Story Lover
VIP+
Offline
- Thread Author
- #1
طارق لوگ اس محلے میں نئے آئے تھے۔ نیا نیا محلہ تھا۔ ہر گلی، کوچہ اور یہاں کے بسنے والے اس کے لیے اجنبی تھے۔ یہاں اس کا کوئی دوست نہ تھا۔ یوں تو سب سہولیات دستیاب تھیں، مگر پانی کی قلت تھی۔ لوگ دور دور سے پانی لاتے تھے۔ طارق جب لوگوں کو پانی کے بھرے ہوئے برتن اٹھائے، دور سے آتے دیکھتا، تو اسے ان کی تکلیف کا احساس ہوتا۔ ایک سرکاری نل چوک میں تھا، جس میں مقررہ وقت پر پانی آتا تھا۔
آج جب وہ اپنی دکان سے گھر لوٹ رہا تھا تو اُس نے کسی کو پانی بھرتے نہ دیکھا۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، راستہ سنسان تھا۔ سامنے ایک لڑکی پانی کا ڈبہ اٹھائے جا رہی تھی۔ وزنی ہونے کی وجہ سے بار بار ڈبے کو زمین پر رکھ دیتی۔ طارق کو اس کی حالت دیکھ کر خیال آیا کہ نجانے کیسے لوگ ہیں، اتنی بڑی لڑکی کو بھری دوپہر میں اکیلے پانی بھرنے بھیج دیا۔ کیا خبر، ان کے گھر میں اور کوئی نہ ہو، تبھی یہ بچاری مجبوراً پانی بھرنے آئی ہو۔
اس نے سوچا، کیوں نہ میں اس کی مدد کروں۔ وہ اس کی جانب بڑھا۔ لڑکی نے جب ایک اجنبی نوجوان کی نظروں میں اپنے لیے محبت کی جھلک دیکھی تو گھبرا گئی، اور ڈبہ اٹھا کر جلدی سے گلی میں مڑ گئی۔ طارق واپس گھر کی طرف لوٹ آیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اجنبی لڑکی نے اس کے دل میں خودبخود اپنے لیے جگہ بنا لی، اور اس معصوم لڑکی کی صورت اس کی آنکھوں میں بس گئی۔
دوسری بار وہ اُسے اپنے محلے کی پرچون کی دکان میں ملی۔ شاید گھر کا سودا سلف لینے آئی تھی۔ طارق کو دیکھتے ہی وہ گھبرا گئی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا شاپنگ بیگ سمیٹا اور دکان سے نکل گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے باہر آ گیا اور اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جب وہ گلی میں مڑی تو وہ بھی گلی کے نکڑ تک جا پہنچا۔ دیکھا کہ وہ ایک کچے مکان میں داخل ہو رہی ہے، تب وہ واپس آ گیا۔ اس کا مقصد صرف لڑکی کا گھر دیکھنا تھا۔
اسی دوران طارق کی دوستی ایک لڑکے سے ہو گئی، جو اس لڑکی کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ طارق نے اپنے نئے دوست سے لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو اور بھی افسردہ ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کا نام کشور ہے۔ وہ بچپن میں ہی اپنے حقیقی والد کے سائے سے محروم ہو گئی تھی۔ ماں نے دوسری شادی کر لی اور اب وہ سوتیلے والد کے زیر سایہ پرورش پا رہی تھی۔ وہ بے حد غریب لوگ تھے۔ کشور کا سوتیلا باپ جوا کھیلنے کا عادی تھا۔ جو کچھ کماتا، جوا کھیل کر ہار دیتا۔ گھر کا خرچ کشور کی ماں چلاتی تھی، جو دوسروں کے گھروں میں کام کر کے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتی تھی۔ گزارہ بہت مشکل سے ہوتا، اور سوتیلے باپ کا سلوک بھی کشور سے اچھا نہ تھا۔
