justcool
Well-known member
Offline
میری پیاری چچی
میری نظریں اس وقت ان بڑے اور موٹے چوتڑوں پر تھیں جو اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے اگے پیچھے گھوم رہے تھے، بڑے ، مظبوط اور چوڑے چوتڑ چچی کے ہر قدم کے ساتھ ہلتے اور میرے لن پر بجلیاں گرا دیتے میں مجبوراََ محصوم سی شکل بنائے اور اپنی ٹانگوں کہ بیچ میں اپنے ہتھِیار کو چھپائے اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اس آفت کے پرکالے کو دیکھ رہا تھا۔ یہ میری چچی سمیرا تھیں جو سب سے چھوٹے چچا کے ساتھ بیاہی گئیں تھیں، میرے والد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اس لیئے دونوں چاچاوں کی طرف سے اپنی اپنی بیگمات کو میرے والد کے بارے میں خاص ہدایات تھیں اور وہ ان کا احترام اپنے والد کی ہی طرح کرتے تھے اور ان کی بیگمات بھی ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی تھیں۔ اس وقت میں چھوٹے چچا کے گھر میں تھا چونکہ امی ابو دونوں مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیئے ایک مہینے کے لیئے سعودیہ جا رہے تھے اور میرے دونوں بڑے بھائی اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ پہلے ہی ملک سے باہر تھے، روانگی سے پہلے جب چھوٹے چچا جب ابو سے ملنے اور مبارک باد دینے آَئے تو انھوں نے ابو سے ضد کی کہ وہ جاتے ہوئے مجھے ان کے گھر چھوڑ جائیں ابو نے کافی منع کیا کہ اب ریحان بڑا ہو گیا ہے اور اپنا خیال رکھ سکتا ہے مگر چچا نہیں مانے اور انھوں نے ابو کو راضی کر ہی لیا اور میری دلی خواہش پوری ہو گئی۔
میرا نام ریحان ہے میں بیس سال کا ہوں، جسمانی طور پر عام سا اور دماغی طور پر شیطان کا بھی باپ یعنی میرے دماغ پر ہر وقت یا تو شہوت سوار رہتی ہے یا پھر کسی کو پھسانے اور چودنے کے خیالات، شکل صورت سے معصوم لگتا ہوں جس کا میں بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں یونی کے لیکچرار سے لے کر لیب اسیسٹنٹ اور سینیَر جونیر کئی لڑکیاں اور عورتیں میرے لن کا مزہ چکھ چکی ہیں عام طور پر میری عمر کے لڑکوں کو جگہ کی کمی مار دے جاتی ہے پر میرے پاس ہمارے پرانے گھر کی چابی ہے جو خالی پڑا ہوا ہے جسے میں اپنے مقاصد لے لیئے بھرپور استعمال کرتا ہوں۔
چچی سمیرا کی شادی میرے چھوٹے چچا سے کوئی دس سال پہلے ہوئی تھی، میں اس وقت دس سال کا تھا مگر اس وقت بھی چچی کو دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا تھا، کیونکہ چچی ناصرف خوبصورت تھیں بلکے دھیمے لہجے والی اور بھرپور جسم کی مالک عورت تھیں، چچا اور چچی کی جوڑی مثالی کہی جاتی تھی پر ابھی تک وہ دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور شاید وہ دونوں اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر بیٹھے تھے۔ چچی اور چچا کا پیار بہت تھا اور میرا اندازہ تھا کہ چچا نے ان کے ساتھ کوئی رات بھی ضائع نہیں کی ہو گی کیونکہ شادی کے بعد چچی کا جسم انتاہی دلکش ہو گیا تھا۔ صورت تو پہلے ہی لاجواب تھی مگر اب جسم کا ہر حصہ اپنی طرف بلاتا محسوس ہوتا ہے، پانچ فٹ چھ انچ قد کے ساتھ بھرا ہوا جسم جس کی نمایاں خصوصیات بڑے اور گول ممے، مظبوط اور موٹی رانیں، موٹی اور چوڑی گانڈ، لمبے اور سیاہ بال، چوڑے کندھے، سرخ و سپید رنگ اففف کیا توپ چیز ہے میری چچی بھی۔ کبھی کبھی مجھے چچا سے حسد ہونے لگتا اور ان کی قسمت پر رشک آنے لگتا، کئی دفعہ میں نے چچی کی طرف پیش قدمی کرنے کا بھی سوچا پر ایک تو چچی اپنے شوہر سے انتاہی وفادار ہیں دوسرا ابو کے لتروں کا خوف تیسرا مناسب مواقع کی کمی بھی رہی ہے، بارحال اب کی بار میرے پاس پورا مہینہ تھا۔
اس وقت جب چچی گھر کی صفائی کر رہی تھیں اور میں بظاہر ٹی وی دیکھ رہا تھا پر جب ایسا ائیٹم سامنے مٹکتا پھر رہا ہوں کون کمبخت کسی اور طرف دیکھ سکتا ہے، میری نظر چچی کی تشریف پر چپک گئی تھیں اور میرا دل اس تشریف سے لپٹنے اور چومنے کا کر رہا تھا، تب ہی چچی نے مجھے سے پوچھا ریحان بیٹا آج یونی نہیں جانا کیا تو میں نے دل ہی دل میں چچی کے بیٹا بلانے پر برا مناتے ہوئے کہا نہیں چچی سمیسٹر ختم ہو گیا ہے نہ اس لیئے ڈیڑھ میہنے کی چھٹیاں ہیں، چچی نے سر ہلایا اور جھک کر ٹیبل پر کپڑا مارنے لگیں، مجھ سے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اور لن صاحب تھے جو میری ٹانگوں کے بیچ میں سے بھی سر اٹھا اٹھا کر مجھے گالیاں دے رہے تھے۔ میں نے سوچا ریحان بیٹا کچھ کرنا پڑے گا ورنہ ساری عمر اپنے لن سے زلیل ہوتا رہے گا۔ پر کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں کیونکہ یہ تو چچی تھیں کوئی اور عورت نہیں کہ جن کے ساتھ میں فلرٹ کروں ایک دو ٹرائی ماروں گرم ہوئی اورموقع ہوا تو کام بن جائے گا ورنہ جائے بھاڑ میں کہ اپنے لن کو ٹھنڈ ہے۔ یہ وہ خاتون ہے جو خود پیش قدمی نہ کرے یا کوئی ایسا اشارہ نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور ادھر لن نے خودکشی کی دھمکی دی ہوئی ہے کہ اگر اس جسم کی لزت نہ چکھائی تو کسی کی پھٹی ہوئی چوت میں سر دے کر اپنا اپ جلا لے گا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں اور کیا نہ کروں دو دن گزر چکے تھے اور رات کو چچا کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی اتی آوازوں کے ساتھ ہی لن نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا تھا اب تو لن کا سرکش رویا میرے لیئے پرشانی کا باعث بنتا جا رہا تھا، جو چچی کو دیکھتے ساتھ ہی ضد شروع کر دیتا تھا یہ لینی ہے مجھے نہیں پتا لے کر دو اور ساتھ ہی اپنا اپ اکڑا کر رونا شروع کردیتا دل تو کرتا تھا کہ اس سے کہوں جا کر لے خودکشی پر کیا کروں دل میں بھی خواہش تھی کہ کاش ایک دفعہ موقع مل جائے پھر اپنی تمام حسرتیں پوری کر لوں گا۔ اور پھر وہ موقع مل ہی گیا، میرا چچا کے گھر شفٹ ہوئے چوتھا روز تھا، رات کو کھانے کے ٹیبل پر چچا نے چچی اور مجھ سے کہا کہ انھیں پندرہ دن کے لیئے کراچی جانا ہے، میرے چچا جونکہ چارٹرڈ اکاوٹنٹ ہیں اس لیئے انھیں کبھی کبھی شہر سے باہر جانا پڑتا ہے اگر انھیں زیادہ دنوں کے لیئے باہر جانا ہو تو وہ چچی کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ مگر اس دفعہ میں ان کے گھر پر تھا تو انھوں نے اکیلے ہی جانا مناسب سمجھا، یہ سنتے ہی میرے دل میں ڈھول بجنا شروع ہو گیا اور نیچے لن نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیا ادھر دماغ چلنے لگا کہ کیا کرنا ہے ان پندرہ دنوں میں کہ یہ پھل میری گود میں آ گرے۔
رات کو چچا کے کمرے سے مجھے لڑائی کی آواز بھی ائی مگر اس کے بعد وہی جان لیوا ٹھک ٹھکا ٹھک، لن نے سر اوپر اٹھایا اور کہا دیکھ بھیا اگر ان پندرہ دنوں میں تو نے مجھے ان باغوں کی سیر نہ کرائی نا تو میں ساری عمر کے لیئے کھڑا نہیں ہوتا پھر پھرتا رہیں مجھے لٹکا کے اور کرتا رہیں میری منتیں میں نے بھی ٹٹوں سے یاری لگا لینی ہے اور ان سے ہی باتیں کرنی ہیں۔ لن کی یہ بکواس سن کر میرے ٹٹے سچ مچ شارٹ ہو گئے اور دماغ کو کرنٹ لگا، میں نے لیپ ٹاپ کھولا اور پنگ ویاگرا کے بارے میں پڑھنے لگا، چونکہ جب مجھے پتہ چلا تھا کہ میں نے ایک مہینے کے لیئے چچا کے گھر شفٹ ہونا ہے تو میں نے پنگ ویاگرا کافی مقدارمیں منگا لی تھی جس کی وجہ سے میری جیب کافی ہلکی ہو گئی تھی، جن لوگوں کو پنگ ویاگرا کا نہیں پتہ ان کو بتاتا چلوں، کہ یہ ایک گولی ہے جو ویاگرا کی ہی طرح کام کرتی ہے پر یہ عورتوں کےلیئے ہے، چونکہ ویاگرا خون کا پریشر جنسی عضو کی طرف بڑھا کر لن کی سختی اور سیکس کی خواہش کو بڑھاتی ہے پر اس کے سائیڈ افیکٹ بھی بہت زیادہ ہیں، عورت کی سیکس کی خواہش کا تعلق اس کے عضو کے ساتھ کم اور دماغ کے ساتھ زیادہ ہے اس لیئے کئی دفعہ ویاگرا عورتوں پر اثر نہِیں کرتی اور ان میں بیماریوں کو جنم دیتی ہے، جبکہ پنگ ویاگرا عورت کے دماغ پر اثر کرتی ہے اور ایسے مواد خارج کرتی ہے جو عورت میں شہوت کو بڑھاتی ہے۔ اس گولی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ لینے کے لیئے امینوایسڈ کی مقدار بھی بڑھانی چاہیے اور اس گولی کا لگاتار استعمال ہی اس کا سہی فائدہ دیتا ہے۔
میں یہ تو جانتا تھا کہ چچی کو عادت پڑ چکی ہے روز سیکس کی اور ایک یا دو دن بعد ہی ان کو طلب ہونے لگے گی پر وہ شاید اس کو کنٹرول کر لیں اگر میں ساتھ کوئی طریقہ استعمال کروں تو ان سے برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا۔
میں نے سوچ لیا تھا کہ جو مرضی ہو جائے پر ٹرائی مارنی ہے، میں سوچنے لگا کہ یہ گولی کس طرح چچی کو استعمال کروانی ہے، میں نے چچی کی روٹین اور ان کی عادتوں کا اچھی طرح جائزہ لیا، میں نے دیکھا کہ چچی چائے کا استعمال زیادہ کرتی ہیں اور چائے کھلے دودھ کی پیتی ہیں اور میں ڈبے کے دودھ کی چائے پینے کا عادی ہوں، میں چاچی کے دودھ میں گولی ملا سکتا تھا، پر میں نے گولی کا اثر بھی دیکھنا تھا، میں اٹھا اور ایک کپ میں دودھ لے کر کمرے میں آ گیا پھر اس میں گولی پیس کر مکس کی گولی نے دودھ کے رنگ پر کوئی اثر نہیں ڈالا پھر میں نے ہلکا سا چکھ کر دیکھا دودھ کا ذائقہ بھی نہیں بدلہ تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ روز دو گولی چچی کے دودھ میں ملانی ہیں کیونکہ اس کا کوئی سائڈ افکیٹ میری نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیئے میں اس کا بے دھڑک اور شدید استعمال اپنی چچی کو کرانا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ یہ پردہ ختم ہو گیا تو پھر موجاں ہی موجاں۔
مجھے یہ تو پتہ تھا کہ چچا کے جانے کے بعد یہ دودھ میں نے ہی لے کر انا ہے اور دودھ لاتے وقت ہی میں اس میں گولیاں پیس کر ملا سکتا تھا، پر گولیوں کے علاوہ بھی مجھے کچھ ایسا کرنا تھا کہ چچی کا اپنے اوپر قابو نہ رہے اور مجھے اپنے اوپر چڑھا لیں۔
صبح جب چچا چلے گئے تو میں نے اپنے پلین کے مطابق دو دو گولیوں کو پیس کر ان کے پیکٹ بنا لیئے اور ایک پیکٹ جیب میں رکھ لیا، میں ناشتے کے بعد اپنے لیپ ٹاپ پر کوئی مووی دیکھ رہا تھا کہ تب ہی وہ آفت میرے پاس آئی اور کہا ریحان بیٹا ذرا دودھ تو لا دو مارکیٹ سے میں نے بےواقوف بنتے ہوئے پوچھا کون سا نیسلے یا کوئی اور تو چچی اپنی پاگل کر دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں نہیں یار کھلا دودھ لے کر آو میں نے پھر پوچھا کتنا تو انھوں نے کچھ سوچ کر کہا ایک لیٹر ہی لے آو ٹھرو برتن دیتی ہوں، میرا دل تیز دھڑک رہا تھا چچی مڑی اور اپنی چوڑی اور خوبصورت بنڈ مٹکاتی کچن کی طرف گئی تو لن کو آگ لگ گئی اور اس نے وہی رونا شروع کر دیا مجھے نہیں پتا لے کر دو میں نے لن کی گردن دبا کر اس کی سانس بند کی اور اسے خاموش کروایا اور کہا مروائے گا صبر کر تھوڑا سا، چچی برتن لے کر کچن سے باہر ائی تو لگا کہ دنیا سلو موشن میں چلنے لگی ہے اور چچی کے ہر قدم کے ساتھ ان کے خوبصورت ممے ہلکا سا جھٹکا لیتے اور لن سسکی لے کر رہ جاتا، میں نے جب دیکھا کہ چچی نے میری گندی نظروں کو نوٹس کرنا شروع کر دیا ہے تو میں نے سر جھکا لیا اور لن کی کلاس لی خود بھی مرے گا مجھے بھی مروائے گا، چچی نے برتن مجھے پکڑایا اور کچھ کرنسی نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے میں نے وہ لینے سے انکار کر دیا تو چچی نے اپنا ہاتھ مجھے دکھاتے ہوئے کہا بچے تھپڑ کھاو گے یہ لو اور کوئی نخرہ نہیں، میں نے بھی جواب دیا مار لو آپ پر میں آپ سے نہیں لوں گا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی وہ تو شکر ہے یونی بند تھی ورنہ میری ہلکی جیب نے بڑا پریشان کرنا تھا، خیر دودھ لے کر میں گاڑی میں آ بیٹھا اور ارد گرد کا جائزہ لے کر اپنی جیب سے پیکٹ نکالا اور دودھ میں ڈال دیا اور برتن بند کر اپنے آپ سے کہا لے بیٹا یا تو آر یا پھر پار۔
سارا دن گزر گیا تھا پر چچی کے رویے میں کوئی بدلاو نہیں آیا تھا، اور میں سوچ رہا تھا کہ میری انوسٹمنٹ ضائع گئی، اگلا دن پھر کچھ خاص نہیں ہوا تھا، میں مایوس ہوتا جا رہا تھا، تیسرا دن تھا آج چچی کو پنگ ویاگرا ستعمال کرواتے ہوئے پر کچھ نہیں ہو رہا تھا، میں نے دوبارہ سے اس گولی کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا، مگر ہر جگہ اس گولی کے بارے میں سب صیع لکھا ہوا تھا، مگر ایک چیز ہر ہی جگہ لکھی تھی کہ یہ گولی لگاتار استعمال سے فائدہ دیتی ہے میرے پاس صرف بارہ دن رہ گئے تھے مگر ارادےمظبوط تھے میں نے فیصلہ کر لیا کہ آخری دن تک گولی دودھ میں ملاوں گا شاید آخری رات ہی کچھ ہو جائے۔
چوتھا روز تھا چچی کو گولی استعمال کرواتے ہوئے میں کال آف ڈیوٹی کھیل رہا تھا میں نے ہیڈ فون لگائے ہوئے تھے مجھے نہیں پتہ چلا کہ چچی میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ہیں اور مجھے کھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہیں، اگر کسی نے ٹیم کمبیٹ میں حصہ لیا ہو تو اسے پتہ ہو گا کہ لڑکے کتنی گندی گالیاں اور زبان استعمال کرتے ہیں، چچی دوسری طرف کی آواز تو نہیں سن سکتی تھی پر میں جو کچھ بکواس کر رہا تھا وہ انتہائی بے ہودہ تھا، چچی حیران پریشان سی مجھے بکواس کرتے ہوئے سن رہیں تھیں پھر انھوں نے مجھے اواز دے کر اپنی موجودگی کی احساس دلانے کی کوشش کی پر ایکسپلوزوز اور گن تھنڈر کی وجہ سے مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا چچی میری بے ہودہ بکواس کافی دیر تک سنتی رہیں اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلیں گئیں۔
شام کو کچھ دوستوں سے ملنے باہر جانے لگا تو میں چچی کو بتانے کے لیئے ان کے کمرے کی طرف گیا، میرے زہن میں اس وقت خاص نہیں تھا پر میں نے جو اس وقت میں نے چچی کو جس حالت میں دیکھا اس نے میری حالت خراب کر دی، چچی بستر پر الٹی لیٹیں تھیں اور ان کی ٹانگوں کے بیچ میں تکیہ تھا، چچی کی موٹی بنڈ اس وقت قہر ڈھا رہی تھی، میرا دل کیا کہ میں ابھی اس بنڈ پر چڑھ جاوں اور اس کے ہر انچ کو محسوس کروں اسے چوموں اسے چاٹوں پر کیا کروں میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں دوبارہ کمرے سے باہر آیا اور کمرے سے نکل کر سوچا بیٹا اگر اسی طرح چلتا رہا تو کچھ نہیں کر پائے گا اور یہ موقع بھی نکل جائے گا۔ میں نے باہر جانے کا ارادہ بدل لیا اور چاچی کو گھیرنے کا فیصلہ کیا، میں نے وہیں کھڑے کھڑے آواز لگائی چاچی، چاچی کدھر ہو، تھوڑی دیر بعد کمرے سے آواز آئی ریحان میں یہاں ہوں، میں کمرے میں داخل ہوا اور کہا چچی میں نے چائے پینی ہے بنا دو گی کیا، چچی نے مسکرا کر کہا کیوں نہیں میرے بچے بس دس منٹ میں فریش ہو جاوں پھر بنا دیتی ہوں اور اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئیں ان کے قیامت خیز ممے اور وہ ہلتی مٹکتی گانڈ میرے صبر کے تمام بند توڑ رہی تھی۔
میں گیلری میں آ کر بیٹھ گیا اور سامنے لان اور پھولوں کو دیکھنے لگا، ایک پھول مجھے پسند ایا میں نے اسے قریب سے جا کر دیکھا اور پھر اسے توڑ لیا، چچی مجھے آواز دے رہیں تھیں میں نے جواب دیا باہر ہوں، تو وہ ہاتھ میں ٹرے پکڑی باہر ائیں جس میں دو کپ چائے تھی، انھوں نے ایک کپ مجھے پکڑایا اور دوسرا خود اٹھا کر ٹرے ٹیبل پر رکھ دی میں نے وہ پھول جو ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا چچی کی طرف بڑھا دیا، چچی نے مسکرا کر وہ پھول میرے ہاتھ سے لے لیا اور کہا شکریہ میرے بچے، میرے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور لن کی ہنسی چھوٹ گئی جو سر اٹھا اٹھا کر مجھے کہہ رہا تھا بڑا آیا رومیو شکل دیکھ اپنی، وہ سمجھ رہی ہے تیرے پاس سامان پورا نہیں ہے، اسے دکھا کہ تو پورے سے زیادہ سامان رکھتا ہے ایک دفعہ میری صورت تو دکھا دے اسے پھر دیکھیں کیسے تیرے نیچے ہوتی ہے۔
میں نے چچی کی طرف دیکھا اور کہا چچی بور نہیں ہوتی آپ سارا دن گھر رہ رہ کر میں تو بور ہو گیا ہوں، کہیں باہر چلیں گھومنے تو چچی نے کہا نہیں ریحان میں آپ کے چچا کہ ساتھ ہر جگہ جاتی ہوں اور میں ان کے بخیر کہیں نہیں جاتی، لن نے پھر کہا ہور چوپ لے مزے، میں خاموش ہو کر چائے پینے لگا۔
رات کو کھانے کہ بعد میں نے ایک مووی لگا لی اور بیٹھ کر دیکھنے لگا، چچی بھی میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں، مووی کوئی وار مووی تھی، اور آپ کو پتہ ہے امریکن فوجی گندی زبان کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں، چاچی نے جب دیکھا کہ یہ وہی بکواس ہو رہی ہے جو میں دوپہر کو گیم کھیلتے وقت کر رہا تھا، تو انھوں نے کہا اچھا یہ ساری گالیاں اور بکواس تم نے یہاں سے سیکھیں ہیں، میری گانڈ پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی، چچی پھر بولیں بیٹا بہت گندی بات ہے تم بہت بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہو، شرم سے میرے پسینے چھوٹ گئے، چچی نے پھر کہا میں بھابی سے بات کروں گی کہ تم پر نظر رکھیں تم ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہو، میں نے نظر آٹھا کر دیکھا اور چچی کو کہا چچی غلطی ہو گئی معاف کر دیں پر کیا کروں سب لڑکے اس طرح کی ہی بکواس کرتے ہیں مجھے بھی جواب دینا ہوتا ہے تو اس طرح کی بکواس ہی منہ سے نکلتی ہے۔ چچی ہنس پڑیں اور کہا ڈرو نہیں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی مجھے پتہ ہے کہ تم لڑکے کس طرح کی باتیں کرتے ہو، اچھا یار کوئی اور مووی لگاو یہ کیا لگایا ہوا ہے ، میری سانس میں سانس آئی اور میں نے چچی سے پوچھا کہ کوں سی مووی لگاوں تو انھوں نے کہا کہ کوئی انڈین مووی لگا دو، ہمارے درمیان برف پگھل رہی تھی پر ابھی بہت سے پردے اور منزلیں باقی تھیں۔
میں نے کوئی انڈین مووی لگا دی جو مجھے ابھی یاد نہیں ہے جب اس طرح کی عورت اتنے پاس بیٹھی ہو تو کوئی ٹھنڈی سٹ کی پیداورہی کسی اور طرف دھیان دے گا، خیر چچی مووی دیکھ رہی تھیں اور میں چوری چوری ان کو دیکھ رہا تھا، چچی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری ٹانگ پر رکھ لی اور صوفے کی ٹیک اور بازو سے لگ کر آرام سے بیٹھ گئیں، اور ادھر میری حالت پتلی ہو گئی، افف کیا ران تھی اور کیا ہی گانڈ ہو گی، میرا تو سانس بند ہو رہا تھا پر لن نے ادھم مچایا ہوا تھا لینی ہے لینی ہے لے کر دو میں نے آرام سے اپنی ٹانگوں کے بیچ میں لن کو پھسا کر اسے دبا دیا، پھر میں نے بھی اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنی دوسری ٹانگ پر رکھی تاکہ بلوتوتھ کنکشن تو صیح بنے، مجھے لگا کہ چچی نے میری اس حرکت کو نوٹ کیا ہے اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی، میں بھی چچی کی طرح صوفے کے دوسرے کونے پر بیٹھا ہوا تھا، پھر چچی نے مسکراتے ہوئے اپنی پوزیشن صیح کی اور میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی صیع ہو کر بیٹھنے میں ہی بہتری سمجھی، چچی ہنس پڑیں اور مجھے کہا ریحان میری نقل اتار رہے ہو، میں نے ان کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر کہا جی، تو انھوں نے مصنوعی سا غصہ کرتے ہوئے کہا کیوں مجھے تنگ کرنا چہا رہے ہو، میں نے بھی لاپرواہی سے کہا ہاں تھوڑا سا، وہ پھر ہنس پڑیں اور بولی کیوں ، تو میں نے فوراََ کہا یار اتنے دن ہو گئے ہیں نہ کسی کی ڈانٹ کھائی ہے نہ کسی سے لتر اوپر سے آپ انتاہی بور ہو، چچی کے ماتھے پر بل پڑے اور کہا ریحان کیا میں واقعی ہی میں بور ہوں، تو میں نے کہا نہیں تو اور کیا پتہ نہیں میرا کیا بنے کا ان بیس بائیس دنوں میں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا تجھے لتر کھانے ہیں تو میں لگا دیتی ہوں اس میں اتنا پریشان ہونے والی کون سی بات ہے، میں نے کہا ایسے نہیں کھانے مجھے کوئی لتروتر کوئی وجہ بھی تو ہو آپ کیا سمجھ رہیں ہیں کہ میں آرام سے کھا لوں گا مار، نہیں میڈم جی امی کو بھی اپنا چھتر مجھے مارنے کے لیئے کم از کم سو دو سو میٹر سپرینٹ کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں نشانے پر چھتر مارنے کی، چچی میری باتیں سن کر ہنس رہیں تھیں اور وہ مجھے کوئی معصوم سا شرارتی بچہ سمجھ رہیں تھیں اور یہ بات میرے فائدے میں تھی۔
خیر اسی طرح کی فضول باتیں کرتے کرتے چچی مجھ سے کافی فری ہو گئیں، جب رات کے گیارہ بجے تو ان کے موبائیل پر چچا کا فون آ گیا اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں، میں مایوس ہو گیا کہ لو آج کا دن بھی ضائع ، میں نے تھوڑی دیر مووی دیکھی انتاہی بکواس اور فضول سی کوئی مووی تھی، میں نے ٹی وی بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا، تب ہی مجھے چچی کے کمرے سے چچی کی آواز آئی یار بہت مس کر رہی ہوں آپ کو، پتہ نہیں کیسے گزریں گے یہ دن پتہ نہیں دوسری طرف سے کیا کہا گیا مگر جو چچی نے کہا وہ میرے لیئے کسی سرپرائز سے کم نہیں تھا، یار آگ لگی ہوئی ہے نیچے اور آپ کہہ رہے ہو کہ صبر کروں مجھ سے نہیں ہو رہا صبر یہ عادت بھی آپ نے ہی ڈالی ہے نہ بس اب آ جاو نا یار، میرے تو طوطے آڑ گئے کہ چچی اتنی گرم ہے افف افف۔ میں نے اپنے لن کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے کمرے میں جا کر لن کو سمجھایا بیٹا تھوڑا صبر کر لے بس ایک یا دو دن گیم اپنے کورٹ میں آ چکی ہے تھوڑی احتیاط کرنی ہے، کام تو آج بھی ڈال سکتا تھا پر مجھے لمبے ٹائم کے مزے چاہیں یہ نہ ہو کہ ایک دفعہ کہ بعد چھٹی ہو جائے۔
