Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Family نضرت اور ابا۔ دیسی باپ بیٹی بنے میاں بیوی

Dom bess

Well-known member
Joined
Jan 28, 2023
Messages
111
Reaction score
8,437
Points
93
Location
Multan
Offline
نضرت کا گاؤں شہر سے کافی دور دریا کے کنارے موجود تھا جسے پنجابی میں کدھی کہتے ہیں جبکہ عرف عام میں کچے کا علاقہ مشہور ہے ویسے تو بیک ورڈ ایریا ہونے کی وجہ سے زیادہ ترقی یافتہ تو نہیں لیکن زرخیر زمین اور دریا کے پانی کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی کافی بہتر ہے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ بہتر زندگی گزار رہے ہیں علاقہ کپاس اور گنے کی پیداوار میں خود کفیل ہے گاؤں کے اردگرد کی ساری زمین کپاس اور گنے کی فصلوں سے بھری رہتی ہے یہاں زیادہ تر وڈیروں کی زمین ہیں اور گاؤں کے باسی انہی زمینوں پر بطور مزارے کام کرتے ہیں لوگوں نے جانور بھی رکھتے ہیں جو انہیں زمینوں پر سے گھاس یا بارہ حاصل کرکے پالتے ہیں نضرت کا خاندان بھی باقی لوگوی کی طرح مزارہ ہے چند ایکڑ زمین ایک وڈیرے نے انہیں دے رکھی ہے جس کے عوض وہ وڈیرے کے ڈیرے پر کام کرتے ہیں جو وہیں گاؤں میں ایک طرف موجود ہے جہاں وڈیرہ کبھی کبھار آتا ہے ڈیرے پر وڈیرے نے ساتھ ہی گھوڑوں کا اصطبل بنا رکھا ہے جس میں کافی اچھل نسل کے لاتعداد گھوڑے ہیں گاؤں کے ہر گھر کا ایک یا دو بندے یہاں کام کرتے ہیں جس کے بدلے انہیں وڈیرے کی زمین میں سے کچھ زمین ملی ہوئی ہے جس پر وہ کام کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں نضرت2 بہنیں دو بھائی ہیں نضرت 32 سال کے لگ بھگ ہے نضرت صرف پانچویں تک ہی پڑھی جو اسکا سکول میں موجود لڑکوں کے سکول میں اکثر لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ وہ بھی لڑکوں کے ساتھ پانچ تک پڑھیں تھی نضرت سے چھوٹا اس کا بھائی ندیم جس کی عمر 30 سال تھی وہ بھی ابھی غیر شادی شدہ اور اکثر وقت وڈیرے کے ڈیرے پر گزارتا تھا وہ ایک طرح سے وڈیرے کے خاص بندوں میں شامل تھا دیمی دس تک پڑھا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا اس لیے وہ منشی کے ساتھ تھا اور اصطبل کے روزمرہ کے انتظامی کاموں میں ہاتھ بٹاتا تھا اس سے چھوٹی جویریہ کی عمر 25 سال تھی جویریہ دس تک پڑھی تھی وہ اکثر گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی سب سے چھوٹا عرفان تھا جس کی عمر 22 سال تھی وہ بارہویں پاس تھا اور حال ہی میں اسے وڈیرے نے قریب سے دریا سے نکلنے والی نہر پر رکھوالی والا ملازم رکھوایا تھا ماں باپ ژندہ تھے نعیمہ کا ابا جس کا نام رشید تھا جسے اکثر شیدو ہی پکارا جاتا وہ اب ڈیرے پر کم ہی جاتا تھا جب کہ زیادہ تر جانوروں کا کام ہی کرتا تھا شیدو کا ابا یعنی نضرت کا دادا ابھی تک ژندہ تھا وہ 70 سال کے لگ بھگ تھا وڈیرے کی زمینوں پر وہ بھی کام کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی صحت مند اور تگڑا تھا اس کا نام نورا تھا نضرت بھی ابے کے ساتھ جانوروں کا چارہ وغیرہ کاٹنے پاس کی فصلوں میں جاتی جہاں سے وہ گھاس وغیرہ کاٹ کر لاتے اور ڈنگروں کو ڈالتے جویریہ ماں جمیلہ کے ساتھ کام کرواتی تھی جویریہ کا گھر تین کمروں پر مشتمل تھا ایک کمرے میں اماں ابا ایک دونوں بہنوں کا ایک بھائیوں کا ایک طرف ڈنگروں کے کمرہ اور دیوار بنا کر حویلی کو گھر سے الگ کر رکھا تھا جبکہ بیچ میں صحن تھا جس میں دو تین درخت لگے تھے کمروں کے آگے برآمدہ تھا گھر پکی اینٹوں کا تھا لیکن پلستر نہیں ہوا ہوا تھا نضرت سمیت سبھی غیر شادی شدہ تھے اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ نعیمہ کے رشتہ داروں میں نضرت کا میچ کا کوئی رشتہ نہیں مل رہا تھا جس وجہ سے نضرت کے ساتھ باقیوں کی بھی شادی رہی ہوئی تھی نعیمہ کی ماں اب پریشان تو تھی کہ عمر نکلی جا رہی ہے ادھر نضرت کے جذبات بھی اب بے قابو ہونے لگے تھے عمر کا تقاضہ بھی تھا اس عمر میں تو جذبات بھی بے قابو ہی رہتے ہیں نضرت شکل وصورت کے اچھی اور خوبصورت تھی رنگ ہلکا سا گندمی لمبا قد چوڑا جسم جو ہلکا سا بھرا ہوا تھا جسامت کے لحاظ سے نضرت کافی خوبصورت تھی بھرا ہوا پھرتیلا بدن کام کی وجہ سے بدن کے مسلز سخت تھے چوڑا سینہ اور ابھرے ہوئے باہر کو نکلے ممے چوڑے کولہے لہراتی کمر چلتی تو لہرا کے چلتی لمے خوبصورت بال جو ہمیشہ گت بنائے رکھتی نضرت کا ابا شیدو اور نضرت اکثر اکھٹے ہی ہوتے تھے کیونکہ دونوں مل کر کر کام کرتے تھے نضرت کام کاج کے بعد اکثر کپڑوں پر پھول بوٹے بھی ٹانکتی تھی وہ جب اکثر فری ہوتی تو عجیب سے گندے خیال اس کے ذہن کو گھیرے رکھتے جس سے اسکے جذبات کافی مچل جاتے جن کو قابو کرنے کےلیے وہ اکثر رات کو انگلی پھیر لیتی وہ اپنے جذبات کو اب اکثر قابو نہیں کر پا رہی تھی صبح کھانے کے بعد نعیمہ ابے کے ساتھ جب گاس جاتی تو اکثر پاس سے گزرنے والے مردوں کو کن اکھیوں سے ٹٹولتی رہتی لیکن وہ ڈرتی بھی تھی اور ہمت بھی نہیں کرتی تھی کہ اس سے آگے بڑھ سکے نضرت صرف مردوں کو دیکھ کر آنکھیں سیک لیا کرتی تھی نضرت کی بے قراری دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اب اس کا گزارہ صرف انگلی پر نہیں ہو پا رہا تھا وہ کسی مرد کی تلاش میں تھی ایک دن نضرت دوپہر کو گاس کاٹ کر لائی اس نے گھاس اندر رکھا ابا ابھی کہیں پیچھے تھا گھاس دونوں اکٹھے کاٹتے کچھ نضرت سر پر اٹھا لاتی کچھ گدھی پر لاد کے ابا لے آتا نضرت نے اندر گھاس رکھا اسے پیشاب کی