Urdu Story World
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Hardcore ناکام مرد

Writer SahilWriter Sahil is verified member.

Administrator
Prolific Author
Joined
Dec 24, 2022
Messages
1,289
Reaction score
17,569
Location
Duniya
Offline
سامعہ ! میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے اپنے کئے پر سخت ندامت ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی میرے بغیر ادھوری ہو اور میں بھی تمہارے بنا ادھورا اور نامکمل ہوں ۔ تمہارے لئے بھی زندگی کا لمبا سفر تنہا کا ٹنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک بار موقع دو، میں تمہارے پیر پکڑ کر تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔ سامعہ پلیز! مجھے معاف کر دو اور لوٹ آؤ میرے پاس ہمیشہ کے لئے ۔ میں تمہیں پلکوں پر بٹھا کر رکھوں گا، بہت پیار دوں گا۔ بس ایک بار میرے پاس لوٹ آؤ۔ میرے دل اور گھر کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

اف…. سامعہ نے صبح صبح بہرام کا اتنا لمبا میسج دیکھا تو سر تھام لیا۔ یوں تو دو تین بار اس کی طرف سے بلینک میسجز ملے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتا ہے ،لیکن وہ نظر انداز کر رہی تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا؟ بہرام نے خود اپنے منہ سے اسے تین طلاقیں دے کر، اس کی ساری محبت ، ریاضت کو بھاڑ میں جھونک کر رشتے کی پاکیزگی ، خلوص ، ہم آہنگی، ہمدردی، سامعہ کی خدمتوں کو اپنی مردانگی حیثیت کا ناحق و نا جائز استعمال کر کے اپنے پیروں تلے کچل ڈالا تھا اور آج ، بہ مشکل دو سال گزرنے کے بعد، وہ اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کر رہا تھا، پچھتا رہا تھا۔ اس وقت سامعہ کی سسکیاں، تڑپ اور ردا کی معصومیت بھی اسے اس سفاک فیصلے سے روک نہ پائی تھی ۔ یہ بات آج بھی یقینی تھی کہ سامعہ کی زندگی میں بہرام سے پہلے کوئی تھا اور نہ اس سے تعلق ختم ہونے کے بعد کوئی آیا۔ اس کو تو بہرام سے عشق تھا۔ وہ سیدھی سادی اور معصوم سی لڑکی تھی ، جس نے متوسط گھرانے میں جنم لیا تھا۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند ، شریف فیملی تھی۔ والد اسکول ماسٹر جبکہ والدہ گھر یلو عورت تھیں۔ سامعہ اور اشعر بس یہ دو بہن بھائی تھے ، جن کی پرورش دینی احکامات اور خاندانی شرافت و روایات کی کسوٹی پر ہوئی تھی، تب ہی اس نے عام لڑکیوں کی طرح مستقبل کے حوالے سے اونچے اونچے سپنے نہیں دیکھے تھے، خوب صورت ہونے کے باوجود کسی خیالی شہزادے کو اپنے خوابوں میں نہیں بسایا تھا۔ اس نے اپنا پیار، محبت، خلوص، اپنے ہونے والے شوہر کی امانت سمجھ کر سنبھال کر رکھا تھا اور اس امانت میں کبھی خیانت نہ کی ۔ یہی بات تھی کہ جب اس کے بی اے کرنے کے فوراً بعد اماں نے اشعر کے لئے لڑکی دیکھنی شروع کی تو ساتھ ہی اس کی شادی کا فیصلہ بھی کر لیا کیونکہ اس کے لئے بہرام کا معقول رشتہ آگیا تھا۔ شریف لڑکا تھا، اچھا کماتا تھا۔ سو جھٹ پٹ شادی ہو گئی ۔ سامعہ بہت خوش تھی۔ بہرام بہت سنجیدہ اور جاذب نظر لڑکا تھا۔ وہ دل میں بے شمار سپنے سجا کر اس کی زندگی میں آگئی۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا ، اس کا خیال کرتا اور عزت دیتا تھا۔ شروع کے دن کافی اچھے گزرے۔ بہرام اکثر اس کو میکے لے جاتا تھا۔ دونوں خوش گوار زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے میکے کی پڑوس میں جو فیملی رہتی تھی، وہ بہت اچھے لوگ تھے ۔ ذاکر صاحب ، ان کی بیوی عطیہ بیگم اور ایک بیٹا سالک۔ ذاکر صاحب معقول جاب کرتے تھے اور مالی لحاظ سے مستحکم تھے لیکن اللہ پاک کی جانے کیا مصلحت تھی کہ ایک ہی بیٹا تھا ، جو تقریبا اشعر کی عمر کا تھا، مگر ذہنی لحاظ سے نارمل نہیں تھا۔ عموماً وہ کئی کئی دن نارمل رہتا ، ہر بات میں سمجھ داری کا مظاہرہ کرتا اور کبھی عجیب و غریب بچکانہ حرکتیں کرنے لگتا، جیسے ایب نارمل لوگ ہوتے ہیں۔ ذاکر صاحب نے اس کا بہت علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے مریض شادی کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن جانتے بوجھتے بھلا کون ،مکھی نگل سکتا ہے۔ مالک کبھی کبھار سامعہ کے گھر بھی آجاتا اور تمام گھر والوں سے بہت اچھی طرح باتیں کرتا، کیرم کھیلتا، لوڈو کھیلتا۔ دردانہ بیگم بالکل اشعر کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔

شادی کے کچھ عرصے بعد ہی سامعہ نے محسوس کیا کہ بہرام کچھ شکی مزاج ہے۔ وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کر جاتا اور سامعہ محتاط ہو جاتی تاکہ اس کو پھر شکایت نہ ہو۔ اس عرصے میں ان کی زندگی میں ردا آگئی۔ بیٹی کو پا کر سب خوش تھے ۔ ابھی ردا ایک سال کی تھی کہ بہرام کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی فوتگی کے بعد اس کا رویہ کچھ عجیب سا ہو گیا۔ روک ٹوک، بے جا پابندیاں، اکیلے باہر آنے جانے پر پابندی کبھی آفس سے آکر ایک دم پوچھتا۔ کوئی آیا تھا کیا ؟نہیں تو کیوں؟ سامعہ حیرانی سے پوچھتی ۔ مجھے سگریٹ کی بو آرہی ہے، جیسے کوئی آدمی آیا ہو ۔ بہرام سنجیدگی سے کہتا لیکن انداز شا کی ہی ہوتا۔ ارے اپنے ہاں کون سگریٹ پیتا ہے؟ نہ ابو، نہ بھائی اور نہ ہی آپ … پھر آپ کو کہاں سے بو آگئی؟ وہ ہنس کر کہتی لیکن بہرام کا انداز اسے خطرے کی علامت محسوس ہوتا۔ کبھی کہتا۔ میں سبزی تو لے کر نہیں آیا تھا پھر یہ آلو کہاں سے آگئے کیا کسی سے سبزی منگوائی ہے؟ وہی شکی لہجہ ۔ ارے نہیں بھی ہم کل اماں کے پاس گئے تھے نا، تو اماں نے دو تین سبزیاں دے دی تھیں۔ گھر کی ہی اگی ہوئی ہیں اماں کے ….وہ تسلی دیتی۔ بہرام ! آپ ایسے سوالات کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو کیا اندیشہ ہے؟ آخر ایک دن ہمت کر کے سامعہ نے پوچھ ہی لیا۔ دیکھو سامعہ ! میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ اماں تھیں تو اطمینان تھا لیکن اب دن بھر تم اکیلی ہوتی ہو۔ زمانہ بہت خراب ہے ۔ آج کل بڑے واقعات ہو رہے ہیں۔ تم خوب صورت ہو، کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ شیطان انسان کو بہکانے کے لئے ہر جگہ موجود ہوتا ہے اور … تم بھی تو انسان ہو، تم بھی بہک سکتی ہو ۔ لا حول ولا قوة حد کرتے ہیں آپ بھی بہرام ! کیا فضول باتیں سوچتے ہیں۔ مجھے آپ سے محبت نہیں عشق ہے۔ مجھے اپنی عزت اور آپ کی محبت اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور جہاں محبت ہوئی ہے، وہاں اعتماد اور بھروسہ پہلی شرط ہے ، تب ہی زندگی سہل اور پر سکون رہتی ہے۔ اپنے ذہن سے ایسے بے تکے خیالات نکال دیں ۔ سامعہ کو غصہ تو بہت آیا تھا کہ کس قدر بے تکی اور فضول بات کر رہا تھا وہ ۔ کیسے بے سر و پا وا ہمات اور شکوک و شبہات پال رہا تھا۔ ردا کی طبیعت کچھ خراب ہوئی۔ بہرام آفس میں بزی تھا۔ سامعہ نے اس کو کال کر کے ردا کی طبیعت کا بتایا۔ میرا آنا تو ممکن نہیں۔ میں بہت مصروف ہوں۔ تم برف کی پٹیاں رکھو ۔ بہرام نے پریشان ہو کر مشورہ دیا۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی کر رہی ہوں۔ ایک پوائنٹ بھی بخار کم نہیں ہوا۔ میں رکشہ کر کے اماں کے پاس چلی جاتی ہوں ، وہاں سے بھابی کے ساتھ ہاسپٹل چلی جاؤں گی۔ سامعہ نے کہا۔ او کے۔ احتیاط سے جانا، اچھی طرح نقاب لگا کر اور رکشہ کر کے نمبر کی پک لے کر مجھے سینڈ کر دینا اور ہاں یہ رکشہ ٹیکسی والے باتونی ہوتے ہیں۔ ان سے بات وات کرنے اور پیسوں پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو بولے خاموشی سے دے دینا اور اس طرح بیٹھنا کہ رکشے کے شیشے میں نظر نہ آؤ اف تو یہ لگتا ہے میں کسی جنگ پر جارہی ہوں۔ سامعہ پہلے ہی پریشان تھی اوپر سے بہرام کی ہدایات سن کر اس کا دماغ گھوم گیا ، تب ہی بنا جواب دئے اس نے کال کاٹ دی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی ؟ آخر اس شخص کا مطلب کیا ہے؟ آج حقیقت میں اس کو بہرام پر غصہ آیا تھا۔ بچی بخار میں پھنک رہی تھی اور باپ کو اتنے تحفظات تھے۔ شام چار بجے تک ردا کا بخار اتر گیا تھا۔ بہرام کو آج دفتر سے دیر سے آنا تھا۔ سامعہ نے کہہ دیا تھا کہ وہ اشعر کے ساتھ گھر آجائے گی، جس پر بہرام مطمئن تھا۔ ردا کا بخار اترا تو وہ اٹھ کے بیٹھی ۔ دردانہ بیگم اس کو بریڈ کھلانے کی کوشش کر رہی تھیں ، مگر وہ نہیں کھا رہی تھی ، تب ہی سالک آگیا۔ ارے واہ ! ردا گڑیا آئ ہے۔ ردا کو دیکھ کر خوش ہو گیا ۔ رد ا بھی اسے دیکھ کر مسکرائی ۔ اس کو مسکراتا دیکھ کر سب خوش ہو گئے۔لیکن آپ کی ردا گڑیا کچھ نہیں کھا رہی ۔ سامعہ نے کہا۔ گڑیا ! ہم گڈ فرینڈز ہیں۔ آپ فرینڈ کے ہاتھ سے تو کھاؤ گی نہ پھر میں آپ کو چاکلیٹ دوں گا۔ سالک نے سلائس سامعہ کے ہاتھ سے لے کر ردا کی طرف بڑھایا تو اس نے منہ کھول کر چھوٹا سا بائٹ لے لیا -ارے واہ ! سالک انکل تو گڑیا کے اچھے والے فرینڈ ہیں ۔ گڑیا ان سے کھالے گی۔ سامعہ نے مسکرا کر کہا۔ تو اور کیا رد ا مجھ سے کھائے گی ، پھر ہم لوگ لان میں کھیلیں گے اور چاکلیٹ بھی کھائیں گے۔ سالک نے بھر پور ہنسی کے ساتھ کہا۔…

