Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story مڈل کلاس

Joined
Nov 24, 2024
Messages
334
Reaction score
21,626
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
”لے زوباریہ پکڑ یہ کارڈ سیٹھ صاحب کے گھر سے آیا ہے۔” ہانپتی کانپتی امی نے دوپٹے سے پسینا پونچھتے ہوئے اس کی طرف کارڈ بڑھایا تھا۔
”سیٹھ ماموں کے گھر سے؟ کیسا کارڈ ہے؟” اس نے لپک کر کارڈ جھپٹا تھا۔
”ہزار بار کہا ہے تجھے مت بولا کر ماموں۔ سنیں گے تو غصہ کریں گے۔ کون سا تیرا سگا ماموں لگا ہے وہ۔ انکل بولا کر انکل، ایسے رشتہ نہیں پتا لگتا نا۔” اماں نے ایک تھپڑ کمر پر جڑتے اسے کھری کھری سنائی تھیں۔
”کیا ہے اماں؟میں تو بولوں گی ماموں۔ایک تو ان امیروں کو اپنے رشتے داروں میں سو کیڑے نظر آتے ہیں۔” وہ کارڈ کھولتے ہوئے بولی۔
”تو غریبوں سے بھلا کون رشتہ رکھتا ہے؟ بس عید تہوار، شادی تک کے لئے گھر بلا لیتے ہیں احسان ہے ان کا۔” اماں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی تھیں۔
”اُف اماں! اتنے بھی غریب نہیں ہیں۔ ہم مڈل کلاس ہیں مڈل کلاس۔” اس نے فخر سے اپنی کلاس بتائی تھی۔ جیسے کہہ رہی ہو ”منسٹر ہیں منسٹر۔”
”ان سے تو غریب ہیں نا۔ اچھا اب کھول بھی لے سعدیہ کی شادی کا کارڈ۔” وہ جو کارڈ کے اوپر بنے پھولوں میں گم تھی، ایک دم اُچھلی۔
”سعدیہ کی شادی؟ مگر کس سے۔” اس نے جلدی جلدی کارڈ کھول کر نام پڑھا تھا۔
”سکندر کریم شاہ، یہ کس سے ہورہی ہے اس کی شادی؟” وہ جھلا کر بولی۔
”تو کس سے ہونی تھی؟ اپنے جیسوں میں کررہے ہیں۔ وڈیرے ہیں، بڑی زمینوں والے ہیں۔ ڈیفنس میں بنگلہ ہے ان کا۔”
”مگر وہ تو…”بولتے بولتے اس نے زبان منہ میں دبالی ۔
”ہائے میری ہانڈی جل گئی ہوگی۔ چل سنبھال کر رکھ کارڈ، دس تاریخ ہے بھول نہ جائیو۔ ایک دن تو ڈھنگ کا کھانا کھانے کو ملے گا۔” اماں نے کچن کی طرف قدم بڑھائے تھے اور اس کا دماغ میں گھوڑے دوڑنے لگ گئے تھے۔
”چلو سعدیہ تمہاری محبت کا بھی یہی انجام ہوا۔ تم اپنے سیٹھ ابا کے حکم کے آگے سرنگوں ہوکر یہ زہر کا پیالہ پینے پر تیار ہو ہی گئیں۔ ایک اور محبت امیر اور غریب کی تفریق کے بھینٹ چڑھ گئی۔” اسے ماضی کے تمام واقعات یاد آنے لگے تھے۔
”پتا نہیں یہ محبت اتنی ارزاں کیوں ہے؟ سب سے پہلے سولی چڑھانے کو اسی کا خیال کیوں آتا ہے۔” سوال آہستہ آہستہ اس کے دماغ میں سراٹھانے لگے۔
٭…٭…٭




”زوباریہ ہوگئی تیار؟ باہر تیرے ابا ٹیکسی لے کر کھڑے ہیں وہ اور کرایہ مانگے گا، نکل بھی چک۔” اماں نے دروازے سے آواز دی۔
”آئی اماں! بس یہ بڑے والے جھمکے پہن لوں۔ کبھی بھی پہننے کا موقع نہیں ملتا۔” وہ جھمکا کان میں ڈال رہی تھی۔
”آئے ہائے اتار یہ لمبے لمبے جھمکے، چھوٹے پہن ذرا۔ پہلے ہی تیری سیما آنٹی کہتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے جھمکے پینڈو عورتیں پہنتی ہیں۔ چھوٹے ear rings ماڈرن لُک دیتے ہیں۔”اماں نے ہاتھ نچا کر ”آنٹی” اور ”ماڈرن” پر خاص زور دیا تھا۔
”اچھا اچھا اتار رہی ہوں۔ ایک تو ان امیروں کے چونچلے، اب تیار بھی ان کی مرضی سے ہوکر جاؤ۔ ہونہہ!” اس نے دراز کھول کر چھوٹے ear rings نکالے۔
٭…٭…٭
”اُف! شکر ہے جان چھوٹی ان شادیوں کے چکر سے۔ ان امیروں کی شادیاں بھی نرالی ہی ہوتی ہیں۔ شروع ہوتی ہیں تو برسات کی طرح سات دن سے پہلے ختم ہی نہیں ہوتیں۔ یہ نہیں کہ نکاح پڑھائیں اور رخصت کریں۔ نہیں بھئی! چھے چھے ڈھولکیاں، مایوں ، مہندی، نکاح، رخصتی، ولیمہ، جوتا چھپائی، مکلاوہ ۔” اماں اس کے سر کی مالش کرتے ہاتھ کے ساتھ ساتھ زبان بھی چلا رہی تھیں۔
”اے زوبی تجھے کیا ہوا ہے؟ اتنی چپ کیوں ہے شادی کے بعد سے۔” اماں حیران ہوئیں۔
”اماں! سعدیہ کی شکل دیکھی تھی؟” وہ منمنائی تھی۔
”دیکھی تو تھی اتنی پیاری حور لگ رہی تھی۔ پچاس ہزار کا میک اپ اور دو لاکھ کاجوڑا تھا، حور تو لگنی ہی تھی۔” اماں نے بال کس کر اس کی چٹیا بنائی۔
”اماں وہ خوش نہیںتھی۔” وہ آہستہ سے بولی۔
”چل ہٹ! اتنا پیسے والا امیر کبیر میاں ملا ہے، اندر سے تو خوش ہوگی۔ اب کیا ناچنا شروع کردے؟ ہے تو مشرقی دُلہن نا! چاہے جتنی بھی امیر ہو۔” اماں نے خوش ہوکر کہا تھا۔
”امیر کبیر کے ساتھ ہٹا کٹا موٹا تازہ بھی کہیں نا۔” اسے دیو جیسا دلہا زہر لگا تھا۔
”پاگل ہوئی ہے، کھاتا پیتا گھرانا ہے ان کے سامنے مت بولیو! آئندہ گھر نہیں بلائیں گے۔ جاجاکر چائے بنا، باتیں سنو اس کی۔” اماں نے تیل کی بوتل بند کی اور اس کی سوچوں کا در کھول دیا۔
”کیا برائی تھی عدیل بھائی میں؟ پڑھے لکھے، ہینڈسم سے کزن تھے سعدیہ کے، بس ایک مڈل کلاس ہی برائی تھی۔ بس یہ مڈل کلاس انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔” وہ بوتل اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اماں کو کیا پتا اس کے دل کا روگ، وہ تو اس کی ہم راز تھی۔
٭…٭…٭
”اب دکھا بھی چک زوباریہ صبح سے ٹال رہی ہے۔” رمشا نے اسے کہنی ماری تھی جو کینٹین میں سموسا کھا رہی تھی۔
”صبر کرلے تھوڑا سا، ایک ہی موبائل ہے۔ کمیٹی ڈال کر خریدا ہے اماں نے۔ یہاں کسی Procter کے ہتھے چڑھ گیا تو واپس بھی نہیں ملنا۔” وہ اس کے کان میں منمنائی۔
”چلو باہر چلیں۔” باہر ایک سنسان گوشے میں آکر ا س نے موبائل آن کرکے تصویریں نکالیں۔
”اللہ! زوباریہ کتنی پیاری لگ رہی ہے اپنی سعدی۔”
”تو تو ایسے سعدی بول رہی ہے جیسے میری نہیں تیری کزن لگتی ہو۔” وہ جل کر بولی۔
”اچھا نا! ملی تو ہوں نا اتنی بار تیرے ساتھ کالج میں۔ جان پہچان ہے۔ پری لگ رہی ہے، میاں تو مر ہی گیا ہوگا دیکھ کر۔”
”اللہ کرے مر ہی جائے۔” وہ اور جل گئی۔
”ہائے کیسے بول رہی ہے، اس کا سہاگ ہے اب تو۔” رمشا نے منہ میں انگلی دبائی۔
”پتا تو ہے تجھے عدیل بھائی کو پسند کرتی تھی۔ تین بار رشتہ بھجوایا تھا لیکن سیٹھ ماموں نے اسی ڈر سے بی اے کے دوران ہی اس کی شادی کروا دی۔ سال تو ختم ہونے والا ہے پیپر تک رک جاتے مگر نہیں۔ زبردستی کی ہے۔” وہ اسے تفصیل بتارہی تھی۔
”اوہ! تب ہی میں کہوں اتنے میک اپ کے بعد بھی اُداسی چہرے پر تھی۔”
”چل چل ابھی تو بڑی پری لگ رہی تھی۔ اب اداس پری لگنے لگ گئی۔” وہ موبائل آف کرتے ہوئے بولی۔
”اچھا نا! اپنا موڈ تو صحیح کر۔”
”رمشا ایک بات بولوں؟ مجھے اپنی کلاس بہت اچھی لگتی ہے۔”
”لو اس میں اچھائی والی کون سی بات ہے؟” اس نے آنکھیں پھیلائیں۔
”دیکھ نا رمشا! بندہ اپنی مرضی کی زندگی تو گزارے۔ اپنی پسند نا پسند کا اختیار ہو۔ یہ سب سے اچھی کلاس ہے، مڈل کلاس۔ نہ امیر نہ غریب۔ ان کے پاس کبھی کبھی پیسے آجاتے ہیں تو اپنے شو ق پورے کرتے ہیں، گھر لینا گاڑی لینا وغیرہ وغیرہ مگر کبھی بھی امیر نہیں بن سکتے۔ ان کے لیول تک نہیں جاتے اور نہ ہی اتنے غریب ہوجاتے ہیں کہ فاقوں کی نوبت آئے۔ مگر بس ہر وقت اسی حال میں ہوتے ہیں کہ یا تو مقروض ہوتے ہیں یا کھینچ تان کر اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کررہے ہوتے ہیں۔”