حاجت ہوئی نضرت کے گھر میں ابھی تک لیٹرین نہیں بنی تھی گاؤں کی کھلی حویلیوں میں نلکے ہی تھے ابھی تک موٹر تھی لیکن وہ ضرورت کے وقت چلائی جاتی جب کپڑے دھونے ہوں یا جانوروں کو پلانا ہو نضرت کے گھر نلکے کی کافی کھلی چار دیواری اور ساتھ ہی کھلا صحن تھا جس میں فرش لگا ہوا تھا گھر کی عورتیں جب بھی چھوٹے پیشاب کی حاجت ہوتی تو وہیں نلکے کے ایک کونے میں جگہ بنی ہوئی تھی جو کہ ڈھکی ہوئی بھی نہیں تھی صرف چار دیواری تھی وہیں کر لیتیں نضرت بھی جلدی سے گئی اور وہیں بنی ہوئی جگہ پر بیٹھ گئی نضرت گرم تو ہر وقت رہتی تھی امی اور جویریہ کیچن والی طرف تھیں شاید گھر پر اسی وقت بابا بھی آیا تھا باہر زمین سے پیشاب کرکے اسے بھی استنجا کرنا تھا جیسے ہی نضرت شلوار گھٹنوں تک اتار کر نیچے بیٹھی تو اس کے موٹے پھیلے چتڑ ننگے ہوکر مزید پھیل گئے جس کے ساتھ ہی شررر کی آواز سے پیشاب کی دھار نضرت کی سیٹی سے نکل کر بہنے لگی بابا بھی اپنے خیال میں نلکے کی طرف بڑھا جیسے ہی وہ اندر نلکے میں گھسا سامنے اسکی بڑی پوتی نضرت ننگی بیٹھی تھی بابے کی نظر سیدھی اپنی پوتی کی شررر کرتی آواز کی سمت میں سیٹی پر گئی سیٹی کے ہونٹ ہلکے سے کھلے تھے اور پانی بہ رہا تھا جس کو دیکھ کر بابا چونکا نضرت کا منہ نیچے تھا ایک لمحے کےلیے اس نے اوپر دیکھا تو دادے کو دیکھ کر وہ چونکی اور تھوڑے غصے کے انداز میں بولی بابا ویکھ تے لئے میں موتردی پئی آں بابے نے پوتی کی سیٹی سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا تو وہ اس کے چہرے پر اضطراب تھا بابا بھی بوکھلا کر کھڑا ہوگیا لیکن ہٹا نہیں نضرت کا پیشاب اتنی تیزی سے بہ رہا تھا کہ وہ روک نا پائی اور روکے بغیر اٹھ نہیں سکتی تھی بابے کو بھی سمجھ نہیں آئی اس نے انجانے میں ایک نظر بھر کر پھر سے پوری کی سیٹی کو دیکھا تو اس بار نضرت کی اپنی سیٹی بجی گن ہو گئی بے اختیار نا چاہتے ہوئے بھی اس کی سیٹی نے ہونٹ دبا کر سختی سے چھوڑے اور ہلکی ہلکی پچ پچ کرنے لگی بابا بے اختیار پوری کی سیٹی کی بے تابی کو دیکھے جا رہا تھا یہ دیکھ کر نضرت کا منہ شرم سے لال ہوگیا یہ سوچ کر کہ کوئی اسکی سیٹی کو دیکھ رہا ہے اس کے کان گرم ہوگئے ہلکی سا مزہ اسکے من اترا تو سہی لیکن دیکھنے والا دادا تھا یہ سوچ کر وہ چونکی اور پھر تھوڑا ناگوار اور التجائی لہجے میں بولی باباااا۔۔ کی پیا کردا ایں موترن تے دے مینوں۔۔ بابے کے تو حوش ٹھکانے نہیں رہے تھے اتنی شاندار اور کواری سیٹی دیکھ کر جس کی دیواروں پر ہلکے ہلکے بال صاف نظر آرہے تھے جس سے سیٹی بہت خوبصورت لگ رہی تھی بابے کو بھی ہوش آیا کہ سامنے بیٹھی کوئی اور نہیں بیٹی ہے تو وہ جلدی سے ہٹ گیا پر ہوش اس کے بھی اڑ گئے تھے نضرت کا منہ لال ہوچکا تھا وہ پیشاب کر چکی تھی پر اس کی شہوت نے اسے پانی پانی کردیا یہ دیکھ کر وہ شرمندہ بھی ہوئی اور دماغ سے دل کو سمجھانے لگی کہ یہ کیا سوچ رہی تھی میں جلدی سے اٹھ بیٹھتی دادا تھا میرا پر دل تھا کہ مچل چکا وہ ہاتھ دھو کر نکلی تو بابا حویلی میں تھا اس نے نضرت جو نکلتے دیکھا تو وہ نکلے کی طرف چل پڑا نضرت حویلی میں ڈنگروں کو کھول کر اندر باندھنے لگی تھی چھپرے میں جو کہ لکڑیوں کا بنا تھا نضرت کھول کر لا رہی تھی تو اس نے دیکھا تو بابا لوٹا بھر کر بیٹھ راہ تھا اچانک اس کے دل نے پیغام بھیجا کہ بابا ابھی تک تگڑا ہوگا جو ۔جھے یوں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا ہوگا جس سے اسے اپنے تنے موٹے مموں کی نپلز میں ہل چل محسوس ہوئی جو کہ اکڑنے لگے تھے شہوت سے جس پر وہ مچل سی گئی اس کی عادت تھی گھر میں اکثر کام کرتے دوپٹہ اتار دیتی نضرت کے تنے نپلز سے نضرت مچلی تو اس نے بے اختیار ہاتھ اٹھا کر کچھ سوچتے ہوئے اپنے قمیض کے اوپر سے ہی نپل کر دبا کر مسلا اسی لمحے اسکا ابا بھی گدھی لیے اندر آگیا جس نے اپنی بیٹی کو اپنے تنے ہوئے ممے کا نپل مسلتے دیکھ لیا تھا جس پروہ بھی چونکا اور ایک نظر بھر کر اپنی بیٹی کے تن کر کھڑے مموں کو غورا نضرت کی نظر ابے پر پڑی جو اسے اپنا مما مسلتے ہوئے غورتا گھونٹ بھر رہا تھا یہ دیکھ کر نضرت شرم سے چونک گئی اور منہ نیچے کر گئی ساتھ ہی ابا بھی نظر چرا گیا نضرت نے جلدی سے منہ پھیرا اور دوسرے ڈنگر کی طرف مڑ گئی یہ سب دیکھ کر اسے بھی برا تو لگا پر کہیں دل میں ہلچل بھی مچی اس کے بعد اس نے نوٹ کیا کہ ابا اسے کام کرتے ہوئے غور رہا تھا اس نے ابے کی نظروں کو غورتے ہوئے ایک دو بار پکڑا بھی تھا وہ یہ سب دیکھ کر حیران بھی ہوئی کہ ابا اپنی بیٹی کے بارے ایسے کیسے سوچ سکتا ہے خیر کام کرکے وہ کچھ دیر لیٹ گئی اس کے خیالوں میں ابے اور بابے کے ساتھ ہوئے واقعات کو سوچ کر کافی گرم ہو رہی تھی وہ سوچ رہی تھی کہ ابا تو ابھی جوان ہے اس کی آنکھ تو بھٹک سکتی ہے بابا بھی بھٹک گیا یہ سوچ کر اسے خماری چڑھ رہی تھی وہ یہ سوچ کر کہ کس طرح بابا منہ کھولے مجھے پیشاب کرتا دیکھ رہا تھا وہ ہنس دی اسے شرم بھی آئی پر عجیب سا مزہ اس کے انگ انگ میں دوڑ رہا تھا وہ سوچنے لگی مرد کی نگاہ میں کتنا مزہ ہے ابھی تو مجھے بابے اور ابے نے دیکھا تو میرا بدن مچل رہا ہے سچ میں اگر پرایا مرد دیکھے گا تو مزہ جائے گا نضرت سوچ تو رہی تھی لیکن ابھی اس کے ذہن میں کچھ غلط نہیں آیا تھا ابے اور بابے کو لے کر وہ تو بس سوچ رہی تھی مزے کے بارے میں وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کی ماں جمیلہ اندر آئی اور بولی نضرت جاگ جا نضرت بولی امی جاگدی پئی آں خیر اے