Shehla69
Elite writer
Offline
- Thread Author
- #1
صبا او میری صبو علی نے گیٹ پار کرتے ہی اسے سمیٹ لیا ” کیا ہو رہا تھا وہ پیار سے ٹھوڑی چھو کے کر پوچھنے لگا۔ اں کچھ نہیں کیا ٹھیک ٹھاک شرما گئی تھی اکیلا گھر ساس نہ نند زندگی گل و گلزار تھی۔ اس کی آنکھیں علی کو دنیا کی حسین ترین آنکھیں لگا کرتی ”ہمارا تو بھئی دل ہی نہیں لگا ہاف لیولے کے نکل لیے وہ بیڈ پرپھیل کر گرا یہ کیا ہے کچھ گیلا سا ” ایک دم وہ اٹھ بیٹھا۔ نیچے صبح والا گیلا تولیہ تھا۔ بال خشک کیے اور یہیں پھینک کر چلا گیا تھا۔ یہ اٹھایا نہیں تھا۔ ہلکا سا پوچھ کر تولیے کو باہر دھوپ میں ڈالنے چلا گیا ۔ واپسی پر نظر ڈرینگ ٹیبل پہ پڑی ۔ کنگھا ، پرفیومز نیل کٹر ویسے کے ویسے ہی پڑے تھے اور صبح جس رو مال کو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا تھا۔ وہ بھی وہیں پڑا تھا صوفے کے نیچے۔ صیا اس کا موبائل اٹھا کر پکچرز دیکھنے میں مصروف تھی۔ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اس کا ہاتھ پڑا تھا وہاں بھی دھول جمی ہوئی تھی اور سلیپر واش روم کے سامنے پڑے الٹے سیدھے تھے۔ یہ والی پک ایک دم نائس ہے۔” کون سی والی ؟ ہاں ! یہ احمر نے بنائی ہے کہتا ہے شادی کے بعد روپ چڑھ گیا ہے مجھ پر بھلا روپ لڑکیوں یہ آتا ہے کہ لڑکوں پر یہ حال ہے میرے کولیگز کا -وہ تھوڑا بہت جو جو نظر آتا گیا۔ سمیٹ چکا تھا کمرے کو ٹھیک ٹھاک ڈسٹنگ کی ضرورت تھی۔ شادی کو تیسرا مہینہ تھاوہ بہت خوش باش انسان تھا اور بلا کا نفیس اور صاف ستھرا بندہ بھی پر محبت نے اسے کچھ بھی یاد نہ رہنے دیا تھا سوائےصبا کے ۔ ایک کپ چائے بنا دو یا را بہت تھک گیا ہوں۔” اچھا ایک منٹ ابھی لائی ۔ ” صبا نے اپنی بھی بہت ساری تصویر میں بنا ڈالی تھیں۔ وہ مسکراتے ہوئے دیکھ بھی رہا تھا اور ڈیلیٹ بھی کرتا جارہا تھا کوئی اور صبا کو دیکھے بھی نہیں صرف وہی دیکھ سکتا تھا۔ یار دوستوں کو یہ جو عادت ہے ناں ایک دوسرے کے موبائلز میںتنکا جھانکی کی ۔ اب بندہ اتنی پیاری پیکچرز اپنے پاس سیو بھی نہیں رکھ سکتا۔ بہت دیر ہو چکی تھی وہ کمرے سے نکل کر کچن میں چلا آیا۔ دوپہر کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ۔ سورج کی روشنی سارے کچن میں پھیل چکی تھی۔ یہ کچن پاپا نے خاص طور پر سورج کی روشنی کے حساب سے بنوایا تھا کہ اس طرح جراثیم افزائش نہیں پاتے ۔ وہ خود بھی سورج کی سائیڈ والی کھڑکیاں کھول دیا کرتا تھا۔ کھڑکی کے نیچے بہت ساری موسمی سبزیوں کی کیا ریاں تھیں ۔ ہرا دھنیا، ہری مرچیں ڈال کر جو آملیٹ بنتا تھا۔ اسے بہت پسند تھا۔ ماما، پاپا کے جانے کے بعد رحمت بوا نے یہ کام سنبھال لیا تھا۔ کیاریوں میں سبزیاں اگانا ، گوڈی کرنا ، چھوٹے سے لان کی کانٹ چھانٹ اور صفائی ستھرائی کھانا رحمت بوا اس عمر میں بھی بے حد پھر تیلی تھیں۔ پھر اسے محبت ہوئی اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کر لیا- تھا کیونکہ وہ صبا کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ ثمر اس کے دوست کی شادی میں ہی اسے صبا ملی اور اس کی آنکھوں کے سمندر میں ڈوب کر وہ ابھر نہیں سکا۔ نہ ابھرنا چاہتا تھا۔ رحمت بوا اپنے بھانجے کے پاس چلی گئی تھیں کیونکہ اب علی کی شادی ہو گئی تھی۔ وہ اپنے رشتہ داروں خاص کر اپنے بھانجے مستقیم کو بہت یاد کرتی تھیں۔ لاؤنج کی میز پر نوڈلز کا پیالہ اوندھا پڑا تھا۔ صبا نوڈلر بہت شوق سے کھاتی تھی اور یہ شوق اب میز پر لڑھکا پڑا تھا۔چائے نہیں بنی ابھی تک۔” بس یہ لیں ۔ سنک میں بھرا صابن کا پانی صاف بتا رہا تھا کہ پہلے برتن دھوئے گئے ہیں پھر چائے بنائی گئی ہے۔ ہاٹ پاٹ سے دستر خوان با ہر جھانک رہا تھا اور فرش پر پانی کے چھینٹے۔ چائے پی کر کپ سنک میں پہنچا کر وہ صبا کے ساتھ کاموں میں لگ گیا۔ چلو صبا مل کے گھر کی صفائی کرتے ہیں پہلے تم یہ سنک خالی کرو ہری اپ ” صبا نے سنی ان سنی کر دی علی نے وائپر پکڑ لیا تھا پھر لاؤنج ، بیڈ روم اور آخر میں لان اس کے محبوب لان کی باری آئی تھی گیٹ تک فرش دھو کر جب پائپ سمیٹا تو صبا بھی تھک کر چور ہو چکی بھی پر گرد کا نام و نشان نہیں تھا علی کے سر میں عملی کے چار پانچ پتے اٹکے ہوئے تھے جنہیں صبا نے مسکراتے ہوئے نکال دیا۔ بھوک لگ رہی ہے ناں۔ تم جلدی سے میرے کپڑے نکال دو میں نہا کر بروسٹ لے آتا ہوں۔ استری کرنا پڑیں گے ۔ ایسا کرتی ہوں میں – کپڑےپریس کرتی ہوں۔ تم جلدی سے نہا لو- او کے جلدی کرو پھر ۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ علی کے پاس بیٹھ کر اسے دوستوں اور اپنے کالج کے قصے سنائے اور وہ آتے ہیں خود بھی کام میں لگ گیا اور اسے بھی تھکا مارا۔ ” ویسے اس بندے کو ہر کام کی بڑی جلدی ہوتی ہے۔ جیسے ہی اسے دیکھا فورا رشتہ بھیج دیا اور منظوری کے فورا بعد شادی کر کے لے بھی آیا ہے – گھریلو کام کاج کے حوالے سے وہ ٹھیک ٹھاک سست واقع ہوئی تھی۔ البتہ اپنا خیال اسے اکثر و بیشتر آ جایا کرتا تھا۔ سورج کی کرنیں ہوں یا پھر چاند کی روشنی لوٹاتی رومانٹک رات صفائی ستھرائی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ گھر میں تو امی پاپا اور بڑی بہنوں کی موجودگی میں وہ اپنی اس خصوصیت سے واقف نہ بھی مگر اب بخوبیادرک ہور ہا تھا۔ گھر کا کام بڑے سلیقے سے ہو جاتا ۔ ایسا علی کرتا تھا۔ ایسا شریک سفر ملنے پر وہ پھولی نہ سماتی وہ کام والی رکھنا نہیں چاہتا تھا ۔ کوئی تیسرا اسے منظورنہ خوب دل سے تیار ہو کر وہ وہیں بستر پر ڈھیر ہو جاتی وقت بے وقت سونا اور بیٹھے بیٹھے سو جانا ۔ بے ضرر معصوم عادت آج بھی ویسی کی ویسی تھی اور پھر جب علی جیسا پیار کرنے والا شوہر ہو پھر تو ہونٹوں سے ہنسی اور آنکھوں سے نیند کیونکر جدا ہوتی بھلا۔۔ اب بھی جی بھر کر سونے کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو علی کو اپنے سر پر کھڑے پایا۔ یہ کھانا ذرا نکال دو۔ تندوری چرغہ اور گرما گرم نان ایک دم سے اس نے علی کا سہارا لینا چاہا اور ایک انداز دل ربائی سے نیچے اترنے لگی – دیکھ کے اترو ابھی گر جاتا ” ہا ئیں یہ انہیں کیا ہوا دل نے ایک بیٹ مس تو کی مگر صبا نے دل کو سہارا دے لیا۔ اس کے بدلے ہوئے موڈ کو تھکاوٹ کا نام دے کر چل دی۔ ساری پلیٹوں پہ تیل کی چکناہٹ اور کوئی بھی پلیٹ صاف نہیں تھی ۔ چولہے پر مارے باندھے بنائے گئے صبح کےپراٹھوں سے گراآٹا اور چائے کے داغ اف اب کیا کرے۔ جلدی سے نل کھول کر وہ سستی سے پلیٹ دھونے لگی۔ پتا نہیں کتنی دیر ہو گئی تھی اسے کہ بیڈ روم سے علی کی کرخت آواز سنائی دی تھی۔ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ تم آرہی تھی یا نہیں ؟” علی کی محبت سے لبریز آواز میں تلخی ۔ وہ اتنا کرخت کیوں ہو گیا ہے آج آفس پروبلم یقیناً۔ وہ بیڈ روم میں جب داخل ہوئی ایک اور حقیقت اس پر آشکار ہوئی کہ علی کھانا کھا کر لیٹ چکا تھا۔ آج وہ بہت پریشان بھی ہو گیا تھا زندگی اس ڈگر کیسے گزرسکتی تھی ۔ بھلا روزانہ تھک ہار کر آؤ اور دھول مٹی سے اٹا گھر منتظر ہو ۔ روز وہ صفائی ستھرائی کرنے کی خود میں ہمت نہیں پاتا تھا ۔ ادھر صبا اپنے ائیر رنگز اور چوڑیاں اتار کر دراز میں رکھتی جارہی تھی کہ محبت کا زمانہ رخصت ہوا اور خزانوں کے شادی شدہ موسم ڈیراڈالنے آ گئے ہیں۔ سادہ سا چہرہ لیے اداسی کی کیفیت میں آدھا ادھورا کھانا کھا کر کچن میں چلی آئی جہاں بے ترتیبی اس کی راہ دیکھ رہی تھی۔ کہاں سے شروع کرے جب شروع کیا تو رات ساڑھےدس بجے وہ فارغ ہو کر بیڈ کی دوسری طرف لیٹ گئی۔ آج بہت سارے درد بھرے اشعار یاد آنے لگے تھے ۔ شیشے کی کھڑکی کےپار آج پت جھڑ کا موسم شروع ہونے لگا تھا – کمرہ مکمل تاریکی اور خاموشی میں ڈوب چکا تھا اور پتا نہیں کب اس نے الٹے سیدھے خواب دیکھنا شروع کیے۔ جب وہ علی کو ناشتہ دے کرپودوں کو دیکھنے میں مگن تھی کہ بل ہوئی وہ جلدی سے بال سمیٹ کر گیٹ تک آئی ۔ مرجھائی ہوئی گھاس کے اندر اس کے پاؤں نے گیٹ کی دوسری طرف کالے پاؤں دیکھے تھے۔ یہ شہلا تھی اس کی کزن دونوں کی دوستی عروج پر سدا رہتی جو اس کی شادی نہ ہو جاتی ۔ خیالوں کا ہجوم تھا اس بھیڑ سےنکلنا مشکل تھا۔ وہ چھوٹا گیٹ کھولنے لگی۔ اتنی دیرکر دی یار کیا ہو گیا تھا میں تو کھڑے کھڑے سوکھ گئی ۔” شہلا بہت ہنسنے بولنے والی معصوم سی لڑکی تھی بہت ہی ذہین اور محبت کرنے والی۔ ارے یہ کیا حال کر لیا ہے اپنا ۔ وہ کہے بغیر رہ نہیں کی۔ میرڈ ہو گئی ہوں یارا کیا کرو۔ م ۔ دیوار پر اس کی اور علی کی تصویر بہت ہنستی کھلکھلاتی ہوئی تھی اور اب ہنسی اس کے لبوں سے بھی جدا ہونےکو تھی ۔ تصویر واقعی بہت پیاری تھی۔ اچھا اب بتاؤ کیا ہوگی ۔” شہلا صوفے میں دھنسنے کی کوشش میں ایک بار پھر گیلے تو لیے پہ بیٹھ چکی تھی اور وہاں مٹی کا احساس بھی ہوا تھا تولیہ ہٹا کر وہ بیٹھ چکی تھی مگر وہ سکون نہ محسوس کر سکی جس کی چاہ میں وو بیٹھی تھی ۔ گرم چائے کا کپ لبوں سے لگاتے وہ اسے بتانے لگی کہ کیسے آج وہ اس کی طرف آ نکلی۔ صبا ٹھنڈے ہاتھ پاؤں سمیت اس کی باتیں ایک کانسے سن کر دوسرے سے باہرنکلتی رہی – سارادن علی بھائی کے پاس ہی بیٹھی رہتی ہو تم ” شہلا اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر بولی۔ کہاں بھئی وہ آتے ہی دیر سے ہیں۔” وہ خود کو ہی بہت اداس لگی تھی آج ۔ “تم میرے کمرے میں چلو، اچھی سی مووی دیکھیں گے پرانے د نوں کی طرح ” پہلے مل کر گھر صاف ستھرا نہ کرلیں ۔ ” علی بھائی کو اچھا نہیں لگے گا ۔” “تم گیسٹ ہو بھئی میری۔ اچھا نہیں لگتا ۔ ارے چھوڑو اور چلو آؤ۔” شہلا کام کاج میں بہت نفاست پسند اور پھر تیلی تھی تھوڑے سے ٹائم میں اس نے سارا گھر چمکا دیا تھا۔ فریج میں دودھ دلاری کے باؤل اور گرین کارلک ر ائس بنائے رکھے تھے ان دونوں نے چکن قورمہ اور تازہ روٹیاں بنائی تھیں۔ صاف ستھری چمکتی ہوئی میز پر صاف پلیٹس لگا دی تھیں۔ کھانا اور گرم روٹی نے علی کو سرشار کر دیا تھا۔ سانولی سلونی شہلا اور صبا نے اس کا استقبال کیا تھا۔ گرم چائے کے تین کپ صبا نے بنائے اور علی کا چہرہ دیکھنے لگی جہاں اسے خوشگوار موڈ کا سگنل ملا تو وہ ذراسی ناراض ہو کر اس کے منانے کا انتظار کرنے لگی کہ آکر وہ ہی اسے منائے اور اپنے بُرے رویے کی معافی طلب کرے۔ شہلا بڑے اچھے موڈ میں ا سے اپنی دلچسپیاں اورپرو جیکٹس کے بارے میں بتارہی تھی اور ساتھ ساتھ صبا کی باتیں بھی۔ اس کا مزاج شوخیاں شرارتیں آج علی بہت خوش لگ رہا تھا اور وہ اسے دیکھے جارہی تھی۔ کہیں پڑھا تھا کہ مرد کی محبت پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو اس کے بھی سارے محبت کے دعوے جھوٹے ینکلے ۔ شام سے ذرا پہلے کے وقت جب شہلا جانے لگی تو وعدہ کر کے گئی کل امی کے ساتھ چکر لگائے گی۔ شہلا کے جانے کے بعد علی نے کہا تھا۔ لڑکیوں کو ایسا ہی سگھڑ اور گھر دار ہونا چاہیے، جیسی شہلا ہے۔” یہ ایک اور طعنہ تھا جو منانے کے نام پر مارا گیا تھا۔ جب امی آئیں تو انہیں صبا مرجھائی ہوئی لگی۔ کملائے ہوئے پھول جیسی اور پھول سی بچی ۔ رونے لگی۔شہلا نے اسے گھر کے کام کاج میں دلچسپی لینے اور پھرتی دکھانے کے طریقے سکھائے اور پھر کام کروا کے دکھتی گئی کہ سستی کہاں ہے اور اگر ٹائم ٹیبل بنا کر کام کرے تو ہر کام سیدھا ہو جائے گا۔ رخسانہ کے بھی دل کو لگی تھیں شہلا کی ساری باتیں ۔ شہلا اور صبا میں عمر کا فرق سال بھر کاہی تو تھا اور شہلا ایسی سمجھ دارتھی یہامی جانتی تھیں اللہ کرے کہ اس بچی کے بھی نیک نصیب ہوں اور جلد ہی اپنے گھر کی ہو جائے اور ان کی صبا بھی لگی بندھی روٹین اپنا لے علی کی محبت کے لیے وہ سب کچھ کر سکتی تھی کھانا بنانا جانتی تھی اور محنت کر کے اور ان کی رہنمائی میں اور سدھار آ سکتا تھا روایتی ماؤں کے بجائے انہوں نے سمجھ دار ماں کی طرح سوچا ادھر شہلا صبا کو ٹائم ٹیبل سمجھا رہی تھی چھوٹی چھوٹی باتیں اورصبا عمل بھی کرتی۔ ایک بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے صبا کہ دنیا کے کسی بھی مرد کے دل کا راستہ پیٹ سے ہو کر ہی جاتا ہے۔ اچھے اچھے کھانے بنا کر انہیں منا ڈالو آخری بات پر وہ خود ہی ہنس پڑی اور صبا کی امی بھی – صبا نے بھی پر سکون انداز میں خود کو بدلنا شروع کر دیا تھا گو کہ یہ ایک مشکل ترین کام تھا ناممکن نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ یہ بھی شہلا کی طرح گھر کے کاموں کی روح کو سمجھنے لگی تھی ۔ امی کو فون کر کے اپنی کار کردگی بتائی تو انہوں نے بتایا کہ شہلا کے لیے فہد بھائی نے انکار کر دیا ہے یہ کہہ کر ان کی رنگت گوری نہیں ہے۔ سرخ سپید لڑکیوں سے زیادہ سمجھ دار – ہیرا صفت شہلا کو ٹھکرانا نادیہ پھوپھو جیسے لوگوں کا ہی کام ہو سکتا تھا۔ علی اور وہ بہت خوشگوار موڈ میں کھانا کھا رہے تھے تم بہت اچھی ہو جانم۔ وہ تو جانم سے خانم بنے جاری تھی کہ شہلا نے اسے روک لیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ذائقہ بھی تھا اور سلیقہ بھی وہ خود کوشا باشی د یتی کچھ اور بھی سوچ رہی تھی۔وہ آپ ۔ کے دوست ہیں نا اگر بھائی ان کی امی کسی بہت ہی اچھی لڑکی کی تلاش میں ہیں ناں تو آپ انہیں شہلا کا کیوں نہیں بتا دیتے ۔ اس نے راہ دکھائی۔ یہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں ایسی لڑکی کا ساتھ پا کر دعا ئیں دے گا ہمیں احمر ” یہ بات بالکل سچی تھی یہ شہلاہی تھی جس نے اس کے گھر کے آنگن کو تاریک ہونے سے بچا لیا تھا ورنہ تو وہ تلخ رویوں اور بدگمانیوں کے جنگل میں نجانے کب کی گم ہو چکی ہوتی ۔(ختم شد) !