یہ سب باتیں جان کر طارق کو کشور پر بہت ترس آیا۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں وہ ماں کے ساتھ محنت مشقت بھی کرتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنی چھوٹی عمر میں یہ غریب بچی کتنے دکھ سہہ رہی ہے۔ اگر میں اسے حاصل کر لوں، تو اسے اتنا سکھ دوں گا کہ یہ اپنے تمام دکھ بھول جائے گی۔ آخرکار ان لوگوں کو اپنی لڑکی کی کہیں نہ کہیں شادی تو کرنی ہی ہے۔
اس دن کے بعد طارق نے دکان پر دل لگا کر کام کرنا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ پیسے پس انداز بھی کرنے لگا۔ وہ محلے میں ایک معزز شخص بننا چاہتا تھا تاکہ کشور کے والدین کیا، کوئی بھی اُس سے رشتہ دینے سے انکار نہ کرے۔
مگر کشور کی زندگی میں دکھوں کے دن ابھی باقی تھے۔ ایک دن جب طارق دکان سے گھر آ رہا تھا، تو اُس نے دیکھا کہ کشور کے گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہے، اور سب آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ قریب گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں ایک عورت جل گئی ہے۔ لوگ اسے اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں یہ عورت کشور کی ماں نہ ہو۔ دل میں دعا کرنے لگا کہ خدا کرے وہ کوئی اور ہو۔
اگلے روز گھر آیا تو پتا چلا کہ محلے میں جو عورت جلی تھی، وہ مر گئی ہے اور وہ کشور کی ماں ہی تھی۔ یہ سن کر طارق کو بے حد دکھ ہوا۔ اس کے لیے یہ خیال ہی سوہانِ روح تھا کہ کشور اب اپنے سوتیلے باپ کے رحم و کرم پر ہے۔ طارق کی ماں نے بتایا کہ لڑکی کی حالت بہت خراب ہے۔ پڑوسن کہہ رہی تھی کہ بچی روتے روتے بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ماں کی جدائی کشور سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
کئی دن تک محلے میں اس بچی کی حالت کے بارے میں تذکرے ہوتے رہے، لیکن وہ گھر سے باہر نظر نہ آئی۔ طارق کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ کسی طور کشور سے بات کر سکے اور اسے تسلی دے سکے۔
کئی دنوں بعد، ایک روز جب طارق ہوٹل سے نکل رہا تھا تو کشور سامنے سے آتی نظر آئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی، اس کے ساتھ دو پڑوسی عورتیں بھی تھیں۔ کشور کی حالت دیکھ کر طارق کو بہت دکھ ہوا۔ لڑکی خستہ حال تھی، عورتیں اسے دلاسا دے رہی تھیں، مگر وہ بدحواسی کی کیفیت میں تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، جیسے وہ اب بھی مسلسل روتی رہتی ہو۔
طارق کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ جب کشور نے اس کی طرف دیکھا تو فوراً منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ طارق سے وہ مرجھائی ہوئی کلی دیکھی نہ گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ کیسے اس لڑکی کو دلاسہ دے، کیونکہ وہ اس قدر نحیف اور زرد نظر آ رہی تھی کہ خود طارق کو بھی رونا آ گیا۔ اس نے منہ پھیر لیا تاکہ کشور اس کے بہتے ہوئے آنسو نہ دیکھ لے—پتہ نہیں، اس کا ردِ عمل کیا ہو۔
وقت گزرتا رہا۔ اب جب بھی وہ طارق کو نظر آتی، اس کی حالت ویسی ہی ابتر ہوتی، جبکہ طارق چاہتا تھا کہ وہ اسے جینے کا احساس دلائے، ایک نئی زندگی کی امید دے۔ ایسے ہی دن گزر رہے تھے کہ طارق کے امتحان قریب آ گئے اور وہ اپنی تیاری میں مشغول ہو گیا۔ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا چاہتا تھا تاکہ مستقبل سنوار سکے اور باعزت طریقے سے کشور کے گھر رشتہ بھیج سکے، اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا سکے۔