وہ بولی ہاں تے کندورا نہوں سیتا نضرت بولی امی آج تھوڑی تھک گئی پاس گھاہ تھوڑا دورو چا کے لیاندا تے ساہ کڈھ کے کڈھدی آں جمیلہ بولا ہلا وت پیو نوں چاہ بنا دے آپ وی پی لئے میں تھوڑا باہر تک جاؤ ہاں تے جویریہ گوانڈیاں آل گئی اے وہ بولی اچھا اماں جمیلہ نکل گئی نضرت کو خود بھی طلب ہو رہی تھی چائے کی وہ اٹھی اور چائے بنانے لگی اسے بابے کا خیال آیا کہ اس سے پوچھ لوں اس نے بھی چائے پینی ہے کہ نہیں وہ سوچتی ہوئی وہ بابے کو ڈھونڈتی ہوئی حویلی کی طرف گئی حویلی کے پاس ڈنگروں والے کمرے کے ساتھ اکثر بابا بیٹھا رہتا تھا نضرت جیسے ہی حویلی کے کمرے پر گئی تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے حوش ہی اڑ گئے سامنے بابا بستر سے ٹیک لگائے بیٹھا اس نے اپنی لنگی ہٹا رکھی تھی جس سے سامنے بابے کا ہتھیار تن کر کھڑا تھا بابا ہتھیار مسل رہا تھا نضرت کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ بابے کے ہتھیار ہو دیکھتی ہوئی گھونٹ بھر کر رہ گئی بابے سسکتا ہوا اپنی مٹھ لگا رہا تھا نضرت یہ دیکھ کر ہکا بکا ہوگئی بابے کا ہتھیار ٹھیک ٹھاک تھا یہ دیکھ کر تو نضرت اور حیران ہوئی اسی لمحے بابے نے سسکی بھری اور کراہ کر ایک لمبی پانی کی دھار پھینکی بابے نے دو تین دھاریں ہی ماری تھی کہ بابا پیچھے لیٹنے لگا تو اسکی نظر دروازے پر پڑی جہاں اس کی پوتی نضرت کھڑی اسکے نظارے کر رہی تھی بابا سنبھلتا نضرت جلدی سے ہٹ گئی نضرت کی اپنی حالت بری تھی اس نے مرد کا ہتھیار یوں پہلے بار دیکھا تھا جس کو دیکھ کر اس کے اندر ہلچل مچ چکی تھی وہ اندر گئی اور چائے پکانے لگی نضرت کے ذہن سے اب بابے کا ہتھیار نکل ہی نہیں رہا تھا شہوت تھی کہ انگ انگ میں بھر چکی تھی نضرت کی رانی پانی پہ پانی چھوڑ رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ چائے پکا کر انگلی لگا لے چائے پکا کر وہ اٹھی اور پیلے میں ڈال کر اندر کمرے میں لیٹے ابے کو دینے جانے لگی جیسے ہی نضرت نے اندر پاؤں دھرا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی آآآہ ابااا۔۔ اور وہ ڈر سی گئی سامنے اس کا ابا بھی لنگی ہٹائے اپنے کہنی جتنے ہتھیار کو ہڑا کر لیٹا تھا نضرت تو ابے کے کھوتے جیسے لمبے اور موٹے ہتھیار کو دیکھ کر ڈر ہی گئی تھی ہتھیار تو واقعی ہی کہنی جتنا بڑا اور نضرت تو دیکھ کر ڈر سے پسینے پسینے ہوگئی شیدو جو کہ جمیلہ کے انتظار میں لیٹا تھا وہ بھی اپنی بیٹی نضرت کی چیخ سن کر اسے دیکھ کر چونکا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ کر لنگی جلدی سے ہتھیار پر ڈال کر اٹھ بیٹھا نضرت نے جلدی سے پیالہ سامنے رکھا اور جلدی سے مڑ گئی نضرت کی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا وہ تیز چلتی کیچن میں گئی اور سانسیں ٹھیک کرتی ہانپنے لگی شیدو بھی یوں بیٹی کو ننگا ہوکر لن دکھانے پر چونک سا گیا اس کی نظر میں بیٹی کا پورا جسم ایک بار گھوم گیا نضرت کا بھرا ہوا کسا ہوا جسم جس پر اٹھے ہوئے تھن۔کمال لگ رہتے تھے وہ یہ دیکھ کر مچل تو گیا پر یوں بیٹی کو ہتھیار دکھا کر شرمندہ بھی ہوگیا کہ بیٹی کیا سوچے گی ادھر نصرت کا تو حال ہی برا تھا اس نے چائے پیالہ میں ڈالی اور ابے کے ہتھیار کا سوچتی وہیں بیٹھ کر گھٹا گھٹ پی کر کمرے میں آگئی اس کی آگ اسے بےقدار کر رہی تھی اسبے اور بابے کے ساتھ آج ہوئے منظر پر وہ گرم توا تھی بے اختیار ابے کے ہتھیار کا سوچتی نضرت اپنی رانی کو مسلنے لگی اس سے پہلے کہ وہ خود کو ٹھنڈا کرتی باہر جویریہ کی آواز آئی جس سے وہ جلدی سے چوکنا ہو گئی جویریہ اندر آئی تو باجی کو لیٹا دیکھ کر بولی باجی ٹائم ہے تے کندورے کڈھ لوئیے نضرت چاہ کر بھی انکار نا کر سکی اور دونوں کندورے ٹاکنے لگیں۔ کندورے بناتے دونوں کو دوپہر ہو گئی جمیلہ اتنے میں واپس آئی تو شیدو اندر سے نکلا وہ ابھی تک اندر ہی تھا اس نے نضرت کو آواز لگائی نضو ڈانگراں نوں پانی ہوا تے گھاہ پا جمیلہ بولی جویرو توں تندوری تا تے نضو پٹھے پا کے روٹیاں لیندی اے نضرت اٹھی اور جا کر پانی پلانے لگی اندر سے بابا نکلا جو نضرت کو دیکھ کر بولا نضو روٹی نہوں پکاؤ نضرت بولی پکاؤ آں ابا نضرت دوپٹے کے بغیر تھی اس کے مموں کی اٹھان شاندار تھی جسے دیکھ کر بابے نے ایک نظر نضرت کے جسم پر گھمائی اور پھر بابا نلکے میں چلا گیا نضرت کے کان بھی کھڑے تھے اس کے اندر ہلچل جاری تھی نضرت نے پانی پلا کے گھاس ڈالا اور پھر اس نے ہاتھ منہ دھوئے تو جویرو بولی باجی روٹیاں پکا آکے نضرت بولی ہلا وہ گئی صحن کے سامنے ہی بنی دیورا جو کہ ڈنگروں کی حویلی سے الگ کرتی تھی اس پر ایک طرف تندوری لگی ہوئی تھی اس پر جا کے نضرت کھڑی ہوئی اور روٹیاں پکانے لگی وہ جب روٹیاں بنانے لگتی تو اس کا بھرا ہوا چوڑا جسم سارا تھرکتا خاص طور ممے تو کافی ہلتے اوپر کھلے گلے والی قمیض میں سے مموں کی لکیر تو صاف نظر آ رہی تنے ہوئے ممے بھی صاف نظر آرہے تھے روٹیاں بناتے ہوئے اس کی نظر سامنے گئی تو سامنے برآمدے میں شیدو بیٹھا اپنی بیٹی نضرت کے جسم کو تاڑ رہا تھا جسے دیکھ کر نضرت تھوڑا کسمسا کر ماں کو دیکھا جس کی کمر اس طرف تھی نضرت نے نظر جھکا لی اس کا دل دھک دھک کرنے لگا نضرت کو سامنے بیٹھا کوئی اور نہیں بلکہ سگا باپ ہی تاڑ یا تھا جسے دیکھ کر نضرت ایک بار تو کسمسا گئی اس کے دل میں ہلچل سی مچ گئی اس کے ذہن نے غلط سمجھا لیکن دل تو مچل رہا تھا دل اسے کہ رہا تھا باپ ہے تو کیا ہوا ہے تو مرد دیکھنے دے آخر اس نے دل کی مانی کیونکہ اسے دل کی ماننے میں مزہ آ رہا تھا اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے شیدو ابھی تک اسے دیکھ رہا تھا اس کا ایک ہاتھ لنگی میں تھا جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے ابے کا کہنی جتنا ہتھیا دوڑ گیا جس سے اسکا دل اچھل کر منہ کو آگیا نضرت کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سینے پر کھینچاو بڑھ رہا تھا اور نپلز تن کر سخت ہوتے اسے صاف محسوس ہو رہے تھے نضرت کے ممے تن کر کھڑے ہوچکے تھے نضرت کی نظر باپ کے ہاتھ پر تھی نضرت کی آنکھوں کے سامنے باپ کا ہتھیار دوڑ رہا تھا اس نے دل میں سوچا ہالنی اماں مر جاواں ابے دا تے گھوڑے جیڈا اے یہ سوچ کر نضرت چونکی اور غیر ارادی طور پر ہی نضرت کی ہنسی سی نکلی جسے دیکھ کر شیدو سمجھا کہ اس کی بیٹی اس کو دیکھ کر ہنس رہی ہے تو وہ بھی مسکرایا کہ گل بن گئی نضرت کی ہنستے ہوئے ابے پر نظر پڑی تو وہ کسمسا کر منہ نیچے کر گئی اس کا منہ شرم سے لال سرخ ہوگیا نضرت سر سے پاؤں تک شہوت سے پانی پانی تھی اس وقت اگر شیدو اسے پکڑ لیتا تو وہ ناہں نہیں کرتی جمیلہ کی آواز پر نضرت چونکہ جو اسے کہ رہی تھی کہ روٹیاں اتار اندر سے نضرت روٹیاں اتار لیں اور پھر اندر لائی اس دوران اس نے کچھ زیادہ خاص نہیں کیا کچھ دیر بعد نضرت نے سب کو کھانا دیا اس وقت اس کے بھائی کام پر ہوتے تھے وہ وہیں کھاتے تھے کچھ دیر بعد سب لوگ کھانا کھا کر آرام کرنے لگے نضرت کی ابے کے بارے سوچتے آنکھ لگ گئی اسے جاگ ہوئی تو جمیلہ کہ رہی تھی نضو اٹھی پیو اکھ رہیا ہئی ڈنگراں نوں پٹھے پا نضرت اٹھی اور سیدھی نلکے گئی اس نے پیشاب کیا اسے پاخانے کی حاجت ہوئی پر اس نے سوچا ابھی گھاس کاٹنے جانا ہے تو کر لے گی نضرت نے ڈنگروں کو پانی پلایا ابا گدھا تیار کرہا تھا گھاس کےلیے نضرت اندر گئی جو گھاس بچا تھا وہ اٹھانے شیدو اسے اندر جاتا دیکھ رہا تھا اسی لمحے وہ بھی اندر آگیا نضرت جھک کر کھڑی تھی اپنی بیٹی کی باہر کو نکلی موٹی گانڈ دیکھ کر شیدو مچل سا گیا اور لپک کر اپنی بیٹی کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے ساتھ دبوچ لیا نضرت اس اچانک حملے سے گھبرا گئی اور وہ چلا کر بولی اوئے ہالیوئے میں مر گئی اماں اسی لمحے اسے اپنی گانڈ پر کچھ چھبا اور ساتھ ہی اسے مرد کے مضبوط ہاتھ کمر کو دبوچتے محسوس ہوئے اس نے کھڑے ہوکر دیکھا تو ابا تھا جسے دیکھ کر ایک بار تو اس کا دل منہ کو آگیا جو بھی تھا پہلے جو بھی جذبات تھے سچے کو ساتھ چپکا دیکھ کر نضرت تو شرم سے پانی پانی ہو گئی اور بھرا کر بولی ابا اے کی پیا کردا ایں شیدو کچھ نا بولا اور ہاتھ اوپر کرکے بیٹی کے موٹے تنوں ابھاروں کو پکڑنے کی کوشش کی تو نضرت بولی ابااا کی پیا کردا ایں کجھ حیا کر دی آؤں تیری پر شیدو کے ذہن پر شیطان سوار تھا نضرت کو بھی گانڈ پر ابے کی بلا چبھ رہی تھی اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا وہ یہی سوچ رہی تھی کہ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے باپ بیٹی ایسا کر سکتے ہیں بھلا انہی سوچوں میں شیدو ہلکے ہلکے جھٹکے مار رہا تھا جبکہ نضرت چھڑوا رہی تھی مزہ تو اسے بھی آرہا تھا کہ باہر آہٹ سی ہوئی نضرت بولی ابا چھڈ کوئی ہئی شیدو کو بھی کوئی لگا کہ کوئی ہے شیدو چھوڑ کر پیچھے ہٹا تو سامنے بابا تھا نضرت کا داد اسے بھی کچھ سمجھ لگ گئی تھی کہ کیا ہو رہا ہے نضرت کا سانس چڑھا دیکھ کر بولا کی پئے کردے ہو اس نے ایک نظر دیکھا تو سمجھ گیا نضرت نے جلدی سے گھاس اٹھایا اور باہر نکل گئی اس کا دل تو یہ دیکھ کر دھک دھک کرتا حلق کو آچکا تھا نضرت جلدی سے باہر نکل گئی بابا بولا جاؤ گھاہ وڈھ لیاؤ شیدو بولا بابا جانے پئے آں اسے ابے پر غصہ بھی آیا نضرت نے گھاس ڈالا تو شیدو بولا چل نضرت گھاہ وڈھ لیائیے نضرت چپ چاپ ساتھ چل پڑی اس کا ذہن طوفانوں میں گھرا تھا کہ وہ یہ کیا کرنے جا رہی ہے اسکا دل اسے بار مجبور کر رہا تھا نیچے اس کی رانی بھی بے قرار تھی انہی سوچوں میں گم اسے خبر نہیں ہوئی کہ اس کا باپ اسے کہاں لے آیا ہے یہ نہیں کے پاس کماد کے گھنے کھیت تھے اور وہ ان کے بیچوں بیچ کھڑے تھے شیدو کو پتا تھا اس طرف لوگ کم ہی آتے ہیں ویسے بھی نضرت اس کی بیٹی تھی اس لیے کسی کو شک بھی نہیں ہوگا کہ اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے نضرت نے ویرانہ دیکھا تو دل ہی دل میں اے ابا کدے لئے آیا اسے پاخانے کی حاجت بھی تھی وہ بولی ابا ایتھے کدے لئے آیا ایں جس پر شیدو بولا ایتھے گھاہ چنگا اے نضرت سمجھ کہ اب اسکی خیر نہیں لیکن اسے پاخانے نے تنگ کیا ہوا تھا پہلے اسے ہلکا ہونا گا وہ بولی اچھا ابا میں ہولی ہو لواں تو ودھ وہ مڑی ایک کھیت میں گھس گئی لیکن آگے نا جا سکی کہ کھیت گھنا تھا وہ وہیں بیٹھ کر ہلکی ہونے لگی اس نے دیکھا تو ابا سامنے ہی کھڑا تھا جو اپنی لنگی میں ہاتھ ڈالے ہتھیار کو مسل رہا تھا وہ منہ نیچے کر گئی اور ہلکی ہو کر اٹھی قریب ہی کھالا بہ رہا تھا جہاں وہ استنجا کرنے گئی وہ اپنی گانڈ صاف کر رہی تھی کہ اس کی نظر پیچھے پڑی جہاں اس کا باپ لنگی اتار کر ننگا کھڑا اپنا گھوڑے جتنا ہتھیار مسلتا ہوا اپنی بیٹی کی رانی کو غور رہا تھا نضرت بولی ابا کجھ حیا کر دھی ہاں میں تیری ابا ہانپتا ہوا بولا وت کے ہویا تیرادل کردا اے تے توں وی کر لئے نضرت منہ نیچے کر گئی اس نے اپنی گانڈ صاف کر لی تھی چھیدا پیچھے سے اپنی بیٹی کی گانڈ اور پھدی کو دیکھ کر مچل رہا تھا نضرت سوچ رہی تھی کہ کہاں پھنس گئی