Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now

Family میں اور میری چھوٹی امی

  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Story Lover

New member
Joined
Nov 24, 2024
Messages
3
Reaction score
4
Points
3
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
میرا نام وقاص ہے۔ میری عمر 20 سال ہے۔ میرے ابو ان کا نام فرہاد ہے اور ان کی عمر 50 سال ہے۔ وہ شہر سے باہر کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے وہ مہینے میں صرف 2 دن کے لیے ہی گھر آتے ہیں۔ اور گھر میں میں اور میری سوتیلی ماں فرح ہوتے ہیں۔ میری سوتیلی ماں کی عمر 30 سال ہے۔ میں انہیں پیار سے چھوٹی امی یا کبھی کبھی صرف امی بلاتا ہوں۔ وہ میرے ابو سے 20 سال چھوٹی ہیں اور عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ان کی جسم کی گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری شادی کے بعد ابو نے بچہ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اس وجہ سے میری چھوٹی امی کا جسم بالکل ٹائٹ تھا۔ ان کا جسم تھوڑا بھرا بھرا تھا لیکن موٹا بالکل نہیں تھا۔ ان کے ممے قدرتی طور پر کافی بڑے اور گانڈ باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ ان کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ وہ ایسے لگتیں جیسے کوئی کنواری لڑکی جسے قدرت نے خوب مالا مال کیا ہوا ہو۔ ابو مہینے میں صرف دو دن ہی گھر آتے ہیں اس میں بھی ایک دن آرام کرنے میں گزرتے ہیں اور اگر گھر پر مہمان آ جائیں 2 دن وہ امی کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور اس سے امی کی مشکل اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں میں نے اپنی سوتیلی ماں کی حالت کا فائدہ اٹھانے اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کے میں نے انہیں کئی بار روتے دیکھا۔ ابو اور امی کا کمرہ گراؤنڈ فلور پے ہے اور میرا فرسٹ فلور پے۔ اور اکثر ہی میں کچن سے کچھ لینے نیچے آتا تو چھوٹی امی کے کمرے سے ان کی رونے کی آواز آ رہی ہوتی تھی۔ میرے پوچھنے پر وہ ہمیشہ خراب طبیعت کا بہانہ کر کے ٹال دیتیں۔ میں نے ان کی مدد کا فیصلہ تو کر لیا مگر یہ تب ممکن تھا جب امی کو بھی اس مدد کی خواہش ہو۔ اور ان کے دل میں یہ خواہش جگانے کے لیے میں نے اس دن کے بعد سے میں نے پلان بنانا شروع کر دیا۔ اگر سچ بتاؤں تو امی کی مدد تو صرف ایک بہانہ تھا۔ اصل مقصد تو اپنے اندر کی آگ کو بجھانا تھا جو میری سوتیلی ماں نے 5 سال پہلے جلائی تھی۔

میرے عمر 10 سال تھی جب میری امی اس دنیا سے انتقال کر گئیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ امی کے گزر جانے کے بعد ابو اور میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا محسوس کرتے تھے۔ سب لوگوں نے ابو کو دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن ابو اپنے کام میں اس طرح مصروف رہتے کے انہیں کبھی ٹائم ہی نہیں ملا کے وہ دوسری شادی کرتے۔ اس مصروفیت کی وجہ سے ہی امی نے دوسرا بچہ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیوں کے ان کے لیے مجھے سنبھالنا ہی بہت مشکل کام تھا۔