طارق کی محنت رنگ لائی اور اس نے شاندار نمبروں سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ اُدھر دکان سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو کشور کے بارے میں بتایا اور درخواست کی کہ کسی طرح والد کو راضی کریں اور کشور کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔ طارق کو خدشہ تھا کہ کہیں کشور کا سوتیلا باپ اس کا رشتہ کہیں اور نہ طے کر دے۔
طارق کی ماں نے باپ کو راضی کر لیا اور کشور کے گھر رشتہ لے کر پہنچ گئے۔ اگرچہ کشور کا سوتیلا باپ کوئی معزز شخص نہ تھا کہ اس کے ساتھ رشتہ جوڑا جاتا، مگر بیٹے کی خوشی کی خاطر وہ مجبور ہو گئے تھے—اور طارق تو کشور کے دکھ دیکھ کر ویسے ہی مجبور ہو چکا تھا۔
وہ بڑی امید کے ساتھ گئے تھے۔ توقع تھی کہ ان کا رشتہ فوراً قبول کر لیا جائے گا، اور کشور کا باپ اسے اپنی بیٹی کی خوش قسمتی سمجھے گا۔ مگر خلافِ توقع، اس نے رشتہ رد کر دیا۔ طارق کے والدین اپنا سا منہ لے کر لوٹ آئے۔
گھر آ کر انہوں نے بیٹے کو بھی برا بھلا کہا، کہ ایک کم حیثیت شخص کے ہاتھوں ان کی عزت خاک میں مل گئی۔ وہ جس گھرانے کو اپنے قابل نہیں سمجھ رہے تھے، انہوں نے انہی کو لائق نہیں سمجھا۔ والدین کی سبکی پر طارق دل شکستہ ہو گیا اور دلبرداشتہ ہو کر محلے کی گلیوں میں نکل گیا۔
اب اس کی دوستی کافی لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان میں کچھ اچھے تھے اور کچھ برے، بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جن کا مشغلہ ہی انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کرنا تھا۔ وہ برائی کی راہ میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ طارق کو افسردہ دیکھ کر وہ اس کی حالت کی وجہ جاننے میں لگ گئے، اور آخرکار ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں پتہ چل گیا کہ وہ کشور نامی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن وہاں سے انکار ہو گیا، اسی لیے وہ دل شکستہ ہے۔
انہوں نے طارق کو ان کمزور لمحوں میں گھیر لیا، دلجوئی کے بہانے اسے اپنے ساتھ غلط جگہوں پر لے جانے لگے۔ شروع میں وہ انکار کرتا رہا، لیکن آہستہ آہستہ اس کا دل ان مشاغل میں لگنے لگا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ پست حرکتوں میں اپنے دوستوں سے بھی آگے نکل گیا۔ اتنا آگے کہ واپسی کا راستہ بھی یاد نہ رہا۔ وہ عارضی خوشیوں اور لذتوں کے پیچھے بھاگنے لگا۔ کشور کی صورت ذہن میں دھندلانے لگی۔ اس کی محبت کا نرم و ملائم احساس بھی دل سے رخصت ہو گیا۔
اب وہ صبح ہوتے ہی دوستوں کے ساتھ آوارگی کا جشن منانے نکل جاتا۔ کشور جب پانی بھرنے جاتی تو اسے نظر آتی۔ وہ اب بھی پریشان دکھائی دیتی، لیکن طارق کے دل میں اس کے دکھ کا کوئی احساس نہیں جاگتا تھا۔ وہ مجرم کی طرح اس سے نظریں چرانے لگا۔ محلے کے لوگ بھی طارق کی حرکتوں کی وجہ سے اس سے کترانے لگے تھے، مگر اسے کسی کی پروا نہ تھی۔
