Offline
- Thread Author
- #1
1میری بہن کا مجرا اور گینگ ریپ ۔
پہلی قسط
یری عمر 17 سال ہے اور میں لاہور کا رہنے والا ہوں۔ میں ایف ایس سی کر رہا ہوں. میری ایک بہن ہے جس کا نام ثنا ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ وہ میٹرک میں پڑھتی ہے۔ ثنا کا فگر اس عمر میں بھی گو بچگانہ مگر قیامت ڈھانے والا ہے۔ 32 کے نوکیلے ممے، 22 پیٹ اور 34 کے چوتڑ اور رنگ گورا ہے۔ چڑھتی جوانی کے باعث وہ بے حد سیکسی دکھتی ہے۔ میں جب بھی اپنی بہن کو دیکھتا ہوں تو لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے خصوصاً جب ثنا نے ٹائٹ قمیض شلوار پہن رکھی ہو۔
میں اس کے نام کی روزانہ مٹھ لگاتا ہوں۔ میں نے بہت چاہا کہ اسے چود لوں لیکن ہمیشہ یہی سوچ کر ڈرتا رہا کہ کہ یں وہ کسی کو بتا نہ دے۔ اس لیے سوچا کہ کہ پہلے ثنا کو اپنے قریب کر لوں اور اس سے فرینک ہو جاؤں پھر موقع تلاش کروں گا۔
ایک دن ویک اینڈ پر میں بالکل فارغ تھا اور میری بہن ثنا نے آج ٹائٹ سی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے جسم کے تمام خطوط واضح نظر آ رہے تھے۔ میرا لنڈ تو جھٹکے کھا رہا تھا اور میں تصور کی آنکھ سے اسے چودتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پھر میں نے سوچا کیوں نہ آج اسے گھمانے لے جاؤں اس طرح اس کے اور قریب ہو جاؤں گا۔
میں اپنی بہن کے قریب گیا اور اس سے کہا "ثنا میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلو گی؟"
وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے ایسی آفر نہیں کی تھی۔ وہ بولی "آج خیریت تو ہے نا بھائی؟"
میں نے کہا "ہاں یار! آج فارغ ہوں اور کوئی دوست بھی نہیں ہے۔۔۔ سوچا تمھیں لے چلتا ہوں"۔
وہ بہت خوش ہوئی اور بولی "ہاں بھائی! چلتے ہیں، میرا بھی سیر کرنے کا بہت دل کر رہا ہے"۔
بس پھر کیا تھا۔ میں تو بہت خوش ہوا کہ اپنی بہن کے ساتھ دوستی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ خوب وقت گزرے گا۔ میں امی کے پاس گیا اور ان سے اجازت لی۔ انھوں نے کہا "ہاں جاؤ لیکن بائک دھیان سے چلانا اور زیادہ دور نہ جانا۔ جلدی واپس آ جانا"۔ میں نے امی کے گال کو چومتے ہوئے ان سے "او کے" کہا اور ثنا سے کہا "چلو ثنا! چلتے ہیں"۔
ثنا نے کہا "بھائی! میں کپڑے بدل لوں۔۔۔"
میں نے کہا "ارے نہیں! نہیں! تم ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی ہو"۔
اس نے کہا "اچھا" اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور ہم بائک پر بیٹھ کر نکل پڑے۔
میں نے سوچا کسی سنسان جگہ جائیں جہاں لوگ نہ ہوں اور یہ سوچ کر میں ہائی وے پر آ گیا۔ وہاں پاس ہی بہت خوبصورت گاؤں تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔
میری بہن نے دیکھ کر کہا "بھائی! یہ تو بہت خوبصورت جگہ ہے"۔
میں نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے ایک طرف بائک پارک کی اور ہم پیدل ہی سیر کرنے لگے۔ وہاں ایک خوبصورت سا باغ بھی تھا۔ ہم دونوں بہن بھائی سیر کرتے کرتے کچھ دور نکل آئے تھے۔ وہاں دیکھا تو ایک بہت بڑی اور خوبصورت حویلی زیرِ تعمیر تھی لیکن اندر باہر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید آج ویک اینڈ کی وجہ سے چھٹی ہو اس لیے کام بند ہو۔ میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے 4 بج رہے تھے اور ہم گھر سے 3 بجے نکلے تھے۔میری بہن کو بھی وہ حویلی بہت شاندار گی تھی، تبھی اس نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں یہ حویلی اندر سے دیکھنی چاہیے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہوتا، میں تو خود اپنی بہن کے ساتھ سنسان سے سنسان جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ ہم حویلی کے احاطے میں داخل ہو گئے جو کہ اندر سے بھی ابھی پوری طرح نہیں بنی تھی لیکن اس کے باوجود کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ یقیناً کسی بہت بڑے زمیندار کی ملکیت ہو گی۔ ہم ابھی حویلی کو اندر سے گھوم پھر کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک کہیں سے پنجابی گانے کی اونچی سی آواز سنائی دی۔