اسی وقت دردانہ بیگم عصر کی نماز کے لئے اٹھ گئیں۔ صحن میں بچھے تخت پر سامعہ اور سالک، ردا کے ساتھ بیٹھے تھے اور رد ا کے خوشگوار موڈ پر ہنس رہے تھے۔ عین اسی وقت باہر کا دروازہ کھلا اور بہرام اندر داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر ہی سامعہ اور سالک کے مسکراتے چہروں پر پڑی اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اسے سامعہ کا اس طرح کسی غیر مرد کے ساتھ بیٹھنا اور مسکرانا بہت برا لگا تھا۔ سامعہ….. اس نے غصے سے آواز دی۔ ارے آپ کب آئے؟ وہاں کیوں کھڑے ہیں؟ سامعہ چونکی اور جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔ پانچ منٹ ہو چکے ہیں مجھے آئے ہوئے تم خوش گپیوں میں اس قدر مصروف تھیں کہ نہ تمہیں دروازہ ناک کرنے کی آواز آئی اور نہ میرے آنے کی خبر ہوئی ۔ بھلا ایسا کون سا لطیفہ تھا، جس پر قہقہے لگائے جا رہے تھے؟ وہ خونخوار نظروں سے سامعہ اور سالک کو دیکھتے ہوئے زہر خندلیجے میں بولا ۔اس کے انداز پر سامعہ تو بری طرح گھبرا گئی اور سالک بالکل چپ ہو کر بہرام کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے جارحانہ انداز پر ڈر سا گیا اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ نہیں بہرام! ایسی کوئی بات نہیں۔ صبح سے ردا نڈھال تھی، ابھی کچھ طبیعت بحال ہوئ ہے اس کی۔ اب سالک کے ہاتھ سے سلائس کھا رہی ہے۔ صبح سے اب جا کر تو مسکرائی ہے۔ تو ہم بھی اس کو بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔سامعہ نےشرمندہ ہوتے ہوئے صفائی پیش کی۔ بہت اچھا انداز ہے بہلانے کا … وہ بھی کسی غیر محرم کے ساتھ۔ تم تو صبح اس قدر واویلا مچا رہی تھیں، جیسے ردا کی حالت بہت خراب ہو اور تم بہت پریشان ہو۔ مجھے پریشان کر کے بہانے سے یہاں آکر یہ گل چھرے اڑائے جارہے ہیں۔ میں اپنا کام چھوڑ کر، پریشان ہو کر باس سے لڑ جھگڑ کر آیا کہ ردا نہ جانے کس حال میں ہوگی مگر یہاں تو سین ہی کچھ اور ہے- بہرام ! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ ابھی اماں نماز کے لئے اندر گئی ہیں۔ بھابھی چائے بنانے گئی ہیں۔ سالک تو ابھی آیا تھا۔ اس سے رد ا بہل جاتی ہے۔ وہ ہمدرد اور سیدھا ساد الڑکا ہے۔ اس کا بچوں جیسا بی ہیور ہے۔ بس سالک نامہ بند کرو اور فضول جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب سمجھ آئی کہ ہر ہفتے تمہارا یہاں حاضری لگانا کیوں ضروری ہے؟ جانتی ہونا کہ مجھے یہ سب پسند نہیں ۔ بہرام کا لہجہ بدستور کاٹ دار تھا۔ اسی وقت دردانہ بیگم بھی آئیں۔ بہرام نے ان کو سلام کیا، وہ ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔ وعلیکم السلام بیٹا! آؤ بیٹھو۔ انہوں نے شفیق لہجے میں کہا۔نہیں آنٹی میں جلدی میں ہوں۔ اٹھو سامعہ، گھر چلو۔ بہرام نے روکھے لہجے میں کہا تو وہ فوراً ہی کھڑی ہو گئی۔ ارے سامعہ اپنے بھائی کے آنے تک رک جاتیں۔ بہرام کھانا کھا کر چلے جاتے تم لوگ …..بھابی نے اس کو تیار دیکھ کر کہا۔شکریہ بھابی! پیٹ بھر چکا ہے میرا بہرام نے پہلا جملہ زور سے اور دوسرا تیکھے انداز میں سامعہ کے کان میں ادا کیا۔ اس نے تاسف سے اس عجیب شخص کی جانب دیکھا، پھر نظریں جھکا کر قدم آگے بڑھا دیئے ۔ بہرام! آپ ایک بے بنیاد اور چھوٹی سی بات کو خواہ مخواہ بڑھا رہے ہیں ۔ آپ کیسے آدمی ہیں؟ مجھ پر ذرا سا بھی اعتماد نہیں آپ کو سامعہ کو رونا آ رہا تھا، تب ہی گھر آ کر وہ گلہ کر بیٹھی ۔ ہاں، میں ایسا ہی ہوں کیونکہ مجھے تم سے پیار ہے ۔ تم پر صرف میرا حق ہے۔ وہ پورے حق سے بولا ۔ اس بات سے میں نے کب انکار کیا ہے! جانتی ہوں کہ آپ مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی آپ ہی آپ ہیں لیکن صرف میاں بیوی کا آپس میں ہی تعلق نہیں ہوتا اور رشتے تعلقات ہوتے ہیں ، وہ بھی نبھانے پڑتے ہیں ۔ سامعہ نے نرم لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ہاں تو میں نے رشتے داریاں ختم کرنے کب کہا ؟ کب تمہیں ماں، بھائی اور بھائی سے ملنے سے روکا ہے؟ مگر غیروں سے بات کرنا مجھے قطعی نا پسند ہے۔ مجھے تو تمہارا شاپ کیپرز سے ڈیلنگ کرنا ، بھاؤ تاؤ کرنا ، ٹھیلے والے سے سبزی خرید نا رکشه، ٹیکسی والے کے ساتھ سفر کرتا بھی زہر لگتا ہے۔ بہرام جذباتی ہو رہا تھا۔سامعہ نے سر تھام لیا اور فی الحال خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ کچھ دن نارمل گزرے، مگر زندگی میں بے شمار بکھیڑے تھے۔ گھر کے بیسیوں کام ہوتے ۔ بہرام کی ہدایات کی وجہ سے وہ محلے میں بھی کسی سے ملتی جلتی نہیں تھی۔ کبھی کبھی تو اسے سخت جھنجھلاہٹ ہوتی ، جب چھوٹے سے کام یا معمولی کی ضرورت کی کسی چیز کے لئے ایسے صبح سے شام تک انتظار کرنا پڑتا، اسے سخت کوفت ہوتی ۔ اس نے میکے جانا بھی کم کر دیا تھا۔ ایسے میں کبھی اماں اور بھابی آجاتیں، تو دل بہل جاتا۔ زندگی اسی طرح نرم گرم انداز میں گزر رہی بھی کہ اچانک بہت بڑا طوفان آگیا، ایسا طوفان جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا، محبت، ریاضت، صبر، برداشت سب رائیگاں ہو گیا۔