ہوں اور وہ اٹھنے لگی کہ اتنے میں چھیدو نے بیٹی کے چڈوں کا نشانہ تاک پیچھے سے آکر لن بیٹی نضرت کے چڈوں میں دبا کر اسے پیچھے سے دبوچ لیا نضرت ابے کا گرم لن چڈو میں محسوس کرکے مچھلی کی طرح تڑپی اور کرلا سی گئی اپنی گرم پھدی پر ابے کا تپتا لن محسوس کرکے نضرت ایک بار تو تڑپ کر کرلا کر بولی ااااااہہہہہ اممماااںںںں نضرت کو ایسا سکون ملا کہ نضرت کے سینے تک ٹھنڈ سی پڑ گئی اگلے لمحے چھیدے نے نضرت کے مموں کو دبوچا تو نضرت مزید تڑپ کر اکھٹی سی ہو گئی اتنے میں اسے کرنٹ سا لگا کہ یہ تو ابے کا لن ہے تو وہ بہکی اباااا کی پیا کردا ایں نا کر اے غلط اے چھیدو بولا میری دھی تینوں سواد نہیں آیا تے گل کر نضرت بولی اوہں ابا سمجھ نا اے ٹھیک نہیں کسے نوں پتا لگا تے کی ہوسی چھیدا بیٹی کو سینے سے لگا کر بولا نضرت کسے نوں پتا نہیں لگدا بس تھوڑی دیر میں اتے اتے کرساں گیا اور نضرت کی گال کو چوم لیا نضرت کی پھدی سے ٹچ ہوتا لن جضرت کے اندر کہرام مچا رہا تھا وہ چپ سی کر گئی تو چھیدا بیٹی نضرت کو چومتا ہوا اپنی کمر ہلاتا ہلکے ہلکے دھکے مارتا لن اپنی بیٹی نضرت کے چڈوں میں پھیرنے لگا نضرت ابے کے گرم موٹے تگڑے لن کو پھدی پر پھرتا محسوس کرکے مچل کر کراہ سی گئی تھی بے اختیار اس نے منہ ابے کی طرف کیا اور ابے کے ہونٹ منہ میں بھر کر دبوچ لیے چھیدو بھی اپنی بیٹی کے ہونٹ چوستا ہوا تڑپ سا گیا چھیدو کا ڈنڈے کی طرح سخت لن اسکی بیٹی نضرت کی پھدی کو مسلتا ہوا آگے پیچھے ہورہا تھا چھیدو کا لن بیٹی کی پھدی کے دہانے اور دانے کو مسل رہا تھا دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کی گرمی کو برداشت نا کر پائے اور منٹ میں ہی دونوں کراہتے ہوئے جھڑ گئے نضرت جو گرم ہی اتنی تھی کہ مرد کا لن پہلی بار پھدی پر محسوس کرکے بے قابو ہوگئی جبکہ چھیدو بیٹی کی پھدی کی گرمی کے آگے ہمت ہار گیا نضرت کی کراہیں نکل کر ابے کے منہ میں دبا گئی دو منٹ میں دونوں فارغ ہوگئے نضرت کا شمار اترا تو اسکا ذہن ملامت کرنے لگا کہ یہ کیا کردیا آگے باپ کے ساتھ ہی میں نے یہ کیا کر دیا وہ جلدی سے آگے ہوئی اور شلواراوپر کرکے بغیر کچھ بولے اندر کماد میں گھس کر بیٹھ کر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی وہ گرمی کے کے آگے اتنی مجبور ہوئی کہ باپ کے ساتھ ہی یہ سب کر ڈالا تجھے شرم نہیں آسکا دماغ پتہ نہیں کچھ کہ رہا تھا گھاس کاٹتے ہوئے اسکا ضمیر ملامت کرتا رہا وہ گھاس کاٹ کر کب گھر آئی اسے پتہ نہیں اس کی طبیعت مسلسل سوچنے سے خراب ہوگئی تو وہ دوا لے کر سو گئی اس کے دل اور ذہن پر عجیب سا بوجھ تھا صبح اٹھی اسے پھر ابے کے ساتھ جانا تھا گھاس کاٹنے لیکن وہ ناہ بھی نہیں کر سکتی تھی اس نے کماد میں جانے سے انکار کردیا ابا اسے کماد کے جانا چاہتا گا پر وہ نہیں گئی اسے پتا تھا کہ وہ گئی تو وہ پھر ابے کی حوس کا شکار ہو جائے گی اس نے ابے سے کہا کہ وہ کپاس سے گھاس کاٹنے گی کیوں کہ وہاں اکثر لوگ ہوتے تھے اور ابے کا دست درازی کرنے کا چانس کم تھا ابے کو مجبوراً اسکی ماننی پڑی اگلے دو دن تک نضرت کے ذہن پر پچھلی ندامت رہی لیکن کب تک آخر شیطان تو شیطان تھا نضرت کو پھر گرمی چڑھنے لگی اسکی عمر کا تقاضہ تھا وہ روز انگلی کرتی رات کو ٹھیک ہوتی لیکن اگلے دن پھر شہوت سے بھرپور ہوتی اس بار چونکہ ابے نے اسکے ساتھ دست درازی کی تو وہ تھوڑی پریشان تھی اس لیے اسے تین چار دن شہوت نہیں چڑھی پر چوتھے دن اسے شہوت نے آن گھیرا اسنے انگلی کی پر نضرت کو سکون نہیں آیا آخر اسے ابے کا خیال آنے لگا لیکن وہ خود کو روکتی رہی اگلے دن اسکا من تھا کہ ابا کماد میں لے جا کر اس کے ساتھ دست درازی کرے پر شیدو بھی اب تھوڑا محتاط ہوگیا کہ کہیں بیٹی شور نا مچا دے اور کام خراب نا ہو جائے شام کو نضرت کو شہوت نے آن گھیرا اور اب وہ پوری طرح سے شہوت کے کنٹرول میں تھی وہ ابے کے ساتھ کماد میں جانا چاہتی تھی پر ابا اسے کپاس کے کھیت میں کے گیا وہ مایوس سی ہوئی پر کہ نا سکی کیوں کہ شرم آتی تھی آخر اس نے رات کو پروگرام بنایا کہ صبح ابے کو خود ہی لے جائے گی اب اس سے شہوت برداشت نہیں ہوتی تھی اس نے کسی طرح رات گزاری صبح ناشتے کے بعد نضرت اٹھی اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی نضرت کو ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن اس کی شہوت اسے بے قرار کیے ہوئے تھی وہ اٹھی تو شیدا بولا نضرت میں کھوتی لئی جاندا کپاہ آل گھاہ وڈھن تے توں ا جائیں نضرت بولی ابا کپاہ اچ ہنڑ گھاہ کم دا کوئی نہیں نہر آلے کماد اچ گھاہ چنگا ہے جتھو پرسوں وڈھیا ہا اوتے چل نضرت کی بات سن کر شیدا چونکا اور نضرت کے چہرے کو دیکھا نضرت منہ نیچے کیے کھڑی تھی شیدا نضرت کو غور رہا تھا نضرت نے نظر اٹھا کر ابے کو دیکھا تو ابے کو یوں حیرت سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر شرما کر منہ نیچے کر گئی ابے کے دل میں لڈیاں پھوٹ گئی اس کا دل کیا کہ ناچنے لگوں کیوں کہ آج اسکی بیٹی خود اسے بلا رہی تھی وہ ہلکی آواز میں بولا نضرت پکی گل اے نضرت نے مسکرا کر سر ہلایا تو دونوں ہنس دیے وہ بولا ہلا آجائیں میں ویکھدا نا رہواں یہ کہ کر وہ نکل گیا نضرت اندر گئی اور پڑا ہوا گھاس اٹھا کر ڈالنے لگی نضرت گھاس ڈال کر نکلیاور کماد کی طرف چل دی اس کا دل بہت ہی بے قرار ہو رہا تھا پھدی اسکی پانی چھوڑ رہی تھی کچھ ہی دیر میں نضرت وہاں پہنچی جہاں پہلے دن آئے تھے تو شیدا قمیض اتار کر گھاس کاٹ رہا تھا ایک طرف شیدے نے