ایک روز کشور کا سوتیلا باپ محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ طارق کو اس بات کی کوئی خبر نہ ہوئی کہ وہ لوگ کہاں اور کیوں گئے۔ طارق کے حال سے سب سے زیادہ اس کے والدین پریشان تھے۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے۔ انہوں نے اسے بہت سمجھایا، مگر وہ ان کی بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ دکان سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ اب باپ کو ہی سارا وقت دکان پر بیٹھنا پڑتا تھا۔ طارق کبھی کبھار آتا، تھوڑی دیر بیٹھتا اور چلا جاتا۔
درحقیقت وہ دکان میں صرف پیسے لینے آتا تھا۔ اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے دکان کی آمدنی بھی گھٹنے لگی تھی۔ آخر ایک دن باپ نے اسے دکان سے نکال دیا اور کہہ دیا کہ اب تم یہاں سے ایک پیسہ بھی نہیں لوگے۔ تب وہ مالی طور پر پریشان رہنے لگا، اور مایوسی نے اسے اور زیادہ گھیر لیا۔ یوں اس کا دل گھر والوں سے بھی اچاٹ ہو گیا۔
انہی دنوں اس کے کچھ دوست لاہور جا رہے تھے۔ وہ بھی قسمت آزمانے ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہاں روزگار کی تلاش میں کافی وقت لگ گیا۔ اِدھر اُدھر آوارہ گردی بھی کی۔ بالآخر ایک دوست کے توسط سے ایک کریانے کی دکان میں ملازمت مل گئی اور ٹھکانا بھی، لیکن دل کا سکون اب بھی ناپید تھا۔
ایک روز دوست اسے دل لبھانے والی ایک محفل میں لے گئے، جہاں حسن کے جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ یہ ایسا گھر تھا، جہاں رسوائیاں دستک دیا کرتی تھیں، مگر مکینوں کو عزت کے کھو جانے کا احساس تک نہ تھا۔ طارق نے خود سے سوال کیا: “ارے، یہ تو شہر کی بدنام زمانہ جگہ ہے، میں یہاں کیسے آ گیا؟” بہرحال، اب تو وہ آ ہی چکا تھا۔
دوستوں نے ایک کمرے میں جا کر معاملات طے کیے اور جو کمرہ طارق کے حصے میں آیا، اسے اس میں دھکا دے کر دروازہ بند کر دیا۔ طارق ابھی تک اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں شریف عورتیں نہیں ہوتیں۔ تبھی اس نے سامنے نگاہ دوڑائی تو ایک سجی سنوری عورت دکھائی دی۔ وہ اتنی آرائش کیے ہوئے تھی کہ پہچانی نہ جا رہی تھی۔ اسی لمحے ایک پاکیزہ تصویر اس کے ذہن کے پردے پر ابھری—کشور کی تصویر۔ اس کا ضمیر جاگ اٹھا۔ دماغ جھنجھنا گیا۔
جانے کس جذبے کے تحت اُس نے اس سجی ہوئی لڑکی کو ایک تھپڑ رسید کر دیا اور کہا:جب میں شریفانہ طریقے سے تمہیں اپنی دلہن بنانا چاہتا تھا تو تمہارے باپ نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ اور اب تم نقلی دلہن بن کر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ہو؟ دیکھ لو، تمہارے انکار کے بعد میرا کیا حال ہو گیا! عزت کا رشتہ منظور نہ تھا اور اب یہاں آ گئی ہو!کشور بھی اُسے پہچان گئی تھی۔ رو کر بولی:میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی۔ مجھے زبردستی لایا گیا ہے۔ بھلا ایک پندرہ سولہ سال کی بچی کیا کر سکتی تھی؟ سوتیلا باپ بھی مجھے بیٹی نہیں سمجھتا تھا۔ سزا دینی ہے تو اسے دو، میرا کیا قصور؟ وہی شخص روپے کے لالچ میں مجھے اس بازار تک لایا ہے!