صبح میں جلدی اٹھ گیا اور فریش ہو کر کچن کی طرف گیا تو دیکھا کہ کچن میں کوئی نہیں ہے میں نے چچی کے روم کی طرف جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا یعنی چچی سو رہی ہیں، میں نے کچن میں جا کر اپنے لیئے چائے بنائی اور پھر کچھ سلائس گرم کر کے ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا، میں ناشتہ کر رہا تھا کہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ ہڑبڑا کر باہر نکلیں، اور مجھے دیکھ کر تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا سوری ریحان رات کو نیند نہیں آئی اور بہت دیر سے سوئی اس لیئے صبح جلدی نہیں اٹھا گیا، میں نے مسکرا کر کہہ اٹس او کے، آپ نے ناشتہ کرنا ہے نا چلیں آج آپ کا ناشتہ میں بناتا ہوں، آپ فریش ہو جائیں، چچی ہنس پڑیں اور کہا تم اور ناشتہ واہ کیا بات ہے، میں نے کہا آپ مجھے انڈرایسٹیمیٹ کر رہی ہیں، آپ فریش ہو کر ائیں میں ناشتہ بناتا ہوں پھر بات کریں گے میرے سکلز کے بارے میں، چچی نے سر ہلایا اور مسکراتی دوبارہ اپنے کمرے میں گھسنے لگیں تو میں نے کہا، میڈیم ناشتے میں کیا پسند فرمائیں گی، تو چچی نے مسکراتے ہوئے کہا چائے اور اوٹس فلیکس، میں نے با اخلاق بٹلر کی طرح ہاتھ باندھ کر سر کو ہلکا سا جھکایا اور پھر پوچھا اور کچھ میڈیم، چچی نے قہقہ لگایا اور کہا بکواس نہیں کرو ریحان مجھے پہلے ہی شرم آ رہی ہے، میں نے دوبارہ سر جھکایا اور کہا جیسے آپ کی مرضی اور مڑ کر کچن کی طرف جانے لگا، جب دیکھا کہ چچی ہنستی مسکراتی اپنے کمرےمیں چلی گئیں ہیں تو میں نے جلدی سے ٹیبل سے چائے کا کپ اٹھایا اور ایک بڑا سا سپ لے کر چائے ختم کی اور کچن میں گھس گیا، میں نے چچی کے لیئے چائے بنانا شروع کی اور فلیکس ایک باول میں نکال کر اسے ایک ٹرے میں رکھا اور جلدی سے کچھ فروٹس کے سلائس بنا کر ٹرے میں سجائے اور پھر دودھ ایک جار میں ڈال کر فلیکس کے ساتھ رکھے اور ایک تنقیدی نظر ٹرے پر ڈالی تو کچھ سلائس دوبارہ ترتیب سے رکھے پھر چائے نکال کر ایک کپ میں ڈالی اور اسے بھی ٹرے میں رکھ دیا تب ہی لگا کہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے میں نے جلدی سے ایک کپڑا اٹھا کر اپنے ایک بازو پر ڈالا اور اسی ہاتھ میں ٹرے پکڑ کر اپنا ایک ہاتھ پیچھے باندھا اور کچن سے نکلتے ہوئے ایک واس سے ایک پھول نکال کر اپنے پیچھے والے ہاتھ میں پکڑ لیا، چچی نے مجھے دیکھا تو کرسی پر بیٹھ گئیں میں ان کی کرسی کے پیچھے گیا اور جھک کر کہا میڈیم آپ کا ناشتہ اور ٹرے ان کے سامنے رکھ دی، چچی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں پھر پھول والا ہاتھ اگے کیا اور ان کے سامنے پھول کرتے ہوئے کہا فار یو میڈیم، پہلے تو ان کی انکھوں میں شرم کی جھلک نظر ائی اور پھر ستائشی نظر سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھینک یو مسٹر ریحان اور میں نے سر جھکا کر کہا ویلکم میڈیم، اور چچی نے میرے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا یار بس کرو اب شرم آ رہی ہے مجھے، میں نے مسکراتے ہوئے کرسی کھینچی اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، چچی مجھے دیکھتے ہوئے ہنس رہی تھیں اور میں ان کی ہنسی کو انجوائے کر رہا تھا، پھر وہ خاموش ہوئیں اور بولیں تیری تو بیگم کے مزے ہوں گے ریحان قسم سے، میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا پتہ نہیں کب آئیں گے وہ دن، چچی پاگلوں کی طرح ہنسنے لگیں اور میں ان کی ہنسی میں کھو گیا، چچی نے ہنستے ہوئے ہی کہا بہت جلدی ہے میں بات کرتی ہوں بھائی صاحب سے کہ لڑکا بہت مچل رہا ہے، میں نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے اور دونوں ہاتھوں کو ان کے سامنے جوڑ کر مٹھی بناتے ہوئے کہا پلیز چچی آپ کا احسان ہو گا کوئی ابو کو بھی تو سمجھائے کہ پڑھائی کے علاوہ بھی غم ہیں، چچی کا ہنس ہنس کر برا حال ہو چکا تھا ان کا گلابی چہرہ لال ہو گیا تھا ان کی انکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور ان کے موتی جیسے ترتیب سے لگے دانت دیکھ دیکھ کر میرا دل واقع میں دھڑکنا بھول گیا تھا، چچی نے ہنستے ہوئے اپنی انکھیں صاف کیں اور پھر کہا ریحان تم گھر میں بھی ایسے ہی ہوتے ہو، میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیسے، تو چچی تھوڑا سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں ایسے ہی جیسے یہ حرکتیں کر رہے ہو، میں نے جواب دیا اور ایسے ہی روز لترول ہوتی ہے میری ان ہی حرکتوں کی وجہ سے کبھی امی اور کبھی ابو پھینٹی لگا رہے ہوتے ہیں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا تمھیں شرم نہیں اتی اتنے بڑے ہو گئے ہو پھر بھی ان کی مار کھاتے ہو، میں نے بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ایسی بات نہیں ہے پر عادت سے مجبور ہوں اور ان کی مار بھی کیا مار ہے وہ بھی تو پیار سے مارتے ہیں اور اگر ابو کبھی غصہ ہو بھی جائیں تو آرام سے سن لیتا ہوں سب کچھ ویسے بھی تو پتہ نہیں باہرٹکے ٹکے کے لوگ کیا کہتے رہتے ہیں ان کی باتیں بھی سنتے ہیں وہ تو امی ابو ہیں ان کی تو کیا ہی بات ہے۔ چچی نے میرے سر میں ہاتھ پھیرا اور میرے بالوں کو خراب کیا اور کہا واہ بہت عقلمند ہو میں تو سمجھتی تھی کہ تم بھی آج کل کے لڑکوں کی طرج بے پروا ہو گے ہر چیز سے، میں نے چچی کا ہاتھ پکڑ لیا جو میرے سر پر تھا اور کہا یار میرا سٹائل خراب کر دیا پھر گھنٹہ لگے گا، چچی نے میرے گال پر ایک ہلکا سا تھپڑ لگایا اور کہا کوئی نہیں خراب ہوا آرام سے بیٹھ، اور اپنا ناشتہ کرنے لگیں
چچی نے ناشتہ کیا اور پھر کہا ریحان بہت شکریہ چلو پکی دوستی کرتے ہیں میں آج بہت دنوں بعد اس طرح ہنسی ہوں اور اتنا اچھا ناشتہ کیا ہے تھینکس، میں نے منہ بنا کر کہا تو کیا میں اپ کا دوست نہیں ہوں چچی نے میرے گال پر چٹکی کاٹی اور کہا دوست تو ہو پر کچے والے آج پکی دوستی کر لو، میں نے اپنا گال مل کر کہا یار ایک تو یہ بہت گندی عادت ہوتی ہے آپ آنٹیوں کی گال ہی لال کر دیتی ہو، چچی پھر قہقہ لگا کر ہنسنے لگیں اور دونوں ہاتھوں کو میرے گالوں کی طرف بڑھایا تو میں نے دوڑ لگا دی چچی ہنستے ہوئے میرے پیچھے دوڑ پڑیں، اور کہا رک میں آنٹی لگتی ہوں تجھے، میں نے بھی دوڑتے ہوئے کہا چچی کو انگریزی میں آنٹ ہی کہتے ہیں، چچی رک گئیں اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر سانس لیتے ہوئے کہا، ٹھیک ہے پھر اور ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئیں، میں ان کے پاس گیا اور کہا کیا ہوا، تو چچی ایک دم کھڑی ہو گئیں اور میرے دونوں گالوں پر چٹکی کاٹ لی اور ہنسنے لگیں میں نے رونے والی شکل بناتے ہوئے کہا کوئی دوستی نہیں آپ سے یار آپ تو بہت بے رحم ہو، چچی نے ہنستے ہوئے مجھے جھپی ڈالی اور جہاں مجھے چٹکی کاٹی تھی وہاں پیار کرتے ہوئے کہا اچھا نا یار سوری، نیچے لن غش کھا کر آپے سے باہر ہو رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اگر اج میں نے لوہے کا کچھا بھی پہنا ہوتا تو لن صاحب نے اسے بھی پھاڑ کر شور مچا دینا تھا، لینی ہے لینی ہے مجھے نہیں پتہ لے کر دو۔
چچی مجھ سے علیدہ ہوئیں اور کہا اچھا میں چینج کر کے آتی ہوں پھر کچھ گراسری لینی ہے وہ لے آتے ہیں مارکیٹ سے، میں نے کہا اوکے میں بھی چینج کر لوں شاید کوئی لڑکی ہی پھس جائے میرے ساتھ اور میری بھی موجیں ہو جائیں، چچی نے مسکراتے ہوئے ایک تھپ میری کمر پر لگایا اور کہا باز آ جاو ریحان، میں نے حیرانی سے کہا کس چیز سے میڈیم جی، تو بولیں اپنی حرکتوں سے، میں نے کہا یار زندگی میں تھوڑا رنگ بھی ہونا چاہیے نا ورنہ تو ساری عمر آپ جیسی آنٹیاں لاڈ کر کر کے ہی کسی کام کا نہیں چھوڑیں گی، چچی کو پہلے میری بات کی سمجھ نہیں لگی مگر جب لگی تو اپنے پاوں سے جوتی اتارتے ہوئے کہنے لگیں شرم کر، میں ہنستا ہوا اپنے کمرے میں گھس گیا۔ میں نے چینج کی اور اپنے آپ کو مرر میں دیکھا اور خود کی تعریف کرتے ہوئے کہا چل شکاری میدان کھلا ہے اور شکار سامنے ہے۔ اور کمرے سے باہر آ گیا، اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا، تھوڑی دیر میں چچی بھی باہر آ گئیں، جب وہ باہر نکلیں تو میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی اف سفید کلر کی قمیض اور نیچے جینز جو بہت مشکل سے ان کی گانڈ اور رانوں کو چھپا رہی تھی، پھر وہ دوپٹہ کھلے بالوں پر، اور پاوں میں ہیل والے سینڈل اففف توبہ، میں نے چچی کو دیکھتے ہوئے کہا کیا ارادہ ہے میڈیم جی، تو چچی نے پہلے اپنے اپ کو دیکھا پھر مجھے دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا کیوں کیا ہوا، میں نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میڈیم باہر کسی کو نہیں پتہ کہ اپ کسی کی منقوح ہیں اور دوچار نے ویسے ہی لڑک جانا ہے آپ کو دیکھ کر اور چار پانچ نے رشتہ بھجوا دینا ہے اور کچھ میرے جیسوں نے صرف آہیں بھرنی ہیں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا اویں فضول بکواس کرتا رہتا ہے، کچھ نہیں ہوتا پر ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ہر عورت میں شدت سے پائی جانے والی بیماری ان میں بھی موجود ہے، جب انھوں نے مجھے کہا چلو تو میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا مانا کہ آپ کے دیوانے شہر میں ہزار ہوں گے پر اتنی صبح کون الوکا پٹھا دکان کھولے گا، چچی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور بولیں ہاں ٹھیک کہہ رہےہو، پر کیا مطلب میرے دیوانے، میں نے کہا میڈیم جب اپ باہر نکلتی ہوں گی تو لوگ تو اپ کو ہی دیکھتے ہوں گے نا اپنا کام کون دیکھتا ہو گا، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا ریحان یار شرم کر میں تیری چچی ہوں، میں نے بھی سر جھکا کر کہا اوکے چچی جان، تو وہ ہنس پڑیں اور میرے پاس بیٹھتے ہوئے کہا باز نہیں ائے گا اس فلڑٹ کرنے سے، میں نے ان کی طرف دیکھے بخیر کہا کون بدقسمت اپ سے فلرٹ کرنا چاہے گا جو بھی چاہے گا وہ سب کچھ حقیقت میں ہی چاہے گا، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا توبہ ہے یار تمھاری بھی کسی رانجھے کے جاننشین، میں نے بھی اچھل کر صوفے پر اپنی پوزیشن ٹھیک کرتے ہوئے کہا مطلب اپ میری ہیر ہیں، چچی نے ایک لمبی سی سانس لی اور کہا ریحان بس کر میں نے انگلی منہ پر رکھتے ہوئے کہا اوکے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد چچی میرے قریب ہوئیں اور بولیں سچ میں تیری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے، میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کوئی آپ جیسی ملی ہی نہیں ورنہ اسے گرل فرینڈ کیا اپنی لائف پاٹنر بنا لیتا چاہے ابو سے روز لترول کروانی پڑتی، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا میں اچھی لگتی ہوں آپ کو، تو میں نے بھی ان کسی معصوم سے عاشق کی طرح سر جھکا کر ہلکا سا کہا بہت زیادہ، چچی ہنس پڑیں اور کہا تو باز نہیں ائے گا میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں نے تھوڑی شروع کیا تھا اپ خود ہی پوچھتی ہو پھر مجھ پر ہی غصہ کرنے لگتی ہو، اور جو دل میں ہے وہ زبان پر آ جاتا ہے۔
مجھے اندازہ تھا کہ گولیوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے چچی کی چوت اس وقت لن مانگ رہی ہے کیونکہ تمام اشارے ٹھیک اسی طرف تھے، اب یہ میرا فرض بنتا تھا کہ اس چوت کو ٹھنڈا بھی کروں اور اپنا دیوانہ بھی بنا لوں اس کے لیئے مجھے تھوڑا اور صبر کرنا تھا ورنہ لوہا تو اب گرم ہو ہی چکا تھا پر میں اس لوہے کو پگھلا کر اپنی مرضی کی مورت بنانا چہاتا تھا۔
چچی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اچھا کیا پسند ہے اپ کو مجھ میں، میں بے بھی کسی اجڑے ہوئے عاشق کی طرح جواب دیا پوچھیں کیا نہیں پسند آپ میں مجھ کو، چچی نے حیرت سے میرے کندھے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا اچھا چل بتا کیا نہیں پسند، اس وقت اس بلا کے ممے میرے بازو سے ٹچ ہو رہے تھے اور میرا حلق خشک ہو رہا تھا ان کے جسم سے اٹھتی ہوئی مہک نے مجھے فل ٹن کر دیا تھا، میں نے تھوک نگلتے ہوئے چچی جان قسم سے اپ میں کوئی ایسی بات نہیں جو مجھے پسند نہ ہو، انھوں نے لمبا سا ہوں کیا اور کہا واہ میرے رانجھے آپ تو بہت بڑے فلرٹ ہو، میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں آپ کو فلرٹ کرتا ہوا لگ رہا ہوں تو چچی نے ہاں میں سر ہلا دیا، میں نے روٹھنے والے انداز میں ان کا بازو اپنے کندھے سے ہٹایا تو لن نے کہا کمبخت کیا کر رہا ہے، تو دل نے جواب دیا بڑی جنگ جیتنے کی لیئے چھوٹی موٹی لڑائیاں ہارنی پڑتی ہیں۔ چچی نے میرا روٹھنا دیکھا تو ہنستے ہوئے کہا اوئے میرے رانجھے بس اتنی سی ہی برداشت ہے، میں نے کوئی جواب نہیں دیا، چچی نے تھوڑا سیریس ہوتے ہوئے کہا کیا ہوا برا لگا، میں نے نہیں میں سر ہلا دیا، چچی نے پھر کہا تو یہ کیا ہے، میں نے کہا برا نہیں لگا اپنے آپ پر افسوس ہوا کہ کیسے سمجھ لیا کہ آپ میری فیلنگز سمجھ جائیں گی، چچی نے میرے بازو کو پکڑا اور پھر میرا چہرے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف گھما کر کہا، ریحان تمہیں پتا ہے کہ تم کیا بات کر رہے ہو، میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ہاں پتا ہے اس لیئے ہی خاموش ہو گیا تھا کہ آپ برا مان جائیں گی، چچی نے غور سے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے میرے گال پر پیار کیا اور کہا نہیں سمجھ رہی آپ کو غلط پر اپ کو میری طرف سے نہ روکنا غلط ہے، میں نے کسی برباد عاشق کی طرح کہا میں کچھ مانگ تو نہیں رہا اپ سے بس اپ کو خوش دیکھنا چاہ رہا ہوں، چچی کی گرم سانسیں میرے انگ انگ میں آگ لگا رہیں تھیں اور ان کی وہ نظریں اس آگ پر تیل ڈال رہیں تھیں، چچی نے کہا تم بہت چھوٹے ہو یہ سب سمجھنے کے لیئے پر جیسے ہو بہت اچھے ہو بس ایسے ہی رہو اس سے اگے بربادی ہے میری جان، میں نے پھر اسی لہجے میں جواب دیا میں اپنی جگہ پر ہی ہوں اور آپ کے لیئے ساری عمر ایسے رہنے کے لیئے بھی تیار ہوں۔ چچی نے میرے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے میں نے انکھیں بند کر ان نرم اور نم ہونٹوں کی طلب کو محسوس کیا مگر اپنے آپ کو کچھ کرنے سے روکے رکھا، حتہ کہ لن نے نیچے غدر مچایا ہوا تھا، چچی نے جب میری طرف سے کوئی پیش قدمی محسوس نہیں کی تو اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے ہٹایا میری بند انکھوں پر رکھ کر باری باری چوما، میں نے انکھیں کھولیں اور ان کے دور ہوتے ہوئے چہرے کے پیچھے ہاتھ رکھ کر ان کے ہونٹوں سے دوبارہ ہونٹ جوڑ لیئے، کبھی اوپر والے لب کو چومتا کبھی نیچے والے لب کو پھر اپنی زبان سے ان کے ہونٹوں کو علیدہ کیا اور زبان کو ان کے منہ میں دے دیااور ان کے منہ کے اندر اس زبان کو گھمانا شروع کر دیا، چچی کی سانس بہت تیز ہو گئی تھی انھوں نے ایک دم اپنے ہونٹوں کو سختی سے بند کیا اور میری زبان کو چوسنا شروع کر دیا، میرے ٹٹے بھی مجھے اپنے پیٹ میں محسوس ہوئے جنھیں لن نے ٹھڈوں پر رکھا ہوا تھا، عجیب سا سرور تھا وہ بھی، میں سچ مچ میں اس خاتون کا دیوانہ بنتا جا رہا تھا، میں نے بہت سی عورتوں کے ساتھ یہ سب کیا تھا پر جو مزا اور سرور اس وقت آ رہا تھا اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، چچی نے کافی دیر میری زبان کو چوسا اور پھر اپنے ہونٹ کھول دیئے اور میں نے اپنی زبان ان کے منہ سے نکال کر ان کے لبوں پر پھیری تو چچی نے اپنی تیز سانسوں کے ساتھ میری طرف دیکھا میں نے ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے رکھا ہوا تھا پر دوسرا ہاتھ میرا صوفے کے بازو پر ہی پڑا تھا جسے میں نے جان بوجھ کر حرکت نہیں دی تھی، چچی نے ایک لمبی سانس لی تو میں نے ان کے سر کے پیچھے سے ہاتھ ہٹا کر ان کا ایک ہاتھ پکڑا اور اسے چومتے ہوئے کہا تھینک یو مائی لو، چچی نے حیرانی سے میری انکھوں میں دیکھا جیسے شہوت کو تلاش رہی ہوں پر میرے جیسا استاد آسانی سے پکڑائی نہیں دیتا میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے دنیا جہان کی محبت اپنے چہرے پر سجا لی، چچی مسکرائیں اور کہا ریحان تم واقعی ہی میں بہت چھوٹے ہو، میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو کیا محبت پر حق صرف عمر والوں کا ہے، کیا میں آپ سے محبت نہیں کر سکتا، چچی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ریحان میں تمھاری چاچی ہوں، جو کچھ میں نے کیا وہ بہت غلط کیا ہے میں نے اور شاید میں ساری عمر اپنے اپ سے شرمندہ رہوں، میں نے افسردگی کو اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے کہا اگر اپ کو میری محبت کا جواب محبت سے دینے میں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے تو میں اس شرمندگی کو ختم کرنے کے لیئے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں آپ ایک دفعہ حکم تو کریں، چچی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ریحان میرے بچے تم نہیں سمجھ رہے ہو میں بیوی ہوں تمھارے چچا کی اور یہ سب کچھ بہت غلط ہے، میں نےسر ہلایا اور کہا کچھ غلط نہیں ہے میں نے کون سا اپ کو ان سے تعلق توڑنے کو کہا ہے میں نے کون سے اپنی محبت کا جواب آپ سے محبت میں مانگا ہے، میں تو بس اس احساس کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں کہ کوئی ہے جس کے لیئے میں اہم ہوں اور وہ میرے لیئے سب کچھ، میری اتنی بھاری اور وزنی باتیں سن کر تو بڑی بڑی گھاگ عورتیں پگھل جاتی تھیں تو چچی جو بےچاری ایک گھریلو عورت تھی وہ کیسے بچی رہ سکتی تھی۔
چچی نے میرے چہرے کو ایک بار غور سے دیکھا اور پھر ایک سانس لے کر سامنے دیکھتے ہوئے کہا ریحان کیا چاہتے ہو، میں نے کہا آپ کی خوشی بس وہ جس میں آپ خوش ہو، چچی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اگر میں کہوں کہ بس یہیں رک جاو اور اس سے اگے نہ بڑھو تو کیا کرو گے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا آپ کا حکم سر انکھوں پر اگر میں نے زندگی میں ایک قدم بھی اپ کی مرضی کے بخیر بڑھا لیا تو اسی دن مجھے جھوٹا اور فراڈ کہہ دینا اگر آپ اس طرح خوش ہیں تو میں بھی شاد ہوں، چچی میری چکنی چپڑی باتوں میں بری طرح پھس چکی تھیں اب وہ اس مرحلے پر تھیں جہاں وہ میری پیش قدمی سے مایوس ہو چکی تھیں اور ان کے پاس خود اگے بڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اپنے اندر لگی آگ سے واقف تھیں ان کی چوت میں ہونے والی کجھلی نے ان کو پریشان کیا ہوا تھا اور اوپر سے ان کے پاس اس آگ کو بجھانے کا اتنی جلدی کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا تھا، اس وقت دستیاب میں ہی تھا اور وہ یہ جانتی تھیں کہ میں ان کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہوں پر وہ اپنی روایتی شرم کے ہاتھوں مجبور تھیں اور دوسرا اگر میں خود کچھ کرتا تو کل کو میرے پر اس بات کو ڈال کر آرام سے راستہ بدل سکتی تھیں پر میں تو ہمیشہ کہ لیئے ان کے ساتھ سب کچھ کرنا چاہتا تھا، ایک دفعہ نہیں باربار اور وہ مجھے روکنے یا منع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
چچی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اچھا بس بہت ہو گیا بس اب اس سے اگے کچھ نہیں ہو گا، میں نے سر ہلا دیا اور کہا جیسے آپ کی مرضی، چچی اٹھیں اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں ان کی بڑی اور موٹی گانڈ جو میرے چہرے کے انتاہی قریب سے پلٹی تھی وہ اتنے برے طریقے سی تھرتھرائی کہ لوڑے بےچارے پر مرگی کا دورہ پڑ گیا، ان کے ہر پڑتے قدم کے ساتھ لن جھٹکا لیتا اور میری سانس نکل جاتی چچی نے ایک دفعہ مڑ کرمیری طرف دیکھا اور مسکرا کر اپنے کمرے کی میں جانے لگیں تو میں نے صوفے پر پڑے ان کے دوپٹے کو ہاتھ میں پکڑا اور کھڑا ہو کر ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا، میں چچی کو زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دینا چاہتا تھا کیونکہ اگر انھوں نے صیع فیصلہ کر لیا تو میں لوڑے لگ جاوں گا اس لیئے میں ان کے سامنے رہنا چاہتا تھا تاکہ ان کا فیصلہ میرے حق میں ہو۔
میں نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر دیکھا چچی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھیں، اور مسکرا رہیں تھیں میں سمجھ گیا کہ اب گیم آن ہے، میں نے اپنا گلا کھنکار کر صاف کیا اور کہا، آپ کا دوپٹہ باہر ہی رہ گیا تھا، چچی بڑی ادا سے پلٹیں اور بولیں ادھر رکھ دو، میں اگے بڑھا اور دوپٹہ سٹول پر رکھ کر پلٹ گیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد چچی کی آواز آی ریحان یار ادھر آو، میں کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ آفت انھیں کپڑوں میں پہلے سے زیادہ تیار ہو کر کھڑی ہے اور میری ہی طرف دیکھ رہی ہے، ٹٹوں میں چارسوچالیس ہزار واٹ کا کرنٹ لگا اور لن نے بے ہوش ہوتے ہوئے کہا تجھ سے کچھ نہیں ہونا لوڑے میری تو قسمت ہی خراب ہے جو تیرے ساتھ لگا ہوا ہوں، مجھے شرمندگی سی محسوس ہوئی کہ یہ تو بےعزتی ہو رہی ہے وہ بھی اپنے ہی لن کے ہاتھوں۔ میں نے معصوم سی شکل بنائی اور ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی، تو انھوں نے کہا گھر کے سارے واس پرانے پھولوں سے بھرے ہوئے ہیں، ان میں تازہ پانی اور تازہ پھول لگاتے ہیں چلو لان میں اور یہ کہہ کر مڑ گئیں توبہ ہے یار کیا فگر ہے ان کی میرے تو انکھیں ان سے چپک گئیں اور میں ان کے پیچھے پیچھے ان کی مٹکتی، تھرکتی، ہلتی، ناچتی گانڈ کو دیکھتے ہوئے چلنے لگا، چچی لان میں آئیں اور مجھے کہا ہر قسم کے پھولوں میں سے دس دس پھول توڑ لو پر زرا نیچے سے توڑنا اور کچھ پتے بھی ساتھ ہونے چاہیں، میں اس طرف سے شروع کرتی ہوں اور آپ ادھر سے، سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ہمارے سروں پر چمک رہا تھا، گرمیوں کے صبع میں لان سے پھول توڑنا بھی عجیب سا پرلطف کام تھا، میں نے سب سے اچھا پھول علیدہ سے ایک ہاتھ میں پکڑا اور چچی کی طرف دیکھا جو پھول توڑ چکی تھیں اور لان میں پڑے پانی کے پائپ کے ساتھ لگے نل کو چلا رہی تھیں، میں ان کے پاس گیا اور جو پھول میں نے الگ سے ان کے لیئے توڑا تھا وہ ان کے سامنے کر دیا، چچی نے مسکرا کر کہا واہ جناب بہت زبردست نظر ہے آپ کی، میں نے کہا یہ آپ کے لیئے ہے قبول کریں، چچی نے ہنستے ہوئے کہا قبول کیا مسٹر رانجھے تو میں نے بھی سر جھکا کر کہا تھینک یو مائی ہیر، چچی نے ہنستے ہوئے ایک چپت میرے سر پر لگائی اور کہا چل اندر اب سارے واس میں سے پرانا پانی بدلنا ہے، میں سائڈ ہر ہوا اور جھک کر ایک ہاتھ اگے پھیلا کر ان کو اگے جانے کا اشارہ کیا چچی نے میری طرف دیکھا اور پھر چل پڑیں، میں ان کے پیچھے پیچھے اندر ایا تو چچی نے کہا سارے واس کچن میں لے آو میں یہ دو لے کر جا رہی ہوں، میں نے سوچا کہ گھر میں کہاں کہاں پڑے ہیں گلدان میں نے جلدی جلدی سارے گلدان اکھٹے کیئے اور کچن میں لے گیا، چچی نے میری طرف تعریفی نظروں سے دیکھا اور شیلف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان دونوں کو ان کی جگہ پر لگا دو میں نے فوراََ وہ دونوں گلدان اٹھائے اور اور ان کی ان کی چگہ پر رکھ کر واپس آ گیا چچی نے پھر دو گلدان پکڑائے ان کو بھی ان کی جگہ پر لگا دو اسی طرح کرتے ہوئے پندرہ منٹ میں یہ کام ختم ہو گیا، میں اور چچی پسینے میں شرابور تھے، چچی کی قمیض سے ان کے برا کی شیپ اور کلر سب کچھ نظر آ رہا تھا، چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا اور میرے سامنے بیٹھ کر کہا،ریحان پلیز اے سی ان کر دو اور پنکھا بھی چلا دو میں نے دونوں کام کیئے تو دیکھا تو چچی بیڈ پر دونوں بازو پسارے لیٹی ہوئی ہیں اور ان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے ہیں، میرا دل تو کیا کہ ابھی اوپر لیٹ جاوں پر صبر کیا، اور سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ کر انھیں دیکھنے لگا، ان کی ہر سانس کے ساتھ ان کے بڑے اور خوبصورت ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے اور ان کا پیٹ انتاہی خوبصورت لگ رہا تھا، چچی اٹھیں اور کہا ریحان دودھ تو لے آو فریج میں ختم ہو گیا ہو گا، میں نے سر ہلایا اور ان کے کمرے سے باہر آ کر اپنے کمرے سے گولیوں کا ایک پیکٹ جیب میں ڈالا اور مارکیٹ کی طرف چلا پڑا۔
