Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Life Story نصیب کے کھیل

Shehla69

Elite writer
Joined
Jan 19, 2023
Messages
250
Reaction score
3,222
Points
93
Location
Dubai
Gender
Female
Offline
میں حارث کی ٹھیکرے کی مانگ تھی۔ ان دنوں میں آٹھویں میں تھی جب ہمار امکان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بچے بڑے ہو گئے تھے اور ہمارے بزرگوں کا کہنا تھا کہ اب ان کا آپس میں حجاب ہونا چاہیے ۔ نجانے یہ کیسا حجاب تھا کہ حارث ابھی تک مجھ کو اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا تھا کیونکہ میرا کوئی بھائی نہ تھا لہذا وہی میری حفاظت کا ذمے دار تھا۔ ہم اب بھی پہلے کی طرح باتیں کرتے ، کوئی پردہ نہ تھا۔ گھر کے درمیان ایک دیوار اٹھا دی گئی تو کیا ہوا۔ ہمیں کب اس دیوار کی پرواہ تھی۔ میٹرک کرتے ہی چچا جان کو حارث کی فکر ستانے لگی۔ اسے وہ تعلیم کے لئے بڑے شہر بھجوانا چاہتے تھے اور میری دُنیا حارث بن سونی تھی۔ یہ سوچ کر مغموم ہو جاتی کہ وہ دوسرے شہر چلا جائے گا تبھی دُعا کرتی۔ خُدا کرے اس کا داخلہ بڑے شہر میں نہ ہو سکے۔ حارث کی جدائی کے تصور سے پریشان ہو جاتی تھی۔ یہ سمجھ نہ تھی کہ اگر اس کا داخلہ بڑے شہر میں نہ ہوا تو وہ اعلی تعلیم سے محروم رہ جائے گا جس کا اثر اس کے مستقبل پر پڑے گا۔ ان دنوں مجھے ان باتوں کی سمجھ کہاں تھی۔ میں تو بس اپنے جذبات کے تابع تھی۔ میرے نزدیک حارث کا گائوں میں رہنا اس کے شہر چلے جانے سے اچھا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے شہر جانا تو لازم تھا، تبھی نہ چاہتے ہوئے مجھے اس بد بخت دن کے سُورج کو دیکھنا تھا، جس دن اسے گائوں سے شہر روانہ ہو نا تھا۔ سبھی کچھ ویران اور اداس ہو گیا۔ مجھے اب سارے موسم ایک سے لگتے۔ وہ جاتے ہوئے ان موسموں کے رنگ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ جب کوئی حسین نظارہ دیکھتی حارث کی یاد میری آنکھوں میں چھنے لگتی۔ انہی دنوں بابا جان کے ایک دوست شہر سے ملنے آئے ، وہ وہاں بزنس کرتے تھے۔ انہوں نے بابا کو مشورہ دیا کہ شہر چل کر رہو ، وہاں بزنس کرو اور دیہات کی زندگی کو خیر باد کہہ دو۔ ایک کشش شہر میں جا رہنے کی اور بھی تھی۔ وہاں نظام تعلیم بہتر اور اسکول اچھے تھے جبکہ گائوں کے اسکولوں میں برائے نام پڑھایا جاتا تھا۔ جانے کیا والد صاحب کے جی میں سمائی کہ دوست کی باتوں میں آگئے۔ انہوں نے زمین فروخت کر کے شہر جانے کی ٹھان لی۔ جب چچا جان نے سُنا ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ ان کا سبھی کچھ تو اراضی سے وابستہ تھا۔ رزق، عزت اور دونوں بھائیوں کا اعتماد و اتحاد بھی۔ اراضی کے بٹوارے سے ان ساری چیزوں کا بھی بٹوارہ ہو جاتا۔ باقی پھر کیا رہ جاتا تھا۔ چچا نے بابا جان کو بہت سمجھایا، روکا اور منت سماجت کی کہ خُدا کے واسطے اس ارادے سے باز آ جائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر جا کر آپ اپنا سب کچھ کھو دیں گے اور تنکے کی طرح ہلکے ہو رہیں گے ۔ آپ کو کاروبار کا تجربہ نہیں ہے مگر والد صاحب نے چچا جان کی ایک نہیں مانی۔ چچا چھوٹے تھے ، بڑے بھائی سے صرف منت سماجت کر سکتے تھے اور بابا جان کی عادت تھی کہ جو سوچ لیتے ، کر کے دم لیتے۔ وہ ارادے کے پکے تھے لہذا چچا کی ایک نہ چلی اور اراضی کا بٹوارہ ہو کر رہا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری محبتوں کا بھی بٹوارہ ہو گیا۔ بابا جان نے اپنے حصے کی زمین فروخت کر دی اور ہم شہر کراچی آ گئے۔ انہوں نے اپنے دوست کے مشورے سے کاروبار شروع کیا لیکن چچا جان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ انہیں کاروبار کا کوئی تجربہ نہ تھا اور روپیہ ڈوب گیا۔ اب ہمارے پلے کیا رہ گیا تھا۔ زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لئے بابا جان نے قرض لیا اور پھر ہم قرض کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد میرے والد نے واپس لوٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم واپس آگئے۔ صد شکر کہ مکان فروخت نہ کیا تھا، ہمارے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ موجود تھا مگر اب یہاں پہلے جیسی عزت نہیں رہی تھی۔ رشتے دار، دوست احباب کنی کترانے لگے کہ کہیں ہم ان سے قرض نہ مانگ لیں۔ ان دنوں پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا میں دولت ایک بڑی حقیقت ہے۔ دولت سے بڑھ کر کوئی رشتہ دار نہیں۔ بابا جان اب سارا وقت گھر پر ہوتے۔ چچا نے اپنی فصل سے گندم کی چند بوریاں ہمارے گھر اتار دیں کہ دانے باہر سے خرید نا سارے خاندان کے لئے بے عزتی کی بات تھی۔ سبزی بھی ان کے کھیتوں سے آجاتی اور روز شام کو دُودھ بھجوا دیا کرتے کہ یہ خوراک کی بنیادی چیزیں تھیں۔ ان سے کچھ گزارہ ہو جاتا تھا۔ والد کی حالت دیکھ میرا د ل بہت کڑھتا۔ اب مجھے اپنے غمگسار بچپن کے ساتھی کا انتظار تھا جس نے بابا جان کا سہارا بننا تھا۔ چچا کو بابا کے لٹ لٹا کر لوٹ آنے کا غم تھا مگر ان کا رویہ ہمارے لئے اب پہلے جیسا نہیں تھا۔ وہ دل میں ناراض تھے اور کیوں نہ ہوتے۔ آدھی زمین کوڑیوں کے مول بک چکی تھی۔ آدھا وقار چلا گیا تھا اور بھائی شہر کی ہوا کھا کر کنگال واپس آ گیا تھا۔ زمینداری کرکے اب والد صاحب محنت مزدوری بھی تو نہیں کر سکتے تھے۔ حارث تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ وہ چچا جان کا واحد سہارا تھا۔ ایک دن سُنا وہ آگیا ہے۔ چچا چاہتے تھے کہ وہ زمینداری کے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹائے لیکن اس نے تو کچھ اور ہی سوچا ہوا تھا۔ مجھ کو جس کا انتظار تھا، اس کی آمد کا سن کر خوشی سے میرے آنسو نکل آئے۔ سمجھ رہی تھی کہ گائوں میں قدم رکھتے ہی وہ ہمارے گھر آئے گا لیکن حارث نہ آیا، البتہ اس کے والدین آئے۔ میں سمجھی وہ مجھے میرے والدین سے مانگنے آئے ہیں مگر وہ تو بیٹے کے پاس ہونے کی مٹھائی دینے آئے تھے۔ انہوں نے یہ جتلا کر مٹھائی دی کہ اسے صرف پاس ہونے کی سوغات سمجھنا۔ دوسری کسی طرف کا ابھی مت سوچنا۔ امی بابا انتظار میں رہے، لیکن وہ دوبارہ نہ آئے، تبھی امی خود ان کے گھر چلی گئیں۔ میں تو پہلے ہی حارث کے گھر جانے کو بے قرار تھی، لہذا میں بھی ساتھ ہوئی۔ کاش میں نہ جاتی تو جو کچھ چچی نے کہا، اپنے کانوں سے نہ سنتی۔ امی نے جب پوچھا کہ بیٹی کے فرض سے ہمیں کب سبکدوش ہونا ہے ؟ تو چچی نے فورا جواب دیا۔ بھابی ! بات دراصل یہ ہے کہ میرے حارث کو شہر میں ایک بہت اچھی اور خوبصورت لڑکی پسند آگئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میری اس لڑکی سے شادی نہ ہوئی تو میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر گھر سے چلا جائوں گا، اس لئے ہم مجبور ہیں اور آپ سے شرمندہ ہیں۔ میں برآمدے میں بیٹھی طوطے سے دل بہلارہی تھی جو پنجرے سے نکل کر میرے ہاتھ پر آبیٹھا تھا۔ چچی کی بات سُن کر میرے دل کی دھڑکن ذرا دیر کو جیسے بند ہوگئی۔ مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ یوں لگا میں مرچکی ہوں۔ تبھی مٹھو نے اپنی چونچ سے میری ہتھیلی پر کھجلی کی تو میں جاگی اور سوچنے لگی، کہتے ہیں کہ طوطا ایک بے وفا پرندہ ہے لیکن شاید انسان سے زیادہ نہیں۔ ہم گھر کو نکلے۔ والدہ اور میں نے بڑی مشکل سے چند قدم کا فاصلہ طے کیا جیسے میلوں کا سفر پیدل کیا ہو۔ گھر آتے ہی ہم اپنے اپنے بستر پر گر گئے۔ میں امی کو اور نہ وہ مجھ کو تسلی دے سکتی تھیں کیونکہ ہمارے پاس تو الفاظ ہی نہیں تھے۔ شدید ذہنی دبائو کی وجہ سے مجھے بخار ہو گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں خلا میں جی رہی ہوں۔ حارث کا خیال بچپن سے ہی کچھ اس طرح ذہن میں جا گزیں تھا، لگتا تھا کہ اب میں کبھی کسی اور کے ساتھ جیون کا سفر طے نہ کر سکوں گی۔ وہ دن میری آنکھوں میں پیوست ہو چکا تھا، جب وہ شہر جارہا تھا پڑھنے کے لئے مجھ سے بچھڑ رہا تھا۔ کس قدر دلگیر تھا وہ اور میں بھی روئے جا رہی تھی۔ تبھی اس نے تسلی دی تھی۔ سعدیہ چار سال پلک جھپکتے گزر جائیں گے ، پتا بھی نہ چلے گا۔ تم دیکھنا پھر میں آتا جاتا رہوں گا۔ اس کی انہی باتوں سے میں نے حوصلہ پکڑا تھا لیکن اس کے انتظار کا یہ وقت کیسے رینگ رینگ کر ، سسک سسک کر گزرا تھا، یہ میں ہی جانتی تھی۔ میں اب جی سکتی تھی اور نہ مر سکتی تھی۔ میرا یقین ٹوٹا تھا۔ دُکھ اس بات کا تھا کہ اس نے بے وفائی ہی کرنا تھی، تو مجھے کیوں آسرے میں رکھا۔ اسی دُکھ کی کیفیت میں اسکول جانا چھوڑ دیا اور پڑھائی کو خُدا حافظ کہ دیا۔ ماں نے ہمت بندھائی، ابو نے تسلی دی، سمجھایا تو میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور دوبارہ پڑھائی میں مشغول ہو گئی۔ چند دن مردہ دل رہنے کے بعد اچانک ہی دل کی کایا پلٹی۔ ایک روز نفل پڑھ کر رو رو کے دُعا کی۔ وہ قبولیت کی گھڑی تھی کہ سجدے میں گرنے سے میرے دل کو قرار آ گیا، جیسے کسی غیبی طاقت نے کہا ہو کہ حارث کی بے وفائی تیری ہمت پر ایک تازیانہ ہے۔ چل اُٹھ ، ہمت کر ، اپنی زندگی کو مٹی میں نہ ملانے کےعزم کے ساتھ زندگی کے دھارے میں شامل ہو جا – حارث کی بے وفائی میں راکھ ہونے کی بجائے میں نے خود کو نیا عزم و حوصلہ دیا۔ خُدا سے مددمانگی اور پھر اس کی یادوں کو دل کے نہاں خانوں میں دفن کر کے دن رات کتابوں میں کھو گئی۔ قسمت نے ساتھ دیا، خُدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور میٹرک کے پرچے دیے ۔ پرچے اچھے ہو گئے۔ رونے دھونے کی بجائے ، ہمت جو کی تو اسی نے کامیابی کا منہ دکھایا۔ میں اپنے والدین کی حالت دیکھ رہی تھی۔ بابا جان اب چچا کی اراضی پر کام کرتے تھے تاکہ پیداوار کا کچھ حصہ انہیں ملے ، جو پہلے زمین کے مالک تھے ، اب ان کے کارندے بن گئے تھے۔ تہیہ کر لیا مجھے اپنے والدین کا سہارا بننا ہے ، ان کو حالات کے بھنور سے نکالنا ہے۔ کب تک بے وفائی کا ماتم کروں گی ؟ کہاں تک ان حالات میں عشق کے تھپیڑوں کی تلفی کو سہوں گی ؟ مجھے اپنا نہیں ، اب اپنے والدین کا خیال کرنا چاہیے جن کو تہی دامنی کے باعث چچا نظروں سے گرا چکے تھے اور گائوں کے لوگ بھی چچا کو ہی فوقیت دینے لگے تھے اور یہ بات والد صاحب کے لئے کس قدر دل خراش تھی۔ وہ چچا سے بڑے تھے ، کیا ان کے دل پر گزرتی تھی جب مردوں کی کچہری میں ان کی جگہ گائوں والے ان کے چھوٹے بھائی کو مسند پر بٹھاتے تھے۔ دل یہی کرتا تھا کہ رونے دھونے کی بجائے ٹھکرانے والوں کے سامنے ڈٹ جائوں اور اپنی ذات کو منوا کر رہوں۔ رزلٹ نکلا، میرے نمبر اچھے تھے۔ اسکول سے لوٹ رہی تھی کہ راستے میں حارث مل گیا۔ کہنے لگا۔ مجھ سے اتنی ناراض ہو کہ بات بھی نہیں کرتیں۔ میری کچھ عرض تو سن لو۔ اب کہنے سننے کو رہ کیا گیا ہے ، تم نے بے وفائی کی ہے۔ ہم غریب ہو گئے ہیں، تبھی نا! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بے وفا نہیں۔ جو بھی فیصلہ ہوا ہے میرے والدین نے کیا ہے۔ حیران ہوں کہ تم نے میری بے وفائی کا کیسے یقین کر لیا؟ خُدا کی قسم ! میں اس قدر نہیں گرسکتا۔ میرا یقین کرو۔ حارث کی بات سن کر حیران ہو گئی۔ جی چاہتا تھا اس کی معذرت کا یقین کر لوں، مگر دل شیشے کی طرح ٹوٹ چکا تھا۔ جس کو اگر جوڑ بھی دیا جاتا تو اس میں بال پھر بھی رہ جاتا۔ میں نے اس کی باتوں کا جواب نہ دیا اور آگے بڑھ گئی۔ میرے ساتھ میری کلاس فیلو بھی تھی، نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو باتیں بنانے کا موقع ملے، مگر میں شدید کشمکش کا شکار ہو گئی تھی۔ کیا حارث سچ کہ رہا تھا یا وہ صرف اپنے اوپر سے بے وفائی کا داغ مٹانا چاہتا تھا۔ لڑکے خود مختار ہوتے ہیں وہ چاہتا تو ضد کر سکتا تھا، والدین کو منا سکتا تھا۔ لڑکے خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے الزام والدین پر دھر دیا کرتے ہیں۔ ایک دن بابا نے کہا۔ بیٹی اب گائوں میں ہماری عزت نہیں رہی۔ تمہارے چچا نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں اور ہماری قدر تو ہماری اراضی سے تھی۔ جب زمین ہی نہ رہی پھر گائوں میں رہنے کا کیا فائدہ، ہم دوبارہ شہر چلے جاتے ہیں۔ میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ والد صاحب کا فیصلہ میرے لئے خوشی کی نوید تھا۔ گائوں میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع عنقا تھے اور شہر جا کر آباد ہونے کے لئے ہمیں اپنا آبائی مکان بھی فروخت کرنا تھا، جس کو چچا جان نے بلا تاخیر فورا ہی بخوشی خرید لیا۔ بابا جان مکان کے پیسے پلو میں باندھ کر کراچی آگئے۔ جب قسمت ساتھ سے تو تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اس بار ایک دیانتدار اور ہمدرد انسان بابا جان کا دوست بن گیا۔ اس نے کرایے کے بغیر ہی ہمیں رہنے کے لئے اپنا مکان دے دیا۔ یہ گھر خالی پڑا ہوا تھا اور وہ کسی کو کرائے پر دینا نہ چاہتا تھا۔ اس کا نام عالم خان تھا، اس نے بابا جان کو اپنے کاروبار میں شامل کر لیا۔ اللہ کی رحمت سے بابا کے کاروبار میں شامل ہوتے ہی بزنس میں برکت ہوئی تو عالم خان ان کو اچھا خاصا منافع دینے لگا۔ اس کو یقین ہو گیا کہ میرے بابا اس کے لئے لکی ثابت ہوئے ہیں۔ میں نے شہر آکر کالج میں داخلہ لے لیا۔ حالات نے کئی رخ بدلے، مجبوریوں نے کئی روپ دھارے مگر ہمارے حوصلے پست نہ ہوئے۔ میں اپنی منزل کے حصول کی خاطر مستقل سفر میں رہی۔ مسلسل محنت نے میرے جذبات منجمد کر ڈالے۔ مجھے کسی شے سے دلچسپی نہ رہی یہاں تک کہ حارث کی یادوں کو بھی دل کی زمین میں گہرا گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ ایک دن خبر ملی کہ حارث کی شادی ہمارے گائوں کے قریب ایک زمیندار کی صاحبزادی سے ہو گئی ہے۔ یہ خبر سُن کر یکا یک سویا ہوا دکھ کچھ جاگ اُٹھا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے مگر اب یہ دل ان صدموں کے سہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ دو سال کی سخت محنت کے بعد مجھے میرٹ پر میڈیکل کالج میں داخل مل گیا۔ میں نے جن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھے تھی، وہ صرف میں ہی جانتی تھی ، اسی لئے میں اپنا سارا وقت تعلیم پر توجہ دینے میں صرف کر رہی تھی۔ کوئی کیسی زندگی بسر کر رہا ہے ، اس بات سے مجھ کو کوئی سروکار نہ تھا۔ سلطان ہماری کلاس کا لائق لڑکا تھا۔ میں پڑھائی کے ہر مسئلے پر اس سے مدد لیا کرتی تھی۔ وہ قابل ہونے کے ساتھ ساتھ نیک اطوار تھا۔ کبھی کبھی پوچھ لیا کرتا تھا کہ تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو ؟ اس سوال کے جواب میں بھی میں خاموش ہی رہتی تھی۔ جب ہم نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا۔ آخری ملاقات والے دن سلطان نے اپنے دل کی بات ظاہر کر دی۔ اس نے کہا۔ میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں رشتے کے لئے ، کیا تم مجھے سے شادی کرو گی؟ یہ بات شروع سے میرے دل میں تھی مگر اب اسے کہہ دینے کا وقت آ گیا ہے۔ اس نے بتایا۔ اس کو کیا بتاتی کہ میں محبت کی بازی ہار کر کس طرح یہاں تک پہنچی ہوں۔ اگلے دن وہ لوگ ہمارے گھر آئے۔ میرے والدین کو سُلطان اور اس کے گھر والے پسند آئے ، رشتہ طے ہو گیا۔ ہائوس جاب مکمل ہونے کے بعد میری رخصتی ہو گئی۔ میری اور سلطان کی ایک ہی اسپتال میں تعیناتی تھی۔ برسوں بعد ایک دن چچا اور چچی اسپتال آئے۔ چچی بیمار تھیں۔ مجھے دیکھ کر گلے لگ کر رونے لگیں۔ بتایا کہ حارث کی بیوی اچھی نہ نکلی۔ اس مغرور لڑکی نے میری یہ حالت کر دی ہے۔ اس کو اپنے باپ کی جاگیرداری کا گھمنڈ ہے۔ حارث بھی ایل ایل بی کرنے کے باوجود وکالت نہ کر سکا۔ ہم نے تم جیسی پیار کرنے والی نیک بخت اور ہیرے جیسی کو ٹھکرایا، ہمیں اس کی سزا مل گئی ہے۔ مجھے چچی کی حالت پر بہت دکھ ہوا، لیکن کیا کر سکتی تھی۔ میں نے ان کے علاج میں توجہ سے مدد ضرور کی۔ انہوں نے بتایا کو بہو نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ اب تو حارث بھی بیوی کے رویے سے نالاں ہے ، ہم میں سے کوئی اس رشتہ سے خوش نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ چچی جان صبر کریں، جو بھی حالات ہیں، نباہ تو کرنا ہو گا۔ خاندانی لوگوں میں طلاق نہیں ہوتی۔ ہاں بیٹی ، یہی شرافت تو مارے دے رہی ہے۔ کیا کریں۔ اچھا بیٹی تم اپنی بتائو ! تم تو خوش ہو ؟ اللہ کا شکر ہے میں بہت خوش ہوں۔ سچ ہے اللہ کسی کا صبر اور محنت ضائع نہیں کرتا۔ صلے میں مجھے سُلطان جیسا اچھا شوہر اور نیک سسرال ملا ۔ ہمارے دو پیارے پیارے بچے ہیں۔ دُعا کریں خُدا میری خوشیوں کو سلامت رکھے۔ تبھی میں نے سوچا کہ میرے پاس خُدا کی دی ہوئی ہر نعمت ہے اور وہ دکھ بھی دل سے محو ہو چکا ہے جو مجھے حارث سے ملا تھا۔ اگر میں نے ہمت نہ کی ہوتی تو آج میری زندگی اتنی روشن اور شاداب نہ ہوتی۔(ختم شد)
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top