”اس میں اچھائی والی کون سی بات ہے؟”
”دیکھ نا! اگر سعدیہ مڈل کلاس کی ہوتی تو اس کی شادی عدیل بھائی سے ہوجاتی۔” اس نے دلیل دی۔
”اور اگر عدیل امیر ہوتا تو بھی تو اس کی شادی سعدیہ سے ہوجاتی۔” رمشا نے جواب دیا۔
”لیکن کم از کم عدیل نے کوشش تو کی نا۔ اظہار تو کیا نا! سعدیہ کی طرح خاموشی اختیار نہیں کی۔” وہ بہ ضد تھی۔
”مڈل کلاس میں بھی شریف لڑکیاں کھل کر پسند کااظہار نہیں کرتیں۔” رمشا بولی۔
”مگر مڈل کلاس…”
”ہر جگہ مڈل کلاس رکاوٹ نہیں ہوتی، کہیں کہیں بیچ میں نصیب بھی آجاتاہے، جو جس کا نصیب۔” رمشا کی بات پر وہ چپ ہوگئی۔
٭…٭…٭
زوباریہ اپنے ماںباپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ ابا کی گارمنٹس کی دکان تھی۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی زوباریہ کی واحد دوست رمشا ہی تھییا گھر میں اماں سے دوستی تھی۔
وہ جس کالج میں پڑھتی تھی، وہ شہر کا سب سے اچھا گورنمنٹ کالج تھا۔ اس کا ایڈمیشن ادھر میرٹ پر ہوا تھا۔ فیس بھی کم تھی اور سارے شہر کی کریم ادھر ہی جمع ہوجاتی۔ سعدیہ نے بھی اپنا ایڈمیشن ادھر کروایا تھا۔ وہ زوباریہ سے ایک سال سینئر تھی۔ اب اس کا بی۔ اے ختم ہونے والا تھا۔ سعدیہ پڑھائی میں بہت اچھی نہیں تھی اور سیٹھ صاحب تو پرائیوٹ کالج کے حق میں تھے مگر سعدیہ کو بہت شوق تھا ادھر ایڈمیشن کااور میرٹ پر نام نہ آنے کی صورت میں انہوں نے پیسے دے کر اسپیشل سیٹ ارینج کرلی تھی۔ سیٹھ صاحب کی ٹیکسٹائل کی کئی ملیں تھیں مگر ان کے حصے میں کچھ غریب رشتے دار وراثت میں آگئے تھے جن کو وہ اکھاڑکر پھینک نہیں سکتے تھے۔ سو دور دور سے ہی سلام والا حال تھا۔ سعدیہ بھی کم گھلتی ملتی تھی مگر گھر پر ہونے والی ملاقاتوں میں ایک بار اس کے منہ سے عدیل کا ذکر نکل آیا اور وہ یہ راز زوباریہ کو بتا بیٹھی تھی۔ اس نے بھی اس راز کو راز ہی رکھا مگر سعدیہ اپنی محبت میں ناکام ہوگئی تھی جس کا غم زوباریہ کو بھی لگ گیا تھا اور وہ قصور وار صرف امارت کو ہی ٹھہرا رہی تھی۔
”زوباریہ تیرا اسپیچ میں اور ایمبرائیڈری میں پرائز ہے؟” رمشا نے تیزی سے آکر اس کے سامنے بریک ماری تھی اور اکھڑتی سانسوں سے بولی تھی۔
”ہاں ہے۔” اس نے بک سے سراٹھایا۔
”چل بھئی! فوٹو شوٹ کے لیے تیار ہوجا ہیرو کے ساتھ۔”
”کیا بکواس کررہی ہے؟ کون ہیرو؟” وہ منہ بناکر بولی۔
”ارے وہ رانا دلاور ہے نا نیا MNA، دیکھا ہے؟ وہ آرہا ہے annual prize distribution پر۔” وہ بہت ایکسائٹڈ تھی۔
”تو پرائز دینے آرہا ہے، سب لڑکیوں کو دے گا میں انوکھی ہوں کیا؟ میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ مجھے میرا کپ مل جائے بس۔ رانا سے ملے یا کسی اور سے مجھے مطلب نہیں۔” اُس نے بوریت سے کہا۔
”تجھے تو سدا سے امیروں سے چڑ ہے۔ ایسی کمال breaking news دی تھی میرا دل ہی توڑ دیا تو نے۔” رمشا نے منہ بنایا تو وہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
٭…٭…٭

”سب لائن بناکر کھڑی ہوں۔”
”سیدھی ہوں۔”
”جوتے صاف کریں۔”
”دوپٹہ ٹھیک کریں۔”
”منہ اوپر کریں۔”
”ہاتھ سیدھے رکھیں۔”
مس عنبرین نے کالج کی خوب صورت لڑکیاں چن کر ریسپشن پہ کھڑی کردیں تھی جن کے ہاتھوں میں پھولوں کی پلیٹیں ہے۔
پورے کالج کی رگڑ رگڑ کر صفائی کی گئی تھی جیسے رانا صاحب نے صفائی کا جائزہ لینا ہو۔