میری بہن بولی "یہ گانوں کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا"۔
میں نے کہا "آؤ! دیکھتے ہیں۔۔۔ شاید کوئی چوکیدار یہاں رہتا ہو اور اسی نے گانے لگائے ہوئے ہوں"۔
ہم آواز کے تعاقب میں ایک زیرِ تعمیر کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں اور گانوں کی آواز بھی اسی تہہ خانے سے آ رہی تھی۔ میں اور میری بہن یہ سوچ کر نیچے اترنے لگے کہ یقیناً کوئی چوکیدار ہو گا لیکن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر ایک موڑ مڑ کر ہم تہہ خانے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کمرے کا منظر دیکھ کر ہماری سٹی گم ہو گئی، میرا بھی چہرا سرخ ہو گیا تھا اور میری بہن نے تو مارے شرم کے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ وہاں تقریباً 8 لڑکے بیٹھے ہوئے شراب اور سگریٹ پی رہے تھے اور ان کے درمیان 2 لڑکیاں جو رنڈیاں لگ رہی تھیں سر سے پاؤں تک ننگی ناچ رہی تھیں۔
میری بہن نے مجھ سے کہا "چلو بھائی چلیں! یہ اچھے لوگ نہیں ہیں"۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ان میں سے ایک لڑکے کی نظر ہم پر پڑ گئی اور وہ ہمیں دیکھ کر زور سے چیختا ہوا بولا "اوئے کون ہو ہو تم؟" اور اس کی آواز پر اس کی نظروں کے تعاقب میں سب ہماری جانب دیکھنے لگے۔
میں نے کہا "سوری بھائی! ہم غلطی سے آ گئے تھے اس طرف۔۔۔ آپ فکر نہ کریں ہم جا رہے ہیں"۔
ان میں سے ایک لڑکے نے پستول نکال کر ہم پر تان لیا اور بولا "اوئے زیادہ ہوشیاری نہ دکھاؤ۔۔۔ اندر آؤ"۔ میں اور میری بہن ڈرتے ڈرتے اندر چلے آئے۔ میری بہن نے اپنا دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر اور سینے پر لے لیا تھا۔ میں نے اندر آ کر کہا "بھائی! میں سوری کرتا ہوں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ لوگ نیچے ہو"۔
پستول والا لڑکا بولا "اوئے تجھے کس نے بھیجا ہے اور یہ لڑکی کون ہے؟"
میں نے کہا یہ میری چھوٹی بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے اتفاقاً آ گئے ہیں"۔
اس بات پر وہ لڑکے ہنس پڑے اور ان میں سے ایک بولا "ابے بھڑوے! یہ تیری بہن ہے یا گرل فرینڈ جسے تو یہاں چودنے کے لیے لایا ہے"۔
میں نے کہا "قسم سے بھائی یہ میری بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے آ گئے ہیں"۔ وہ رنڈیاں بھی مجرا بند کر کے کھڑی ہو کر ہماری طرف دیکھ کر اور میری باتوں پر ہنس رہی تھیں۔
ان میں سے ایک لڑکا بولا "اوئے بہن چود! کوئی اپنی بہن کو لے کر سنسان جگہوں پر آتا ہے کیا؟ ہمیں چوتیا سمجھتا ہے۔"
میں نے کہا "نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ میں قسم کھا رہا ہوں آپ کے سامنے"۔
وہ بولا "چل ٹھیک ہے۔۔۔ مان لیتے ہیں یہ تیری بہن ہے لیکن چیز تو مست ہے"۔ اس لڑکے نے ان رنڈیوں کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھا "کیوں بھئی! مست چیز ہے نا؟"
ایک رنڈی بولی شکل سے تو کم عمر ہی لگتی ہے لیکن پتا نہیں کتنوں سے چدوایا ہو گا"۔
مجھے بہت غصہ چڑھا اور میں نے اسے کہا "تو خود رنڈی ہے۔۔۔ میری بہن ایک شریف لڑکی ہے۔" اس پر وہ رنڈی ہنسنے لگی۔
میری بہن بہت گھبرائی اور سہمی ہوئی تھی اور اس نے شرم سے اپنا منہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ اس نے مجھے کہا "بھائی! چلو یہاں سے۔۔ ۔ان کے منہ نہ لگو"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بھی کہا "او کے چلو!" یہ سن کر ایک لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آیا اور بولا "گانڈو! تو اور تیری بہن یہاں آئے اپنی مرضی سے ہیں لیکن جاؤ گے ہماری مرضی سے"