امی کے انتقال کو 5 سال گزر گئے۔
میں 15 سال کا تھا اور میٹرک کے امتحان دینے کے بعد چھٹیاں منا رہا تھا۔ تب ایک دن میں نے اپنی دادی امی جو کے چھوٹے چاچو اور چچی کے ساتھ رہتی تھیں ان کو ابو کو دوسری شادی کے لیے اصرار کرتے سنا۔ ابو بار بار منع کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کے ان کی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کے وہ دوسری شادی کے بعد نئی بیوی کے لیے وقت نہیں نکال پائیں گے۔ جبکے دادی بار بار ایک ہی بات دہراتی رہیں کہ ان کے جانے کے دوسری شادی کروانے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا اور یہ بات ان کو کھائے جا رہی تھی ان کا
بیٹا ساری زندگی اکیلا رہے
۔
۔ ‏( دادی کو ہمیشہ چھوٹے چاچو سے زیادہ لگاؤ تھا کیوں کے ان کی اولاد نہیں تھی۔ میرے چاچو کا نام ریحان ہے اور چچی کا نام یاسمین ہے۔ میرے چاچو کے بارے میں نے کسی سے سنا تھا کے وہ نا مرد ہیں اور ان کا لن کھڑا ہی نہیں ہوتا تھا۔ چچی کو یہ بات ان سے شادی کے بعد پتا چلی۔ اور چچی اپنے جسم کی بھوک مٹانے کے لیے انگلیوں اور کبھی لمبی سبزیوں کا سہارا لیتیں۔ چاچو ان کی مدد کے لیے کبھی ان کی پھدی چاٹ لیتے تھے۔ تو کبھی انگلیوں سے ان کی پھدی کا جوس نکالنے کی کوشش کرتے۔ مختصر یہ کے چچی یاسمین کی پھدی نے کبھی اصل لن کا مزہ چکھا ہی نہیں تھا۔ ‏)
۔
ابو کے منع کرنے پر دادی نے اچانک رونا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر آخر ابو نے ان کے آگے ہار مان لی اور دوسری شادی کی ہامی بھر لی۔ میں یہ سب سن کر کمرے میں داخل ہوا اور ابو کے پاس جا کر ان کو اور دادی کو مخاطب کر کے بولا کے ابو کی شادی ضرور ہونی چاہیے۔ میرا یہ کہنے کا مقصد تھا کے ابو میرے لیے پریشان نا ہوں۔ آخر میں اب جوان ہو گیا تھا۔ ابو کے کہنے پر دادی بھی مسکرا دیں اور بولین کے انہوں نے پہلے سے ہی ایک لڑکی پسند کر رکھی ہے۔ ابو کے پوچھنے پر انہوں نے اس کا نام فرح بتایا۔ ابو نے کچھ سوچا اور اثبات میں سر ہلایا۔
۔
فرح میرے چھوٹے چاچو کی سالی ہے۔ جس کی اس وقت عمر 25 سال تھی اور ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ گھر میں ہی رہتی تھیں۔ میری ان سے بہت بنتی تھی کیوں کے میں انہیں کے ٹیوشن پڑھ پڑھ کر پاس ہوتا تھا۔ اس کے ٹھیک 2 مہینے بعد ابو کی شادی بہت سادگی سے کر دی اور ابو چھوٹی امی کو لے کر گھر آ گئے۔
۔
شادی کے بعد ایک مہینے تک ابو پہلے سے زیادہ وقت گھر گزارتے۔ اور چھوٹی امی کو وقت اور پیار دونوں دیتے۔ مگر شادی کی ایک مہینے بعد ہی ابو واپس اپنی پہلے والی روٹین پے کام کرنے لگے۔ چھوٹی امی ہر وقت اداس رہتیں۔ ان کا کسی چیز میں دل نا لگتا۔ میں نے ان کا موڈ ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وو تھوڑا سا مسکرا کر پھر خاموش ہو جاتیں۔
جیسے کیسے مہینے گزرا اور ابو کے آنے کا وقت قریب آیا تو چھوٹی امی کے چہرے پر پھر سے خوشی نظر آنے لگی۔ اور وو سارا دن مجھ سے پوچھتیں کے کپڑے کونسے پہنو کھانے میں کیا بنانا چاہیے۔ میں ان کی مدد کرتا رہتا تھا۔ ایک دن میں کالج کے لیے تیار ہو کر نکلا مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کے ٹیچرز اور کالج کے مالک کے درمیان تنخواہ کو لے کر جھگڑا ہوا اور ٹیچرز احتجاج پر تھے جس کی وجہ سے کالج بند تھا۔ میں نے کچھ وقت وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کے آج کے دن سب کچھ بدلنے والا تھا۔ میری سوتیلی ماں جسے ہمیشہ میں نے ماں کی نظر سے ہی دیکھا تھا آج ان کے لیے میری سوچ اور نظر بدلنے والی تھی۔ آج میرے اندر وہ آگ لگنے والی تھی جسے بجھانے میں مجھے 5 سال لگے۔