”مس عنبرین کی ہدایات ختم ہی نہیں ہورہیں میری کمر اکڑ گئی ہے کب آئیں گے رانا جی۔” زوباریہ کھڑے کھڑے تھک گئی تھی۔ ان دونوںکا نام بھیreception کے لیے تھا۔
”ہاں ناں! مس فضیلہ کو دیکھا ہے؟ لولی پاپ بن کر آئی ہیں رانا جی نے آکر ان کو کھانا ہے کیا؟ حد ہے ویسے سب ایسے خوش ہورہی ہیں جیسے وہ رشتہ لینے آرہا ہے ان کا۔” رمشا کو غصہ آرہا تھا۔
”young ہے کیا؟” زوباریہ نے سوال کیا۔
”تو اور کیا؟ تصویریں نہیں دیکھیں! بازار میں اتنے بینر لگے ہیں؟ اندھی ہے کیا۔” رمشا حیران ہوئی۔
”میں نیچے دیکھ کر چلتی ہوں، اوپر دیکھ کر چلوں تو نینا کی طرح گٹر میں گری ہوں ۔”
نینا ان کی کلاس فیلو تھی جو اوپر کوئی پتنگ دیکھتے گٹر میں گر گئی تھی۔ وہ یاد آتے ہی دونوں تالی مار کر ہنس پڑیں اور مس عنبرین ان کے سر پر پہنچ گئیں۔
”یہ قہقہے ہی مارنے ہیں تو کلاس میں جاکر بیٹھیں۔” وہ غصے سے بولیں۔
”سوری میم!” وہ دونوں یک زبان ہوکر بولیں۔
”چلیں چلیں رانا صاحب آگئے ۔” پیون نے آواز دی جس سے سب سیدھے ہوگئے تھے۔
کیمرے والے آگے آگے ہوکر رانا دلاور کے ایک ایک انداز کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررہے تھے۔ اجلی سفید قمیص پر کالی واسکٹ پہنے سفید رنگت پر نفاست سے بال سجائے گھنی مونچھوں کے نیچے مسکراتے گلابی ہونٹوں والا رانا دلاور واقعی اچھی شخصیت کا مالک تھا۔ قافلہ گزر گیا تو وہ دھپ سے کاریڈور میں بیٹھ گئی ۔
”اُف! ڈیوٹی ختم۔” زوباریہ خوش ہوئی۔
”کتنا اچھا لگتا ہے نا، اتنے گارڈز، اتنے لوگ آگے پیچھے۔ کتنا مزہ آتا ہوگا ان امیروںکو۔” رمشا گم سم سی بول رہی تھی۔
”لو! یہ کوئی زندگی ہے مشہور لوگوں کی؟ جہاں جاؤ لوگ منہ پر کیمرا لے کر پہنچ جائیں۔ ایک سیلفی بنالیں۔ ہم نے فیس بک پر لگانی ہے۔ دوستوں کو جلانا ہے۔ ہم فلاں فلاں مشہور بندے سے مل لئے۔ ان سے پوچھو کہ لوگ کیسے زندگی عذاب بناتے ہیں۔ مڈل کلاس اچھے ہیں نا، کوئی privacy تو ہوتی ہے۔ عام سے لوگ، کوئی پوچھتا ہی نہیں۔” وہ مڈل کلاس نامہ سنانے لگی۔
”یہی تو کہہ رہی ہوں عام سے لوگوں کو پوچھتا کون ہے؟ خاص ہی کو تو پوچھتے ہیں۔ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔”
”مگر…”
”اگر مگر بندکرو اور ہال میں چلو پرائز مس ہوجائے گا …” رمشا اسے لے کر اندر دوڑی۔
مس بشریٰ لسٹ لے کرلڑکیوں کوترتیب سے کھڑا کروا رہی تھیں۔ فضیلہ کے بعد اس کا نمبر تھا۔
اس کا نام پکارا گیا ۔ رانا دلاور سے پرائز وصول کرتے ہوئے اس نے کیمرے کی طرف مسکرا کر دیکھا کپ کے پیچھے سے اس کا ہاتھ رانا دلاور نے چھو کر چھوڑ دیا تھا۔ ایک لمحہ تھا بس ایک لمحہ۔ کسی کو کچھ بھی پتا نہ لگا، سوائے اس کے۔ دل تو چاہ رہا تھا یہی کپ اٹھا کر اس کے خوب صورت منہ پر دے مارے۔ سفید کپڑے اور میلا دل، اسے گھن آئی۔ وہ منہ بناتے نیچے اتری۔ ابھی اس نے دوسر اپرائز بھی مُسکرا کر لینا تھا۔ اس کا سارا موڈ خراب ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭




”لو فر! آوارہ …” اس نے رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھویا۔
”شرم بھی نہیں آتی ، عہدہ دیکھو اور حرکتیںدیکھو۔ بیچ مجمع میں بھی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ امیر غریب سب لڑکیاں ہی برابر ہیں ان کے لئے…” وہ سخت بے زار ہوئی۔
٭…٭…٭
”اماں سیما آنٹی کو فون کیا تھا آپ نے؟ سعدیہ کی خیریت پوچھی؟” اسے نوٹس بناتے یاد آیا تھا۔
