What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

نا موس

نا موس
Man moji Çevrimdışı

Man moji

Staff member
Super Mod
Dec 24, 2022
6,466
178,245
113
pakistan
Gender
Male
چوہدری اسلم خان کی حویلی ۔۔۔ رات کا پچھلا پہر ۔۔۔ گہری تاریکی نے حویلی سمیت پورے گاوں کو سیاہی کی چادر سے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ جاڑے کی وجہ سے کُہرے کی دبیز تہہ ۔۔۔ گاوں کی ویران گلیاں ۔ دور دور تک نہ کوِئی آدم نہ آدم زاد۔ پورے ماحول پر عجیب پراسراریت سے چھائی ہوئی تھی۔ کہیں دور سے آتی گیدڑ کے بولنے اور کُتّوں کے بھونکنے کی آوازیں عجب خوف اور دہشت کا سا سماں پیش کررہی تھیں ۔
مریم نے زیورات اور روپیہ بیگ میں ڈالا، اور بہت احتیاط سے کمرے کے باہر جھانک کر دیکھا کہ کہیں کوئی جاگ تو نہیں رہا، تمام افرادِ خانہ محوِخواب تھے۔ اور ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ وہ دبے پاوں چلتی ہوئی حویلی کے بیرونی دروازے سے باہر نکل گئی۔
مریم ، چوہدری اسلم خان کی بیٹی تھی۔ اُس نے ایک بڑی سی چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ زیورات سے بھرے بیگ کو اُس نے مضبوطی سے اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ وہ نہایت محتاط انداز میں قدم آگے بڑھا رہی تھی۔ پتوں کے ُپاوں تلے رُوندے جانے سے چرچراہٹ سی پیدا ہوتی تو وہ چونک سی جاتی اورفورا” غیر ارادی طور پر پیچھے مُڑکر دیکھتی جیسے یہ چرچراہٹ پتوں کی نہیں بلکہ اُس حویلی کے ناموس کے کی ہے جسے وہ اپنے قدموں تلے روند کر جارہی تھی۔ ۔۔پھراُس نے زرا دم کو رُک کر حویلی کو آخری بار الوداعی نظروں سے دیکھا۔ حویلی تاریکی میں ڈوبی ہوِئی تھی ۔ سوائے ایک بلب کی روشنی کے جو بیرونی گیٹ پر جل رہا تھا مگر کُہر نے اُسے بھی دھندلا سا دیا تھا۔
وہ ناک کی سیدھ میں چل رہی تھی گویا راستے کا تعین اُس نے دن کی روشنی میں ہی کر لیا ہو۔ تقریبا” دس منٹ کی مسافت طے کر لینے کے بعد وہ حویلی کی چاردیواری سے باہر نکل آئی ۔سامنے ہی موٹر سائیکل پر سوار ماسٹر صاحب کا بیٹا سکندر، مُنہ کو کپڑے سے ڈھانپے ،اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ اگلے ہی لمحے ان کا رخ اسٹیشن کی طرف تھا۔
چوہدری اسلم کی حویلی کے پچھواڑے میں واقع چھوٹے سے کمرے میں چوہدری اسلم کا نوکراور چوکیدار رفیق٫ اپنی بارہ سالہ بیٹی زیبو ٫ کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بنا بنا کر رکھ رہاتھا۔ زیبو کی ماں ، زیبو کے دنیا میں آتے ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی،اور رفیق نے زیبو کو ماں بن کر پالا تھا۔ دو دن سےزیبوکا بخار نہیں آتر رہا تھا۔رفیق نے اُسے ڈاکٹر کو بھی دکھایا، مگر دوائی سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔ اگلے دن سارا وقت زیبو بخار میں پھنکتی رہی ۔ اور اب آدھی رات اور شدید سردی ، رفیق کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کرے بھی تو کیا کرے۔ اس وقت وہ زیبو کو اکیلا چھوڑ کر کسی کو مدد کے لئے بھی نہیں بُلا سکتا تھا۔ رفیق باربار اُس کا ماتھا چھو کر دیکھتا ، اُس کا کمبل ٹھیک کرتا اور حسرت بھری نظروں سے کبھی اپنی بیٹی اور کبھی آسمان کو دیکھتا۔ صبح ہونے کا انتظار انتہاِئی جاں گسل تھاابھی صبح کا تڑکا نہ ہوا تھا کہ زیبوکی حالت غیر ہو گئی اور کچھ زیادہ وقت نہ گذرا کہ زیبو اللہ کو پیاری ہو گئی۔اور اُس کا تپتا ہوا بدن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا ہو گیا۔