واپس آ کر دودھ کے برتن کو فریج میں رکھا اور چچی کو بتانے ان کے کمرے میں چلا گیا، پر سامنے جو منظر تھا وہ پاگل کر دینے کے لیئے کافی تھا، چچی شاید نہا کر نکلیں تھیں اور اس وقت ان کے بدن پر صرف انڈر گارمنٹس ہی تھے، ان بے داغ جسم اس وقت قہر برسا رہا تھا اور میری حالت ایسی ہو گئی کہ ٹانگوں میں جان ہی نہ ہو، میں نے پلٹنے ہی والا تھا کہ چچی نے آواز دے کر پوچھا لے آئے ہو دودھ، میرے حلق سے تو جیسے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی، میں نے صرف سر ہلایا تو آفت، آہستہ قدموں سے چلتی میری طرف آئی اور میرے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا اور کہا کیا ہوا۔
میں نے چہرہ اوپر اٹھایا اور ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کچھ نہیں،چچی نے سیدھا میری انکھوں میں دیکھا اور کہا ریحان سچ سچ بتاو میرا اس طرح اپ کے سامنے انا اچھانہیں لگا کیا، نیچے سے لن شریف نے آواز لگائی او چوتیے تجھے قسم ہے میری بول کے بہت اچھا لگا، کیوں خسی بنا پھر رہا ہے یار کچھ خیال کر لے بھائی واسطہ ہے تجھے پلیز، میں نے سر ہلایا اور دوبارہ سر جھکا کر کہا اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں اپ کے جسم کی طرف اٹرکیٹ ہو رہا ہوں تو آپ غلط ہیں میڈیم، مانا کہ آپ کا جسم اپ کی محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے پر یہ ہی سب کچھ نہیں ہے، لن نے ٹٹوں کی لات مارتے ہوئے کہا بھاڑ میں جا چوتیے تو ہے ہی کسی کام کا نہیں آج سے تیرا میرا تعلق ختم، چچی نے ایک لمبا سا سانس لیا اور مجھے اس طرح دیکھا جیسے میں دیوانہ ہوں اور پھر میرے گال کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ریحان مگر جسم کے بخیر بھی تو کوئی محبت مکمل نہیں ہوتی، میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے پر اس وقت اپنے چہرے پر اپنے اندر کے جذبات کو ظاہر کرنے کا مطلب تھا کہ چچی کے لیئے ان کا ٹوائے بن کر رہنا جو مجھے کسی صورت قبول نہیں تھا کیوںکہ میرا ماننا ہے کہ رسائی ہو تو مکمل، اختیار ہو تو مکمل اور جب میں محبت کروں تو وہ بھی مکمل ہو جس میں اپنے جزبات کا اظہار کھل کر کر سکوں نہ کے دوسرے کے اشاروں پر ناچتا رہوں، میں نے دوبارہ سر اٹھایا اور کہا پر میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ تھوڑی دیر کےلیئے مجھے اپنائیں اور پھر زندگی بھر کے لیئے مجھے اپنے دیدار سے بھی محروم کر دیں، چچی کے لیئے یہ بہت نازک مرحلہ تھا کیونکہ میں نے وہ بات کر دی تھی کہ اگر وہ میری بات مان لیتیں تو مجھے کمپلیٹ ایکسیس مل جانی تھی اور اگر انکار کر دیتیں تو ان کی شہوت ان سے کچھ ایسا کرا دیتی جس میں وہ مجھ سے بھی اور اپنے آپ سے بھی شرمندہ رہتیں، وہ پلٹیں اور میں نے اپنے لن کو پکڑ کر دبا کر اسے راضی کیا، میں نے سامنے دیکھا تو چچی کی مٹکتی ایک چھوٹی سی پینٹی میں چھپی گانڈ سب کچھ بھول جانے پر مجبور کر رہی تھی، چچی بستر پر بیٹھ گیئں اور کہا، ریحان میرے پاس آو یہاں بیٹھو میں آرام سے چلتا ان کے پاس بیٹھ گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے دوسرے ہاتھ ہر رکھا اور کہا ریحان جو مل جائے اس پر شکر کر لینا چاہیے، ایسے وقت میں سب کچھ کی ڈیمانڈ کفران نعمت ہوتی ہے، میں ہلکا سا مسکرایا، اور ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا آپ کو کیا لگ رہا ہے، انھوں نے اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا کہ تم کفران نعمت کر رہے ہو، میں نے قہقہ لگایا اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اگر آپ اسے کفران نعمت کہہ رہی ہیں تو مجھے نا شکرا کہلوانا منظور ہے، پر میں آپ کو اور خود کو کسی دھوکے میں نہیں رکھ سکتا میں اپ سے محبت کرتا ہوں اور میں محبت کی آخری حد تک جانا چاہتا ہوں پر چند لمحوں کا خیرات میں ملا ہوا دھوکا مجھے نہیں چایئے، میں جو چاہتا ہوں وہ تمام عمر کا روگ چاہتا ہوں اپ کی توجہ چاہتا ہوں اگر آپ دے سکتی ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو میں اس خوشفہمی میں ہی رہ لوں گا کہ آپ نے رستہ دکھایا تھا پر میں خود اس رستے پر نہیں چلا۔ چچی کھڑی ہوئیں اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے اور ریحان کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیئں اور میری گردن اور گالوں کو بے تحاشہ چومنے لگیں، نیچے لن اور ٹٹوں نے لڈی ڈالنا شروع کر دی دل میں پھلجھڑیاں چلنے لگیں اور میرے ہاتھوں نے چچی کے گرد گھیرا بنا لیا اور میں نے ان کا چہرے پران کے پیار کا جواب دینا شروع کر دیا۔ ،
چچی مجھ سے لپٹی جا رہیں تھیں ان کے جسم سے اٹھتی مہک اور گرمہاٹ سے میں بےخود ہوا جا رہا تھا، میں نے چچی کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے ان کے جسم میں کپکپاہٹ ہوتی محسوس ہوئی، میں نے ان کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انھوں نے بھرپور طریقے سے جواب دیتے ہوئے میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں پکڑ کر چوسنا اور کاٹنا شروع کردیا وہ اپنے ہوش کھو بیٹھیں تھیں، پر ان کے پیار کرنے کا انداز بہت سحر انگیز تھا، پھر انھوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا اور میری زبان کو اپنی زبان کی نوک سے چھیڑنا شروع کر دیا، میں نے اپنی زبان کو ان کی زبان پر رکھ کر انھیں دکھیلنا شروع کر دیا اور انھیں بیڈ کے کونے تک لا کر ہلکا سا دھکا دیا اور ان کے ساتھ بستر پر گرتا چلا گیا، چچی نے ہلکی سی چیخ ماری اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگیں میں اس وقت ٹائم ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھا، میں نے ایک ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھا تو جھرری لے کر رہ گئیں، میں نے اس ہاتھ کی انگلیوں کی ان کے پیٹ پر پھیرا تو وہ سسکی لے کر رہ گیئں، ان کی انکھیں بند ہو چکیں تھیں اور سانسیں تیز میں نے اپنے لب ان کے لبوں کے قریب لے جا کر اپنے لبوں سے ان کے ہونٹوں سے ہلکا سا چھوا وہ مچل گئیں اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے پکڑ کر اپنے اوپر کر لیا، میں نے اپنے دونوں گھٹنے ان کے پیٹ کے سائیڈوں پر رکھ کر ان کے برا کے اوپر سے ہی ان کے صحت مند مموں کو پکڑ کر اپنے انگوٹھوں کی مدد سے ان کے ابھرے ہوئے نپلز کو چھیڑا انھوں نے سسکی لیتے ہوئے اپنے برا پر ہاتھ ڈالا اور اسے اتار کر بیڈ سے نیچے پھینک دیا، ان کے گلابی بدن پر ان کے وہ دونوں ابھار کسی سرکش پہاڑوں کی ماند اپنی پوری اب و تاب کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ سچ مچ محو کر دینے والا نظارہ تھا میں نے ان کے ابھرے ہوئے دائیں نپل پر منہ رکھا اور اسے کے گرد اپنی زبان پھیری اور پھر اپنے ہونٹوں میں پکڑ کر ہلکا سا دبایا تو چچی کے منہ سے آہ نکل گئی، اور ان کے دونوں ہاتھ میرے سر پر آ گئے جو مجھے ان کے مموں پر دبانے لگے، میں ان کی بے چینی سے محظوظ ہو رہا تھا، ان کا مچلتے، تڑپتے ، سسکتے، تھرتھراتے جسم کا نظارہ اتنا ہی پرلطف تھا جتنا کسی حسین شام میں ڈوبتے سورج کو کسی حسین وادی کے پیچھے ڈوبتے دیکھنا مگر اس نظارہ میں شہوت کا عنصر اسے اور بھی پرسحر بنا رہا تھا، میں نے دوسرا ہاتھ بھی ان کے دوسرے ممے پر رکھا اور اسے مسلنے لگا، چچی کے منہ سے سسکیوں کی آواز کسی منجھے ہوئے موسیقار کے کسی ساز سے اٹھتی دھن سے بھی زیادہ محسور کر دینے والا تجربہ تھا، میں نے اپنے ہونٹ ان کے ممے سے ہٹائے تو چچی نے انکھیں کھول دیں اور میری جانب دیکھا میں نے مسکراتے ہوئے ان کے ماتھے پر پیار کیا اور کہا میری ہیر میں آپ میں کھونا چاہتا ہوں اپنے آپ تم پر قربان کر دینا چاہتا ہوں کیا مجھے اس کستاخی کی اجازت ہے، چچی نے مشکل سے ہنستے ہوئے اپنی سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا، اوئے رانجھے میں تیرے لیئے مر رہی ہوں اور تجھے ڈائیلاگ بازی سوجھ رہی ہے نا تنگ کر نا یار اور برداشت نہیں ہوتا اب، میں نے مسکراتے ہوئے اپنی شرٹ کے بٹں کھولنے شروع کیئے تو میں نے صرف دو ہی بٹن کھولے تھے تو انھوں نے شرٹ کو نیچے سے پکڑ کر اوپر اٹھا دیا اور میں نے بھی ان کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے اپنے بازو اٹھا دیئے، انھوں نے میری شرٹ میرے گلے سے نکالی اور بیڈ سے نیچے پھینک دی، پھر میر بنیان کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک کیا، اور جلدی سے بیلٹ کھول کر پینٹ کی ہک کھولی اور اسے بھی نیچے کر دیا اور انڈرویر کو اوپر سے ہی میرے لن پر ہاتھ پھیر کر اسے محسوس کیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا واہ ریحان میں تو تمھیں بچہ سمجھ رہی تھے تم تو اچھے خاصے ہتھیار کے مالک ہو، لن کے اپنے اپ کو اکڑاتے ہوئے کہا دیکھ چوتیے سب ہی میری تعریف کرتے ہیں پر تو ہی مجھ جلتا ہی اور جلنے والے کا منہ کالا، چچی نے آرام سے انڈرویر کے اوپر سے لن پر مٹھی بنائی اور اس کو موٹائی اور لمبائی کو محسوس کیا اور خوشی ان کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، میں نے مسکراتے ہوئے کہا میڈیم اسے اب آزاد کر دیں، چچی نے ہنستے ہوئے کہا بچو اب آپ کی باری ہے تڑپنے کی اور مجھے اپنے اوپر سے اتار کر بیڈ پر لٹا دیا اور پینٹ جو میری رانون پر ہی تھی اسے پورا اتارا اور پھر انڈرویر کو اہستہ سے نیچے کیا اور مسکراتے ہوئے کہا ریحان یہ تو خوبصورت ہے میں کھا جاوں گی اس کو، میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا آپ کا مال ہے جو مرضی کرو اس کے ساتھ، چچی نے فوراََ انڈرویر کو میرے پیروں سے بھی نکال کر پھینک دیا لن کی دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس کی ٹوپی پر زبان پھیری، مزے اور سنسہاٹ کی لہریں میرے جسم میں دوڑنے لگیں چچی نے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے لن کے اردگرد زبان پھیرنی شروع کر دی ان کی انکھوں سے شرارت جھلک رہی تھی، پھر وہ زبان کو میری ناف تک لے کر ائیں اور ناف کے اردگرد سے چاٹتے ہوئے پھر لن کی طرف گیئں اور لن کو منہ میں لے لیا اور پھر منہ سے نکال کر کہا ریحان ریلیکس ہو جاو اور آرام سے لیٹ کر انجوائے کرو میں نے کہا او ہیریے رحم کرو اور ہمھیں بھی اپنے عضوخاص کے دیدار کا موقع دو تاکہ میں بھی اپنی عقیدت بھرا پیار اس پر نچھاور کر سکیں، چچی مسکرئیں اور میرے بلکل سامنے کھڑی ہو کر اپنا انڈرویر اتار دیا اور پھر گھوم کر اپنی گانڈ اور چوت کو میرے منہ پر رکھ کر میرے لن پر جھک گئیں، میں نے بنا ٹائم ضائع کیئے ان کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر ان کی ملائم اور گلابی چوت کا بوسہ لیا پھر ان کی صحت مند رانوں پر چومتے ہوئے ان کی چوت تک آیا اور اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے چوت کو تھوڑا سا کھول کر اس اندر زبان پھیر دی چچی کا جسم کانپ گیا اور انھوں نےلن پر اپنا کمال دکھانا شروع کر دیا، ان کی چوت پہلے سے ہی گیلی تھی میں نے زبان کو ان کی چوت میں پھیرتے ہوئے ان کے دانے کو زبان کی نوک سے چھیڑا اور پھر ہونٹوں میں لے چوسنا شروع کردیا چچی نے میرا لن چھوڑ دیا اور میرے منہ پر اپنی چوت کو رگڑنا شروع کر دیا، ان کی سسکیاں اور آہیں بے ساختہ تھیں اور کھل کر ان لمحوں کا مزہ لے رہیں تھیں، اور مجھے آنٹیوں میں یہ ہی چیز پسند ہے ایک دفعہ پردہ ختم ہو گیا تو کوئی نخرہ نہیں کوئی شرم نیں بس مزہ لو اور دو وہ بھی کھل کر، چچی اپنی چوت میں میری زبان کو محسوس کر رہیں تھیں اور میں ان کے موٹَے اور بھاری چوتڑوں کو مسل رہا تھا، میں کافی دیر تک اس گلاب کا رس کشید کرتا رہا اور وہ فراخدلی سے میری پیاس بجھاتی رہیں، پھر ان کا جسم اکڑنے لگا اور پھر ایک دم سے کانپا اور شدت کے ساتھ کانپا یہاں تک کہ ان کی چوت نے رونا شروع کر دیا، میں سمجھ گیا کہ چچی فارغ ہوئی ہیں، وہ تھوڑی دیر ایسے ہی بیٹھی رہیں اور پھر میرے اوپر سے سائیڈ میں لیٹتے ہوئے میری طرف دیکھا اور پھر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگیں ان کا دیوانہ پن بہت ہی زیادہ مزہ دے رہا تھا، میں نے اپنا پورا جسم انے کے ساتھ جوڑ لیا اور اس نرم گرم جسم سے اٹھنے والی محبت کو اپنے اندر بسانے لگا، انھوں نے میرا ہونٹ چھوڑے اور کہا ریحان آئی لو یو، میں نے مسکراتے ہوئے ان کا جواب دیا، اٹھ کر بیٹھ گیا چچی بھی اٹھیں اور میری گود میں دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیں، میں نے ان کی گردن اور کمر پر پیار کرنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ سے ان کے مموں کو مسلنے لگا اور دوسرے سے ان کی چوت کو چھیڑنے لگا، وہ سکسک رہی تھیں، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرا نام لیتیں تھیں جو مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا، پھر وہ پلٹیں اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرائیں اور کہا رانجھے سب حدیں پھلانگنیں کا وقت آ گیا ہے، آ جاو اور میرے جسم کو اپنا پیار سے بھر دو کر دو مجھے پاگل، میں نے مسکراتے ہوئے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور انھوں نے بھی میرے گرد بازو لپیٹے اور لیٹ گیں، میں ان کے اوپر تھا ان کے ممے میرے سینے سے لگ رہے تھے ان کی موٹی اور مضبوط رانیں میری رانوں سے لگ رہیں تھیں انھوں نے اپنے پیٹ اور میرے پیٹ کے درمیاں ہاتھ لے جا کر لن کو پکڑا اور اسے چوت پر پھیرا ان کی انکھیں بند ہوگیں اور سکستے ہوئے کہا ریحان اسے اندر کر دو نا پلیز، میں نے ان کے ہونٹوں پر چومتے ہوئے تھوڑا اس اپنے ہاتھوں کے زور پر اپنا اپ اٹھایا اور جس ہاتھ میں چچی نے لن کو پکڑا ہوا تھا ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا تو چچی نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ہٹا لیا میں نے لن کو ان کی چوت پر رکھ کر ہلکا سا جھٹکا لگایا تو انھوں نے سسکتے ہوئے اپنی ٹانگیں اٹھا لیں میں نے دوبارہ جھٹکا دیا تو لن اندر داخل ہو گیا، چچی نے کہا ریحان مجھے پورا چاہیے میں نے دوبارہ جھٹکا دیا تو پورا لن اندر چلا کیا، چچی نے اہ بھری اور کہا ریحان چلا گیا نا پورا میں نے کہا میری جان سارا اندر ہے، انھوں نے میری کمر پر اپنی ٹانگیں لپیٹ لیں اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا پھر ہو جاو شروع، میں نے لن کو اخر تک باہر نکال کر کہا تیار ہو آپ تو انھوں نے کہا کب سے تیار ہوں اب کر بھی دو، میں نے یہ سننا تھا کہ ایک زور دار دھکا لگایا چچی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور انھوں نے اپنی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھا کر بھرپور جواب دیا، اور میری کمر سے اپنی ٹانگیں مظبوطی سے لپیٹ لیں اور بازو میرے گلے میں ڈال لیئے مگر میں نے دھکے پر دھکا دینا شروع کر دیا وہ ہر جھٹَکے کا جواب دے رہیں تھیں، اور مجھے اشتہا دلا رہی تھیں کہ میں سب کچھ کھول دوں، پھاڑ دوں سب کچھ، ان کی چوت سے پانی بہہ بہہ کر بیڈ شیٹ پر گر رہا تھا، لن روانی کے ساتھ اندر باہر ہو رہا تھا اور ہر گسھے کے ساتھ ان کا جوش بڑھتا جا رہا تھا، وہ پاگلوں کی طرح مجھے سے لپٹے ہوئے مجھے کہہ رہیں تھیں ریحان زور سے چودو اپنی ہیر کو ہاں میرے رانجھے کر دو مجھے اپنے پیار میں پاگل، اور زور سے ہاں ریحان ایسے ہی ہاں ایسے ہی میری جان، اف کیا گرم خاتون ہیں وہ بھی، مجھے لگا کہ چچی فارغ ہوںے والی تھیں کیوں کہ چوت نےمیرے لن پر گریپ بنانا شروع کر دی تھی اور اندر سے لیس دار مادے کا بہاو بہت زیادہ تیز ہو گیا تھا، وہ زور زور سے نیچے سے لن پر اپنی چوت کو مار کر میرے دھکوں کا جواب دے رہی تھیں، ان کا چہرہ لال ہو چکا تھا ماتھے پر پسینہ اور بے ربط باتوں نے اس بات کی گواہی دی کہ وہ اپنے مزے کے عروج پر ہیں، میں ان سے جو بھی کہہ رہا تھا انھیں کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی، وہ ایک ہی بات بار بار کہہ رہی تھیں ریحان باہر نہیں نکالنا، ریحان زور سے کرو ہاں میری جان، تھپ تھپ اور پچ پچ کی آواز کے ساتھ ان کی باتیں عجیب سا سرور دے رہی تھیں جس سے میری مردانہ انا کی تسکین ہو رہی تھی، ایک دم ان کا جسم اکڑا ان کا سانس رکا اور منہ سے غرغراہٹ جیسی اواز نکلی اور پھر جسم کانپنے لگا، وہ فارغ ہو رہیں تھیں، میں نے اپنے دھکوں کر رفتار بڑھا دی اور ان کے مزے کو دبالا کر دیا، ان کی چوت پانی سے بھر چکی تھی، پھر انھوں نے اپنی ٹانگیں اور بازو میری کمر سے کھول لیئے اور لیٹ کر سانس لینے لگیں، میں ان پر سے اتر کر ان کی سائیڈ میں لیٹ گیا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، وہ مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور میرے کھڑے ہوئے لن کو دیکھ کر کہا ریحان میں بہت سکون میں ہوں، آپ نے بہت مزہ دیا ہے مجھے اور اب مجھے غصہ آ رہا ہے کہ میں نے پہلے کیوں نہیں آپ کو راضی کر لیا، میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کیا، جس نے شور مچایا ہوا تھا او بھائی میرا کچھ کرو ظالمو کیوں میری جان لینے پر تلے ہو میرا کچھ کر دو پلیز، اور کہا ابھی اس کا تو کچھ کریں چچی مسکرائیں اور اٹھتے ہوئے میرے پیٹ کے دونوں طرف گھٹںے رکھ کر ایک ہاتھ سے میرا لن پکڑا اور اسے اپنی چوت کی راہ دکھا کر اس پر بیٹھتی چلی گئیں، لن جڑ تک اندر گھس کیا، چچی نے سسکی لی اور اپنی گردن اوپر اٹھا کر کہا ریحان میری جان بہت بڑا ہے یہ، اور پھر اوپر اٹھتے اور لن کو ادھا باہر نکال کر دوبارہ اس پر بیٹھ گئیں، پھر مجھ پر جھک کر میرے منہ میں منہ دے دیا اور ان کی کمر اور میری کمر کسی مکینکی انداز میں حرکت کرنے لگی، اور اوپر ہوتیں تو میں نیچے سے اوپر کی طرف دھکا لگاتا، اور جب میں نیچے ہوتا تو اوپر سے نیچے کی طرف، سرور اور مزے سے ہم دونون نے حال تھے، ننگے جسم ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے چچی تھک چکیں تھیں اور وہ میرے اوپر بیٹھ کر اپنی کمر کو اگے پیچھے کر رہیں تھیں، میں ان کے مموں سے کھیل رہا تھا، میں نے کا بازو پکڑا اور ان کو اپنے اوپر سے اتار لیا، اور پھر ان کو گھوڑی بناتے ہوئے ان کے پیچھے آ گیا، افف کیا نظارہ تھا، بڑے اور بے داخ کولہے اور ان کے اس وقت اس طرح جھک کر اپنا اپ میرے حوالے کرنا بہت شہوت انگیز منظر تھا وہ، میں نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے چوتڑوں پر رکھے اور اپنے کھڑے لن کو ان ک چوت میں گھسا دیا، چچی سسک گیں اور اپنی گردن اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگیں، میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا وہ سرور میں تھیں اور بھرپور مزا لے رہیں تھیں پھر انھوں نےسر جھکا لیا اور میرے ہر جھٹکے کے ساتھ اپنی گانڈ کو اگے پیچھے کرنا شروع کر دیا، میں نے ان کے چوتڑوں کو مخالف سمت میں کھوٖلا تو مجھے ان کی گانڈ کا سراغ نظر ایا جو بہت اندر تھا اور ہلکہ سا بھورا اور سلوٹوں سے بھرا ہوا ہونے کے ساتھ ان کے سائز کے حساب سے بہت چھوٹا تھا، میں نے اپنا انگوٹھا ان کے چوتڑوں کے درمیان ڈالا اور ان کی گانڈ کے سراغ پر پھیرنے لگا، ان کی سسکیاں تیز ہو گیں اور ان کا جسم دوبارہ اکڑنے لگا مگر اس بار میں بھی ہونے والا تھا میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھا اور ان کی گردن گھما کر اپنی طرف کر کے کہا میں ہونے والا ہوں اپ کو کتنی دیر ہے، انھوں نے سسکتے ہوئے کہا میں ہو رہی ہوں، یہ سن کر میں نے اپنے جھٹکے شدید کر دیئے اور زور زور سے دھکے دینے لگا، چچی زور سے سسکتے ہوئے اور چیختے ہوئے فارغ ہو رہی تھیں اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی گرم پانی کی تنگ سے برتن میں ہو میں دو چار دھکے لگائے اور میں بھی فارغ ہونے لگا، میں نے لن کو ان کے اندر ہی رکھا، میں کافی ریر چھوٹتا رہا یہاں تک کہ مجھے لگا کہ چچی کی چوت سے میری منی بہہ کر ان کی ران پر بہہ رہی ہے، جب میں مکمل فارغ ہو گیا، تو میں پیچھے ہٹ کر ان کے ساتھ لیٹ گیا، وہ بھی سیدھی ہوئیں اور میرے سینے پر بازو اور سر رکھ کر لیٹ گیئں، ہم دونوں بری طرح تھک چکے تھے، پر اتنی مسقت کے بعد پتہ بھی نہیں چلا کہ ہم دونوں سو گئے۔
میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ چچی میرے سینے پر سر رکھے بہت سکون سے سو رہی ہیں، ان کے لمبے بال ان کی ننگی کمر، بازو، اور میرے پیٹ پر پڑے ہوئے تھے، میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا جو مرا پڑا تھا، میں نے اسے ایک تھپڑ لگایا اور کہا آٹھ بےغیرت اتنے دنوں سے شور مچایا ہوا تھا اب جنگ چھڑ گئی ہے تو سویا ہوا ہے، لن نے بھی فوراََ میری بکواس کا جواب اکڑ کر دیا کہاں لڑنا ہے دشمن دکھاو میدان جنگ تک پہنچاو، میں نے چچی کی طرف دیکھا اور سوچا کیا خوبصورت اوربھرپور عورت ہے، مجھے اب ان کے اٹھنے کا انتظار تھا تاکہ اندازہ لگا سکوں کہ چاچی کا فیصلہ کہیں وقتی شہوت کا نتیجہ تو نہیں تھا، اگر ایسا تھا تو مجھے مزید محنت کرنی تھی اور اگر انھوں نے اپنے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ کیا تھا تو میری تو لاٹری لگ گئی تھی، میں نے چچی کے بڑے اور خوبصورت مموں پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا اور اہستہ اہستہ انھیں دبانے اور مسلنے لگا، چچی نے کروٹ بدلی اور سیدھی ہو کر لیٹ گئیں، یہ اشارہ تھا کہ لگے رہو، میں نے ان کے ایک ممے پر منہ رکھا اور نپل کو چوسنا شروع کیا تو چچی نے اپنے سر کو دائیں بائیں ہلا کر اپنے جاگے ہونے کا اشارہ دیا پر میں بھی ڈھیٹ بن کر ان کے نپل کو چوسنی سمجھ کر چپکا رہا، مگر اسی وقت چچی کے موبائیل کی گھنٹی بجی، اور چچی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، انھوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اپنا ننگا جسم دیکھا، اور پلٹ کر ٹیپائی سے اپنا موبائیل اٹھانے لگیں، ان کی بڑی اور موٹی رانیں دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا، اور میں نے ہاتھ بڑھا کرا ان کے ایک چوتڑ پر ہاتھ رکھ لیا، چچی موبائیل اٹھا کر سیدھی ہوئیں تو اور موبائیل کی سکرین کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا، انھوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر کال اٹینڈ کی، دوسری طرف شاید چچا تھے، اب چچی کا اور میری محنت کا امتحان تھا، یا تو چچی کسی جزباتی دباو میں چلی جاتیں یا پھر میری موجیں ہو جانی تھیں، چچی نے چچا سے بات کرنا شروع کی اور میرا ہاتھ جھٹکے سے اپنے نیچے سا نکال دیا، مجھے لگا کہ لے بھائی لگ گئے لوڑے۔ چچی صرف ہوں ہاں میں بات کر رہی تھیں، یعنی وہ پریشان ہیں، پھر شایئد دوسری طرف سے میرے بارے میں پوچھا گیا، تو چچی نے مجھے بہت ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور کہا باہر گیا ہوا ہے، پھر چچا کی طرف سے بات ختم کی گئی اور شاید ایک پیپی ادھر سے دی گئی جواب میں چچی نے میری طرف دیکھا اور فون کو چوم کر کال کاٹ دی، میری ایسی تیسی ہو رہی تھی، چچی نے اپنی ٹانگیں فولڈ کیں اور اپنے گھٹنوں پر اپنا چہرہ رکھ کر اپنی ٹانگوں سے بازو لپیٹ لیئے، تھوڑی دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھیں اور واش روم میں گھس گئیں، مجھے پانی چلنے کی آواز آنے لگی، مجھے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ چاچی کے ذہن میں کیا چل رہا ہے پر اس وقت وہاں سے ہٹنا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانے والی بات تھی، میں نے سکون سے اپنے کپڑے پہنے اور چچی کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا، تب ہی مجھے لگا کہ چچی واشروم میں رو رہی ہیں، ان کے سسکنے کی آواز باہر تک آ رہی تھی، میں دروازے کے پاس گیا اور کہا کیا آپ ٹھیک ہے نا کیا بات ہے، اندر سے کوئی جواب نیں آیا بس سسکنے کی آواز بند ہو گئی، میں نے پھر پوچھا چچی کیا بات ہے کیوں رو رہی ہیں آپ، اندر سے آواز آئی ریحان میں تھوڑی دیر اکیلے رہنا چاہتی ہوں پلیز اپنے روم میں جاو یا کہیں باہر چلے جاو، میں نے کہا اوکے پر آپ ٹھیک ہے نا، تو چچی نے کہا ہاں میں ٹھیک ہوں، مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ اگے کیا کرنا ہے، کیوں کہ وہی ہو رہا تھا جس کا ڈر تھا، انٹیوں کی عادت ہے پہلی دفعہ کام ڈال دینے کے بعد ان پر وفا اور شرافت کا دورہ لازمی پڑتا ہے بعد میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے پر اس وقت پتا نہیں انھیں یہ رونا دھونا کیوں یاد آ جاتا ہے، خیر میں بھی بوجھل قدموں سے اپنے کمرے تک آیا اور واشروم میں جا کر فریش ہوا، پھر دوبارہ چچی کے کمرے کے پاس گیا، اندر سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی، میں نے دروازے کو دھکا دیا اور اندر داخل ہو گیا، چچی بیڈ پر ٹیک لگائے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھیں، انھوں نے میری طرف دیکھا پر بولا کچھ نہیں، میں ان کے پاس گیا اور کہا کیا بات ہے چچی کیا ہوا ہے آپ پریشان کیوں ہو گئی ہیں، انھوں نے میری طرف دیکھے بخیر کہا، ریحان مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے، میں نے تمھارے چچا کے ساتھ بددیانتی کر دی، میں نے دھوکا دیا ہے ان کے پیار ان کے اعتبار کو اور تم پوچھ رہے ہو کہ کیا ہو گیا ہے، میں نے لن سے کہا لے بھائی تیرا نشہ اتر گیا ہے اب مجھے سننی پڑیں گی، میں ان سے تھوڑے فاصلے پر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا ایسا کیا کر دیا ہے آپ نے، کچھ غلط نہیں ہوا آپ اپنے اپ کو مت تکلیف دیں، چاچی نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا ریحان دفع ہو جاو میرے سامنے سے نہ میں تمھارے اتنے قریب اتی نہ مجھ سے یہ سب کچھ ہوتا، انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا اور رونے لگیں یہ کیا ہو گیا مجھ سے، میں کھڑا ہوا اور کہا چاچی اگر آپ اپنے اپ کو مجرم سمجھ رہی ہیں تو میں بھی تو اس جرم میں برابر کا شریک ہوں اور رہی بات آپ کے سامنے سے دفع ہونے کی تو وہ تو میں ہو جاوں گا، پر کیا اس سے کچھ تبدیل ہو جائے گا جو ہو چکا وہ ہو چکا، اب سر پیٹنے سے کچھ نہیں ہونے والا، میں نے تو یہ سب کچھ اپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا پر چلیں آپ کی مرضی، جیسے آپ خوش ویسے میں خوش، یہ کہہ کر میں ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا، اور سوچا کہ بھائی کچھ بڑا کرنا پڑے گا، پھر کپڑے چینچ کیئے اور باہر نکل گیا۔
کچھ دوستوں کے ساتھ وقت گزارا کچھ بھونڈی کی، کچھ کھایا پیا، کچھ لن کو حوصلہ دیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ورنہ اور بہت جگہیں ہیں تیرے صبر کا امتحان لینے کے لیئے، شام کا اندھیرا پھلینے لگا تو چچی کا فون آ گیا، لن چھلانگ مار کر کھڑا ہو گیا اور کہا سن بھائی بلا رہی ہو گی چل کال اٹینڈ کر، میں نےکال بزی کی، لن نے کہا لخ دی لعنت او تیرے نخرے تے، دوسری دفعہ کال آئی تو میں نے بزی کر کے فون بند کر دیا، اندر سے بےچینی تو مجھے بھی ہو رہی تھی پر اب اپنی نارضگی بھی تو دکھانی تھی۔ رات کے دس بجے تو میں چچا کے گھر کی طرف چل پڑا زہن میں اگلا قدم بھی تھا، گھر پہنچا تو چچی لان میں ٹہل رہی تھیں، مجھے دیکھ کر وہ بھاگ کر میرے پاس آئیں اور میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ دے مارا، قسم سے موتر نکلنے والا ہو گیا اور دائیں کان میں ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگی، پر اپنے غصے اور ڈر کو قابو کیا، اور معصوم سی شکل بنا کر ان کی طرف دیکھا، تو انھوں نے غصے سے کہا فون کیوں بند کر دیا تھا، میں کب سے پریشان ہو رہی ہوں اور کہاں تھے سارا دن، کوئی ہوش بھی ہے کہ پیچھے کوئی انتظار کر رہا ہو گا، میں نے چچی کی طرف ایک دفعہ دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا، چچی مجھے آواز ہی دیتی رہیں پر میں نہیں رکا، کمرے میں پہنچ کر لن نے اور میں نے مل کر ڈانس کیا، اور پھر اپنا بیگ تیار کرنا شروع کر دیا، تھوڑی دیر میں چچی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آ کر مجھے اپنا بیگ تیار کرتے دیکھا تو دوڑ کر میرے پاس ائیں اور کہا یہ کیا کر رہے ہو، کیا چاہتے ہو اور میرے ہاتھ میں پکڑا سوٹ چھین لیا، میں نے دنیا کا سارا دکھ اپنے چہرے پر طاری کیا اور کہا آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ آپ کی نظر سے دور ہو جاوں تو جا رہا ہوں اپنے گھر، ورنہ پھر آپ مجھے دیکھ کر بھڑک جائیں گی اور دکھی ہو جائیں گی، اور میں اپ کو دکھی نہیں دیکھ سکتا، چچی نے میرے گال پر ہاتھ رکھا تو میں نے پیچھے ہو کر اپنے گال سے ان کا ہاتھ ہٹایا، وہ تھوڑی رکیں اور بولی ریحان سوری نا یار معاف کر دو پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے اس وقت میں ایسے کیوں سوچنے لگ گئی تھی یہ تو تم سے محبت کرنے سے پہلے مجھے سوچنا چاہیے تھا، اور تمھارا تو کوئی قصور تھا بھی نہیں، میں نے خود ہی تو تمھیں راغب کیا تھا سوری نا یار معاف کر دو پلیز ایک نا سمجھ محبوب جان کر، میں نے لمبی سانس لی اور کہا اپنا رویہ دیکھا تھا آپ نے مجھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے زبردستی کی ہو آپ کے ساتھ، مجھے تو اپنے آپ سے شرم آ رہی ہے، میں نے کیا سمجھا تھا اور آپ کیا نے کیا کیا، لن نے نیچے سے تالیاں بجائیں اور کہا واہ ظالم آسکر پر تیرا ہی حق ہے یہ جانی ڈیب تو ایویں ہی لے گیا اب بس کر بچی کو رولائے گا کیا، لن نے یہ بکواس کی اور ادھر چچی نے رونا شروع کر دیا، میں نے اگے بڑھ کر چچی کے گالوں پر ہاتھ رکھا اور ان کے انکھوں سے بہتے آنسو صاف کیئے اور کہا بہت ظالم ہو تم میری ہیر میں تو پاگل ہوا پھر رہا ہوں تمھارے لیئے اور تم نے ناجانے کیا سمجھ لیا، چچی نے میری انکھوں میں دیکھا پھر سر جھکا کر میرے سامنے ہاتھ جوڑ لیِے، میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر ہاتھ رکھے اور کہا نہیں میڈیم مجھے اور مت شرمندہ کرو میں سمجھ لوں گا کہ آپ کا مرا ساتھ بس ایک خواب ہی تھا، جو ایک فون کال پر ہی ٹوٹ گیا، چچی نے اگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور کہا ریحان نہ کرو نا میری جان میں اب نہیں رہ سکتی تمھارے بخیر، لن نے ٹٹوں پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا بھائی تو بھی ڈرامہ گنگ ہے یار بس کر اب مان جا اور وہ تیری نہیں میری بات کر رہی ہے ایویں خوش نہ ہوتا رہیں، میں تھوڑی دیر چچی کے گلے لگ کر جھوٹ موٹھ کا روتا رہا، پھر چچی مجھ سے علیدہ ہوئیں اور کہا چلو کھانا کھا لو مجھے پتا ہے تم نے کچھ نہیں کھایا ہو گا صبع سے، لن نے کہا اے لو سارا دن جگالی کرتا رہا ہے میرا کچھ خیال کر لو تڑپ تو تم میرے لیئے رہی ہو سیدھا کیوں نہیں کہتی کہ لینا ہے، میں نے اپنے انسو صاف کرتے ہوئے کہا نہیں مجھے بھوک نہیں ہے، تو چچی نے کہا ریحان پلیز نا یار اتنی سزا تو مت دو اب کچھ کھا لو دیکھ لو کیا شکل نکل آئی ہے ایک ہی دن میں۔ مجھے ہنسی تو بہت آئی پر خاموش رہا اور چچی میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی ڈائنگ تک لے آئی اور پھر دوڑ دوڑ کر میرے لیئے کھانا لگانے لگیں، جب لگا چکیں تو سامنے بیٹھ کر میرے ساتھ ہی کھانے لگیں۔
کھانا کھانے کے بعد میں آرام سے آٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا، سارا دن کی آوارہ گردی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں انکھ لگ گئی، رات کے کوئی دوسرا پہر ہو گا، مجھ ایسے محسوس ہوا کہ کوئی میرے بستر میں آ کر لیٹا ہے مجھے پتہ تو لگ گیا تھا کہ یہ چاچی کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا، مگر میں بے سدھ لیٹا رہا کچھ دیر بعد مجھے چاچی کی اواز آئی ریحان اٹھو نا دیکھو کیا حال ہو رہاہے میرا، پھر انھوں نے میرے ہونٹوں کو چوما پھر گالوں کو اور پھر میرے ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوسنے شروع کر دیئے، میں پوری طرح جاگ چکا تھا، اور نیچے والا شیطان بھی، میں نے چچی کے ہونٹوں کو علیدہ کیا اور ان کی گردن پر چومتے ہوئے کہا چلو آپ کے روم میں چلتے ہیں یہ بیڈ سنگل بیڈ ہے مشکل ہو گی سونے میں تو انھوں نے کہا تو پہلے کیوں نہیں آئے میں کب سے انتظارکر رہی تھی تمھارا، میں نے مسکرا کہ ان ستواں ناک پر کاٹا اور کہا چلو میڈیم وہ میرے بستر سے نکلیں تو مجھے لگا کہ وہ ننگی ہیں، دل ٹٹوں میں دھڑکنے لگا اور لن سر پر چڑھ کر دھمال ڈالنے لگا، وہ اگے اگے تھیں اور میں پیچھے جب وہ میرے کمرے سے لاونچ میں آئیں تو میں نے دیکھا کہ انھوں نے ایک ٹرانپیرنٹ نائٹی پہنی ہوئی ہے جو کچھ بھی چھپا نہیں رہی ، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اتنی تیز چل رہی تھیں کہ جیسے سو میٹر کی ریس لگی ہوئی ہے مگر ان کا پچھواڑا قیامت ڈھا رہا تھا دائیں بائیں اوپر نیچے پھر دائیں بائیں اوپر نیچے اففف افف اف یار توبہ توبہ انھوں نے اپنے کمرے میں اتے ساتھ ہی لائٹ اف کی تو میں نے جلا دی انھوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر سر ہلا دیا، اور میرا ہاتھ چھوڑ کر وہ قیامت خیز انگڑائی لی اور پھر میری طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہیں ہوں کیسا لگا، میں نے بھی انکھ جھپکی اور ہلکا سا سر ہلا دیا منہ میرا پہلے ہی کھلا ہوا تھا، وہ ہنس پڑیں اور کہا منہ بند کرو ورنہ کچھ دے دوں گی منہ میں، میں نے منہ بند کیا اور کہا دو کیا دینا ہے، انھوں نے میرا بازو پکڑا اور بیڈ پر دھکا دے کر گرا دیا اور پھر اپنی نائٹی تھوڑی سی سائیڈ پر کر کے اپنا مما نکالا اور مجھ پر جھک کر میرے ہونٹوں سے لگا دیا، میں نے بھی آدھے رستے سے ہی اچک لیا اور نپل کو ہونٹوں سے دبانے اور چوسنے لگا، اور دوسرے ممے پر ہاتھ رکھ کر اسے دبانے اور مسلنے لگا، چچی نے اپنی گردن اوپر اٹھا کر سسکی لی اور سسکتے ہوئے کہا ریحان مجھے معاف کر دیا ہے نا، اس وقت کس کم ظرف کو ہوش تھا کہ وہ کس چیز کی معافی مانگ رہی ہیں اس وقت بس وہ چمچماتا جسم تھا، تڑپاتا بدن تھا، اور ترساتا وجود جس کی طلب اس وقت ہر خیال اور سوچ پر ہاوی تھی۔
چاچی نے میری انکھوں میں دیکھا اور میرے دوںوں ہاتھوں کی انگلیوں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھسا کر میرے سر سے اوپر لے جا کر رکھ دیا اور مجھ پر جھک کر اپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹوں کو چھیڑنے لگیں، ان کی انکھوں میں شہوت کے ڈورے صاف نظر آ رہے تھے، میں نے ان ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑائے اور ان کی کمر اور چوتڑوں کو اپنی مٹھیوں میں لے کر دبانا شروع کر دیا، چچی نے میرے ہونٹوں کو چھوڑا اور کہا میری جان اپنی ہیر کو پیار کرو میں تمھاری ہوں، میں نے کروٹ لی اور چچی کے اوپر آ کر کہا اب ناراض تو نہیں ہوں گی، چچی نے سر ہلایا اور کہا کبھی نہیں میں نے اپنے کپڑے اتارنے شروع گئیے تو انھوں میری مدد کرنا شروع کر دی ایسے لگ رہا تھا مجھ سے زیادہ ان کو جلدی ہے، مجھے ننگا کر کے چچی نے اپنی نائٹی کھولی اور اتار کی پھینک دی، میں نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائی اور چچی کو گود میں بٹھا کر ان کی گردن، کندھوں ہونٹوں اور گالوں کو چومنے اور چوسنے لگا، وہ بھی میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں، ان کی رانیں میری رانوں پر تھیں ان کی چوت میرے لوڑے کے آس پاس مٹرگشت کرتی پھر رہی تھی پر اس کی پکڑ میں نہیں آ رہی تھی، پھر انھوں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر لن کو پکڑا اور اپنی چوت میں پھیر کر اس کے اندر لینا شروع کر دیا، گرم اور گیلی چوت مین لن پھسلتا ہوا اندر تک گھس گیا، وہ بے خودی میں میرے کندھوں اور گردن پر کاٹنے لگیں، اور اہستہ آہستہ اوپر نیچے ہونے لگیں، ان کا یہ انداز بہت دلفریب تھا، میں پوری طرح ان کے جسم میں گم تھا کہ بولیں ریحان میری جان ساری زندگی ایسے ہی پیار کرو گے نہ مجھے، اس وقت کس کو ہوش تھا تو بس اگلے کے سوال کا مطلب سمجھ آ رہا تھا تو میں نے روکتی سانس اور دبتی آواز کے ساتھ ہاں میری جان ساری زندگی، ان کا پیٹ میرے سینے سے لگا ہوا تھا ان کے ممے میرے چہرے کے سامنے تھے ان کے کھلے بالوں نے ہم دونوں کے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا، چچی کی سپیڈ بڑھنے لگی اور وہ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگیں، میں نے ان کی کمر کے گرد بازووں کا گھیرا بنایا اور ان کو اسی پوزیشن میں نیچے لٹانے لگا اور خود ان کے اوپر آ گیا، چچی نے سسکتے ہوئے کہا، ریحان میں نے ابھی نہیں ہونا میں نے مزا لینا ہے، مجھے ان کی بات سن کر ہنسی آئی کیونکہ لن شریف کی بینڈ بج چکی تھی، یہ بات سن کر میں نے لن سے کہا او چوتیے تیری اور میری دونوں کی عزت کا سوال ہے اب تو فارغ نہیں ہونا، لن نے جھٹکا مار کر ہامی بھری اور میں چچی کے اوپر لیٹتا گیا وہ سلو سیکس کا مزا لے رہیں تھیں، شہوت اپنا قابو کھونے پر مجبور کر رہی تھی پر وہ خود کو اور مجھ کو روکے ہوئے تھیں شاید وہ میرا امتحان لے رہی تھیں، میں بھی ہر تیس سیکنڈ کے بعد دس سیکنڈ کے لیئے سانس روک رہا تھا، مجھے لگا کہ چچی کا کنٹرول اب ختم ہو گیا ہے کیونکہ انھوں نے نیچے سے جھٹکے لگانے شروع کر دیئے تھے، میں نے ان کی بند انکھوں پر چوما اور کہا او ہیریے کیا ہوا مزا نہیں لینا، انھوں نے پھولی سانس کے ساتھ کہا مجھے سیٹیسفائی ہونا ہے جلدی کرو تیز کرو زور سے کرو پلیز ریحان اب برداشت نہیں ہو رہا، مجھے عورتوں کی یہ بات سب سے اچھی لگتی ہے کہ اپنی کسی بات پر پکی نہیں رہتیں جس کا فائدہ میرے جیسے لوگ بھرپور اٹھاتے ہیں، پھر کیا تھا دے دھن دھنا دھن اندر باہر کا راونڈ شروع ہوا، چچی کی سسکیاں اب سسکیاں نہیں تھیں وہ ہلکی چیغیں تھیں، ان کی جسم لال ہو گیا تھا پھر وہ اکڑیں اور کانپنے لگیں مجھے اور میرا نام لے لے کر فارغ ہونے لگیں، قسم سے اس وقت دل کیا کہ یہ وقت رک جائے پر وہ فارغ ہو گیں اور ان کی چوت پانی کا تلاب بن گئی، میں نے ڈوبتے لن کو باہر نکالا اور سیدھا لیٹ گیا، چچی نے کروٹ لی اور الٹی ہو کر لیٹ گیئں اور میری طرف دیکھنے لگیں، اور پھر ہنستے ہوئے کہا نہیں ہوئے نا، میں نے سر ہلا کر کہا نہیں نا، انھوں نہ کہا آ جاو ہو جاو آپ بھی، میں نے ان کی بنڈ پر ہاتھ پھیرا اور کہا میں نے یہاں ہونا ہے تو انھوں نے ہلکی سی چپت میرے سر پر لگائی اور کہا گندے بچے وہاں نہیں کرتے یہ سب، میں نے ضد کی کہ میں نے کرنا ہے تو بولیں کل کر لینا ابھی نہیں ابھی اپ فارغ ہو جاو، چلومیرے لیئے اتنا ہی بہت تھا کہ وہ راضی ہیں، میں اٹھا ان کے پیچھے آ کر ان کی ایک ٹانگ کو آٹھا لیا اپنے پیٹ کے اوپر سے گزار لیا اور لن کو پکڑ کر ان کی گیلی چوت میں ڈال دیا وہ سسکیں اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا، میں نے ایک ہاتھ ان کی کمر کے نیچے سے گزار کر ان کے مموں کو پکڑ لیا اور دوسرے سے ان کے چوتڑوں کو دبانے مسلنے اور رگڑنے لگا، ان کا پیار اب وحشی ہوتا جا رہا تھا وہ کاٹ زیادہ رہی تھیں چوس کم رہیں تھیں، میں نے ان کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیدہ کیئے اور ان کے اپنا منہ نیچے کر کے ان کے ایک ممے کو منہ میں لے کر دبانا اور کاٹنا شروع کر دیا وہ تڑپ گیں اور میرے لن پر اپنی چوت کے دھکے مارنے لگیں، میں نے جو ہاتھ ان کے چوتڑوں پر رکھا ہوا تھا ان کی گانڈ کی لکیر میں پھیرنا شروع کر دیا وہ مچل گیئں، ان کے منہ سے بے ربط باتیں اور سسکیاں نکلنے لگیں، میں فارغ ہونے والا تھا پر اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے میں ان کے بارے میں تسلی کر لینا چاہتا تھا کہ کیا وہ بھی ہونے والی ہیں کہ نہیں، جیسے ہی میں نے ان کے ممے سے منہ ہٹایا تو انھوں نے اپنی وہ ٹانگ جو میرے پیٹ سے گزر کر دوسری طرف تھی اسے اوپر اٹھا لیا اور اپنی ران پر گھٹنے کے نیچے ہاتھ رکھ لیا اور زور زور سے ہلنے لگیں، میں ان کی لچک دیکھ کر حیران رہ گیا، میں نے ایک انگلی ان کی گانڈ کے سراغ پر پھیری تو انھوں نے آہ بھر کر کہا ریحان ابھی نہیں نا میری جان پر میں باز نہیں ایا اور ان کی گانڈ کو چھیڑتا رہا ان کے پیچھے کی طرف دھکے وحشیانہ حد تک تیز ہو چکے تھے جو میرے ٹٹوں پر لگ رہے تھے اور مجھ اب درد ہونے لگا تھا میں نے ان کی ٹانگ نیچے کی اور ان کو الٹا کر دیا اور پیچھے سے ان کی چوت میں دھکے دینے لگا میں ہونے والا تھا اس لیئے میں میری رفتار پہت تیز ہو گئی، چچی نے سسکتے ہوئے کہا ریحان میں گئی میری جان میں گی ہائے میں گئی، ان کی کمر خود بخود اوپر کی طرف اٹھنے لگی اور ساتھ ہی وہ فارغ ہو رہی تھیں میں بھی فارغ ہونے والا تھا میں ان کی کے اوپر لیٹ گیا اور چھوٹںے لگا، تب ہی مجھے لگا کہ لن چوت سے باہر آ گیا ہے تو میں اٹھ بیٹھا اور لن کو پکڑ کر چچی کی ننگی کمر پر فارغ ہونے لگا۔
ان کی کمر میری منی سے لتھڑی گئی پر وہ سکون سے لیٹی رہیں، جب میں سکون میں آ گیا تو ان کے بخل میں لیٹ گیا اور ان کے گالوں پر چوم کر کہا آئی لوو یو، انھوں نے میرے ہونٹ چومے اور کہا چلو اکھٹے شاور لیتے ہیں، اور اٹھ کر میرا بازو پکڑا اور واشروم کی طرف بڑھ گئیں، مجھے پتہ تھا کہ اب میرا اور چچی کا رشتہ بہت عجیب ہو جانا ہے، جو صرف جسم کی طلب تک ہی محدود رہے گا، ہم ایک دوسرے کو دیکھیں گے بھی تو صرف ایک سیکس ٹوائے کی نظر سے، ایک دوسرے سے بات کریں گے تو جنسی تسکین کے لیئے، اب سب کچھ بدلنے والا تھا،