باقی آئیندہپہلی قسط
یری عمر 17 سال ہے اور میں لاہور کا رہنے والا ہوں۔ میں ایف ایس سی کر رہا ہوں. میری ایک بہن ہے جس کا نام ثنا ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ وہ میٹرک میں پڑھتی ہے۔ ثنا کا فگر اس عمر میں بھی گو بچگانہ مگر قیامت ڈھانے والا ہے۔ 32 کے نوکیلے ممے، 22 پیٹ اور 34 کے چوتڑ اور رنگ گورا ہے۔ چڑھتی جوانی کے باعث وہ بے حد سیکسی دکھتی ہے۔ میں جب بھی اپنی بہن کو دیکھتا ہوں تو لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے خصوصاً جب ثنا نے ٹائٹ قمیض شلوار پہن رکھی ہو۔
میں اس کے نام کی روزانہ مٹھ لگاتا ہوں۔ میں نے بہت چاہا کہ اسے چود لوں لیکن ہمیشہ یہی سوچ کر ڈرتا رہا کہ کہ یں وہ کسی کو بتا نہ دے۔ اس لیے سوچا کہ کہ پہلے ثنا کو اپنے قریب کر لوں اور اس سے فرینک ہو جاؤں پھر موقع تلاش کروں گا۔
ایک دن ویک اینڈ پر میں بالکل فارغ تھا اور میری بہن ثنا نے آج ٹائٹ سی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے جسم کے تمام خطوط واضح نظر آ رہے تھے۔ میرا لنڈ تو جھٹکے کھا رہا تھا اور میں تصور کی آنکھ سے اسے چودتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پھر میں نے سوچا کیوں نہ آج اسے گھمانے لے جاؤں اس طرح اس کے اور قریب ہو جاؤں گا۔
میں اپنی بہن کے قریب گیا اور اس سے کہا "ثنا میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلو گی؟"
وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے ایسی آفر نہیں کی تھی۔ وہ بولی "آج خیریت تو ہے نا بھائی؟"
میں نے کہا "ہاں یار! آج فارغ ہوں اور کوئی دوست بھی نہیں ہے۔۔۔ سوچا تمھیں لے چلتا ہوں"۔
وہ بہت خوش ہوئی اور بولی "ہاں بھائی! چلتے ہیں، میرا بھی سیر کرنے کا بہت دل کر رہا ہے"۔
بس پھر کیا تھا۔ میں تو بہت خوش ہوا کہ اپنی بہن کے ساتھ دوستی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ خوب وقت گزرے گا۔ میں امی کے پاس گیا اور ان سے اجازت لی۔ انھوں نے کہا "ہاں جاؤ لیکن بائک دھیان سے چلانا اور زیادہ دور نہ جانا۔ جلدی واپس آ جانا"۔ میں نے امی کے گال کو چومتے ہوئے ان سے "او کے" کہا اور ثنا سے کہا "چلو ثنا! چلتے ہیں"۔
ثنا نے کہا "بھائی! میں کپڑے بدل لوں۔۔۔"
میں نے کہا "ارے نہیں! نہیں! تم ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی ہو"۔
اس نے کہا "اچھا" اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور ہم بائک پر بیٹھ کر نکل پڑے۔
میں نے سوچا کسی سنسان جگہ جائیں جہاں لوگ نہ ہوں اور یہ سوچ کر میں ہائی وے پر آ گیا۔ وہاں پاس ہی بہت خوبصورت گاؤں تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔
میری بہن نے دیکھ کر کہا "بھائی! یہ تو بہت خوبصورت جگہ ہے"۔
میں نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے ایک طرف بائک پارک کی اور ہم پیدل ہی سیر کرنے لگے۔ وہاں ایک خوبصورت سا باغ بھی تھا۔ ہم دونوں بہن بھائی سیر کرتے کرتے کچھ دور نکل آئے تھے۔ وہاں دیکھا تو ایک بہت بڑی اور خوبصورت حویلی زیرِ تعمیر تھی لیکن اندر باہر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید آج ویک اینڈ کی وجہ سے چھٹی ہو اس لیے کام بند ہو۔ میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے 4 بج رہے تھے اور ہم گھر سے 3 بجے نکلے تھے۔میری بہن کو بھی وہ حویلی بہت شاندار گی تھی، تبھی اس نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں یہ حویلی اندر سے دیکھنی چاہیے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہوتا، میں تو خود اپنی بہن کے ساتھ سنسان سے سنسان جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ ہم حویلی کے احاطے میں داخل ہو گئے جو کہ اندر سے بھی ابھی پوری طرح نہیں بنی تھی لیکن اس کے باوجود کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ یقیناً کسی بہت بڑے زمیندار کی ملکیت ہو گی۔ ہم ابھی حویلی کو اندر سے گھوم پھر کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک کہیں سے پنجابی گانے کی اونچی سی آواز سنائی دی۔