طارق پر ایک جنون سا سوار ہو گیا۔ شاید اس دن وہ کشور کے سوتیلے باپ کو مار ڈالتا، مگر اس کے دوستوں نے مداخلت کی، اور وہ شخص طارق کے ہاتھ نہ آیا۔ دوست اسے اپنے ٹھکانے پر لے گئے اور نیند کی گولی دے کر سلا دیا۔طارق کو ایک معصوم اور بے گناہ لڑکی کی تباہی کا شدید رنج تھا۔ اس کے حالات دیکھ کر طارق کی چھٹی حس پکار پکار کر کہہ رہی تھی: اسے بچا لو، ورنہ یہ برباد ہو جائے گی!اور وہی ہوا—خواہش کے باوجود وہ اسے نہ بچا سکا، کیونکہ وہ سوتیلے باپ کے بس میں تھی اور معاشرہ بھی ایسی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔
اسے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ وہ کشور کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ جب اس کے والدین رشتہ لے کر گئے تھے، تب تو محلے والوں نے بھی ساتھ نہ دیا تھا۔بہرحال، یہ واقعہ طارق کے لیے ایک زبردست جھٹکا تھا، جس نے اس کا شعور جگا دیا۔ وہ سیدھا اپنے گھر گیا، والدین سے معافی مانگی، اور قسم کھائی کہ دوبارہ کبھی ان دوستوں کے قریب نہیں جائے گا جو اسے اس کے گھر اور اس کی عزت سے دور لے گئے تھے۔اب وہ راہِ راست پر آ چکا تھا۔
آج جب وہ اپنی دکان سے گھر لوٹ رہا تھا تو اُس نے کسی کو پانی بھرتے نہ دیکھا۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، راستہ سنسان تھا۔ سامنے ایک لڑکی پانی کا ڈبہ اٹھائے جا رہی تھی۔ وزنی ہونے کی وجہ سے بار بار ڈبے کو زمین پر رکھ دیتی۔ طارق کو اس کی حالت دیکھ کر خیال آیا کہ نجانے کیسے لوگ ہیں، اتنی بڑی لڑکی کو بھری دوپہر میں اکیلے پانی بھرنے بھیج دیا۔ کیا خبر، ان کے گھر میں اور کوئی نہ ہو، تبھی یہ بچاری مجبوراً پانی بھرنے آئی ہو۔
اس نے سوچا، کیوں نہ میں اس کی مدد کروں۔ وہ اس کی جانب بڑھا۔ لڑکی نے جب ایک اجنبی نوجوان کی نظروں میں اپنے لیے محبت کی جھلک دیکھی تو گھبرا گئی، اور ڈبہ اٹھا کر جلدی سے گلی میں مڑ گئی۔ طارق واپس گھر کی طرف لوٹ آیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اجنبی لڑکی نے اس کے دل میں خودبخود اپنے لیے جگہ بنا لی، اور اس معصوم لڑکی کی صورت اس کی آنکھوں میں بس گئی۔
دوسری بار وہ اُسے اپنے محلے کی پرچون کی دکان میں ملی۔ شاید گھر کا سودا سلف لینے آئی تھی۔ طارق کو دیکھتے ہی وہ گھبرا گئی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا شاپنگ بیگ سمیٹا اور دکان سے نکل گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے باہر آ گیا اور اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جب وہ گلی میں مڑی تو وہ بھی گلی کے نکڑ تک جا پہنچا۔ دیکھا کہ وہ ایک کچے مکان میں داخل ہو رہی ہے، تب وہ واپس آ گیا۔ اس کا مقصد صرف لڑکی کا گھر دیکھنا تھا۔
اسی دوران طارق کی دوستی ایک لڑکے سے ہو گئی، جو اس لڑکی کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ طارق نے اپنے نئے دوست سے لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو اور بھی افسردہ ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کا نام کشور ہے۔ وہ بچپن میں ہی اپنے حقیقی والد کے سائے سے محروم ہو گئی تھی۔ ماں نے دوسری شادی کر لی اور اب وہ سوتیلے والد کے زیر سایہ پرورش پا رہی تھی۔ وہ بے حد غریب لوگ تھے۔ کشور کا سوتیلا باپ جوا کھیلنے کا عادی تھا۔ جو کچھ کماتا، جوا کھیل کر ہار دیتا۔ گھر کا خرچ کشور کی ماں چلاتی تھی، جو دوسروں کے گھروں میں کام کر کے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتی تھی۔ گزارہ بہت مشکل سے ہوتا، اور سوتیلے باپ کا سلوک بھی کشور سے اچھا نہ تھا۔