مگر جو بھی ہونا تھا اب اچھا نہیں تھا، کیونکہ شجر ممنوع کا پھل کچھ دیر کا ہی مزا اور سکون دیتا ہے پھر تکلیف اور پچھتاوا بن جاتا ہے، یہ ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا، ایک دوسرے کے ساتھ سب کچھ کر لینے کے بعد اور کئی دفعہ کر لینے کے بعد، ہمیں ایک دوسرے کی چاہ ختم ہو گئی، اور کچھ عرصے بعد ہم ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے، پھر جب بھی ایک دوسرے سے سامنا ہوتا تو عجیب سا غم اور دکھ سر اٹھانے لگتا اور دل میں خیال اتا کہ کاش ہم اپنے رشتے کہ تقدس کو پامال نہ کرتے، کیونکہ اب میں نہ صرف اپنی چچی اور چچا کا مجرم تھا، بلکہ اپنے آپ سے شرمندہ بھی تھا، رشتوں کے بیچ پردے رہیں تو رشتے رہتے ہیں، میاں بیوی کہ درمیان بھی اگر سب پردے ختم ہو جائیں تو وہ بھی قائم نہیں رہتے، کچھ وقت کا مزا لمبے عرصے کا دکھ اور تکلیف بھی دے سکتا ہے یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ کچھ چیزیں ہو جانے کہ بعد سمجھ آتی ہیں، اور میرے جیسے لوگ جو اپنے اپ کو استاد اور شکاری کہتے ہیں ان کا کے بھی استاد اور شکاری اسی دنیا میں ان سے ٹکراتے ہیں اور حساب برابر کرتے ہیں۔
میرا نام ریحان ہے میں بیس سال کا ہوں، جسمانی طور پر عام سا اور دماغی طور پر شیطان کا بھی باپ یعنی میرے دماغ پر ہر وقت یا تو شہوت سوار رہتی ہے یا پھر کسی کو پھسانے اور چودنے کے خیالات، شکل صورت سے معصوم لگتا ہوں جس کا میں بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں یونی کے لیکچرار سے لے کر لیب اسیسٹنٹ اور سینیَر جونیر کئی لڑکیاں اور عورتیں میرے لن کا مزہ چکھ چکی ہیں عام طور پر میری عمر کے لڑکوں کو جگہ کی کمی مار دے جاتی ہے پر میرے پاس ہمارے پرانے گھر کی چابی ہے جو خالی پڑا ہوا ہے جسے میں اپنے مقاصد لے لیئے بھرپور استعمال کرتا ہوں۔
چچی سمیرا کی شادی میرے چھوٹے چچا سے کوئی دس سال پہلے ہوئی تھی، میں اس وقت دس سال کا تھا مگر اس وقت بھی چچی کو دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا تھا، کیونکہ چچی ناصرف خوبصورت تھیں بلکے دھیمے لہجے والی اور بھرپور جسم کی مالک عورت تھیں، چچا اور چچی کی جوڑی مثالی کہی جاتی تھی پر ابھی تک وہ دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور شاید وہ دونوں اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر بیٹھے تھے۔ چچی اور چچا کا پیار بہت تھا اور میرا اندازہ تھا کہ چچا نے ان کے ساتھ کوئی رات بھی ضائع نہیں کی ہو گی کیونکہ شادی کے بعد چچی کا جسم انتاہی دلکش ہو گیا تھا۔ صورت تو پہلے ہی لاجواب تھی مگر اب جسم کا ہر حصہ اپنی طرف بلاتا محسوس ہوتا ہے، پانچ فٹ چھ انچ قد کے ساتھ بھرا ہوا جسم جس کی نمایاں خصوصیات بڑے اور گول ممے، مظبوط اور موٹی رانیں، موٹی اور چوڑی گانڈ، لمبے اور سیاہ بال، چوڑے کندھے، سرخ و سپید رنگ اففف کیا توپ چیز ہے میری چچی بھی۔ کبھی کبھی مجھے چچا سے حسد ہونے لگتا اور ان کی قسمت پر رشک آنے لگتا، کئی دفعہ میں نے چچی کی طرف پیش قدمی کرنے کا بھی سوچا پر ایک تو چچی اپنے شوہر سے انتاہی وفادار ہیں دوسرا ابو کے لتروں کا خوف تیسرا مناسب مواقع کی کمی بھی رہی ہے، بارحال اب کی بار میرے پاس پورا مہینہ تھا۔
اس وقت جب چچی گھر کی صفائی کر رہی تھیں اور میں بظاہر ٹی وی دیکھ رہا تھا پر جب ایسا ائیٹم سامنے مٹکتا پھر رہا ہوں کون کمبخت کسی اور طرف دیکھ سکتا ہے، میری نظر چچی کی تشریف پر چپک گئی تھیں اور میرا دل اس تشریف سے لپٹنے اور چومنے کا کر رہا تھا، تب ہی چچی نے مجھے سے پوچھا ریحان بیٹا آج یونی نہیں جانا کیا تو میں نے دل ہی دل میں چچی کے بیٹا بلانے پر برا مناتے ہوئے کہا نہیں چچی سمیسٹر ختم ہو گیا ہے نہ اس لیئے ڈیڑھ میہنے کی چھٹیاں ہیں، چچی نے سر ہلایا اور جھک کر ٹیبل پر کپڑا مارنے لگیں، مجھ سے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اور لن صاحب تھے جو میری ٹانگوں کے بیچ میں سے بھی سر اٹھا اٹھا کر مجھے گالیاں دے رہے تھے۔ میں نے سوچا ریحان بیٹا کچھ کرنا پڑے گا ورنہ ساری عمر اپنے لن سے زلیل ہوتا رہے گا۔ پر کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں کیونکہ یہ تو چچی تھیں کوئی اور عورت نہیں کہ جن کے ساتھ میں فلرٹ کروں ایک دو ٹرائی ماروں گرم ہوئی اورموقع ہوا تو کام بن جائے گا ورنہ جائے بھاڑ میں کہ اپنے لن کو ٹھنڈ ہے۔ یہ وہ خاتون ہے جو خود پیش قدمی نہ کرے یا کوئی ایسا اشارہ نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور ادھر لن نے خودکشی کی دھمکی دی ہوئی ہے کہ اگر اس جسم کی لزت نہ چکھائی تو کسی کی پھٹی ہوئی چوت میں سر دے کر اپنا اپ جلا لے گا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں اور کیا نہ کروں دو دن گزر چکے تھے اور رات کو چچا کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی اتی آوازوں کے ساتھ ہی لن نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا تھا اب تو لن کا سرکش رویا میرے لیئے پرشانی کا باعث بنتا جا رہا تھا، جو چچی کو دیکھتے ساتھ ہی ضد شروع کر دیتا تھا یہ لینی ہے مجھے نہیں پتا لے کر دو اور ساتھ ہی اپنا اپ اکڑا کر رونا شروع کردیتا دل تو کرتا تھا کہ اس سے کہوں جا کر لے خودکشی پر کیا کروں دل میں بھی خواہش تھی کہ کاش ایک دفعہ موقع مل جائے پھر اپنی تمام حسرتیں پوری کر لوں گا۔ اور پھر وہ موقع مل ہی گیا، میرا چچا کے گھر شفٹ ہوئے چوتھا روز تھا، رات کو کھانے کے ٹیبل پر چچا نے چچی اور مجھ سے کہا کہ انھیں پندرہ دن کے لیئے کراچی جانا ہے، میرے چچا جونکہ چارٹرڈ اکاوٹنٹ ہیں اس لیئے انھیں کبھی کبھی شہر سے باہر جانا پڑتا ہے اگر انھیں زیادہ دنوں کے لیئے باہر جانا ہو تو وہ چچی کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ مگر اس دفعہ میں ان کے گھر پر تھا تو انھوں نے اکیلے ہی جانا مناسب سمجھا، یہ سنتے ہی میرے دل میں ڈھول بجنا شروع ہو گیا اور نیچے لن نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیا ادھر دماغ چلنے لگا کہ کیا کرنا ہے ان پندرہ دنوں میں کہ یہ پھل میری گود میں آ گرے۔
رات کو چچا کے کمرے سے مجھے لڑائی کی آواز بھی ائی مگر اس کے بعد وہی جان لیوا ٹھک ٹھکا ٹھک، لن نے سر اوپر اٹھایا اور کہا دیکھ بھیا اگر ان پندرہ دنوں میں تو نے مجھے ان باغوں کی سیر نہ کرائی نا تو میں ساری عمر کے لیئے کھڑا نہیں ہوتا پھر پھرتا رہیں مجھے لٹکا کے اور کرتا رہیں میری منتیں میں نے بھی ٹٹوں سے یاری لگا لینی ہے اور ان سے ہی باتیں کرنی ہیں۔ لن کی یہ بکواس سن کر میرے ٹٹے سچ مچ شارٹ ہو گئے اور دماغ کو کرنٹ لگا، میں نے لیپ ٹاپ کھولا اور پنگ ویاگرا کے بارے میں پڑھنے لگا، چونکہ جب مجھے پتہ چلا تھا کہ میں نے ایک مہینے کے لیئے چچا کے گھر شفٹ ہونا ہے تو میں نے پنگ ویاگرا کافی مقدارمیں منگا لی تھی جس کی وجہ سے میری جیب کافی ہلکی ہو گئی تھی، جن لوگوں کو پنگ ویاگرا کا نہیں پتہ ان کو بتاتا چلوں، کہ یہ ایک گولی ہے جو ویاگرا کی ہی طرح کام کرتی ہے پر یہ عورتوں کےلیئے ہے، چونکہ ویاگرا خون کا پریشر جنسی عضو کی طرف بڑھا کر لن کی سختی اور سیکس کی خواہش کو بڑھاتی ہے پر اس کے سائیڈ افیکٹ بھی بہت زیادہ ہیں، عورت کی سیکس کی خواہش کا تعلق اس کے عضو کے ساتھ کم اور دماغ کے ساتھ زیادہ ہے اس لیئے کئی دفعہ ویاگرا عورتوں پر اثر نہِیں کرتی اور ان میں بیماریوں کو جنم دیتی ہے، جبکہ پنگ ویاگرا عورت کے دماغ پر اثر کرتی ہے اور ایسے مواد خارج کرتی ہے جو عورت میں شہوت کو بڑھاتی ہے۔ اس گولی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ لینے کے لیئے امینوایسڈ کی مقدار بھی بڑھانی چاہیے اور اس گولی کا لگاتار استعمال ہی اس کا سہی فائدہ دیتا ہے۔
میں یہ تو جانتا تھا کہ چچی کو عادت پڑ چکی ہے روز سیکس کی اور ایک یا دو دن بعد ہی ان کو طلب ہونے لگے گی پر وہ شاید اس کو کنٹرول کر لیں اگر میں ساتھ کوئی طریقہ استعمال کروں تو ان سے برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا۔
میں نے سوچ لیا تھا کہ جو مرضی ہو جائے پر ٹرائی مارنی ہے، میں سوچنے لگا کہ یہ گولی کس طرح چچی کو استعمال کروانی ہے، میں نے چچی کی روٹین اور ان کی عادتوں کا اچھی طرح جائزہ لیا، میں نے دیکھا کہ چچی چائے کا استعمال زیادہ کرتی ہیں اور چائے کھلے دودھ کی پیتی ہیں اور میں ڈبے کے دودھ کی چائے پینے کا عادی ہوں، میں چاچی کے دودھ میں گولی ملا سکتا تھا، پر میں نے گولی کا اثر بھی دیکھنا تھا، میں اٹھا اور ایک کپ میں دودھ لے کر کمرے میں آ گیا پھر اس میں گولی پیس کر مکس کی گولی نے دودھ کے رنگ پر کوئی اثر نہیں ڈالا پھر میں نے ہلکا سا چکھ کر دیکھا دودھ کا ذائقہ بھی نہیں بدلہ تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ روز دو گولی چچی کے دودھ میں ملانی ہیں کیونکہ اس کا کوئی سائڈ افکیٹ میری نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیئے میں اس کا بے دھڑک اور شدید استعمال اپنی چچی کو کرانا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ یہ پردہ ختم ہو گیا تو پھر موجاں ہی موجاں۔
مجھے یہ تو پتہ تھا کہ چچا کے جانے کے بعد یہ دودھ میں نے ہی لے کر انا ہے اور دودھ لاتے وقت ہی میں اس میں گولیاں پیس کر ملا سکتا تھا، پر گولیوں کے علاوہ بھی مجھے کچھ ایسا کرنا تھا کہ چچی کا اپنے اوپر قابو نہ رہے اور مجھے اپنے اوپر چڑھا لیں۔
صبح جب چچا چلے گئے تو میں نے اپنے پلین کے مطابق دو دو گولیوں کو پیس کر ان کے پیکٹ بنا لیئے اور ایک پیکٹ جیب میں رکھ لیا، میں ناشتے کے بعد اپنے لیپ ٹاپ پر کوئی مووی دیکھ رہا تھا کہ تب ہی وہ آفت میرے پاس آئی اور کہا ریحان بیٹا ذرا دودھ تو لا دو مارکیٹ سے میں نے بےواقوف بنتے ہوئے پوچھا کون سا نیسلے یا کوئی اور تو چچی اپنی پاگل کر دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں نہیں یار کھلا دودھ لے کر آو میں نے پھر پوچھا کتنا تو انھوں نے کچھ سوچ کر کہا ایک لیٹر ہی لے آو ٹھرو برتن دیتی ہوں، میرا دل تیز دھڑک رہا تھا چچی مڑی اور اپنی چوڑی اور خوبصورت بنڈ مٹکاتی کچن کی طرف گئی تو لن کو آگ لگ گئی اور اس نے وہی رونا شروع کر دیا مجھے نہیں پتا لے کر دو میں نے لن کی گردن دبا کر اس کی سانس بند کی اور اسے خاموش کروایا اور کہا مروائے گا صبر کر تھوڑا سا، چچی برتن لے کر کچن سے باہر ائی تو لگا کہ دنیا سلو موشن میں چلنے لگی ہے اور چچی کے ہر قدم کے ساتھ ان کے خوبصورت ممے ہلکا سا جھٹکا لیتے اور لن سسکی لے کر رہ جاتا، میں نے جب دیکھا کہ چچی نے میری گندی نظروں کو نوٹس کرنا شروع کر دیا ہے تو میں نے سر جھکا لیا اور لن کی کلاس لی خود بھی مرے گا مجھے بھی مروائے گا، چچی نے برتن مجھے پکڑایا اور کچھ کرنسی نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے میں نے وہ لینے سے انکار کر دیا تو چچی نے اپنا ہاتھ مجھے دکھاتے ہوئے کہا بچے تھپڑ کھاو گے یہ لو اور کوئی نخرہ نہیں، میں نے بھی جواب دیا مار لو آپ پر میں آپ سے نہیں لوں گا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی وہ تو شکر ہے یونی بند تھی ورنہ میری ہلکی جیب نے بڑا پریشان کرنا تھا، خیر دودھ لے کر میں گاڑی میں آ بیٹھا اور ارد گرد کا جائزہ لے کر اپنی جیب سے پیکٹ نکالا اور دودھ میں ڈال دیا اور برتن بند کر اپنے آپ سے کہا لے بیٹا یا تو آر یا پھر پار۔
سارا دن گزر گیا تھا پر چچی کے رویے میں کوئی بدلاو نہیں آیا تھا، اور میں سوچ رہا تھا کہ میری انوسٹمنٹ ضائع گئی، اگلا دن پھر کچھ خاص نہیں ہوا تھا، میں مایوس ہوتا جا رہا تھا، تیسرا دن تھا آج چچی کو پنگ ویاگرا ستعمال کرواتے ہوئے پر کچھ نہیں ہو رہا تھا، میں نے دوبارہ سے اس گولی کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا، مگر ہر جگہ اس گولی کے بارے میں سب صیع لکھا ہوا تھا، مگر ایک چیز ہر ہی جگہ لکھی تھی کہ یہ گولی لگاتار استعمال سے فائدہ دیتی ہے میرے پاس صرف بارہ دن رہ گئے تھے مگر ارادےمظبوط تھے میں نے فیصلہ کر لیا کہ آخری دن تک گولی دودھ میں ملاوں گا شاید آخری رات ہی کچھ ہو جائے۔
چوتھا روز تھا چچی کو گولی استعمال کرواتے ہوئے میں کال آف ڈیوٹی کھیل رہا تھا میں نے ہیڈ فون لگائے ہوئے تھے مجھے نہیں پتہ چلا کہ چچی میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ہیں اور مجھے کھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہیں، اگر کسی نے ٹیم کمبیٹ میں حصہ لیا ہو تو اسے پتہ ہو گا کہ لڑکے کتنی گندی گالیاں اور زبان استعمال کرتے ہیں، چچی دوسری طرف کی آواز تو نہیں سن سکتی تھی پر میں جو کچھ بکواس کر رہا تھا وہ انتہائی بے ہودہ تھا، چچی حیران پریشان سی مجھے بکواس کرتے ہوئے سن رہیں تھیں پھر انھوں نے مجھے اواز دے کر اپنی موجودگی کی احساس دلانے کی کوشش کی پر ایکسپلوزوز اور گن تھنڈر کی وجہ سے مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا چچی میری بے ہودہ بکواس کافی دیر تک سنتی رہیں اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلیں گئیں۔
شام کو کچھ دوستوں سے ملنے باہر جانے لگا تو میں چچی کو بتانے کے لیئے ان کے کمرے کی طرف گیا، میرے زہن میں اس وقت خاص نہیں تھا پر میں نے جو اس وقت میں نے چچی کو جس حالت میں دیکھا اس نے میری حالت خراب کر دی، چچی بستر پر الٹی لیٹیں تھیں اور ان کی ٹانگوں کے بیچ میں تکیہ تھا، چچی کی موٹی بنڈ اس وقت قہر ڈھا رہی تھی، میرا دل کیا کہ میں ابھی اس بنڈ پر چڑھ جاوں اور اس کے ہر انچ کو محسوس کروں اسے چوموں اسے چاٹوں پر کیا کروں میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں دوبارہ کمرے سے باہر آیا اور کمرے سے نکل کر سوچا بیٹا اگر اسی طرح چلتا رہا تو کچھ نہیں کر پائے گا اور یہ موقع بھی نکل جائے گا۔ میں نے باہر جانے کا ارادہ بدل لیا اور چاچی کو گھیرنے کا فیصلہ کیا، میں نے وہیں کھڑے کھڑے آواز لگائی چاچی، چاچی کدھر ہو، تھوڑی دیر بعد کمرے سے آواز آئی ریحان میں یہاں ہوں، میں کمرے میں داخل ہوا اور کہا چچی میں نے چائے پینی ہے بنا دو گی کیا، چچی نے مسکرا کر کہا کیوں نہیں میرے بچے بس دس منٹ میں فریش ہو جاوں پھر بنا دیتی ہوں اور اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئیں ان کے قیامت خیز ممے اور وہ ہلتی مٹکتی گانڈ میرے صبر کے تمام بند توڑ رہی تھی۔
میں گیلری میں آ کر بیٹھ گیا اور سامنے لان اور پھولوں کو دیکھنے لگا، ایک پھول مجھے پسند ایا میں نے اسے قریب سے جا کر دیکھا اور پھر اسے توڑ لیا، چچی مجھے آواز دے رہیں تھیں میں نے جواب دیا باہر ہوں، تو وہ ہاتھ میں ٹرے پکڑی باہر ائیں جس میں دو کپ چائے تھی، انھوں نے ایک کپ مجھے پکڑایا اور دوسرا خود اٹھا کر ٹرے ٹیبل پر رکھ دی میں نے وہ پھول جو ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا چچی کی طرف بڑھا دیا، چچی نے مسکرا کر وہ پھول میرے ہاتھ سے لے لیا اور کہا شکریہ میرے بچے، میرے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور لن کی ہنسی چھوٹ گئی جو سر اٹھا اٹھا کر مجھے کہہ رہا تھا بڑا آیا رومیو شکل دیکھ اپنی، وہ سمجھ رہی ہے تیرے پاس سامان پورا نہیں ہے، اسے دکھا کہ تو پورے سے زیادہ سامان رکھتا ہے ایک دفعہ میری صورت تو دکھا دے اسے پھر دیکھیں کیسے تیرے نیچے ہوتی ہے۔
میں نے چچی کی طرف دیکھا اور کہا چچی بور نہیں ہوتی آپ سارا دن گھر رہ رہ کر میں تو بور ہو گیا ہوں، کہیں باہر چلیں گھومنے تو چچی نے کہا نہیں ریحان میں آپ کے چچا کہ ساتھ ہر جگہ جاتی ہوں اور میں ان کے بخیر کہیں نہیں جاتی، لن نے پھر کہا ہور چوپ لے مزے، میں خاموش ہو کر چائے پینے لگا۔
رات کو کھانے کہ بعد میں نے ایک مووی لگا لی اور بیٹھ کر دیکھنے لگا، چچی بھی میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں، مووی کوئی وار مووی تھی، اور آپ کو پتہ ہے امریکن فوجی گندی زبان کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں، چاچی نے جب دیکھا کہ یہ وہی بکواس ہو رہی ہے جو میں دوپہر کو گیم کھیلتے وقت کر رہا تھا، تو انھوں نے کہا اچھا یہ ساری گالیاں اور بکواس تم نے یہاں سے سیکھیں ہیں، میری گانڈ پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی، چچی پھر بولیں بیٹا بہت گندی بات ہے تم بہت بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہو، شرم سے میرے پسینے چھوٹ گئے، چچی نے پھر کہا میں بھابی سے بات کروں گی کہ تم پر نظر رکھیں تم ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہو، میں نے نظر آٹھا کر دیکھا اور چچی کو کہا چچی غلطی ہو گئی معاف کر دیں پر کیا کروں سب لڑکے اس طرح کی ہی بکواس کرتے ہیں مجھے بھی جواب دینا ہوتا ہے تو اس طرح کی بکواس ہی منہ سے نکلتی ہے۔ چچی ہنس پڑیں اور کہا ڈرو نہیں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی مجھے پتہ ہے کہ تم لڑکے کس طرح کی باتیں کرتے ہو، اچھا یار کوئی اور مووی لگاو یہ کیا لگایا ہوا ہے ، میری سانس میں سانس آئی اور میں نے چچی سے پوچھا کہ کوں سی مووی لگاوں تو انھوں نے کہا کہ کوئی انڈین مووی لگا دو، ہمارے درمیان برف پگھل رہی تھی پر ابھی بہت سے پردے اور منزلیں باقی تھیں۔
میں نے کوئی انڈین مووی لگا دی جو مجھے ابھی یاد نہیں ہے جب اس طرح کی عورت اتنے پاس بیٹھی ہو تو کوئی ٹھنڈی سٹ کی پیداورہی کسی اور طرف دھیان دے گا، خیر چچی مووی دیکھ رہی تھیں اور میں چوری چوری ان کو دیکھ رہا تھا، چچی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری ٹانگ پر رکھ لی اور صوفے کی ٹیک اور بازو سے لگ کر آرام سے بیٹھ گئیں، اور ادھر میری حالت پتلی ہو گئی، افف کیا ران تھی اور کیا ہی گانڈ ہو گی، میرا تو سانس بند ہو رہا تھا پر لن نے ادھم مچایا ہوا تھا لینی ہے لینی ہے لے کر دو میں نے آرام سے اپنی ٹانگوں کے بیچ میں لن کو پھسا کر اسے دبا دیا، پھر میں نے بھی اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنی دوسری ٹانگ پر رکھی تاکہ بلوتوتھ کنکشن تو صیح بنے، مجھے لگا کہ چچی نے میری اس حرکت کو نوٹ کیا ہے اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی، میں بھی چچی کی طرح صوفے کے دوسرے کونے پر بیٹھا ہوا تھا، پھر چچی نے مسکراتے ہوئے اپنی پوزیشن صیح کی اور میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی صیع ہو کر بیٹھنے میں ہی بہتری سمجھی، چچی ہنس پڑیں اور مجھے کہا ریحان میری نقل اتار رہے ہو، میں نے ان کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر کہا جی، تو انھوں نے مصنوعی سا غصہ کرتے ہوئے کہا کیوں مجھے تنگ کرنا چہا رہے ہو، میں نے بھی لاپرواہی سے کہا ہاں تھوڑا سا، وہ پھر ہنس پڑیں اور بولی کیوں ، تو میں نے فوراََ کہا یار اتنے دن ہو گئے ہیں نہ کسی کی ڈانٹ کھائی ہے نہ کسی سے لتر اوپر سے آپ انتاہی بور ہو، چچی کے ماتھے پر بل پڑے اور کہا ریحان کیا میں واقعی ہی میں بور ہوں، تو میں نے کہا نہیں تو اور کیا پتہ نہیں میرا کیا بنے کا ان بیس بائیس دنوں میں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا تجھے لتر کھانے ہیں تو میں لگا دیتی ہوں اس میں اتنا پریشان ہونے والی کون سی بات ہے، میں نے کہا ایسے نہیں کھانے مجھے کوئی لتروتر کوئی وجہ بھی تو ہو آپ کیا سمجھ رہیں ہیں کہ میں آرام سے کھا لوں گا مار، نہیں میڈم جی امی کو بھی اپنا چھتر مجھے مارنے کے لیئے کم از کم سو دو سو میٹر سپرینٹ کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں نشانے پر چھتر مارنے کی، چچی میری باتیں سن کر ہنس رہیں تھیں اور وہ مجھے کوئی معصوم سا شرارتی بچہ سمجھ رہیں تھیں اور یہ بات میرے فائدے میں تھی۔
خیر اسی طرح کی فضول باتیں کرتے کرتے چچی مجھ سے کافی فری ہو گئیں، جب رات کے گیارہ بجے تو ان کے موبائیل پر چچا کا فون آ گیا اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں، میں مایوس ہو گیا کہ لو آج کا دن بھی ضائع ، میں نے تھوڑی دیر مووی دیکھی انتاہی بکواس اور فضول سی کوئی مووی تھی، میں نے ٹی وی بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا، تب ہی مجھے چچی کے کمرے سے چچی کی آواز آئی یار بہت مس کر رہی ہوں آپ کو، پتہ نہیں کیسے گزریں گے یہ دن پتہ نہیں دوسری طرف سے کیا کہا گیا مگر جو چچی نے کہا وہ میرے لیئے کسی سرپرائز سے کم نہیں تھا، یار آگ لگی ہوئی ہے نیچے اور آپ کہہ رہے ہو کہ صبر کروں مجھ سے نہیں ہو رہا صبر یہ عادت بھی آپ نے ہی ڈالی ہے نہ بس اب آ جاو نا یار، میرے تو طوطے آڑ گئے کہ چچی اتنی گرم ہے افف افف۔ میں نے اپنے لن کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے کمرے میں جا کر لن کو سمجھایا بیٹا تھوڑا صبر کر لے بس ایک یا دو دن گیم اپنے کورٹ میں آ چکی ہے تھوڑی احتیاط کرنی ہے، کام تو آج بھی ڈال سکتا تھا پر مجھے لمبے ٹائم کے مزے چاہیں یہ نہ ہو کہ ایک دفعہ کہ بعد چھٹی ہو جائے۔