”ہاں ہاں کیا تھا، خیریت ہے ہنی مون کے لئے فرانس گئے ہوئے ہیں دونوں میاں بیوی۔”
”اچھا۔” اس نے اچھا کو لمبا کرتے حیرت سے کہا تھا۔
”بھلا اتنی جلدی محبتیں بھول بھی جاتی ہیں۔ کیا محبت کے رنگ اتنی جلدی پھیکے پڑ جاتے ہیں؟ کیا یہ زخم دیر پا نہیں ہوتے؟ کیا محبتیں بدل جاتی ہیں؟ کیا محبوب بھلانا اتنا آسان ہے؟” بے چارے عدیل بھائی ابھی تک اس کو یاد کرتے ہیں۔ وہ اسے سوچتے ہوئے پھرے سے افسردہ ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
”اماں دیکھو کتنے اچھے نمبر آئے ہیں میرے۔” وہ رزلٹ دیکھ کر خوشی سے چلائی تھی۔
”بہت بہت مبارک ہو، جاؤ بھئی ابا کو بولو مٹھائی لائیں۔”
”اماں میں یونیورسٹی جاؤں گی، پوائنٹ پر بیٹھوں گی، خوب اچھا پڑھوں گی، نئی دوستیں بناؤں گی۔” وہ خوشی سے ناچتے ہوئے بول رہی تھی۔
”کیا پاگل ہوگئی ہے، اثر ہوگیا ہے؟ بہت پڑھ لیا، اب گھر بیٹھ۔” اماں نے اس کی کمر پر دو تھپڑ جڑے تھے جو بولتے ہوئے ناچ رہی تھی۔
”کیا ہے اماں؟ خوش تو ہونے دو۔ جانے دیں نا، گھر بیٹھ کر کیا کروں ؟”
”پیسے کدھر سے آئیں گے؟ کاروبار مندا ہے آج کل۔”
”اماں وہ خالہ رضیہ کے ہاں کمیٹی نکلے گی نا تو فیس بھر دینا، پھر عید پر تو ویسے بھی کاروبار اچھا چلتا ہے۔” وہ پلان بناکر بیٹھی تھی۔
”وہ میں نے تیرے جہیز کے لیے رکھی ہے۔”وہ حیران ہوئیں۔
”رشتہ ہے جو شادی کریں گی۔پڑھنے دیں نا اماں آگے، شادی بھی ہو ہی جانی ہے۔”
”اچھاٹھیک ہے ابا سے بول جاکر۔” وہ اسے ٹالتے ہوئے بولیں۔
”یا ہو۔” وہ اچھلتی ہوئی باہر نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
”رمشا آگے ایڈمیشن لے لے نا۔ میری پیاری دوست۔”
”دماغ خراب ہے؟ مجھ سے نیچے پانچ بہن بھائی ہیں۔ اتنا تو ٹیوشن سینٹر کھولنے کے لئے پڑھادیا ابا نے۔ یونیورسٹی کا نام سن کرماردیں گے۔” وہ جو اس کی منتیں کررہی تھی اس کاجواب سن کر چپ ہوگئی۔
”بہت یاد آئے گی تیری۔” وہ اداس ہوئی۔
”اچھا اب اُداس نا ہو، میں بھی دکھی ہورہی ہوں۔ میسج کرتی رہنا،آنا جانابھی لگا رہے گا۔” رمشا بھی اداس ہونے لگی تھی۔
٭…٭…٭
نئی جگہ ، نیا ماحول، نئے لوگ، نئی سہیلیاں بھی بن گئی تھیں۔بہت اچھی جگہ تھی۔ لگتا تھا کوئی غریب ہی نہیں بس مڈل کلاس یا پھر امیر لوگ ۔ غریب اتنی فیس کہاں سے بھرے گا؟ اسے یہ زندگی بہت الگ لگ رہی تھی۔
کشمالہ اور منزہ سے اس کی دوستی پہلے دن ہی ہوگئی تھی۔ سب طرف راوی چین ہی چین لکھتاتھا کہ اس پرسکون جھیل میں ایک کنکر آکر گرا۔
”زوباریہ آج math ڈیپارٹمنٹ جانا ہے۔” کشمالہ نے ایک دن اسے کہا۔
”مجھے لائبریری جانا ہے، میں نہیں جارہی ہے۔”
”چل نا! میری دوست انتظار کررہی ہے، اتنا رش ہوتا ہے وہاں، اکیلی نہیں جاسکتی ۔ اکٹھے لائبریری چلیں گے، ادھر سے قریب ہے۔”کشمالہ نے حل نکالا۔
”ٹھیک ہے۔” زوباریہ آخر کار مان گئی۔
کشمالہ تو اپنے کالج کی دوست کو دیکھ کر اسے بھول ہی بیٹھی تھی۔
”کوئی جگہ بھی نہیں بیٹھنے کی۔” وہ کھڑے کھڑے تھک چکی تھی او ر کشمالہ کو ہوش ہی نہیں تھا۔
”لان میں جاتی ہوں، ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں۔” مڑتے ہی وہ کسی سے ٹکرائی۔ کتابیںاس کے ہاتھ سے گر گئیں اور کسی مردانہ پرفیوم کی خوش بو نتھنوں سے ٹکرائی تو وہ ہوش میں آئی۔
”سوری! مگر غلطی آپ کی ہے۔” وہ بیٹھ کر کتابیں اٹھانے لگا۔
”مسٹر ایکس وائے زیڈ پہلی بات…”