یہ سب باتیں جان کر طارق کو کشور پر بہت ترس آیا۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں وہ ماں کے ساتھ محنت مشقت بھی کرتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنی چھوٹی عمر میں یہ غریب بچی کتنے دکھ سہہ رہی ہے۔ اگر میں اسے حاصل کر لوں، تو اسے اتنا سکھ دوں گا کہ یہ اپنے تمام دکھ بھول جائے گی۔ آخرکار ان لوگوں کو اپنی لڑکی کی کہیں نہ کہیں شادی تو کرنی ہی ہے۔
اس دن کے بعد طارق نے دکان پر دل لگا کر کام کرنا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ پیسے پس انداز بھی کرنے لگا۔ وہ محلے میں ایک معزز شخص بننا چاہتا تھا تاکہ کشور کے والدین کیا، کوئی بھی اُس سے رشتہ دینے سے انکار نہ کرے۔
مگر کشور کی زندگی میں دکھوں کے دن ابھی باقی تھے۔ ایک دن جب طارق دکان سے گھر آ رہا تھا، تو اُس نے دیکھا کہ کشور کے گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہے، اور سب آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ قریب گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں ایک عورت جل گئی ہے۔ لوگ اسے اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں یہ عورت کشور کی ماں نہ ہو۔ دل میں دعا کرنے لگا کہ خدا کرے وہ کوئی اور ہو۔
اگلے روز گھر آیا تو پتا چلا کہ محلے میں جو عورت جلی تھی، وہ مر گئی ہے اور وہ کشور کی ماں ہی تھی۔ یہ سن کر طارق کو بے حد دکھ ہوا۔ اس کے لیے یہ خیال ہی سوہانِ روح تھا کہ کشور اب اپنے سوتیلے باپ کے رحم و کرم پر ہے۔ طارق کی ماں نے بتایا کہ لڑکی کی حالت بہت خراب ہے۔ پڑوسن کہہ رہی تھی کہ بچی روتے روتے بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ماں کی جدائی کشور سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
کئی دن تک محلے میں اس بچی کی حالت کے بارے میں تذکرے ہوتے رہے، لیکن وہ گھر سے باہر نظر نہ آئی۔ طارق کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ کسی طور کشور سے بات کر سکے اور اسے تسلی دے سکے۔
کئی دنوں بعد، ایک روز جب طارق ہوٹل سے نکل رہا تھا تو کشور سامنے سے آتی نظر آئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی، اس کے ساتھ دو پڑوسی عورتیں بھی تھیں۔ کشور کی حالت دیکھ کر طارق کو بہت دکھ ہوا۔ لڑکی خستہ حال تھی، عورتیں اسے دلاسا دے رہی تھیں، مگر وہ بدحواسی کی کیفیت میں تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، جیسے وہ اب بھی مسلسل روتی رہتی ہو۔
طارق کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ جب کشور نے اس کی طرف دیکھا تو فوراً منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ طارق سے وہ مرجھائی ہوئی کلی دیکھی نہ گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ کیسے اس لڑکی کو دلاسہ دے، کیونکہ وہ اس قدر نحیف اور زرد نظر آ رہی تھی کہ خود طارق کو بھی رونا آ گیا۔ اس نے منہ پھیر لیا تاکہ کشور اس کے بہتے ہوئے آنسو نہ دیکھ لے—پتہ نہیں، اس کا ردِ عمل کیا ہو۔
وقت گزرتا رہا۔ اب جب بھی وہ طارق کو نظر آتی، اس کی حالت ویسی ہی ابتر ہوتی، جبکہ طارق چاہتا تھا کہ وہ اسے جینے کا احساس دلائے، ایک نئی زندگی کی امید دے۔ ایسے ہی دن گزر رہے تھے کہ طارق کے امتحان قریب آ گئے اور وہ اپنی تیاری میں مشغول ہو گیا۔ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا چاہتا تھا تاکہ مستقبل سنوار سکے اور باعزت طریقے سے کشور کے گھر رشتہ بھیج سکے، اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا سکے۔