گھاس زمین پر بکھیر رکھا تھا ابے کا ننگا جسم دیکھ کر نضرت مچل سی گئی شیدے نے بیٹی کو دیکھا تو بولا آگئی ہیں یہ کہ کر اس نے درانتی ایک طرف رکھی اور توں بہوں ایتھے میں تھوڑی خبر لئے لواں نضرت بولی ابا میں ہن ہی آئی آں کوئی وی نہیں توں وی بہو ایتھے یہ کہ کر نضرت نے ابے کا ہتھ پکڑ لیا ابا مسکرا کر قریب ہوا اور نضرت کو باہوں میں بھر کر جپھی میں دبوچ لیا نضرت کی سسکی نکلی اور وہ کراہ سی گئی پہلی بار مرد کی مضبوط باہوں کو کمر پر محسوس کرکے نضرت کے جذبات مچل گئے اور بے اختیار اس نے ابے کے ہونٹوں سے ہونٹ لگا کر سختی سے دبا کر چوسنے لگی جس سے نضرت مزے سے مچل سی گئی پہلے دن نضرت کے ساتھ ابے نے زبردستی کی تھی آج تو اس کی اپنی مرضی شامل تھی نضرت کو آج مزہ آرہا تھا دونوں باپ بیٹی دو منٹ تک ایک دوسرے کو چوستے رہے پچ کی آواز سے نضرت نے ابے کے ہونٹوں کو چھوڑا تو وہ ہانپ رہی تھی جس سے شیدا بھی مچل گیا اس کا کہنی جتنا لن تن کر کھڑا تھا جو نضرت کے چڈوں میں جانے کو بے قرار تھا نضرت گھومی اور پیچھے سے ابے کے ساتھ جڑ گئی ابے کا موٹا لمبا لن گانڈ پر محسوس کرکے نضرت مچل گئی ابا نضرت کے مموں کو اوپر سے پکڑ کر مسلنے لگا نضرت نے آج برا اتار رکھی تھی شیدے نے نضرت کے قمیض میں ہاتھ ڈالا اور اوپر کو کھینچی تو نضرت نے اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس سے نضرت کے موٹے تنے ہوئے ممے کھل کر سامنے آگئے جس پر اکڑے نپلز قیامت ڈھا رہے تھے شیدو اپنی بیٹی کا بھرا ہوا مضبوط جسم دیکھ کر مچل کر کراہ سا گیا اس نے بے اختیار اپنی بیٹی کے موٹے تنے ہوئے ممے ہاتھوں میں پکڑ کر دبا لیے نضرت کے ممے ہلکے سے ٹھوس تھے جس سے تن کر کھڑے تھے نضرت ابے کے کھردرے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے مچل کر کراہ سی گئی ابے نے نضرت کی گال کو چوم کر چوسا اور نضرت کے مموں کو دونوں ہاتھوں میں لے کر مسلتا ہوا دبانے لگا نضرت تو ابے کے مموں کو مسلنے کے انداز سے مچل کر کراہ گئی اس کا سینہ بے اختیار آگے کو نکلا اور وہ کراہ کر مچل کر بولی ااااہ اابببببااااااا مر گئی اور تیزی سے ابے کے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگی ابا نضرت کے ہونٹ چومتا ہوا ممے دبا کر مسلتا ہوا نضرت کے نپلز کو انگوٹھے میں دبا کر مسلنے لگا جس سے نضرت مزید مچل کر کراہنے لگی نضرت کا جسم کانپنے لگا اور وہ سسکنے لگی شیدے کا لن بھی اب تن کر لنگی اے نکل چکا تھا شیدے نے اپنی لنگی کھول دی اور اپنا لن مسل کر بولا نضرت اس نوں وی پھد اور اپنی بیٹی نضرت کا ہاتھ پکڑ کر خود ہی اپنے لن پر رکھ دیا جس سے نضرت گرم لن کو محسوس کرکے مچل کر کراہ سی گئی شیدو بھی بیٹی کا نرم ہاتھ لن پر محسوس کرکے مچل گیا نضرت ابے کو چومتی ہوئی ابے لن مسل کر مچل رہی تھی نضرت سے اب رہا نہیں گیا اس نے اپنی شلوار نیچے گھٹنوں تک کی اور مڑ کر ابے کے سینے سے لگ کر ابے کا لن اپنے چڈوں میں رکھ کر دبوچ لیا جس سے ابے کا لن سیدھا نضرت کی ننگی پھدی پر دب گیا جس سے نضرت کراہ کر سسک کر اپنے تنے ننگے ممے ابے کے سینے میں دبا کر جھٹ سے ابے کو جپھی میں بھر کر دبوچ کر ابے کو سینے سے دبا کر ابے کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوستی ہوئی سسک کر اپنے چڈے دبا کر ابے کے لن کو اپنی پھدی پر دبانے لگی نضرت کو بے قراری دیکھ کر شیدو بھی مچل گیا نضرت کی سانسیں اتنی تیز تھیں کہ شیدو نضرت کی ناک کی نتھلیوں کو تیزی سے کھلتا بند ہوتا دیکھ رہا تھا نضرت کی سانسوں کی شوکاٹ پُرسکون کماد کے کھیت میں گونج رہی تھی اور ننگی نضرت کماد کے کھیت میں اپنے سگے باپ سے لپٹی باپ کا لن پھدی پر لیے مسلتی ہوئی کرہا رہی تھی نضرت کی گھٹی سی کراہیں اسکے باپ کے منہ میں دبا رہی تھیں شیدو بھی بیٹی کے جسم کی گرمی سے بے قرار ہوکر ہلکے ہلکے جھٹکے مارتا ہوا لن اپنی بیٹی کی پھدی پر رگڑ رہا تھا لیکن نضرت کچھ زیادہ شہوت میں جل رہی تھی کہ وہ دو چار دھکوں پر ہی تڑپ کر کراہ گئی اور اسکی ہمت جواب دے گئی نضرت کی آگ باپ کے لن پر ساری بہ گئی نصرت کانپتی ہوئی کراہ کر ابے کے کاندھے پر سر رکھ کر جھٹکے کھاتہ ہانپ رہی تھی شیدو بیٹی کی پھدی سے پانی لن پر محسوس کرکے تڑپ سا گیا تھا اسے لگا کہ بیٹی کی پھدی کے اندر سے آگ کا لاوہ نکل کر بہ گیا ہو جس نے اس کا لن ایک بار تو جلا سا دیا وہ تڑپ کر پیچھے ہوا نیچے گھاس پر اس نے پہلے گھاس والی چادر بچھا رکھی تھی اس نے اپنی بیٹی نضرت کو اس پر لٹایا اور خود اوپر آگیا اپنی بیٹی کو چومتا ہوا بیٹی کے ننگے تن کر کھڑے مموں کو مسلنے لگا جس سے نضرت لیٹی باپ کے کھردرے ہاتھوں کا مزہ لیتی آنکھیں بند کیے سسکتی ہوئی مچل رہی تھی شیدو بیٹی کے مموں کے نپلز کو مسل کر رگڑتا جس سے نضرت کو درد بھرے مزے سے کراہ جاتی شیدو بیٹی کے تنے نپلز کو چوستا ہوا ان پر کاٹتا تو نضرت دیوانہ وار کراہ سی جاتی اور مچل کر کانپنے لگتی پانچ دس منٹ تک شیدو اچھی طرح بیٹی کے ساتھ کھیلتا رہا نضرت باپ کے ہاتھوں کے جادو سے پھر گرم ہو چکی تھی شیدو کا لن کافی دیر سے تنا ہوا تھا جو اسے اب درد کر رہا تھا نضرت باپ کا لن پہلے ہی مسل رہی تھی اس سے رہا نا گیا اس نے نضرت کے کان میں سرگوشی کی نضرت اتاں ہوکے لن نوں ٹھڈا کر نضرت یہ سن کر آنکھیں کھول کر ابے کو دیکھا تو ابا اسے دیکھ رہا تھا وہ اوپر ہوئی تو ابے کا تنا ہوا کہ ی جتنا لن دیکھ کر مچل گئی اس کے دل نے کہا ہالیوئے جے اے میرے اندر لگھ جاوے تے سواد آ جائے یہ سوچ کر نضرت کا جسم کانپ سا گیا اور مزے کی ایک لہر سی اٹھی کر پھدی میں اتر گئی اور وہ بے اختیار بولی ہال وے ابا کیڈا وڈا لن اے تیرا جس پر ابا مسکرایا اور بولا کی موڈ اے لئے لیسیں وہ مسکرائی اور سر کو ہلا کر مسکرا سی گئی ابا بولا ہلا پہلے اس نوں چم تے سہی نضرت یہ سن کر مچل سی گئی اور بے اختیار منہ نیچے کرکے ابے کے لن کو چوم لیا ابے کا گرم لن ہونٹوں پر محسوس کرکے مچل سی گئی شیدو بھی اپنی بیٹی کے نرم ہونٹوں کو لن پر محسوس کرکے مچل کر سسک گیا سسسسیییی۔۔۔ شیدو بولا سسسیسسییی پتری لن نوں منہ اچ لئے کے چوس نضرت جو لن کے قریب منہ کیے لن کو مسل رہی تھی بیٹی کے منہ سے نکلتا گرم سانس شیدو لن پر محسوس کرکے مچل رہا تھا اس کا لن بیٹی کا قرب پا کر جھٹکے مارنے لگا تھا شیدو کی ساری شہوت لن کے منہ کی طرف بڑھ رہی تھی نضرت ابے کے لن کو جھٹکے مارتی دیکھ رہی تھی ابے کی بات سن کر وہ پہلے تو رکی پر اس کے اندر خود اتنی گرمی اور شہوت تھی کہ وہ انکار نا کر سکی اور بے اختیار منہ کھولا اور ابے کے لن کو اپنے منہ میں بھر کر دبوچ لیا شیدو بیٹی کے گرم منہ کو لن پر محسوس کرکے تڑپ کر کراہیا اااااہہہہ اوئے اافففف ساتھ ہی نضرت بھی ابے کے لن کا نمکین ذائقہ اور گرمی محسوس کرکے مچل سی گئی اور کراہ کر تڑپ سی گئی اس نے بے اختیار ابے کے لن کو ہونٹوں میں دبا کر چوستے ہوئے اپنی زبان سے ابے کے لن کی چمڑہ کو رگڑا لن کی کھردری چمڑی زبان پر محسوس کرکے نضرت کی کراہ نکلی اور وہ لن چوستی ہوئی زبان سے لن کو چاٹتی ہوئی کھیلنے لگی شیدو بیٹی کی زبان کا لمس محسوس کرکے تڑپ کر کراہ سا گیا شہوت اس کے پہلے ہی لن کے منہ آئی تھی نضرت کی زبان اور منہ کی گرمی سے وہ تڑپ کر کراہ سا گیا اور بے اختیار پیچے لٹتا ہوا کراہ کر ایک لمبی منہ کی دھار بیٹی کے منہ میں مار کر فارغ ہونے لگا ابے کے لن کی موری سے نکلتی منی کی دھار سیدھی نضرت کے گلے میں لگی جس سے اس کا گلہ بھر گیا نضرت سمجھ گئی کہ ابا فارغ ہوگیا ہے اسی لمحے اسکے منہ سے منی کی دھار نکل کر بہ نکلی جس پر اس نے لن کو چھوڑا اور اوپر اٹھ سی گئی اور ابے کو کراہ کر فارغ ہوتا دیکھنے لگی اس نے سسک کر بے اختیار منہ میں گئی ابے کی منی کا گھونٹ بھر لیا پہلے تو اسے عجیب سا لگا لیکن اس نے دو تین بار منہ میں منی کا ذائقہ محسوس کرنے کی کوشش کی ہلکا سا نمکین ذائقہ محسوس کرکے اسے کراہت تو نہیں ہوئی لیکن اچھا ضرور لگا شاید وہ ایک بار پھر شہوت میں ڈوبی ہوئی تھی ابے کے لن کی منی دھاریں مار کر نکل رہی تھی نضرت بیٹھ کر ابے کو فارغ ہوتا دیکھنے لگی ابے کا لن مرجا سا گیا مرجھاتے دیکھ کر اس کو اپنی شہوت یاد آئی تو وہ تھوڑی مایوس ہوئی کہ ابا تو فارغ ہوگیا جبکہ وہ ابھی تک ایسے ہی تھی ایک بار فارغ تو ہو چکی تھی پر یہ اسکے لیے ناکافی تھا وہ ابے کے پاس لیٹ کر بولی ابا تو تے فارغ ہوگیا میرا ہلے دل نہیں بھریا ابا اوپر ہوا اور چادر سے پیٹ پر لگی منہ صاف کی اور بیٹی کو باہوں میں بھر کر بولا تیرا دل اے اندر لینڑا ہئی نضرت نے ابے کی آنکھوں میں دیکھا اور بولی ابا اتنا کجھ تے ہوگیا اے ہور کی رہندا اے شیدو بولا پتری توں ہلے کواری ہیں تے اے کماد اچ نہیں ٹھیک تیری آواز نکلتی تے کوئی سن لیسی نضرت بولی ابا آگ لا کے ہنڑ بجھانی وی توں اے ہنڑ میرے کولو نہیں رہیا جاناشیدو نے مسکرا کر نضرت کو باہوں میں بھر لیا نضرت نے بے قراری سے ابے کو باہوں میں دبوچ کر ابے کے ساتھ لیٹ کر چومنے لگی دونوں ایک دوسرے کو چومنے لگے نضرت ابے کا لن مسلنے لگی شیدو بولا پتری نا کر اے جاگ جاسی دونوں سرگوشی میں باتیں کر رہے تھے نضرت بولی ابا جگاؤ ہی آں شیدو بولا نضرت اے جاگ گیا تے تینوں تنگ کرسی رات دا انتظار کر راتی کجھ کردا آں نضرت بولی ابا انتظار نہیں ہوندا ہن ہی کر وہ بولا ویکھ ہنڑ نہیں ہونا نضرت چڑ کر کیوں ابا ہنڑ مینوں گرمی تنگ پئی کردی اے شیدو بولا تے مڑ مینوں دسیں ہا پہلے کہ میں کوئی انتظام کر لیندا وہ بولی کہڑا انتظام شیدو بولا میں ساتھی لئے اندا تاکہ اندر نا چھٹدا نضرت بولی ابا او کی ہوندا وہ بولا لن تے چاڑی دا اے کہ مال اندر نا ڈھوے تے بال نا بنے نضرت مسکرا کر بولی ابا کجھ نہیں ہوندا توں بال بنا دے شیدو لگا کہ مذاق کر رہی اے وہ بولا کوہڑیے انج نہیں ہوندا نضرت بولی کیوں ابا کیوں نہیں ہوندا وہ بولا نضرت تینوں پتہ تے ہے کنواری چھویر حاملہ ہو جائے تے کی ہوندا لوگ کی اکھسن نضرت بولی ابا تے توں کر لئے ناں میرے نال شادی شیدو بولا میں کیوں کر سگدا وہ ابے کے اوپر ہوکر بولی کیوں اتنا کجھ کر لیا ہئی تے شادی نہیوں کر سگدا شیدو مسکرایا اور بولا کیوں کہ توں توں میری دھی ہیں دھیاں نال شادی نہیں ہوندی نضرت بولی ابا شادی تے لوگاں نوں وکھانڑ کانڑ ہوندی ہنڑ تیری میری کہڑی شادی ہوئی ہوئی بس ہنڑ میرے اندر کردے اے گھوڑا نضرت باتیں کرتی ہوئی ابے کے لن کو مسل رہی تھی جس سے شیدو بھی بیٹی کی باتوں اور ہاتھ کے لمس سے گرم ہوچکا تھا اس کا دل بھی کر رہا تھا کہ بیٹی کی آگ بجھانے چاہئیے اس نے کہا چل ٹھیک ہے پتری پر کسے کول ذکر نا کریں تے میں تینوں گولی لیا دیساں لئے لویں وہ بولی ہلا اور شیدو بیٹی کو چومتا ہوا اوپر آیا اور نضرت کی پہلے گھٹنے تک آئی شلوار کو پکڑ کر اتار دیا جس سے پانی بیٹی نضرت کی پانی چھوڑتی گوری ہلکے سے کھلے ہونٹوں والی پھدی دیکھ کر شیدو مچل گیا نضرت باپ کے سامنے ٹانگیں پھیلائے پڑی مچل سی گئی شیدو بیٹی کی پھدی کو دیکھ کر مچلا اور بے اختیار نیچے ہوکر بیٹی کی پھدی کے دانے