٹکوں کی باری آتی تھی ......مگر کچھ دیر میں زارا ہل ہل کر بیڈ سے اوپر کھینچنے لگی تھی......میں بھی جھٹکے دیتے ہوئے اسے اوپر دھکیلنے لگا ......اور پھر اسی طرح دھکے دیتا ہوا اسے اوپر لاتے ہوئے خود بھی بیڈ پر پہنچ گیا ......اس کی جسم کی کپکپاہٹ اور سسکیاں بڑھتی گئی تھی ......مگر اٹھی ہوئ ٹانگیں میری بانہوں میں تھی ......اور نیچے سے پھیلی ہوئی گانڈ کے درمیان ہتھیار اپنی دوڑ جاری رکھے ہوئے تھا ......زارا اور ہم دونوں بیڈ کے درمیان میں پہنچ چکے تھے ......دھکے اور جھٹکے ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں رکے تھے ......اسی طرح زارا بھی ایک لمحے کے لئے چپ نہیں ہوئی تھی......وہ بھی منہ کھولے سسکیاں بھرتی رہی ......اپنی سریلی آواز میں مجھے پکارتی رہی ......بیڈ کے درمیان پہنچ کر میں نے ہتھیار باہر نکالا اورٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے اٌسے اٌسی طرح الٹا لٹا دیا ......وہ بھی کروٹ لے کر پلٹ گئی ......اب میں اس کے چوتڑ کےاوپر آیا تھا ......اور انہیں کے درمیان سے ہتھیار کو راستہ دکھایا......وہ بھی پلک جھپکنے میں منزل مقصود تک پہنچا ......اور چوت کے لبوں کو چیرتا ہوا اند ر گھسا تھا ......ا ب کی بار پورے ہتھیار نے مار کی تھی ......زارا نے سر کو جھٹکے سے اوپر اٹھایا تھا ......ایک ہلکی چیخ کے ساتھ وہ ہلی تھی......میں اس کی کمر پر ہاتھ رکھے اپنا وزن ڈال چکا تھا......اور پیچھے اس کے چوتڑ کےدرمیان ہتھیار اپنی اسپیڈ پکڑ رہا تھ......زارا کے چوتڑ بری طریقے ہلے جاتے تھے ......جن سے میں ایک سیکنڈ میں دو مرتبہ ٹکراتا تھا ......میری اسپیڈ اب بڑھنے لگی تھی ......دھکے طوفانی ہوتے گئے ۔......بیڈ بھی لرزنے لگا ۔۔۔۔اور زارا کی سسکاریاں بھی ۔۔۔۔۔۔میرے پاور فل دھکوں نے زارا کے انجر پنجر ڈھیلے کر دئے تھے......وہ اب الٹی بے سدھ لیٹی ہوئی تھی ......ہاتھ آگے بیڈ پر سیدھے تھے ......اور پورا جسم ہل رہا تھا ......میں نے اسپیڈ اور تیز کی تھی......اور پھر غراہٹوں کے ساتھ جھٹکے اور بڑھے تھے......زارا نے بھی چیخوں کے ساتھ میرا ساتھ دیا تھا ......وہ بھی فارغ ہونے کے قریب تھی ......اور...... میں بھی اپنی مدت پوری کر چکا تھا ......کچھ اور طاقتور جھٹکے پڑے تھے ......بیڈ بھی چوں چوں کرنے لگا تھا ......اور پھر ایک تیز غراہٹ کے ساتھ میں فارغ ہونے لگا......زارا بھی میرے ساتھ ہی آئی تھی......اس کی چوت میں پانی کا ایک سیلاب آیا تھا ......جنوں سرد ہونے لگا تھا ......میں نے ہتھیار باہر نکالا اور اس کے ساتھ لیٹتا چلا گیا ......
کچھ دیر میں ہم سمبھل گئے تھے ۔۔۔۔زارا حسب سابقہ مجھے سے لپٹ کر بوسوں کی بوچھاڑ کردی تھی ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کافی دیر تک لپٹے رہے تھے ۔۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ ہم کہاں پر ہیں ۔۔میں نے زارا کو تیار ہونے کا کہا اور خود بھی اٹھ گیا ۔۔۔