اتوار کا دن تھا۔ حسب معمول آج بہرام گھر پر تھا۔ چھٹی والے دن وہ دیر سے سو کر اٹھتا تھا ۔ سامعہ کی آنکھ کھلی تو نو بج رہے تھے ۔ دو سالہ ردا، جو اب خوب پٹر پٹر باتیں کرتی تھی ، وہ بھی جاگ گئی تھی۔ سامعہ اس کو لے کر روم سے باہر برآمدے میں آگئی اور بیڈ روم کا دروازہ بند کر دیا تا کہ بہرام کی نیند خراب نہ ہو۔ فیڈر بنا کر رد ا کو تھما کر وہ واش روم چلی گئی ۔ واش روم سے واپس آئی تو موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ نمبر دیکھ کر اس نے کال ریسیو کر لی۔ہپی برتھ ڈے ڈیئر ضرور ضرور کیوں نہیں.. آپ کے لئے تو ہر وقت حاضر ہیں۔ ان شاء اللہ باقی باتیں بعد میں ، صبح صبح اچھی نیوز دی آپ نے لو یو سومچ سامعہ نے کھلکھلا کر کہا۔ اس کا موڈ انتہائی خوشگوار ہو گیا تھا ، جیسے اچانک کوئی بڑی خوشی ملی ہو۔ کال بند کر کے وہ مسکراتی ہوئی کچن کی طرف چل دی تا کہ بہرام کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ تیار کرلے اور پھر اس کو خوش خبری بھی سنائے کہ بھائی کی کال آئی تھی۔ بھائی نے نئی گاڑی لے لی ہے اور اگلے اتوار کو سب کو پکنک پر لے جا رہے ہیں ۔ وہاں سامعہ اور بہرام کی شادی کی سالگرہ بھی منائیں گے۔ وہ اس بات سے قطعی بے خبر تھی کہ بہرام جاگ گیا تھا اور روم سے باہر آتے ہوئے سامعہ کی ہنسی اور خوشگوار لہجے پر ٹھٹک کر و ہیں ٹھہر کر ساری باتیں سن رہا تھا۔ اسے سامعہ کا انداز سخت ناگوار گزرا تھا۔ وہ کچن میں ہی تھی کہ بہرام خاموشی سے اس کا موبائل لے کر کمرے میں آگیا۔ ان کمنگ کالز پر جا کر دیکھا تو کوئی نیا نمبر تھا، بغیر کسی نام کے ایسا کون ہو سکتا تھا ؟ جس سے اتنی بے تکلفی اور پیار سے بات ہو رہی تھی۔ لویو بولا جا رہا تھا۔ بہرام کا ماتھا ٹھنکا۔گو کہ بات معیوب تھی لیکن، اس نے اس نمبر پر کال بیک کی ۔ ہیلو سامعہ دوسری جانب گمبھیر مردانه آواز سن کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ اس نے کال بند کر کے موبائل زور سے دیوار پر دے مارا اور اتنی زور سے چلایا کہ سامعہ گھبرا کے بھاگی چلی آئی۔ بہرام کی آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ چہرے پر غضب کا جلال اور وحشت تھی۔ اپنے موبائل کے ٹکڑے دیکھ کر سامعہ کی آنکھیں پھیل گئیں ۔ بهرام ! یہ صبح صبح آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ کوئی خواب دیکھ لیا کیا ؟ وہ سخت حیران تھی۔ بے غیرت عورت …. اتنی معصوم مت بن- کیا گل کھلا رہی ہے، مجھے کمرے میں بند کر کے میری ناک کے نیچے کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ مجھ سے چھپ کر کس سے بات ہو رہی تھی ؟ اتنی خوش تھی اور لو یو کہہ رہی تھی ! اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بال جکڑ لئے تھے۔یا اللہ بہرام! آپ تسلی سے میری بات سنیں۔ اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟ اتنے گھٹیا الزامات لگانے سے پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ میں کس سے بات کر…… بکواس بند کر ۔ مجھے ضرورت نہیں صفائی لینے کی۔ جو دیکھا، جو سنا اور پھر خود تصدیق بھی کر لی۔ وہ عورت ہی بری ہے جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے، اس کی مرضی کے خلاف جائے ۔ مجھے ایسی عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ غضبناک ہو کر چلایا۔ ردا سہم کر رونے لگی، جبکہ سامعہ کی آنکھیں پھیل گئیں ۔ اس کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ کیسا انسان تھا؟ کتنی محدود سوچ تھی اس کی۔ اتنا جاہلانہ انداز تھا۔ بھلا ایسے بھی زندگی گزرتی ہے؟ بہرام آپ زیادتی تو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں لیکن اب … اب آپ حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آپ نفسیاتی ہو چکے ہیں ۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور آپ وہ ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ آپ کو شرم نہیں آتی اپنی بیوی پر ایسے گھٹیا الزام لگاتے ہوئے بس ….. اگر ایک لفظ بھی کہا تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ تین لفظ کہہ کر تیرا کام تمام کر سکتا ہوں ۔ وہ شدید غضبناک ہو کر بولا ۔بہرام ہوش کے ناخن لیں۔ ایک بیٹی ہے ہماری ..یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ سامعہ کانپ گئی۔یہ تمہیں سوچنا چاہئے کہ تم ایک بیٹی کی ماں ہو۔وہ غرایا۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ آپ غلط اور بے بنیا د گھٹیا الزامات لگا رہے ہیں ۔ بکواس بند کرو۔ میں گھٹیا ہوں اور تم بڑی پاکباز … جو میکے جا کر غیر لڑکوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی ہو۔ پتا نہیں کس کس سے باتیں کرتی ہو؟ میرے پیچھے نہ جانے کیا کیا گل کھلاتی ہو بہرام میرے صبر اور برداشت کا اب اور امتحان مت لیں۔ اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو میں بھی اپنی برداشت کھو بیٹھوں گی۔ آپ اس قدر گر سکتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔ بہرام کو شاید سامعہ کی مصلحت والی فطرت سے اتنے سخت لہجے اور الفاظ کی امید نہ تھی۔ وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتا ہوا آگے بڑھا اور اس کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کر دیا۔ سامعہ نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔گھٹیا انسان تم نے ہاتھ کیسے اٹھایا مجھ پر وہ بھر کر آگے بڑھی لیکن بہرام نے اس کی دونوں کلائیوں کو اپنے آہنی ہاتھوں کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ تکلیف کی شدت سے وہ بلبلا اٹھی ۔ جاہل انسان چھوڑو مجھے میں ایسی عورت کو رکھنا بھی نہیں چاہتا۔ جا، میں نے تجھے طلاق دی۔ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے مجھے طلاق دی ۔ ایک ایک لفظ ادا کرتے ہوئے اس نے سامعہ کو زور دھکا دے کر کری کی جانب پھینکا۔ سامعہ کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ یہ کیا کہہ گیا تھا وہ اتنا بڑا فیصلہ ایک لمحے میں سب کچھ ختم ۔ سامعہ کو لگا کہ اس کے وجود میں انگارے بھر گئے ہوں۔ اس کے ماتھے پر داغ لگ چکا تھا، رشتہ ختم ہو چکا تھا، تبھی وہ دھاڑا۔ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ۔تم ایک نفسیاتی انسان ہو۔ تمہیں رشتوں کے تقدس کا احساس نہیں۔ تم نے میاں بیوی کے پاک رشتے کو اپنی غلط سوچ کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے رشتہ قائم رکھنے کی امید رکھی جائے کیونکہ تمہارے دل میں صرف اور صرف منفی خیالات پہنچتے ہیں۔

لعنت بھیجتی ہوں تم پر تمہاری سوچ پر اور تمہارے گھر پر بس یہی اوقات تھی تمہاری ، دیکھ لینا بہت پچھتاؤ گے تم نفرت سے کہتے ہوئے اس نے اپنے دکھتے وجود کو سنبھالا اور ردا کو گود میں لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس گھٹن زدہ ماحول سے نکل آئی۔ – بکھری تو وہ اماں سے گلے لگ کر تھی ۔ بھائی ، بھابی اس کی حالت پر غصے سے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ اشعر تو بہرام کی خبر لینے جارہا تھا لیکن سامعہ نے منع کر دیا۔ اب جب اس شخص سے سارے رشتے ختم ہو چکے تو اس کے منہ لگنے سے کیا فائدہ ! ویسے بھی کیچڑ میں پتھر پھینکا جائے تو چھینٹے خود پر ہی آتے ہیں۔ بہر حال ، طلاق کا لفظ شریف عورت کے لئے کلنک کا داغ ہے۔ کچھ دن بعد زندگی روٹین میں آگئی۔ سامعہ کی عدت ختم ہوئی تو اس نے اسکول میں چاب کرلی۔ ردا اس کے ساتھ جاتی تھی۔ ذاکر صاحب اور عطیہ بیگم کو بھی سامعہ کی طلاق کا بہت دکھ تھا۔ سالک اب بھی ان کے گھر آتا کبھی وہ نارمل تو کبھی بچگانہ حرکتیں کرتا۔ بہرام کے محلے میں سامعہ کے طلاق کی خبر پھیلی تو سب نے سامعہ کی حمایت ہی کی ۔ بہرام بالکل اکیلا ہو گیا تھا آفس سے نکلتا تو یونہی ادھر اُدھر آوارہ گردی کرتا اور رات گئے گھر آ کر سو جاتا۔ گھر بھی کباڑ خانے جیسا ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے جب گھر میں عورت نہ ہو تو ہر چیز ہی بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک سال کا عرصہ ہو گیا تھا۔ ایک روز بازار میں عطیہ بیگم کو بہرام نظر آیا۔ بہرام نے بے ساختہ انہیں سلام کر ڈالا ۔ عطیہ بیگم کو غصہ تو بہت آیا مگر جواب میں سلامتی بھیجنا فرض ہے، سو بادل ناخواستہ انہوں نے جواب دیا اور با وجود کوشش کے چپ نہ رہ پائیں، کیونکہ بہرام کی حالت بہت ابتر تھی ۔ پہلے جب وہ سسرال آتا تھا تو عطیہ بیگم سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ صاف ستھرا نکھر انکھرا، شیو بنی ہوئی، بال سلیقے سے سیٹ کئے ہوئے ہوتے ، جوتے چمک رہے ہوتے ۔ چہرے پر اطمینان اور سکون ہوتا لیکن اب ملگجے کپڑے، بے ترتیب بال ، بڑھی ہوئی شیو اور بنا پالش کے جوتے پہنے ، وہ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور اور نحیف نظر آرہا تھا۔ یہ کیا حالت ہو گئی ہے تمہاری ؟ اچھی بیوی کی قدر نہیں کی نا ! تم نے ایک بے بنیاد بات پر نہ صرف اس بے قصور کو بلکہ خود کو بھی سزا دی ۔ کم از کم اس کی بات تو سن لیتے کہ اس نے فون پر اپنی بھابی سے بات کی تھی۔ فون بھائی کا تھا۔ اس کی نئی سم پر بات ہوئی تھی ۔ عطیہ بیگم نے بازار میں ہی دل کی بھڑاس نکالی ۔ اس کا سر چکرا گیا۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ اور کہتا عطیہ بیگم تیزی سے آگے بڑھ گئیں۔ وہ سر تھام کر کھڑا رہ گیا تھا۔ گھر آ کر بھی یہی خیال اسے ستاتا رہا۔ سامعہ کو طلاق دینے کے بعد ویسے بھی وہ سب کی نظر میں گر گیا تھا ۔ اس کا گھر ویران ہو گیا تھا۔ سامعہ نے کتنے سلیقے سے سب کچھ مینیج کر رکھا تھا۔ اب نہ وقت پر کھانا ملتا، نہ بیماری میں کوئی دوا دینے والا ہوتا۔ وہ ویسے بھی بیزار رہنے لگا تھا، اوپر سے عطیہ بیگم سے حقیقت معلوم ہوئی تو پچھتاوا بھی ہونے لگا۔ خود پر غصہ آرہا تھا۔ کئی دن وہ سوچ سوچ کر بے چین رہا۔ اس کی نیندیں اڑ گئیں، سکون ختم ہو چکا تھا۔ آخر بہت سوچنے کے بعد اس نے سامعہ کو درد بھر امیج کر ڈالا۔ اپنے کئے کی معافی مانگی ۔ وہ ایک بار پھر اس کو اپنانا چاہتا تھا۔ یہ اس کی مجبوری بھی تھی۔ وہ ساری زندگی یوں مسافروں کی طرح اکیلے تو گزار نہیں گزار سکتا تھا۔

جب بار بار بہرام کے میسجز آتے رہے تو سامعہ نے کئی بار نظر انداز کرنے کے بعد کچھ سوچ کر اسے رپلائی دیا۔ بہرام اب آپ کے پچھتانے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ جو ہونا تھا، ہو چکا۔ اب آپ میرے لئے نا محرم ہیں اور ہم کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے۔ اس رپلائی کے جواب میں بہرام کی کال آگئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کال ریسیو کر لی۔ بہرام با قاعدہ رورہا تھا، گڑگڑارہا تھا۔ سامعہ میں جانتا ہوں کہ ساری غلطی میری ہی ہے۔ میں تمہارا مجرم ہوں۔ میں نے جان لیا ہے کہ تم نے مجھ سے پہلے اور میرے بعد بھی بھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔ تمہاری قدر نہ کر کے میں نے گناہ کیا ہے۔ جانتا ہوں کہ تم کہیں اور شادی بھی نہیں کروگی۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں سامعہ! مجھے ایک موقع دے دو اور میری زندگی میں چلی آؤ۔ بہرام آپ جو بھی کہہ لیں ، اب سب بے کار اور بے مقصد ہے ، کیونکہ اب ہم ایک نہیں ہو سکتے ، یہ ناممکن ہے۔ سامعہ نے یہ کہہ کر کال بند کر دی۔ مگر بہرام باز نہ آیا اور برابر میجر کرتا رہا۔ ان میں وہی گڑ گڑانا اور معافیاں مانگنا۔ تقریبا ایک ماہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن اس نے سامعہ کو راستہ دکھایا۔ سامعہ اج تمہارے دل میں میرے تھوڑی سی بھی جگہ ہے بہرام! آپ سب جانتے تو ہیں۔ سامعہ نے مختصر جواب دیا۔ تو پھر ایک راستہ ہے، جس سے ہم ایک بار پھر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، قانونا اور شرعی طریقے سے رشتہ استوار کر سکتے ہیں، اگر تم حلالہ کر لو۔ بہرام آپ کیسے باتیں کر رہے ہیں ؟ میں ایسا نہیں کر سکتی، کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی۔ اور کون ایسا شخص ہوگا، جو چند دن کے لئے شادی کرے گا ؟ سامعہ نے صاف انکار کر دیا۔ وہ تمہارا پڑوسی سالک اور یہ کام کر سکتا ہے۔ وہ تو نارمل بھی نہیں ہے اور بقول تمہارے ہمدرد بھی ہے۔ اس کی فیملی بھی تو تم کو سپورٹ کرتی ہے۔ اگر تم چاہو تو ایساہو سکتا ہے – آپ کا دماغ تو درست ہے بہرام! کیسے ہو سکتا ہے یہ سب سامعہ نے کہا۔ دیکھو سامعہ ! یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ ایسی غلطیوں کو سدھارنے کے لئے، غلط اور جذباتی فیصلوں کے ازالے کے لئے اللہ پاک نے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ راستہ بھی رکھا ہے۔ بہرام سامعہ کو رضامند کرنے کے لئے ہر حربہ آزما رہا تھا۔ وہ چپ ہوگئی اور اس کی چپ نیم رضامندی تھی۔ ٹھیک ہے بہرام اسوچ کر جواب دوں گی ۔ سامعہ کے ذومعنی جواب سے وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا تھا۔ ایک ہفتہ بڑی بے چینی اور بے قراری میں گزارنے کے بعد سامعہ نے اس کو خوشخبری سنادی تھی ۔ او تھینک یو سوئچ سامعہ ا مجھے امید تھی کہ تمہیں مجھ پر ضرور رحم آجائے گا۔ میری دعائیں قبول ہو جائیں گی ۔ بس اب جلدی سے نکاح کر لو اور پھر جتنی جلدی ہو سکے میری زندگی میں آجاؤ ۔ وہ خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔ اگلے ہفتے میرا نکاح ہے۔ اب آپ مجھ سے تب تک رابطہ نہیں کریں گے، جب تک میں نہ کہوں ۔ سامعہ نے چار دن بعد اطلاع دی۔ او کے باس جو آپ کا حکم . اب آپ کے احکامات پر ہی چلنا ہے۔ وہ خوش دلی سے بولا ۔ اس کے دل کی مراد جو پوری ہو رہی تھی۔ ایک بہت مشکل کام کتنی آسانی سے ہونے جا رہا تھا۔ شاید قسمت پوری طرح سے اس پر مہربان تھی۔

مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے دردانہ ! مجھے تو سامعہ سے دلی لگاؤ ہے۔ بہت پیاری اور معصوم بچی ہے۔ اس کے ساتھ جو ہوا، مجھے لگتا ہے جیسے میری اپنی بچی کے ساتھ ہوا ہو۔ وہ ابھی جوان ہے، خوب صورت ہے۔ اس کو اچھا رشتہ مل سکتا ہے۔ میں جانتی ہوں میرا بچہ نارمل نہیں ہے۔ اس سے شادی ایک رسک ہے۔ چالیس فیصد چانس ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نہیں چاہتی کہ سامعہ یہ رسک ہے۔ وہ مجھے اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہے ۔ عطیہ بیگم سے دروانہ بیگم نے مالک اور سامعہ کی شادی کی بات کی تو انہوں نے صاف اور سچے انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔ آپا! یہ سامعہ کی خواہش ہے۔ دیکھیں نا ، ہم نے سوچ سمجھ کر اس کی شادی بہرام سے کی تھی لیکن اس کے نصیب میں طلاق تھی ۔ اب یہ رسک لینے کو وہ خود تیار ہے۔ ہماری نیتیں صاف ہیں ۔ اللہ پاک بہتری کے راستے خود بنائے گا۔ ہو سکتا ہے، سالک بیٹا بالکل ٹھیک ہو جائے ۔ ہم یہ نیک کام ، نیک ارادے اور دعاؤں کے ساتھ کریں گے۔ اس بھروسے پر کہ اللہ پاک ہمارے بچوں کے نصیب روشن کر دے۔ دردانہ بیگم کی پر امید اور حوصلہ افزاء بات پر عطیہ بیگم بھی پر امید ہوگئیں۔ اشعر اور اس کی بیوی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ سالک بھی خوش تھا کہ اس کی دلہن سامعہ بنے گی ، یوں وہ اس کی دلہن بن گئی ۔ ردا، دو سال میں اپنی نانی اور ممانی سے اتنا مانوس ہو گئی تھی کہ سامعہ کے جانے کے بعد تنگ بھی نہیں کرتی تھی۔ کچھ نیتوں کا اثر تھا، کچھ جذبے سچے تھے کہ سالک پر شادی کا مثبت اثر پڑا مکمل ایب نارمل تو وہ پہلے بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھی دور ے پڑتے تھے، مگر شادی کے بعد اس میں واضح تبدیلی آئی تھی۔ ادھر بہرام کانٹوں پر لوٹ کر دن گزار رہا تھا کہ کب سامعہ کا میسج آئے اور کب وہ سالک سے طلاق کی خوشخبری سنائے لیکن سامعہ کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔ دو ماہ ہونے کو آئے تھے۔ طلاق کے بعد سامعہ کو عدت بھی گزارنی تھی، پھر کہیں جاکے دوبارہ بہرام سے نکاح ہوتا۔ اس میں بھی اچھا خاصا وقت درکار تھا۔ ایک پل کاٹنا محال تھا جبکہ مہینوں کا انتظار ننگی تلوار کی طرح بہرام کے سر پر لٹک رہا تھا۔ دو ماہ پورے ہوتے ہی جھنجلا کر بہرام نے خود ہی سامعہ کو کال کر ڈالی۔ ان دو ماہ کے عرصے میں سامعہ کی محبت، توجہ ، پیار، دیکھ بھال نے اور سب کی دعاؤں سے ڈاکٹرز کے مطابق، میڈیکل سائنس نے یہ بات سو فیصد درست ثابت کر دی تھی کہ اٹھائیس سالہ سالک، جسمانی لحاظ سے صحت مند و توانا اور ذہنی طور پر بھی بالکل فٹ اور نارمل ہو چکا ہے اور ہر لحاظ سے عام نوجوان کی طرح زندگی گزار سکتا ہے۔ سامعہ کا مکمل طور پر اس کو وقت دینا، اس کا خیال رکھنا اور چھوٹی چھوٹی ایکسر سائز کروانے سے اس میں بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی۔ اللہ کے کرم سے سامعہ کی دن رات کی محنت رنگ لائی تھی۔ بقول ڈاکٹرز کے ایسے کیسز میں اس طرح بہت کم ہوتا ہے۔ سب ہی خوش تھے۔ اللہ پاک نے معجزہ کر دکھایا تھا۔ ۔ عطیہ بیگم اور ذاکر صاحب تو سجدے میں گر کر زار و قطار رو رہے تھے، شکرانے پڑھ پڑھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کر رہے تھے۔ ساتھ ہی سامعہ کے بھی شکر گزار تھے کہ جس کی آمد سے ان کا بیٹا مکمل نارمل ہو گیا تھا۔ سامعہ حد ہوتی ہے انتظار کی بھی … تم تو بالکل چپ ہو کے بیٹھ گئی ہو۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک ایک پل کانٹوں پر گزار رہا ہوں ، تم دو ماہ سے …. آخر اتنا لمبا ٹائم کس لئے ؟ بس جلدی سے فیصلہ کرو اور سب کچھ ختم کر دو۔ عدت کے دن بھی تو پہاڑ کی مانند کھڑے ہیں۔ بس فٹافٹ اس ادھورے انسان سے چھٹکارا حاصل کر لو۔ سامعہ جو چپ چاپ سن رہی تھی ، دھیرے سے بولی ۔ میں آپ کو مسیج کرنے والی تھی، خوشخبری دینے کے لئے کہ آپ کل اماں کے گھر آسکتے ہیں۔ میں بھی کل سب کے سامنے فیصلہ کروں گی اور آپ کے حق میں فیصلہ ہوگا۔ سچ کہا آپ نے وہ واقعی ادھورا انسان ہے، پاگل اور بے وقوف سا اس کے ساتھ وقت گزارنا محض میری مجبوری تھی۔اب یہ کھیل بھی ختم کر دوں گی کل شام کو، ان شاء اللہ کل ہماری ملاقات ہو گی ۔ اس کی بات پر بہرام خوشی سے اچھل پڑا۔ ویری گڈ۔ بہت اچھی بات ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد ہم ایک ساتھ ہوں گے۔