صبح میں جلدی اٹھ گیا اور فریش ہو کر کچن کی طرف گیا تو دیکھا کہ کچن میں کوئی نہیں ہے میں نے چچی کے روم کی طرف جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا یعنی چچی سو رہی ہیں، میں نے کچن میں جا کر اپنے لیئے چائے بنائی اور پھر کچھ سلائس گرم کر کے ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا، میں ناشتہ کر رہا تھا کہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ ہڑبڑا کر باہر نکلیں، اور مجھے دیکھ کر تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا سوری ریحان رات کو نیند نہیں آئی اور بہت دیر سے سوئی اس لیئے صبح جلدی نہیں اٹھا گیا، میں نے مسکرا کر کہہ اٹس او کے، آپ نے ناشتہ کرنا ہے نا چلیں آج آپ کا ناشتہ میں بناتا ہوں، آپ فریش ہو جائیں، چچی ہنس پڑیں اور کہا تم اور ناشتہ واہ کیا بات ہے، میں نے کہا آپ مجھے انڈرایسٹیمیٹ کر رہی ہیں، آپ فریش ہو کر ائیں میں ناشتہ بناتا ہوں پھر بات کریں گے میرے سکلز کے بارے میں، چچی نے سر ہلایا اور مسکراتی دوبارہ اپنے کمرے میں گھسنے لگیں تو میں نے کہا، میڈیم ناشتے میں کیا پسند فرمائیں گی، تو چچی نے مسکراتے ہوئے کہا چائے اور اوٹس فلیکس، میں نے با اخلاق بٹلر کی طرح ہاتھ باندھ کر سر کو ہلکا سا جھکایا اور پھر پوچھا اور کچھ میڈیم، چچی نے قہقہ لگایا اور کہا بکواس نہیں کرو ریحان مجھے پہلے ہی شرم آ رہی ہے، میں نے دوبارہ سر جھکایا اور کہا جیسے آپ کی مرضی اور مڑ کر کچن کی طرف جانے لگا، جب دیکھا کہ چچی ہنستی مسکراتی اپنے کمرےمیں چلی گئیں ہیں تو میں نے جلدی سے ٹیبل سے چائے کا کپ اٹھایا اور ایک بڑا سا سپ لے کر چائے ختم کی اور کچن میں گھس گیا، میں نے چچی کے لیئے چائے بنانا شروع کی اور فلیکس ایک باول میں نکال کر اسے ایک ٹرے میں رکھا اور جلدی سے کچھ فروٹس کے سلائس بنا کر ٹرے میں سجائے اور پھر دودھ ایک جار میں ڈال کر فلیکس کے ساتھ رکھے اور ایک تنقیدی نظر ٹرے پر ڈالی تو کچھ سلائس دوبارہ ترتیب سے رکھے پھر چائے نکال کر ایک کپ میں ڈالی اور اسے بھی ٹرے میں رکھ دیا تب ہی لگا کہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے میں نے جلدی سے ایک کپڑا اٹھا کر اپنے ایک بازو پر ڈالا اور اسی ہاتھ میں ٹرے پکڑ کر اپنا ایک ہاتھ پیچھے باندھا اور کچن سے نکلتے ہوئے ایک واس سے ایک پھول نکال کر اپنے پیچھے والے ہاتھ میں پکڑ لیا، چچی نے مجھے دیکھا تو کرسی پر بیٹھ گئیں میں ان کی کرسی کے پیچھے گیا اور جھک کر کہا میڈیم آپ کا ناشتہ اور ٹرے ان کے سامنے رکھ دی، چچی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں پھر پھول والا ہاتھ اگے کیا اور ان کے سامنے پھول کرتے ہوئے کہا فار یو میڈیم، پہلے تو ان کی انکھوں میں شرم کی جھلک نظر ائی اور پھر ستائشی نظر سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھینک یو مسٹر ریحان اور میں نے سر جھکا کر کہا ویلکم میڈیم، اور چچی نے میرے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا یار بس کرو اب شرم آ رہی ہے مجھے، میں نے مسکراتے ہوئے کرسی کھینچی اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، چچی مجھے دیکھتے ہوئے ہنس رہی تھیں اور میں ان کی ہنسی کو انجوائے کر رہا تھا، پھر وہ خاموش ہوئیں اور بولیں تیری تو بیگم کے مزے ہوں گے ریحان قسم سے، میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا پتہ نہیں کب آئیں گے وہ دن، چچی پاگلوں کی طرح ہنسنے لگیں اور میں ان کی ہنسی میں کھو گیا، چچی نے ہنستے ہوئے ہی کہا بہت جلدی ہے میں بات کرتی ہوں بھائی صاحب سے کہ لڑکا بہت مچل رہا ہے، میں نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے اور دونوں ہاتھوں کو ان کے سامنے جوڑ کر مٹھی بناتے ہوئے کہا پلیز چچی آپ کا احسان ہو گا کوئی ابو کو بھی تو سمجھائے کہ پڑھائی کے علاوہ بھی غم ہیں، چچی کا ہنس ہنس کر برا حال ہو چکا تھا ان کا گلابی چہرہ لال ہو گیا تھا ان کی انکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور ان کے موتی جیسے ترتیب سے لگے دانت دیکھ دیکھ کر میرا دل واقع میں دھڑکنا بھول گیا تھا، چچی نے ہنستے ہوئے اپنی انکھیں صاف کیں اور پھر کہا ریحان تم گھر میں بھی ایسے ہی ہوتے ہو، میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیسے، تو چچی تھوڑا سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں ایسے ہی جیسے یہ حرکتیں کر رہے ہو، میں نے جواب دیا اور ایسے ہی روز لترول ہوتی ہے میری ان ہی حرکتوں کی وجہ سے کبھی امی اور کبھی ابو پھینٹی لگا رہے ہوتے ہیں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا تمھیں شرم نہیں اتی اتنے بڑے ہو گئے ہو پھر بھی ان کی مار کھاتے ہو، میں نے بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ایسی بات نہیں ہے پر عادت سے مجبور ہوں اور ان کی مار بھی کیا مار ہے وہ بھی تو پیار سے مارتے ہیں اور اگر ابو کبھی غصہ ہو بھی جائیں تو آرام سے سن لیتا ہوں سب کچھ ویسے بھی تو پتہ نہیں باہرٹکے ٹکے کے لوگ کیا کہتے رہتے ہیں ان کی باتیں بھی سنتے ہیں وہ تو امی ابو ہیں ان کی تو کیا ہی بات ہے۔ چچی نے میرے سر میں ہاتھ پھیرا اور میرے بالوں کو خراب کیا اور کہا واہ بہت عقلمند ہو میں تو سمجھتی تھی کہ تم بھی آج کل کے لڑکوں کی طرج بے پروا ہو گے ہر چیز سے، میں نے چچی کا ہاتھ پکڑ لیا جو میرے سر پر تھا اور کہا یار میرا سٹائل خراب کر دیا پھر گھنٹہ لگے گا، چچی نے میرے گال پر ایک ہلکا سا تھپڑ لگایا اور کہا کوئی نہیں خراب ہوا آرام سے بیٹھ، اور اپنا ناشتہ کرنے لگیں
چچی نے ناشتہ کیا اور پھر کہا ریحان بہت شکریہ چلو پکی دوستی کرتے ہیں میں آج بہت دنوں بعد اس طرح ہنسی ہوں اور اتنا اچھا ناشتہ کیا ہے تھینکس، میں نے منہ بنا کر کہا تو کیا میں اپ کا دوست نہیں ہوں چچی نے میرے گال پر چٹکی کاٹی اور کہا دوست تو ہو پر کچے والے آج پکی دوستی کر لو، میں نے اپنا گال مل کر کہا یار ایک تو یہ بہت گندی عادت ہوتی ہے آپ آنٹیوں کی گال ہی لال کر دیتی ہو، چچی پھر قہقہ لگا کر ہنسنے لگیں اور دونوں ہاتھوں کو میرے گالوں کی طرف بڑھایا تو میں نے دوڑ لگا دی چچی ہنستے ہوئے میرے پیچھے دوڑ پڑیں، اور کہا رک میں آنٹی لگتی ہوں تجھے، میں نے بھی دوڑتے ہوئے کہا چچی کو انگریزی میں آنٹ ہی کہتے ہیں، چچی رک گئیں اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر سانس لیتے ہوئے کہا، ٹھیک ہے پھر اور ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئیں، میں ان کے پاس گیا اور کہا کیا ہوا، تو چچی ایک دم کھڑی ہو گئیں اور میرے دونوں گالوں پر چٹکی کاٹ لی اور ہنسنے لگیں میں نے رونے والی شکل بناتے ہوئے کہا کوئی دوستی نہیں آپ سے یار آپ تو بہت بے رحم ہو، چچی نے ہنستے ہوئے مجھے جھپی ڈالی اور جہاں مجھے چٹکی کاٹی تھی وہاں پیار کرتے ہوئے کہا اچھا نا یار سوری، نیچے لن غش کھا کر آپے سے باہر ہو رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اگر اج میں نے لوہے کا کچھا بھی پہنا ہوتا تو لن صاحب نے اسے بھی پھاڑ کر شور مچا دینا تھا، لینی ہے لینی ہے مجھے نہیں پتہ لے کر دو۔
چچی مجھ سے علیدہ ہوئیں اور کہا اچھا میں چینج کر کے آتی ہوں پھر کچھ گراسری لینی ہے وہ لے آتے ہیں مارکیٹ سے، میں نے کہا اوکے میں بھی چینج کر لوں شاید کوئی لڑکی ہی پھس جائے میرے ساتھ اور میری بھی موجیں ہو جائیں، چچی نے مسکراتے ہوئے ایک تھپ میری کمر پر لگایا اور کہا باز آ جاو ریحان، میں نے حیرانی سے کہا کس چیز سے میڈیم جی، تو بولیں اپنی حرکتوں سے، میں نے کہا یار زندگی میں تھوڑا رنگ بھی ہونا چاہیے نا ورنہ تو ساری عمر آپ جیسی آنٹیاں لاڈ کر کر کے ہی کسی کام کا نہیں چھوڑیں گی، چچی کو پہلے میری بات کی سمجھ نہیں لگی مگر جب لگی تو اپنے پاوں سے جوتی اتارتے ہوئے کہنے لگیں شرم کر، میں ہنستا ہوا اپنے کمرے میں گھس گیا۔ میں نے چینج کی اور اپنے آپ کو مرر میں دیکھا اور خود کی تعریف کرتے ہوئے کہا چل شکاری میدان کھلا ہے اور شکار سامنے ہے۔ اور کمرے سے باہر آ گیا، اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا، تھوڑی دیر میں چچی بھی باہر آ گئیں، جب وہ باہر نکلیں تو میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی اف سفید کلر کی قمیض اور نیچے جینز جو بہت مشکل سے ان کی گانڈ اور رانوں کو چھپا رہی تھی، پھر وہ دوپٹہ کھلے بالوں پر، اور پاوں میں ہیل والے سینڈل اففف توبہ، میں نے چچی کو دیکھتے ہوئے کہا کیا ارادہ ہے میڈیم جی، تو چچی نے پہلے اپنے اپ کو دیکھا پھر مجھے دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا کیوں کیا ہوا، میں نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میڈیم باہر کسی کو نہیں پتہ کہ اپ کسی کی منقوح ہیں اور دوچار نے ویسے ہی لڑک جانا ہے آپ کو دیکھ کر اور چار پانچ نے رشتہ بھجوا دینا ہے اور کچھ میرے جیسوں نے صرف آہیں بھرنی ہیں، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا اویں فضول بکواس کرتا رہتا ہے، کچھ نہیں ہوتا پر ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ہر عورت میں شدت سے پائی جانے والی بیماری ان میں بھی موجود ہے، جب انھوں نے مجھے کہا چلو تو میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا مانا کہ آپ کے دیوانے شہر میں ہزار ہوں گے پر اتنی صبح کون الوکا پٹھا دکان کھولے گا، چچی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور بولیں ہاں ٹھیک کہہ رہےہو، پر کیا مطلب میرے دیوانے، میں نے کہا میڈیم جب اپ باہر نکلتی ہوں گی تو لوگ تو اپ کو ہی دیکھتے ہوں گے نا اپنا کام کون دیکھتا ہو گا، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا ریحان یار شرم کر میں تیری چچی ہوں، میں نے بھی سر جھکا کر کہا اوکے چچی جان، تو وہ ہنس پڑیں اور میرے پاس بیٹھتے ہوئے کہا باز نہیں ائے گا اس فلڑٹ کرنے سے، میں نے ان کی طرف دیکھے بخیر کہا کون بدقسمت اپ سے فلرٹ کرنا چاہے گا جو بھی چاہے گا وہ سب کچھ حقیقت میں ہی چاہے گا، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا توبہ ہے یار تمھاری بھی کسی رانجھے کے جاننشین، میں نے بھی اچھل کر صوفے پر اپنی پوزیشن ٹھیک کرتے ہوئے کہا مطلب اپ میری ہیر ہیں، چچی نے ایک لمبی سی سانس لی اور کہا ریحان بس کر میں نے انگلی منہ پر رکھتے ہوئے کہا اوکے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد چچی میرے قریب ہوئیں اور بولیں سچ میں تیری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے، میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کوئی آپ جیسی ملی ہی نہیں ورنہ اسے گرل فرینڈ کیا اپنی لائف پاٹنر بنا لیتا چاہے ابو سے روز لترول کروانی پڑتی، چچی نے مسکراتے ہوئے کہا میں اچھی لگتی ہوں آپ کو، تو میں نے بھی ان کسی معصوم سے عاشق کی طرح سر جھکا کر ہلکا سا کہا بہت زیادہ، چچی ہنس پڑیں اور کہا تو باز نہیں ائے گا میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں نے تھوڑی شروع کیا تھا اپ خود ہی پوچھتی ہو پھر مجھ پر ہی غصہ کرنے لگتی ہو، اور جو دل میں ہے وہ زبان پر آ جاتا ہے۔
مجھے اندازہ تھا کہ گولیوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے چچی کی چوت اس وقت لن مانگ رہی ہے کیونکہ تمام اشارے ٹھیک اسی طرف تھے، اب یہ میرا فرض بنتا تھا کہ اس چوت کو ٹھنڈا بھی کروں اور اپنا دیوانہ بھی بنا لوں اس کے لیئے مجھے تھوڑا اور صبر کرنا تھا ورنہ لوہا تو اب گرم ہو ہی چکا تھا پر میں اس لوہے کو پگھلا کر اپنی مرضی کی مورت بنانا چہاتا تھا۔
چچی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اچھا کیا پسند ہے اپ کو مجھ میں، میں بے بھی کسی اجڑے ہوئے عاشق کی طرح جواب دیا پوچھیں کیا نہیں پسند آپ میں مجھ کو، چچی نے حیرت سے میرے کندھے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا اچھا چل بتا کیا نہیں پسند، اس وقت اس بلا کے ممے میرے بازو سے ٹچ ہو رہے تھے اور میرا حلق خشک ہو رہا تھا ان کے جسم سے اٹھتی ہوئی مہک نے مجھے فل ٹن کر دیا تھا، میں نے تھوک نگلتے ہوئے چچی جان قسم سے اپ میں کوئی ایسی بات نہیں جو مجھے پسند نہ ہو، انھوں نے لمبا سا ہوں کیا اور کہا واہ میرے رانجھے آپ تو بہت بڑے فلرٹ ہو، میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں آپ کو فلرٹ کرتا ہوا لگ رہا ہوں تو چچی نے ہاں میں سر ہلا دیا، میں نے روٹھنے والے انداز میں ان کا بازو اپنے کندھے سے ہٹایا تو لن نے کہا کمبخت کیا کر رہا ہے، تو دل نے جواب دیا بڑی جنگ جیتنے کی لیئے چھوٹی موٹی لڑائیاں ہارنی پڑتی ہیں۔ چچی نے میرا روٹھنا دیکھا تو ہنستے ہوئے کہا اوئے میرے رانجھے بس اتنی سی ہی برداشت ہے، میں نے کوئی جواب نہیں دیا، چچی نے تھوڑا سیریس ہوتے ہوئے کہا کیا ہوا برا لگا، میں نے نہیں میں سر ہلا دیا، چچی نے پھر کہا تو یہ کیا ہے، میں نے کہا برا نہیں لگا اپنے آپ پر افسوس ہوا کہ کیسے سمجھ لیا کہ آپ میری فیلنگز سمجھ جائیں گی، چچی نے میرے بازو کو پکڑا اور پھر میرا چہرے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف گھما کر کہا، ریحان تمہیں پتا ہے کہ تم کیا بات کر رہے ہو، میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ہاں پتا ہے اس لیئے ہی خاموش ہو گیا تھا کہ آپ برا مان جائیں گی، چچی نے غور سے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے میرے گال پر پیار کیا اور کہا نہیں سمجھ رہی آپ کو غلط پر اپ کو میری طرف سے نہ روکنا غلط ہے، میں نے کسی برباد عاشق کی طرح کہا میں کچھ مانگ تو نہیں رہا اپ سے بس اپ کو خوش دیکھنا چاہ رہا ہوں، چچی کی گرم سانسیں میرے انگ انگ میں آگ لگا رہیں تھیں اور ان کی وہ نظریں اس آگ پر تیل ڈال رہیں تھیں، چچی نے کہا تم بہت چھوٹے ہو یہ سب سمجھنے کے لیئے پر جیسے ہو بہت اچھے ہو بس ایسے ہی رہو اس سے اگے بربادی ہے میری جان، میں نے پھر اسی لہجے میں جواب دیا میں اپنی جگہ پر ہی ہوں اور آپ کے لیئے ساری عمر ایسے رہنے کے لیئے بھی تیار ہوں۔ چچی نے میرے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے میں نے انکھیں بند کر ان نرم اور نم ہونٹوں کی طلب کو محسوس کیا مگر اپنے آپ کو کچھ کرنے سے روکے رکھا، حتہ کہ لن نے نیچے غدر مچایا ہوا تھا، چچی نے جب میری طرف سے کوئی پیش قدمی محسوس نہیں کی تو اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے ہٹایا میری بند انکھوں پر رکھ کر باری باری چوما، میں نے انکھیں کھولیں اور ان کے دور ہوتے ہوئے چہرے کے پیچھے ہاتھ رکھ کر ان کے ہونٹوں سے دوبارہ ہونٹ جوڑ لیئے، کبھی اوپر والے لب کو چومتا کبھی نیچے والے لب کو پھر اپنی زبان سے ان کے ہونٹوں کو علیدہ کیا اور زبان کو ان کے منہ میں دے دیااور ان کے منہ کے اندر اس زبان کو گھمانا شروع کر دیا، چچی کی سانس بہت تیز ہو گئی تھی انھوں نے ایک دم اپنے ہونٹوں کو سختی سے بند کیا اور میری زبان کو چوسنا شروع کر دیا، میرے ٹٹے بھی مجھے اپنے پیٹ میں محسوس ہوئے جنھیں لن نے ٹھڈوں پر رکھا ہوا تھا، عجیب سا سرور تھا وہ بھی، میں سچ مچ میں اس خاتون کا دیوانہ بنتا جا رہا تھا، میں نے بہت سی عورتوں کے ساتھ یہ سب کیا تھا پر جو مزا اور سرور اس وقت آ رہا تھا اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، چچی نے کافی دیر میری زبان کو چوسا اور پھر اپنے ہونٹ کھول دیئے اور میں نے اپنی زبان ان کے منہ سے نکال کر ان کے لبوں پر پھیری تو چچی نے اپنی تیز سانسوں کے ساتھ میری طرف دیکھا میں نے ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے رکھا ہوا تھا پر دوسرا ہاتھ میرا صوفے کے بازو پر ہی پڑا تھا جسے میں نے جان بوجھ کر حرکت نہیں دی تھی، چچی نے ایک لمبی سانس لی تو میں نے ان کے سر کے پیچھے سے ہاتھ ہٹا کر ان کا ایک ہاتھ پکڑا اور اسے چومتے ہوئے کہا تھینک یو مائی لو، چچی نے حیرانی سے میری انکھوں میں دیکھا جیسے شہوت کو تلاش رہی ہوں پر میرے جیسا استاد آسانی سے پکڑائی نہیں دیتا میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے دنیا جہان کی محبت اپنے چہرے پر سجا لی، چچی مسکرائیں اور کہا ریحان تم واقعی ہی میں بہت چھوٹے ہو، میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو کیا محبت پر حق صرف عمر والوں کا ہے، کیا میں آپ سے محبت نہیں کر سکتا، چچی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ریحان میں تمھاری چاچی ہوں، جو کچھ میں نے کیا وہ بہت غلط کیا ہے میں نے اور شاید میں ساری عمر اپنے اپ سے شرمندہ رہوں، میں نے افسردگی کو اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے کہا اگر اپ کو میری محبت کا جواب محبت سے دینے میں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے تو میں اس شرمندگی کو ختم کرنے کے لیئے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں آپ ایک دفعہ حکم تو کریں، چچی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ریحان میرے بچے تم نہیں سمجھ رہے ہو میں بیوی ہوں تمھارے چچا کی اور یہ سب کچھ بہت غلط ہے، میں نےسر ہلایا اور کہا کچھ غلط نہیں ہے میں نے کون سا اپ کو ان سے تعلق توڑنے کو کہا ہے میں نے کون سے اپنی محبت کا جواب آپ سے محبت میں مانگا ہے، میں تو بس اس احساس کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں کہ کوئی ہے جس کے لیئے میں اہم ہوں اور وہ میرے لیئے سب کچھ، میری اتنی بھاری اور وزنی باتیں سن کر تو بڑی بڑی گھاگ عورتیں پگھل جاتی تھیں تو چچی جو بےچاری ایک گھریلو عورت تھی وہ کیسے بچی رہ سکتی تھی۔
چچی نے میرے چہرے کو ایک بار غور سے دیکھا اور پھر ایک سانس لے کر سامنے دیکھتے ہوئے کہا ریحان کیا چاہتے ہو، میں نے کہا آپ کی خوشی بس وہ جس میں آپ خوش ہو، چچی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اگر میں کہوں کہ بس یہیں رک جاو اور اس سے اگے نہ بڑھو تو کیا کرو گے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا آپ کا حکم سر انکھوں پر اگر میں نے زندگی میں ایک قدم بھی اپ کی مرضی کے بخیر بڑھا لیا تو اسی دن مجھے جھوٹا اور فراڈ کہہ دینا اگر آپ اس طرح خوش ہیں تو میں بھی شاد ہوں، چچی میری چکنی چپڑی باتوں میں بری طرح پھس چکی تھیں اب وہ اس مرحلے پر تھیں جہاں وہ میری پیش قدمی سے مایوس ہو چکی تھیں اور ان کے پاس خود اگے بڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اپنے اندر لگی آگ سے واقف تھیں ان کی چوت میں ہونے والی کجھلی نے ان کو پریشان کیا ہوا تھا اور اوپر سے ان کے پاس اس آگ کو بجھانے کا اتنی جلدی کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا تھا، اس وقت دستیاب میں ہی تھا اور وہ یہ جانتی تھیں کہ میں ان کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہوں پر وہ اپنی روایتی شرم کے ہاتھوں مجبور تھیں اور دوسرا اگر میں خود کچھ کرتا تو کل کو میرے پر اس بات کو ڈال کر آرام سے راستہ بدل سکتی تھیں پر میں تو ہمیشہ کہ لیئے ان کے ساتھ سب کچھ کرنا چاہتا تھا، ایک دفعہ نہیں باربار اور وہ مجھے روکنے یا منع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
چچی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اچھا بس بہت ہو گیا بس اب اس سے اگے کچھ نہیں ہو گا، میں نے سر ہلا دیا اور کہا جیسے آپ کی مرضی، چچی اٹھیں اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں ان کی بڑی اور موٹی گانڈ جو میرے چہرے کے انتاہی قریب سے پلٹی تھی وہ اتنے برے طریقے سی تھرتھرائی کہ لوڑے بےچارے پر مرگی کا دورہ پڑ گیا، ان کے ہر پڑتے قدم کے ساتھ لن جھٹکا لیتا اور میری سانس نکل جاتی چچی نے ایک دفعہ مڑ کرمیری طرف دیکھا اور مسکرا کر اپنے کمرے کی میں جانے لگیں تو میں نے صوفے پر پڑے ان کے دوپٹے کو ہاتھ میں پکڑا اور کھڑا ہو کر ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا، میں چچی کو زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دینا چاہتا تھا کیونکہ اگر انھوں نے صیع فیصلہ کر لیا تو میں لوڑے لگ جاوں گا اس لیئے میں ان کے سامنے رہنا چاہتا تھا تاکہ ان کا فیصلہ میرے حق میں ہو۔
میں نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر دیکھا چچی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھیں، اور مسکرا رہیں تھیں میں سمجھ گیا کہ اب گیم آن ہے، میں نے اپنا گلا کھنکار کر صاف کیا اور کہا، آپ کا دوپٹہ باہر ہی رہ گیا تھا، چچی بڑی ادا سے پلٹیں اور بولیں ادھر رکھ دو، میں اگے بڑھا اور دوپٹہ سٹول پر رکھ کر پلٹ گیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد چچی کی آواز آی ریحان یار ادھر آو، میں کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ آفت انھیں کپڑوں میں پہلے سے زیادہ تیار ہو کر کھڑی ہے اور میری ہی طرف دیکھ رہی ہے، ٹٹوں میں چارسوچالیس ہزار واٹ کا کرنٹ لگا اور لن نے بے ہوش ہوتے ہوئے کہا تجھ سے کچھ نہیں ہونا لوڑے میری تو قسمت ہی خراب ہے جو تیرے ساتھ لگا ہوا ہوں، مجھے شرمندگی سی محسوس ہوئی کہ یہ تو بےعزتی ہو رہی ہے وہ بھی اپنے ہی لن کے ہاتھوں۔ میں نے معصوم سی شکل بنائی اور ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی، تو انھوں نے کہا گھر کے سارے واس پرانے پھولوں سے بھرے ہوئے ہیں، ان میں تازہ پانی اور تازہ پھول لگاتے ہیں چلو لان میں اور یہ کہہ کر مڑ گئیں توبہ ہے یار کیا فگر ہے ان کی میرے تو انکھیں ان سے چپک گئیں اور میں ان کے پیچھے پیچھے ان کی مٹکتی، تھرکتی، ہلتی، ناچتی گانڈ کو دیکھتے ہوئے چلنے لگا، چچی لان میں آئیں اور مجھے کہا ہر قسم کے پھولوں میں سے دس دس پھول توڑ لو پر زرا نیچے سے توڑنا اور کچھ پتے بھی ساتھ ہونے چاہیں، میں اس طرف سے شروع کرتی ہوں اور آپ ادھر سے، سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ہمارے سروں پر چمک رہا تھا، گرمیوں کے صبع میں لان سے پھول توڑنا بھی عجیب سا پرلطف کام تھا، میں نے سب سے اچھا پھول علیدہ سے ایک ہاتھ میں پکڑا اور چچی کی طرف دیکھا جو پھول توڑ چکی تھیں اور لان میں پڑے پانی کے پائپ کے ساتھ لگے نل کو چلا رہی تھیں، میں ان کے پاس گیا اور جو پھول میں نے الگ سے ان کے لیئے توڑا تھا وہ ان کے سامنے کر دیا، چچی نے مسکرا کر کہا واہ جناب بہت زبردست نظر ہے آپ کی، میں نے کہا یہ آپ کے لیئے ہے قبول کریں، چچی نے ہنستے ہوئے کہا قبول کیا مسٹر رانجھے تو میں نے بھی سر جھکا کر کہا تھینک یو مائی ہیر، چچی نے ہنستے ہوئے ایک چپت میرے سر پر لگائی اور کہا چل اندر اب سارے واس میں سے پرانا پانی بدلنا ہے، میں سائڈ ہر ہوا اور جھک کر ایک ہاتھ اگے پھیلا کر ان کو اگے جانے کا اشارہ کیا چچی نے میری طرف دیکھا اور پھر چل پڑیں، میں ان کے پیچھے پیچھے اندر ایا تو چچی نے کہا سارے واس کچن میں لے آو میں یہ دو لے کر جا رہی ہوں، میں نے سوچا کہ گھر میں کہاں کہاں پڑے ہیں گلدان میں نے جلدی جلدی سارے گلدان اکھٹے کیئے اور کچن میں لے گیا، چچی نے میری طرف تعریفی نظروں سے دیکھا اور شیلف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان دونوں کو ان کی جگہ پر لگا دو میں نے فوراََ وہ دونوں گلدان اٹھائے اور اور ان کی ان کی چگہ پر رکھ کر واپس آ گیا چچی نے پھر دو گلدان پکڑائے ان کو بھی ان کی جگہ پر لگا دو اسی طرح کرتے ہوئے پندرہ منٹ میں یہ کام ختم ہو گیا، میں اور چچی پسینے میں شرابور تھے، چچی کی قمیض سے ان کے برا کی شیپ اور کلر سب کچھ نظر آ رہا تھا، چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا اور میرے سامنے بیٹھ کر کہا،ریحان پلیز اے سی ان کر دو اور پنکھا بھی چلا دو میں نے دونوں کام کیئے تو دیکھا تو چچی بیڈ پر دونوں بازو پسارے لیٹی ہوئی ہیں اور ان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے ہیں، میرا دل تو کیا کہ ابھی اوپر لیٹ جاوں پر صبر کیا، اور سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ کر انھیں دیکھنے لگا، ان کی ہر سانس کے ساتھ ان کے بڑے اور خوبصورت ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے اور ان کا پیٹ انتاہی خوبصورت لگ رہا تھا، چچی اٹھیں اور کہا ریحان دودھ تو لے آو فریج میں ختم ہو گیا ہو گا، میں نے سر ہلایا اور ان کے کمرے سے باہر آ کر اپنے کمرے سے گولیوں کا ایک پیکٹ جیب میں ڈالا اور مارکیٹ کی طرف چلا پڑا۔