”مسٹرفیضان ! فیضان نام ہے میرا اور آپ کا نام ؟” وہ مُسکرایا۔
”تم سے مطلب؟ کام کرو جاکے۔” وہ مڑ کر کشمالہ کو دیکھنے لگی۔ وہ ادھر ہی دیکھ رہی تھی مگر اُس کی طرف آئی نہیں تھی۔
”پہلی ملاقات میں تم پر آگئیں؟”
”پلیز میرا دماغ مت کھائیں۔” وہ تنک کر بولی۔
”آپ کے پاس ہے؟ ویری strange ” وہ جی بھر کے مُسکرایا۔
”ہونہہ!” وہ لان کی طرف بڑھ گئی۔
”لان میں آجانا۔” Text کرکے وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ فضول لوگ لڑکی دیکھ کر پٹری سے ہی اتر جاتے ہیں۔
”تم آئی کیوں نہیں اس وقت۔” اُسے کشمالہ پہ غصہ تھا۔
”جب وہ لڑکا بات کررہا تھا؟”
”تو وہ تمہارا کزن وغیرہ نہیں تھا؟” کشمالہ حیران ہوئی ۔ اس نے ان دونوں کو ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
”نہیںتو، ٹکر ہوئی تھی اس سے میری۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
”لو ٹکر ہوئی تھی تو مسکرا کیوں رہا تھا؟ جیسے بڑی رشتہ داری ہو۔” کشمالہ پھر سے حیران ہوئی۔
”بس بات کرنے کا بہانہ چاہیے ان لڑکوں کو ۔ ”
”چلو لائبریری،اسائنمنٹبنانی ہے۔” وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”کیا ہے؟ کیا مصیبت ہے؟ رجسٹر کیوں نہیں مل رہا؟” اس کا موڈ سخت خراب ہو چکا تھا۔
”کدھر رکھ دیا؟” وہ گھر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی تھی۔ اب نوٹس کہاں سے ملیں گے۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی۔
”کشمالہ تم ایسا کرو یہ نوٹس کاپی…” ڈیپارٹمنٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر فیضان پہ پڑی۔ اسے دیکھ کر اس کا غصہ ڈبل ہوگیا وہ تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔
”اب میرے پیچھے ادھر تک بھی آگئے؟” وہ جل کر بولی۔ نوٹس کا غصہ کہیں تو نکلنا تھا۔
”اتنی حور پری نہیں ہیں آپ مس زوباریہ وجاہت، پکڑیں اپنا رجسٹر، غلطی سے میرے پاس آگیا تھا۔” اس نے رجسٹر اس کو پکڑایا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
”کتنا برا کیا بے چارے کے ساتھ۔” وہ ہاتھ میں پکڑا رجسٹر دیکھ کر دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔
٭…٭…٭

”میں سوری کہنے آئی ہوں۔” وہ شرمندہ تھی۔ اتنی مشکل سے وہ اسے ملا تھا تو وہ اسے لان تک لے آئی۔
”میں کلاس چھوڑ کر آپ کا رجسٹر دینے گیا تھا اور آپ…” وہ رخ موڑے بول رہا تھا۔
”میں بھی کلاس مس کرکے آئی ہوں، حساب برابر ہوگیا نا؟” وہ تنک کر بولی۔
”اتنے آرام سے حساب برابر؟ ”
”چلیں کچھ کھلادیتی ہوں،اب تو معاف کردیں۔”
”چلیں یہ بہتر ہے۔ سوچتے ہیں معاف کرنے کے بارے میں۔”
”صرف سوچتے ہیں؟ کرنا پڑے گا۔”
”اچھا بابا کرنا پڑے گا۔” وہ ہنس پڑا تو وہ بھی ہنس دی۔
٭…٭…٭
فیضان اور زوباریہ کے معمولات بدل گئے تھے۔ کبھی فیضان اِدھر اور کبھی زوباریہ اُدھر۔ محبت کیسے آہستہ آہستہ رگوں میں اترتی ہے کہ محسوس ہوئے بغیر اتنی شدت اختیار کرجاتی ہے۔
”فیضان اگر تم امیر ہوتے ناں تو میں تم سے محبت نہ کرتی۔ شکر ہے تم مڈل کلاس سے ہو۔”
”محبت بھی بھلا کلاس دیکھ کر ہوتی ہے؟ یہ تو بس ہوجاتی ہے۔” وہ لاجواب ہوئی۔
”لیکن اچھا ہے نا تم مڈل کلاس سے ہو اور میں بھی۔ ہمارے بیچ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔”
”یہ بھلا کون کہہ سکتا ہے۔ مڈل کلاس کسی چیز کی گارنٹی تو نہیں۔” وہ اسے پھرلاجواب کررہا تھا۔
”لیکن پھر بھی…”