کو چومنے لگا نضرت ابے کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے کے مچل سی گئی اپنی پھدی پر ابے کے منہ کی داڑھی اور مونچھیں محسوس کرکے وہ مچھلی کی طرح تڑپ کر سسکارنے لگی شیدو اوپر ہوا اور بیٹی کی ٹانگیں کھول کر پیچھے کندھوں تک دبا کر اوپر آگیا جس سے نضرت کی ٹانگیں کھل سی گئی نضرت زندگی میں پہلی بار اس پوزیشن میں آئی تھی اور وہ بھی سگے باپ کے سامنے جس سے نضرت تڑپ کر کراہ سی گئی ابے کا لن اسکی پھدی سے ٹکرایا تو اس کی سسکیاں نکل گئی ابے نے نضرت کہ ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر دوہرا لیا اور لن کو اپنی بیٹی کی پھدی پر مسلا جو پانی بہنے سے پہلے ہی گیلی تھی ابے کے لن کا لمس محسوس کرکے نضرت بے اختیار کرلیا کر تڑپی زندگی میں پہلی بار اس کی پھدی نے لن کا لمس پایا تھا اور وہ بھی سگے باپ کا جس سے نضرت کا جسم بے اختیار کانپ گیا اور گلے سے ایک مزیدار غراہٹ نکلی شیدا سمجھ گیا کہ نضرت کی پہلی بار ہے یہ برداشت نہیں کر پائے گی شیدو نے لن کو بیٹی کی پھدی کے دہانے پر سیٹ کیا تو نضرت نے بے قراری سے ادھر ادھر سر مارا اور بے اختیار اسکے سینے سے ارڑاٹ سی نکلی یہ وہ بے چینی اور انتظار کی آخری ہچکی تھی جو اس پل کےلیے نضرت برسوں سے اندر لیے نکلی تھی شیدو نے بیٹی کے سر کو پکڑا اور ہونٹوں کو دبا کر چوس تے ہوئے گانڈ کھینچ کر کس کر دھکا مارا جس سے باپ شیدو کا لن بیٹی نضرت کی پھدی کو کھولتا ہوا آدھا اندر تک اتر گیا نضرت کی پھدی جو شہوت اور گرمی سے آٹا ہوئی پڑی تھی لن کو بغیر کسی رکاوٹ کے اندر کھینچ لائی جیسے ہی ابے کا لن نضرت کی پھدی کو کھولتا ہوا اندر آیا ساتھ ہی نضرت کا جسم زور سے دھڑکا اور ساتھ ہی نضرت کے سینے سے ایک لمبی ارڑاٹ نکلی جسے شیدو نے اپنے ہونٹوں میں دبا لیا نضرت کی مزے سے بھرپور ارڑاٹ کماد کے کھیت میں دب کر رہ گئی اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا جیسے اسکی جان نکل رہی ہو شیدو ایک لمحے کےلیے ٹھہرا اور پھر گانڈ کھینچ کر کس کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن پورا اپنی بیٹی نضرت کی پھدی میں اتار کر رکھ دیا نضرت ابے کا لن پورا جڑ تک اندر کھینچ لائی بے اختیار کمر اٹھا کر چلا سی گئی اس کی ارڑاٹ کے ساتھ ہلکی سی چیخ کماد میں گونجی نضرت کے منہ پر شیدو نے پھرتی سے ہتھ رکھ دیا نضرت نے اکھیں کھول کر دیکھا اسے بھی اندازہ ہوگیا اور اپنی آواز دبا کر ہانپنے لگی نضرت کو درد سے زیادہ مزے نے بے قابو کیا تھا زندگی میں پہلی بار وہ لن لیے پٹی تھی اور بیچ کماد میں جہاں وہ گھاس کاٹنے آئی تھی اور سگے باپ سے چدوا رہی تھی وہ دو چار منٹ رہے اور ایک دوسرے کو چوسنے لگے۔ وہ بے فکر تو تھے کہ اس طرف کسی نے کم ہی آنا تھا وہ کماد میں کافی آگے تھے جہاں تک کسی کی سوچ بھی نہیں آتی تھی شیدو کا لن بیٹی کی پھدی میں جڑ تک اترا تھا اور اندر تندور جلا تھا جو اسے جلا رہا تھا وہ اپنی بیٹی کی پھدی کے اندر لن زیادہ دیر نا رکھ پایا دو چار منٹ بعد شیدو کا لن جلنے لگا تو اس نے لن کھینچ لیا نضرت ابے کے لن کی رگڑ پھدی کے ہو توں پر محسوس کرکے مچل کر کراہ سی گئی ابا نضرت کے ہونٹ چومتا ہوا اب مسلسل آگے پیچے ہوکر لن اپنی بیٹی نضرت کی پھدی کے آر پار کرتا اپنی بیٹی نضرت کو چودنے لگا نضرت کو ہلکا ہلکا درد پر مزہ بھی آرہا تھا کیوں کہ وہ ابھی کنواری تھی پر عمر کے ساتھ اسمیں برداشت زیادہ تھا اس لیے وہ ابے کے لن کی چدائی کا مزہ لیتی ابے کا ساتھ دے رہی تھی ابے کا لن جوں جوں اندر باہر ہوتا نضرت کی پھدی کے ہونٹ ابے کے لن کو دبوچ رہے تھے ابے کے لن کی کھردری چمڑی نضرت کی پھدی کو رگڑ کر مسل کر جلا رہی تھی نضرت کے اندر آگ اتنی تھی کہ اسے اس پر بھی مزہ آرہا تھا ابے کی ہمت بھی جواب دینے والی تھی ساتھ ہی نضرت کی بھی کراہ نکلی اور برسوں سے اس کے اندر رکا انتظار اور پیاس پانی بن کو زور کی دھاریں مارتا ابے کے لن پر زور سے بجنے لگا جس سے شیدو بھی بیٹی کی پھدی کی آگ میں بہ گیا دونوں باپ بیٹی تڑپ کر کراہیں بھرتے فارغ ہوگئےنضرت کی پھدی ابے کا لن دبا کر اپنے اندر نچوڑ گئی دونوں ایک دوسرے پر پڑے ہانپنے لگے کچھ دیر تو دونوں پڑے رہے شیدو اوپر ہوا اور لن کھینچ۔ لیا تو نضرت کراہ کر تڑپ سی گئی اسے پہلی بار درد محسوس ہوا اس نے اوپر ہوکر دیکھا تو ابے کا لن بھی ہلکا سا لال تھا اور نیچے بھی خون کے تھوڑے قطرے تھے جسے دیکھ کر دونوں مسکرا دیے وہ پیچھے کو لیٹ کر گھٹنے اوپر کر لیے اس کی پھدی سے ہلکا سا خون اور ابے کی منی ملی جلی بہ رہی تھی وہ لیٹ گئی اسے پہلے تو مزہ آیا جس میں درد چھپ گیا پر اب نضرت کو ہلکا ہلکا درد ہونے لگا شیدو سمجھ گیا وہ بولا نضرت گرم گرم گھر چلی جا تے جا کے پیڑ الی گولی لئے۔ماں نوں اکھیں دن آگئے ہینڑ ایتھے ناں پئو تے جا کے نضرت کچھ دیر لیٹی رہی پھر وہ اٹھی اور کپڑے پہن کر گھر جانے لگی ابے سے چدائی کرکے اسکی گرمی کچھ کم تو ہوئی تھی اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا تو اس نے سوچا جو ہونا تھا ہو گیا اب اس کے بارے کیا سوچنا اسے کمر میں درد بھی ہونے لگا اب اسکا دھیان درد کی طرف تھا اسکی پھدی کے ہونٹ جل رہے ابے کا کہنی جتنا لن اسکی پھدی برداشت کرگئی تھی پر اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ ابے کا لن اندر گیا ہے وہ گھر گئی اس نے درد والی گولی لی اور ماں کو دنوں کو بتا کر لیٹ گئی
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top