مریم کے گھر سے بھاگنے کی خبر، چوہدری اسلم کے لئے بہت بڑا صدمہ تھی۔ آخر کو وہ گاوں کا چوہدری تھا اُسکی اپنی آن، بان اور شان تھی۔ چوہدری اسلم اور اُسکی بیوی نے مریم کے گھر سے بھاگنے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی مگر اس بات کو زیادہ دنوں لوگوں سے پو شیدہ رکھنا کیسے ممکن ہوگا؟ یہ بات آن دونوں کے لئے سوہان روح تھی۔ دونوں سکتے کی کیفیت میں تھے ۔
رفیق صبح تڑکے ہی، پتھر کی مورت بنا ، بے جان قدموں سے حویلی میں داخل ہوا۔”کل رات کہاں مر گئے تھے، دروازے کا پہرہ چھوڑکر کہاں دفع ہو گئے تھے؟”، چوہدری اسلم نے رفیق کو دیکھتے ہی دھاڑنا شروع کر دیا ، یہ اور بات کے اُس کی آواز قدرے دھیمی تھی کہ مبادا کوِئی سُن نہ لے۔رفیق دوڑکر اُس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور چوہدری اسلم کے پاوں پکڑکر بلک بلک کر رونے لگا۔ ٫”میں نہیں ، میری د ھی مر گئی ہے چوہدری صاحب ، میری زیبو رانی کل رات اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ” روتے روتے رفیق کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ چوہدری اسلم کی آنکھوں کے جلتے شعلے یکدم سرد پڑگئے۔ اُس نے رفیق کو تسلی دینے کے لئے دھیرے سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔”چُپ ہو جا رفیق ،اللہ کو یہی منظور تھا۔” رفیق نے اپنی چادر سے اپنے آنسو صاف کئے۔ “دیکھ رفیق میری بات دھیان سے سُن “۔ یہ کہتے ہوِے آس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، ہزار ہزار کے کئی نوٹ اُس کے ہاتھ میں آگئے۔ رفیق روتے روتے ایک دم خاموش ہوکر ہمہ تن گوش ہو کر چوہدری اسلم کی بات سننے لگا۔ ” یہ رکھ لے رفیق ، مگر تو کفن دفن کی بالکل پرواہ نہ کر ، وہ سب ہمارے ذمہ ہے۔ “اُس نے نوٹ رفیق کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ” ۔رفیق حیرت سے کبھی روپیوں کو اور کبھی چوہدری اسلم کی طرف دیکھتا۔ ” مگر تجھے ایک کام کرنا ہوگا۔ “چوہدری اسلم نے قدرے رازداری سے رفیق کے قریب ہوتے ہوئے کہا ” دیکھ فیقے ، اس وقت ہم دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں ،تجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور مُجھے عزت کی۔ تجھے بس اتنا یاد رکھنا ہے کہ کل رات میری بیٹی مری ہے اور تیری بیٹی گھر سے بھاگی ہے ۔ یہ عزت، غیرت، ناموس ان سب سے تم لوگوں کا کیا لینا دینا، لوگوں جلد ہی یہ سب بھول جائیں گے، پھر تواس پیسے سے اپنے لئے زندگی کی خوشیاں خرید لینا”۔ رفیق یہ سن کر بھونچکا رہ گیا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سانس لینا بھول گیا ہے۔ وہ چند لمحوں لے لئے سکتے کی حالت میں گُم صُم بیٹھا ،چوہدری اسلم کے الفا ظ پر غور کرتا رہا۔جب کچھ دیر گزرنے پر بھی اُس نے ہآتھ آگے نہ بڑھایا تو چوہدری اسلم نے روپے آگے بڑھاتے ہوِئے ، اور کھنکارتے ہوِئے اس کی طرف اُن قہر آلود نظروں سے دیکھا کہ آس نے روپے لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
صبح ہی صبح، حویلی میں کہرام برپا تھا۔ چوہدری اسلم کی بیٹی مریم کی ، سانپ کےڈسنے سے موت ہوگئی تھی۔زہر کے ُپھیلنے سے اُس کا رنگ اتنا بگڑ گیا تھا کہ کسی کو میّت کا دیدار نہیں کروایا گیا۔ دوسری طرف، رفیق پر ہر کوئی لعن طعن کر رہا تھا ، اُس کی جواں سال بیٹی جو گھر سے بھاگ گئی تھی۔
آدھی رات کو حویلی سے کافی فاصلے پر واقع قبرستان میں ”مریم بنتِ چوہدری اسلم ” کا کتبہ لگی قبر پر، رفیق دھاڑے مار مار کر رو رہا تھا۔
ختم شد ۔
 
Back
Top