”اچھا یہ سب چھوڑو۔ آئس کریم پگھل رہی ہے، کھالو۔”
”ہمم” وہ مختصر سا جواب دے کر چپ ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭




”ہائے زوبی کے ابا کیا بول رہے ہیں؟” اماں دھک سے رہ گئی تھیں۔
”صحیح کہہ رہا ہوں۔” وہ بھی پریشان تھے۔
”جمعہ جمعہ چار دن تو ہوئے تھے شادی کو اور طلاق؟’ ‘
”ہائے ہائے۔” اماں سینہ پیٹ رہی تھیں۔
”کیسی نازوں سے پلی بچی اس سانڈ کے حوالے کردی۔ کچھ نہ دیکھا سیٹھ نے، بس پیسہ دیکھا۔” اماں دہائیاں دے رہیں تھیں۔
”اماں کیاہوا۔” رونا سن کر وہ بھی باہر آئی۔
”ہائے! سعدیہ کو طلاق ہوگئی ۔کم بخت نے ننھی سی بچی کے نصیب کھوٹے کردیئے۔ شرم نہ آئی اسے۔” اماں کو شدید صدمہ تھا۔
”ہائے اللہ! سعدیہ کو طلاق؟ اماں میں کہتی تھی نا ! وہ خوش نہیں ہے۔ ”
”ہائے اس موٹے کو خیال نہ آیا اس بچی کا۔ کیسے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا۔ سب ضائع گیا۔ کیسی شادی ہے چند دن نہ چلی۔” اماں دکھ میں تھیں اور وہ اس سوچ میں کہ اب تو عدیل بھائی سے ہی اس کی شادی ہوگی۔ اے محبت تیرا وقت آگیا ہے۔
٭…٭…٭
”زوباریہ کدھر ہے ؟ یہ کلینڈر میں نشان لگا دس تاریخ پر۔”
”کیوں اماں اب کیا ہے۔” وہ پن سے نشان لگاتے ہوئے بولی۔
”سعدیہ کی شادی۔”
”ہیں! ابھی تو عدت ختم ہوئی ہے اس کی۔ ادھر ایک شادی نہیں ہورہی اور ادھر دوسری بھی ہونے لگی ہے۔”
”چل چپ کر! بہت زبان چلتی ہے۔ ٹائم نہیں ہے کارڈ چھپوانے کا، فون پر اطلاع دی ہے۔” وہ وضاحت دینے لگیں۔
”کس سے کررہے ہیں؟” دل میں امید ابھری ۔
”ہے کسی مل اونر کا بیٹا۔” امید ٹوٹ گئی۔
”اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا۔ کبھی تو اپنا آپ منوا لیا کر۔ سیٹھ ماموں بھی اپنی ہی کرتے۔ اب تو خیال کرلیں ۔بے چارے عدیل بھائی۔” وہ کلینڈر کو دیکھتی رہ گئی ۔
٭…٭…٭
”اچھا میں د ودن یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔” اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا تھا۔
”کیوں کیا ہوا ؟” آگے سے جواب آیا تھا۔
”کزن کی شادی ہے، آنا مشکل ہے۔” اس نے رپلائی کیا۔
”ایسی بھی کیا مشکل؟ دن نہیں گزرتا یار اکیلے۔”
”گزارنے کی کوشش کرو۔ یونیورسٹی کے بعد کیا کروگے؟” وہ مسکرائی ۔
”شادی کروں گا۔” ساتھ smiley فیس تھا۔
”کس سے؟” اس نے شوخی سے پوچھا۔
”ہے ایک لڑکی ، تمہیں کیا؟ تم شادیاں اٹینڈ کرو۔”
”اچھا ناراض نہیں ہو، ایک دن چھٹی کرلوں گی۔”
”اب چھوڑ بھی دے اس موبائل کی جان۔” اماں نے آواز دی توموبائل خود بہ خود بستر پر لڑھک گیا۔
”آئی اماں۔” وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
٭…٭…٭
”چلو چلو ہم تھوڑ الیٹ ہوگئے ۔” وہ دروازے تک آئے۔
”یہ کیا؟ لائٹیں ہیں نہ گارڈ، خیر تو ہے؟ شادی کینسل تو نہیں ہوگئی۔” اماں فکر مندی سے بولی تھیں۔
”اللہ نا کرے۔” اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دعا کی۔
”ہائے رونے کی آوازیں آرہی ہیں۔ شادی والا گھر…”
اندر قدم رکھتے ہی وہ ہل کر رہ گئی تھی۔ پیلے سوٹ میں منہ سے جھاگ اگلتی سعدیہ مردہ حالت میں مسہری پر پڑی تھی اور عورتوں کی دھاڑیں مار مار کر روتی آوازیں کان چیر رہی تھیں۔
”ہائے!” اماں تو سینے پہ ہاتھ رکھ کر ہی بے ہوش ہوگئیں۔ وہ پانی لینے بھاگی۔ابا انہیں اٹھا رہے تھے۔
سجے سجائے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ دلہن نے زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی۔