طارق کی محنت رنگ لائی اور اس نے شاندار نمبروں سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ اُدھر دکان سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو کشور کے بارے میں بتایا اور درخواست کی کہ کسی طرح والد کو راضی کریں اور کشور کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔ طارق کو خدشہ تھا کہ کہیں کشور کا سوتیلا باپ اس کا رشتہ کہیں اور نہ طے کر دے۔
طارق کی ماں نے باپ کو راضی کر لیا اور کشور کے گھر رشتہ لے کر پہنچ گئے۔ اگرچہ کشور کا سوتیلا باپ کوئی معزز شخص نہ تھا کہ اس کے ساتھ رشتہ جوڑا جاتا، مگر بیٹے کی خوشی کی خاطر وہ مجبور ہو گئے تھے—اور طارق تو کشور کے دکھ دیکھ کر ویسے ہی مجبور ہو چکا تھا۔
وہ بڑی امید کے ساتھ گئے تھے۔ توقع تھی کہ ان کا رشتہ فوراً قبول کر لیا جائے گا، اور کشور کا باپ اسے اپنی بیٹی کی خوش قسمتی سمجھے گا۔ مگر خلافِ توقع، اس نے رشتہ رد کر دیا۔ طارق کے والدین اپنا سا منہ لے کر لوٹ آئے۔
گھر آ کر انہوں نے بیٹے کو بھی برا بھلا کہا، کہ ایک کم حیثیت شخص کے ہاتھوں ان کی عزت خاک میں مل گئی۔ وہ جس گھرانے کو اپنے قابل نہیں سمجھ رہے تھے، انہوں نے انہی کو لائق نہیں سمجھا۔ والدین کی سبکی پر طارق دل شکستہ ہو گیا اور دلبرداشتہ ہو کر محلے کی گلیوں میں نکل گیا۔
اب اس کی دوستی کافی لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان میں کچھ اچھے تھے اور کچھ برے، بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جن کا مشغلہ ہی انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کرنا تھا۔ وہ برائی کی راہ میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ طارق کو افسردہ دیکھ کر وہ اس کی حالت کی وجہ جاننے میں لگ گئے، اور آخرکار ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں پتہ چل گیا کہ وہ کشور نامی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن وہاں سے انکار ہو گیا، اسی لیے وہ دل شکستہ ہے۔
انہوں نے طارق کو ان کمزور لمحوں میں گھیر لیا، دلجوئی کے بہانے اسے اپنے ساتھ غلط جگہوں پر لے جانے لگے۔ شروع میں وہ انکار کرتا رہا، لیکن آہستہ آہستہ اس کا دل ان مشاغل میں لگنے لگا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ پست حرکتوں میں اپنے دوستوں سے بھی آگے نکل گیا۔ اتنا آگے کہ واپسی کا راستہ بھی یاد نہ رہا۔ وہ عارضی خوشیوں اور لذتوں کے پیچھے بھاگنے لگا۔ کشور کی صورت ذہن میں دھندلانے لگی۔ اس کی محبت کا نرم و ملائم احساس بھی دل سے رخصت ہو گیا۔
اب وہ صبح ہوتے ہی دوستوں کے ساتھ آوارگی کا جشن منانے نکل جاتا۔ کشور جب پانی بھرنے جاتی تو اسے نظر آتی۔ وہ اب بھی پریشان دکھائی دیتی، لیکن طارق کے دل میں اس کے دکھ کا کوئی احساس نہیں جاگتا تھا۔ وہ مجرم کی طرح اس سے نظریں چرانے لگا۔ محلے کے لوگ بھی طارق کی حرکتوں کی وجہ سے اس سے کترانے لگے تھے، مگر اسے کسی کی پروا نہ تھی۔
ایک روز کشور کا سوتیلا باپ محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ طارق کو اس بات کی کوئی خبر نہ ہوئی کہ وہ لوگ کہاں اور کیوں گئے۔ طارق کے حال سے سب سے زیادہ اس کے والدین پریشان تھے۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے۔ انہوں نے اسے بہت سمجھایا، مگر وہ ان کی بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ دکان سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ اب باپ کو ہی سارا وقت دکان پر بیٹھنا پڑتا تھا۔ طارق کبھی کبھار آتا، تھوڑی دیر بیٹھتا اور چلا جاتا۔