واپس آ کر دودھ کے برتن کو فریج میں رکھا اور چچی کو بتانے ان کے کمرے میں چلا گیا، پر سامنے جو منظر تھا وہ پاگل کر دینے کے لیئے کافی تھا، چچی شاید نہا کر نکلیں تھیں اور اس وقت ان کے بدن پر صرف انڈر گارمنٹس ہی تھے، ان بے داغ جسم اس وقت قہر برسا رہا تھا اور میری حالت ایسی ہو گئی کہ ٹانگوں میں جان ہی نہ ہو، میں نے پلٹنے ہی والا تھا کہ چچی نے آواز دے کر پوچھا لے آئے ہو دودھ، میرے حلق سے تو جیسے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی، میں نے صرف سر ہلایا تو آفت، آہستہ قدموں سے چلتی میری طرف آئی اور میرے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا اور کہا کیا ہوا۔
میں نے چہرہ اوپر اٹھایا اور ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کچھ نہیں،چچی نے سیدھا میری انکھوں میں دیکھا اور کہا ریحان سچ سچ بتاو میرا اس طرح اپ کے سامنے انا اچھانہیں لگا کیا، نیچے سے لن شریف نے آواز لگائی او چوتیے تجھے قسم ہے میری بول کے بہت اچھا لگا، کیوں خسی بنا پھر رہا ہے یار کچھ خیال کر لے بھائی واسطہ ہے تجھے پلیز، میں نے سر ہلایا اور دوبارہ سر جھکا کر کہا اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں اپ کے جسم کی طرف اٹرکیٹ ہو رہا ہوں تو آپ غلط ہیں میڈیم، مانا کہ آپ کا جسم اپ کی محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے پر یہ ہی سب کچھ نہیں ہے، لن نے ٹٹوں کی لات مارتے ہوئے کہا بھاڑ میں جا چوتیے تو ہے ہی کسی کام کا نہیں آج سے تیرا میرا تعلق ختم، چچی نے ایک لمبا سا سانس لیا اور مجھے اس طرح دیکھا جیسے میں دیوانہ ہوں اور پھر میرے گال کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ریحان مگر جسم کے بخیر بھی تو کوئی محبت مکمل نہیں ہوتی، میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے پر اس وقت اپنے چہرے پر اپنے اندر کے جذبات کو ظاہر کرنے کا مطلب تھا کہ چچی کے لیئے ان کا ٹوائے بن کر رہنا جو مجھے کسی صورت قبول نہیں تھا کیوںکہ میرا ماننا ہے کہ رسائی ہو تو مکمل، اختیار ہو تو مکمل اور جب میں محبت کروں تو وہ بھی مکمل ہو جس میں اپنے جزبات کا اظہار کھل کر کر سکوں نہ کے دوسرے کے اشاروں پر ناچتا رہوں، میں نے دوبارہ سر اٹھایا اور کہا پر میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ تھوڑی دیر کےلیئے مجھے اپنائیں اور پھر زندگی بھر کے لیئے مجھے اپنے دیدار سے بھی محروم کر دیں، چچی کے لیئے یہ بہت نازک مرحلہ تھا کیونکہ میں نے وہ بات کر دی تھی کہ اگر وہ میری بات مان لیتیں تو مجھے کمپلیٹ ایکسیس مل جانی تھی اور اگر انکار کر دیتیں تو ان کی شہوت ان سے کچھ ایسا کرا دیتی جس میں وہ مجھ سے بھی اور اپنے آپ سے بھی شرمندہ رہتیں، وہ پلٹیں اور میں نے اپنے لن کو پکڑ کر دبا کر اسے راضی کیا، میں نے سامنے دیکھا تو چچی کی مٹکتی ایک چھوٹی سی پینٹی میں چھپی گانڈ سب کچھ بھول جانے پر مجبور کر رہی تھی، چچی بستر پر بیٹھ گیئں اور کہا، ریحان میرے پاس آو یہاں بیٹھو میں آرام سے چلتا ان کے پاس بیٹھ گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے دوسرے ہاتھ ہر رکھا اور کہا ریحان جو مل جائے اس پر شکر کر لینا چاہیے، ایسے وقت میں سب کچھ کی ڈیمانڈ کفران نعمت ہوتی ہے، میں ہلکا سا مسکرایا، اور ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا آپ کو کیا لگ رہا ہے، انھوں نے اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا کہ تم کفران نعمت کر رہے ہو، میں نے قہقہ لگایا اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اگر آپ اسے کفران نعمت کہہ رہی ہیں تو مجھے نا شکرا کہلوانا منظور ہے، پر میں آپ کو اور خود کو کسی دھوکے میں نہیں رکھ سکتا میں اپ سے محبت کرتا ہوں اور میں محبت کی آخری حد تک جانا چاہتا ہوں پر چند لمحوں کا خیرات میں ملا ہوا دھوکا مجھے نہیں چایئے، میں جو چاہتا ہوں وہ تمام عمر کا روگ چاہتا ہوں اپ کی توجہ چاہتا ہوں اگر آپ دے سکتی ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو میں اس خوشفہمی میں ہی رہ لوں گا کہ آپ نے رستہ دکھایا تھا پر میں خود اس رستے پر نہیں چلا۔ چچی کھڑی ہوئیں اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے اور ریحان کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیئں اور میری گردن اور گالوں کو بے تحاشہ چومنے لگیں، نیچے لن اور ٹٹوں نے لڈی ڈالنا شروع کر دی دل میں پھلجھڑیاں چلنے لگیں اور میرے ہاتھوں نے چچی کے گرد گھیرا بنا لیا اور میں نے ان کا چہرے پران کے پیار کا جواب دینا شروع کر دیا۔ ،
چچی مجھ سے لپٹی جا رہیں تھیں ان کے جسم سے اٹھتی مہک اور گرمہاٹ سے میں بےخود ہوا جا رہا تھا، میں نے چچی کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے ان کے جسم میں کپکپاہٹ ہوتی محسوس ہوئی، میں نے ان کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انھوں نے بھرپور طریقے سے جواب دیتے ہوئے میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں پکڑ کر چوسنا اور کاٹنا شروع کردیا وہ اپنے ہوش کھو بیٹھیں تھیں، پر ان کے پیار کرنے کا انداز بہت سحر انگیز تھا، پھر انھوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا اور میری زبان کو اپنی زبان کی نوک سے چھیڑنا شروع کر دیا، میں نے اپنی زبان کو ان کی زبان پر رکھ کر انھیں دکھیلنا شروع کر دیا اور انھیں بیڈ کے کونے تک لا کر ہلکا سا دھکا دیا اور ان کے ساتھ بستر پر گرتا چلا گیا، چچی نے ہلکی سی چیخ ماری اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگیں میں اس وقت ٹائم ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھا، میں نے ایک ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھا تو جھرری لے کر رہ گئیں، میں نے اس ہاتھ کی انگلیوں کی ان کے پیٹ پر پھیرا تو وہ سسکی لے کر رہ گیئں، ان کی انکھیں بند ہو چکیں تھیں اور سانسیں تیز میں نے اپنے لب ان کے لبوں کے قریب لے جا کر اپنے لبوں سے ان کے ہونٹوں سے ہلکا سا چھوا وہ مچل گئیں اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے پکڑ کر اپنے اوپر کر لیا، میں نے اپنے دونوں گھٹنے ان کے پیٹ کے سائیڈوں پر رکھ کر ان کے برا کے اوپر سے ہی ان کے صحت مند مموں کو پکڑ کر اپنے انگوٹھوں کی مدد سے ان کے ابھرے ہوئے نپلز کو چھیڑا انھوں نے سسکی لیتے ہوئے اپنے برا پر ہاتھ ڈالا اور اسے اتار کر بیڈ سے نیچے پھینک دیا، ان کے گلابی بدن پر ان کے وہ دونوں ابھار کسی سرکش پہاڑوں کی ماند اپنی پوری اب و تاب کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ سچ مچ محو کر دینے والا نظارہ تھا میں نے ان کے ابھرے ہوئے دائیں نپل پر منہ رکھا اور اسے کے گرد اپنی زبان پھیری اور پھر اپنے ہونٹوں میں پکڑ کر ہلکا سا دبایا تو چچی کے منہ سے آہ نکل گئی، اور ان کے دونوں ہاتھ میرے سر پر آ گئے جو مجھے ان کے مموں پر دبانے لگے، میں ان کی بے چینی سے محظوظ ہو رہا تھا، ان کا مچلتے، تڑپتے ، سسکتے، تھرتھراتے جسم کا نظارہ اتنا ہی پرلطف تھا جتنا کسی حسین شام میں ڈوبتے سورج کو کسی حسین وادی کے پیچھے ڈوبتے دیکھنا مگر اس نظارہ میں شہوت کا عنصر اسے اور بھی پرسحر بنا رہا تھا، میں نے دوسرا ہاتھ بھی ان کے دوسرے ممے پر رکھا اور اسے مسلنے لگا، چچی کے منہ سے سسکیوں کی آواز کسی منجھے ہوئے موسیقار کے کسی ساز سے اٹھتی دھن سے بھی زیادہ محسور کر دینے والا تجربہ تھا، میں نے اپنے ہونٹ ان کے ممے سے ہٹائے تو چچی نے انکھیں کھول دیں اور میری جانب دیکھا میں نے مسکراتے ہوئے ان کے ماتھے پر پیار کیا اور کہا میری ہیر میں آپ میں کھونا چاہتا ہوں اپنے آپ تم پر قربان کر دینا چاہتا ہوں کیا مجھے اس کستاخی کی اجازت ہے، چچی نے مشکل سے ہنستے ہوئے اپنی سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا، اوئے رانجھے میں تیرے لیئے مر رہی ہوں اور تجھے ڈائیلاگ بازی سوجھ رہی ہے نا تنگ کر نا یار اور برداشت نہیں ہوتا اب، میں نے مسکراتے ہوئے اپنی شرٹ کے بٹں کھولنے شروع کیئے تو میں نے صرف دو ہی بٹن کھولے تھے تو انھوں نے شرٹ کو نیچے سے پکڑ کر اوپر اٹھا دیا اور میں نے بھی ان کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے اپنے بازو اٹھا دیئے، انھوں نے میری شرٹ میرے گلے سے نکالی اور بیڈ سے نیچے پھینک دی، پھر میر بنیان کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک کیا، اور جلدی سے بیلٹ کھول کر پینٹ کی ہک کھولی اور اسے بھی نیچے کر دیا اور انڈرویر کو اوپر سے ہی میرے لن پر ہاتھ پھیر کر اسے محسوس کیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا واہ ریحان میں تو تمھیں بچہ سمجھ رہی تھے تم تو اچھے خاصے ہتھیار کے مالک ہو، لن کے اپنے اپ کو اکڑاتے ہوئے کہا دیکھ چوتیے سب ہی میری تعریف کرتے ہیں پر تو ہی مجھ جلتا ہی اور جلنے والے کا منہ کالا، چچی نے آرام سے انڈرویر کے اوپر سے لن پر مٹھی بنائی اور اس کو موٹائی اور لمبائی کو محسوس کیا اور خوشی ان کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، میں نے مسکراتے ہوئے کہا میڈیم اسے اب آزاد کر دیں، چچی نے ہنستے ہوئے کہا بچو اب آپ کی باری ہے تڑپنے کی اور مجھے اپنے اوپر سے اتار کر بیڈ پر لٹا دیا اور پینٹ جو میری رانون پر ہی تھی اسے پورا اتارا اور پھر انڈرویر کو اہستہ سے نیچے کیا اور مسکراتے ہوئے کہا ریحان یہ تو خوبصورت ہے میں کھا جاوں گی اس کو، میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا آپ کا مال ہے جو مرضی کرو اس کے ساتھ، چچی نے فوراََ انڈرویر کو میرے پیروں سے بھی نکال کر پھینک دیا لن کی دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس کی ٹوپی پر زبان پھیری، مزے اور سنسہاٹ کی لہریں میرے جسم میں دوڑنے لگیں چچی نے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے لن کے اردگرد زبان پھیرنی شروع کر دی ان کی انکھوں سے شرارت جھلک رہی تھی، پھر وہ زبان کو میری ناف تک لے کر ائیں اور ناف کے اردگرد سے چاٹتے ہوئے پھر لن کی طرف گیئں اور لن کو منہ میں لے لیا اور پھر منہ سے نکال کر کہا ریحان ریلیکس ہو جاو اور آرام سے لیٹ کر انجوائے کرو میں نے کہا او ہیریے رحم کرو اور ہمھیں بھی اپنے عضوخاص کے دیدار کا موقع دو تاکہ میں بھی اپنی عقیدت بھرا پیار اس پر نچھاور کر سکیں، چچی مسکرئیں اور میرے بلکل سامنے کھڑی ہو کر اپنا انڈرویر اتار دیا اور پھر گھوم کر اپنی گانڈ اور چوت کو میرے منہ پر رکھ کر میرے لن پر جھک گئیں، میں نے بنا ٹائم ضائع کیئے ان کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر ان کی ملائم اور گلابی چوت کا بوسہ لیا پھر ان کی صحت مند رانوں پر چومتے ہوئے ان کی چوت تک آیا اور اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے چوت کو تھوڑا سا کھول کر اس اندر زبان پھیر دی چچی کا جسم کانپ گیا اور انھوں نےلن پر اپنا کمال دکھانا شروع کر دیا، ان کی چوت پہلے سے ہی گیلی تھی میں نے زبان کو ان کی چوت میں پھیرتے ہوئے ان کے دانے کو زبان کی نوک سے چھیڑا اور پھر ہونٹوں میں لے چوسنا شروع کردیا چچی نے میرا لن چھوڑ دیا اور میرے منہ پر اپنی چوت کو رگڑنا شروع کر دیا، ان کی سسکیاں اور آہیں بے ساختہ تھیں اور کھل کر ان لمحوں کا مزہ لے رہیں تھیں، اور مجھے آنٹیوں میں یہ ہی چیز پسند ہے ایک دفعہ پردہ ختم ہو گیا تو کوئی نخرہ نہیں کوئی شرم نیں بس مزہ لو اور دو وہ بھی کھل کر، چچی اپنی چوت میں میری زبان کو محسوس کر رہیں تھیں اور میں ان کے موٹَے اور بھاری چوتڑوں کو مسل رہا تھا، میں کافی دیر تک اس گلاب کا رس کشید کرتا رہا اور وہ فراخدلی سے میری پیاس بجھاتی رہیں، پھر ان کا جسم اکڑنے لگا اور پھر ایک دم سے کانپا اور شدت کے ساتھ کانپا یہاں تک کہ ان کی چوت نے رونا شروع کر دیا، میں سمجھ گیا کہ چچی فارغ ہوئی ہیں، وہ تھوڑی دیر ایسے ہی بیٹھی رہیں اور پھر میرے اوپر سے سائیڈ میں لیٹتے ہوئے میری طرف دیکھا اور پھر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگیں ان کا دیوانہ پن بہت ہی زیادہ مزہ دے رہا تھا، میں نے اپنا پورا جسم انے کے ساتھ جوڑ لیا اور اس نرم گرم جسم سے اٹھنے والی محبت کو اپنے اندر بسانے لگا، انھوں نے میرا ہونٹ چھوڑے اور کہا ریحان آئی لو یو، میں نے مسکراتے ہوئے ان کا جواب دیا، اٹھ کر بیٹھ گیا چچی بھی اٹھیں اور میری گود میں دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیں، میں نے ان کی گردن اور کمر پر پیار کرنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ سے ان کے مموں کو مسلنے لگا اور دوسرے سے ان کی چوت کو چھیڑنے لگا، وہ سکسک رہی تھیں، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرا نام لیتیں تھیں جو مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا، پھر وہ پلٹیں اور میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرائیں اور کہا رانجھے سب حدیں پھلانگنیں کا وقت آ گیا ہے، آ جاو اور میرے جسم کو اپنا پیار سے بھر دو کر دو مجھے پاگل، میں نے مسکراتے ہوئے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور انھوں نے بھی میرے گرد بازو لپیٹے اور لیٹ گیں، میں ان کے اوپر تھا ان کے ممے میرے سینے سے لگ رہے تھے ان کی موٹی اور مضبوط رانیں میری رانوں سے لگ رہیں تھیں انھوں نے اپنے پیٹ اور میرے پیٹ کے درمیاں ہاتھ لے جا کر لن کو پکڑا اور اسے چوت پر پھیرا ان کی انکھیں بند ہوگیں اور سکستے ہوئے کہا ریحان اسے اندر کر دو نا پلیز، میں نے ان کے ہونٹوں پر چومتے ہوئے تھوڑا اس اپنے ہاتھوں کے زور پر اپنا اپ اٹھایا اور جس ہاتھ میں چچی نے لن کو پکڑا ہوا تھا ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا تو چچی نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ہٹا لیا میں نے لن کو ان کی چوت پر رکھ کر ہلکا سا جھٹکا لگایا تو انھوں نے سسکتے ہوئے اپنی ٹانگیں اٹھا لیں میں نے دوبارہ جھٹکا دیا تو لن اندر داخل ہو گیا، چچی نے کہا ریحان مجھے پورا چاہیے میں نے دوبارہ جھٹکا دیا تو پورا لن اندر چلا کیا، چچی نے اہ بھری اور کہا ریحان چلا گیا نا پورا میں نے کہا میری جان سارا اندر ہے، انھوں نے میری کمر پر اپنی ٹانگیں لپیٹ لیں اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا پھر ہو جاو شروع، میں نے لن کو اخر تک باہر نکال کر کہا تیار ہو آپ تو انھوں نے کہا کب سے تیار ہوں اب کر بھی دو، میں نے یہ سننا تھا کہ ایک زور دار دھکا لگایا چچی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور انھوں نے اپنی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھا کر بھرپور جواب دیا، اور میری کمر سے اپنی ٹانگیں مظبوطی سے لپیٹ لیں اور بازو میرے گلے میں ڈال لیئے مگر میں نے دھکے پر دھکا دینا شروع کر دیا وہ ہر جھٹَکے کا جواب دے رہیں تھیں، اور مجھے اشتہا دلا رہی تھیں کہ میں سب کچھ کھول دوں، پھاڑ دوں سب کچھ، ان کی چوت سے پانی بہہ بہہ کر بیڈ شیٹ پر گر رہا تھا، لن روانی کے ساتھ اندر باہر ہو رہا تھا اور ہر گسھے کے ساتھ ان کا جوش بڑھتا جا رہا تھا، وہ پاگلوں کی طرح مجھے سے لپٹے ہوئے مجھے کہہ رہیں تھیں ریحان زور سے چودو اپنی ہیر کو ہاں میرے رانجھے کر دو مجھے اپنے پیار میں پاگل، اور زور سے ہاں ریحان ایسے ہی ہاں ایسے ہی میری جان، اف کیا گرم خاتون ہیں وہ بھی، مجھے لگا کہ چچی فارغ ہوںے والی تھیں کیوں کہ چوت نےمیرے لن پر گریپ بنانا شروع کر دی تھی اور اندر سے لیس دار مادے کا بہاو بہت زیادہ تیز ہو گیا تھا، وہ زور زور سے نیچے سے لن پر اپنی چوت کو مار کر میرے دھکوں کا جواب دے رہی تھیں، ان کا چہرہ لال ہو چکا تھا ماتھے پر پسینہ اور بے ربط باتوں نے اس بات کی گواہی دی کہ وہ اپنے مزے کے عروج پر ہیں، میں ان سے جو بھی کہہ رہا تھا انھیں کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی، وہ ایک ہی بات بار بار کہہ رہی تھیں ریحان باہر نہیں نکالنا، ریحان زور سے کرو ہاں میری جان، تھپ تھپ اور پچ پچ کی آواز کے ساتھ ان کی باتیں عجیب سا سرور دے رہی تھیں جس سے میری مردانہ انا کی تسکین ہو رہی تھی، ایک دم ان کا جسم اکڑا ان کا سانس رکا اور منہ سے غرغراہٹ جیسی اواز نکلی اور پھر جسم کانپنے لگا، وہ فارغ ہو رہیں تھیں، میں نے اپنے دھکوں کر رفتار بڑھا دی اور ان کے مزے کو دبالا کر دیا، ان کی چوت پانی سے بھر چکی تھی، پھر انھوں نے اپنی ٹانگیں اور بازو میری کمر سے کھول لیئے اور لیٹ کر سانس لینے لگیں، میں ان پر سے اتر کر ان کی سائیڈ میں لیٹ گیا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، وہ مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور میرے کھڑے ہوئے لن کو دیکھ کر کہا ریحان میں بہت سکون میں ہوں، آپ نے بہت مزہ دیا ہے مجھے اور اب مجھے غصہ آ رہا ہے کہ میں نے پہلے کیوں نہیں آپ کو راضی کر لیا، میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کیا، جس نے شور مچایا ہوا تھا او بھائی میرا کچھ کرو ظالمو کیوں میری جان لینے پر تلے ہو میرا کچھ کر دو پلیز، اور کہا ابھی اس کا تو کچھ کریں چچی مسکرائیں اور اٹھتے ہوئے میرے پیٹ کے دونوں طرف گھٹںے رکھ کر ایک ہاتھ سے میرا لن پکڑا اور اسے اپنی چوت کی راہ دکھا کر اس پر بیٹھتی چلی گئیں، لن جڑ تک اندر گھس کیا، چچی نے سسکی لی اور اپنی گردن اوپر اٹھا کر کہا ریحان میری جان بہت بڑا ہے یہ، اور پھر اوپر اٹھتے اور لن کو ادھا باہر نکال کر دوبارہ اس پر بیٹھ گئیں، پھر مجھ پر جھک کر میرے منہ میں منہ دے دیا اور ان کی کمر اور میری کمر کسی مکینکی انداز میں حرکت کرنے لگی، اور اوپر ہوتیں تو میں نیچے سے اوپر کی طرف دھکا لگاتا، اور جب میں نیچے ہوتا تو اوپر سے نیچے کی طرف، سرور اور مزے سے ہم دونون نے حال تھے، ننگے جسم ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے چچی تھک چکیں تھیں اور وہ میرے اوپر بیٹھ کر اپنی کمر کو اگے پیچھے کر رہیں تھیں، میں ان کے مموں سے کھیل رہا تھا، میں نے کا بازو پکڑا اور ان کو اپنے اوپر سے اتار لیا، اور پھر ان کو گھوڑی بناتے ہوئے ان کے پیچھے آ گیا، افف کیا نظارہ تھا، بڑے اور بے داخ کولہے اور ان کے اس وقت اس طرح جھک کر اپنا اپ میرے حوالے کرنا بہت شہوت انگیز منظر تھا وہ، میں نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے چوتڑوں پر رکھے اور اپنے کھڑے لن کو ان ک چوت میں گھسا دیا، چچی سسک گیں اور اپنی گردن اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگیں، میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا وہ سرور میں تھیں اور بھرپور مزا لے رہیں تھیں پھر انھوں نےسر جھکا لیا اور میرے ہر جھٹکے کے ساتھ اپنی گانڈ کو اگے پیچھے کرنا شروع کر دیا، میں نے ان کے چوتڑوں کو مخالف سمت میں کھوٖلا تو مجھے ان کی گانڈ کا سراغ نظر ایا جو بہت اندر تھا اور ہلکہ سا بھورا اور سلوٹوں سے بھرا ہوا ہونے کے ساتھ ان کے سائز کے حساب سے بہت چھوٹا تھا، میں نے اپنا انگوٹھا ان کے چوتڑوں کے درمیان ڈالا اور ان کی گانڈ کے سراغ پر پھیرنے لگا، ان کی سسکیاں تیز ہو گیں اور ان کا جسم دوبارہ اکڑنے لگا مگر اس بار میں بھی ہونے والا تھا میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھا اور ان کی گردن گھما کر اپنی طرف کر کے کہا میں ہونے والا ہوں اپ کو کتنی دیر ہے، انھوں نے سسکتے ہوئے کہا میں ہو رہی ہوں، یہ سن کر میں نے اپنے جھٹکے شدید کر دیئے اور زور زور سے دھکے دینے لگا، چچی زور سے سسکتے ہوئے اور چیختے ہوئے فارغ ہو رہی تھیں اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی گرم پانی کی تنگ سے برتن میں ہو میں دو چار دھکے لگائے اور میں بھی فارغ ہونے لگا، میں نے لن کو ان کے اندر ہی رکھا، میں کافی ریر چھوٹتا رہا یہاں تک کہ مجھے لگا کہ چچی کی چوت سے میری منی بہہ کر ان کی ران پر بہہ رہی ہے، جب میں مکمل فارغ ہو گیا، تو میں پیچھے ہٹ کر ان کے ساتھ لیٹ گیا، وہ بھی سیدھی ہوئیں اور میرے سینے پر بازو اور سر رکھ کر لیٹ گیئں، ہم دونوں بری طرح تھک چکے تھے، پر اتنی مسقت کے بعد پتہ بھی نہیں چلا کہ ہم دونوں سو گئے۔
میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ چچی میرے سینے پر سر رکھے بہت سکون سے سو رہی ہیں، ان کے لمبے بال ان کی ننگی کمر، بازو، اور میرے پیٹ پر پڑے ہوئے تھے، میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا جو مرا پڑا تھا، میں نے اسے ایک تھپڑ لگایا اور کہا آٹھ بےغیرت اتنے دنوں سے شور مچایا ہوا تھا اب جنگ چھڑ گئی ہے تو سویا ہوا ہے، لن نے بھی فوراََ میری بکواس کا جواب اکڑ کر دیا کہاں لڑنا ہے دشمن دکھاو میدان جنگ تک پہنچاو، میں نے چچی کی طرف دیکھا اور سوچا کیا خوبصورت اوربھرپور عورت ہے، مجھے اب ان کے اٹھنے کا انتظار تھا تاکہ اندازہ لگا سکوں کہ چاچی کا فیصلہ کہیں وقتی شہوت کا نتیجہ تو نہیں تھا، اگر ایسا تھا تو مجھے مزید محنت کرنی تھی اور اگر انھوں نے اپنے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ کیا تھا تو میری تو لاٹری لگ گئی تھی، میں نے چچی کے بڑے اور خوبصورت مموں پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا اور اہستہ اہستہ انھیں دبانے اور مسلنے لگا، چچی نے کروٹ بدلی اور سیدھی ہو کر لیٹ گئیں، یہ اشارہ تھا کہ لگے رہو، میں نے ان کے ایک ممے پر منہ رکھا اور نپل کو چوسنا شروع کیا تو چچی نے اپنے سر کو دائیں بائیں ہلا کر اپنے جاگے ہونے کا اشارہ دیا پر میں بھی ڈھیٹ بن کر ان کے نپل کو چوسنی سمجھ کر چپکا رہا، مگر اسی وقت چچی کے موبائیل کی گھنٹی بجی، اور چچی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، انھوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اپنا ننگا جسم دیکھا، اور پلٹ کر ٹیپائی سے اپنا موبائیل اٹھانے لگیں، ان کی بڑی اور موٹی رانیں دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا، اور میں نے ہاتھ بڑھا کرا ان کے ایک چوتڑ پر ہاتھ رکھ لیا، چچی موبائیل اٹھا کر سیدھی ہوئیں تو اور موبائیل کی سکرین کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا، انھوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر کال اٹینڈ کی، دوسری طرف شاید چچا تھے، اب چچی کا اور میری محنت کا امتحان تھا، یا تو چچی کسی جزباتی دباو میں چلی جاتیں یا پھر میری موجیں ہو جانی تھیں، چچی نے چچا سے بات کرنا شروع کی اور میرا ہاتھ جھٹکے سے اپنے نیچے سا نکال دیا، مجھے لگا کہ لے بھائی لگ گئے لوڑے۔ چچی صرف ہوں ہاں میں بات کر رہی تھیں، یعنی وہ پریشان ہیں، پھر شایئد دوسری طرف سے میرے بارے میں پوچھا گیا، تو چچی نے مجھے بہت ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور کہا باہر گیا ہوا ہے، پھر چچا کی طرف سے بات ختم کی گئی اور شاید ایک پیپی ادھر سے دی گئی جواب میں چچی نے میری طرف دیکھا اور فون کو چوم کر کال کاٹ دی، میری ایسی تیسی ہو رہی تھی، چچی نے اپنی ٹانگیں فولڈ کیں اور اپنے گھٹنوں پر اپنا چہرہ رکھ کر اپنی ٹانگوں سے بازو لپیٹ لیئے، تھوڑی دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھیں اور واش روم میں گھس گئیں، مجھے پانی چلنے کی آواز آنے لگی، مجھے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ چاچی کے ذہن میں کیا چل رہا ہے پر اس وقت وہاں سے ہٹنا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانے والی بات تھی، میں نے سکون سے اپنے کپڑے پہنے اور چچی کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا، تب ہی مجھے لگا کہ چچی واشروم میں رو رہی ہیں، ان کے سسکنے کی آواز باہر تک آ رہی تھی، میں دروازے کے پاس گیا اور کہا کیا آپ ٹھیک ہے نا کیا بات ہے، اندر سے کوئی جواب نیں آیا بس سسکنے کی آواز بند ہو گئی، میں نے پھر پوچھا چچی کیا بات ہے کیوں رو رہی ہیں آپ، اندر سے آواز آئی ریحان میں تھوڑی دیر اکیلے رہنا چاہتی ہوں پلیز اپنے روم میں جاو یا کہیں باہر چلے جاو، میں نے کہا اوکے پر آپ ٹھیک ہے نا، تو چچی نے کہا ہاں میں ٹھیک ہوں، مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ اگے کیا کرنا ہے، کیوں کہ وہی ہو رہا تھا جس کا ڈر تھا، انٹیوں کی عادت ہے پہلی دفعہ کام ڈال دینے کے بعد ان پر وفا اور شرافت کا دورہ لازمی پڑتا ہے بعد میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے پر اس وقت پتا نہیں انھیں یہ رونا دھونا کیوں یاد آ جاتا ہے، خیر میں بھی بوجھل قدموں سے اپنے کمرے تک آیا اور واشروم میں جا کر فریش ہوا، پھر دوبارہ چچی کے کمرے کے پاس گیا، اندر سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی، میں نے دروازے کو دھکا دیا اور اندر داخل ہو گیا، چچی بیڈ پر ٹیک لگائے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھیں، انھوں نے میری طرف دیکھا پر بولا کچھ نہیں، میں ان کے پاس گیا اور کہا کیا بات ہے چچی کیا ہوا ہے آپ پریشان کیوں ہو گئی ہیں، انھوں نے میری طرف دیکھے بخیر کہا، ریحان مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے، میں نے تمھارے چچا کے ساتھ بددیانتی کر دی، میں نے دھوکا دیا ہے ان کے پیار ان کے اعتبار کو اور تم پوچھ رہے ہو کہ کیا ہو گیا ہے، میں نے لن سے کہا لے بھائی تیرا نشہ اتر گیا ہے اب مجھے سننی پڑیں گی، میں ان سے تھوڑے فاصلے پر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا ایسا کیا کر دیا ہے آپ نے، کچھ غلط نہیں ہوا آپ اپنے اپ کو مت تکلیف دیں، چاچی نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا ریحان دفع ہو جاو میرے سامنے سے نہ میں تمھارے اتنے قریب اتی نہ مجھ سے یہ سب کچھ ہوتا، انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا اور رونے لگیں یہ کیا ہو گیا مجھ سے، میں کھڑا ہوا اور کہا چاچی اگر آپ اپنے اپ کو مجرم سمجھ رہی ہیں تو میں بھی تو اس جرم میں برابر کا شریک ہوں اور رہی بات آپ کے سامنے سے دفع ہونے کی تو وہ تو میں ہو جاوں گا، پر کیا اس سے کچھ تبدیل ہو جائے گا جو ہو چکا وہ ہو چکا، اب سر پیٹنے سے کچھ نہیں ہونے والا، میں نے تو یہ سب کچھ اپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا پر چلیں آپ کی مرضی، جیسے آپ خوش ویسے میں خوش، یہ کہہ کر میں ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا، اور سوچا کہ بھائی کچھ بڑا کرنا پڑے گا، پھر کپڑے چینچ کیئے اور باہر نکل گیا۔
کچھ دوستوں کے ساتھ وقت گزارا کچھ بھونڈی کی، کچھ کھایا پیا، کچھ لن کو حوصلہ دیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ورنہ اور بہت جگہیں ہیں تیرے صبر کا امتحان لینے کے لیئے، شام کا اندھیرا پھلینے لگا تو چچی کا فون آ گیا، لن چھلانگ مار کر کھڑا ہو گیا اور کہا سن بھائی بلا رہی ہو گی چل کال اٹینڈ کر، میں نےکال بزی کی، لن نے کہا لخ دی لعنت او تیرے نخرے تے، دوسری دفعہ کال آئی تو میں نے بزی کر کے فون بند کر دیا، اندر سے بےچینی تو مجھے بھی ہو رہی تھی پر اب اپنی نارضگی بھی تو دکھانی تھی۔ رات کے دس بجے تو میں چچا کے گھر کی طرف چل پڑا زہن میں اگلا قدم بھی تھا، گھر پہنچا تو چچی لان میں ٹہل رہی تھیں، مجھے دیکھ کر وہ بھاگ کر میرے پاس آئیں اور میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ دے مارا، قسم سے موتر نکلنے والا ہو گیا اور دائیں کان میں ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگی، پر اپنے غصے اور ڈر کو قابو کیا، اور معصوم سی شکل بنا کر ان کی طرف دیکھا، تو انھوں نے غصے سے کہا فون کیوں بند کر دیا تھا، میں کب سے پریشان ہو رہی ہوں اور کہاں تھے سارا دن، کوئی ہوش بھی ہے کہ پیچھے کوئی انتظار کر رہا ہو گا، میں نے چچی کی طرف ایک دفعہ دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا، چچی مجھے آواز ہی دیتی رہیں پر میں نہیں رکا، کمرے میں پہنچ کر لن نے اور میں نے مل کر ڈانس کیا، اور پھر اپنا بیگ تیار کرنا شروع کر دیا، تھوڑی دیر میں چچی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آ کر مجھے اپنا بیگ تیار کرتے دیکھا تو دوڑ کر میرے پاس ائیں اور کہا یہ کیا کر رہے ہو، کیا چاہتے ہو اور میرے ہاتھ میں پکڑا سوٹ چھین لیا، میں نے دنیا کا سارا دکھ اپنے چہرے پر طاری کیا اور کہا آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ آپ کی نظر سے دور ہو جاوں تو جا رہا ہوں اپنے گھر، ورنہ پھر آپ مجھے دیکھ کر بھڑک جائیں گی اور دکھی ہو جائیں گی، اور میں اپ کو دکھی نہیں دیکھ سکتا، چچی نے میرے گال پر ہاتھ رکھا تو میں نے پیچھے ہو کر اپنے گال سے ان کا ہاتھ ہٹایا، وہ تھوڑی رکیں اور بولی ریحان سوری نا یار معاف کر دو پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے اس وقت میں ایسے کیوں سوچنے لگ گئی تھی یہ تو تم سے محبت کرنے سے پہلے مجھے سوچنا چاہیے تھا، اور تمھارا تو کوئی قصور تھا بھی نہیں، میں نے خود ہی تو تمھیں راغب کیا تھا سوری نا یار معاف کر دو پلیز ایک نا سمجھ محبوب جان کر، میں نے لمبی سانس لی اور کہا اپنا رویہ دیکھا تھا آپ نے مجھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے زبردستی کی ہو آپ کے ساتھ، مجھے تو اپنے آپ سے شرم آ رہی ہے، میں نے کیا سمجھا تھا اور آپ کیا نے کیا کیا، لن نے نیچے سے تالیاں بجائیں اور کہا واہ ظالم آسکر پر تیرا ہی حق ہے یہ جانی ڈیب تو ایویں ہی لے گیا اب بس کر بچی کو رولائے گا کیا، لن نے یہ بکواس کی اور ادھر چچی نے رونا شروع کر دیا، میں نے اگے بڑھ کر چچی کے گالوں پر ہاتھ رکھا اور ان کے انکھوں سے بہتے آنسو صاف کیئے اور کہا بہت ظالم ہو تم میری ہیر میں تو پاگل ہوا پھر رہا ہوں تمھارے لیئے اور تم نے ناجانے کیا سمجھ لیا، چچی نے میری انکھوں میں دیکھا پھر سر جھکا کر میرے سامنے ہاتھ جوڑ لیِے، میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر ہاتھ رکھے اور کہا نہیں میڈیم مجھے اور مت شرمندہ کرو میں سمجھ لوں گا کہ آپ کا مرا ساتھ بس ایک خواب ہی تھا، جو ایک فون کال پر ہی ٹوٹ گیا، چچی نے اگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور کہا ریحان نہ کرو نا میری جان میں اب نہیں رہ سکتی تمھارے بخیر، لن نے ٹٹوں پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا بھائی تو بھی ڈرامہ گنگ ہے یار بس کر اب مان جا اور وہ تیری نہیں میری بات کر رہی ہے ایویں خوش نہ ہوتا رہیں، میں تھوڑی دیر چچی کے گلے لگ کر جھوٹ موٹھ کا روتا رہا، پھر چچی مجھ سے علیدہ ہوئیں اور کہا چلو کھانا کھا لو مجھے پتا ہے تم نے کچھ نہیں کھایا ہو گا صبع سے، لن نے کہا اے لو سارا دن جگالی کرتا رہا ہے میرا کچھ خیال کر لو تڑپ تو تم میرے لیئے رہی ہو سیدھا کیوں نہیں کہتی کہ لینا ہے، میں نے اپنے انسو صاف کرتے ہوئے کہا نہیں مجھے بھوک نہیں ہے، تو چچی نے کہا ریحان پلیز نا یار اتنی سزا تو مت دو اب کچھ کھا لو دیکھ لو کیا شکل نکل آئی ہے ایک ہی دن میں۔ مجھے ہنسی تو بہت آئی پر خاموش رہا اور چچی میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی ڈائنگ تک لے آئی اور پھر دوڑ دوڑ کر میرے لیئے کھانا لگانے لگیں، جب لگا چکیں تو سامنے بیٹھ کر میرے ساتھ ہی کھانے لگیں۔
کھانا کھانے کے بعد میں آرام سے آٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا، سارا دن کی آوارہ گردی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں انکھ لگ گئی، رات کے کوئی دوسرا پہر ہو گا، مجھ ایسے محسوس ہوا کہ کوئی میرے بستر میں آ کر لیٹا ہے مجھے پتہ تو لگ گیا تھا کہ یہ چاچی کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا، مگر میں بے سدھ لیٹا رہا کچھ دیر بعد مجھے چاچی کی اواز آئی ریحان اٹھو نا دیکھو کیا حال ہو رہاہے میرا، پھر انھوں نے میرے ہونٹوں کو چوما پھر گالوں کو اور پھر میرے ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوسنے شروع کر دیئے، میں پوری طرح جاگ چکا تھا، اور نیچے والا شیطان بھی، میں نے چچی کے ہونٹوں کو علیدہ کیا اور ان کی گردن پر چومتے ہوئے کہا چلو آپ کے روم میں چلتے ہیں یہ بیڈ سنگل بیڈ ہے مشکل ہو گی سونے میں تو انھوں نے کہا تو پہلے کیوں نہیں آئے میں کب سے انتظارکر رہی تھی تمھارا، میں نے مسکرا کہ ان ستواں ناک پر کاٹا اور کہا چلو میڈیم وہ میرے بستر سے نکلیں تو مجھے لگا کہ وہ ننگی ہیں، دل ٹٹوں میں دھڑکنے لگا اور لن سر پر چڑھ کر دھمال ڈالنے لگا، وہ اگے اگے تھیں اور میں پیچھے جب وہ میرے کمرے سے لاونچ میں آئیں تو میں نے دیکھا کہ انھوں نے ایک ٹرانپیرنٹ نائٹی پہنی ہوئی ہے جو کچھ بھی چھپا نہیں رہی ، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اتنی تیز چل رہی تھیں کہ جیسے سو میٹر کی ریس لگی ہوئی ہے مگر ان کا پچھواڑا قیامت ڈھا رہا تھا دائیں بائیں اوپر نیچے پھر دائیں بائیں اوپر نیچے اففف افف اف یار توبہ توبہ انھوں نے اپنے کمرے میں اتے ساتھ ہی لائٹ اف کی تو میں نے جلا دی انھوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر سر ہلا دیا، اور میرا ہاتھ چھوڑ کر وہ قیامت خیز انگڑائی لی اور پھر میری طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہیں ہوں کیسا لگا، میں نے بھی انکھ جھپکی اور ہلکا سا سر ہلا دیا منہ میرا پہلے ہی کھلا ہوا تھا، وہ ہنس پڑیں اور کہا منہ بند کرو ورنہ کچھ دے دوں گی منہ میں، میں نے منہ بند کیا اور کہا دو کیا دینا ہے، انھوں نے میرا بازو پکڑا اور بیڈ پر دھکا دے کر گرا دیا اور پھر اپنی نائٹی تھوڑی سی سائیڈ پر کر کے اپنا مما نکالا اور مجھ پر جھک کر میرے ہونٹوں سے لگا دیا، میں نے بھی آدھے رستے سے ہی اچک لیا اور نپل کو ہونٹوں سے دبانے اور چوسنے لگا، اور دوسرے ممے پر ہاتھ رکھ کر اسے دبانے اور مسلنے لگا، چچی نے اپنی گردن اوپر اٹھا کر سسکی لی اور سسکتے ہوئے کہا ریحان مجھے معاف کر دیا ہے نا، اس وقت کس کم ظرف کو ہوش تھا کہ وہ کس چیز کی معافی مانگ رہی ہیں اس وقت بس وہ چمچماتا جسم تھا، تڑپاتا بدن تھا، اور ترساتا وجود جس کی طلب اس وقت ہر خیال اور سوچ پر ہاوی تھی۔
چاچی نے میری انکھوں میں دیکھا اور میرے دوںوں ہاتھوں کی انگلیوں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھسا کر میرے سر سے اوپر لے جا کر رکھ دیا اور مجھ پر جھک کر اپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹوں کو چھیڑنے لگیں، ان کی انکھوں میں شہوت کے ڈورے صاف نظر آ رہے تھے، میں نے ان ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑائے اور ان کی کمر اور چوتڑوں کو اپنی مٹھیوں میں لے کر دبانا شروع کر دیا، چچی نے میرے ہونٹوں کو چھوڑا اور کہا میری جان اپنی ہیر کو پیار کرو میں تمھاری ہوں، میں نے کروٹ لی اور چچی کے اوپر آ کر کہا اب ناراض تو نہیں ہوں گی، چچی نے سر ہلایا اور کہا کبھی نہیں میں نے اپنے کپڑے اتارنے شروع گئیے تو انھوں میری مدد کرنا شروع کر دی ایسے لگ رہا تھا مجھ سے زیادہ ان کو جلدی ہے، مجھے ننگا کر کے چچی نے اپنی نائٹی کھولی اور اتار کی پھینک دی، میں نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائی اور چچی کو گود میں بٹھا کر ان کی گردن، کندھوں ہونٹوں اور گالوں کو چومنے اور چوسنے لگا، وہ بھی میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں، ان کی رانیں میری رانوں پر تھیں ان کی چوت میرے لوڑے کے آس پاس مٹرگشت کرتی پھر رہی تھی پر اس کی پکڑ میں نہیں آ رہی تھی، پھر انھوں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر لن کو پکڑا اور اپنی چوت میں پھیر کر اس کے اندر لینا شروع کر دیا، گرم اور گیلی چوت مین لن پھسلتا ہوا اندر تک گھس گیا، وہ بے خودی میں میرے کندھوں اور گردن پر کاٹنے لگیں، اور اہستہ آہستہ اوپر نیچے ہونے لگیں، ان کا یہ انداز بہت دلفریب تھا، میں پوری طرح ان کے جسم میں گم تھا کہ بولیں ریحان میری جان ساری زندگی ایسے ہی پیار کرو گے نہ مجھے، اس وقت کس کو ہوش تھا تو بس اگلے کے سوال کا مطلب سمجھ آ رہا تھا تو میں نے روکتی سانس اور دبتی آواز کے ساتھ ہاں میری جان ساری زندگی، ان کا پیٹ میرے سینے سے لگا ہوا تھا ان کے ممے میرے چہرے کے سامنے تھے ان کے کھلے بالوں نے ہم دونوں کے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا، چچی کی سپیڈ بڑھنے لگی اور وہ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگیں، میں نے ان کی کمر کے گرد بازووں کا گھیرا بنایا اور ان کو اسی پوزیشن میں نیچے لٹانے لگا اور خود ان کے اوپر آ گیا، چچی نے سسکتے ہوئے کہا، ریحان میں نے ابھی نہیں ہونا میں نے مزا لینا ہے، مجھے ان کی بات سن کر ہنسی آئی کیونکہ لن شریف کی بینڈ بج چکی تھی، یہ بات سن کر میں نے لن سے کہا او چوتیے تیری اور میری دونوں کی عزت کا سوال ہے اب تو فارغ نہیں ہونا، لن نے جھٹکا مار کر ہامی بھری اور میں چچی کے اوپر لیٹتا گیا وہ سلو سیکس کا مزا لے رہیں تھیں، شہوت اپنا قابو کھونے پر مجبور کر رہی تھی پر وہ خود کو اور مجھ کو روکے ہوئے تھیں شاید وہ میرا امتحان لے رہی تھیں، میں بھی ہر تیس سیکنڈ کے بعد دس سیکنڈ کے لیئے سانس روک رہا تھا، مجھے لگا کہ چچی کا کنٹرول اب ختم ہو گیا ہے کیونکہ انھوں نے نیچے سے جھٹکے لگانے شروع کر دیئے تھے، میں نے ان کی بند انکھوں پر چوما اور کہا او ہیریے کیا ہوا مزا نہیں لینا، انھوں نے پھولی سانس کے ساتھ کہا مجھے سیٹیسفائی ہونا ہے جلدی کرو تیز کرو زور سے کرو پلیز ریحان اب برداشت نہیں ہو رہا، مجھے عورتوں کی یہ بات سب سے اچھی لگتی ہے کہ اپنی کسی بات پر پکی نہیں رہتیں جس کا فائدہ میرے جیسے لوگ بھرپور اٹھاتے ہیں، پھر کیا تھا دے دھن دھنا دھن اندر باہر کا راونڈ شروع ہوا، چچی کی سسکیاں اب سسکیاں نہیں تھیں وہ ہلکی چیغیں تھیں، ان کی جسم لال ہو گیا تھا پھر وہ اکڑیں اور کانپنے لگیں مجھے اور میرا نام لے لے کر فارغ ہونے لگیں، قسم سے اس وقت دل کیا کہ یہ وقت رک جائے پر وہ فارغ ہو گیں اور ان کی چوت پانی کا تلاب بن گئی، میں نے ڈوبتے لن کو باہر نکالا اور سیدھا لیٹ گیا، چچی نے کروٹ لی اور الٹی ہو کر لیٹ گیئں اور میری طرف دیکھنے لگیں، اور پھر ہنستے ہوئے کہا نہیں ہوئے نا، میں نے سر ہلا کر کہا نہیں نا، انھوں نہ کہا آ جاو ہو جاو آپ بھی، میں نے ان کی بنڈ پر ہاتھ پھیرا اور کہا میں نے یہاں ہونا ہے تو انھوں نے ہلکی سی چپت میرے سر پر لگائی اور کہا گندے بچے وہاں نہیں کرتے یہ سب، میں نے ضد کی کہ میں نے کرنا ہے تو بولیں کل کر لینا ابھی نہیں ابھی اپ فارغ ہو جاو، چلومیرے لیئے اتنا ہی بہت تھا کہ وہ راضی ہیں، میں اٹھا ان کے پیچھے آ کر ان کی ایک ٹانگ کو آٹھا لیا اپنے پیٹ کے اوپر سے گزار لیا اور لن کو پکڑ کر ان کی گیلی چوت میں ڈال دیا وہ سسکیں اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا، میں نے ایک ہاتھ ان کی کمر کے نیچے سے گزار کر ان کے مموں کو پکڑ لیا اور دوسرے سے ان کے چوتڑوں کو دبانے مسلنے اور رگڑنے لگا، ان کا پیار اب وحشی ہوتا جا رہا تھا وہ کاٹ زیادہ رہی تھیں چوس کم رہیں تھیں، میں نے ان کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیدہ کیئے اور ان کے اپنا منہ نیچے کر کے ان کے ایک ممے کو منہ میں لے کر دبانا اور کاٹنا شروع کر دیا وہ تڑپ گیں اور میرے لن پر اپنی چوت کے دھکے مارنے لگیں، میں نے جو ہاتھ ان کے چوتڑوں پر رکھا ہوا تھا ان کی گانڈ کی لکیر میں پھیرنا شروع کر دیا وہ مچل گیئں، ان کے منہ سے بے ربط باتیں اور سسکیاں نکلنے لگیں، میں فارغ ہونے والا تھا پر اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے میں ان کے بارے میں تسلی کر لینا چاہتا تھا کہ کیا وہ بھی ہونے والی ہیں کہ نہیں، جیسے ہی میں نے ان کے ممے سے منہ ہٹایا تو انھوں نے اپنی وہ ٹانگ جو میرے پیٹ سے گزر کر دوسری طرف تھی اسے اوپر اٹھا لیا اور اپنی ران پر گھٹنے کے نیچے ہاتھ رکھ لیا اور زور زور سے ہلنے لگیں، میں ان کی لچک دیکھ کر حیران رہ گیا، میں نے ایک انگلی ان کی گانڈ کے سراغ پر پھیری تو انھوں نے آہ بھر کر کہا ریحان ابھی نہیں نا میری جان پر میں باز نہیں ایا اور ان کی گانڈ کو چھیڑتا رہا ان کے پیچھے کی طرف دھکے وحشیانہ حد تک تیز ہو چکے تھے جو میرے ٹٹوں پر لگ رہے تھے اور مجھ اب درد ہونے لگا تھا میں نے ان کی ٹانگ نیچے کی اور ان کو الٹا کر دیا اور پیچھے سے ان کی چوت میں دھکے دینے لگا میں ہونے والا تھا اس لیئے میں میری رفتار پہت تیز ہو گئی، چچی نے سسکتے ہوئے کہا ریحان میں گئی میری جان میں گی ہائے میں گئی، ان کی کمر خود بخود اوپر کی طرف اٹھنے لگی اور ساتھ ہی وہ فارغ ہو رہی تھیں میں بھی فارغ ہونے والا تھا میں ان کی کے اوپر لیٹ گیا اور چھوٹںے لگا، تب ہی مجھے لگا کہ لن چوت سے باہر آ گیا ہے تو میں اٹھ بیٹھا اور لن کو پکڑ کر چچی کی ننگی کمر پر فارغ ہونے لگا۔
ان کی کمر میری منی سے لتھڑی گئی پر وہ سکون سے لیٹی رہیں، جب میں سکون میں آ گیا تو ان کے بخل میں لیٹ گیا اور ان کے گالوں پر چوم کر کہا آئی لوو یو، انھوں نے میرے ہونٹ چومے اور کہا چلو اکھٹے شاور لیتے ہیں، اور اٹھ کر میرا بازو پکڑا اور واشروم کی طرف بڑھ گئیں، مجھے پتہ تھا کہ اب میرا اور چچی کا رشتہ بہت عجیب ہو جانا ہے، جو صرف جسم کی طلب تک ہی محدود رہے گا، ہم ایک دوسرے کو دیکھیں گے بھی تو صرف ایک سیکس ٹوائے کی نظر سے، ایک دوسرے سے بات کریں گے تو جنسی تسکین کے لیئے، اب سب کچھ بدلنے والا تھا،
مگر جو بھی ہونا تھا اب اچھا نہیں تھا، کیونکہ شجر ممنوع کا پھل کچھ دیر کا ہی مزا اور سکون دیتا ہے پھر تکلیف اور پچھتاوا بن جاتا ہے، یہ ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا، ایک دوسرے کے ساتھ سب کچھ کر لینے کے بعد اور کئی دفعہ کر لینے کے بعد، ہمیں ایک دوسرے کی چاہ ختم ہو گئی، اور کچھ عرصے بعد ہم ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے، پھر جب بھی ایک دوسرے سے سامنا ہوتا تو عجیب سا غم اور دکھ سر اٹھانے لگتا اور دل میں خیال اتا کہ کاش ہم اپنے رشتے کہ تقدس کو پامال نہ کرتے، کیونکہ اب میں نہ صرف اپنی چچی اور چچا کا مجرم تھا، بلکہ اپنے آپ سے شرمندہ بھی تھا، رشتوں کے بیچ پردے رہیں تو رشتے رہتے ہیں، میاں بیوی کہ درمیان بھی اگر سب پردے ختم ہو جائیں تو وہ بھی قائم نہیں رہتے، کچھ وقت کا مزا لمبے عرصے کا دکھ اور تکلیف بھی دے سکتا ہے یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ کچھ چیزیں ہو جانے کہ بعد سمجھ آتی ہیں، اور میرے جیسے لوگ جو اپنے اپ کو استاد اور شکاری کہتے ہیں ان کا کے بھی استاد اور شکاری اسی دنیا میں ان سے ٹکراتے ہیں اور حساب برابر کرتے ہیں۔