”کیا تھا جو سیٹھ ماموں مان جاتے؟ کیا تھا جو محبت جیت جاتی؟ کیا تھا جو یہ جان نہ جاتی؟کیا تھا جو مڈل کلاس کو انسان سمجھ لیا جاتا۔” وہ گھر جاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
”کیا ہوا؟ آنکھیں کیوں سوج رہی ہیں۔ شادی میں نہیں گئیں۔’ ‘ وہ پریشان ہوا۔
”گئی تھی، جنازہ پڑھ کر واپس آگئی۔
”کیا بول رہی ہو؟” اس کے سوال پر زوباریہ نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے ساری تفصیل سنا دی۔
”اسی لیے بول رہی تھی شکر ہے تم مڈل کلاس سے ہو۔” وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
”کلاس بندوں کی نہیں دماغوں کی ہوتی ہے۔ جس کی جتنی چھوٹی ذہنیت ہے وہ اتنا ہی سوچ سکتا ہے۔ امیر غریب سے فرق نہیں پڑتا۔” وہ اب بھی راضی نہیں تھا۔
”پڑتا ہے، بہت پڑتا ہے۔” وہ عدیل بھائی کے لیے دل سے غم زدہ تھی۔ ان کی حالت بہت خراب تھی۔
”اچھا چلو کینٹین سے چائے پی لو۔ تھکن ہورہی ہوگی۔”
”ہاں ہو تو رہی ہے۔” وہ دونوں اُٹھ کر کینٹین کی طرف چل دیے۔
”ابا آپ نے بلایا تھا؟” وہ کمرے میں آئی تھی۔
”ہاں! بیٹھو۔” وہ سنجیدہ تھے۔
”زوباریہ بیٹے آپ کا فائنل سیمسٹر ختم ہوگیا ہے تو ہم نے سوچا آپ کی شادی کردی جائے۔” وہ رکے تھے۔
”جی!” وہ دھیمے سے بولی۔
”اب مجھ سے پسند تو پوچھیں گے۔” اس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
”آپ کا رشتہ میں نے حماد سے طے کردیا ہے۔ فیض انکل کا بیٹا، انجینئر ہے ابھی دوبئی سے آیا ہے۔
”مگر ابو…” آج نہ بولی تو پھر محبت ناکام ہوگی۔
”مجھے کوئی اور پسند ہے، اپنا یونیورسٹی فیلو۔” وہ بے دھڑک ہوکر بولی۔
”کیا۔” ابا چیخ کر کھڑے ہوئے۔
”اس لیے بھیجا تھا تجھے یونی ورسٹی کہ وہاں جاکر ماں باپ کی عزت خراب کرے، ان کی عزت کا جنازہ نکالے؟”شفیق باپ کی جگہ اب کسی جلاد صفت شخص نے لے لی تھی۔یہ روپ تو اُس کے لیے بالکل نیا تھا۔
”مگر ابو وہ بھی مڈل کلاس سے ہے اور ہم۔”
”بند کرو یہ بکواس۔” انہوں نے آگے بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑا۔
”مڈل کلاس ہو یا اپر کلاس تیرا رشتہ جہاں طے کیا ہے وہیں ہوگا یہ میری عزت کا سوال ہے۔ میں زبان دے چکا ہوں۔”
”مگر میںنہیں کرسکتی، ناانصافی ہے یہ…” ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر پڑا اور پھر پڑتے ہی چلے گئے۔ اماں پیچھے ہٹا رہی تھیں تو انہیں بھی دھکا لگا۔
وہ بولے جارہی تھی۔
”میں نہیں کروں گی، میں مرجاؤں گی۔ ابا مجھے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ میری زندگی ہے، میری پسند ہے… وہ بہت اچھا ہے۔” لاتیں ، جوتے اور گھونسے مار مار کر وہ تھک گئے تھے تو اس کی زبان بھی تھک گئی۔
نہ جانے اس محبت کے حق میں ناکامی ہی کیوں لکھی ہے۔ نہ جانے یہ کیوں انسان کو اپنے زہریلے وجود سے بھر دیتی ہے کہ انسان اتنا منہ زور ہوجاتا ہے۔
سیٹھ ماموں اور اس کے باپ میں بھلا کیا فرق ہوا؟ کہاں کی اپر کلاس، کہاں کی مڈل کلاس۔
سب مردوں کے دماغ برابر ہیں۔ ہاں یہ سو چ کی کلاس ہی تو ہے جو بڑا اور چھوٹا بناتی ہے۔
ٹھیک ہی تو کہا تھا رمشا نے۔ ہر جگہ مڈل کلاس نہیں ہوتی، کہیں کہیں بیچ میں نصیب بھی آجاتا ہے۔ اس کی اور فیضان کی ایک کلاس بھی ان کے نصیب جوڑنے کا سبب نہ بن سکی تھی۔
محبت میں ہار نے اس کی سوچ بدل ڈالی۔
٭…٭…٭
 
ہائےےے یہ سنگ دل دنیا
 
Bht ala
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top