درحقیقت وہ دکان میں صرف پیسے لینے آتا تھا۔ اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے دکان کی آمدنی بھی گھٹنے لگی تھی۔ آخر ایک دن باپ نے اسے دکان سے نکال دیا اور کہہ دیا کہ اب تم یہاں سے ایک پیسہ بھی نہیں لوگے۔ تب وہ مالی طور پر پریشان رہنے لگا، اور مایوسی نے اسے اور زیادہ گھیر لیا۔ یوں اس کا دل گھر والوں سے بھی اچاٹ ہو گیا۔
انہی دنوں اس کے کچھ دوست لاہور جا رہے تھے۔ وہ بھی قسمت آزمانے ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہاں روزگار کی تلاش میں کافی وقت لگ گیا۔ اِدھر اُدھر آوارہ گردی بھی کی۔ بالآخر ایک دوست کے توسط سے ایک کریانے کی دکان میں ملازمت مل گئی اور ٹھکانا بھی، لیکن دل کا سکون اب بھی ناپید تھا۔
ایک روز دوست اسے دل لبھانے والی ایک محفل میں لے گئے، جہاں حسن کے جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ یہ ایسا گھر تھا، جہاں رسوائیاں دستک دیا کرتی تھیں، مگر مکینوں کو عزت کے کھو جانے کا احساس تک نہ تھا۔ طارق نے خود سے سوال کیا: “ارے، یہ تو شہر کی بدنام زمانہ جگہ ہے، میں یہاں کیسے آ گیا؟” بہرحال، اب تو وہ آ ہی چکا تھا۔
دوستوں نے ایک کمرے میں جا کر معاملات طے کیے اور جو کمرہ طارق کے حصے میں آیا، اسے اس میں دھکا دے کر دروازہ بند کر دیا۔ طارق ابھی تک اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں شریف عورتیں نہیں ہوتیں۔ تبھی اس نے سامنے نگاہ دوڑائی تو ایک سجی سنوری عورت دکھائی دی۔ وہ اتنی آرائش کیے ہوئے تھی کہ پہچانی نہ جا رہی تھی۔ اسی لمحے ایک پاکیزہ تصویر اس کے ذہن کے پردے پر ابھری—کشور کی تصویر۔ اس کا ضمیر جاگ اٹھا۔ دماغ جھنجھنا گیا۔
جانے کس جذبے کے تحت اُس نے اس سجی ہوئی لڑکی کو ایک تھپڑ رسید کر دیا اور کہا:جب میں شریفانہ طریقے سے تمہیں اپنی دلہن بنانا چاہتا تھا تو تمہارے باپ نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ اور اب تم نقلی دلہن بن کر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ہو؟ دیکھ لو، تمہارے انکار کے بعد میرا کیا حال ہو گیا! عزت کا رشتہ منظور نہ تھا اور اب یہاں آ گئی ہو!کشور بھی اُسے پہچان گئی تھی۔ رو کر بولی:میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی۔ مجھے زبردستی لایا گیا ہے۔ بھلا ایک پندرہ سولہ سال کی بچی کیا کر سکتی تھی؟ سوتیلا باپ بھی مجھے بیٹی نہیں سمجھتا تھا۔ سزا دینی ہے تو اسے دو، میرا کیا قصور؟ وہی شخص روپے کے لالچ میں مجھے اس بازار تک لایا ہے!
طارق پر ایک جنون سا سوار ہو گیا۔ شاید اس دن وہ کشور کے سوتیلے باپ کو مار ڈالتا، مگر اس کے دوستوں نے مداخلت کی، اور وہ شخص طارق کے ہاتھ نہ آیا۔ دوست اسے اپنے ٹھکانے پر لے گئے اور نیند کی گولی دے کر سلا دیا۔طارق کو ایک معصوم اور بے گناہ لڑکی کی تباہی کا شدید رنج تھا۔ اس کے حالات دیکھ کر طارق کی چھٹی حس پکار پکار کر کہہ رہی تھی: اسے بچا لو، ورنہ یہ برباد ہو جائے گی!اور وہی ہوا—خواہش کے باوجود وہ اسے نہ بچا سکا، کیونکہ وہ سوتیلے باپ کے بس میں تھی اور معاشرہ بھی ایسی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔
اسے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ وہ کشور کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ جب اس کے والدین رشتہ لے کر گئے تھے، تب تو محلے والوں نے بھی ساتھ نہ دیا تھا۔بہرحال، یہ واقعہ طارق کے لیے ایک زبردست جھٹکا تھا، جس نے اس کا شعور جگا دیا۔ وہ سیدھا اپنے گھر گیا، والدین سے معافی مانگی، اور قسم کھائی کہ دوبارہ کبھی ان دوستوں کے قریب نہیں جائے گا جو اسے اس کے گھر اور اس کی عزت سے دور لے گئے تھے۔اب وہ راہِ راست پر آ چکا تھا۔