میں کالج سے سیدھا گھر پہنچا اور اپنی چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ اندر جا کر چھوٹی امی کو بتانا چاہتا تھا مگر وہ اپنے کمرے میں نہیں تھیں۔ ان کے کمرے کا واش روم بھی خالی تھا۔ وہاں سے کچن میں گیا تو وہاں بھی نہیں تھیں۔ یہ بات کافی حیران کن تھی کیونکہ چھوٹی امی کو اس گھر میں آئے دو مہینے ہو گئے تھے اور آج تک کبھی انہوں نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ لیکن پھر میرے ذہن میں چچی یاسمین کا خیال آیا اور سوچا شاید وہیں گئی ہوں گی، آخر وہ چھوٹی امی کی سگی بہن ہیں۔

یہ سوچ کر میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے لگا مگر آخری کچھ سیڑھیاں پہ ہی رک گیا۔ میرا مانوں جیسے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ ننگوں میں جیسے سریا گھس گیا ہو اور ہلنا محال ہوگیا ہو۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے میرے اندر ہوس کی آگ کو بھڑکایا تھا۔

چھت پر میرے روم کے باہر چارپائی پر چھوٹی امی بلکل ننگی بیٹھی تھیں، انہوں نے اپنی نانگیں کھول کر تھوڑا سا اوپر اٹھائی ہوئی تھیں اور اپنی پھدی کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔ ایک دم جو مجھے جھکاک لگا تھا اس سے میرا ذہن رک سا گیا تھا اور میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ آخر کیا رہا ہے۔

چھوٹی امی نے بال پیچھے کو باندھ کر جوڑا بنا رکھا تھا۔ کپڑے سات تار پر لٹکے رہے تھے، جسم اس قدر خوبصورت کہ خوبصورتی بھی شرما جائے۔ ان کے ممے بلکل شیپ میں تھے، موٹے اور گول، ان کے نپل ہلکے براؤن رنگ کے تھے۔

جسم پورا بلکل نائٹ 'مونی رانی' جیسی رنگت 'اور ان کی پھدی' اف۔۔۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بہت سی پورن فلمز دیکھی ہیں لیکن آج تک میں نے ایسی قدرتی خوبصورتی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اور زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کو ننگا دیکھ رہا تھا، اور وہ بھی اس قدر خوبصورت۔

ان کی پھدی بہت خوبصورت اور نائٹ لگ رہی تھی، ایسی پھدی کے بندھے سارا دن چاہتا رہے پھر بھی دل نہ بھرے۔


میں نے اپنے ہوش میں آ کر غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ چھوٹی امی اپنی پھدی کے بال صاف کر رہی تھیں۔ شاید وہ اپنی ٹانگوں اور جسم کے باقی حصوں کے بال پہلے ہی صاف کر چکی تھیں، اس وجہ سے ان کا جسم بہت ملائم اور صاف تھا۔ اور یہ سب ابو کے لیے کیا جا رہا تھا۔ میں کچھ لمحے وہاں رکا اور واپس جانے ہی والا تھا کہ چھوٹی امی کی نظر مجھ پر پڑی۔ انہوں نے فوراً اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں اور ان کے منہ سے ہلکی چیخ نکلی۔ میں بھی فوراً نیچے کی طرف مڑا اور جاتے جاتے اونچی آواز میں غصے میں بولا "سیڑھی کا دروازہ لاک کر لیا کریں"۔

انہیں اس بات کا احساس نہ ہوا کہ میں کافی دیر سے ان کے جسم کا خاکہ اپنے ذہن میں بنا رہا تھا۔ گھر سے میں اسی وقت اپنی بائیک پر باہر نکلا اور شہر میں گھومنا شروع کر دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا اب میں چھوٹی امی کا سامنا کیسے کروں گا۔ اور اگر انہوں نے ابو کو سب بتا دیا تو ابو کیا سوچیں گے؟ جب سڑک پر بائیک چلا چلا کر تھک گیا تو واپس گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اب تک شام ہو چکی تھی۔

گھر پہنچ کر میں سیدھا چھت پر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ابو نے اگلے دن شام کو آنا تھا، اور میرا یہ سوچ کر دل گھبرا رہا تھا کہ ابو کا رد عمل کیسا ہوگا۔

ابھی کچھ دیر اپنے بیڈ پر لیٹا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ بجنے کی آواز آئی۔ میں ہمت کرکے اندر آنے کو بولا۔

چھوٹی امی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں، وہ اب نہا کر نئے کپڑوں میں تھیں، بال ابھی بھی گیلے تھے۔ وہ ٹائٹ قمیض پہنے ہوئے تھیں جس سے ان کے جسم کے ابھار صاف نظر آ رہے تھے، وہ ابھار جنہیں کچھ دیر پہلے جی بھر دیکھ چکا تھا۔

اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ اب میری نظر چھوٹی امی کو ماں کی نظر سے نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ میری نظر میں وہ ایک حسین عورت بن گئی تھیں۔

چھوٹی امی میرے ساتھ آکر بیڈ پر بیٹھ گئیں، کچھ دیر ہم دونوں اسی طرح خاموش بیٹھے رہے پھر چھوٹی امی نے بولنا شروع کیا:

چھوٹی امی: "دیکھو بیٹا، مجھے بہت زیادہ شرمندگی محسوس ہو رہی ہے اس وقت، مجھے اپنے کمرے میں تیار ہونا چاہیے تھا لیکن اوپر گئی تاکہ روشنی اچھی مل سکے مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی جلدی واپس آ جاؤ گے"۔

میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ احتیاط کروں گی آپ بس اس بات کا کسی سے ذکر مت کرنا خاص طور پر اپنے ابو سے تو بلکل نہیں"

اس وقت میرے ذہن سے ایک بوجھ اتر گیا اور انہیں یقین دلایا کہ یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

چھوٹی امی میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار سے بولیں "میں امید کرتی ہوں کہ آج جو بھی ہوا ہم اسے بھول کر دوبارہ سے نارمل رہیں گے" میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اب سب کچھ بدل گیا تھا اور نارمل ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔

چھوٹی امی میرے کمرے سے اٹھ کر باہر جانے لگیں تو میرا پورا دھیان انکی گانڈ پے تھا۔ بس یہی ایک چیز تھی جسکا نظارہ میں نے ابھی تک نہیں کیا تھا۔ ہچکولے کھاتی ہوئی نرم ملائم گانڈ دیکھ کر میں شہوت سے گرم ہوگیا۔ میرے اندر کی دنیا ہی جیسے بدل گئی تھی ۔ چھوٹی امی کے کمرے سے جانے کے بعد میں کافی دیر تک انکے بارے میں سوچتا رہا۔ میرے دل میں یہ خواہش شدت سے جنم لینے لگی کہ مجھے دوبارہ انہیں الف ننگا دیکھنا تھا مگر کیسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

رات کے کھانے کے بعد میں اپنے کمرے میں سونے کی کوشش کر رہا تھا مگر نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ میری ذہن پر چھوٹی امی کے ممے اور پھدی کا نظارہ چل رہا تھا اور میرا لن ایک دم ٹائٹ تھا۔ میں تنگ آ کر کمرے سے باہر نکلا کہ تازہ ہوا لگوا سکوں۔ باہر بلب جل رہا تھا اور اسکی روشنی میں مجھے سامنے تار پے چھوٹی امی کا برا نظر آیا۔ میں سمجھ گیا کے یہ وہی برا تھا جو آج انہوں نے اتارا مگر نیچے جاتے ہوئے اسے ساتھ لے جانا بھول گئیں۔ میں نے فوراً برا تار سے اتارا اور اسے سونگھا تو اس میں سے ایک خاص خوشبو آ رہی تھی۔ یہ خوشبو چھوٹی امی کے پرفیوم کی تھی جو وہ ہمیشہ لگا کے رکھتی تھیں۔ وہ خوشبو سونگھتے ہی مجھے لگا جیسے میں چھوٹی امی کے پاس ہوں۔ اور ایک جھٹکا کھا کر میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا۔ میرا ایک ہاتھ برا کو پکڑے میرے چہرے پے تھا اور دوسرا ہاتھ خود ہی لن پر چلا گیا۔ 15 سال کی عمر تک آج تک میں نے کبھی مٹھ نہیں مارے تھی۔ پہلی بار جب لن کو ہلانا شروع کیا تو پورے جسم میں سرسری مچ گئی۔ میں لن کو اور تیز تیز جھٹکے مارنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں میرا لن اکڑنے لگا اور مزے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ تبھی خود ہی میرے منہ سے نکلا "امی... امی... آہ... آہ... امی... آہ... آئی لو یو امی... آہ... آہھھ..." اور اس ساتھ ہی میری زندگی کی پہلی مٹھ میری چھوٹی امی کے نام پوری ہوئی۔ میرا سانس پھول رہا تھا اور کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ میں اپنے کمرے میں گیا کپڑے تبدیل کیے اور چھوٹی امی کے برا کو اپنے بستر کے نیچے چھپا دیا۔ اس رات کو نیند بہت مزے کی آئی۔