میری بہن بولی "یہ گانوں کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا"۔
میں نے کہا "آؤ! دیکھتے ہیں۔۔۔ شاید کوئی چوکیدار یہاں رہتا ہو اور اسی نے گانے لگائے ہوئے ہوں"۔
ہم آواز کے تعاقب میں ایک زیرِ تعمیر کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں اور گانوں کی آواز بھی اسی تہہ خانے سے آ رہی تھی۔ میں اور میری بہن یہ سوچ کر نیچے اترنے لگے کہ یقیناً کوئی چوکیدار ہو گا لیکن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر ایک موڑ مڑ کر ہم تہہ خانے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کمرے کا منظر دیکھ کر ہماری سٹی گم ہو گئی، میرا بھی چہرا سرخ ہو گیا تھا اور میری بہن نے تو مارے شرم کے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ وہاں تقریباً 8 لڑکے بیٹھے ہوئے شراب اور سگریٹ پی رہے تھے اور ان کے درمیان 2 لڑکیاں جو رنڈیاں لگ رہی تھیں سر سے پاؤں تک ننگی ناچ رہی تھیں۔
میری بہن نے مجھ سے کہا "چلو بھائی چلیں! یہ اچھے لوگ نہیں ہیں"۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ان میں سے ایک لڑکے کی نظر ہم پر پڑ گئی اور وہ ہمیں دیکھ کر زور سے چیختا ہوا بولا "اوئے کون ہو ہو تم؟" اور اس کی آواز پر اس کی نظروں کے تعاقب میں سب ہماری جانب دیکھنے لگے۔
میں نے کہا "سوری بھائی! ہم غلطی سے آ گئے تھے اس طرف۔۔۔ آپ فکر نہ کریں ہم جا رہے ہیں"۔
ان میں سے ایک لڑکے نے پستول نکال کر ہم پر تان لیا اور بولا "اوئے زیادہ ہوشیاری نہ دکھاؤ۔۔۔ اندر آؤ"۔ میں اور میری بہن ڈرتے ڈرتے اندر چلے آئے۔ میری بہن نے اپنا دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر اور سینے پر لے لیا تھا۔ میں نے اندر آ کر کہا "بھائی! میں سوری کرتا ہوں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ لوگ نیچے ہو"۔
پستول والا لڑکا بولا "اوئے تجھے کس نے بھیجا ہے اور یہ لڑکی کون ہے؟"
میں نے کہا یہ میری چھوٹی بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے اتفاقاً آ گئے ہیں"۔
اس بات پر وہ لڑکے ہنس پڑے اور ان میں سے ایک بولا "ابے بھڑوے! یہ تیری بہن ہے یا گرل فرینڈ جسے تو یہاں چودنے کے لیے لایا ہے"۔
میں نے کہا "قسم سے بھائی یہ میری بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے آ گئے ہیں"۔ وہ رنڈیاں بھی مجرا بند کر کے کھڑی ہو کر ہماری طرف دیکھ کر اور میری باتوں پر ہنس رہی تھیں۔
ان میں سے ایک لڑکا بولا "اوئے بہن چود! کوئی اپنی بہن کو لے کر سنسان جگہوں پر آتا ہے کیا؟ ہمیں چوتیا سمجھتا ہے۔"
میں نے کہا "نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ میں قسم کھا رہا ہوں آپ کے سامنے"۔
وہ بولا "چل ٹھیک ہے۔۔۔ مان لیتے ہیں یہ تیری بہن ہے لیکن چیز تو مست ہے"۔ اس لڑکے نے ان رنڈیوں کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھا "کیوں بھئی! مست چیز ہے نا؟"
ایک رنڈی بولی شکل سے تو کم عمر ہی لگتی ہے لیکن پتا نہیں کتنوں سے چدوایا ہو گا"۔
مجھے بہت غصہ چڑھا اور میں نے اسے کہا "تو خود رنڈی ہے۔۔۔ میری بہن ایک شریف لڑکی ہے۔" اس پر وہ رنڈی ہنسنے لگی۔
میری بہن بہت گھبرائی اور سہمی ہوئی تھی اور اس نے شرم سے اپنا منہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ اس نے مجھے کہا "بھائی! چلو یہاں سے۔۔ ۔ان کے منہ نہ لگو"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بھی کہا "او کے چلو!" یہ سن کر ایک لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آیا اور بولا "گانڈو! تو اور تیری بہن یہاں آئے اپنی مرضی سے ہیں لیکن جاؤ گے ہماری مرضی سے"