سر جھکائے، نادم نادم ، شرمسار سا بہرام گیٹ پر کھڑا تھا۔ اسلام علیکم دردانہ بیگم نے سلام کا جواب دے کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا اور صحن میں رکھی کرسی کی طرف اشارہ کر کے اس کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ دیگر کرسیوں پر اشعر، اس کی بیوی، ذاکر صاحب اور عطیہ بیگم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آئی ایم سوری آنٹی! اور آپ سب سے بھی میں معافی چاہتا ہوں ۔ میں نادم ہوں کہ میں نے جلد بازی اور جذبات میں آکر بہت غلط فیصلہ کر لیا تھا لیکن اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ امید ہے آپ سب بھی سامعہ کی طرح مجھے معاف کر دیں گے اور . آپ سے کس نے کہا کہ سامعہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے۔ سامعہ کی تیکھی اور تیز آواز پر بہرام سمیت سب آواز کی سمت متوجہ ہوئے ۔ بہرام گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ سامنے دروازے سے وہ داخل ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ سالک تھا، دراز قد اور خوب صورت سا….. اور وہ بے حد نکھری نکھری مطمئن و پر اعتماد ، سالک کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے کھڑی تھی۔ دونوں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتےہوئے آگے بڑھے۔ سامعہ تم آگئیں سامعہ ، جلدی سے ان سب کو اپنا فیصلہ سناؤ۔بہرام بے قراری سے دو قدم آگے بڑھا۔ تب ہی سالک تیزی سے آگے آکر اس کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز سے، اپنی بھاری آواز اور گمبھیر لہجے میں بولا ۔ اے مسٹر ! ہوش میں آئے۔ میں نے اپنی بیوی سے اتنی بے تکلفی سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی آپ کو …. اس لئے اپنی حد کا خیال رکھیں ۔ اور ہاں . آپ میری بیوی کے لئے نامحرم ہیں۔ اس بات کا خیال آپ سے بہتر کوئی نہیں رکھ سکتا ۔ بہرام نے آنکھیں پھاڑ کر اس کو دیکھا۔ وہ بالکل نارمل تھا، پھر سامعہ کی طرف دیکھا۔ یہ سامعہ سب کیا ہے؟ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ میری اور تمہاری کمٹمنٹ تھی ۔ تم نے تو فیصلہ میرے حق میں کرنے کا کہا تھا۔ ان سب کو بتا دو کہ تم کیا چاہتی ہو؟ تم نے یہ شادی کیوں کی تھی ؟ تم ایک ادھورے انسان کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتیں بس اب ایک لفظ بھی مت بولنا بہرام رضا ! ادھورے انسان تو تم ہو، پاگل تو تم ہو، ایب نارمل یہ نہیں تم ہو۔ ایک لفظ ہوتا ہے مطلبی . جو بہت خطرناک ہے اور اس سے زیادہ خطر ناک لفظ مفاد پرست ہوتا ہے۔ تم مفاد پرست ہو۔ تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے! آج بھی تم بازی لگانے آئے ہو، اپنے مطلب کے لئے، اپنا مستقبل محفوظ کرنے مجھے تم سے پیار تھا بہرام ہے نہیں اب مجھے تم سے نفرت ہے، شدید نفرت تم مرد کہلانے کے لائق نہیں ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا، اس کو اپنی جاگیر سمجھ لینا، مردانگی نہیں ہوتی۔ میاں بیوی کے رشتے میں شکوک اور بے اعتمادی نہیں ہوتی۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی بهرام رضا ! جسے تم ادھورا سمجھ رہے ہو، وہ الحمد للہ ایک مکمل انسان ہے ۔ وہ بالکل نارمل اور محبت کئے جانے کے قابل ہے۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ میں نے سالک سے شادی کا فیصلہ تمہارے لئے نہیں، بلکہ اپنے دل کے کہنے پر کیا تھا۔ یہی تمہیں دکھانا اور سنانا بھی تھا۔ جو رشتوں کے تقدس کی اہمیت کو جانتا ہے۔ میں نے کہا تھا نا ! کہ تم ایک دن پچھتاؤ گے اور اب ساری زندگی پچھتاتے رہنا۔ میری نظروں اور میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جاؤ ۔ جو مرد عورت کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ ادھورے اور نا کام ہی رہتے ہیں ۔ سامعہ بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئی ۔ بہرام منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے صرف سن رہا تھا۔ پانسہ پلٹ چکا تھا۔ جو راہ اس نے خود دکھائی تھی ، آج اس کے گلے پڑ گئی تھی ۔ اب سب کچھ ختم ہو چکا تھا، وہ بازی ہار گیا تھا اور اب سر جھکائے سب کچھ لٹا کر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح مرے مرے قدموں سے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ جس شخص پر اس نے شک کیا تھا ، آج اس کے سامنے اپنی کل متاع ہار چکا تھا۔
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top