میں نے آج صبح ناشتے پر امی بہت خوش لگ رہی تھیں۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آج شام کو ابو نے گھر آنا تھا۔ آج جمعہ کا دن تھا اور کالج سے چھٹی جلدی ہو گئی تھی۔ گھر آتے ہی چھوٹی امی نے مجھے کام پر لگا دیا۔ کھانا بنانے میں اور گھر کی صفائی کرنے میں میں ان کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ شام ہونے کو تھی اور چھوٹی امی سارے کام کرنے کے بعد تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔

چھوٹی امی: "وقاص میں بہت تھک گئی ہوں۔ میں نہا کر فرش ہوتی ہوں۔ اور پھر تیار بھی ہونا ہے تمہارے ابو آتے ہی ہوں گے۔ تم بھی تھک گئے ہو گے۔ جا کر ریسٹ کر لو۔ رات کا کھانا تمہارے ابو کے ساتھ مل کر کھائیں گے۔"

میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مجھے ابو کی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔ آج رات کو کیا ہونا تھا میں اچھی طرح جانتا تھا۔ پھر ایک دم میرے ذہن میں شیطانی خیال آیا۔ میں جلدی سے اپنے بستر سے اٹھا اور نیچے آ گیا۔ نیچے والے باتھ روم میں شاور چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں آہستہ سے چھوٹی امی اور ابو والے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور سیدھا کھڑکی کی طرف گیا۔ کھڑکی 4 پلی والی تھی اور اس کے آگے ہمیشہ پردہ رہتا تھا۔ میں نے سب سے آخری والی کھڑکی کی کنڈی کھولی۔ پردہ آگے سے تھوڑا سا ہٹا ہوا تھا۔ اور کمرے سے نکل گیا۔ میرا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا۔ میں سیدھا اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔

آدھے گھنٹے بعد ہی گھر کی بیل بجی اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اور اس کے ساتھ ہی ابو کی آواز آئی۔ ابو شاید میرا پوچھ رہے تھے۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر نیچے گیا۔ ابو کو سلام کیا۔ ابو نے میری پڑھائی کے متعلق سوال کرنا شروع کر دیے۔ کچھ ہی دیر میں چھوٹی امی آئیں اور انہوں نے ہم دونوں کو کھانا لگنے کے بارے میں بتایا۔ میں اور ابو فوراً کھانے کی ٹیبل پر گئے۔ کھانا کھانے کے بعد ابو اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں چھوٹی امی کی مدد کرنے لگ گیا برتن سمٹنے میں۔ چھوٹی امی جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھیں۔ مجھے ان کی جلد بازی اچھی طرح سمجھ آ رہی تھی۔ برتن سمٹنے کے بعد چھوٹی امی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور میں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر لیٹنے کے بعد میں نیچے گیا اور آہستہ آہستہ کھڑکی کے پاس پہنچا۔ کھڑکی کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ تھوڑی سی کھل گئی۔ آگے سے پردہ پہلے ہی تھوڑا سا ہٹا ہوا تھا۔ اندر کا نظارہ دیکھ کر میرا لن جھٹکے کھانے لگا۔ ابو بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور انہوں نے صرف دھوتی پہن رکھی تھی۔ چھوٹی امی اپنا قمیض پہلے ہی اتار چکی تھیں۔ اور برا کا ہک کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جیسے ہی ان کا برا اترا اور ان کے بڑے بڑے ممے ننگل مجھے نظر آئے میرا ہاتھ خود ہی لن پر چلا گیا۔ ابو اوپر اٹھے اور چھوٹی امی کے ایک ممے کو منہ میں لے کر چوسنے لگے اور دوسرے ممے کو ہاتھ سے دبانے لگے۔ امی کی آنکھیں بند تھیں اور انہوں نے سر اوپر کو اٹھایا ہوا تھا۔ اور ایک ہاتھ ابو کے بالوں میں پھیر رہی تھیں۔

کچھ دیر بعد ابو نے دوسرا ممہ منہ میں لیا اور ایک ہاتھ ان کے جسم پر پھیرتے ہوئے ان کی شلوار میں ڈال دیا اور ان کی پھدی سہلانے لگے۔ چھوٹی امی اب سسکاریاں لے رہی تھیں۔ اور وقفے وقفے سے ان کے منہ سے "آہ۔۔ آہ۔۔" کی آواز نکل رہی تھی۔ کچھ دیر میں ہی چھوٹی امی اچھل اچھل کر ابو کا ساتھ دے رہی تھیں۔ اب ان کی سسکاریاں اور تیز ہو گئی تھیں۔ چھوٹی امی نے "فرہاد۔۔ فرہاد۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔ فرہاد۔۔۔" یہی رٹ لگائی ہوئی تھی۔ ابو نے ایک دم ان کی شلوار سے ہاتھ نکالا اور بستر پر لیٹ کر دھوتی اتار دی۔ چھوٹی امی بھی جلدی سے اپنی شلوار اتارنے لگیں۔
کھڑکی بستر کے پیر والی سایڈ پر تھی۔ اور چھوٹی امی نے جیسے ہی اپنی شلوار اتاری ان کی گانڈ کا رخ کھڑکی کی طرف تھا۔ جیسے ہی ان کی شلوار اتری میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ان کی گانڈ بہت سفید اور موٹی سی تھی۔ چوتڑ بالکل ٹائٹ اور آپس میں ملے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھ کی سپیڈ اور تیز ہو گئی۔ چھوٹی امی اٹھیں اور ابو کے اوپر چڑھ گئیں۔ ابو کا لن اپنی پھدی پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے بیٹھ گئیں۔ پورا کا پورا لن ان کی پھدی میں اتر گیا۔ انہوں نے اچھل اچھل کر جھٹکے مارنا شروع کر دیے۔ ہر جھٹکے کے ساتھ ان کی گانڈ بھی جھٹکے کھا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میرا لن بھی جھٹکے کھا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی امی رکین اور اٹھ کر اپنا رخ کھڑکی کی طرف کر لیا۔ اور پھر لن کو پھدی پر سیٹ کر کے جھٹکے مارنا شروع کر دیے۔ اب ان کے ممے اچھل رہے تھے۔ ان کا منہ کھلا ہوا تھا اور ان کی پھدی میں لن جاتا ہوا مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں چھوٹی امی کی آواز اور اونچی ہو گئی۔

چھوٹی امی: "فرہاد۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔۔ بس تھوڑی دیر اور۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔ میں چھوٹنے والی ہوں۔۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔ فرہاد۔۔"

میں : "امی۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔ بس تھوڑی دیر اور۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔ میں بھی چھوٹنے والا ہوں۔۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔۔ امی۔۔

میں اپنے خیالوں میں چھوٹی امی کو چود رہا تھا۔ ان کی آواز اور رفتار سے لگ رہا تھا کہ وہ چھوٹنے والی ہیں۔ اور میرا لن بھی اکڑنے لگا تھا۔ ہم دونوں مست ہو چکے تھے۔ ابو کو تو جیسے میں بھول ہی چکا تھا۔ تبھی ایک دم پنکھے کی ہوا سے پردہ پورا ہٹ گیا اور چھوٹی امی نے مجھے دیکھ لیا۔ ہماری نظریں ملیں۔ مگر ہم دونوں مزے کی اس چوٹی پر تھے جہاں عقل کام کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ میں نے نظریں نہ ہٹائیں اور نہ ہی چھوٹی امی نے کوئی رد عمل دیا۔ وہ بھی میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں۔ تبھی چھوٹی امی نے "آہ۔۔" کی زور دار آواز نکالی اور چھوٹنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی میرا لن بھی جھٹکے کھانے لگا اور منی کا فوارہ نکل پر۔ ہم دونوں ویسے ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے تھے۔ چھوٹی امی کا جسم کانپ رہا تھا اور میری ٹانگیں بھی کمزور پر رہی تھیں۔ تبھی میں اپنے ہوش میں واپس آیا۔ چھوٹی امی جو کچھ دیر پہلے میری آنکھوں میں مستی سے دیکھتے ہوئے چھوٹ رہی تھیں اب ان کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا۔ انہوں نے مجھے ہاتھ سے وہاں سے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ غصے سے ان کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ میں بہت ڈر گیا اور جلدی سے شلوار اوپر کر کے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا۔

مجھے پورا یقین تھا کہ چھوٹی امی ابو کو یہ بات نہیں بتائیں گی۔ مگر اب چھوٹی امی میرے بارے میں کیا سوچیں گی یا ان کا رد عمل کیسا ہوگا یہ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی۔ (جاری ہے)
 
Back
Top Bottom